• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آہ مولانا عبد الوہاب خلجی رحمہ اللہ

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
آہ مولانا عبد الوہاب خلجی رحمہ اللہ

تحریر.... شیخ عبدالمعید مدني حفظہ اللہ (علی گڑھ)

مولانا عبد الوہاب خلجی صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے۔کل تک وہ اپنے وجود کے اثرات اچھے خاصے حلقے میں بکھیرے ہوئے تھے۔آج وہ داربرزخ کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔
اس بے وفا دنیا میں کون کسی کا ہوتا ہے۔آج ان کی اولاد جس کرب سے گزر رہی ہے۔ اسکو وہی جانتی ہے۔وہ جمعیت کے لمبی مدت تک قائد تھے ۔ملت اسلامیہ کے ہر حلقے میں وہ متعارف تھے مگر بیماری سے لے کر وفات تک جس طرح جسطرح وہ لوگوں کی بے اعتنائی کے شکار رہے، دکھ کی بات ہے ۔
آج کے نفاق، کبر، فسق وفجور اورحرام خوری کے دور میں اعتنائی اور بے اعتنائی بے معنی چیز ہے ۔مگر جن کے ساتھ کئی دہائیوں کی عملی مرافقت ہو ان سے خوشی وغم میں شرکت کی خواہش ہوتی ہے۔
قبرستان سب سے بڑا واعظ ہے۔جس کو اس سے وعظ نہ مل سکے اس کو کسی دوسرے سے نصیحت نہیں مل سگتی ۔
عبرت کی بات یہ تھی کہ آخری منزل تک ساتھ وہی تھے جن سے تنظیمی مت بھید اور اختلاف تھا ۔یہ دیکھ کر دل بھر آیا کہ جماعتی رشتہ جب آخری منزل تک قائم رہ سکتا ہے تو کیوں نہ اس کو اچھے ڈھنگ سے استوار کیا جائے۔اس سلسلے میں موجودہ ذمہ دار تنظیم سے گذارش بھی کی گئی۔
اس غمناک سانحے پر خلجی صاحب کے گھر والے مواسات اور ہمدردی کے سخت مستحق ہیں۔
خلجی صاحب نے بھر پور زندگی گزاری ۔تین دھے تک وہ ملک اور بیرون ملک رواں دواں تھے۔انھوں نے ملکی وعالمی سطح پرجماعت وملت کی نمائندگی کی. جماعت و ملت کے مسائل میں کافی حساس تھے۔جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کے مخصوص رویوں کے برعکس ملی مسائل میں انکا موقف غیر جانبدارانہ ہوتا تھا۔یہ ان کا ایسا وصف تھا جس میں انکا کوئی ثانی نہ تھا۔
ہندستان میں ہر اس اسٹیج کو انھوں نے رونق بخشی جس سے دین وملت کی آبیاری ہو سکے ۔جس اسٹیج پر وہ گئے موثر ثابت ہوئے حالانکہ اسٹیجوں کے آقا بن بیٹھنے والے کبھی دوسروں کو مؤثر بننے نہیں دیتے۔
خلجی صاحب نے مدرسہ سبل السلام دلی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔مولانا عبدالصمد رحمانی شاگرد سلطان العلماء مولانا نذیر احمد رحمانی رحمھم اللہ نے انکے اوپر زبردست چھاپ چھوڑی۔یہ حقیقت ہے کہ ان سے جس نے بھی تعلیم حاصل کی ان سے مسلک اور جماعت کے متعلق خاص طور پر متاثر ہو ا۔
دوسرے مرحلے میں انھوں نے جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلہ لیا ۔وہیں سے وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی شاخ دارالحدیث میں داخلہ پا گئے اور بی اے تک کی تعلیم جامعہ میں مکمل کی۔مدینہ منورہ میں تعلیمی نسبت سے انکوکم وبیش دس سال سے زیادہ رہنے کا موقع ملا۔اس دوران انکو علماء و مشائخ سے ملنے جلنے اور تعلقات استوار کرنے کے زیادہ مواقع میسر آئے۔
انھوں نے وہاں اداروں کو کام کرتے اور منظم ڈھنگ سے چلتے دیکھا۔ہندستان لوٹ کر آئے تو جمعیت کو اچھے نہج پر منظم کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے تنظیمی ڈھانچے کو از سر نواستوارکیا۔ان سے پہلے جمعیت ایک اکائی تھی۔انھوں نے مختلف شعبے بنائے۔کل ھند پیمانے پر اسے منظم کیا۔دستور تیار کیا۔جمعیت کے یحیی ڈھرے کو جوڑا۔ترجمان کو ہفت روزہ بنایا۔مکتبہ ترجمان کو فعال اور متحرک بنایا۔ویلفیئر کا کام بھی جمعیت کے اسٹیج سے،جمعیت کےایک شعبہ کے تحت انھوں نے شروع کیا۔دیگر جمعیات کے ساتھ بھر پور تعامل اور تعاون کی ابتدا انھوں نے کی۔
ان کا المیہ یہ تھا کہ ان کو محنتی کار کن اور سمجھ دار ساتھی نہیں ملے۔اوپر سے انکے ہاتھ کھلے نہیں تھے ۔بزرگوں کی قید وبندش تھی۔ انسان کی خود اپنی طبعی افتاد ہوتی ہے۔اپنے میلانات ورجحانات ہوتےہیں جن سے وہ دست بردار نہیں ہو سکتا۔ یہ سارے روا ناروا وجوہ ہوتےہیں جو انسان کی کامیابی ناکامی کا سبب ہوتےہیں۔ تنظیم کے تعطل انتشار اور عدم دستوریت کے تسلسل کو توڑا اور اسے نئی راہ دکھانے کی بھرپور کوشش کی۔کامیابی ناکامی صرف انکی ذات سے وابستہ نہیں تھی۔پوری جماعت اگر شعور اور عمل کا ثبوت دیتی تو کامیابی ضرور حاصل ہوتی۔
ایک اہم بات،کانفرنسوں کا مختلف سطحوں پر سلسلہ بھی ان کے ہی دور میں منظم ڈھنگ سے شروع ہوا۔
آج جب میں ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچتا ہوں تو مجھے صاف نظر آتا ہے کہ وہ ایک مظلوم شخص تھے۔انھوں نے اہلحدیث کمپلکس کا بہترین پروجیکٹ اور نقشہ تیار کیا تھا اور اس کو رو بعمل لانے کی خاص جہت سے منظوری بھی مل گئی تھی لیکن تخریب پسندی نے اس کو رکوا دیا ۔خلجی صاحب یہ سارا داغ دل پر لے کر گئے۔
خلجی صاحب کا دور نظامت بسا غنیمت تھا ۔اس دور میں جمعیت سے شرفاء جڑے تھے ۔جمعیت کو ایک وقار حاصل تھا۔انتشار و خلفشار سے دوچار نہ تھی۔
خلجی صاحب کا ذہنی شاکلہ جمعیت کو چلانے کا تھا۔اسکے لئے ان کے اندر یکسوئی تھی انہماک تھا۔لیکن مختلف آقائیتوں اور استحصالیتوں نے انکو بے بس کردیا۔
تنظیم کی قیادت سے الگ ہو نے کے بعد جیسے انکے لئے کوئی ایجنڈا رہ ہی نہیں گیا تھا۔تنظیم کے سلسلے میں ان کے اندر اتنا شدید انہماک تھا کہ وہ خود کو اس سے جدا ہو نا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔یہ ان کے لئے ایک سانحہ بن گیا۔اور پھر بعد کے انحطاط وبکھراؤ نے بھی ان کو درد دیا۔
انھوں نے نوکری کے بجائے تجارت کو اپنی معیشت بنایا تھا مکتبہ الدار العلمیہ انکا علمی تجارتی مکتبہ تھا۔انھوں نے چھوٹی بڑی کئی درجن کتابیں شائع کیں۔انھوں نے سالوں ڈائری شائع کی۔ مکتبہ کامیاب جارہا تھا لیکن ملی کاموں میں انہماک نے کماحقہ اس کی طرف توجہ دینے سے باز رکھا نیز رابطہ عالم اسلامی میں دو ایک بڑی پے منٹ رک گئی۔اور مکہ میں کتابوں کے جس خزان میں انکی کتابوں اسٹور ہوتی تھیں وہ تلف ہو گیا اور انکی کتابوں کا سارا اثاثہ ضائع ہو گیا اس طرح الدار العلمیہ کلی طور پر فیل ہو گیا۔
اسکی وجہ سے خلجی صاحب کو کافی ہارڈ شپ بھی جھیلنی پڑی۔ لیکن مجال ہے کسی کے سامنے اف بھی کیا ہو۔
خلجی صاحب ایک سیر چشم اور حوصلے والے انسان تھے۔انھوں نے پریشان کن حالات میں بھی بڑکپن اور معیار کو نہیں چھوڑا۔
وہ خوئے وفا رکھتے تھے۔تعلق بناتے تھے اور اس کو نبھانا جانتے تھے۔ایسے بھی واقعات ہیں
کہ جیب خالی ہے پھر بھی رسم وفا نبھائی ہے۔
انسان قطرے سے پیدا ہوا انسانی سمندر میں قطرہ ہی رہتا ہے ۔اسکے لئے بہتر ہے کہ قطرۂ خالص رہے۔گہر ہونے تک اس پے کیا کیا بیت جاتی ہے بڑی غمناک انسانی داستان ہے۔
آج کے دور نفاق و فتن میں انسان اپنوں کی چھری سے روز ذبح ہوتا ہے۔اور چلانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ہے۔والعیاذ باللہ۔
سچائی اور کردارکا ستھرا پن وقت کا سب سے بڑا امتحان ہے۔اور عموما اس امتحان میں سب فیل ہو جاتے ہیں۔
اللہ ان کی لغزشوں کو در گذر کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے. آمین
 
Top