• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

أحمد بن محمد = أحمد بن الصلت = أحمد بن عطية = أحمد بن المغلس

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
سند میں موجود أَحمد بن محمد بن مغلس یہ أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن الصلت بْن المغلس بْن أخي جبارة بْن المغلس الحماني ہے۔

یہ أَبو غسان کا شاگرہے چنانچہ خطیب بغدادی نے کہا:
أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن الصلت بْن المغلس بْن أخي جبارة بْن المغلس الحماني يكنى أبا العباس حدث عَن ثابت بْن مُحَمَّد الزاهد، وأبي نعيم الفضل بْن دكين، وأبي غسان النهدي [تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 6/ 175]۔

واضح رہے کہ مذکورہ روایت میں بھی یہ أَبو غسان کا شاگردہے۔

اسی طرح یہ مكرم بْن أَحْمد کا استاذ ہے ، چنانچہ خطیب بغدادی نے کہا:
أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن الصلت بْن المغلس بْن أخي جبارة بْن المغلس الحمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روى عنه أَبُو عمرو ابْن السماك، و۔۔۔ وأبو الفتح مُحَمَّد بْن الحسين الأزدي، ومكرم بْن أَحْمَد القاضي۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 6/ 175]۔

واضح رہے کہ مذکورہ روایت میں بھی یہ مكرم بْن أَحْمَد کا استاذہی ہے ۔
اورآگے مکرم بن احمد اوراس کے اس استاذ سے متعلق امام دارقطنی کا جو قول ہے اسے بھی پیش نظر رکھیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سند میں موجود سند میں موجود أَحمد بن محمد بن مغلس یہ أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن الصلت بْن المغلس بْن أخي جبارة بْن المغلس الحماني ہے۔

اوریہ کذاب ووضاع راوی ہے ۔
چنانچہ :

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
احمد بن محمد بن الصلت أبو العباس من أهل بغداد يروي عن العراقيين كان يضع الحديث عليهم كان في أيامنا ببغداد باق فراودني أصحابنا على أن أذهب إليه فأخذت جزءا لأسمع منه بعضها فرأيته حدث عن يحيى بن سليمان بن نضلة عن مالك بن أنس عن نافع عن بن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مرددانق من حرام أفضل عند الله عز وجل من سبعين حجة مبرورة ورأيته حدث عن هناد بن السري عن أبي أسامة عن عبيد الله بن عمر عن نافع عن بن عمر قال قال رسول الله عليه السلام لمرددانق من حرام أفضل عند الله من مائة ألف تنفق في سبيل الله فعلمت أنه يضع الحديث فلم أذهب إليه ورأيته يروي عن أبي عبيد وإسماعيل بن أبي أويس وعن مسدد وما حسبه راهم[المجروحين لابن حبان: 1/ 153]۔

خلاصہ: یہ راوی عراقیوں سے روایت کرتا ہے۔ اور ان پر حدیثیں گھڑتا ہے۔ میرے ساتھیوں نے چاہا کہ میں ابن المغلس کی مجلس درس میں شرکت کروں۔ میں نے اس کی ایک کتاب لے کر سرسری جائزہ لینا چاہا۔ اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ وہ حدیث وضع کرتا ہے۔ اور ایک ایسی جماعت سے روایت کرتا ہے جس کے افراد میں سے اس نے کسی کو نہیں دیکھا۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حدث عن۔۔۔ أحاديث أكثرها باطلة هو وضعها[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 5/ 338]۔

یعنی: اس کی اکثر احادیث باطل ہوتی ہیں اور وہ انہیں خود وضع کرتا ہے۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
وما رأيت في الكذابين أقل حياء منه[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 328]۔

یعنی: جھوٹے لوگوں میں سے اس سے زیادہ بے حیاء قسم کا جھوٹا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
رأيته في سنة سبع وتسعين ومئتين يحدث عن ثابت الزاهد، وعبد الصمد بن النعمان وغيرهما من قدماء الشيوخ قوما قد ماتوا قبل أن يولد بدهر.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 327]۔

یعنی: میں نے اسے 297ھ میں ثابت الزاہد، اور عبد الصمد بن النعمان وغیرہ جیسے قدیم شیوخ سے روایت کرتے دیکھا تھا حالانکہ وہ اس کی ولادت سے پہلے ہی مر چکے تھے۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
أحمد بن الصلت بن المغلس الحماني متروك يضع الحديث [سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 95]

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
أَحْمد بن مُحَمَّد بن الصَّلْت أَبُو الْعَبَّاس الْحمانِي يروي عَن بن أبي أويس والقعنبي وَعَن شُيُوخ لم يلقهم بالمشاهير والمناكير لَا شَيْء مَاتَ بعد الثلاثمائة[الضعفاء لأبي نعيم: ص: 65]۔

یعنی: یہ راوی ابن ابی اویس، القعنبی اور ان شیوخ سے مشہور اور منکر روایتیں روایت کرتا تھا جن سے اس کی ملاقات ہی نہیں تھی۔ وہ کچھ چیز نہیں ہے۔ اس کی وفات 300ھ کے بعد ہوئی۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
هَذَا يَضَعُ الْحَدِيثَ عَلَى الثِّقَاتِ.[تذكرة الحفاظ لابن القيسراني: ص: 288]۔

یعنی: یہ راوی ثقۃ لوگوں پر حدیثیں گھڑتا تھا۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
كذاب وضاع فلذا يدلسه بعضهم فيقول: حدثنا أحمد بن عطية.وبعضهم أحمد بن الصلت. [ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 140]۔

امام برهان الدين الحلبي رحمه الله (المتوفى841)نے کہا:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحماني كذاب وضاع [الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث للحلبي ص: 53]۔

امام ابن العراق الكناني رحمه الله (المتوفى:963)نے کہا:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحمانى وضاع[تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 33]۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ابوحنیفہ سے متعلق راوی مذکور کی کذب بیانی


راوی مذکور عام طور سے درج ذیل ناموں سے سندوں میں آتاہے :

أحمد بن محمد = أحمد بن الصلت = أحمد بن عطية = أحمد بن المغلس​


یہ راوی کذاب و وضاع تو ہے ہی لیکن بالخصوص ابوحنیفہ کی منقبت میں جھوٹ بیانی اوردروغ گوئی میں اسے کمال حاصل تھا ، اورلطف تو یہ کہ جن محدثین نے واضح طور پرابوحنیفہ پر شدید جرح کی انہیں محدثین کے حوالہ سے یہ خبیث ابوحنیفہ کی منقبت بیان کرتا تھا ۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
وهكذا روى الحميدي عن ابن عيينة، ولسفيان بن عيينة في أبي حنيفة كلام غير هذا كثير يشبهه في المعنى، قد ذكرناه في أخبار أبي حنيفة، ولو كان ابن عيينة أعظم أبا حنيفة ذاك الإعظام وجعله رابع أئمة علماء الإسلام لم يقدم عليه بالقول الشنيع هذا الإقدام، فبان بما ذكرناه أن أحمد ابن المغلس زاد فيما روى واختلق ما حكى، ونسأل الله العصمة من الزلل، والتوفيق لصالح القول والعمل.[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 5/ 338] ۔

اس خبیث نے صرف ایک دوجھوٹ پربس نہیں کیا بلکہ ابوحنیفہ کی جھوٹی منقبت میں پوری کتاب تیار کردی ، جس کا ایک قلمی نسخہ بقول محمدعزیر شمس حفظہ اللہ دارالکتب المصریہ میں موجود ہے (مقدمہ اللمحات : ص :٢١) ، یہ پوری کتاب جھوٹ کا پلندہ ہے جسے خود اسی خبیث نے گھڑا ہے ، جیساکہ امام دارقطی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے چنانچہ:

ابوالقاسم الازھری(المتوفى 435 ) فرماتے ہیں:
سئل أبو الحسن علي بن عمر الدارقطني، وأنا أسمع عن جمع مكرم بن أحمد فضائل أبي حنيفة، فقال: موضوع كله كذب، وضعه أحمد بن المغلس الحماني[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 5/ 338 واسنادہ صحیح]۔


امام صمیری (المتوفى: 436 ) کی کتاب ’’أخبار أبي حنيفة وأصحابه ‘‘ بھی اسی کذاب و وضاع کی کرم فرمائی ہے ، چنانچہ اس کتاب کا اکثر حصہ اسی خبیث کی سند سے مروی ہے ۔
اورزیرتحقیق روایت بھی امام صمیری نے بیان کی ہے جس کی سند میں یہ کذاب وضاع روای موجود ہے۔

اسی طرح مناقب أبي حنيفة للموفق المكي میں بیشتر روایات اسی کے طریق سے ہیں جنہیں اسی بدبخت نے گھڑا ہے۔

خلاصہ کلام:
الغرض یہ کہ یہ روایت جھوٹی ہے ، ابن المغلس نے محدث اسرائیل پرجھوٹ بولا ہے ۔
مزید یہ کہ اس قول میں ابوحنیفہ کی جو خوبی بیان کی گئی ہے وہ خلاف واقعہ ہے جیساکہ محدثین سے بتواتر منقول ہے۔
 
Top