• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ* القرآن

شمولیت
ستمبر 04، 2017
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
33
آزمائش سے کسی مومن کوبھی مفر نہیں۔

اسے اس جہاں میں طرح طرح کی مصائب اور پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتاہے۔ قسم قسم کے ہموم وغموم اس پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔
اور یہ تمام مصائب وآلام بیماری اور تکالیف سب کچھ منجانب اللہ ہیں اس پر ایمان ویقین رکھنا ایک مومن کے عقیدے کا حصہ ہے کیوں کہ اچھی اور بری تقدیر کا مالک ومختارصر ف اللہ کی ذات ہے ۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سےجنہیں چاہتا ہےانہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ اطاعت پرمضبوط ہوکر نیکی کے کاموں میں جلدی کریں

اور جوآزمائش انہیں پہنچی ہے ۔اس پر وہ صبر کریںتاکہ انہیں بغیر حساب اجروثواب دیا جائے ۔
اور یقیناً اللہ کی سنت کا بھی یہی تقاضا ہےکہ وہ اپنے نیک بندوں کوآزماتا رہے تاکہ وہ ناپاک کوپاک سے نیک کو بد سے اور سچے کوجھوٹے سے جدا کردے ۔
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے :
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (سورۃ العنکبوت )
ترجمہ :
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اگر انہوں نے ''ہم ایمان لائے'' کہہ دیا ہے تو انھیں چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔

تشریح :
یعنی یہ گمان کہ صرف زبان سے ایمان لانے کے بعد، بغیر امتحان لئے، انھیں دیا جائے گا، صحیح نہیں۔ بلکہ انھیں جان و مال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعہ سے جانچا پرکھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا اور مومن و منافق کا پتہ چل جائے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تفسیر اشرف الحواشی میں ہے :
یعنی ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ آزمائش ضرور ہوگی تاکہ منافق کو مخلص سے اور سچے کو جھوٹے سے ممیزکر دیا جائے۔ متعدد روایات میں ہے کہ مکہ میں جب مسلمان سخت ابتلا میں تھے اور ان پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے تھے تو انہوں نے تنگ آ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں تمہیں جو تکلیفیں اذیتیں پہنچ رہی ہیں وہ بے شک سخت ہی مگر پہلے لوگوں کو تو یہاں تک تکالیف سے دوچار ہونا پڑا کہ ایک آدمی زمین میں گاڑ کر کھڑا کردیا جاتا اور پھر اس کے سر پر آرہ چلا کر چیر دیا جاتا مگر وہ اپنے دین سے نہ پھرتا۔ الخ نیز دیکھئے بقرہ :214۔ (قرطبی)


اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ڈاکٹر لقمان سلفی لکھتے ہیں :
ہجرت حبشہ سے پہلے مکہ مکرمہ میں مسلمان بہت سخت حالات سے گزر رہے تھے کہ کفار مکہ نے ان کی زندگی دوبھر کر رکھی تھی اور انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق مصیبتوں کی تاب نہ لاکر کبھی گھبرا جاتے اور آپس میں باتیں کرتے کہ اللہ ہماری مدد کب کرے گا ان مصیبتوں کا دور کب ختم ہوگا۔ امام بخاری نے خباب بن الارت سے روایت کیا ہے کہ پریشانوں کی تاب نہ لاکر ایک بار وہ یہی سوال رسول اللہ سے کربیٹھے جب آپ خانہ کعبہ کی دیوار کے سائے میں ٹیک لگائے تشریف فرماتے تھے تو آپ نے ان سے کہا کہ تم سے پہلے دوسری امتوں کے مومنوں کو اس سے زیادہ تکلیفیں دی گئیں انہیں آرے سے چیرا گیا لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت اتار لیے گئے لیکن وہ اپنے دین سے نہیں پھرے پھر آپ نے قسم کھاکر فرمایا، دین اسلام ہی غالب ہوکررہے گا یہاں تک کہ ایک مسافر صنعا سے حضرت موت جائے گا اور اللہ کے سوا اسے کسی کا خوف نہیں ہوگا لیکن تم لوگ جلدی کررہے ہو، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں مکہ انہیں مسلمانوں سے کہا ہے کہ اگر تم مسلمان ہو تو تمہاری آزمائش ہوگی اور تمہیں صبر وثبات کے ساتھ ان سے گذر کر اپنی قوت ایمانی کا ثبوت دینا ہوگا اللہ کا ہمیشہ سے اپنے مومن بندوں کے ساتھ یہی دستور رہا ہے کہ انہیں آزماتا ہے تاکہ عملی طور پر ثابت ہوجائے کہ ان میں کون صادق الایمان اور کون جھوٹا اور منافق ہے،

اس معنی ومفہوم کی قرآن کریم میں متعدد آیتیں آئی ہیں، سورۃ آل عمران آیت ١٤٢ میں آیا ہے (ام حسبتم ان تدخلوالجنۃ ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم ویعلم الصابرین) کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤگے حالانکہ اب تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا اور جنہوں نے صبر سے کام لیا،

اور سورۃ البقرہ آیت ٢١٤ میں آیا ہے (ام حسبتم ان تدخلوا۔۔۔ تا۔۔۔۔ قریب) کیا تم سمجھتے ہو کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ تم پر وہ حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے والے لوگوں کو پیش آئے انہیں سختیاں اور تکلیفیں لاحق ہوئیں اور اس طرح جھنجوڑ دیے گئے کہ اللہ کے رسول اور مومنین پکار اٹھے، کہ اللہ کی مدد کب آئے گی آگاہ رہو کہ اللہ کی مدد قریب ہے ۔
(تفسیر تیسیر الرحمن )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
٭مومنوں کی آزمائش ۔٭

----------------
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جنہیں پسند کرتا ہے انھیں آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے، تاکہ وہ اطاعت پر مضبوط ہو کر نیکی کے کاموں میں جلدی کریں اور جو آزمائش انھیں پہنچی ہے اس پر وہ صبر کریں، تاکہ انھیں بغیر حساب کے اجر و ثواب دیا جائے اور یقیناً اللہ کی سنت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو آزماتا رہے تاکہ وہ ناپاک کو پاک سے، نیک کو بد سے اور سچے کو جھوٹے سے جدا کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
٭٭٭
{اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَo وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ} (۲۹؍العنکبوت : ۲۔ ۳) ’’
٭٭٭
کیالوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ اسی پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔ حالانکہ بلاشبہ ہم نے ان لوگوں کی بھی آزمائش کی جو اُن سے پہلے تھے۔ ‘‘
٭٭٭
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآئُ وَ الضَّرَّآئُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ} (۲؍البقرۃ : ۲۱۴) ’’
ترجمہ :
کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے : اللہ کی مدد کب ہو گی؟ سن لو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔ ‘‘
٭٭٭
علامہ عبد الرحمن بن ناصر سعدیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے :
’’اللہ تبارک و تعالیٰ گزشتہ آیت میں خبر دے رہے ہیں کہ لازمی طور پر وہ اپنے بندوں کو خوشحالی، تنگی اور مشقت میں مبتلا کر کے ان کا امتحان لے جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کا امتحان لیا، لہٰذا یہ ایک نہ بدلنے والی سنت جاریہ ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے دین و شریعت پر کاربند ہو گا یقیناً وہ اس کا امتحان لے گا۔ ‘‘
(تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان، ص : ۹۷)
٭٭٭
علامہ عبد اللہ علوانؒ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے :
’’وہ لوگ جو دعوتِ اسلامیہ کے منہج پر کاربند ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کی اصلاح، ان میں انقلاب برپا کرنے اور ان کی ہدایت و راہنمائی کے راستے پر چلتے ہیں ان کا مشقت میں مبتلا ہونا ضروری ہے۔ اس راہ میں بڑی مضبوط چٹانیں اور تکلیف دہ کانٹے بچھے ہوئے ہیں اور اس راہ میں سرکش اور بدبخت مجرموں سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر داعی ان تکلیفوں کو برداشت کر کے اس راہ پر ثابت قدمی اختیار کرنے اور صبر کرنے اور صبر کرنے میں دوسروں سے سبقت کرنے کا عادی نہ ہو گا تو وہ مشقت کے ابتدائی لمحوں میں ہی شکست کھا جائے گا اور آزمائش کے ابتدائی لمحات میں الٹے پاؤں اس راستے سے پلٹ جائے گا اور وہ رک جانے والے اور مایوس ہو کر بیٹھنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھ جائے گا۔
٭٭٭
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ} (۲؍البقرۃ : ۱۵۵) ’’
٭٭٭
اور یقیناً ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔
٭٭٭
‘‘ معلوم ہوا کہ آزمائش ضروری ہے اور مومنوں کا آزمائش میں مبتلا ہونا سنت جاریہ ہے۔ اگر وہ یہ بات ذہن میں رکھیں تو آزمائش ہلکی محسوس ہو گی اور آپ اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ آپ کو عظیم خیر و بھلائی حاصل ہے جب تک آپ اپنے ایمان اور دعوت کی راہ میں آزمائش میں مبتلا رہیں اور آزمائش میں مبتلا ہو کر بھی آپ اپنے دین کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ وابستہ رہیں۔ آزمائش کے بہت سے پہلو ہیں، عامر محمد ہلالی نے آزمائش کی درج ذیل اقسام بیان کی ہیں
(1)- بیماری کے ساتھ آزمائش۔
(2)-قید و بند کے ساتھ آزمائش۔
(3)- استہزاء و تمسخر کے ساتھ آزمائش۔
(4)- گالی گلوچ کے ساتھ آزمائش۔
(5)- اذیت، مار پیٹ اور سزا کے ساتھ آزمائش۔
(6)- خوف اور بے چینی کے ساتھ آزمائش۔
(7)- فقر و فاقہ، مالوں اور پھلوں کے نقصان کے ساتھ آزمائش۔
(8)-غم اور فکر کے ساتھ آزمائش۔
(9)- جلاوطنی کے ساتھ آزمائش۔
(10)- دشمن کے تسلط اور غلبہ کے ساتھ آزمائش۔
(11) -حاسدوں اور منافقوں کے پروپیگنڈوں کے ساتھ آزمائش۔
(12)- قریبی رشتہ دار کی موت اور دوست کی گمشدگی کے ساتھ آزمائش۔
(13)- بھوک کے ساتھ آزمائش۔
(14)- رسوائی، تہمت، احساسات کے مجروح ہونے اور شہرت کے خراب ہونے کے ساتھ آزمائش۔
(15)- ظالموں کی طرف سے حملہ، دھمکی اور ان کے ہاتھوں خوف زدہ ہونے کے ساتھ آزمائش۔
(16)- اپنے گھر والوں کے متعلق اس خوف کے ساتھ آزمائش کہ انھیں اس کی وجہ سے کوئی اذیت پہنچے اور وہ اس اذیت کو اُن سے دُور کرنے کی طاقت بھی نہ رکھے۔
(17)-بیوی بچوں پر نازل ہونے والی تکالیف کے ساتھ آزمائش۔
٭٭٭
(مشکلات کا مقابلہ کیسے کریں ؟ صفحہ ۱۵۔ ۱۶، ط: ۲۰۱۲:، مکتبہ بیت السلام، لاہور)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Top