• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ائمہ اربعہ کے سلسلے میں سلف کا موقف

afrozgulri

مبتدی
شمولیت
جون 23، 2019
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
(قسط نمبر/۲)
تحریر : افروز عالم ذکراللہ سلفی،گلری،ممبئی

امام مالک بن انس الاصبحی رحمہ اللہ ، (ولادت:93ھ715ءوفات: 179ھ796ء)
امام دار الھجرۃ وفقیہ مدینۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

نام و نسب:
ابو عبداللہ مالک بن انس بن ابی عامر بن عمرو الاصبحی المدنی رحمہ اللہ
(سیر اعلام النبلاء ،ج:4,ص: 213۔
امام مالک رحمہ اللہ تالیف محمد ابو زہرہ،ص:25)

پیدائش:

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت کے تیرہ سال بعد ٩٣ھ میں مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے۔آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابو عامر اصبحی رضی اللہ عنہ کے پڑ پوتے تھے۔دوسرے بڑے امام ہیں ،امام مالک فقہ اورحدیث مین اھل حجاز بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے امام ہیں ۔

دادا، چچا اور والد غرضیکہ پورا خانوادہ حدیث رسول کا خادم وعالم تھا۔ مدینہ منورہ میں تو ویسے ہی فقہاء وعلماء کی کثیر تعداد تھی۔ اس لئے یہ خوش قسمتی انہی کے حصے میں آئی کہ بچپن سے ہی وہ انہی کے چشمہ فیض سے اپنی پیاس بجھاتے رہے۔ فقہائے سبعہ میں باستثناء چند کے اکثر سے امام مالک رحمہ اللہ نے استفادہ کیا ۔ اس طرح متفرق سینوں کا بکھرا علم ایک ہی سینہ میں مجتمع ہوگیا۔ اسی لئے آپ رحمہ اللہ امامُ دَارِ الہِجْرَۃِ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ اور عَالِمُ المَدِینَۃِ کی پیشین گوئی کے مصداق بھی بنے۔
(سیر اعلام النبلاء ج:04,ص:213)

تحصیل علم :

ابتدائے عمر ہی سے طلب علم کا بہت شوق تھا۔علم کے حصول کے لئے دوسرے شہروں کا سفر امام مالک رحمہ اللہ سے ثابت نہیں اس لئے کہ ان کا اپنا گھر اور وطن خود زرو جواہر کی ایسی کان تھے جہاں ہر قیمتی موتی میسر تھا۔
علم کے شوق کے ساتھ دل ودماغ جب فکر سے آزاد ہوں تو علم کا حصول ممکن ہوتا ہے مگر شاذ مثالیں ہی ایسی ملتی ہیں کہ طالب علم کو یہ دونوں چیزیں نصیب ہوں۔
آپ نہایت ذہین اور حافظہ کے قوی تھے چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ جس امر کو میں نے حافظے میں جگہ دی پھر اسے فراموش نہیں کیا۔

(مالک بن انس رحمہ اللہ ابوزھرۃ،ص:29)

اساتذہ و شیوخ :

شیوخ میں امام مالک رحمہ اللہ کا انتخاب بھی قابل تحسین ہے ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے خریدار نہیں بنتے تھے۔ بلکہ جو اہل ہوتا اسی سے علم کی پیاس بجھاتے۔ تحدیث نعمت کے طور پر کہا کرتے کہ میں کبھی کسی غیر فقیہ یعنی سفیہ کی صحبت میں نہیں بیٹھا۔ کبھی فرماتے: اس صحن مسجد کے ستونوں کے پاس میں نے ستر شیوخ کو ایسا پایا جو قال رسول اللہ کہا کرتے ۔ اگر ان میں ہر ایک کو بیت المال کا امین بھی بنا دیا جاتا تو یقینا وہ امین ہی ثابت ہوتے۔ مگر میں نے ان سے حدیث نہ سنی نہ روایت کی اس لئے کہ حدیث رسول ان کا میدان ہی نہ تھا کہ وہ اس کے مغز سخن کو سمجھتے۔ اسی طرح اہل عراق سے حدیث روایت نہیں کرتے تھے وجہ یہی بتاتے کہ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ یہاں آکر عموماً ان لوگوں سے حدیث سیکھتے اور سنتے ہیں جن پر وثوق نہیں کیا جا سکتا۔

صحابی رسول جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی تیس سالہ شاگردی میں رہنے والے مایہ ناز فقیہ ومحدث امام نافع رحمہ اللہ، جو آزاد کردہ غلام تھے، امام مالک رحمہ اللہ کے قابل فخراستاد تھے۔ کہا کرتے جب ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث امام نافع رحمہ اللہ سے سن لیتا ہوں تو پھر اس کی پروا نہیں کیا کرتا کہ کسی اور سے بھی اس کی تائید سنوں۔ دوسرے مایہ ناز استاد، جن کی حق گوئی، علمی وقار ورعب کے خلفاء بھی قائل تھے وہ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ ہیں جن کی روایات سے صحاح ستہ مالا مال ہیں اور جو ابوبکر ابن حزم کے بعد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے مدون ہیں۔
ایوب السختیانی ، جعفر بن محمد الصادق، حمیدالطویل، زید بن اسلم، ابو حازم سلمہ بن دینار، ہشام بن عروہ اور عبداللہ بن دینار وغیرہم جیسے بڑے بڑے جلیل الشان راویوں سے روایت کیا ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے امام صاحب رحمہ اللہ کے شیوخ کی تعداد پچھتر کے قریب بتائی ہے۔

(مالك بن أنس محمد أبو زهرة، ص33
ترتيب المدارك، القاضي عياض، ج1 ص131
مالك بن أنس، عبد الغني الدقر، ص48
انظر أيضاً: الديباج المذهب، ابن فرحون، ج1 ص98-99)

تدریس وعلمی وقار:

آپ سے بھی بےشمار خلقت نے علم حدیث سیکھا ،ان میں سے بہت سے امامت کے اعلیٰ درجے پر پہونچے۔

بارہ برس مسلسل اپنے استاذامام نافع رحمہ اللہ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد امام مالک رحمہ اللہ ۱۱۷ھ میں مسند تدریس پر بیٹھے اور جس جاہ وجلال کی محفل سجائی وہ علم اور علماء کی شان کو ظاہر کرتی تھی۔ تمام مجلس پر ایک مقدس سکوت طاری ہوتا کتاب کا ورق الٹنے سے طلبہ ڈرتے تھے کہ مبادا اس کی سرسراہٹ ہو۔ سب مؤدب بیٹھتے اس لئے کہ امام صاحب کی اداء سے شکوہ اور وقار جھلکتا تھا۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے جب موطا امام مالک سن لی تو ساتھیوں نے انہیں کہا کہ اب آپ کا کام مکمل ہو چکا ہے پھربھی آپ یہیں ہیں؟ فرمانے لگے: اب تک میں نے اپنے شیخ سے علم سیکھا تھا اب رہ کر ادب ووقار سیکھنا چاہتا ہوں۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، خلیفہ ہارون الرشید، اس کے دونوں شاہزادے امین ومامون بھی ان کی مجلس میں آکرشریک ہوئے اور اسی طرح مؤدب ہوکر بیٹھے جس طرح شاگرد بیٹھتے ہیں۔چند دنوں بعد لوگوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ یہی شاہزادے امام محترم کی جوتیاں اٹھانے اور انہیں درست کرنے میں ایک دوسرے سے پہل کرر ہے ہیں۔
عام وخاص اگر علم سے مستفید ہو رہے ہوں تو شخصی منفعت کے لئے امام محترم عام افادہ کا خون نہیں کرتے تھے اور اس کے قائل تھے کہ اِنِّی لاَ اذُلُّ الْعِلْمَ میں علم کو رسوا نہیں کرنا چاہتا۔ یا یوں فرمایا کرتے: العِلْمُ یُزَارُ ولاَ یَزُورُ علم کے پاس آیا جاتا ہے نہ کہ علم کو لایا جاتا ہے۔

پڑھانے کا عام طریقہ یہ تھا کہ پہلے امام محترم احادیث، فتاوی اور اپنی تعلیقات کو قلم بند کر لیتے اور پھر کسی چاق وچوبند اور سمجھ دار شاگرد کومامور کرتے کہ وہ اسے خوش خط لکھے۔ یہی لکھے ہوئے اجزاء کاتب کے ہاتھ میں ہوتے جسے وہ محفل میں پڑھتا تو امام محترم جابجا اس کی تشریح ومطالب بیان کرتے جاتے اور اگر کاتب سے کوئی غلطی ہوتی تو خود اس کی تصحیح فرما دیتے۔

(ترتیب المدارک القاضی عیاض،ج:02,ص:13, مالک بن انس رحمہ اللہ عبدالغنی الدقر،ص:25، ۔الدیباج المذھب ،ابن فرحون ،ص:85،امام دارالھجرۃ مالک بن انس،ص:29)

امام صاحب کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ کہا ہے کہ اذَا ذُکِرَ الْعُلَمَاء فَمَالِکٌ النَّجْمُ۔ (مالک بن انس رحمہ اللہ عبدالغنی الدقر،ص:04)

یعنی جب علماء کے بارے میں سلسلہ گفتگو چل نکلے تو امام مالک رحمہ اللہ ایک چمکتا ہوا تارا محسوس ہوتے ہیں۔
اس لئے کہ حدیث رسول ہو تو اس کی تصحیح وتضعیف، رجال کی معرفت اور جرح وتعدیل کے تمام اسباب کا جاننا اور پھر اس کی تصحیح کے بعد احکام کا استنباط اور ان کی تفریع ، اختلاف کی صورت میں ترجیح وتطبیق اور پھر واجب وسنت ومستحب وغیرہ کی تعیین ایک غیر معمولی کام تھا جو امام مالک نے قولی ، عملی اور تحریری صورت میں پیش کیا جس کے نتائج سے دنیا مستفید ہوئی۔ موطا ہو یا ان کے شاگرد عبد الرحمان بن القاسم (م۔۱۹۱ھ) کی امام مالک رحمہ اللہ کے ملفوظات فقہیہ وعلمیہ پر مبنی کتاب المُدَوَّنَۃُ الْکُبْرٰی ہو یہ سب شاہد ہیں کہ امام صاحب رحمہ اللہ کے علم وفضل کے بارے میں غلو سے کام نہیں لیا گیا بلکہ یہ ان کی للہیت کا ثمرہ ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ کی توثیق میں علمائے سلف کے اقوال :

آپ کے زمانہ سے لےکر اس وقت تک کے سب علماء باتفاق زبان آپ کی جلالت قدر اور عظمت شان اور وسعت علم کی برابر شہادت دیتے ہیں۔

امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ثقۃ‘‘ (مقدمۃ الجرح والتعدیل ص :16، اور اس کی سند صحیح ہے۔)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’مالک أثبت في کل شئ‘‘ مالک ہر چیز میں ثقہ ہیں۔ (کتاب العلل و معرفۃ الرجال 349/2 رقم:2543)

اور فرمایا: مالک ( روایتِ حدیث میں) حجت ہیں۔ (سوالات المروذی:45)

امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے کہا: ’’ ثقۃ إمام أھل الحجاز وھو أثبت أصحاب الزھري۔۔۔‘‘ اہلِ حجاز کے امام ہیں اور زہری کے شاگردوں میں سب سے زیادہ ثقہ ہیں۔ (الجرح والتعدیل :17/1)

امام علی بن عبداللہ المدینی رحمہ اللہ نے فرمایا: مالک صحیح الحدیث ہیں۔ (مقدمۃ الجرح والتعدیل ص :94 اور اس کی سند صحیح ہے۔)

امام حافظ ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات میں ذکر کیا اور فرمایا: آپ ۹۳ یا ۹٤ھ میں پیدا ہوئے۔(الثقات لابن حبان :347/7)

امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ مشہور ثقہ ثبت حافظ سے پوچھا گیا: مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے مالک بن انس رحمہ اللہ کو ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بڑا عالم کہا ہے؟ انھوں نے فرمایا: میں نے یہ بات نہیں کہی بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ وہ ابو حنیفہ کے استاذ یعنی حماد (بن ابی سلیمان) سے بھی بڑے عالم ہیں۔ (الجرح والتعدیل :11/1,اور اس کی سند صحیح ہے)

امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ نے فرمایا: مالک حدیث میں امام تھے۔ (مقدمۃ الجرح والتعدیل ص :14،اس کی سند صحیح ہے۔)

امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: جب مالک سے حدیث آجائے تو اسے مضبوط ہاتھوں سے پکڑ لو۔ (تقدمہ ص ۱۴، وسندہ صحیح)

امام شعبہ رحمہ اللہ نے فرمایا: میں مدینہ میں داخل ہوا اور نافع رحمہ اللہ زندہ تھے اور امام مالک رحمہ اللہ کا حلقہ قائم تھا۔ (الجرح والتعدیل :96/1,اس کی سند صحیح ہے۔)

امام نافع رحمہ اللہ 117ھ میں فوت ہوئے اور اس وقت امام مالک کی عمر تیئیس یا چوبیس سال تھی یعنی جوانی میں ہی آپ کی امامت و مسندِ تدریس قائم ہو گئی تھی۔

امام عبدالرزاق رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ حدیث " یوشک الناس کے مصداق امام مالک رحمہ اللہ ہیں وہ حدیث یہ ہے:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوشك الناس أن يضربوا اكباد الإبل فى طلب العلم فلا يجدون عالما أعلم من عالم المدينة" ،
(رواه الترمذي: ج 5/ كتاب العلم باب 18/2680
۔تزيين الممالك، جلال الدين السيوطي، ص22-23)

وہ زمانہ جلدی آنے والا ہے کہ اس میں لوگ علم کی تلاش میں اونٹوں کی چھاتیاں ان کو دوڑا دوڑا کر تھکا دیں گی مگر اس وقت کوئی ایسا عالم نہ پائیں گے جو اس وقت کے مدنی عالم سے بڑھ کر ہو۔
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے آپ کو اس لحاظ سے اس حدیث کا مصداق مانا ہے کہ آپ کے وقت میں کوئی آپ کا نظیر نہیں تھا۔

امام عبدالرحمان بن واقد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ کا دروازہ دیکھا گویا وہ کسی حاکم وقت کا دروازہ تھا یعنی لوگوں کی کثرت سے سبب ہر وقت ہجوم رہتا۔

امام ابن وھب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر امام مالک رحمہ اللہ اور امام لیث نہ ہوتے تو ہم گمراہ ہوجاتے ۔

اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر امام مالک رحمہ اللہ اور سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ تو سرزمین حجاز کا علم غائب ہو جاتا۔



امام مالک کی توثیق و تعریف پر اجماع ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ اہل حدیث کے امام تھے:

امام مسلم رحمہ اللہ اپنی کتاب "صحیح مسلم" میں امام شعبہ،سفیان اور یحییٰ وغیرہم رحمہم اللہ کا ذکر کرتے امام مالک بن انس رحمہ اللہ کو بھی اہل حدیث شمار کرتے ہیں۔
(مسلم:59/1)

علامہ شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ المتوفی' 748ھ رقمطراز ہیں:" قال وهيب أمام أهل الحديث مالك " یعنی امام وہیب رحمہ اللہ نے کہا کہ امام مالک رحمہ اللہ حدیث کے امام ہیں۔
(تذکرۃ الحفاظ،ج:1،ص:195)

ابوالفلاح حنبلی رحمہ اللہ شذرات الذہب میں فرماتے ہیں:

إذا قيل من نجم الحديث وأهله
أشار أولوالألباب يعنون مالكا

جب پوچھا جاتا کہ حدیث اور اہل حدیث کا تارا کون ہے تو عقلمند حضرات حضرت امام مالک رحمہ اللہ کی طرف اشارہ کرتے تھے۔
(شذرات الذہب :291/3)

آپ کی بیان کردہ احادیث کتب احادیث جیسے صحیح البخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، صحیح ابن الجارود، صحیح ابی عوانہ، سننِ اربعہ، کتاب الام للشافعی، مسند احمد اور دیگر تمام چھوٹی بڑی کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔

آپ کی کتاب مؤطا کے سلسلے میں چند اقوال:

امام شافعی رحمہ اللہ نے (صحیح بخاری و صحیح مسلم کی تصنیف سے پہلے) فرمایا: رُوئے زمین پر علمی کتابوں میں موطأ مالک سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں ہے۔ (الجرح والتعدیل:12/1)

موطأ امام مالک کا ذکر صحیح ابن خزیمہ (140) اور صحیح ابن حبان (الاحسان:5638،5647/) میں کثرت سے موجود ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے امام مالک کی کتاب کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: ’’ما أحسن لمن تدین بہ‘‘ جوشخص دین پر چلنا چاہتا ہے، اُس کے لئے کتنی اچھی کتاب ہے۔ ( کشف المغطا فی فضل الموطا لابن عساکر ص :41/, الاستذکار:12,13/1)

شہرت کتاب:
موطا امام مالک رحمہ اللہ:
محدث امام مالک(ت۱۷۹ھ) رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق تالیف ہے جسے صحیح بخاری سے پہلے کتاب اللہ کے بعد سب سے بہتر کتاب ہونے کا شرف حاصل تھا ۔
.
اختصار علوم الحديث ص (24-25)

یہ کتاب مرفوع احادیث کے علاوہ بہت سے فقہی احکام پر مبنی فقہاء صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے فتاوی، فیصلہ جات اور اجتہادات سے بھی مالا مال ہے۔اور فقہ اور اصول فقہ کے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ کے نقطہ نظر کو واضح کرتی ہے۔ اس کتاب کو امام مالک رحمہ اللہ نے مدینہ کے ستّر فقہاء پر پیش کیا اور سب نے اس پر موافقت فرمائی۔
(الاستذكار (1/168)

موطأکے لفظی معنی ہے، وہ راستہ جس کو لوگوں نے پے درپے چل کر اتناہموارکردیاہو کہ بعد میں انے والوں کے لیے اسپرچلنااسان ہوگیاہو۔ جمہور علما نے موطأکو طبقات کتب حدیث میں طبقہ اولی میں شمار کیاہے امام شافعی فرماتے ہیں"ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک" کہ میں نے روءے زمین پر موطأامام مالک سے زیادہ کوءی صحیح کتاب (کتاب اللہ کے بعد)نہیں دیکھی۔ حضرت شاہ ولی اللہ موطاکے بارے میں لکھتے ہیں" فقہ میں موطا امام مالک سے زیادہ کوءی مضبوط کتاب موجود نہیں ہے" موطا میں احادیث کی تعداد کے بارے میں کءی روایات ہیں اور اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امام مالک نے اپنی روایات کی تہذیب اورتنقیح برابر جاری رکھی لہذا مختلف اوفات میں احادیث کی تعداد مختلف رہی۔
قال ابن الماجشون رحمه الله ||سمعت مالكاً يقول: من ابتدع في الإسلام بدعة يراها حسنة فقد زعم أن محمدا ًخان الرسالة لأن الله يقول [اليوم أكملت لكم دينكم ] فما لم يكن يومئذٍ ديناً فلا يكون اليوم ديناً "
[ الاعتصام للشاطبي،ج:1,ص:49,دارالنشر المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ مصر،الإحكام فى أصول الإحكام لإبن حزم ألأندلسى،ج:6,ص:791]
ابن الماجشون رحمہ اللہ کہتے ہیں|| میں نے امام مالک رحمہ اللہ کو کہتے ہو سنا : جس نے اسلام میں کوئی بدعت جاری کی اور اُسے نیکی سمجھا اُس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں خیانت کی ہے (معاذ اللہ ) کیونکہ اللہ کا فرمان ہے [اليوم أكملت لكم دينكم ]
(آج کے دن ہم نے تمہارا دین مکمل کردیا ) المائدہ 3۔ جو اُس دن دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتا۔

یوں مسلسل باسٹھ سال تک مسجد نبوی میں اپنی فقہی ، حدیثی، اور تدریسی مخلصانہ خدمات انجام دیں۔ اس عرصے میں اپنی معروف کتاب موطا لکھی اورکئی بار نقد ونظر سے گذاری ۔ بارہا اس میں ترمیم ، حک واضافہ کے مراحل آئے۔ جب امام محترم رحمہ اللہ نے اس کا آغاز کیا تو کسی شاگرد نے انہیں عرض کی: کہ موطا نام کی کتب تو بہت سے لوگ لکھ رہے ہیں؟ آپ کے لکھنے کا کیا فائدہ؟ امام مالک رحمہ اللہنے جواب میں فرمایا: مَا کَانَ لِلّٰہِ بَقِیَ۔ جو کام اللہ کے لئے ہوگا اللہ تعالیٰ اسے باقی رکھے گا۔ موطا امام تو باقی رہی مگر ان کے معاصرین کی موطآت مفقود ہو گئیں۔ موطا فقہ کی کتاب بھی ہے اور حدیث کی بھی۔ کیونکہ یہ کتاب مرفوع احادیث کے علاوہ بہت سے فقہی احکام پر مبنی فقہاء صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے فتاوی، فیصلہ جات اور اجتہادات سے بھی مالا مال ہے۔ فقہ اور اصول فقہ کے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ کے نقطہ نظر کو واضح کرتی ہے۔

امام محترم رحمہ اللہ کی زندگی میں ہی اس کتاب کو ایسا عروج ملا کہ خلیفہ ہارون نے اس کتاب کو بطور ایک قانون کے اپنی خلافت میں نافذ کرنا چاہا اور اسے ایک آئینی حیثیت دینا چاہی کہ اسی کے مطابق تمام علماء وفقہاء فتوے دیں مگر امام محترم نے فرمایا: کہ یہ میرا علم ہے جب کہ عالم اسلام میں بے شمار اہل علم موجود ہیں ان کے علم سے بھی مستفید ہونا چاہئے۔ایسی حالت میں ایک شخص کی رائے وعقل پر جس سے صحت وغلطی دونوں کا امکان ہے عالم اسلام کومجبور کرنا مناسب نہیں۔ لہٰذا میرے علم کو حتمی علم کی حیثیت نہ دی جائے۔ امام محترم رحمہ اللہ اپنی سوچ اور فقہ کو اگر عام کرنا چاہتے یا اپنی شہرت ووجاہت چاہتے تو ان کے لئے کتنا سنہرا موقع تھا کہ ارباب حکومت میں گھس کر اپنے مسلک کو عام کرتے مگر انہوں نے خانہ کعبہ میں اپنی کتاب موطا کو آویزاں کروانا پسند نہ فرمایا۔ (مختصر المؤمل،ص:61)

انہی کی زندگی میں یہ کتاب اندلس میں پہنچ چکی تھی اور افریقہ کے علاوہ اہل مشرق بھی اس کتاب کے نسخوں کو اپنے اپنے علاقوں کی زینت بنا چکے تھے۔ امام شافعی رحمہ اللہکے علاوہ امام محمد رحمہ اللہ بن الحسن بھی ان کے شاگرد تھے انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ سے ان کی موطا سنی۔ بعد میں امام محمد رحمہ اللہ نے اپنے دیگر اساتذہ سے سنی ہوئی احادیث کو موطا میں شامل کردیا۔ یہ وہ روایات تھیں جو امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی اصل موطا میں بیان نہیں کی تھیں۔ اس بناء پر ان کی موطا ، موطا امام محمد رحمہ اللہکے نام سے مشہور ہے جو موطا امام مالک سے بالکل مختلف مواد رکھتی ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ نے یہ کوشش بھی کی کہ اپنی موطا میں ہر حدیث کے آخر میں حنفی مسائل کو ثابت کردیا جائے۔

آپ کے تلامذہ:

امام مالک کی شاگردی کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ مدینہ منورہ جو مسلمانوں کا مرکز عقیدت ہے دنیا بھر سے آنے والے مسلمان نہ صرف امام مالک رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں بیٹھے بلکہ ان کے شاگرد بن کر موطا بھی پڑھ گئے جن کی روایت اپنے اپنے ملکوں میں جاکر انہوں نے پھیلائی۔ ان تلامذہ میں مصری، اندلسی، حجازی اور عراقی بھی ہیں۔ چند نامور شاگردوں کے نام یہ ہیں:
ابوعبد اللہ عبد الرحمن بن القاسم العتقی ۱۹۱ ھ مصری ہیں بیس برس تک امام مالک رحمہ اللہ سے علم سیکھتے رہے۔ ابو محمد عبد اللہ بن وہب بن مسلم م:۱۹۷ھ انہوں نے بھی بیس برس امام محترم کی شاگردی میں گزارے۔ ابوعبد اللہ زیاد بن عبد الرحمن القرطبی م:۱۹۳ھ ان کا لقب شبطون تھا امام مالک رحمہ اللہ سے انہوں نے موطا سنی۔ اسد بن الفرات بن سنان م: ۲۱۳ھ تیونس کے حکمران رہے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے انہوں نے بھی موطا سنی۔ ابومروان عبد الملک بن ابی سلمہ الماجشون م:۲۱۲ھ اپنے وقت کے مفتی تھے
سعید بن منصور، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، شعبہ، عبداللہ بن ادریس، عبداللہ بن المبارک، قعنبی، عبداللہ بن وہب، اوزاعی، عبدالرحمن بن مہدی، یحییٰ بن سعید القطان، ابن جریج، قتیبہ بن سعید، شافعی، وکیع، عبدالرحمن بن القاسم اور امام فزاری وغیرہم سب حدیث کے جلیل القدر راوی ہیں اور یہ سب امام مالک رحمہ اللہ کے حلقہ درس کے فیض یاب ہیں۔
(،سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج7 ص152-153)

امام شافعی رحمہ اللہ آپ کے خاص شاگرد تھے۔
(مناقب الشافعی للبیہقی،ص:17)

امام مالک رحمہ اللہ اور اتباع سنت :

امام دار الھجرۃ رد بدعت میں باکمال اور عمل بالحدیث میں لا ثانی تھے ۔لیکن ابا کے انتقال کے برسوں بعد ان کے نام پر ایک مذہب پر بھار ی دیا لگیا ،جس سے امام صا حب کا دامن بالکل پاک وصاف ہیں اور آپ کے بعد آپ کی طرف کچھ مسائل منصوب کردییے گئے جو آپ کی علمی منزلت اور وسوسے کے منافی ہے۔

پہلا قول : آپ نے فرمایا : إنما أنا بشر میں انسان ہی ہوں
إنما أنا بشر أخطأ وأصيب ,
میں انسان ہی ہوں مجھ سے خطا اور صواب (غلطی اور درستگی) دونوں کا امکان ہے اس لیے تم میری رائے اور فتو'ی میں غوروتامل سے کام لو جو قرآن و حدیث کے مطابق ہو اسے قبول کر لو اور جو قرآن و حدیث کے مخالف ہو اسے رد کردو ۔
(جامع بیان العلم وفضلہ ،ج:2،ص: 92 ) مختصر المؤمل ،ص: 61
إعلام الموقعين :63/01

دوسرا قول : ليس أحد بعد النبي صلى الله عليه وسلم إلا يوخذ من قوله ويترك إلا النبي صلى الله ،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص بھی ہے اس کا قول تسلیم بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول رد نہیں کیا جاسکتا۔
(جامع بیان العلم وفضلہ ،ج:2،ص: 92 ،المیزان ،ج:1،ص:48)

ائمہ کرام سنت کے شیدائی تھے جب انھیں اپنے قول کے بالمقابل کوئی سنت مل جاتی تو فوراً اپنے قول کو چھوڑ دیتے تھے امام مالک رحمہ اللہ بھی اسی اصول پر عمل پیرا تھے ۔
امام مالک رحمہ اللہ کی نظر میں اگر کسی کی بات بغیر سوچے سمجھے قبول کی جاسکتی ہےتو وہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے کیونکہ آپ کے سوا کوئی بھی شخص معصوم نہیں ہے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ائمہ اپنے قول سے رجوع کر لیتے تھے ان کے اقوال اور کردار سے تقلید بلا دلیل کا بطلان ظاہر ہے۔

وفات:
امام محترم رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے خدمت دین کا بھر پور موقع دیا۔ ۹۳ھ میں پیدا ہوئے ۔ ۱۱۷ھ میں مسجد نبوی کی مسند درس پرتشریف فرما ہوئے۔ باسٹھ سال تک علم ودین کی خدمت کی۔ ۸۱ سال کی عمر میں ہی طبیعت میں ضعف وناتوانی آچکی تھی۔ تسلسل سے مسجد نبوی میں آنا، غم وشادی کی تقریبات میں جانا سب موقوف ہوگیا تھا۔ لوگ اعتراض کر تے تو جواب میں فرماتے: ہر شخص اپنا عذر بیان نہیں کرسکتا۔ آپ کے معروف شاگرد معن بن عیسیٰ جو صحاح ستہ کے رواۃ میں سے ہیں وہ اس عمر میں امام صاحب کے خادم تھے۔ انہی کا سہارا پکڑ کر چلتے تھے۔ اور کبھی کبھار اس بڑھاپے میں بھی درس وافتاء کی خدمت جاری رہتی۔
امام محترم رحمہ اللہ اتوار کے روز بیمار ہوئے یہ بخار اپنی شدت تین ہفتے تک دکھاتا رہا۔ اس دوران مرض کی شدت میں کوئی تخفیف نہ ہوئی۔ شاگردوں کو امام محترم کی تکلیف وبیماری کا جو ملال تھا اس کا یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب مدینہ کے علماء کو یقین ہوگیا کہ اب امام محترم کا آخری وقت ہے تو تیمارداری کے لئے حدیث وفقہ کے ۱۶۰ علماء مودب بہ چشم نم آس پاس بیٹھے تھے۔
امام قعنبی رحمہ اللہ جو آپ کے خاص تلامذہ میں سے تھے انہوں نے امام محترم کی آنکھوں سے آنسو نکلتے دیکھے تو سبب پوچھا۔ امام محترم فرمانے لگے: قعنبی! میں نہ روؤں تو کون روئے۔ اے کاش! مجھے میرے ہر قیاسی فتوے کے بدلے میں ایک کوڑا مارا جاتا۔ یہی گریہ جاری تھا لب متحرک تھے کہ اسی عالم میں جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ اور یوں 84/ سال کی عمر پاکر ۱۷۹ ھ کوانتقال فرمایا۔ جنازہ میں خلقت تھی۔ سارا مدینہ حتی کے والی مدینہ پیدل جنازہ میں نہ صرف چلا بلکہ اس نے کندھا دیا۔ جنت البقیع میں تدفین ہوئی جہاں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ، عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا جیسی عظیم ہستیاں مدفون ہیں
آپ نے 179ھ میں بمقام مدینہ طیبہ وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ امام مالك رحمہ اللہ کے پاس یہ چار اولاد رہی يحيى، محمد، حماد، وفاطمة ۔!
سقی اللہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ۔

(وفیات الأعیان ج:02،ص:305،۔مالك، محمد أبو زهرة، ص50
مالك بن أنس، عبد الغني الدقر، ص380
انظر أيضاً: تزيين الممالك، جلال الدين السيوطي، ص85، فصل في وفاته
انظر أيضاً: الديباج المذهب، ابن فرحون، ج1 ص133
انظر أيضاً: الطبقات الكبرى، ابن سعد، ج5 ص469)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنی زندگی میں حرزِ جاں بنانے اور اس کوعام اور اس پرعمل کرنے کی توفیق دے آمین تقبل یارب العالمین۔

۔ آمین!

afrozgulri@gmail.com
Follow us on WhatsApp:7379499848


Sent from my TA-1053 using Tapatalk
 
Top