• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو الحسن شاذلی کا درود شریف کے زریعے درندوں سے نجات(تحقیق)

شمولیت
اگست 02، 2018
پیغامات
69
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
22
محترم شیوخ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکۃ
اس کی تحقیق درکار ہے کیا یہ واقعہ درست ہے اگر ہے تو اس سے مفہوم یا فوائد بیان کریں :

ويحكى عن الشيخ أبى الحسن الشاذلى رحمه الله، أنه كان ببعض المفازات، فأتته السباع، فخافهم على نفسه، ففزع إلى الصلاة على النبي صلى الله تعالى عليه وآله وسلّم، مستندا إلى ما صح من أنه من صلى عليه : صلى الله عليه عشرا، وأن الصلاة من الله الرحمة، ومن رحمه اللّه كفاه كل مهمة، فنجا بذلك، صلى الله تعالى عليه وآله وسلم تسليما كثيرا.
( القول البديع)

شیخ ابو الحسن شاذلی سے منقول ھے کہ وہ کسی جنگل سے گزر رھے تھے تو ان کا سامنا بعض جنگلی درندوں سے ھو گیا، انھیں اپنی جان کا اندیشہ ھو گیا ، انھوں نے فورا درود شریف کا اھتمام کیا اس لئے کہ صحیح حدیث میں ھے کہ جو آپ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا، اور جس پر اللہ تعالیٰ رحمت فرما دے تو وہ اس کے لئے ھر مصیبت وتکلیف سے کافی ھو جائیگا، پس انھیں درود شریف کی برکت سے ان درندوں سے نجات مل گئ ۔ صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تسلیما کثیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
صحیح حدیث میں ھے کہ جو آپ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا،
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(1) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى على واحدة؛ صلَّي الله عليه عشرا .
”جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔“
(صحيح مسلم : 408)

دوسری روایت یوں ہے:
من صلى على مرة واحدة؛ كتب الله عزوجل له بها عشر حسنات .
”جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔“
(مسند الامام أحمد : 262/2، وسنده حسن، و صححه ابن حبان : 905)

(2) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من صلّى على صلاة واحدة؛ صلى الله عليه عشر صلوات، وحط عنه بها عشر سيئات، ورفعه بها عشر درجات .
”جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کی دس خطائیں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے۔“
(مسند الإمام أحمد : 102/3،261؛ عمل اليوم والليلة للنسائي: 62، واللفظ له، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ
(904) نے ”صحیح“، جب کہ امام حاکم رحمہ اللہ (550/1) نے ”صحیح الاسناد‘‘ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس پر ’’صحیح‘‘ کا حکم لگایا ہے۔

* مستدرک حاکم کے یہ الفاظ ہیں:
من صلّى على صلاة، صلى الله عليه وسلم عشر صلوات، وحط عنه عشر خطيئات .
”جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑ ھتا ہے، اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے دس گناہ معاف فرما دیتا ہے۔“
امام ابن حبان رحمہ اللہ
(907 ) نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عن الطفيل بن ابي بن كعب، عن ابيه، قال:‏‏‏‏ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب ثلثا الليل قام،‏‏‏‏ فقال:‏‏‏‏ " يا ايها الناس اذكروا الله، ‏‏‏‏‏‏اذكروا الله جاءت الراجفة تتبعها الرادفة جاء الموت بما فيه جاء الموت بما فيه "، ‏‏‏‏‏‏قال ابي:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ يا رسول الله،‏‏‏‏ إني اكثر الصلاة عليك فكم اجعل لك من صلاتي؟ فقال:‏‏‏‏ " ما شئت "، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ الربع؟ قال:‏‏‏‏ " ما شئت فإن زدت فهو خير لك "،‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ النصف؟ قال:‏‏‏‏ " ما شئت فإن زدت فهو خير لك "،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ فالثلثين؟ قال:‏‏‏‏ " ما شئت فإن زدت فهو خير لك "،‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ اجعل لك صلاتي كلها،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ " إذا تكفى همك ويغفر لك ذنبك "
قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح.

ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے اور فرماتے: لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، کھڑکھڑانے والی آ گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے، موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے۔ موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت صلاۃ (درود) پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو“، میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے“، میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی؟“ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں؟ ۔ آپ نے فرمایا: ”اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
سنن الترمذی 2457 ، وانظر مسند احمد (۵/۱۳۵)

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (954) ، فضل الصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم رقم (13 و 14)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
شیخ ابو الحسن شاذلی
ابوالحسن الشاذلی مشہور صوفی تھے ،
علامہ احسان الہی ظہیرؒ لکھتے ہیں :
"الطريقة الشاذلية
سلسلة صوفية مشهورة وطريقة صوفية منتشرة في مصر وتونس والجزائر وغيرها من البلدان، والشاذلية نسبة إلى أبي الحسن علي بن عبد الله المولود بغمارة من قرى سبته سنة 593هـ
یعنی تصوف میں سلسلہ شاذلیہ مشہور سلسلہ ہے ،جو مصر ،تیونس ،االجزائر اور دیگر ممالک میں رائج ہے ، یہ طریقہ شاذلیہ ۔۔ ابوالحسن شاذلی کی طرف منسوب ہے
جو (593ھ ) کو افریقہ میں پیدا ہوئے ۔(دراسات فی التصوف )
اور وہی صوفیوں کے عقائد رکھتے تھے ،
مثلاً وہ کہتے ہیں :
"كنت يوماً بين يدي الأستاذ فقلت في نفسي: ليت شعري هل يعلم الشيخ اسم الله الأعظم؟ فقال ولد الشيخ وهو في آخر المكان الذي أنا فيه: يا أبا الحسن ليس الشأن من يعلم الاسم الأعظم، إنما الشأن من يكون هو عين الاسم، فقال الشيخ من صدر المكان: أصاب وتفرس فيك ولدي"
ایک دن میں اپنے استاد کی خدمت میں حاضر تھا ،کہ میرے دل میں خیال آیا کہ کاش مجھے علم ہوتا کہ استاذ اسم اعظم جانتے ہیں یا نہیں ؟
تو اسی وقت استاد کا ایک لڑکا جو دوسرے مکان میں موجود تھا اس نے کہا کہ :
اے ابوالحسن ! کمال یہ نہیں کہ اسم اعظم کون جانتا ہے ،بلکہ کمال تو یہ ہے کہ : کوئی خود اسم اعظم ہو ،تو یہ سن کر ہمارے استاد جی فرمانے لگے کہ صحیح کہا "
(لطائف المنن لابن عطاء الإسكندري ص 159، 160ط مطبعة حسان القاهرة 1974م )
دیکھئے دراسات فی التصوف ص254 )
 
Top