• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی امام اعظم ہیں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
آج کل اک نئی بدعت اور اک نئے الحاد نے جنم لیا ہوا ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کیا جاتا ہے ۔
الحاد کیوں ؟
اسلئے کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر متفق ہے کہ امام اعظم اعزاز و لقب ہے حضرت نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کا اور اکابرین امت اس بات کا اظہار بے شمار جگہوں پر کرتے چلے آئے ہیں ۔ آسان الفاظ میں اس بات پر کہ امام اعظم جس ہستی کو کہا جائے گا وہ ہیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ یعنی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ۔پس ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم لقب سے پکارنا امت کے اجماع سے ثابت ہے جس کا غیر مقلد منکر ہے اور ثابت شدہ مسئلہ کا انکار کرکے غیر مقلد ملحدین کی جماعت میں شامل ہیں۔
اور بدعت کیوں؟
اسلئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر امام اعظم کہنا ہوتا تو اللہ فرماتا یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے۔(چونکہ نام نہاد خود ساختہ اہل حدیثوں کا نعرہ یہی ہے کہ صرف قرآن اور حدیث،تو پھر دلیل بھی ان ہی میں سے ہونی چاھئیے)
جبکہ ہوتا الٹ ہے نہ قرآن دیکھنا دکھانا ہے نہ حدیث، بلکہ اپنے فرقہ جدیدہ نام نہاد اہل حدیث کے علماء" کی اندھی تقلید کرتے ہوئے "امام اعظم صلی اللہ علیہ وسلم " کہنا ،لکھنا اور اس پر ضد بازی شروع کردی وہ بھی بغیر کسی دلیل کے۔جبکہ امت کا بچہ بچہ اس بات پر اتفاق رکھتا اور جانتا ہے کہ جب بھی امام اعظم کہا،لکھا جائے گا تو مراد امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی ہوتے ہیں۔
بہت بڑی گستاخی کیوں؟
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔
اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امتی کو ملا ہوا لقب عطا کرنا گستاخوں کا کام تو ہوسکتا ہے محمدیوں کا نہیں،اگر ایسا کہا جائے جیسا کہ کہا جاتا ہے یا یوں کہیں کہ ڈھکوسلہ دیاجاتا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے امام ہیں ،نبیوں کے امام ہیں ،اللہ کے بعد سب سے بڑے مقام والے ہیں اسلئے امام اعظم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی کہا جانا چاھئیے۔
یہ ڈھکوسلہ اسلئے ہے کہ اگر اس کو مان لیا جائے تو پھر
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر کہنا ناجائز ٹھہرے گا کیونکہ سب سے بڑے صدیق تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق اعظم کہنا بھی جائز نہیں کیوں کہ سب سے بڑے فاروق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

تو امتی کا مقابلہ امتیوں سے تو ممکن ہے مگر کیا کیا جائے فتنہ غیر مقلدیت کا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امتی کے مقابل لاکھڑا کیا ہے اور وہ بھی بغیر دلیل ،صرف امتیوں کے اقوال کی اندھی اتباع کرتے ہوئے ۔

اگر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم کہنا گستاخی ہے تو پھر تمام غیر مقلدین یعنی فرقہ جماعت جدیدہ نام نہاد اہل حدیثوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اکابر مولویوں کو ، کہ جنہوں نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم لکھا ہے ان سب کو گستاخ قرار دے کر اپنے گھر سے نکال باھر کرنے کا اعلان کریں کیونکہ یہ ڈھکوسلہ اب مزید نہیں چلنے دیاجائے گا کہ فرقہ جدیدہ نام نہاد اہل حدیث بن کر ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ایسے کی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امتیوں کو ملے ہوئے لقب سے یاد کیا جائے ۔
اور پھر سارے ڈھکوسلے اس جگہہ پر آکر دم توڑ جاتے ہیں کہ جہاں ڈنڈے کھانے پڑتے ہوں (ابتسامہ)
دیکھئے پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ قائد اعظم کون ہے ۔ اگر یقین نہیں آتا تو کسی پہلی جماعت کے بچے سے آج ہی جاکر یا اسے بلاکر پوچھ لینا ۔ تو جواب یہی ملے گا کہ محمد علی جناح کو قائد اعظم کہتے ہیں بلکہ ایک سو روپے کا نوٹ ہی دکھادینا بچہ خود ہی بتادے گا کہ یہ ہمارے قائد اعظم ہیں ۔
اہل حدیثو کچھ ڈھکوسلے اس بارے میں بھی گھڑلو کہ تم لوگ قائد اعظم محمد علی جناح کو قائد اعظم نہیں مانتے ، کہو اور کوئی بڑی تحریک نہیں بلکہ ایک آٹھ بائی چار سائز کا بینر ہی بنوا کر کسی نام نہاد اہل حدیث مرکز کے باہر لگوادو کہ ہم محمد علی جناح کو قائد اعظم کہنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی مانتے ہیں یا ہم محمد علی جناح کو قائد اعظم نہیں مانتے ۔
آخر میں فرقہ جماعت اہل حدیثوں کے گھر سے ہی صرف ایک ثبوت دکھاتا ہوں جس سے معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اکابرین بھی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ہی لکھتے اور کہتے اور مانتے رہے یہ بدعت تو بعد میں ایجاد ہوئی ۔

سرخ لکیر پر دیکھیں "امام اعظم " کس کو لکھا ہوا ہے ؟

شکریہ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اگر کوئی جناب ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام نہیں مانتا تو آپ اس پر کیا فتوی جاری کر سکتے ہیں؟ اور جو ان کو امام تسلیم کر کے ان کی تقلید کرنا شروع کر دے اس کےکیا فضائل ہیں؟ ہم اگر رسول اللہ کو امام اعظم تسلیم نہ کریں تو یہ توہین رسالت ہے؟ اور ہم نبی کریم کی ہر بات کو مانتے ہیں کیوں کہ وہ امام اعظم ہیں ، لیکن تمہاری حالت یہ ہے کہ کسی کو امام اعظم بھی کہتے ہو اور جو بنیاد چیز ہے عقیدہ اس میں ان کی تقلید بھی نہیں کرتے ہو ، اور فروع میں ان کے متعدد اقوال کو رد کر دیتے ہو اور پھر بھی کہتے ہو کہ وہ ہمارے امام اعظم ہیں، لو جی ملاحظہ فرمائیں:
وَقَدْ اسْتَبْعَدَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْلَ أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْكِتَابِ لِهَذَا وَسَمَّاهُ تَحَكُّمًا عَلَى النَّاسِ مِنْ غَيْرِ حُجَّةٍ فَقَالَ مَا أَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ إلَّا بِتَرْكِهِمْ التَّحَكُّمَ عَلَى النَّاسِ.فَإِذَا كَانُوا هُمْ الَّذِينَ يَتَحَكَّمُونَ عَلَى النَّاسِ بِغَيْرِ أَثَرٍ، وَلَا قِيَاسٍ لِمَ يُقَلِّدُوا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَوْ جَازَ التَّقْلِيدُ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ قَبْلِ أَبِي حَنِيفَةَ مِثْلُ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ رَحِمَهُمَا اللَّهُ أَحْرَى أَنْ يُقَلَّدُوا(المبسوط للسرخسی:ج۱،ص۲۸
"کہ امام محمد نے امام ابو حنیفہ کے قول کو" الکتاب"میں بعید قرار دیا ہے اور اس کا نام تحکم اور سینہ زوری رکھا ہے اور کہا ہے کہ اگر تقلید جائز ہوتی تو جوحضرات امام ابو حنیفہ سے پہلے گزر چکے ہیں ، مثلا:حسن بصری اور ابراہیم نخعی وہ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جاے "

کیا جس کو امام اعظم کہا جاے اس کی بات کو رد بھی کیا جا سکتا ہے؟ اگر وہ امام اعظم ہیں تو ان کا قول بھی اعظم ہونا چاہیے، اور قول اعظم کو رد کرنا گستاخی اعظم ہے،اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ تم لوگ ان کو امام اعظم خود بھی تسلیم نہیں کرتے ہو
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
دیوبندی جھوٹ اتنی کثرت سے بولتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ انکے مذہب میں جھوٹ بولنا کارثواب ہے۔
سہج صاحب کا دعویٰ کہ ابوحنیفہ کے ’’امام اعظم‘‘ ہونے پر اجماع ہے سیاہ ترین جھوٹ ہے۔ اور یہ ایسا جھوٹ ہے کہ خود انکے مقلدین بھائی یعنی شافعی، مالکی اور حنبلی ان سے اس دعویٰ پر متفق نہیں بلکہ وہ ابوحنیفہ کو امام اعظم تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ملاحظہ ہو: اجارہ داری

اب یا تو سہج صاحب تسلیم کریں کہ انکے مقلدین بھائی جھوٹ بول رہے ہیں اور سہج صاحب کے خود ساختہ اجماع کا انکار کرکے بقول امین اوکاڑوی جہنمی بن گئے ہیں۔ یا پھر خود سہج صاحب ہی حسب عادت کذب بیانی سے کام لے رہے ہیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جہاں تک ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ذات بارے گمان کا تعلق ہے تو کوئی بھی بھائی مندرجہ ذیل تھریڈ میں میری رائے دیکھ سکتا ہے
ذاک قول شیطان کا مفہوم
البتہ جو پھول یہاں بکھیرے گئے ہیں انکی حقیقت بتلانا بھی میرا فرض ہے تاکہ پتا تو چلے کہ کون ہوا میں ہے اور کس کے پاؤں تلے زمین ہے
ان کانٹے نما پھولوں کو سمیٹنے سے پہلے کچھ وضاحتیں کرنا چاہتا ہوں

وضاحت نمبر1
کسی کو جب امام کہا جاتا ہے تو اسکے مختلف مفہوم ہو سکتے ہیں مثلا امام بخاری کو امام کہنے کی وجہ حدیث میں زیادہ علم رکھنے کی وجہ سے حدیث کا امام مراد ہوتی ہے اسی طرح کسی کو فقہ کا کسی کو اسماء الرجال کا امام مانا جاتا ہے اسی طرح مسجد کے امام کو بھی امام کہتے ہیں کہ وہ باقیوں سے زیادہ علم والا ہو اسی طرح شیعہ حسن حسین کو امام کسی اور معنی میں کہتے ہیں پس جب بھی کسی کو امام کہا جا رہا ہو تو ممکن ہے کہ وہ کسی ایک پہلو سے کہا جا رہا ہو پس اس سے دوسرے اس سے افضل کی توہین لازم نہیں آتی یعنی امام نخاری کو امام کہنے سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی توہین نہیں ہوسکتی کہ انکو امام نہیں کہا جاتا

وضاحت نمبر 2:
کسی کو لقب یا اعزازی نام دیا جاتا ہے تو اس بندے میں کوئی خوبی دیکھ کر دیا جاتا ہے اور اسی خوبی کی مناسبت سے دیا جاتا ہے پس ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جنہوں نے امام اعظم کا لقب دیا تھا تو وہ اس نظریہ کے تحت دیا تھا کہ وہ باقی فقہی اور قابل اطاعت اماموں میں اعظم ہیں پس انکی تقلید کیا جانا باقیوں سے افضل ہے
پس انکے نزدیک قابل تقلید صرف یہی ہوں گے ورنہ کوئی جاہل ہی کسی چیز کے اعلی ہونے کا نظریہ رکھنے کے باوجود ادنی پر مطمئن ہو سکتا ہے
ثابت ہوا کہ جو انکو امام اعظم کا لقب دینے والوں میں سے ہو تو یہ ممکن نہیں کہ وہ عامی کے لئے ابو حنیفہ کی تقلید کو سب سے افضل نہ سمجھتا ہو ورنہ ایسا لقب دینے والا یا دعوی کرنے والا جاہل ہو گا

وضاحت نمبر 3
جب کسی کو کسی خوبی کی وجہ سے لقب سے پکارا جاتا ہے تو پکارنے والا دو وجوہات کی وجہ سے ایسا کر رہا ہوتا ہے
1-وہ خود تو اس خوبی کا قائل نہیں ہوتا مگر معاشرے میں معروف ہو جانے کی وجہ سے لوگوں کو پہچان کروانے کے لئے ایسا کرتا ہے یعنی وہ خود ایسا نظریہ نہ بھی رکھے پھر بھی اس لقب سے پکارنے پر اسکو غلط نہیں کہا جاتا مثلا کسی کا سر سید کو سر کہنا، محمد علی جناح کو قائد اعظم کہنا، اسی طرح طالبان کا حامد کرزئی کو افغانستان کا وزیراعظم کہنا حالانکہ وہ اسکو وزیراعظم مانتے نہیں، اسی طرح کسی اہل حدیث کا ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم کہنا
2-وہ خود اس خوبی کا قائل ہو اور اسی وجہ سے اسکو اس لقب سے پکار رہا ہو مثلا ہمارا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین کہنا حنفیوں کا ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم کہنا

اب میں ان وضاحتوں کی روشنی میں اوپر پوسٹ پر تبصرہ کرتا ہوں

الحاد کیوں ؟
اسلئے کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر متفق ہے کہ امام اعظم اعزاز و لقب ہے حضرت نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کا اور اکابرین امت اس بات کا اظہار بے شمار جگہوں پر کرتے چلے آئے ہیں ۔ آسان الفاظ میں اس بات پر کہ امام اعظم جس ہستی کو کہا جائے گا وہ ہیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ یعنی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ۔پس ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم لقب سے پکارنا امت کے اجماع سے ثابت ہے جس کا غیر مقلد منکر ہے اور ثابت شدہ مسئلہ کا انکار کرکے غیر مقلد ملحدین کی جماعت میں شامل ہیں۔
اگر آپ پوری امت مسلمہ کے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم کہنے پر اجماع کی بات کرنا چاہتے ہیں تو یہاں امام سے مراد قابل اتباع یا تقلید امام ہے اب یہ اجماع دو طرح سے ہو سکتا ہے
1-پوری امت یہ نظریہ بھی رکھتی ہے کہ عامی کے لئے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے زیادہ کوئی لائق تقلید نہیں
2-صرف حنفی یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے زیادہ لائق تقلید کوئی نہیں جس وجہ سے انھوں نے یہ لقب دیا ہو پھر ابو یوسف رحمہ اللہ کے چیف جسٹس بننے پر پوری امت میں ان الفاظ کی ایسی مشہوری ہوئی ہو کہ باقی امت میں سے کچھ لوگ بھی بغیر عقیدہ رکھے صرف پہچان کے لئے اس لقب کو استعمال کرنے لگے
اب پہلے نمبر کے اجماع کا دعوی تو میری اوپر وضاحت نمبر 2 کے تحت کھلی جہالت ہے
جبکہ دوسرا دعوی اگر موصوف حنفی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہم بھی انکو امام اعظم کہنے کو تیار ہیں جیسے اگر کسی کا نام چراغ دین رکھ دیا جائے اور علم کا اسکو پتا نہ ہو تو ہمیں کیا اعتاض ہو سکتا ہے وہ تو خالی نام ہے پہچان کے لئے

اور بدعت کیوں؟
اسلئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر امام اعظم کہنا ہوتا تو اللہ فرماتا یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے۔(چونکہ نام نہاد خود ساختہ اہل حدیثوں کا نعرہ یہی ہے کہ صرف قرآن اور حدیث،تو پھر دلیل بھی ان ہی میں سے ہونی چاھئیے)
جبکہ ہوتا الٹ ہے نہ قرآن دیکھنا دکھانا ہے نہ حدیث، بلکہ اپنے فرقہ جدیدہ نام نہاد اہل حدیث کے علماء" کی اندھی تقلید کرتے ہوئے "امام اعظم صلی اللہ علیہ وسلم " کہنا ،لکھنا اور اس پر ضد بازی شروع کردی وہ بھی بغیر کسی دلیل کے۔جبکہ امت کا بچہ بچہ اس بات پر اتفاق رکھتا اور جانتا ہے کہ جب بھی امام اعظم کہا،لکھا جائے گا تو مراد امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی ہوتے ہیں۔
امت کے بچے بچے کے اتفاق کی وضآحت تو میں نے اوپر کر دی ہے البتہ بدعت کے حوالے سے تھوڑی سی ڈوز مزید چاہئے ہو گی
جب ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو اس کہنے کے پیچھے ہمارا عقیدہ بتانا ہوتا ہے اسی طرح جب ہم اہل حدیث یا دیوبندی کہتے ہیں تو اسکا مقصد اپنے عقیدے کا تعارف کروانا ہوتا ہے اب کوئی کہے کہ دیوبندی کہنا بدعت ہے تو یہ جہالت ہو گی اسی طرح جب ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو امام اعظم یا قائد اعظم یا مجاہد اعظم کہتے ہیں تو اسکا مقصد اتباع کے لئے اپنا عقیدہ بتانا ہوتا ہے نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی لقب کا استعمال ہوتا ہے مالکم کیف تحکمون

بہت بڑی گستاخی کیوں؟
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔
اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امتی کو ملا ہوا لقب عطا کرنا گستاخوں کا کام تو ہوسکتا ہے محمدیوں کا نہیں،اگر ایسا کہا جائے جیسا کہ کہا جاتا ہے یا یوں کہیں کہ ڈھکوسلہ دیاجاتا ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے امام ہیں ،نبیوں کے امام ہیں ،اللہ کے بعد سب سے بڑے مقام والے ہیں اسلئے امام اعظم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی کہا جانا چاھئیے۔
بھئی میں نے اوپر وضاحت نمبر 1 میں بتایا ہے کہ جب کسی کو امام کہا جاتا ہے تو وہ مختلف پہلوؤں سے ہو سکتا ہے پس آپ بھی امام بخآری کو امام کسی اور وجہ سے کہتے ہیں اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام کسی اور وجہ سے کہتے ہیں مگر ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امام کہتے ہی نہیں تو کیا آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کو ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ادنی سمجھتے ہیں دوسری طرح سمجھ لیں کہ عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ بلال رضی اللہ عنہ کو سیدنا کہ کر پکارتے تھے جبکہ صحابہ یہ لفظ اللہ کے نبی کے لئے بھی استعمال کرتے تھے

یہ ڈھکوسلہ اسلئے ہے کہ اگر اس کو مان لیا جائے تو پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر کہنا ناجائز ٹھہرے گا کیونکہ سب سے بڑے صدیق تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق اعظم کہنا بھی جائز نہیں کیوں کہ سب سے بڑے فاروق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔تو امتی کا مقابلہ امتیوں سے تو ممکن ہے مگر کیا کیا جائے فتنہ غیر مقلدیت کا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امتی کے مقابل لاکھڑا کیا ہے اور وہ بھی بغیر دلیل ،صرف امتیوں کے اقوال کی اندھی اتباع کرتے ہوئے ۔
میں نے اوپر وضاحت نمبر 1 میں بتایا ہے کہ امام کے مختلف معنی ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ عامی کے لئے کسی کی بات کو لائق اتباع سمجھنا- اور وضآحت نمبر 3 میں بتایا ہے کہ جب کسی کو لقب سے پکارتے ہیں تو کبھی عقیدہ رکھ کر پکارتے ہیں اور کبھی اس لقب کو عقیدہ کی بجائے خالی پہچان کے لئے استعمال کرتے ہیں
اب اس وضاحت کے بعد میرا یہ دعوی ہے کہ اگر آپ امام اعظم کے لقب کو خالی پہچان کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو میں اوپر کہ چکا ہوں کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں
اور اگر عقیدۃ استعمال کرنا چاہتے ہیں تو پھر بھی ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم اپنے لیے نہ کہیں بلکہ ہم تو زور دے کر آپ کو کہیں گے کہ آپ چونکہ ان کی بات کو ہی لائق اتباع سمجھتے ہیں پس آپ لازمی انکو ہی عقیدۃ امام اعظم کہیں ورنہ جھوٹ ہو جائے گا
البتہ ہمارا تو چونکہ یہ عقیدہ ہی نہیں تو ہمیں یا کسی بھی غیر حنفی کو عقیدۃ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم کہلوانے پر زبردستی کرنا اور اجماع ثابت کرنا ہم سے جھوٹ بلوانے کے مترادف ہو گا


اگر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم کہنا گستاخی ہے تو پھر تمام غیر مقلدین یعنی فرقہ جماعت جدیدہ نام نہاد اہل حدیثوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اکابر مولویوں کو ، کہ جنہوں نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم لکھا ہے ان سب کو گستاخ قرار دے کر اپنے گھر سے نکال باھر کرنے کا اعلان کریں کیونکہ یہ ڈھکوسلہ اب مزید نہیں چلنے دیاجائے گا کہ فرقہ جدیدہ نام نہاد اہل حدیث بن کر ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ایسے کی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امتیوں کو ملے ہوئے لقب سے یاد کیا جائے ۔
اور پھر سارے ڈھکوسلے اس جگہہ پر آکر دم توڑ جاتے ہیں کہ جہاں ڈنڈے کھانے پڑتے ہوں (ابتسامہ)
اس پر اوپر بتا دیا ہے کہ اگر کسی چند غیر حنفیوں نے انکو امام اعظم لکھا ہے تو وہ صرف پہچان کے لئے لکھا ہے اور اس پر اعتراض ہمیں بھی نہیں
البتہ باقی غیر حنفی یہ کہتے ہیں کہ چونکہ آجکل اختلاف یہ ہے کہ کس کی اتباع کی جائے تو ایسا لقب جو بے شک خالی پہچان کے لئے ہو مگر کوئی اسکو جہالت کی وجہ سے امت کا عقیدہ سمجھ لے اور اجماع کا دعوی کر سے تو اس سے پرہیز ہی بہتر ہے

دیکھئے پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ قائد اعظم کون ہے ۔ اگر یقین نہیں آتا تو کسی پہلی جماعت کے بچے سے آج ہی جاکر یا اسے بلاکر پوچھ لینا ۔ تو جواب یہی ملے گا کہ محمد علی جناح کو قائد اعظم کہتے ہیں بلکہ ایک سو روپے کا نوٹ ہی دکھادینا بچہ خود ہی بتادے گا کہ یہ ہمارے قائد اعظم ہیں ۔
اہل حدیثو کچھ ڈھکوسلے اس بارے میں بھی گھڑلو کہ تم لوگ قائد اعظم محمد علی جناح کو قائد اعظم نہیں مانتے ، کہو اور کوئی بڑی تحریک نہیں بلکہ ایک آٹھ بائی چار سائز کا بینر ہی بنوا کر کسی نام نہاد اہل حدیث مرکز کے باہر لگوادو کہ ہم محمد علی جناح کو قائد اعظم کہنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی مانتے ہیں یا ہم محمد علی جناح کو قائد اعظم نہیں مانتے ۔
جی ہمارے اکثر خطیب تقریر میں کہتے ہیں کہ امام اعظم قائد اعظم، مجاہد اعظم وغیرہ
پس ہم لوگوں کو امام اعظم کے لفظ سے یا قائد اعظم کے لفظ سے غلط مفہوم سے بچانے کے لئے ایسا کرتے ہیں
البتہ یہ بھی بتا دوں کہ قائد اعظم کو اگر کوئی عقیدۃ بھی بڑا قائد سمجھتا ہے تو وہ دین کے معاملے میں نہیں سمجھتا پس اس کے نتائج خطرناک نہیں مگر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جب عقیدۃ ایسا سمجھے تو ہمارے نظریے کے مطابو اسکے نتائج خطرناک ہیں

آخر میں فرقہ جماعت اہل حدیثوں کے گھر سے ہی صرف ایک ثبوت دکھاتا ہوں جس سے معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اکابرین بھی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ہی لکھتے اور کہتے اور مانتے رہے یہ بدعت تو بعد میں ایجاد ہوئی ۔
سرخ لکیر پر دیکھیں "امام اعظم " کس کو لکھا ہوا ہے ؟
اسکا جواب پہلے دیا جا چکا ہے کہ یہ عقیدۃ کی بجائے صرف پہچان کے لیے کہا گیا ہے

اگر مزید وضآحت درکار ہو تو بتا دیں میں اپنی استطاعت کے مطابق کر دوں گا ان شاءاللہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اگر کوئی جناب ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام نہیں مانتا تو آپ اس پر کیا فتوی جاری کر سکتے ہیں؟ اور جو ان کو امام تسلیم کر کے ان کی تقلید کرنا شروع کر دے اس کےکیا فضائل ہیں؟ ہم اگر رسول اللہ کو امام اعظم تسلیم نہ کریں تو یہ توہین رسالت ہے؟ اور ہم نبی کریم کی ہر بات کو مانتے ہیں کیوں کہ وہ امام اعظم ہیں ، لیکن تمہاری حالت یہ ہے کہ کسی کو امام اعظم بھی کہتے ہو اور جو بنیاد چیز ہے عقیدہ اس میں ان کی تقلید بھی نہیں کرتے ہو ، اور فروع میں ان کے متعدد اقوال کو رد کر دیتے ہو اور پھر بھی کہتے ہو کہ وہ ہمارے امام اعظم ہیں، لو جی ملاحظہ فرمائیں:
وَقَدْ اسْتَبْعَدَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْلَ أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْكِتَابِ لِهَذَا وَسَمَّاهُ تَحَكُّمًا عَلَى النَّاسِ مِنْ غَيْرِ حُجَّةٍ فَقَالَ مَا أَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ إلَّا بِتَرْكِهِمْ التَّحَكُّمَ عَلَى النَّاسِ.فَإِذَا كَانُوا هُمْ الَّذِينَ يَتَحَكَّمُونَ عَلَى النَّاسِ بِغَيْرِ أَثَرٍ، وَلَا قِيَاسٍ لِمَ يُقَلِّدُوا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَوْ جَازَ التَّقْلِيدُ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ قَبْلِ أَبِي حَنِيفَةَ مِثْلُ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ رَحِمَهُمَا اللَّهُ أَحْرَى أَنْ يُقَلَّدُوا(المبسوط للسرخسی:ج۱،ص۲۸
"کہ امام محمد نے امام ابو حنیفہ کے قول کو" الکتاب"میں بعید قرار دیا ہے اور اس کا نام تحکم اور سینہ زوری رکھا ہے اور کہا ہے کہ اگر تقلید جائز ہوتی تو جوحضرات امام ابو حنیفہ سے پہلے گزر چکے ہیں ، مثلا:حسن بصری اور ابراہیم نخعی وہ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جاے "

کیا جس کو امام اعظم کہا جاے اس کی بات کو رد بھی کیا جا سکتا ہے؟ اگر وہ امام اعظم ہیں تو ان کا قول بھی اعظم ہونا چاہیے، اور قول اعظم کو رد کرنا گستاخی اعظم ہے،اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ تم لوگ ان کو امام اعظم خود بھی تسلیم نہیں کرتے ہو
جزاک الله - اس کو کہتے ہیں مونھ توڑ جواب -

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا سوره بنی السرائیل ٨١
اور کہہ دو کہ حق گیا اور باطل مٹ گیا بے- شک باطل مٹنے ہی والا تھا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سہج صاحب کو گزارش کی گئی تھی کہ اپنی اس تحریر کی زبان درست کریں ۔
انہوں نے مقدور بھر کوشش کی ہوگی لیکن بہر صورت پڑھنے والے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حقیقت حال کیا ہے ۔
اسی وجہ سے رد عمل میں بھی بعض مراسلے ایسے ہیں کہ ایک نفیس مزاج رکھنے والے کے لیے اس اسلوب بیان کی تائید کرنا ممکن نہیں ۔
میں ان بھائیوں کا نہایت شکر گزار ہوں جنہوں نے رد عمل کے طور پر بھی جوش کو ہوش پر غالب نہیں ہونے دیا ۔
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
جہاں تک ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ذات بارے گمان کا تعلق ہے تو کوئی بھی بھائی مندرجہ ذیل تھریڈ میں میری رائے دیکھ سکتا ہے
ذاک قول شیطان کا مفہوم
البتہ جو پھول یہاں بکھیرے گئے ہیں انکی حقیقت بتلانا بھی میرا فرض ہے تاکہ پتا تو چلے کہ کون ہوا میں ہے اور کس کے پاؤں تلے زمین ہے
ان کانٹے نما پھولوں کو سمیٹنے سے پہلے کچھ وضاحتیں کرنا چاہتا ہوں

وضاحت نمبر1
کسی کو جب امام کہا جاتا ہے تو اسکے مختلف مفہوم ہو سکتے ہیں مثلا امام بخاری کو امام کہنے کی وجہ حدیث میں زیادہ علم رکھنے کی وجہ سے حدیث کا امام مراد ہوتی ہے اسی طرح کسی کو فقہ کا کسی کو اسماء الرجال کا امام مانا جاتا ہے اسی طرح مسجد کے امام کو بھی امام کہتے ہیں کہ وہ باقیوں سے زیادہ علم والا ہو اسی طرح شیعہ حسن حسین کو امام کسی اور معنی میں کہتے ہیں پس جب بھی کسی کو امام کہا جا رہا ہو تو ممکن ہے کہ وہ کسی ایک پہلو سے کہا جا رہا ہو پس اس سے دوسرے اس سے افضل کی توہین لازم نہیں آتی یعنی امام نخاری کو امام کہنے سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی توہین نہیں ہوسکتی کہ انکو امام نہیں کہا جاتا

وضاحت نمبر 2:
کسی کو لقب یا اعزازی نام دیا جاتا ہے تو اس بندے میں کوئی خوبی دیکھ کر دیا جاتا ہے اور اسی خوبی کی مناسبت سے دیا جاتا ہے پس ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جنہوں نے امام اعظم کا لقب دیا تھا تو وہ اس نظریہ کے تحت دیا تھا کہ وہ باقی فقہی اور قابل اطاعت اماموں میں اعظم ہیں پس انکی تقلید کیا جانا باقیوں سے افضل ہے
پس انکے نزدیک قابل تقلید صرف یہی ہوں گے ورنہ کوئی جاہل ہی کسی چیز کے اعلی ہونے کا نظریہ رکھنے کے باوجود ادنی پر مطمئن ہو سکتا ہے
ثابت ہوا کہ جو انکو امام اعظم کا لقب دینے والوں میں سے ہو تو یہ ممکن نہیں کہ وہ عامی کے لئے ابو حنیفہ کی تقلید کو سب سے افضل نہ سمجھتا ہو ورنہ ایسا لقب دینے والا یا دعوی کرنے والا جاہل ہو گا

وضاحت نمبر 3
جب کسی کو کسی خوبی کی وجہ سے لقب سے پکارا جاتا ہے تو پکارنے والا دو وجوہات کی وجہ سے ایسا کر رہا ہوتا ہے
1-وہ خود تو اس خوبی کا قائل نہیں ہوتا مگر معاشرے میں معروف ہو جانے کی وجہ سے لوگوں کو پہچان کروانے کے لئے ایسا کرتا ہے یعنی وہ خود ایسا نظریہ نہ بھی رکھے پھر بھی اس لقب سے پکارنے پر اسکو غلط نہیں کہا جاتا مثلا کسی کا سر سید کو سر کہنا، محمد علی جناح کو قائد اعظم کہنا، اسی طرح طالبان کا حامد کرزئی کو افغانستان کا وزیراعظم کہنا حالانکہ وہ اسکو وزیراعظم مانتے نہیں، اسی طرح کسی اہل حدیث کا ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم کہنا
2-وہ خود اس خوبی کا قائل ہو اور اسی وجہ سے اسکو اس لقب سے پکار رہا ہو مثلا ہمارا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین کہنا حنفیوں کا ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم کہنا

اب میں ان وضاحتوں کی روشنی میں اوپر پوسٹ پر تبصرہ کرتا ہوں


اگر آپ پوری امت مسلمہ کے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم کہنے پر اجماع کی بات کرنا چاہتے ہیں تو یہاں امام سے مراد قابل اتباع یا تقلید امام ہے اب یہ اجماع دو طرح سے ہو سکتا ہے
1-پوری امت یہ نظریہ بھی رکھتی ہے کہ عامی کے لئے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے زیادہ کوئی لائق تقلید نہیں
2-صرف حنفی یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے زیادہ لائق تقلید کوئی نہیں جس وجہ سے انھوں نے یہ لقب دیا ہو پھر ابو یوسف رحمہ اللہ کے چیف جسٹس بننے پر پوری امت میں ان الفاظ کی ایسی مشہوری ہوئی ہو کہ باقی امت میں سے کچھ لوگ بھی بغیر عقیدہ رکھے صرف پہچان کے لئے اس لقب کو استعمال کرنے لگے
اب پہلے نمبر کے اجماع کا دعوی تو میری اوپر وضاحت نمبر 2 کے تحت کھلی جہالت ہے
جبکہ دوسرا دعوی اگر موصوف حنفی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہم بھی انکو امام اعظم کہنے کو تیار ہیں جیسے اگر کسی کا نام چراغ دین رکھ دیا جائے اور علم کا اسکو پتا نہ ہو تو ہمیں کیا اعتاض ہو سکتا ہے وہ تو خالی نام ہے پہچان کے لئے


امت کے بچے بچے کے اتفاق کی وضآحت تو میں نے اوپر کر دی ہے البتہ بدعت کے حوالے سے تھوڑی سی ڈوز مزید چاہئے ہو گی
جب ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو اس کہنے کے پیچھے ہمارا عقیدہ بتانا ہوتا ہے اسی طرح جب ہم اہل حدیث یا دیوبندی کہتے ہیں تو اسکا مقصد اپنے عقیدے کا تعارف کروانا ہوتا ہے اب کوئی کہے کہ دیوبندی کہنا بدعت ہے تو یہ جہالت ہو گی اسی طرح جب ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو امام اعظم یا قائد اعظم یا مجاہد اعظم کہتے ہیں تو اسکا مقصد اتباع کے لئے اپنا عقیدہ بتانا ہوتا ہے نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی لقب کا استعمال ہوتا ہے مالکم کیف تحکمون


بھئی میں نے اوپر وضاحت نمبر 1 میں بتایا ہے کہ جب کسی کو امام کہا جاتا ہے تو وہ مختلف پہلوؤں سے ہو سکتا ہے پس آپ بھی امام بخآری کو امام کسی اور وجہ سے کہتے ہیں اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام کسی اور وجہ سے کہتے ہیں مگر ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امام کہتے ہی نہیں تو کیا آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کو ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ادنی سمجھتے ہیں دوسری طرح سمجھ لیں کہ عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ بلال رضی اللہ عنہ کو سیدنا کہ کر پکارتے تھے جبکہ صحابہ یہ لفظ اللہ کے نبی کے لئے بھی استعمال کرتے تھے


میں نے اوپر وضاحت نمبر 1 میں بتایا ہے کہ امام کے مختلف معنی ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ عامی کے لئے کسی کی بات کو لائق اتباع سمجھنا- اور وضآحت نمبر 3 میں بتایا ہے کہ جب کسی کو لقب سے پکارتے ہیں تو کبھی عقیدہ رکھ کر پکارتے ہیں اور کبھی اس لقب کو عقیدہ کی بجائے خالی پہچان کے لئے استعمال کرتے ہیں
اب اس وضاحت کے بعد میرا یہ دعوی ہے کہ اگر آپ امام اعظم کے لقب کو خالی پہچان کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو میں اوپر کہ چکا ہوں کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں
اور اگر عقیدۃ استعمال کرنا چاہتے ہیں تو پھر بھی ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم اپنے لیے نہ کہیں بلکہ ہم تو زور دے کر آپ کو کہیں گے کہ آپ چونکہ ان کی بات کو ہی لائق اتباع سمجھتے ہیں پس آپ لازمی انکو ہی عقیدۃ امام اعظم کہیں ورنہ جھوٹ ہو جائے گا
البتہ ہمارا تو چونکہ یہ عقیدہ ہی نہیں تو ہمیں یا کسی بھی غیر حنفی کو عقیدۃ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم کہلوانے پر زبردستی کرنا اور اجماع ثابت کرنا ہم سے جھوٹ بلوانے کے مترادف ہو گا



اس پر اوپر بتا دیا ہے کہ اگر کسی چند غیر حنفیوں نے انکو امام اعظم لکھا ہے تو وہ صرف پہچان کے لئے لکھا ہے اور اس پر اعتراض ہمیں بھی نہیں
البتہ باقی غیر حنفی یہ کہتے ہیں کہ چونکہ آجکل اختلاف یہ ہے کہ کس کی اتباع کی جائے تو ایسا لقب جو بے شک خالی پہچان کے لئے ہو مگر کوئی اسکو جہالت کی وجہ سے امت کا عقیدہ سمجھ لے اور اجماع کا دعوی کر سے تو اس سے پرہیز ہی بہتر ہے


جی ہمارے اکثر خطیب تقریر میں کہتے ہیں کہ امام اعظم قائد اعظم، مجاہد اعظم وغیرہ
پس ہم لوگوں کو امام اعظم کے لفظ سے یا قائد اعظم کے لفظ سے غلط مفہوم سے بچانے کے لئے ایسا کرتے ہیں
البتہ یہ بھی بتا دوں کہ قائد اعظم کو اگر کوئی عقیدۃ بھی بڑا قائد سمجھتا ہے تو وہ دین کے معاملے میں نہیں سمجھتا پس اس کے نتائج خطرناک نہیں مگر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جب عقیدۃ ایسا سمجھے تو ہمارے نظریے کے مطابو اسکے نتائج خطرناک ہیں



اسکا جواب پہلے دیا جا چکا ہے کہ یہ عقیدۃ کی بجائے صرف پہچان کے لیے کہا گیا ہے

اگر مزید وضآحت درکار ہو تو بتا دیں میں اپنی استطاعت کے مطابق کر دوں گا ان شاءاللہ
عبدہ صاحب پوسٹ نمبر 4 دیکھ لیجئے بلکل وہی معاملہ ہے جس کی جانب میں نے اشارہ کیا تھا لیکن آپ نے بھی صرف نظر فرمایا اور آگے بڑ گئے ۔
امتی بمقابلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ امام اعظم کہیں گے تو گستاخی بنے گی یا نہیں ؟ اور لمبی پوسٹ بنانے کی بجائے صرف اک آیت یا حدیث پیش کردیں صاف و صریح تاکہ آپ فرقہ جماعت اہل حدیث کی اس بدعت کو جواز مل سکے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو "امام اعظم" کہنا درست ہے ۔
شکریہ
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top