• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو شحمہ (عبد الرحمٰن بن عمر بن خطاب) سے منسوب قصہ کی اصل حقیقت

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,354
پوائنٹ
800
ابو شحمہ سے منسوب قصہ کی اصل حقیقت

شیخ حافظ عبدالروف عبدالحنان (کویت)



ابو شحمہ کے قصے کے بارے میں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو ابوشحمہ کے وجود کے ہی منکر ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ مجھے ایک صاحب کا ایک مضمون بعنوان ”ابو شحمہ سے منسوب واقعہ صحیح نہیں ہے۔“ دیکھنے کا موقعہ ملا جس میں مضمون نگار نے ابوشحمہ کے وجود سے ہی انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ لکھا تھا: ”الفاروق مصنفہ شبلی میں حضرت عمرؓ کے لڑکے کا نام ابوشحمہ بیان کیا گیاہے لیکن ماہرین انساب کی کسی تحریرسے اس کا ثبوت نہیں ملتا“ ۔ ان کا یہ مضمون ایک صاحب کے رد میں تھا جنہوں نے ابو شحمہ کے قصے کو عدلِ فاروق کے طور پر ذکر کیا تھا۔ اور کچھ لوگ وہ ہیں جو ابوشحمہ کے اس قصے کو ( جس میں ہے کہ ابوشحمہ نے شراب پی، پھر ایک یہودی لڑکی سے زنا کیا ، جس پر ان کے والد عمر فاروقؓ نے انہیں کوڑے لگائے اور کوڑوں کے دوران ان کی موت واقع ہو گئی) عدلِ عمرفاروقؓ میں بڑے فخر سے ذکر کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو ان کے صحیح قصہ(جس کی تفصیل عنقریب آرہی ہے)سے بھی انکار کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ایک مضمون بعنوان ’’ابو شحمہ کا بے اصل واقعہ“ لکھا جس میں انہوں نے ان کے صحیح قصے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ ان صاحب کا مضمون بھی ایک صاحب کے رد میں تھا جنہوں نے ابو شحمہ کے قصے کو عدلِ فاروقؓ میں ذکر کیا تھا۔ یہ مضمون اور اس سے پہلے والا مضمون بھی پاکستان میں شائع ہوئے تھے۔ جن جرائد میں یہ شائع ہوئے تھے ان میں راقم کی طرف سے ان کا رد بھی لکھا گیا تھا۔ پہلے مضمون کا رد ”ابو شحمہ سے منسوب واقعہ کی اصل حقیقت“ تھا اور دوسرے مضمون کا رد ”ابو شحمہ عبد الرحمن بن عمر بن خطاب کا اصل واقعہ“ کے عنوان سے تھا۔ ابوشحمہ والا قصہ لوگوں میں چونکہ کافی مشہور ہے، چنانچہ اس کی شہرت کے باعث اس کے بارے میں لکھنا مناسب سمجھا گیا، تاکہ قارئین اس قصہ کی اصل حقیقت سے آگاہ ہوں، اور جو من گھڑت قصہ ہے اس پر مطلع ہوں۔ اس مضمون میں سب سے پہلے ابوشحمہ کے وجود کے اثبات کے بارے میں مختصر سا بیان ہوگا ، اس کے بعد ان کا جو صحیح قصہ ہے اس کا ذکر ہوگا۔


ابو شحمہ کا وجود
امیر المومنین عمر بن خطاب کے عبد الرحمن نامی تین بیٹے تھے۔ (1) عبد الرحمن اکبر (2) عبد الرحمن اوسط (3) عبد الرحمن اصغر۔عبد الرحمن اوسط ‘ یہی ابوشحمہ ہیں، عبد الرحمن ان کا نام ہے اور ابوشحمہ ان کی کنیت ہے۔ ابن سعد اور زبیر بن بکار وغیرہ کا کہنا ہے کہ عبد الرحمن اوسط اولادِعمر میں سے ہیں جن کی کنیت ابوشحمہ ہے۔ ملاحظہ ہو ”طبقات ابن سعد (3۔ 266‘265) ‘ مناقب عمر لابن الجوزی (264)‘ اباطیل جورقانی(2۔228) اور البدایةوالنہایة لابن کثیر (7۔144)



امام نووی نے تہذیب الاسماءو اللغات (2۔15) میں عمر فاروقؓ کے ترجمے میں اولادِعمر میں ابو شحمہ کا ذکرکیا ہے اور کہا ہے کہ ان کا نام عبد الرحمن ہے ۔ حافظ ابن عبد البر نے الاستیعاب (2۔395) میں اور ابن اثیر نے اسد الغابہ میں (3۔312) میں ان کے بڑے بھائی ” عبد الرحمن اکبر“ کے ترجمے میں ان کا ذکر کیا ہے اور ان کو کوڑے مارے جانے والا واقعہ بھی نقل کیا ہے جو عنقریب آرہا ہے ۔ ان کی طرح حافظ ابن حجر نے بھی ” الاصابہ“ ( 2۔406‘405) میں” عبد الرحمن اکبر“ کے ترجمے میں ان کا ذکر کیا ہے اور ان کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آگے چل کر حافظ صاحب نے صحابہ کی دوسری قسم (دوسری قسم ان صحابہ کی ہے جنہیں قرائن وشواہدکی بنا پر صحابہ میں شمار کیا گیا ہے یعنی ان کی صحبت پر کوئی صریح دلیل نہیں۔ تفصیل کے لےے مقدمہ الاصابہ۱۔ ۶‘۷ دیکھاجائے) مےں ان کا مستقل ترجمہ لکھا ہے ۔ اور ان کے قصے کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ” الاصابہ“ (۳۔ ۲۷‘۳۷ترجمہ عبد الرحمن بن عمر ) ۔



اولادِ عمر میں عبدالرحمن الاوسط کا ذکر طبری نے بھی تاریخ طبری (۵۔۷۱) میں کیا ہے۔ مگر ان کی کنیت ذکر نہیں کی۔ اولادِ عمر میں ان کاتذکرہ مسعودی نے بھی ”مروج الذہب“ (۲۔۰۳۳) میں کیا ہے۔ چنانچہ اولادِ عمر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: وعبد الرحمن الاصغر ھو المحدود فی الشراب‘ وھو المعروف بابی شحمة عبدالرحمن اصغر اور یہ وہی ہیں جنہیں شراب پینے کی حد لگائی گئی اور یہ ابوشحمہ کے نام سے مشہور ہیں۔ (مروج الذھب کے مطبوعہ نسخے میں عبدالرحمن الاصغر ہی ہے اگر یہ طباعت کی غلطی نہیں تو مسعودی کا وہم ہے کیونکہ حد والا واقعہ عبدالرحمن الاوسط کا ہے ۔ عبدالرحمن الاصغر کا نہیں) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ ”ابو شحمہ“ جن کا نام عبد الرحمن الاوسط ہے، کا وجود ہے ۔ جس طرح ابوشحمہ کا وجود ہے ،اسی طرح ان کی طرف منسوب واقعہ کی بھی کچھ حقیقت ہے۔



لہذا اب وہ حقیقت یعنی ابو شحمہ کا صحیح قصہ ملاحظہ کریں۔



عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: شرب اخی عبدالرحمن بن عمر۔وشرب معہ ا بو سروعہ عقبہ بن الحارث، وھما بمصر فی خلافة عمر، فسکرا، فلما ا صبحا انطلقا الی عمروبن العا ص وھو ا میر مصر۔فقالا : طھِّرنا، فانا قد سکرنا من شراب شربناہ، فقال عبداللہ: فذکرلی ا خی ا نہ سکر، فقلتُ :ا دخل الدار ا طھرک ولم ا شعر ا نھما ا تیا عمرواً ‘ فا خبرنی ا خی ا نہ ا خبر الا میربذلک، فقال عبداللہ : لا تحلق الیوم علی رو وس الناس، ا دخل الدار، ا حلقک،وکانوا اذ ذاک یحلقون مع الحدود، فدخل الدار ، فقال عبداللہ: فحلقتُ ا خی بیدی ثم جلدھم عمرو، فسمع بذلک عمر، فکتب الی عمرو ا ن ابعث الیّ بعبدالرحمن علی قتب، ففعل ذلک ، فلما قدم علی عمر جلدہ و عاقبہ لمکانہ منہ، ثم ارسلہ، فلبث شھرا صحیحا، ثم ا صابہ قدرہ فمات، فیحسب عامة الناس ا نہ مات من جلد عمر، ولم یمت من جلد عمر

”ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ خلافتِ عمر میں مصر میں میرے بھائی عبدالرحمن اور ابو سروعہ عقبہ بن حارث نے (ایک رات نبیذ) پی لیا جس سے ان کو نشہ آگیا ‘ جب صبح ہوئی تو وہ دونوں عمرو بن عاص کے پاس گئے اور وہ امیر مصر تھے۔ اور ان سے کہا کہ ہمیں پاک کرو کیونکہ ہم نے (نبیذ) پیا ہے۔ (مذکورہ نص میں مطلق پینے کا ذکر ہے، کیا پیا اس کی وضاحت نہیں ہے‘ مگر ابن جوزی ؒنے کہا ہے کہ انہوں نے رات میں نبیذ پیا تھا ۔ ملاحظہ ہو ۔ موضوعات : ۳۔۴۷۲) جس سے ہمیں نشہ آگیا ہے۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میرے بھائی نے مجھ سے بیان کیا کے مجھے نشہ آگیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ گھر چلو ‘ میں تمہیں پاک کردوں‘ اور مجھے یہ خبر نہ تھی کہ وہ دونوں عمرو بن العاصؓ کے پاس جاچکے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے بتایا کہ وہ اس واقعہ کی خبر امیر کو دے چکے ہیں‘ میں نے کہا کہ آج سب لوگوں کے سامنے تمہارا سر نہیں مونڈا جائے گا۔گھر چلو‘ میں تمہارا سر مونڈدوں‘ اور اس وقت کوڑے کے ساتھ ساتھ سر کے بال بھی مونڈا کرتے تھے۔ وہ گھر میں آئے، میں نے اپنے ہاتھ سے ان کا سر مونڈا ،اس کے بعد عمرو نے ان کو کوڑے لگائے۔اس واقعہ کے بارے میں جب عمر ؓ نے سنا تو انہوں نے امیر کو لکھا کہ عبدالرحمن کو میرے پاس (مدینہ) بھیجو۔ انہوں نے انہیں بھیج دیا، عبد الرحمن جب عمرؓ کے پاس مدینہ آئے تو انہوں نے ان کواپنے یہاں عزیز ہونے کی بنا پر کوڑے لگائے اور ساتھ سزا بھی دی،اس کے بعد ایک ماہ تک وہ صحیح و تندرست رہے پھر تقدیر الہی سے فوت ہو گئے ۔ عامۃ الناس تو یہ تصور کرتے ہیں کہ ان کی موت کا سبب عمر کے کوڑے تھا حالانکہ کوڑے ان کی موت کا سبب نہ تھا۔ “



( اس کو عبدالرزاق نے (۹۔۲۳‘ ۲۔۷۴۰۷۱) جورقانی نے ”الاباطیل“(۲۔۳۹‘۱۔۹۷۸)میںاوربیہقی(۸۔۲۱۳‘ ۳۱۳) نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت کیا ہے اور ا س کی سند بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے۔امام جورجانی اس قصے کوروایت کرنے کے بعدلکھتے ہیں: ”یہ حدیث ثابت ہے ، اس کی سند متصل ہے“۔ حافظ ابن حجر، حافظ سخاوی اور متقی ھندی نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ الاباطیل للجورجانی :۲۔۴۹۱ ، فتح الباری لابن حجر(۲۱۔۵۶)الاجوبہ المرضیة للسخاوی(۳۔ ۶۳۹) اورکنزالعمال لمتقی الھندی(۲۱۔۵۶۶)



يہ حدیث ثابت ہے اور اس کی سند متصل ہے جیسا کہ محدثین کا قول گذراہے۔



اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ ابوشحمہ عبدالرحمن بن عمر کی وفات کا سبب کوڑے نہ تھابلکہ وہ اس واقعہ کے ایک مہینہ کے بعد قضائے الہی سے فوت ہوئے جیسا کہ نفس واقعہ میں صراحت موجودہے۔ حافظ ابن عبدالبر اس قصہ کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ھکذا يرويه معمر عن الزهري عن سالم عن أبيه وأما أهل عراق فیقولون إنه مات تحت سیاط عمر، وذلك غلط ”اس قصہ کو معمر نے زہری سے ( زہری سے اس کو شعیب نے بھی روایت کیا ہے جیسا کہ گذر چکا ہے۔) انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی طرح روایت کیا ہے جبکہ اہل عراق کہتے ہیں کہ ان کی وفات عمر کے کوڑوں تلے ہوئی جو غلط ہے“۔ ( الاستیعاب: ۲۔۵۹۳‘ اسد الغابة: ۳۔۲۱۳‘ الاصابہ: ۳۔۲۷)


ایک سوال اور اس کا جواب
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمرو بن عاص ص ابو شحمہ کو جب حد لگا چکے تھے تو پھر امیرالمومنین عمر ص نے ان کو دوبارہ حد کس بنا پر لگائی کیونکہ حد تو ایک مرتبہ ہی لگائی جاتی ہے۔اس سوال کا جواب دیتے ہوئے امام بیہقی رقمطراز ہيں: والذي يشبه أنه جلده جلد تعزیر، فإن الحد لا یعاد واللہ أعلم (سنن بیہقی ۸۔۳۱۳)



”جو بات قرینِ قیاس ہے وہ یہ کہ آپ نے ان کو تعزیر اً کوڑے لگائے کیونکہ حد دوبارہ قائم نہیں کی جاتی، واللہ اعلم۔“ حا فظ ابن عبد البر لکھتے ہیں: فضربه أبوه أدب الوالد ”ان کے والد نے ان کو تادیباً مارا“ ( الاستیعاب : ۲۔۵۹۳) اور ابن جوزی لکھتے ہیں: وإنما لما قدم علی عمر ضربه ضرب تأديب لا ضرب حد ”جب وہ عمرؓ کے پاس آئے تو انہوں نے ان کو تادیب کے طور پر کوڑے لگائے تھے، حد کے طور پر نہیں۔“(موضوعات: ۳۔۵۷۲) اور انہوں نے یہ بھی کہا : وأما کون عمر أعاد الضرب علی ولدہ فلیس ذلك حدا وإنما ضربه غضباً وتأدیباً وإلا فالحد لا یکرر ” عمرؓ کا اپنے بیٹے کو دوبارہ مارنا یہ حد نہ تھی بلکہ انہوں نے اس کو غصہ اور تادیب کے طور پر مارا تھا کیونکہ حدود دوبارہ نہیں لگائی جاتی“۔ (مناقب عمر بن الخطاب :۰۷۲)



قلت: اس واقعہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ ذکر کرنا جلده لمكانه منه سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ نے ان کو تادیب کے طور پر کوڑے لگائے تھے۔ حد کے طور پر نہیں۔


تنبیہ
اس قصہ کو ابن سعد نے ایک دوسری سند سے اسلم کی سند سے کافی تفصیل سے روایت کیا ہے۔ جس میں یہ الفاظ بھی ہیں: فكلمه عبد الرحمن بن عوف فقال یا أمير المؤمنين قد أقيم علیہ الحد مرة فما علیہ أن تقيمه ثانیة، فلم یلتفت إلى ھذا وزبرہ فجعل عبد الرحمن یصیح اني مریض وأنت قاتلی فضربه الثانية الحد وحبسه ثم مرض فمات

”عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه نے ان سے بات چیت کی ،کہا کہ امیر المومنین اس پر جب ایک مرتبہ حد قائم کی جاچکی تو آپ دوبارہ کس لیے حد قائم کرنا چاہتے ہیں مگر آپ نے اس بات کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۔ اور ان کو( ابوشحمہ کو) ڈانٹا، انہوں نے چیخنا شروع کردیا کہ میں بیمار ہوں،آپ مجھے مار دینا چاہتے ہیں، سو آپ نے ان پر دوبارہ حد قائم کی اور قید میں بھی رکھا پھر وہ بیمار ہوگئے اور وفات پا گئے۔“( کنز العمال : ۲۱۔۴۶۶‘ ۳۱۰۶۳‘ و منتخب کنز العمال : ۴۔۲۲۴‘ بحوالہ ابن سعد لیکن طبقات ابن سعد کے مطبوعہ نسخے میں مجھے یہ واقعہ نہیں ملا جبکہ ابن جوزیؒ اور حافظ ابن حجر نے بھی اس کو ابن سعد کی طرف منسوب کیا ہے۔)



ان الفاظ سے صراحتا ًپتہ چلتا ہے کہ عمرؓ کا ابوشحمہ کو دوبارہ کوڑے لگانا حد کے طور پر تھا۔اس روایت کی سند کیسی ہے ؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ طبقات ابن سعد کے مطبوعہ نسخے میں مجھے یہ واقعہ نہیں ملا واللہ اعلم ۔ مگر حافظ ابن حجر کے اندازے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن سعد کی ےہ سند صحیح نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اس قصہ کوابن سعد کے حوالے سے ذکر کرنے پر سکوت اختیار کیا ہے۔ اور اس کے بعد اس کے لےے عبد الرزاق کا حوالہ دے کر اس کی سند کو صحیح کہا ہے چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں: وأخرجه عبد الرزاق بسند صحیح عن ابن عمر مطولاً (فتح الباری: ۲۱۔۵۶) ابن سعد والی سند بھی اگر صحیح ہو تو اس سوال کا جواب ہمیں اس روایت سے ہی مل سکتاہے ۔ وہ اس طرح کہ اس روایت میں ہے کہ عمرو بن العاصؓ نے ابو شحمہ اور ان کے ساتھی عقبہ بن حارث کو سرِعام حد لگانے کی بجائے گھر کے اندر ہی حد لگا دی ۔ لہٰذا ممکن ہے کہ عمرؓ نے ان کی اس حد کو حد ہی نہ سمجھا ہو، کیونکہ یہ حد سرِعام حد قائم کرنے کے اسلامی طریقے کے منافی تھی۔لہٰذا انہوں نے دوبارہ اسلامی طریقے کے مطابق حد نافذ کی ہو،اور یہ بھی ممکن ہے کہ راوی نے اس تادیب کو حد سمجھ لیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بعد میں مجھے ابن سعد کی سند مل گئی ، ان کی سند کو حافظ ابن کثیر نے الفاروق (۲۔۸۱۵) میں اور ابن جوزی نے مناقب عمربن الخطاب (۷۶۲۔۸۶۲) میں ذکر کیا ہے اور وہ سند صحیح نہیں ہے بلکہ سخت ضعیف ہے۔


خلاصہ
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ ابو شحمہ کا واقعہ اس حد تک صحیح ہے کہ ان کے والد عمر بن الخطاب ص نے ان کو کوڑے لگائے ، کوڑے لگائے جانے کے بعد ایک ماہ تک وہ بالکل صحیح و تندرست رہے ،اس کے بعد وہ قضائے الہی سے وفات پا گئے جس کا عام لوگوں نے مطلب یہ لیا کہ وہ کوڑوں کی وجہ سے فوت ہوئے ۔اصل قصہ یہ تھا ۔

ابو شحمہ کا غیر صحیح قصہ
مگر قصہ گو لوگوں نے اس میں طرح طرح کے رنگ بھر کر اس کو کچھ کاکچھ بنا دیا، اس رنگ بھرے قصے کو امام جورقانی نے الاباطیل (۲۔۴۸۱‘۲۹۱) میں اور ابن جوزی نے موضوعات (۳۔۹۶۲‘۳۷۲) میں روایت کیا ہے اور وہ کافی طویل قصہ ہے جو تقریباً چار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رنگ بھرے قصے میں ہے کہ ابوشحمہ نے ایک یہودی کے ہاں شراب پی، اس کے بعد راستے میں جانے والی ایک عورت سے زنا بالجبر کیا ۔ جس سے وہ حمل سے ہو گئی جب بچہ پیدا ہوا تو وہ اس بچے کو عمر فاروق ص کے پاس لے کر آئی اور کہنے لگی کہ یہ لو اپنا بچہ، آپ اس کے مجھ سے زیادہ حقدار ہیں،ان کے پوچھنے پر اس نے پوری تفصیل بیان کر دی،تفصیل سن لینے کے بعد آپ ابو شحمہ کے پاس گئے اور ان سے بڑے عجیب وغریب طریقے سے اقبالِ جرم کروایا، اس کے بعد اپنے غلام افلح کو حکم دیا کہ وہ عبد الرحمن کو کوڑے لگائے اور کوڑوں کے دوران باپ بیٹے کا عجیب وغریب مکالمہ بھی مذکور ہے۔ اس قصے کے آخر میں ہے کہ جب نوے کوڑے مارے جاچکے تو ابو شحمہ کا کلام منقطع ہو گیا اور وہ کمزور پڑ گئے تو ہر طرف سے صحابہ آگے بڑھے اور آپ سے باقی دس کوڑے آئندہ کسی وقت لگوانے کا مطالبہ کیا، آپ نے جواب دیا کہ جس طرح معصیت میں تاخیر نہیں ہوتی، اسی طرح اس کی عقوبت میں تاخیر نہیں ہو سکتی۔ اسی دوران ابوشحمہ کی والدہ بھی چیختی چلاتی حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ میں ہر کوڑے کے بدلے پیدل حج کروںگی اور اتنے درہم خیرات بھی کروںگی، آپ باقی کوڑے نہ لگوائیں،انہوں نے جواب دیا کہ حج اور صدقہ حد کے قائم مقام نہیں ہو سکتے۔جب آخری کوڑا لگا تو ابوشحمہ کی روح پرواز کر گئی۔اس کے بعد آپ نے ابو شحمہ کو اپنی گود میں لیا اور رونا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ اللہ تعالی تمہاری خطاوں کو معاف کرے،میرا باپ اس پر قربان ہوجس کو حق نے مار ڈالا،جو حدکے اختتام پر فوت ہو گیا جس پر اس کے باپ اور نہ ہی عزیزواقارب نے رحم کیا۔یہ ایک عظیم دن تھا لوگ زاروقطار روئے۔ اس واقعہ کے چالیس دن بعد جمعہ کی صبح کو حذیفہ بن یمانؓ عمر فاروقؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آج رات میں نے اپنا ورد کیا تو خواب میں مجھے رسولﷺ دکھائی دئیے ، آپ اکے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا، آپ ا نے مجھ سے فرمایا کہ میری طرف سے عمر کو سلام کہنا اور کہنا کہ اللہ تعالی نے تمہیں اسی طرح ہی حکم دیا ہے کہ قرآن پڑھو اور حدود کا نفاذ کرو۔اور اس نوجوان نے کہا کہ میری طرف سے بھی میرے والد کو سلام کہنا اور کہنا کہ جیسے آپ نے مجھے پاک کیا ہے ایسے اللہ تعالی آپ کو بھی پاک کرے والسلام۔



یہ قصہ تین سندوں سے مروی ہے اور ان سندوں میں انقطاع کے ساتھ ساتھ مجاھیل(غیرمعروف) اور کذاب قسم کے راوی ہےں، امام جورقانی ؒ اور علامہ ابن جوزیؒ نے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ اور سیوطی نے ان کی موافقت کی ہے۔اسی طرح شوکانی نے بھی اس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیاہے۔ ( ملاحظہ کریں: اللآلی المصنوعہ : ۲۔۴۹۱‘ ۸۹۱) و (تنزیہ الشریعة لابن عراق: ۲۔۰۲۲) اور ( الفوائد المجموعة للشوکانی :۳۰۲) ۔



علامہ ابن جوزی اس کی سندوں پر مختصر کلام کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ولا طائل في الإطالة بجرح رجاله فإنه لو کان رجاله من الثقات علم أنه من الدساسین لما فيه مما يتنزه عنه الصحابة فکیف ولیس إسناده بشيء ”اس کے راویوں کی جرح کی تفصیل میں جانے کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ اس کے راوی اگر ثقہ بھی ہوں تب بھی اس کا جھوٹے لوگوں کی طرف سے وضع کرنا اور گھڑنا واضح ہے۔کیونکہ اس کے اندر ایسی چیزیں ہیں جن سے صحابہ مبرا اور پاک تھے۔ کیسے جبکہ اس کی سند کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے“۔



اس سے قبل انہوں نے اس قصہ کو روایت کرنے کے بعد لکھا ہے: ھذا حدیث موضوع، کیف روي، ومن أي طریق نقل؟ وضعه جہال القصاص لیکون سبباً في تبکیت العوام والنساء، فقد أبدعوا فيه وأتوا بکل قبیح و نسبوا إلى عمر ما لا یلیق به، ونسبوا إلى الصحابة ما لایلیق بهم وكلمته الرکیکة تدل علی وضعه وبعده عن أحكام الشرع یدل علی سوءفھم واضعه وعدم فقهه ۔۔۔ إلى آخر كلامه

”یہ حدیث جس طرح اور جس سند سے بھی منقول ہو موضوع اور من گھڑت ہے ،قصہ گو لوگوں نے عوام الناس اور عورتوں کو رلانے کی خاطر گھڑا ہے،اس کے اندر انہوں نے بڑی فنکاری کا مظاہرہ کیا ہے،اور اس میں ہر قبیح چیز کو ذکر کیا ہے ۔ عمر اور صحابہ کی طرف انہوں نے ایسی چیزیں منسوب کر دی ہیں جو ان کی شایانِ شان نہ تھیں۔ اس کے رکیک اور پھسپھسے کلمات اس کے من گھڑت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔اور اس کا احکامِ شریعت سے بعید ہونا اس کے گھڑنے والے کے سوءِفہم اور عدمِ فقاہت پربھی دلالت کرتا ہے۔ “



امام جورقانی ؒیہ ذکر کرنے کے بعد کہ اس کو قصہ گو لوگوں نے گھڑا ہے ،لکھتے ہیں: فنعوذ بالله من الکذب والبھتان والنفاق والخذلان….”جھوٹ ، بہتان ، نفاق اور رسوائی سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں“ ۔



اسی پر یہ مضمون اپنے اختتام کو پہنچا ، اس موضوع پر اردو اور عربی زبان میں میرا ایک مستقل رسالہ بھی ہے جس میں بعض امور کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے مگر تاحال یہ رسالہ طبع نہیں ہوا ،اردو اور نہ ہی عربی رسالہ۔



یہ مضمون یہاں سے لیا گیا ہے۔ اور اس کی فارمیٹنگ دوبارہ کی گئی ہے۔
http://www.misbahmagazine.com/archives/1051
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
411
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابوشحمہ نامی فرزند تھے؟



سوال :

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1)حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کوئی ابو شحمہ نامی فرزند تھے۔٭

(2)اثبات میں جواب ہوتو کیا یہ قصہ بقول مرشد مصنفہ (زین الدین مخدوم) منتقی ،ذکر الموت ،تاریخ الخمیس ،الریاض النضرہ،حیاۃ الحیوان الکبریٰ ،تاریخ ابن قتیبہ ،قصہ ابوشحمہ (اردو) قصہ ابوشحمہ (عرب تامل)واکثر کتب۔
کسی عورت سے زنا بالجبر کے ارتکاب جرم پر ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازروئے شرع حد زنا جاری کیا ،جس میں ان کی موت واقع ہوئی ۔صحیح ہے؟۔

(3)بقول اکثر علماء یہ قصہ شیعہ (رافضی) کی افتراپردازی ہے ،تاکہ وہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو موردلعن و طعن قرار دے کر اپنی فطری عداوت کا ثبوت دیں۔

(4)اگر اہل تشیع کی افتراپردازی ہو،تو یہ قصہ کس زمانہ میں وقوع پذیر ہوا؟۔



الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1)بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک فرزند ابو شحمہ نامی تھے۔ان کا نام عبدالرحمن الاوسط ہے ،چوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تین صاحبزادوں کا نام عبدالرحمن ہے اس لئے بغرض امتیاز بڑے لڑکے کو عبدالرحمٰن الاکبر،اور مجھلے لڑکے کو عبدالرحمن الاوسط(جن کی کنیت ابوشحمہ ہے )اور چھوٹے لڑکے کو عبدالرحمٰن الاصغر کہتے ہیں۔
(2)حضرت ابوشحمہ کے زنا بالجبر کا قصہ اور اس ارتکاب حرام پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حد جاری کرنے کا قصہ بالکل جھوٹا،باطل ،گھڑا ہوا ،بناوٹی ہے۔اس قصہ کی کوئی اصلیت نہیں ہے،یہ ایک بازاری گپ ہے۔
(4،3) میرے خیال میں یہ قصہ روافض کا گھڑا اور بنایا ہوا نہیں ہے،بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دشمنوں اور دوستوں دونوں نے مل کر اس قصہ کو گھڑا ہے،بلکہ وجدان تو یہ کہتا ہے کہ یہ صرف ان صوفیوں اور داستان گو واعظوں کی گھڑی ہوئی کہانی ہے،جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی محبت میں،ان کی حق گوئی ،عدل پروری ،انصاف پسندی ،خشیت الہیٰ ،عمل بالقرآن ،اجراء حدود الہیہ میں شدت،تصلب فی الدین،دین کے معاملہ میں لومۃ لائم سے بے خوفی اور عزیز و اجنبی کے ساتھ ان کے یکساں برتاو ظاہر کرنے کے لئے ،یہ لمبی داستان وضع کی ہے۔تاکہ شیعان علی اور دشمنان فاروق تبرائیوں کے مقابلہ میں حضرت عمر کی عظمت و شان نمایاں کریں۔ اپنے خیال میں اس نیک مقصد (اظہار منقبت عمر) کے لئے انہوں نے ایک درد انگیز رقت آمیز حکایت وضع کرڈالی ،جس سے شیعان علی کو بھی ایک گونہ فائدہ پہونچ گیا یعنی یہ کہ نعوذ باللہ عمر فاروق کی اولاد فاسق و فاجر تھی اور مثل مشہور ہے
یہ قصہ اس زمانہ میں گھڑا گیا ہےجب خلافت بنو امیہ اور اس کے بعد کے دور میں شیخین رضی اللہ عنہما کے خلاف سب و شتم ،لعن و طعن کا دروازہ کھل گیا تھا اور فریقین نے ایک دوسرے کے بزرگوں کو برابھلا کہنا اور اپنے بزرگوں کی منقبت بیان کرنا،ایک دینی کام تصور کرلیا تھا،اور محبان فاروق کا ان کے متعلق مظہر منقبت اور رقت انگیز حکایت گھڑ لینا کچھ بھی مستعبد نہیں ہے،جب کہ محبان رسول زاہدوں اور صوفیوں اور داستان گو واعظوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق بے شمار حدیثیں گھڑ کر ان کی طرف منسوب کردیں۔
اس قصہ کو تمام محقق اور معتبر ائمہ دین نے بالاتفاق بناوٹی قرار دیا ہے،چنانچہ حافظ ابن حجر صاحب فتح الباری شرح صحیح بخاری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
"ابوشحمہ بن عمر بن الخطاب کےمتعلق جو واقعہ مروی ہے کہ عمر فاروق نے زنا کے جرم میں ،ان پر حد قائم کی،جس سے ابو شحمہ کا انتقال ہوگیا،یہ روایت بالکل ناقابل اعتبار ہے۔"
اور علامہ سیوطی میں پہلے سعید بن مسروق کے طریق سے اس قصہ کو مختصر طورپر ذکر کرکےلکھتے ہیں
"یہ قصہ من گھڑت ہے ،افسانہ سراون نے گھڑ لیا ہے اس روایت کی سند میں بہت سے مجہول راوی ہیں"
پھرمجاہد عن ابن عباس کے طریق سے بروایت شیرویہ بن شہریار ویلمی تقریبا دو صفحہ میں اس قصہ کو لکھ کر یہ تحریری فرماتے ہیں: (موضوع فيه مجاهيل قال الدار قطنى حديث مجاهد عن ابن عباس فى حديث ابى شحمة ليس بصحيح وقدر ورى من طريق عبدالقدوس بن الجاج عن صفوان عن عمر وعبدلقدوس كذاب يضع وصفوان بينه وبين عمر رجال انتهي)
"اس واقعہ کی کوئی اصلیت نہیں ۔دارقطنی نے کہا ہے کہ ابوشحمہ کا واقعہ جھوٹا ہے۔"
اور علامہ محمد طاہر فنتی تذکرۃ الموضوعات (108) اور خاتمہ مجمع البحار 3/517 میں لکھتے ہیں
(حديث ابى شحمة ولد عمر رضى الله عنه وزنا ه وقامه عمر عليه االحدو وموته بطوله لايصح بل وضعه القصاص انتهى)
"عمر فاروق کے بیٹے ابو شحمہ کا یہ واقعہ کہ زنا کے جرم میں عمر بن الخطاب نے ان پر حد قائم کی ،جس سے ان کی موت واقع ہوئی بالکل جھوٹا قصہ ہے،"
اور علامہ شوکانی الفوائد المجموعہ ص:125 میں لکھتے ہیں:
(حديث عمر اقام الحد على ولدله يكنى اباشحمة بعد موته فى قصة طويله موضوع انتهى)
"ابوشحمہ عمر کے بیٹے کے ارتکاب زنا کا قصہ جھوٹا ہے"۔
(المعارف لابن قتيب ابوشحمة)کےزنا بالجبر اور حد جاری کئےجانے کا قصہ قطعا مذکور نہیں ہے۔اس لئے اس کا حوالہ دینا فریب دہی ہے۔"تاریخ الخمیس"ص 280 میں زنا بالجبر اور حد جاری کئے جانے کا قصہ شیرویہ بن شہریار ویلمی کی "کتاب المتقی" کے حوالہ سے ذکر کیا ہے۔اور "الریاض النضرہ" میں بھی انہی ویلمی کی "المنتقی" کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔اور یہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ ویلمی وغیرہ کا یہ روایت کردہ قصہ باطل اور جھوٹا ہے۔"طبقات ابن سعد"میں بھی زنا کرنے اور حد جاری کئے جانے کی حکایت مذکور نہیں ہے۔
اس قصہ کے متعلق صرف اس قدر صحیح ہے کہ خلافت فاروقی میں جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مصر کے گورنر تھے ،ابو سروعۃ بدری صحابی اور ابوشحمہ عبدالرحمن الاوسط بغرض جہاد مصر گئے ۔ان دونوں بزرگوں نے ایک رات نبید نوش کیا (کھجور یا کشمش پانی میں بھگو دیا کرتے اور جب اس کی مٹھاس پانی میں آجاتی اور پانی شربت کی طرح میٹھا ہوجاتا تو اس کو بغیر جوش دئے ہوئے ،قبل اس کے کہ اس میں نشہ پیدا ہو شربت کی جگہ استعمال کرتے ۔اس کو باصطلاح شرع"نبید" کہتے ہیں۔اور شرعا اس کے استعمال میں جب تک اس میں سکر کا احتمال نہ ہو،کوئی کراہت نہیں ہے۔آں حضرت ﷺ نے خود بارہا ایسی نبید یعنی یہ شربت نوش فرمایا ہے
(ابوداود وغیرہ)
ان دونوں بزرگوں نے اس "نبید" کو غیر مسکر سمجھ کر استعمال کرلیا۔پینے کے بعد معلوم ہوا کہ نبید دیر کی تھی،او اس میں اسکار کی شان پیدا ہوگئی تھی۔ظاہر ہے کہ دونوں بزرگوں نے دیدہ و دانستہ قصدا نشہ آور چیز استعمال نہیں کی تھی،بلکہ غلطی اور بے احتیاطی سے اس نبید کو جس میں اسکار کا اثر آگیا تھا،غیر مسکر سمجھ کر استعمال کیا تھا،اس بنا پر وہ شرعا مستحق و مستوجب حد شرب خمر نہیں تھے۔اس کوتاہی اور بے احتیاطی پر صرف توبہ و ندامت کافی تھی۔لیکن ان دوونوں بزرگوں نے اپنے کمال ورع و تقویٰ کی بنا پر اپنے نفس کو تنبیہ دینے اور اس بے احتیاطی کے جرم سے پاک ہونے کے لئے گورنر مصر کے سامنے اپنے کو پیش کردیا،اور اپنے اوپر شراب کی حد جاری کئے جانے پر اصرار کیا۔گورنر مصر نے محض ان کے اصرار کا خیال،اپنے مکان کے احاطہ میں ،جہاں ہر مسلم و غیر مسلم پر حد شرعی جاری کرتے تھے ،شراب کی حد دونوں بزرگوں پر جاری کردی۔شدہ شدہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوگیا،دربار خلافت سے گورنر مصر کو اس مضمون کی تہدید آمیز چٹھی پہونچی کہ تم نے عبدالرحمن کے ساتھ یہ رعایت کیوں کی یعنی اپنے گھر میں حد کیوں جاری کی؟عام مسلمانوں کی طرح برملا حد جاری کرنا چاہے تھے۔عبدالرحمن کو فورا میرے پاس روانہ کرو۔جب یہ مدینہ پہونچے تو حضرت عمر نے اس غفلت اور بے احتیاطی پر تنبیہ کرنے کے لئے ،جوان سے نبید کو بغیر تحقیق و دیکھ بھال کے پی لینے میں ہوئی تھی کچھ سزادی۔اس کے بعد وہ اتفاق سے بیمار پڑے او ر وفات پاگئے ۔بس صرف یہ ہے قصہ کی اصل۔
حافظ ابن عبدالبر الاستیعاب 2/403 میں لکھتے ہیں:
(وعبد الرحمن بن عمر الأوسط، هو أبو شحمة، هو الذي ضربه عمرو بن العاص بمصر في الخمر، ثم حمله إلى المدينة، فضربه أبوه أدب الوالد، ثم مرض ومات بعد شهر، هكذا يرويه معمر عن الزهري، عن سالم، عن أبيه.
وأما أهل العراق فيقولون: إنه مات تحت سياط عمر، وذلك غلط. وقال الحافظ فى الاصابة4/104بعد ذكر قو ل ابن عبدالبر وقد اخرج عبدالرزاق القصة موصولة عن معمر بالسند المذكور وهو صحيح انتهى وقال الجزرى فى اسد الغابة3/316مثل ماقال ابن عبدالبر
"گورنر مصر عمروبن العاص نے عمر فاروق کے بیٹے ابوشحمہ کو ایسی نبید جس میں نشہ کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اس کے پینے کی وجہ سے حد لگائی گئی تھی،پھر جب ابوشحمہ مدینہ بھیجے گئے تو عمر فاروق نے ادب اور تنبیہ کے طور پر کچھ سزا دیا،اس کے بعد اتفاق سے ابوشحمہ بیمار ہوگئے اور ایک ماہ کے بعد انتقال کرگئے۔یہی واقعہ کی اصلیت ہے"۔
(وَالَّذِي ورد فِي هَذَا مَا ذكره الزُّبَير بْن بكار وَابْن سَعْد فِي الطَّبَقَات وَغَيرهمَا أَن عَبْد الرَّحْمَن الْأَوْسَط منْ أَوْلَاد عُمَر ويكنى أَبَا شحمة كَانَ بِمصْر غازيًا فَشرب لَيْلَة نبيذًا فَخرج إِلَى السكر فجَاء إِلَى عَمْرو بْن الْعَاصِ فَقَالَ أقِم عَلَى الْحَد فَامْتنعَ فَقَالَ لَهُ أخبر أَبِي إِذا قدمت عَلَيْهِ فَضَربهُ الْحَد فِي دَاره وَلم يُخرجهُ فَكتب إِلَيْهِ عُمَر يلومه ويَقُولُ أَلا فعلت بِهِ مَا تفعل بِجَمِيعِ الْمُسلمين فَلَمَّا قدم عَلَى عُمَر ضربه وَاتفقَ أَنَّهُ مرض فَمَاتَ.)
"ابوشحمہ مصر میں بغرض جہادگئے ہوئے تھے،ایک رات بد احتیاطی سے ایسی نبید پی لی جس میں سکر (نشہ ) آچکا تھا۔جب ان کو محسوس ہو،تو کمال ورع اور تقویٰ کے تقاضا سے عمرو بن العاص گورنر مصر کے پاس آئے اور کہا مجھ پر حد جاری کیجئے۔چونکہ نادانستہ طور پر پی تھی،اس لئے گورنر نے حد جاری کرنے سے انکار کردیا۔یہ سن کر ابوشحمہ نے کہا اگر آپ حد نہیں جاری کرتے ہیں تو عمر فاروق کو میں اس کی خبر کروں گا ،گورنر نے مجبور ہوکر ان پر اپنے گھر میں حد لگائی۔جب عمر بن الخظاب کو خبر ہوئی تو گورنر کو لکھا کہ تم نے میرے بیٹے پر سر مجلس حد کیوں نہیں لگائی۔آخر جب ابو شحمہ مدینہ گئے تو عمر فاروق نے بھی ادب دلانے کے لئے کچھ سزا دی۔اتفاق سے اس کے بعد ہی ابوشحمہ بیمار پڑے اور انتقال کرگئے۔"
(«أَبِي شَحْمَةَ وَلَدُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَزِنَاهُ وَإِقَامَةُ عُمَرَ عَلَيْهِ الْحَد وَمَوته» بِطُولِهِ لَا يَصح بل وَضعه الْقصاص، وَالَّذِي ورد مَا رُوِيَ «أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ الأَوْسَطَ مِنْ أَوْلادِ عُمَرَ وَيُكْنَى أَبَا شَحْمَةَ كَانَ غَازِيًا مَضَى فَشَرِبَ نَبِيذًا فَجَاءَ إِلَى ابْنِ الْعَاصِ وَقَالَ أَقِمْ عَلَيَّ الْحَدَّ فَامْتَنَعَ فَقَالَ إِنِّي أُخْبِرُ أَبِي إِذَا قَدِمْتُ عَلَيْهِ فَضَرَبَهُ الْحَدَّ فِي دَارِهِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ يَلُومُهُ فَقَالَ أَلا فَعَلْتَ بِهِ مَا تَفْعَلُ بِالْمُسْلِمِينَ فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى عُمَرَ ضَرَبَهُ وَاتَّفَقَ أَنْ مَرِضَ فَمَاتَ)
محمد طاہر فتنی نے بھی لکھا ہے کہ :"ابو شحمہ جہاد کے لئے مصر گئے ہوئے تھے کسی رات نبید پی لی جس میں سکر آچکا تھا ،آخر عمر وبن العاص گورنر مصر سے اصرار کہ مجھ پر شراب پینے کی حد جاری کیجئے ۔گورنر نے حد جاری کردی،جب مدینہ گئے تو آپ کے والد بزرگوار حضرت عمر نے بھی تنبیہ کے لئے کچھ سزا دی ،اتفاقیہ اس کے بعد بیمار ہوگئے جس میں انتقال بھی ہوگیا"۔
(وكذا ذكر العلامة الشوكانى فى الفوائد المجموعة ص:125وقدعقد العلامة ابن الجوزى فى سيرة عمربن الخطاب ص236بابا فى ذكرضربه لولده على شرب الخمر وارد فيه اولارواية طويلة فى ذلك ثم ذكر من رواية الزهرى عن سالم بن عبدالله عن عبدالله بن عمر انه جلد عمروبن العاص ابا سروعة وعبدالرحمن بن عمر على شراب سكرامنه فسمع عمر بن الخطاب بان عمروبن العاص اقام الحد على عبدالرحمن فى صحن داره فكتب الى عمر وان ابعث الى بعبدالرحمن بن عمر على قتب ففعل ذلك عمر فلما قدم عبدالرحمن على عمر جلده وعاقبه من اجل مكانه منه ثم ارسله فلبث شهر صحيحا ثم اصاب قدره فيحسب عامة الناس انه مات من جلد عمر ولم يمت من جلده
قال ابن الجوزى: "ولا ينبغي أن يظن بعبد الرحمن أنه شرب الخمر، إنما شرب النبيذ متأولاً، فظن أن ما شرب منه لا يسكر، وكذلك أبو سروعة، فلما خرج الأمر بهما إلى السكر طلبا التطهير بالحد، وقد كان يكفيهما مجرد الندم، غير أنهما غضبا لله تعالى على أنفسهما المفرطة، فأسلماها إلى إقامة الحد، وأما إعادة عمر الضرب؛ فإنما ضربه تأديباً لا حدايكرر وقد اخذ الحديث قوم مين القصاص فابد وافيه واعادوا فتارة يجعلون هذا الولد مضروبا على شرب الخمر وتارة ا على الزنا ويذكرون الكلام رققا يبكى العوام لايجوز ان يصدر من مثل عمر وقد ذكرت الحديث بطريقه فى كتاب الموضات ونزهت هذا الكتاب عنه انتهى مختصرا".
علامہ ابن الجوزی نے اس سلسلہ میں ایک باب باندھا ہے ،جس میں لکھا ہے کہ "بدری صحابی ابوسروعہ اور ابوشحمہ دونوں کو گورنر مصر عمرو بن العاص نے مسکر نبید کے پینے پر گھر کے صحن میں حد ماری تھی،جب عمر بن الخطاب کو خبر ہوئی تو گورنر کو لکھا کہ ان کو بھیج دو،چنانچہ جب ابو شحمہ مدینہ گئے تو عمر فاروق نے بھی سزا دی ۔اس کے بعد ایک ماہ تک بالکل تندرست رہے۔بالاخر اتفاقیہ بیماری پڑے اور انتقال کرگئے،لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ عمر فاروق کے کوڑا مارنے سے مرے ہیں(حالانکہ یہ غلط ہے)۔
ابن الجوزی نے یہ بھی لکھا ہےکہ یہ بات بہت ہی بعید ازقیاس ہے کہ ابوسروعہ صحابی بدری جیسے عظیم المرتبت بزرگ ،ابو شحمہ جیسے فرزند ارجمند دانستہ شراب پیئں ،فی الحقیقت ان بزرگوں نے نبید بی تھی،جس میں سکر (نشہ) آگیا تھاجس کا ان کو علم نہ تھا،جب معلوم ہوا،تو کمال تقویٰ کی وجہ سے حد قائم کرانے پر مصر ہوئے ۔اگرچہ اس نادانستہ گناہ پر توبہ اور اظہار ندامت کافی تھی۔واعظوں اور افسانہ سراوں نے اس واقعہ کو عجیب رقت انگیز طرز،پر رونے دولانے کےلئے بیان کیا ہے۔کبھی بتاتے ہیں کہ ارتکاب زنا کے جرم میں ،اور کبھی کہتے ہیں کہ شراب پینے کی وجہ سے انہیں عمررضی اللہ عنہ نے مارا تھا، جس سے ان کی موقت واقع ہوئی ۔بہر کیف اصلیت وہی ہے جو لکھی گئی انتہیٰ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری
جلد نمبر 2۔کتاب جامع الاشتات والمتفرقات
صفحہ نمبر 527
محدث فتویٰ




۔
 
Top