• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اتحاد ملّت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ہمارے ایک محترم ساتھی نے اتحاد ملت کے عنوان سے ایک مختصر تحریر لکھی جسے تجاویز کے پس منظرت میں دیکھا جایے تو بہت مفید نظر آتی ہے سو حاضر خدمت ہے
بسم اﷲالرحمن الرحیم
الحمد لولیہ والصلوۃ والسلام علی نبیہ اما بعد
’’ اتحاد ملّت‘‘ ایک ایسا موضوع ہے جس کا مسلم اُمّہ کے عروج و زوال سے گہرا تعلق ہے اور غلبۂ اسلام و مسلم امّت کے مستقبل کے لئے ’’ اتحاد امّت‘‘ ہر دور میں ایک اہم و بنیادی ضرورت رہا ہے سقوط بغداد، غرناطہ، قرطبہ، برصغیر کی مغلیہ سلطنت، مشرقی پاکستان اور ماضی قریب میں فلسطین ، بوسنیا، کشمیر ، آرٹیریا، افغانستان میں اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی کا تعلق بھی باہمی انتشار وافتراق وسازشوں کا ہی نتیجہ ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں امت مسلمہ کے باہمی اتحاد واتفاق پربہت زور دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ ’’ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو‘‘ (القرآن) اور احادیث مبارکہ میں بھی کثرت سے باہمی اتحاد اور اتفاق کی ترغیب دی گئی ہے اور انتشار و تفرقہ پر بڑی وعید کی گئی ہے۔
زیر نظر کتابچہ ’’ اتحاد ملت وعلماء کرام ‘‘ میں بھی ہمارے جماعت کے فاضل نوجوان محترم جناب حشمت اللہ صاحب نے اس اہم موضوع پر اپنے گراں قدر خیالات پر مبنی مقالہ تحریر کیا ہے جسے اہل علم کے حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی اور متعدد اہل علم، علماء کرام، سیاستدان، دانشور، قومی اخبارات ودینی رسائل وجرائد نے مصنف کی ان کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے سراہا ہے اور اخبارات ورسائل نے اپنے تائیدی تبصرے شائع کئے ۔ میں بھی اس کتابچہ کے حوالے سے جناب جشمت اللہ صاحب کی ’’ اتحاد ملت ‘‘ کے لئے ان کی تحریری کاوشوں کا معترف ہوں اور انہیں اس اہم مسئلہ پر ان کی تحریری خدمات پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی جماعت کی جانب سے دعوت اتحاد کے مقدس مشن میں انہیں کامیاب کرے (آمین)
(مولانا) عبدالرحمن سلفی
امیر جماعت غرباء اہل حدیث پاکستان
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تبصرہ
مکرمی ومحترمی جناب حشمت اللہ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۲ نومبر اتحاد ملت اور علماء کرام ، کتابچہ کے ساتھ ملا جس کے لئے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان جس نازک دور سے گزر رہا ہے اور جس طرح فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دی جارہی ہے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد کی کوششیں تیز کی جائیں اور اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود علماء کرام ہی پر عائد ہوتی ہے ۔ میں آپ کی کامیابی کیلئے دعا گو ہوں ۔
والسلام
احقر
(عبدالغفور احقر)
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تبصرہ
مکرمی ومحترمی جناب حشمت اللہ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۲ نومبر اتحاد ملت اور علماء کرام ، کتابچہ کے ساتھ ملا جس کے لئے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان جس نازک دور سے گزر رہا ہے اور جس طرح فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دی جارہی ہے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد کی کوششیں تیز کی جائیں اور اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود علماء کرام ہی پر عائد ہوتی ہے ۔ میں آپ کی کامیابی کیلئے دعا گو ہوں ۔
والسلام
احقر
(عبدالغفور احقر)
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تبصرہ
مکرم ومحترم جناب حشمت اللہ صاحب
ناظم جماعت غرباء اہل حدیث زون ویسٹ کراچی
السلام وعلیکم ورحمۃاﷲ وبرکاتہ
آپ کے خط مورخہ ۴ دسمبر کا شکریہ۔ ’’ اتحاد ملت اور علماء کرام کے عنوان سے اس موضوع پر آپ کا مقالہ میں نے پڑھا اورمجھے آپ سے پوری طرح اتفاق ہے کہ فروعی اختلافات سے صرف نظر کرکے قرآن وسنت کی رہنمائی میں دین کے بنیادی اصولوں پر جب تک ہمارے علماء کرام متفق نہ ہوں گے اس وقت تک امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ ممکن نہ ہو سکے گی۔ ہم خود بھی اسی مقصد کے لئے جدو جہد میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ والسلام
خیر اندیش
محمود اعظم فاروقی (مرحوم)
امیر جماعت اسلامی کراچی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تبصرہ
محترم مدیر شعبہ تبلیغ جماعت غرباء اہل حدیث محمدی مسجد شارع محمد بن قاسم کراچی
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ
ہفتہ وار تکبیر کراچی میں محترم جناب حشمت اللہ صاحب کے کتابچہ ’’ اتحاد ملت اور علماء کرام ‘‘ کا ایک مختصر سا تبصرہ نظر نواز ہوا معلوم ہوتا ہے کہ کتابچہ مذکورہ ملت اسلامیہ کے اتحاد کی عمدہ اپیل ہے ۔ اُدع إلی سبیل ربک …الخ کی ادنی مگر مفید تر کوشش ہے۔
محترم عرصہ دوسال سے میں ایک ایسے پسماندہ علاقہ میں اصلاحی اور دینی کام میں مصروف ہوں جہاں دینی کارسے لوگ زیادہ تر ناواقف ہیں۔ اصلاح المسلمین السلفیہ دینی ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے مگر ہر چہار جانب امت مسلمہ پر شرک وبدعت کی کافی حد تک سرایت کئے ہوئے ہیں بلفضلہ تعالی بتدریج قرآن وسنت سے دلچسپی ہو رہی ہے۔
اصلاحی اور سلفی کتب اور رسائل وجرائد کی سخت ضرورت ہے ۔ لہذا ہم گزارش کریں گے کہ کتاب ’’ اتحاد ملت اور علماء کرام‘‘ نیز اس طرح کی دیگر سلفی کتب اور رسائل وجرائد نیز مفید مشوروں سے نوازیں گے تاکہ قرآن اور سنت کے مطابق ہر کلمہ گو کی زیست کو سنوارا جا سکے اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ہرفرد ملت کو اسلام خالص کی توفیق عطا فرمائے۔
امید ہے کہ آپ مع ارکان جماعت بخیر ہوں گے۔
والسلام
آپ کا اسلامی بھائی
عبدالرحیم الفیضی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصلاح المسلمینلمنبی انچل نیپال
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’’ اتحاد ملت وعلماء کرام‘‘
مشہور محقق پروفیسر ٹی۔ ڈبلیو ۔آرنلڈ نے مسیحت کے زوال کے وقت مسیحی فرقوں اور علماء کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ ایک فرقہ دوسرے فقہ کا مخالف تھا ور مسیحی علماء ایک دوسرے کے ساتھ دینی عقائد کے نہایت دقیق مسائل پرلڑرہے تھے اور مذہبی اختلافات کی خرابیاںا س قدر بڑھ چکی تھیں کہ ایک فرقہ دوسرے فرقہ کو زیر ہونے سے خوش ہوتا تھا۔ بہت سے ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے ایمان کو ان مسلسل مباحثوں نے متزلزل کردیا ہوگا۔ لہذہ یہ امر باعث تعجب نہیں کہ ہزاروں لوگوں نے ان متواتر مباحثوں سے پریشان وبیزار ہو کر توحید الہی کے سیدھے سادھے عقیدہ میں پنا ہ لی ۔‘‘ (از دعوت اسلام ترجمہ پرییچنگ آف اسلام ۷۴ بحوالا لاطینی عیسائیت کی تاریخ ج ۲ ص ۱۱۶)
آج ملت اسلامیہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو مسلمانوں کے زوال وپستی میں بھی یہی کچھ اسباب نظر آئیں گے جن کو کہ پروفیسر آرنلڈ نے مسیحی قوم کے زوال کا باعث گردانا ہے۔ اندلس ، سقوط بغداد، مغلیہ سلطنت کا زوال اور سقوط ڈھاکہ میں مسلم امت کے مذہبی انتشار و تفرقہ بازی ، سیاسی افراتفری ، تعصب ومنافرت اور غداری ومنافقت کی دلخراش داستان پنہاں ہے۔ جامع مسجد قرطبہ کے محراب ومنبر، بغداد کی علمی جلالت قدر اور مغلیہ سلطنت کی بھولی بسری یادگاریں آج بھی مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیکن مسلمانوں کی باہمی نااتفاقی وانتشار کے باعث مسلمانوں کی شان شوکت کی منہ بولتی یادگاریں اور سنہری ادوار کی تاریخی روائتیں آج تاریخ کی گم گشتہ داستانوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں جن کاتذکرہ آج بھی خون کے آنسو رلاتا ہے لیکن حقیقت وتاریخ کا انکار ناممکن ہے
؎ مرادر دیست اندر دل اگر گوئیم زباں سوزد
اگر دم درکشم تر سم کہ فنر استخواں سوزد
قوموں کا عروج وزوال ایک قدرتی عمل ہے جو کہ ان کی اصلاح واحوال کے لئے قدرت کی طرف سے ایک موقعہ فراہم کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے ۔ فکر وبصیرت رکھنے والی قومیں تاریخ کے ان اتار چڑھاؤ سے عبرت حاصل کرتی ہیں اور وہی قومیں تاریخ میں زندہ وجاوید رہتی ہیں جو کہ اپنے ماضی کو اپنی اصلاح کا ذریعہ بناتی ہیں اور مسلسل و انتھک جدو جہد کرکے ترقی وکامرانی کی منزل سے ہم کنار ہوتی ہیں تاریخ میں ایسی قوموں کا ذکر موجود ہے جو کہ زوال پذیر تھیں لیکن انہوں نے اپنی اصلاح کی اور جلد ہی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلیا اور وہ ایک مربتہ پھر بام عروج پر پہنچ گئیں لیکن جب ہم دیگر ترقی یافتہ قوموں کے مقابلے میں مسلم قوم کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس ضمن میں مایوسی وناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ہم دیکھ رہے کہ کہ روز بروز عفلت وبے حسی کے باعث اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے بجائے یہ قوم مزید کچھ گنوا بیٹھی ہے ہمار امذہبی ، ملی وقومی احساس ختم ہوتا جارہا ہے۔ ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
مسلم امت کا مقام ومرتبہ پچھلی تمام امتوں وقوموں سے بلند وبالا رکھا گیا ہے اسے ’’خیر الامم ‘‘ اور ’’ امت واسطہ‘‘ کے نام سے پکار ا گیا ہے اس کی رہنمائی وہدایت کیلئے براہ راست اللہ تعالی اپنے کتاب ’’ قرآن مجید‘‘ کو نازل فرمایا اور اسے صحیح راستہ دکھانے کے لئے خاتم النبیّن ہادئ کائنات حضرت محمدﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ دین حق (اللہ کی شریعت) اس امت کے ذریعے تما م ادیان پر غالب کردیا جائے اسے دوسری قوموں کے لئے مینارئہ نور کی حیثیت دی گئی قرآن میںاس کی کامیابی اور کامرانی کی بشارت دی گئی اور دنیا کی دیگر قوموں کی امامت کرانے کی نویدسنائی گئی۔ ؎ سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جس قوم کے ذمے دنیا کی قوموں کی امامت کرنے کا فریضہ عائد ہوتا تھا وہ خود سیاسی ، معاشرتی ، اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے غیر اقوام کی دست نگر بنتی جارہی ہے اس کا شیرازہ منتشر ہے آج کثرت تعداد کے باوجود اس کے مقدس مقامات غیر مسلموں کے قبضے میں ہیں دنیا کے ہر ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں غیر مسلموں کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار ہو رہے ہیں آج ان کے وجود کو چاروں طرف سے خطرہ لاحق ہے پوری مسلم قوم کو طرح طرح کے مسائل و مشکلات کا سامنا ہے امت مسلمہ کی اس ذلت وپستی اور زبوں حالی کی آخر کیا وجوہات ہیں کیا کبھی ہم نے غور وفکر کیا کہ ہماری دینی، ملی وقومی حالت کی اس صورت حال پر پہنچنے کی کون سی لغزشیں ہیں جو کہ ہم سے صادر ہوتی رہیں اگر ہم اپنے ماضی کو تاریخ و اقعات کی روشنی میں اس کا جواب ڈھونڈیں تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہماری اس پستی وذلت اور زبوں حالی کی اصل وجہ قرآن کے احکامات وفرامین کو پش پشت ڈال کر ہمارا باہمی انتشار وافتراق میں مبتلا ہونا ہے۔
چنانچہ مسلم اتحاد کے عظیم داعی علامہ سید جمال الدین افغانی ؒ فرماتے ہیں کہ
’’ ان لوگوں نے اللہ تعالی کے حکم کو پس پشت ڈالا۔ دشمن ان کے دروازوں پر کھڑا تھا اور یہ اختلاف کی آگ میں جل رہے تھے ۔ مسلمانوں کی اس غفلت اور افتراق سے قوت ضعف سے بدل گئی ۔ نظام درہم برہم ہوگیا۔ فکر کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی۔ مادی قوت ریزہ ریزہ ہوگئی۔‘‘ (از مقالات افغانی، ترجمہ عربی)
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
ہمیں قرآن نے کامیابی وکامرانی کا عظیم نکتہ باہمی اتحاد واتفاق بتایا تھا اور حکم دیا تھا کہ:۔
(ترجمہ) ’’ اللہ کی رسی (دین) کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘ (القرآن)
کیونکہ پچھلی قومیں اللہ کے دین میں جھگڑے اور خصومت اور باہمی اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں ہیں فرقہ بندی کی سختی سے ممانعت کردی گئی اور اس کے تباہ کن نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ
(ترجمہ) ’’ خبردار ! تفرقہ (جھگڑا) نہ پیدا کرو ورنہ تمہاری قوت جاتی رہے گی۔‘‘ (القرآن)
اگر دنیا واخروی کامیابی ونجات چاہتے ہو تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور آپس میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرو اور بھائی بھائی بن کر رہو اور ایک امّتِ واحدہ کی شکل اختیار کرلو تاکہ تم اللہ کی رحمت و نصرت کے مستحق بن سکو۔ ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابہ خاک کاشغر
لیکن آج قرآن کی ان واضح ہدایات کے برخلاف ہم افتراق وانتشار کی لعنت میں جکڑے ہوئے ایک خدا، ایک رسولﷺ اور ایک قرآن کے ہوتے ہوئے ہمارے اندر لاتعداد فرقے، گروہ اور دھڑے موجود ہیں ہم ذات ، برادری کی تفریق میں مبتلا ہیں جن برائیوں کو امت کے زوال اورترقی کی راہ میں رکاوٹ بتایا گیا ہے وہ برائیاں ہم میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ؎
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
ہمارے علمائے امت جو کہ وارثان انبیاء اور حاملان محراب منبر کہلاتے ہیں امت میں جن مقام قابل احترام ہے ان کی اکثریت دنیا داری میں ملوث ہوتی جارہی ہے ان میں تقویٰ ودیانت کی جگہ مادی خواہشات نے لے لی ہے جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں میں اسلام کے اصولوں وہدایات کے مطابق اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی بجائے افتراق وانتشار پیداکررہے ہیں معمولی وفروعی نوعیت کے دینی مسائل میں عوام الناس میں اسلام کے اصل اور بنیادی مسائل بنا کر پیش کیا جارہا ہے عام مسلمانوں میں مذہب کی بنیاد پر تفریق پیدا کی جارہی ہے ایک فرقہ دوسرے فرقہ کی تحقیر تکفیر کررہا ہے اور کتاب وسنت کی بنیاد پر مسلمانوں میں یک جہتی واخوت پھیلانے کی بجائے فرقہ وارانہ منافرت کوہوا دی جارہی ہے اس طرح ہمارے مغزز و محترم علماء کرام اپنے صلاحیتوں وقوتوں کو باہمی اختلاف وانتشار میں ضائع کررہے ہیں اس قسم کے علماء دین کا نقشہ مولانا حالی ؔ نے بڑے دکھ کے ساتھ بیان کیا ہے ؎
بڑھے جس سے نفرت وہ تحریر کرنی جگر جس سے ہو شق وہ تقریر کرنی
گنہگار بندوں کی تحقیر کرنی مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی
یہ ہے عالموں کے ہمارے طریقہ یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ
ہمارے علمائے کرام کی ان سرگرمیوں کے باعث ملک کی مذہبی فضاء آئے دن مکدر ہوتی رہتی ہے علماء کرام کے اس طرز عمل کا مظاہرہ بیرون ملک بھی اکثر وپیشتر دیکھنے میں آتا ہے اور باہمی تفرقہ بازی ومنافرت کی باعث وہاں کی مساجد بھی محفوظ نہیں وہاں بھی غیر مسلم انتظامیہ کو مساجد میں تالے ڈالنے کی جرأت ہوتی ہے اخبارات میں اس نوعیت کی خبروں سے غیر مسلموں کی نظر میںا سلام اور پاکستان کی رسوائی ہوتی ہے اور یہ بات خود اسلام اور پاکستان کا درد رکھنے والے مسلمان کے لئے انتہائی دکھ وشرم کا باعث ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ان علماء کرام کو اپنی ذمہ داریوں اور مقام مرتبہ کا احساس نہیں اور وہ عوام کو انہی خلاف اسلام و بے مقصد باتوں میں الجھا کر ملک وملت کو روحانی واخلاقی اعتبار سے کمزور کررہے ہیں۔
ہمار ملک پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے لاکھوں مردوں ، عورتوں، اورمعصوم بچوں کی قربانی دے کر حاصل کیا گیا تھا علماء کرام کی باہمی نااتفاقی وفرقہ وارانہ سرگرمیوں کی باعث آج تک اسلامی نظام کی برکات سے محروم ہے کیونکہ جب کبھی عوام کی اسلام کے لئے ناقابل فراموش قربانیوں کے باعث اسلامی نظام کی منزل قریب نظر آئی ہمارے ان علماء اکرام کے باہمی اختلافات آڑے آگئے اور نظام اسلام سے متعلق مخصوص نظریات پر مبنی مباحث کا سلسلہ شروع ہوگیا قرآن وسنت کو بنیاد بنا کر اسلامی قوانین کا نفاذ کا متفقہ مطالبہ کرنے کے بجائے اکثریت و اقلیت کو بنیاد بنا کر فقہ حنفی اور فقہ جعفری کا مسئلہ اسلامی قوانین کی تدوین کے ابتدائی مراحل ہی کے دوران کھڑا کردیا جاتا ہے جبکہ اس مسئلہ کو ۱۹۵۱ء میں تمام مکاتبِ فکر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور اہل تشیع کے ۳۱ اکابر علماء کرام اپنے ’’ ۲۲ نکات ‘‘ میں بحسن و خوبی طے کرچکے ہیں اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے طریقہ کار میں اس اصول پراتفاق رائے کرچکے ہیں کہ:
’’ اسلامی قانون کی بنیاد کتاب وسنت پر ہوگی اور کوئی قانون کتاب وسنت کے منافی نہیں بنایا جائے گا۔‘‘
لیکن اس کے باوجود اس مسئلہ کو وقتاً فوقتا نئے سرے سے پیدا کیا جاتا ہے اور فقہ حنفی وفقہ جعفری دونوں کو بیک وقت اسلامی قانون کی بنیاد بنا کر من وعن نافذ کرنے پرزور دیا جاتا ہے اور اس مسئلہ پر دونوں فریق وگروہ شدت وغلو کا مظاہر ہ کرتے ہیں اور اپنی قوت وصلاحیت کو ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور مخالفانہ مہم چلانے پرصرف کرتے ہیں اس طرح امت کی اسانی وسہولت کیلئے کتاب وسنت کے احکامات کا عظیم الشان و مستند ذریعہ ’’ فقہ‘‘ کو فرقہ واریت کی شکل دے کر فقہی اختلافات کی بنیاد پر تفریق امت کی جارہی ہے جبکہ امت مسلمہ کو ایک امت واحدہ کی شکل میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور امت کے باہمی اختلافات کو ختم کرنے کے لئے قرآن وسنت کو ایک حجت قطعی (اتھارٹی) قرار دے کر باہمی اختلاف ونزاع کو اس کی روشنی میں ختم کرکے ایک امت بن کر رہنے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے اختلافات کی کثرت، فرقہ بندی وگمراہی سے محفوظ رہنے کیلئے ہادی کائنات حضرت محمدﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ :۔
(ترجمہ) ’’ لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ان کو مضبوطی سے تھامے رہوگے اور اسی پر عمل پیرا رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ایک اللہ کی کتاب ’’ قرآن شریف‘‘ دوسرے میری سنت یعنی ’’ حدیث شریف‘‘
لیکن افسوس کہ آج اس زریں اصول ونصیحت کو نظر انداز کرکے من مانی تاویلات ، مخصوص نظریات، مخصوص مذہبی کتب اور فرقہ وارانہ اعمال کی بنیاد پر یہ غلط تاثر ذہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے کہ موجودہ اسلامی فرقے تعبیر وتشریح اور فہم و اجتہاد کے اختلاف سے وجود میں آئے ہیں لیکن چونکہ اصل اعتبار سے سب ہی قرآن وسنت کو اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں لہذا اس قسم کی فرقہ بندی جائز ہے اوریہ فرقے باہم متحد نہیں ہو سکتے کیونکہ اس قسم کے اختلافات خود صحابہ کرامؓ، تابعین کرامؒ اور تابع تابعینؒ ، تابعین و تابع تابعینؒ اور آئمہ مجتہدین ؒ کے درمیان پائے جاتے تھے فرقہ بندی کو قائم رکھنے کی یہ توجیہ اصول اور موجودہ فرقہ بندی کی یہ شکل ہمیں صحابہ کرام ؓ، تابعینؒ اور تابع تابعینؒ اور ائمہ مجتہدین ؒ کے درمیان کہیں نظر نہیں آتی اور نہ کہیں ایسی مثال ملتی ہے کہ فہم وتشریح و اجتہاد کے اختلاف کی بنیاد پر پوی امت واحدہ کی تفریق کو جائز قرار دے دیا گیا ہو اور اس کی بنیاد پر فرقہ بندی کرکے ہر فرقے کی مساجد، مدارس اور فقہی کتب کا علیحدہ علیحدہ شمار کیا گیا ہو، ایک دوسرے کے پیچھے نماز کی عدم ادائیگی کا فتوی دیا گیا ہو اور اسی بنیاد پر ایک دوسرے کی تحقیر وتکفیر کی گئی ہو صحابہ کرامؓ اور ائمہ مجتہدین ؒ ان سب غیر اسلامی امور سے پاک وصاف تھے وہ فہم واجتہاد کے اختلاف کی موجودگی کے باوجود بھی ایک امت واحدہ کی شکل میں تھے اور اس قسم کے اختلافات کو صحیح معنوں اجتہادی و فہم کے اختلاف کی حد تک ہی رکھتے تھے اورقرآن وسنت کو صحیح معنوں میں حجیت قطعی (اتھارٹی، تسلیم کرتے ہوئے بلا حیل وحجت خود ان کا عمل قرآن وسنت کے تابع ہوتا تھا چنانچہ اس بات کے کافی ثبوت ملتے ہیں کہ صحیح حدیث کا حکم ملتے ہی اپنے قول سے فوراً رجوع فرمالیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان
میں موجودہ طرز کی فرقہ بندی یا مخصوص نظریہ کی بنیاد پر کوئی الک مستقل گروہ یا فرقہ موجود نہیں تھا اورفرقہ یا فرقہ واریت کا دور دور تک شائبہ بھی نظر نہیں آتا تھا وہ ایک دوسرے کا ا حترام اورا یک دوسرے کے پیچھے نمازیں ادا کرتے تھے اور اپنے آپ کو صرف اور صرف مسلم امت کہلانا پسند کرتے تھے اس دور کا مسلمان باہمی اتحاد واتفاق کا مظہر تھا اور اس شعر کی عملی تفسیر تھا۔ ؎
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
لیکن آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہر فرقہ کی مساجد جدا جدا ہیں کیونکہ ہماری نظر میں ایک دوسرے کے پیچھے نماز درست نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمسجد مخصوص عقیدہ مسلک کے نام سے رجسٹرڈ ہے اور انہیں مذہبی اکھاڑے کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے اس کے منبر رسولﷺ پر بیٹھ کر آپس میں اتحاد واتفاق اور اخوت باہمی کا درس دینے کی بجائے منافرت و فرقہ واریت کی ایسی فضاء تیار کی جاتی ہے کہ ایک خدا، ایک رسولﷺ ، ایک قرآن اورایک قبلہ رکھنے والے مسلمان تمام اسلامی اخلاق وکردار کی قیود کو پھلانگ کر ایک دوسرے کا خون تک بہانے پر تیارہو جاتے ہیں۔ یہی حال مذہبی کتب کا ہے اس میں بھی تقسیم ہے اس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف شرک وکفر کے فتویٰ درج ہوتے ہیں اور ہر فرقہ اپنی مخصوص فقہی کتب کے علاوہ دوسرے کتب کو غلط قرار دیتا ہے الغرض ہماری مسجدیں ، مدارس وطور طریقے جدا جدا ہیں پھر اس غلط روش وفرقہ بندی اختلاف کہہ کہ کس طرح جائز قرار دیا جا سکتا ہے اورپھر بھی اپنا تعلق وارثان انبیاء و حاملان محراب ومنبر اور ان ائمہ کرامؒ کے مقدس سلسلے سے جوڑتے ہیں اور خود ان کی عظمت وشان کا عاشق اور مقلد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ؎
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
میری ان گذارشات کا مقصد خدانخوستہ علماء کرام کی کردار کشی نہیں ہے میرے پیش نظر علمائے کرام کی توجہ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت ومذہبی انتشار کی طرف دلانا انتہائی ضروری ہے اور انہیں اس جذبہ سے بھی آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کے آپس کے بڑھتے ہوئے اختلافات تشویش ناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں عوام الناس میں ان سرگرمیوں کے باعث اسلام ومذہب سے بیزاری و مایوسی کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اور یہ اختلافات ملک میں اسلامی نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اختیار کرتے جارہے ہیں بعض علماء کرام کی منفی سرگرمیوں کا تجزیہ پیش کرنے کا مطمع نظر صرف خلوص و درد اور اسلام وپاکستان سے محبت کا جذبہ ہے اور ساتھ ہی ہر مکتب فکر کے صحیح الفکر ، متین اورسنجیدہ اور معتدل مزاج وقومی سوچ رکھنے والے معزز علماء کرام سے میری اپیل ہے کہ وہ وطن عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے اکابر علماء کے پیش کردہ ’’ ۲۲ نکات‘‘ کی روشنی میں ایک متفقہ حل پیش کریں تاکہ اسلامی نظام کی راہ میں حائل علماء کے فروعی وفقہی اختلافات ، بادشاہت یا مغربی جمہوریت ، شوارائی یا جمہوری نظام حکومت ، سیاسی جماعتوں کا وجود یا عدم وجود، جماعتی وغیر جماعتی طریق انتخاب کی نئی بحثوں ودیگر دشواریوں ورکاوٹوں کو دور کیا جاسکے اور عوام جلد از جلد اسلامی نظام کی برکات سے مستفیض ہو سکیں اس سلسلے میں مجھ ناچیز کی بھی یہ تجویز پیش خدمت ہے کہ تمام مروجہ چاروں فقہ چونکہ امت کا مشترکہ دینی سرمایہ ہیں لہذا ان تمام فقہ کے وہ قوانین جو کہ کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہیں اور تمام مکاتب فکر کے نزدیک بھی متفق علیہ ہیں انہیں جمع کرکے اسلامی قوانین کی بنیاد بنا کر عام ملکی قانون کی حیثیت سے ’’ اسلامی قانون‘‘ کے نام سے نافذ کردیا جائے مجھے امید ہے کہ علمائے کرام قوم کو اتحاد واتفاق کی برکات سے محروم نہیں کریں گے اور ان کی دیرینہ خواہشوں ومقصد زندگی کے مطابق یہاں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے کوئی متفقہ حل تلاش کریں گے کیونکہ مذہبی انتشار کی جو کیفیت ہمارے ملک میں پروان چڑھ رہی ہے وہ ہر لحاظ سے ملک وملت کے لئے تباہ کن ہے اور زیادہ عرصے یہی کیفیت برقرار رہی تو خدشہ ہے کہ یہ خدانخواستہ تباہی وزوال کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو کیونکہ اسی خطرہ کا احساس حال ہی میں برصغیر پاک وہند کے معروف مذہبی رہنما و اسکالر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے بھی اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں علماء کرام کی ایک مجلس سے خطاب کے دوران دلایا ہے اور کہا ہے کہ : ۔
’’ پاکستان کو مذہبی انتشار سے محفوظ رکھنے کی تدابیر کیجئے کیونکہ اس سے ملک کی بقاء وسلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘‘
اس لئے میں اپنے تمام علماء اسلام، قائدین ملت اور رہنمایان ملت کی خدمت میں انتہائی خلوص ودرد ، نیک نیتی اور اسلام وپاکستان کے جذبہ محبت سے مغلوب ہو کر شکوہ ارباب وفا اور چند پریشان کن خیالات کے ساتھ یہ گذارشات پیش کررہا ہون کہ وہ گردوپیش کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور ملک کی مخصوص صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے وطن عزیز کی نظریاتی بنیادوں کی حفاظت کے لئے اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کو پورا کریں اور ملک کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کردینے والی تباہ کن لعنت یعنی باہمی افتراق وانتشار اور فرقہ واریت ولسانی ، علاقائی ، صوبائی ، سیاسی عصبیت کے سد باب کے لئے اپناکردار اداکرنے کے لئے میدان عمل میں آجائیں اور اپنے قول وفعل، تحریر وتقریر او عمل کردار کے ذریعے ملت اسلامیہ کے باہمی اتحاد و یک جہتی کے لئے بھر پور مہم چلائیں تاکہ حصول پاکستان کا مقصد یہاں جلد از جلد مکمل اسلامی نظام کی شکل میں پورا ہو سکے اور مادیت وگمراہی کے اندھیروں میں روشنی وسکون کی متلاشی بھٹکی ہوئی انسانیت کے لئے یہ ملک امن وسلامتی اور ہدایت ورشد کا نمونہ نظر آئے اور دنیائے اسلام میں نشاۃ ثانیہ کے آغاز کی منتظر نگاہوں کویہاں روشنی کی ایک کرن نظر آئے اور دیگر اقوام کے لئے یہ ملک منیارہ نور ثابت ہو ۔ (آمین) ؎
منتظر ہے یہ جہاں آئیں پیغمبر کا آج
ورنہ سب بیکار ہے جمہور ہویا تخت وتاراج
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فرقہ واریت اور ملکی یکجہتی
آج ملت اسلامیہ کو درپیش عالمی چیلنجوں میں جہاں دیگر سیاسی ، معاشی واقتصادی مسائل درپیش ہیں وہاں مذہبی انتشار وافتراق ، فرقہ وارانہ تعصبات، علاقائی ولسانی منافرت سرفہرست ہیں ہماری ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ انہیں تعصبات پر مبنی اندرونی اختلافات نے ہی ملت اسلامیہ کو تباہی وبربادی سے ہم کنار کیا ہے۔
آج بھی ہمارے وطن عزیز کی سالمیت ویک جہتی کے لئے یہی فرقہ واریت وتعصبات سخت خطر بنے ہوئے ہیں یہی اندرونی انتشار وتعصبات مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کے بنیادی عوامل تھے اور یہی مکروہ کھیل آج بھی باقی ماندہ پاکستان میںجاری ہے آئے دن بم دھماکے ، عبادت گاہوں پر مسلح حملہ و بے حرمتی کے واقعات، مذہبی شخصیات کا سفاکانہ قتل، بے گناہ نمازیوں کے خون کا بہنا، بوریوں میں بند مسخ شدہ لاشیں ، قتل وغارت گری ، ڈکیتی ولسانی منافرت کا یہ بھوت پورے ملک پر آسیب کی طرح چھا گیا ہے۔
وطن عزیز کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں لیکن ان تشویشناک حالات وواقعات پر قومی سطح پر بے حسی ایک المیہ ہے اس سلسلے میں ہماری محب وطن دینی جماعتوں وعلماء کرام پر بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ پہلے خود کو متحد و متفق کرکے قوم کو متحد کریں اور وطن عزیز کو مذہبی ولسانی فرقہ واریت سے نجات دلانے اور اس کی آڑ میں پاکستان کی سالمیت و یکجہتی کے خلاف سرگرم عناصر کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے میدان میں آئیں۔
اس سلسلے میں سر فہرست مذہبی فرقہ واریت و تعصبات کا خاتمہ از حد ضروری ہے ۔ کیونکہ آج ملکی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لئے مذہبی فرقہ واریت انتہا پر پہنچ چکی ہے اورفرقہ پرست عناصر حکومت، دینی و مذہبی جماعتوں ، قومی اخبارات کو بھی اس مذموم مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں اور کئیں مشکوک وغیر معروف مذہبی تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں جو کہ مذہب کے لبادہ میں کلمہ گو مسلمانوں کو باہم لڑانے کے لئے ہر سطح پر سرگرم ہیں جس کے خاتمہ اور عوام الناس کو مذہبی منافرت و فرقہ واریت کی سازش سے آگاہ کرنے کے لئے علماء گرام و معروف دینی و مذہبی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے کیونکہ مقتدر و سنجیدہ علمی شخصیتوں وعلماء کرام کی گوشہ نشینی و مصلحت اندیشی کے باعث بعض نام نہاد مذہبی تنظیمیں و افراد خودکو ’’ علماء‘‘ کے روپ میں ظاہر کرکے بعض غیر معروف مسائل و عقائد کو اچھال کر فرقہ واریت ومذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں بدقسمتی سے صحافت جیسے مضبوط ریاستی ستون کو بھی مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ آئے دن قومی اخبارات میں ’’ بد عقیدہ‘‘ ، ’’ گستاخ‘‘، ’’ مقبوضہ مساجد کی بازیابی‘‘ جیسے انتہا پسندانہ واشتعال انگیز الفاظ پر مبنی مذہبی منافرت کے جملوں کی اشاعت سے قومی صحافت فرقہ واریت کے ناپاک زہر سے آلودہ ہورہی ہے جس کا حکومت ، دینی جماعتوں اور خود اخباری تنظیموں کو نوٹس لینا چاہئیے اور اس غیر ذمہ دارانہ طرز صحافت کے خاتمہ کیلئے صحافی ضابطہ اخلاق بنانا چاہئیے تاکہ صحافت کو مذہبی منافرت کا ذریعہ بنانے کے بجائے اتحاد، اتفاق و مذہبی یگانگت وقومی یکجہتی کے لئے استعمال کیا جائے۔
اس ضمن میں معروف دینی جماعتوں ، مدارس و علماء کرام کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے مسلکی و فقہی اختلافات کو فرقہ پرست عناصر کے مذموم مقاصد کے لئے خام مال کی حیثیت سے استعمال نہ ہونے دیں اور فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے سیلاب پر بند باندھنے کے لئے تمام مسلمہ مکاتب فکر کے علماء کرام کو متحد کریں اور اس مقصد کے لئے انہیں اپنے اکابرین کی جانب سے ۱۹۵۱ء میں دستور سازی کے موقع پر ’’ ۲۲ متفقہ نکات‘‘ (جس کے ذریعہ تمام اکابر دیوبند ، بریلوی ، اہل حدیث اور اہل تشیع نے ’’ دینی اتحاد‘‘ کا شاندار روح پرور مظاہر کیا تھا) کی رہنمائی و اصولوں پراز خود کوئی متفقہ مصالحتی ودینی اتحاد کا فارمولہ طے کرنا چاہئیے جس کی موجودہ حالات میںا شد ضرورت ہے کیونکہ ہمارے عوام کی اکثریت ہمیشہ سے دینی اتحاد کا خیر مقدم کرتی رہی ہے جس کا مظاہرہ اس قوم نے ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت ، ۱۹۷۷ ء کی تحریک نظام مصطفی اور نفاذ شریعت کے ہر مرحلے پر جانی ومالی قربانیاں دے کر کیا تھا آج بھی قوم خلوص سے تشکیل دئیے گئے ہر دینی اتحاد کا خیر مقدم کرے گی قوم نے ہمیشہ علماء کا ساتھ دیا ہے کیونکہ یہاں کے عوام کی اکثریت اسلامی نظام کے نفاذ کی تمنا رکھتی ہے لیکن بد قسمتی سے علماء و دینی سیاسی جماعتوں نے ماضی قریب میں قومی اتحاد، اتحاد بین العلماء ، اتحاد بین المسلمین اور ملی یکجہتی کونسل جیسی قومی سطح کی جو تنظیمیں قائم کیں وہ سیاسی مفاد کا شکار ہو کر اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہیں اس سلسلے میں موجودہ ملی یکجہتی کونسل ایک اچھا قدم تھا کیونکہ اس میں تقریباً تمام مکاتب فکر کی نمائندہ جماعتیں و تنظیمیں موجود تھیں لیکن چونکہ اس کے قیام کے پس منظر میں انتخابی سیاست کارفرما نظر آتی تھی اور الیکشن سے چند ماہ قبل ہی تشکیل دی گئی اس لئے یہ سیاست کی نذر ہوگئی اورفرقہ واریت کے خاتمہ ومذہبی یکجہتی پیدا کرنے میں ناکام رہیں اور اب محض غیر معروف افراد و تنظیموں کے لئے سستی شہرت کے حصول پر مبنی اخباری بیانات جاری کرنے تک محدود ہوگئی ہے۔ لہذا اس قسم کے اتحادوں کے مقاصد کے حصول کے لْے ماضی کے نتائح کو مدنظر رکھنا چاہئیے اوران کا تجزیہ کرنے ہوئے دینی اتحا د کے قیام، مذہبی منافرت و فرقہ واریت کے سد باب کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھنا چاہئیے کیونکہ اگرچہ فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے سخت ملکی قوانین کے نفاذ کی بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن قومی سطح پر یہ ذمہ داری علماء کرام ودینی جماعتوں ہی کو ادا کرنا ہے قوم علماء کرام پر اعتماد کرتی ہے اس سلسلے میں موجودہ حالات میں صحافت کو بھی اپنی ساکھ و وقار کے منافی فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے کردار ادا کرنا چاہئیے اور قومی اخبارات کے صفحات کو فرقہ وارانہ مذہبی منافرت پھیلانے والے نام نہاد عناصر وتنظیموں کے اشتعال انگیز پروپیگنڈہ کا ذریعہ نہیں بننا چاہئیے علماء کرام سے اپیل ہے کہ وہ بھی مساجد ومدارس کے فقہی واختلافی مسائل کو عوام الناس میں بطور مسلکی شناخت اجاگر نہ کریں کیونکہ فرقہ پرست عناصر انہی اختلافی اعتقادی و فقہی مسائل کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے بطور خام مال استعمال کرتے ہیں علماء کرام کو چاہئیے کہ وہ اس قسم کے متنازعہ مسائل و فقہی اختلافات کو دینی مدارس و علمی حلقوں تک ہی محدود رکھیں تاکہ نیک نیتی سے رونما ہونے والے بعض فقہی اختلافات پر مبنی مسائل و اجتہادی اختلافات کی بنیاد پر کلمہ گو مسلمانوں کو لڑانے اورقوم کو فرقہ واریت میں الجھا کر ملکی یکجہتی کو نقصان پہنچانے والے اسلام و ملک دشمن عناصر کے عزائم کو ناکام بنایا جاسکے۔
فرقہ واریت کے خاتمہ مذہبی یگانگت کے فروغ کے لئے حکومتی و عوامی سطح پر درج ذیل تجاویز پیش خدمت ہیں امید ہے کہ حکومت ، علماء کرام و دینی جماعتیں ان تجاویز کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے فرقہ واریت کے زہر کے اثرات کے خاتمہ کے لئے میدان میں آئیں گے۔
۱۔ حکومتی سطح پر تمام مسلمہ مکاتب فکر کے مقتدر علماء کرام پر مشتمل قومی سطح کا علماء ’’ مصالحتی بورڈ‘‘ قائم کیا جائے جو کہ قرارداد مقاصد کی روشنی میں ملک سے فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے رہنما اصول وضابطہ اخلاق وضع کرے۔ اسے حکومت آئینی ترامیم کے ذریعہ نافذ کرے۔
۲۔ مساجد مدارس کی انتظامیہ کے جھگڑوں و دیگر مسلکی اختلافات کا فیصلہ علماء کا قائم کردہ مصالحتی بورڈ از خود کرے حکومت قوانین کے ذریعہ اسے نافذ کرائے۔
۳۔ قومی اخبارات میں مسلکی ، فقہی اختلافی مضامین، بیانات وخبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کی جائے۔
۴۔ مساجد و دیگر علاقوں ژیں تبلیغی پروگراموں کے لئے اجازت نامہ ضروری قرار دیا جائے بغیر اجازت ہونے والے پروگراموں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔
۵۔ لاؤڈ اسپیکر کے بلا اجازت استعمال پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ موجودہ حالات میں لاؤڈ اسپیکر فرقہ پرستوں کے لئے ایک ہتھیار کا کام کرتے ہیں۔
۶۔ وال چاکنگ ، جھنڈے ، بینرز ، اسٹیکرز، سائن بورڈ کے ذریعہ تمام شاہراہوں، پارک، پبلک مقامات پر مخصوص مسلکی شناخت پر مبنی نعرے وعبارت پر پابندی عائد کی جائے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فقہی مسالک اور شریعت بل
روزنامہ جنگ کراچی میں یکم دسمبر ۱۹۹۸؁ء کو ’’ فقہ حنفی‘‘ کے نفاذ کے مطالبہ سے متعلق شائع ہونے والے مراسلے کا تفصیلی و مدلل جواب۔
’’شریعت بل و فقہی مسالک‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک مراسلے میں مراسلہ نگار نے کہا ہے کہ چونکہ تمام شرعی امور سمٹ کر ایک مخصوص ’’ فقہ‘‘ میں آگئے ہیں اسی کے مطابق عقائد درست کرنے اور شرعی امور پر عمل کرنے میں نجات ہے انہوں نے اس سلسلے میں تجویز پیش کی ہے کہ ملک میں دین اسلام ، مذہب ’’ حنفی فقہ‘‘ اور کتاب ’’ عالمگیری‘‘ کو پبلک لاء قرار دیا جائے کیونکہ یہاں اکثریت حنفی ہے اور مذہب برحق چار ہیں۔ موصوف کا یہ تجزیہ و تجویز قرآن وسنت کی تعلیمات کے منافی ، شرعی معیار کے خلاف، خلفاء راشدین کی سنت و عمل اور ائمہ اربعہ کے ارشادات و عمل کے بھی منافی ہے موصوف کا یہ کہنا کہ تمام امور (شرعی) سمٹ کر ایک ہی ’’ فقہ‘‘ میں آگئے ہیں تو پھر دیگر تینوں فقہ کو برحق قرار دینا کیا معنی؟ انہوں نے اپنے اس خیال کی بنیاد ایک بزرگ کے مکتوب پررکھی ہے لیکن شرعی معیار کسی بزرگ کا قول و عمل نہیں بلکہ قرآن و سنت کے احکامات و صحابہ کرام کا عمل ہے جبکہ دین و مذہب میں کوئی تقسیم نہیں بلکہ برحق صرف ایک ہی دین ومذہب ہے یعنی ’’اسلام‘‘ (ان الدین عند اﷲالاسلام) اور مذہب بھی بمعنی طرف صرف طریق ’’ محمدی‘‘ یعنی ’’ سنت‘‘ ہے اسے احادیث میں ’’ صراط مستقیم ‘‘(یعنی سیدھا راستہ) کہا گیا ہے اس طرح اصل ہدایت و نجات عقائد کی درستگی کا معیار صرف قر آن و سنت سے ثابت شدہ عقائد و مسائل شرعی ہیں جو کہ برحق ہیں اس کے علاوہ کوئی راستہ ، طریقہ یا مذہب برحق نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ قرآن و سنت کے معیار کے مطابق نہ ہو کیونکہ قرآن و سنت تمام فقہاء امت و علماء کے نزدیک حجت قطعی (اتھارٹی ) ہے خاتم النبین حضرت محمدﷺ نے امت کو اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ خبردار تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا بلکہ ’’ قرآن وسنت‘‘ کو مضبوطی سے پکڑ لینا تو تم گمراہ نہیں ہوگے ۔ آج بھی قیامت تک قرآن وسنت ہی اصل دین و مذہب برحق ہے اس لئے فقہاء کرام خصوصا ائمہ اربعہ نے امت کی آسانی کے لئے قران وسنت کے احکامات کی ش و جمع ، صحت وتدوین و اجتہاد کے ذریعہ ایک عظیم علمی و فقہی ذخیرہ محض علماء امت کی دینی رہنمائی و آسانی کے لئے چھوڑا تھا جسے بعد میں آنے والوں نے تلاش ، محنت و جستجو کے بجائے امت مسلمہ کی فقہی تقسیم در تقسیم کیلئے بنیاد بنا کر ان مقدس ائمہ و فقہاء امت سے منسوب کرکے اسلام کو چار فرقوں (فقہی بنیاد پر) میں تقسیم کرکے ’ قرآن و سنت ‘‘ کی تعلیمات کے منافی و مذموم عمل کو ’’ برحق‘‘ قرار دے دیا حالانکہ یہ عمل قرآن کریم اورسنت رسول ﷺ کے مطابق ’’ امت واحدۃ‘‘ کے تصور کے خلاف ہے اور خود ان ائمہ اربعہ کے ارشادات وعمل کے منافی ہے چاروں ائمہ و فقہا امت نے جابجا علماء امت کو تلقین کی ہے کہ وہ بھی ہماری طرح مسائل و احکامات کو قرآن و سنت سے اخذ (اجتہاد) کریں اوربلا دلیل فتوی نہ دیں ان ائمہ اربعہ نے کسی ایک مخصوص ’’ فقہ‘‘ کو بطور اسلامی قانون نافذکرنے کی مخالفت کی ہے اس کی واضح مثال ہمیں خلیفہ
منصور کے دور سلطنت میں ملتی ہے جب خلیفہ وقت کی خواہش و اصرار کے باوجود بھی امام مالک نے ’’فقہ مالکی‘‘کو بطور اسلامی قانون نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی حالانکہ ان کی کتاب ’’ مؤطا‘‘ اسلامی قانون کا بہترین مدون مجموعہ کا درجہ رکھتی تھی لہذا کسی مخصوص ’’ فقہ‘‘ یا فقہی مجموعہ ‘‘ پبلک لاء کے بطور نافذ کرنے کا مطالبہ فرقہ وارانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اور اس قسم کے نظریہ سے امت میں انتشار و افتراق پید ا ہوگا جو کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی رو سے ایک مذموم فعل ہے اور اسی فرقہ وارانہ بنیاد پر اسمبلی کی بھی فقہی تقسیم کا مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز ہے جو کہ پوری قوم کو فرقہ وارانہ تقسیم کرنے کے مترادف ہے اس ضمن میں مراسلہ نگار کا بعض اسلامی ممالک میں رائج قوانین یا مغربی و غیر اسلامی نظریہ جمہوریت کی رو سے عددی کثرت کی بنیاد بنانا بھی شرعی دلیل نہیں بن سکتی ہے ۔ اس سلسلے میں راقم الحروف وزیراعظم سے اپیل کرتا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تقسیم کو فروغ دینے والی ’’ توضیح‘‘ والی شق شریعت بل سے حذف کریں اور چاروں فقہی عملی ذخیروں پر مبنی حالیہ عصری تقاضوں کو مد نظر رکھ کر اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین جناب جسٹس (ر) تنزیل الرحمن کی سربراہی میں مرتب کردہ ’’ مجموعہ قوانین اسلامی‘‘ کے کتاب و سنت کے مطابق ’’ قوانین ‘‘ کو عدالتوں میں نافذ کیا جائے اور ملک میںقرآن سنت کو پبلک لاء کے طور پر نافذکیا جائے اس کی تشریح و تعبیر میں کسی مخصوص فقہی نظریہ یا ’’ فقہ‘‘ کو پبلک لاء کا درجہ نہ دیا جائے کیونکہ اسلامی قوانین شریعت و مسائل کسی خاص ’’ فقہ‘‘ یا کتاب میں مکمل نہیں بلکہ یہ چاروں فقہ و دیگر فقہی ائمہ کرام کی کتب فقہ میں موجود ہیں اور چاروں فقہی مسالک کے بجائے قرآن سنت سے ثابت شدہ قوانین ہی برحق ہیں اور اصل اتھارٹی ہیں جبکہ چاروں فقہ و فقہی علمی ذخیرے امت کا مشترکہ دینی سرمایہ ہیں انہیں فرقہ واریت یا امت کی فقہی تقسیم کے لئے استعمال کرکے ان مقدس ائمہ و فقہا امت کے اس عظیم علمی کارناموں کو ضائع نہ کیا جائے کیونکہ یہ رویہ ان کے مقدس کام و مشن کے خلاف ہے ۔ (ج ک ۹۸۔۱۲۔۱۹)
 
Top