• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احتجاج اور اسلام

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و بر کاتہ،
عصر حاضر میں مسلمانوں کی کثیر تعداد احتجاج کرتی نظر آتی ہے۔یہ احتجاج سیاستدانوں سے لے کر ہر طبقہ فکر کے لوگ کرتے ہیں،جن میں ڈاکٹرز ،وکلاء ، اساتذہ، اور حتیٰ کے علماء کرام بھی کرتے ہیں۔کہیں تو احتجاج مختلف ایام کے موقعہ پر کیا جاتا ہے اور کہیں توہین رسالت ،مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اور مطالبات منوانے کی خاطر کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں،توڑ پھوڑ کی جاتی ہے،افراد اشتعال بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں،راستے بلاک کیئے جاتے ہیں،اور کہیں بینرز اٹھائے دھرنا دیا جاتا ہے،مختلف مواقع پر شمعیں روشن کی جاتی ہیں۔اس طرح عوام اپنا غصہ ،
جذبات و احساسات، اور نظریئے کو یہاں تک کے جائز مطالبات کو بھی احتجاج کی نظر کر دیتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ
اسلام میں احتجاج کا تصور کیا ہے؟؟؟ کیا نبی کریم ﷺ نے احتجاج کیا تھا؟؟؟
امت مسلماں میں احتجاج کی یہ روش کہاں سے آئی؟ کیا احتجاج کا یہ فعل ہمیں عملاََ کمزور نہیں کر دیتا؟؟؟
ظلم، برائی، باطل ،غیر شرعی معاملات کے خلاف مسلمانوں کا ردعمل ،جوابی کاروائی کی اسلام میں کیا صورت ہے ؟؟؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کہتے ہیں کہ کسی نے ٹیپو سلطان سے کہا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ تو اس پر ٹیپو سلطان نے جواب دیا تھا کہ یہ اسلامی طرز فکر نہیں ہے۔ اسلامی طرز فکر یہ ہے کہ محبت اور جنگ میں جو کچھ بھی کیا جائے، وہ سب جائز ہو۔
یہی بات ”احتجاج“ پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ احتجاج ہمیشہ ”کمزور فریق“ کرتا ہے۔ جیسے اپوزیشن، حکومت سے احتجاج کرتی ہے۔ یا عوام الناس حکومتی طاقتور افراد اور اداروں (کی پالیسیوں ، احکام ، رویوں وغیرہ) کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔
اسی طرح مسلم عوام بھی اسلام کے خلاف کئے جانے والے اقدام کے خلاف بھی احتجاج کرتے ہیں۔ عوام اس لئے احتجاج کرتے ہیں کہ ان کے پاس ”طاقت“ نہیں ہوتی کے جن عناصر نے اسلام کے کلاف کوئی کام کیا ہوتا ہے، اسے بزور قوت روک سکیں یا اسے سزا دے سکیں۔ بالخصوص اگر ایسا کوئی واقعہ دوسرے ملک میں ہوا ہو یا اپنے ہی ملک کے بااثر لوگ اس میں ملوث ہوں۔
اسلامی تعلیمات یہی ہیں کہ جب بھی اور جہان کہیں بھی ”احتجاج“ کی ضرورت محسوس ہو، ضرور کیا جائے تاکہ اپنے جذبہ ایمانی کا اعلان ہوسکے اور کل روز قیامت ہم یہ کہہ سکیں کہ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی اسلام یا اسلامی اقدار کے خلاف کوئی عمل ہوا، ہم نے مقدور بھر اس کے خلاف آواز بلند کی
لیکن کسی بھی قسم کے احتجاج کے دوران کبھی بھی کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہئے جو اسلامی تعلیمات کے کلاف ہو جیسے :
1) اپنی زبان سے ”مجرموں“ کے خلاف گالم گلوچ یا نازیبا الفاظ نہیں ادا کرنا چاہئے بلکہ تقریر و تحریر میں اخلاقی قدروں میں رہتے ہوئے مجرموں کے اقدامات کی مذمت کی جائے۔
2) احتجاج اگر ”مظاہرہ“ کی صورت میں ہو تو اس مظاہرہ سے ٹریفک میں خلل نہین پڑنا چاہئے اور نہ ہی راستہ بلاک کرکے عام شہریوں کو مشکلات مین ڈالنا چاہئے۔
3) مظاہروں اور جلوسوں کے دوران سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔ بلکہ اگر ”مجرمان سے متعلقہ املاک“ بھی ہماری دسترس میں آجائے تو اسے بھی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ توڑ پھوڑ اور پولس یا انتظامیہ پر پتھراؤ وغیرہ کرنا بالکل غلط ہے۔
4) اگر جرم کسی غیر ملکی نے اپنے ملک میں کیا ہو تو علامتی طور پر اس ملک کا جھنڈا نذر آتش کیا جاسکتا ہے، لیکن اس ملک کے سفارتخانے یا اس ملک کے دیگر شہریوں کو نقسان نہیں پہنچایا جاسکتا
5) اس ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس ملک کے ارباب اختیار پر زور دیا جاسکتا ہے کہ وہ مجرم کو قرار واعی سزا دے اور آئندہ ایسے (اینٹی اسلامک) جرائم کو اپنے ملک می ہونے سے روکے
6) اپنے ملک کی حکومت پر زور دیا جاسکتا ہے کہ متعلقہ ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع کئے جائیں۔ ان سے تجارتی تعلقات توڑ لئے جائیں وغیرہ وغیرہ
یعنی ہم احتجاج کا ہر وہ مروجہ اور مہذب طریقہ اپنا سکتے ہیں، جو غیر اسلامی نہ ہو۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
کہتے ہیں کہ کسی نے ٹیپو سلطان سے کہا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ تو اس پر ٹیپو سلطان نے جواب دیا تھا کہ یہ اسلامی طرز فکر نہیں ہے۔ اسلامی طرز فکر یہ ہے کہ محبت اور جنگ میں جو کچھ بھی کیا جائے، وہ سب جائز ہو۔
یہی بات ”احتجاج“ پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ احتجاج ہمیشہ ”کمزور فریق“ کرتا ہے۔ جیسے اپوزیشن، حکومت سے احتجاج کرتی ہے۔ یا عوام الناس حکومتی طاقتور افراد اور اداروں (کی پالیسیوں ، احکام ، رویوں وغیرہ) کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔
اسی طرح مسلم عوام بھی اسلام کے خلاف کئے جانے والے اقدام کے خلاف بھی احتجاج کرتے ہیں۔ عوام اس لئے احتجاج کرتے ہیں کہ ان کے پاس ”طاقت“ نہیں ہوتی کے جن عناصر نے اسلام کے کلاف کوئی کام کیا ہوتا ہے، اسے بزور قوت روک سکیں یا اسے سزا دے سکیں۔ بالخصوص اگر ایسا کوئی واقعہ دوسرے ملک میں ہوا ہو یا اپنے ہی ملک کے بااثر لوگ اس میں ملوث ہوں۔
اسلامی تعلیمات یہی ہیں کہ جب بھی اور جہان کہیں بھی ”احتجاج“ کی ضرورت محسوس ہو، ضرور کیا جائے تاکہ اپنے جذبہ ایمانی کا اعلان ہوسکے اور کل روز قیامت ہم یہ کہہ سکیں کہ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی اسلام یا اسلامی اقدار کے خلاف کوئی عمل ہوا، ہم نے مقدور بھر اس کے خلاف آواز بلند کی
لیکن کسی بھی قسم کے احتجاج کے دوران کبھی بھی کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہئے جو اسلامی تعلیمات کے کلاف ہو جیسے :
1) اپنی زبان سے ”مجرموں“ کے خلاف گالم گلوچ یا نازیبا الفاظ نہیں ادا کرنا چاہئے بلکہ تقریر و تحریر میں اخلاقی قدروں میں رہتے ہوئے مجرموں کے اقدامات کی مذمت کی جائے۔
2) احتجاج اگر ”مظاہرہ“ کی صورت میں ہو تو اس مظاہرہ سے ٹریفک میں خلل نہین پڑنا چاہئے اور نہ ہی راستہ بلاک کرکے عام شہریوں کو مشکلات مین ڈالنا چاہئے۔
3) مظاہروں اور جلوسوں کے دوران سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔ بلکہ اگر ”مجرمان سے متعلقہ املاک“ بھی ہماری دسترس میں آجائے تو اسے بھی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ توڑ پھوڑ اور پولس یا انتظامیہ پر پتھراؤ وغیرہ کرنا بالکل غلط ہے۔
4) اگر جرم کسی غیر ملکی نے اپنے ملک میں کیا ہو تو علامتی طور پر اس ملک کا جھنڈا نذر آتش کیا جاسکتا ہے، لیکن اس ملک کے سفارتخانے یا اس ملک کے دیگر شہریوں کو نقسان نہیں پہنچایا جاسکتا
5) اس ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس ملک کے ارباب اختیار پر زور دیا جاسکتا ہے کہ وہ مجرم کو قرار واعی سزا دے اور آئندہ ایسے (اینٹی اسلامک) جرائم کو اپنے ملک می ہونے سے روکے
6) اپنے ملک کی حکومت پر زور دیا جاسکتا ہے کہ متعلقہ ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع کئے جائیں۔ ان سے تجارتی تعلقات توڑ لئے جائیں وغیرہ وغیرہ
یعنی ہم احتجاج کا ہر وہ مروجہ اور مہذب طریقہ اپنا سکتے ہیں، جو غیر اسلامی نہ ہو۔
آپ واضح کریں گے کہ اسلامی تعلیمات میں "احتجاج" کا ذکر کہاں ہیں؟

یعنی ہم احتجاج کا ہر وہ مروجہ اور مہذب طریقہ اپنا سکتے ہیں، جو غیر اسلامی نہ ہو۔
متفق
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
آپ واضح کریں گے کہ اسلامی تعلیمات میں "احتجاج" کا ذکر کہاں ہیں؟

سب سے پہلے تو یہ بات نوٹ کرلیجئے کہ ”احتجاج“ کا تعلق ”امور دنیوی معاملات“ میں سے ہے۔ امور دنیوی کے بارے میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ سب کچھ جائز ہے الا یہ کہ (الف) کسی مخصوص امر کو قرآن و حدیث میں منع فرمایا گیا ہو (ب) یا کوئی دنیوی امر کسی اسلامی تعلیم سے متصادم ہو۔ لہٰذا سوال یہ نہیں بنتا کہ ”اسلامی تعلیمات میں احتجاج کا ذکر کہاں ہے؟“ بلکہ سوال یہ بنتا ہے کہ "اسلامی تعلیمات میں احتجاج کرنا اگر (کسی کے نزدیک) منع ہے تو اس کا ذکر کہاں ہے؟"

دوسری بات: ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تم کوئی غلط بات دیکھو تو اُسے طاقت سے روکو۔ اگر طاقت سے نہ روک سکو تو زبان سے اسے بُرا کہو۔ اگر زبان سے بھی بُرا نہ کہہ سکو تو اسے دل میں ہی بُرا جانو۔ لیکن یہ ایمان کی سب سے کم تر حالت ہے۔

کسی ظلم یا اینٹی اسلامک بات یا واقعہ کے خلاف زبان و قلم سے کچھ کہنا ”احتجاج“ ہی تو ہے۔ چونکہ ہر فرد بولنے، تقریر کرنے یا لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لئے ایک بولنے والے مقرر کی تائید میں ہزاروں لوگ اس کے پیچھے بنفس نفیس (بصورت جلسہ ، جلوس یا مظاہرہ وغیرہ) موجود ہوتے ہیں۔ ”جلسہ کی روایت“ تو اسلام میں ابتدا سے موجود ہے۔ مسلمان نماز جمعہ اور نماز عیدین میں بڑے سے بڑا ”جلسہ“ منعقد کرتے ہیں۔ اس جلسہ میں اللہ کی عبادت سے قبل امام اور خطیب حالات حاضرہ پر مسلمانوں اور اسلام کا موقف پیش کرتے ہیں اور گرد و پیش میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز احتجاج بھی بلند کرتے ہیں۔ جلوس اور مظاہرہ البتہ ”اجتماعی اظہار رائے“ کا قدرے جدید طریقہ ہے۔ اور اگر جلوس کے دوران کوئی ”غیر اسلامی عمل“ نہ کیا جائے تو اسے بھی ”ممنوع“ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اسلام ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جو حقوق کی بجائے فرائض پر قائم ہو جس میں ہر فرد حصول حقوق کے لئے نہیں بلکہ ادئیگیء فرائض کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی صورتحال ایسی نہیں ہوتی جس میں اگر ایک طاقتور کوئی ظلم کررہا ہے تو دوسرے سب ہی اس کی حمایت میں کھڑے ہیں۔تیسری بات یہ ہے کہ اگر پھر بھی حکمران یا کسی دوسرے طاقتور گروہ کی طرف سے کوئی ناروا سلوک اپنایا جاتا ہے تو اس پر حتی الوسع صبر کی تلقین ہے بصورت دیگر مقررہ شروط کے ساتھ خروج کیا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ اسلامی طرز معاشرت یا طرز سیاست موجودہ سیاست و معاشرت سے بالکل ہی جداگانہ ہے۔البتہ مجبوری کی حالت میں ایڈجسٹ منٹ کرنے پر مسلمان کے سامنے تو کیا کسی بھی فرد کے سامنے کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
 
Top