• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احتجاج اور اسلام

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ایسی طرح برائی کو دیکھ کر ایسے ہاتھ سے روکنے اور زبان سے روکنے والی حدیث سے احیجاجی جلوس کی دلیل لی جاسکتی ہے تو اس سے بھی دلیل لی جاسکتی ہے ایسی طرح صحابہ کے احتجاجی جلوس کی کوئی دلیل نہیں ملتی
لگتا ہے آپ نے میرا مرسلہ #٣٠ نہیں پڑھا - اسلام میں احتجاج نہیں بلکہ جہاد کا تصور ہے -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
لگتا ہے آپ نے میرا مرسلہ #٣٠ نہیں پڑھا - اسلام میں احتجاج نہیں بلکہ جہاد کا تصور ہے -
یہ آپ کی بات کا ضواب نہیں تھا یہ کسی اور صاحب نے حدیث میں آئے انفرادی عمل سے اجتماعی احتجاج کی دلیل لی تھی ان سے یہ عرض کیا گیا تھا
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
اسلامی طرز فکر یہ ہے کہ محبت اور جنگ میں جو کچھ بھی کیا جائے، وہ سب جائز ہو۔
یہ بات بالکلیہ درست نہیں ہے ۔ مثلاً بیوی کی محبت میں کوئی اس کو یہ جھوٹ کہے آج تم سب سے بڑھ کرخوبصورت لگ رہی ہو، جائزہے۔
اور کفار کو حالت جنگ میں دھوکہ دیا جاسکتا ہے جو سیرت البنی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ جنگ احزاب کا ایک واقعہ ہے ۔ مختصراً

ایک صاحب نَعیم بن مسعُود مسلمان ہو کر حضورؐ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابھی تک کسی کو بھی میرے قبول اسلام کا علم نہیں ہے ، آپؐ مجھ سے اس وقت جو خدمت لینا چاہیں میں اسے انجام دے سکتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا ، تم جا کر دشمنوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوئی تدبیر کرو(اسی موقعہ پر حضورؐ نے فرمایا تھا اَلْحَرْبُ خُدْ عَۃ۔یعنی جنگ میں دھوکہ دینا جائز ہے۔)چنانچہ وہ پہلے بنی قُریظہ کے پاس گئے جن سے ان کا بہت میل جول تھا ،اور ان سے کہا کہ قریش اور غطفان تو محاصرے سے تنگ آ کر واپس بھی جا سکتے ہیں ، ان کا کچھ نہ بگڑے گا ، مگر تمہیں مسلمانوں کے ساتھ اسی جگہ رہنا ہے ، وہ لوگ اگر چلے گئے تو تمہارا کیا بنے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ تم اس وقت تک جنگ میں حصّہ نہ لو جب تک اِن باہر سے آئے ہوئے قبائل کے چند نمایاں آدمی تمہارے پاس یرغمال کے طور پر نہ بھیج دیے جائیں۔ یہ بات بنی قریظہ کے دِل میں اُتر گئی اور انہوں نے متحدہ محاذ کے قبائل سے یرغمال طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر یہ صاحب قریش اور غطفان کے سرداروں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ بنی قریظہ کچھ ڈھیلے پڑتے نظر آ رہے ہیں ،بعید نہیں کہ وہ تم سے یرغمال کے طور پر کچھ آدمی مانگیں اور انہیں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے کر کے اپنا معاملہ صاف کر لیں۔ اس لیے ذرا ان کے ساتھ ہوشیاری سے معاملہ کرنا۔اس سے متحدہ محاذ کے لیڈر بنی قُریظہ کی طرف سے کھٹک گئے اور انہوں نے قُرظی سرداروں کو پیغام بھیجا کہ اس طویل محاصرے سے اب ہم تنگ آ گئے ہیں ، اب ایک فیصلہ کن لڑائی ہو جانی چاہیے ، کل تم اُدھر سے حملہ کرو اور ہم اِدھر سی یکبارگی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بنی قُریظہ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ آپ لوگ اپنے چند نمایاں آدمی یرغمال کے طور پر ہمارے حوالہ نہ کر دیں ، ہم جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اس جواب سے متحدہ محاذ کے لیڈروں کو یقین آگیا کہ نعیم کی بات سچی تھی۔ انہوں نے یرغمال دینے سے انکار کر دیا اور اس سے بنی قُریظہ نے سمجھ لیا کہ نعیم نے ہم ٹھیک مشورہ دیا تھا۔ اِس طرح یہ جنگی چال بہت کامیاب ثابت ہوئی اور اس نے دشمنوں کے کیمپ میں پھوٹ ڈال دی۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
85
کہتے ہیں کہ کسی نے ٹیپو سلطان سے کہا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ تو اس پر ٹیپو سلطان نے جواب دیا تھا کہ یہ اسلامی طرز فکر نہیں ہے۔ اسلامی طرز فکر یہ ہے کہ محبت اور جنگ میں جو کچھ بھی کیا جائے، وہ سب جائز ہو۔
یہی بات ”احتجاج“ پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ احتجاج ہمیشہ ”کمزور فریق“ کرتا ہے۔ جیسے اپوزیشن، حکومت سے احتجاج کرتی ہے۔ یا عوام الناس حکومتی طاقتور افراد اور اداروں (کی پالیسیوں ، احکام ، رویوں وغیرہ) کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔
اسی طرح مسلم عوام بھی اسلام کے خلاف کئے جانے والے اقدام کے خلاف بھی احتجاج کرتے ہیں۔ عوام اس لئے احتجاج کرتے ہیں کہ ان کے پاس ”طاقت“ نہیں ہوتی کے جن عناصر نے اسلام کے کلاف کوئی کام کیا ہوتا ہے، اسے بزور قوت روک سکیں یا اسے سزا دے سکیں۔ بالخصوص اگر ایسا کوئی واقعہ دوسرے ملک میں ہوا ہو یا اپنے ہی ملک کے بااثر لوگ اس میں ملوث ہوں۔
اسلامی تعلیمات یہی ہیں کہ جب بھی اور جہان کہیں بھی ”احتجاج“ کی ضرورت محسوس ہو، ضرور کیا جائے تاکہ اپنے جذبہ ایمانی کا اعلان ہوسکے اور کل روز قیامت ہم یہ کہہ سکیں کہ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی اسلام یا اسلامی اقدار کے خلاف کوئی عمل ہوا، ہم نے مقدور بھر اس کے خلاف آواز بلند کی
لیکن کسی بھی قسم کے احتجاج کے دوران کبھی بھی کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہئے جو اسلامی تعلیمات کے کلاف ہو جیسے :
1) اپنی زبان سے ”مجرموں“ کے خلاف گالم گلوچ یا نازیبا الفاظ نہیں ادا کرنا چاہئے بلکہ تقریر و تحریر میں اخلاقی قدروں میں رہتے ہوئے مجرموں کے اقدامات کی مذمت کی جائے۔
2) احتجاج اگر ”مظاہرہ“ کی صورت میں ہو تو اس مظاہرہ سے ٹریفک میں خلل نہین پڑنا چاہئے اور نہ ہی راستہ بلاک کرکے عام شہریوں کو مشکلات مین ڈالنا چاہئے۔
3) مظاہروں اور جلوسوں کے دوران سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔ بلکہ اگر ”مجرمان سے متعلقہ املاک“ بھی ہماری دسترس میں آجائے تو اسے بھی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ توڑ پھوڑ اور پولس یا انتظامیہ پر پتھراؤ وغیرہ کرنا بالکل غلط ہے۔
4) اگر جرم کسی غیر ملکی نے اپنے ملک میں کیا ہو تو علامتی طور پر اس ملک کا جھنڈا نذر آتش کیا جاسکتا ہے، لیکن اس ملک کے سفارتخانے یا اس ملک کے دیگر شہریوں کو نقسان نہیں پہنچایا جاسکتا
5) اس ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس ملک کے ارباب اختیار پر زور دیا جاسکتا ہے کہ وہ مجرم کو قرار واعی سزا دے اور آئندہ ایسے (اینٹی اسلامک) جرائم کو اپنے ملک می ہونے سے روکے
6) اپنے ملک کی حکومت پر زور دیا جاسکتا ہے کہ متعلقہ ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع کئے جائیں۔ ان سے تجارتی تعلقات توڑ لئے جائیں وغیرہ وغیرہ
یعنی ہم احتجاج کا ہر وہ مروجہ اور مہذب طریقہ اپنا سکتے ہیں، جو غیر اسلامی نہ ہو۔
آج کل مسلمانوں میں یہ نظم و ضبط کہاں جو مہذب اسلامی طریقے کے مطابق احتجاج کریں؟
موجودہ مروجہ ’’ احتجاج ‘‘ کو عام اردو میں ’’ ہڑتال ‘‘ اور انگریزی میں STRIKE کہتے ہیں۔
مغرب میں احتجاج یا STRIKE کا یہ طریقہ صنعتی انقلاب کے دوران شروع ہوا جو پہلے غیر قانونی رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قانونی اور جمہوریت کا حصہ بن گیا۔
بر صغیر میں موہن داس کرم چند گاندھی نے اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے سب سے پہلے (1918میں) احتجاج کا یہ طریقہ اختیار کیا اور اس کا نام دیا ’’ ہڑتال ‘‘ ۔
گاندھی گجرات کا رہنے والا تھا اور گجراتی زبان سے ہی ’’ ہڑتال ‘‘ کا لفظ اخذ کیا جس کے معنی ہیں ’ ہر جگہ تالا ‘ ۔
۔۔۔ یعنی ’ ہر جگہ تالا ‘ لگا دیا جائے اور
۔۔۔عوام الناس کی زندگیوں میں افراتفری پیدا کی جائے۔
۔۔۔لوگوں کے جان و مال کا نقصان کیا جائے۔
۔۔۔سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جائے
۔۔۔کسی کے کیئے کی سزا کسی اور کو دیا جائے۔
۔۔۔غیر قانونی طور حکومت پر قبضہ کیا جائے۔
۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
گاندھی کے بعد سے آج تک تمام سیاست دانوں نے اپنی مفاد کیلئے احتجاج کا یہی طریقہ اپنایا۔
مسلمانوں کے لیڈروں نے بھی بغیر سوچے سمجھے یہود و نصاریٰ کا ایجاد کردہ اور برصغیر میں ایک مشرک کا رائج کردہ احتجاج کا طریقہ اپنایا
اور آج بھی امتِ مسلمہ کی اکثریت اسی غیر اسلامی طریقے سے احتجاج کرکے اسلام دشمن کو ڈرانا چاہتی ہے لیکن ہوتا اس کا الٹ ہے۔
کیونکہ غیر اسلامی طریقے سے اسلام کا بول بالا کیسے اور کیونکر ممکن ہو۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
85
دوسری بات: ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تم کوئی غلط بات دیکھو تو اُسے طاقت سے روکو۔ اگر طاقت سے نہ روک سکو تو زبان سے اسے بُرا کہو۔ اگر زبان سے بھی بُرا نہ کہہ سکو تو اسے دل میں ہی بُرا جانو۔ لیکن یہ ایمان کی سب سے کم تر حالت ہے۔
اس حدیث کو ہم یوں سمجھتے ہیں کہ
۔۔۔ جس کے پاس طاقت ہو اور طاقت سے روکنے کا اختیار بھی ہو، وہ طاقت سے روکے ، مثلاً حکمراں اور حکومتی ادارے۔
۔۔۔ جس کے پاس طاقت نہ ہو وہ زبان کا استعمال کرے جیسے خطیب‘ علماء اور جس کے پاس احسن طریقے سے لکھنے اور بولنے کی صلاحیت ہو۔
۔۔۔ جو مذکورہ بالا دونوں کی صلاحیت نہ رکھتا ہو‘ تیسری صورت اختیار کرے یعنی دل میں ہی بُرا جانے۔
ہر کسی کو نہ ہی طاقت اور نہ ہی زبان استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اگر یہ اجازت ہر کسی کو دے دیا جائے تو ہر کوئی طاقت اپنے ہاتھ میں لیئے پھرے گا اور زمین میں فساد برپا ہوگا۔
آپ نے جو لکھا ہے کہ
ایک بولنے والے مقرر کی تائید میں ہزاروں لوگ اس کے پیچھے بنفس نفیس۔
تو یہ خروج کی ہی ایک قسم ہے۔ واللہ اعلم۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
85

ایک صاحب نَعیم بن مسعُود مسلمان ہو کر حضورؐ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابھی تک کسی کو بھی میرے قبول اسلام کا علم نہیں ہے ، آپؐ مجھ سے اس وقت جو خدمت لینا چاہیں میں اسے انجام دے سکتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا ، تم جا کر دشمنوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوئی تدبیر کرو(اسی موقعہ پر حضورؐ نے فرمایا تھا اَلْحَرْبُ خُدْ عَۃ۔یعنی جنگ میں دھوکہ دینا جائز ہے۔)چنانچہ وہ پہلے بنی قُریظہ کے پاس گئے جن سے ان کا بہت میل جول تھا ،اور ان سے کہا کہ قریش اور غطفان تو محاصرے سے تنگ آ کر واپس بھی جا سکتے ہیں ، ان کا کچھ نہ بگڑے گا ، مگر تمہیں مسلمانوں کے ساتھ اسی جگہ رہنا ہے ، وہ لوگ اگر چلے گئے تو تمہارا کیا بنے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ تم اس وقت تک جنگ میں حصّہ نہ لو جب تک اِن باہر سے آئے ہوئے قبائل کے چند نمایاں آدمی تمہارے پاس یرغمال کے طور پر نہ بھیج دیے جائیں۔ یہ بات بنی قریظہ کے دِل میں اُتر گئی اور انہوں نے متحدہ محاذ کے قبائل سے یرغمال طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر یہ صاحب قریش اور غطفان کے سرداروں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ بنی قریظہ کچھ ڈھیلے پڑتے نظر آ رہے ہیں ،بعید نہیں کہ وہ تم سے یرغمال کے طور پر کچھ آدمی مانگیں اور انہیں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے کر کے اپنا معاملہ صاف کر لیں۔ اس لیے ذرا ان کے ساتھ ہوشیاری سے معاملہ کرنا۔اس سے متحدہ محاذ کے لیڈر بنی قُریظہ کی طرف سے کھٹک گئے اور انہوں نے قُرظی سرداروں کو پیغام بھیجا کہ اس طویل محاصرے سے اب ہم تنگ آ گئے ہیں ، اب ایک فیصلہ کن لڑائی ہو جانی چاہیے ، کل تم اُدھر سے حملہ کرو اور ہم اِدھر سی یکبارگی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بنی قُریظہ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ آپ لوگ اپنے چند نمایاں آدمی یرغمال کے طور پر ہمارے حوالہ نہ کر دیں ، ہم جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اس جواب سے متحدہ محاذ کے لیڈروں کو یقین آگیا کہ نعیم کی بات سچی تھی۔ انہوں نے یرغمال دینے سے انکار کر دیا اور اس سے بنی قُریظہ نے سمجھ لیا کہ نعیم نے ہم ٹھیک مشورہ دیا تھا۔ اِس طرح یہ جنگی چال بہت کامیاب ثابت ہوئی اور اس نے دشمنوں کے کیمپ میں پھوٹ ڈال دی۔
آج بھی یہی طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے اور اسی طریقے سے کامیابی ملنے کی امید کی جا سکتی ہے۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
85
موجودہ مروجہ ’’ احتجاج ‘‘ کو عام اردو میں ’’ ہڑتال ‘‘ اور انگریزی میں STRIKE کہتے ہیں۔
مغرب میں احتجاج یا STRIKE کا یہ طریقہ صنعتی انقلاب کے دوران شروع ہوا جو پہلے غیر قانونی رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قانونی اور جمہوریت کا حصہ بن گیا۔
بر صغیر میں موہن داس کرم چند گاندھی نے اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے سب سے پہلے (1918میں) احتجاج کا یہ طریقہ اختیار کیا اور اس کا نام دیا ’’ ہڑتال ‘‘ ۔
گاندھی گجرات کا رہنے والا تھا اور گجراتی زبان سے ہی ’’ ہڑتال ‘‘ کا لفظ اخذ کیا جس کے معنی ہیں ’ ہر جگہ تالا ‘ ۔
۔۔۔ یعنی ’ ہر جگہ تالا ‘ لگا دیا جائے اور
۔۔۔عوام الناس کی زندگیوں میں افراتفری پیدا کی جائے۔
۔۔۔لوگوں کے جان و مال کا نقصان کیا جائے۔
۔۔۔سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جائے
۔۔۔کسی کے کیئے کی سزا کسی اور کو دیا جائے۔
۔۔۔غیر قانونی طور حکومت پر قبضہ کیا جائے۔
۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
گاندھی کے بعد سے آج تک تمام سیاست دانوں نے اپنی مفاد کیلئے احتجاج کا یہی طریقہ اپنایا۔
مسلمانوں کے لیڈروں نے بھی بغیر سوچے سمجھے یہود و نصاریٰ کا ایجاد کردہ اور برصغیر میں ایک مشرک کا رائج کردہ احتجاج کا طریقہ اپنایا
اور آج بھی امتِ مسلمہ کی اکثریت اسی غیر اسلامی طریقے سے احتجاج کرکے اسلام دشمن کو ڈرانا چاہتی ہے لیکن ہوتا اس کا الٹ ہے۔
کیونکہ غیر اسلامی طریقے سے اسلام کا بول بالا کیسے اور کیونکر ممکن ہو۔
 

Zyaur Rahman

مبتدی
شمولیت
جون 12، 2021
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
میں جذبات لکھ رہا ہوں اور آپ الفاظ پڑھ رہے ہیں۔
شروع سے ہی ان آتنکوادی کتوں کی چال رہی ہے کہ جب جب الیکشن کا وقت قریب آتا ہے، یہ دہشتگرد آتنکوادی جماعت جس کا نام لینے کی ضرورت نہیں، دیش میں کچھ ایسے مسائل اٹھاتے ہیں، جس سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت بڑھ جاتی ہے۔
اور اصل مدعا سے لوگوں کا پورا دھیان منتشر ہو جاتا ہے،
بہر حال حالات کے پیش نظر کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:-
1- "جن لوگوں کو اپنی ماں بہنوں کی عزت کی پرواہ نہیں، جو بے غیرت ہیں، جن کی ماں بہنے خود بے غیرتی کی انتہا پر ہیں انہیں پردے کی اہمیت کیا سمجھ میں آئگی"
2- آج مسلمانوں کی دیش میں کیا حالت ہے، کہ ان کی خواتین کو اپنا حق لینے کے لیے سڑکوں پہ پروٹیسٹ کرنا پڑ رہا ہے، کیا مسلمان اتنے کمزور اور بے بس ہو گیے ہیں کی وہ اپنی خواتین کا حق بھی نہیں دلا سکتے۔ کہاں ہیں مسلمانوں کے پیشواں؟ کہاں ہے مسلمان مسلمان کہ کر مسلمانوں کا سپورٹ لینے والے؟ چند ایک کو چھوڑ کر سب خاموش ہیں۔
3- کیا مسلمانوں کی عورتوں کا اس طرح سڑک پر آکر پروٹیسٹ کرنا صحیح ہے؟؟
ہماری شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟؟
خیر شریعت کو تو ہم نے اپنی مرضی کا بنا رکھا ہے، ہر شخص اپنے مطلب کی چیز نکال لیتا ہے۔۔
آپ خود سوچے کیا آپ یہ پسند کرینگے کہ آپ کی ماں، بہن، بیٹی اس طرح سڑک پر آکر پروٹیسٹ کریں؟؟
یہ غیرت کی بات ہے اس لیے اس سوال کا جواب ہر شخص اپنے آپ سے پوچھے؟
آج ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک مسلم خاتون پر کچھ کراے کے کتوں نے بھونکا ۔۔۔ جوابا لڑکی نے بھی دو تین مرتبہ الله اکبر کے نارے لگاے
میں پوچھنا چاہتا ہوں کیا پورے کالج میں مسلم لڑکے نہیں ہیں؟؟ کیا پورے کالج کے مسلم لڑکے مر گۓ ہیں؟
آج ان کتوں کی ہمت اتنی بڑھ گئی کہ یہ مسلم لڑکی پر بھونکیگے؟
اور ہم یہ کہتے رہے کہ واہ بہن بہت اچھا تم اکیلی اور وہ سو)(100)؟؟
بات مسلم خواتین کے حق کی نہیں ہے،
کل کو کورٹ سے مسلم خواتین کے حق میں فیصلہ آ بھی گیا تو کیا؟؟
بات ان کتوں کی ہمت کی ہے، آج انہوں نے یہ اتنی شرمناک ہرکت کی ہے، کل کو پھر اس سے بڑا مسئلہ لے کر آئنگے؟
لہاذا گزارش اس علاقے کے مردوں سے ہیں، ان کے باپو اور بھائیوں سے ہیں کہ اس کے خلاف حتی الامکان ہر ممکن کاروائی کریں۔
ضیاء الرحمٰن عبدالمنان
 

اٹیچمنٹس

Top