• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احکام و عبادات حکمت و فلسفہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
احکام و عبادات حکمت و فلسفہ

ایک تحقیقی مقالہ۔۔ڈاکٹر مفسرح
احکام کا معنی و مفہوم
راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں:
اس کے معنی کسی چیز کی اصلاح کے لیے اسے روک دینے کے ہیں اور جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے اسے حاکم کہا جاتا ہے اور اس کی جمع حکام آتی ہے۔
(المفردات،ص۱۲۷؛المصباح المنیر،ص۷۸)
لسان العرب میں حکم کے معانی یوں بیان کیے گئے ہیں:
’’العلم والفقہ والقضاء بالعدل‘‘ (المفردات،
ص۱۲۷. المصباح المنیر،ص۷۸)
حکم علم و فقہ کو بھی کہتے ہیں اور عادلانہ فیصلے کو بھی۔
تاج العروس میں حکم کے معنی ہیں:
’’رائے یا فیصلہ‘‘ (تاج العروس، ۱۶؍۱۶۰؛کتاب العین،ص۲۰۴)
اور جوہری
رحمہ اللہ نے بیان کیے ہیں:
’’الحکمۃ من العلم۔‘‘ (الصحاح،۵؍۲۲۵)
اردو دائرہ معارف میں بیان ہے:
’’حکم کی جمع احکام ہے اور اس سے مراد وہ تمام قواعد ہیں جو کسی دیے ہوئے موضوع سے متعلق ہوں۔ (اردو دائرۃ المعارف،۲؍۴۵)
علم ِاحکام کے متعلق شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
واجب مندوب،مباح،مکروہ اور حرام امور کا علم خواہ ان کا تعلق عبادات سے ہویا معاملات سے وہ تدبیر منزل سے تعلق ہو یا سیاستِ مدن ہے۔ (الفوز الکبیر فی اصول التفسیر،ص۱۱)
قرآنِ کریم میں ’’الحکم‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے فرماں روائی اور اختیارات فیصلہ کے معنوں میں بیان ہوا ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:

إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ (سورۃ یوسف ۱۲:۴۰)
فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ (سورۃ الانعام ۶:۵۷)
فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے۔ وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ (سورۃ الأنعام،۶:۶۲)
خبردار ہو جاؤ !فیصلے کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں۔ اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔
لہٰذا مذکورہ بالا تعریفات اور قرآنِ کریم کی روشنی میں احکام سے مراد اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جس کے ذریعے بندوں کے بعض افعال کو واجب یا مستحب قرار دیا گیا ہو اور بعض کو حرام یا غیر مستحسن قرار دیا گیا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
احکامِ الٰہیہ کی اقسام
احکامِ الٰہیہ کی اقسام کے متعلق محمد علی تھانوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
ما شرع اللہ لعبادہ من الأحکام التی جاء بھا نبی من الأنبیاء سواء کانت متعلقۃ بکیفیۃ عمل وتسمی فرعیۃ و عملیۃ… او بکیفیۃ الاعتقاد و تسمی اصلیۃ واعتقادیۃ۔ (محمد علی تھانوی، کشاف اصطلاحات الفنون،۲؍۷۵۹)
اللہ تعالیٰ نے جو احکام اپنے انبیاء کے ذریعے اپنے بندوں کے لیے بھیجے وہ شریعت ہے ان احکام کا تعلق اگر عمل سے ہے تو انھیں فرعی اور عملی شریعت کا نام دیا جاتا ہے… اگر وہ اعتقادات سے متعلق ہوں تو انھیں اصلی اور اعتقادی شریعت کہا جاتا ہے۔
احکامِ الٰہیہ کی مزید وضاحت ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کرتے ہیں:
احکامِ الٰہیہ کی دو قسمیں ہیں ان میں ایک احکام شریعہ ہیں جو وحی الٰہی سے مشروع اور مقرر ہوتے ہیں۔ ان کا خطاب ذوالعقول کو ہوتا ہے خواہ وہ انسان ہوں یا جن، ان میں اوامرالٰہیہ حلال و حرام، جائز و ناجائز عبادات سے متعلقہ احکام ہوتے ہیں جو عموماً شریعت اور دین ہیں۔ اور احکامِ الٰہیہ کی دوسری قسم تکوینی ہے جو اللہ کی تمام مخلوق اور ساری کائنات پر جاری ہوتے ہیں وہ اللہ کے تقدیری امورہیں مثلاً شمس و قمر کا طلوع، نور وظلت،ہواؤں کا چلنا، بارشوں کا برسنا، انسان و حیوان اور نباتات کی پیدائش و نشوونما جیسے امور ہیں۔ (ادریس کاندھلوی، معارف القرآن، ۷؍۵۲۹)
احکامِ الٰہیہ کا مقصد و فلسفہ
دنیا کا کوئی ملکی اور ملی نظام ایسا نہیں ہے جس کی کوئی غرض و غایت اورمنزل مقصود نہ ہو ہر مذہب اپنا ایک خاص نظریہ اور مطمع نظر رکھتا ہے جس پر وہ دوسروں کو گھیر کر لانا چاہتا ہے جب انسانی نظام و دستور بلا ضرورت اور بے فائدہ نہیں بنایا جاتا تو یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ جس علیم و خبیر اور حکیم و بصیر کی مشیت و ارادہ کے بغیر دنیا کا کوئی نظام ایک دقیقہ کے لیے بھی نہیں چل سکتا اس کے نظام کا کوئی منشاء و مقصود نہ ہو۔ (عبدالرحمن،احکام قرآنی،ص۱۷)
شاہ ولی اللہ احکامِ الٰہی کی حکمت و فلسفہ بیان کرتے ہیں:
بندوں کے بعض افعال ایسے ہوتے ہیں جن سے پروردگار عالم خوش ہوتا ہے اور بعض افعال کی وجہ سے وہ ان سے ناخوش ہوتا ہے اور بعض افعال ایسے ہوتے ہیں جن سے خوش ہوتاہے نہ ناخوش ۔اسی واسطے حکمت بالغہ اور رحمتِ کاملہ الٰہی کا اقتضاء ہوا کہ انبیاء کو مبعوث کر کے لوگوں کو ان کے افعال پر آگاہ کر دے جن سے ان کی رضا مندی اور ناراضی کا تعلق ہوا کرتا ہے تاکہ جو ہلاک ہونے والے ہیں وہ دلیل کے بعد ہلاک ہوں اور جو زندگی حاصل کرنے والے ہیں وہ بھی بعد دلیل ہی کے زندہ ہوں۔ پس کسی فعل سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور عدم رضا کا تعلق ہونا یا دونوں حالتوں سے افعال کا بے تعلق ہونا اس کا نام حکم ہے۔ یا یوں کہو کہ حکم کسی شئے کا ایسی حالت پر ہونا ہے کہ لوگوں سے اس کا مطالبہ کیا جائے یا وہ اس سے روکے جائیں یا اس میں مختار ٹھہرائے جائیں۔ (حجۃ اللہ البالغہ،۱؍۱۹۷؛شعبان محمد اسماعیل، التشریح الاسلامی،ص۱۷)
نذیر الحق میرٹھی بیان کرتے ہیں:
انسان اس دنیا میں اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے اسے دنیا میں اسی حیثیت سے سوچنا اور رہنا چاہیے۔ جو خدا نے اس کے لیے مقرر کیا ہے اور تمام امور و معاملات اور تمدن و معاشرت میں اسے اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے چاہئیں۔ پس احکامِ الٰہیہ کا مقصود یہی ہے کہ انسانوں کو صحیح فکر ،صحیح علم، صحیح عمل اور صحیح آزادی دے کر فلاح انسانیت کی تمام راہیںکھول دے۔ (مسلمان اسلام کی کسوٹی پر، ص۲۶؛جلال الدین، احکام القرآن، ۵؍۳۰۶)
اشرف علی تھانوی احکامِ الٰہیہ کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہیں:
جس طرح خدا کی پیدا کردہ ادویہ میں مصالح و اغراض متعددہ ہوتے ہیں ایسا ہی اس کے احکام میں بھی متعدد حکمتیں و اسرار و رموز ہیں۔ چنانچہ ایک ایک جڑی بوٹی اور دوا میں اس نے صدہا اوصاف رکھے ہیں حتی کہ ایک ہی دوا سے کئی کئی امراض کا دفعیہ ہو جاتا ہے اس طرح خدا تعالیٰ کے بھی ایک احکام کی بہت سی حکمتیں ہیں جہاں تک انسانی علم نہیں پہنچتا۔ (احکام اسلام عقل کی نظر میں،ص۲۰)
اصغر علی روحی بیان کرتے ہیں:
احکام شریعت کے اسرار و حقائق اس قدر وسیع اور دینی اور دنیاوی اصلاح پر مشتمل ہیں بجز خواص الناس کے دوسرے لوگ ان سے آگاہ نہیں ہو سکتے۔ صدقات و خیرات کے اسرار و حکم اصلاح نفس اور اصلاح تمدن و معاشرت پر مشتمل ہیں یا یوں کہو کہ انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح میں احکامِ الٰہی بڑا ہی دخل رکھتے ہیں۔ (ما فی الاسلام،۲؍۷۸)
جمال الدین عطیہ بیان کرتے ہیں:
شرعیت کے تمام احکام اور نظام انسانوں کی مصلحت کے لیے ہیں یہاں تک کہ عبادات بھی لوگوں کی مصلحت اور فائدہ کے لیے ہیں۔( اسلامی شریعت کا عمومی نظریہ،ص۳۸)
وہبۃ الزحیلی بیان کرتے ہیں:
احکامِ شرعیہ کا مقصد یہ ہے کہ نظام کائنات درست طریقے سے چلتا رہے اور انسانیت ہلاکت کا شکار ہونے سے محفوظ رہے اب اس کے لیے اچھائی عام ہونی چاہیے اور خرابیاں ختم ہونی چاہئیں۔ (وھبۃ الزحیلی، اصول الفقہ الاسلامی، ۲؍۱۰۲)
امام شاطبی رحمہ اللہ احکامِ الٰہیہ کی اطاعت کی حکمت بیان کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف و منزلت کا معیار احکامِ الٰہیہ کی اطاعت و پابندی ہے۔ ہر ایک کو چاہیے کہ شرف و منزلت کے حصول کے لیے شرعی احکام کی پابندی کو بنیاد سمجھے جو جس قدر شرعی احکام کی پابندی کر لے گا وہ اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ محبوب ہو گا جتنا زیادہ عملی اور اعتقادی لحاظ سے شریعت کے قریب ہوں گے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے قریب ہوں گے اور جس کی شریعت کے ساتھ وابستگی کمزور ہو گی تو اللہ کے ہاں اس کا حسب و نسب کچھ کام نہ آئے گا۔ (الاعتصام،۱؍۵۰۱)
وہبۃ الزحیلی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
شرعی احکام کا نفاذ اور اس کی پابندی لازمی ہے کیونکہ شرعی احکام حق پر مبنی ہیں اس کی تعظیم فرض ہے۔ حقوق و واجبات کی ادائیگی واجب ہے۔ غیر شرعی احکام کا نفاذ حرام ہے۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو ڈرایا ہے اور انھیں ان کے اس فعل کہ اللہ کے احکام کے خلاف فیصلہ کریں کافر قرار دیا ہے۔ (الفقہ الاسلامی و أدلتہ،۸؍۵۹۲۲)
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ(سورۃ المآئدۃ ۵:۴۴)
خورشید احمد بیان کرتے ہیں:

شریعت ہمارے لیے ان ہی چیزوں کو بھلائی قرار دیتی ہے جو خدا کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق ہیں اور ان کو برائی قرار دیتی ہے۔ جو اس فطرت کے مطابق نہیں وہ بھلائیوں اور برائیوں کی ایک فہرست بنا کر ہمارے حوالے نہیں کرتی۔ بلکہ زندگی کی پوری سکیم اس نقشے پر تیار کرتی ہے کہ اس کی بنیادیں بھلائیوں پر قائم ہوں اور معروفات اس میں پروان چڑھ سکیں اور نظام زندگی میں منکرات کا زہر پھیلنے کے مواقع باقی نہ رہنے دیے جائیں۔ (اسلامی نظریۂ حیات،ص۳۲۴۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہودیت میں احکام کا مفہوم و فلسفہ
Hasting's Dictionary of Bibleمیں احکام"Law"کے متعلق بیان کیا گیا ہے:
Word for "law" is to point out or to direet, meaning properly, a pointing out or direction and being used specially of authoritative direction. (Hasting's Dictionary of the Bible, 3/64; The Standard Jewish Encyclopaedia, P.1174)
احکام سے مراد اشارہ کرنے یا درستگی کے ہیں اور اصطلاحی معانی واضح کرنا یا ہدایت دینے کے ہیں اور خاص کر اس سے مراد ’’الہامی ہدایت‘‘ کے لیا جاتا ہے۔
According to the Jewish theory yahwa is the source of all law. Moses the medium through whom it was revealed to Israel. (Encyclopaedia Biblica, 3/2730)
یہود کے نظریہ کے مطابق ’’اللہ تعالیٰ‘‘ ہی تمام شرعی احکام کا ماخذ ہے۔ اور موسیٰ ایک وسیلہ ہیں۔ جن کے ذریعے احکاماتِ الٰہی اسرائیل پر ظاہر ہوئے۔
اگرچہ شریعت موسوی میں تورات ہی منبع احکام ہے تاہم یہود یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تورات کے ساتھ ساتھ تالمود اور مشنہ میں بھی احکامات دیے گئے ہیں جو یا تو تورات سے اخذ کیے گئے ہیں یا وہ زبانی احکامات ہیں جو نسل در نسل چلتے رہے اور اب بالآخر ان کو ان کتب میں لکھا گیا۔

Jewish Religionکی ویب سائٹ میں درج ہے:
Many laws in judaism are not directly mentioned in Torah, but are derived from texutal hints, which were expanded orally and eventually written down in the talmud and Mishnah. (Jewish Religion, (Retrived from 20 February, 2010, http://www.space and motion, com religion judaism,Jewis,htm); Everyman's Encyclopaedia , 7/102;Black's Bible Dictionary, P.725;New Dictionary of the History of Ideas,3/1171)
تورات میں اکثر مقامات پر احکام کا ذکر کیا گیا ہے۔ استثناء میں درج ہے:
اور اب اے اسرائیلیو! جو آئین اور احکام میں تم کو سکھاتا ہوں تم ان پر عمل کرنے کے لیے ان کو سن لو تاکہ زندہ رہو۔ (استثناء،۴:۱)
اگر تم میری شریعت پر چلو اور میرے حکموں کو مانو اور ان پر عمل کرو تو میں تمہارے لیے بروقت مینہ برساؤں گا۔ (احبار،۲۶:۳)
اور تمہارے ان حکموں کو سننے اور ماننے اور ان پر عمل کرنے کے سبب خداوند تیرا خدا بھی تیرے ساتھ اس عہد اور رحمت کو قائم رکھے گا۔ (استثناء،۷:۱۲)
کتاب گنتی کے آخری باب کی آخری آیت میں لکھا ہے:
جو احکام اور فیصلے خداوند موسیٰ کی معرفت موآب کے میدانوں میں جو یریحو کے مقابل یردن کے کنارے واقع ہیں بنی اسرائیل کو دیے وہ یہی ہیں۔ (گنتی،۳۶:۱۳)

Soloman Schechterاحکامِ الٰہیہ کے متعلق بیان کرتا ہے:
The Torah as a revealed code is under no necessity of deducing things from each other for all the commandments came from the same divine authority and therefore, are alike evident, and have the same certainty. (Soloman Schechter, Studies in Judaism, the Dogmas of Judaism, (Retrived from 20January, 2010, http://www.sacred.texts.com/ jud studies,htm))
کہ تمام احکامِ تورات ایک ہی ہستی خدائے مقدس سے آئے ہیں۔ اس لیے تمام احکام معتبر اور مکمل طور پر قابلِ یقین ہیں۔ اس سے کہ تمام قوانین و احکام کا ماخذ و منبع خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے اور موسیٰ کو شریعت دیتے وقت ان احکام کی تعمیل کا یہود سے وعدہ لیا گیا تھا ان کی اطاعت کی صورت میں دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانیوں کا وعدہ کیا گیا تھا اور نافرمانی اور عصیان کی صورت میں انتہائی ذلت و دردناک عذاب کی وعید دی گئی تھی۔ کیونکہ یہ شریعت اور احکام دینے والی اور وعدہ تعمیل کروانے والی ذات کوئی عام نہیں بلکہ انتہائی افضل،مقدس ذات خالقِ کائنات تھی۔
اس سلسلے میں
Dummelow's Commentory on Holy bibleمیں احکام کا فلسفہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود سے وعدہ لیا تھا کہ اگر اس کے احکامات پر عمل پیرا ہو گے تو ان کو خوشحالی اور ترقی عطا کرے گا۔
Promise of prosperity attached to obedience. (Dummelow's Commentory on the Holy Bible, P.100)
احکامِ الٰہی زندگی کے ہر نشیب و فراز اور حیاتِ ارضی کے ہر موڑ پر کام آتے ہیں۔ ہر مصیبت و آفت میں سکون دل اور راحتِ جان بخشنے والے ہیں اور ہر مشکل وپریشانی میں صبر و استقامت ،امید اور ڈھارس دینے والی اور خوشی اور مسرت کے تمام اوقات میں خلق خدا سے ہمدردی و شفقت اور خوف خدا کا درس دیتے ہیں۔ انسان اپنی ناکامیوں کے اسباب کا جائزہ لے کر وحی الٰہی کی روشنی میں کامیاب زندگی گزار سکتا ہے۔ تورات اور اس کے احکامات کے متعلقHarding Woodنے یہی فلسفہ بیان کیا ہے۔
بقول مصنف:

What does the Pentateuch say to us today? It reveals to us our own human failure and god's divine faith fullness and it does this very largely in a panorama of pictures. (Harding Wood, A bird's -eye Views of the Bible, 1/24)
Israel Abrahamاحکام تورات کا تصور بیان کرتا ہے:
The feature of judaism which first attracts on out sider's attention and which claims a front place in this survey, is its legalism. Life was placed under the control of law. Not only morality religion was also codefied. (Israel Abraham, Judaism, P.13)
یہودیت کی خصوصیات جو غیر یہودی کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہیں۔ وہ اس کا قانون ہے کیونکہ یہودی مذہب میں تمام زندگی کو احکام کے تحت گزارنے پر پابند کیا گیا ہے۔ کیونکہ احکام اخلاقیات اور مذہب دونوں کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا مذہبی اور معاشرتی و معاشی ہر اعتبار سے احکام رہنمائی کرتا نظر آتا ہے اور نہ صرف ایک یہودی کی زندگی بلکہ پورے یہودی معاشرے کا ذریعہ ہے۔
یہی بات
Ander Neherاحکام کے متعلق بیان کرتا ہے:
It is not law, it is the way, the road along which a common enterprise is possible. (Ander Ncher, Moses, P.106)
یہ صرف احکام ہی نہیں ہیں بلکہ زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ہیں۔
Jewish Encyclopaediaمیں شرعی احکام کا مقصد انتہائی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔
The law was accordingly a privilege which was granted to Israel because of God's special favour. Instead of blind faith, Judaism requires good works for the protection of man against the spirit of sin. The law was to impress the life of the jew with the holiness of duty. It spirtualized the whole of life. It trained the Jewish people to exercise self control and moderation. (Jewish Encyclopaedia, (Retrived from January 20, 2010, http:// www. jewish encyclopaedi.com/view,jsp?artid=666&letter=J&search Judaism#2316)
تورات میں دئیے گئے احکامات کا مقصد اعمالِ صالحہ کا حصول ہے جس کے ذریعے انسان گناہ کی زندگی سے اجتناب کر سکتا ہے اور احکامِ الٰہی کی تابعداری ہی سے ایک یہودی اپنی زندگی کو پاکیزہ بنا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ احکام تورات یہودی قوم کے لیے ضبطِ نفس کی تربیت کا بہترین ذریعہ ہیں۔
Encyclopaedia of Religion and Ethicsکا مقالہ نگار شریعت موسوی میں احکام کا مقصد ومنشا بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
It is often alleged that all the laws aim at the well-being of the individual and of society but it is quite as frequently emphasized that only the unselfish fulfilment of the law has moral value, and that the ennobling of humanity is the highest aim. (Encyclopaedia of Religion and Ethics, 7/857)
اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تمام احکام کا مقصد فرد اور معاشرے کی فلاح و بہبود ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو باوقار بنانا بھی احکام اور دوسرے معنوں میں قوانین کا بڑامقصد ہے۔ کیونکہ اکثر یہودی لٹریچر میں احکام کو قانون کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تورات قانون کی کتاب ہے جبکہ اس میں احکامات بیان کیے گئے ہیں۔ جو موسیٰ علیہ السلام کو عنایت کیے گئے۔
اس سلسلے میں مزید وضاحت
Abrahamکے اس بیان سے کی جا سکتی ہے:
The law was the expression of the will of God, and obeyed and loved as such. But the law was also the expression of the divine reason. Hence man had the right and the duty to examine and realise how his own human reason was satisfied by the law. (Israel Abraham, Judaism, P.51)
قانون منشائے الٰہی کا مظہر تھا اور اسی لیے اس کی اطاعت کی جاتی اور اس سے محبت کی جاتی ہے لیکن قانون، حکمت الٰہیہ کا بھی مظہر تھا اس سے انسان کا یہ حق اور فرض بنتا تھا کہ وہ اس امر کی تحقیق و تعیین کرے کہ قانون اس کی اپنی انسانی دانش کو کس طرح مطمئن کرتا ہے اس بیان سے واضح علم ہو رہا ہے کہ احکام الٰہیہ کو ہی یہودی لٹریچر میں قانون کہا گیا ہے۔ کیونکہ احکامِ الٰہیہ ہی ان کی زندگیوں کو گزارنے کے لیے ایک قانون ہیں جس کی منشاء کے تحت انھوں نے اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہے۔
J.H. Hertzاحکامِ تورات کی منشاء حق اور سچ کو باطل سے جدا کرنا بیان کرتا ہے:
Judaism mission is just to teach the world that there are false gods and false ideals as to bring it nearer to the true one. Abraham, the friend of God, who was destined to become the first winner of souls, began it career, according to the legend, with breaking idols, and it is his praticular glory to have been the opposition to the world. (A Book of Jewish Thoughts, P.23)
یہودیت کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو یہ سبق پڑھایا جائے کہ جھوٹے خدا اور جھوٹے تصورات جو پائے جاتے ہیں۔وہ اسے سچے خدا کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جسے روحوں کے فاتح ہونے کا کردار ادا کرنا تھا۔ اس نے اپنا کردار بتوں کو توڑنے سے شروع کیا۔ یہ اس کی خاص عظمت ہے کہ وہ دنیا کی مخالفت میں کھڑا ہو گیا اسی طرح شریعت موسوی جھوٹے تصورات اور خداؤں کو باطل قرار دینے اور ایک خدا کی عبادت اور حق اور سچ پر عمل پیرا ہونے کے لیے عطا کی گئی۔
Encyclopaedia Judaicaکا مقالہ نگار احکام تورات کے مقاصد و اہمیت کو بیان کرتا ہے:
In Jewish law the man is subject to a system of obligation and precepts. This is clearly evident in Mishnah, which states that, "No one is free but on who studies Torah.
Man is not at all free in this world, because he is subject to commandments of "you shall" and "youshall not" and that only in death one becomes free, because when a person is dead, he is free, in the sence of being exempt of the obligation of the commandments. (Encyclopaedia Judaica, 17/311)
یہودی قانون انسان کے فرائض اورنصائح کے ایک نظام کا تابع ہے۔ یہ یہودی ہدایات کی کتاب مشناہ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے جو کہتی ہے’’ کہ کوئی بھی آزاد نہیں ما سوائے اس کے جو توراۃ کا مطالعہ کرتا ہے۔‘‘ انسان اس دنیا میں ہرگز آزاد نہیں ہے۔ وہ ان احکامات کا اتباع کرتا ہے ’’تم ایسا کرو گے‘‘اور’’ تم ہرگز ایسا نہ کرنا۔ ‘‘اور صرف موت ہی ہے جس کے آنے پر انسان آزاد ہو جاتا ہے کیونکہ جب کوئی فرد مرتا ہے تو وہ وجود کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے اور احکامات کی پابندیوں سے مستثنیٰ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا احکام انسان کی آخری سانس تک اس کو عمل کا پابند بناتے ہیں جو اس کو مقصد تخلیق انسانی اور رضائے الٰہی سے روشناس کرانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
Illustrated World Encyclopaediaکا مقالہ نگار بائبل میں بیان کیے گئے احکام کا مقصد اسے پرُامن اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام قرار دینا ہے جس میں تمام لوگوں کو ان کے حقوق میسر ہوں اور اس کے ساتھ احکام پر عمل پیرا ہونے والوں کے دلوں میں جذبہ حبّ الٰہی بھی لازما ہو۔
The commandments, and other laws described in the Bible formed the basis of Judaism, the religion of the Jews. Its teaching included a love of God, respect for parents and the aged, a love of neighbour includings, kindness to animals and a love of peace. (Illustrated World Encyclopaedia, P.907)
یعنی احکام ہی یہود کا اصل مذہب ہیں اور احکام کی تعلیمات میں خدا سے محبت، بزرگوں اور والدین کا احترام، ہمسایوں اور پردیسیوں سے محبت میں دین میں انصاف اور ہر کسی سے مہربانی شامل ہے۔
Ander Neherاحکامِ الٰہیہ کے اسرار و مقاصد یوں بیان کرتا ہے:
Law illuminates human life in its entirity, or rather it enfolds life like a gigantic wave, flowing through all its openings, infiltrating through all its channels and spreading between all its banks. From the most brutal biological instincts to the most refined spirtual sublimation, all is embraced by the law and impregnated by it. If the manifold aspects of life are intimated, with such realism, it is because the effort to attain sanctity must tend towards their organization and unification. (Moses, P.104)
احکام انسانی زندگی کے جملہ مظاہر پر روشنی ڈالتے ہیں اور زندگی کے تمام پرتوں کو ایک عظیم الشان لہر کی طرح کھولتے ہیں جس کو تمام منابع میں سے نکلتے ہوئے اس کو تمام ندی نالوں میں سے گزرتے ہوئے اور اس کو اپنے تمام کناروں کے مابین پھیلتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ یہ زندگی کو اس کی انتہائی سنگ دلانہ جبلتوں سے لے کر اس کی روحانی عظمتوں تک جاتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ ہر شعبہ حیات احکام (قانون) سے ہمکنار ہوتا ہے جو اس کے ہر پہلو سے اس کے اندر سرایت کرتا ہے۔ اگر زندگی کے تمام پہلوؤں کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو معقولیت کے تمام پیمانے ان کی تنظیم اور وحدت و یگانگت کی طرف لے جاتے ہیں۔ یعنی احکام زندگی کے ہر ہر پہلو کی راہنمائی کے لیے انسانی زندگی کے ساتھ منسلک ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے سے انسان اور معاشرے پر ان کی افادیت اور ثمرات ظاہر ہوتے ہیں۔
Jacob Neusnerاحکامِ الٰہیہ کا مقصد و فلسفہ بیان کرتا ہے:
Law is not divorced from values, but rather concretizes man's belief and ideals. The purpose of commandments to show the road to sanctity, the way of God. (The Way of Torah: an Introduction to Judaism, P.25, (Retrived from 8th, January, 2010, http://www.questia.com/reader/action/ open/98243209)
قانون اقدار سے جدا نہیں بلکہ انسان کے عقیدے اور تصورات کو مستحکم کرتا ہے اور احکامات کا مقصد عقل و تدبر کا راستہ دکھانا ہے جو کہ خدا کا راستہ ہے۔ لہٰذا یہودیت میں بھی احکامِ الٰہی کی پیروی ہی صراطِ مستقیم ہے اور باعث نجات بھی کیونکہ احکامِ الٰہی کی اطاعت دراصل خداوند کی اطاعت تصور کی جاتی ہے۔
Abba Hille Silverاحکام تورات کی حکمت بیان کرتا ہے:
The commandments were given for no other purpose than to help men to live because of them, and not to die. (Where Judaism Differ, P.266)
احکامات کا مقصد سوائے اس کے اورکچھ نہیں ہے کہ انسان کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندہ رہنے میں مدد دی جائے اورہلاکت و تباہی میں پڑنے سے روکا جائے۔
لہٰذا شریعت موسوی میں احکامِ الٰہی زندگی کے ہر موڑ، نشیب و فراز اور حیاتِ ارضی کے ہر موڑ پر کام آتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا اور ا س کے تقرب کے حصول کا واحد ذریعہ ہیں۔ یہ انسان کے مکلف ہونے سے تادمِ مرگ اس کی زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور انسان کو فہم و فراست اور عقل و تدبر عطا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس کی فلاح کا پیش خیمہ اور ہلاکت و بربادی کے سامنے ایک ڈھال ہیں۔ معاشرتی سطح پر عدل و انصاف، مساوات ،بھائی چارہ اور امن و سلامتی کو فروغ دیتے ہیں انسان کو اس کے مقصد تخلیق سے آگاہ کرتے ہیں اور ان ہی کے ذریعے حق و باطل اور جھوٹے اور سچے معبودوں کے درمیان تمیز کی جا سکتی ہے۔ یہ منشائے الٰہیہ اور حکمت الٰہیہ کا مظہر ہیں۔ الغرض دنیاوی و اخروی فلاح و نجات ان کی اطاعت ہی میں مضمر ہے اور یہی دراصل احکام کی حکمت ہے، یہی ان کا مقصد اور فلسفہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسلام میں عبادات کا معنی و مفہوم
عبد وہ ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور یہ لفظ ’’حرّ‘‘ آزاد کی ضد ہے۔
’’تعبد الرجل‘‘ یعنی آدمی کو غلام بنا لیا اور اس کے ساتھ غلام جیسا معاملہ کیا اور عبادت اس اطاعت کو کہتے ہیں جو پوری فرماں برداری سے ہو۔
(لسان العرب، ۳؍۲۷۰)
الزبیدی بیان کرتے ہیں:
عبادت سے مراد ایسے اعمال ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔ (تاج العروس، ۵؍۸۴؛ القاموس الوافی، ص۷۵۲)
العبودیۃکے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت و انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے پر بولا جاتا ہے۔ لہٰذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہو سکتی ہے جو بے حد صاحب افضال و انعام ہو اور ایسی ذات صرف ذاتِ الٰہی ہی ہے۔( مفردات القرآن،ص۳۱۹)
اسی لیے فرمایا:

اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ (سورۃ الاسراء ۱۷:۲۳)
کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔
الصحاح کی رو سے عبودیۃ کی اصل الخضوع اور الذل ہے۔ یعنی عاجزی و انکساری، اطاعت و فرماں برداری اور ذلت و پستی وغیرہ۔( الصحاح ،۲؍۹۹)
محمد عبدہ بیان کرتے ہیں کہ عبادت انتہائی خضوع کے ساتھ اطاعت ہے۔ ہر عبارت جو پورے پورے معنی کو ظاہر کر دے اور مفہوم کو بالکل روشن کر دے۔
(تفسیر المنار، ۱؍۵۳(
مولانا مودودیبیان کرتے ہیں:
مادہ عبد کا اساسی مفہوم کسی کی بالادستی اور برتری تسلیم کر کے اس کے مقابلے میں اپنی آزادی اور خود مختاروں سے دست بردار ہونا ہے۔ سرتابی اورمزاحمت چھوڑ دینا اور اس کے لیے رام ہو جانا ہے۔ یہی حقیقت بندگی اور غلامی کی ہے اور اس سے ذہن میں جو تصور پیدا ہوتا ہے وہ بندگی اورغلامی کا ہے۔ (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، ص۸۲،۸۳)
اصغر علی روحی بیان کرتے ہیں:
عبادت ایسے فعل اختیار کو بولتے ہیں جو جسمانی لذت کے منافی ہو اور جو اطاعت شریعت کی وجہ سے بہ نیت تقرب ذات باری صادر ہو۔ (ما فی الاسلام،۲؍۷)
شبلی نعمانی بیان کرتے ہیں:
عبادت سے مراد شریعت میں خدائے عزوجل کے سامنے اپنی بندگی اور عبودیت کے نذرانے پیش کرنا ہیں اور اس کے احکام کو بجا لانا ہے۔ اس لیے قرآنِ پاک میں عبادت کا مقابل اور بالضد لفظ استکبار اور غرور استعمال ہوا ہے۔(عبادات، ص۲۱؛حکیم محمود احمد، اسلام کا معاشرتی نظام،ص۴۷)
اس کو قرآنِ کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے:

وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ(سورۃ الانبیاء،۲۱:۱۹)
اور جو فرشتے اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عبادات کی حکمت و فلسفہ
اللہ کی اطاعت بذاتِ خود مقصد نہیں ہے اس لیے کہ بندوں کی اطاعت سے اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی ان کی نافرمانی سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت بندے کی تربیت کا ایک وسیلہ ہے جس کا سارا فائدہ بندوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو پہنچتا ہے۔ لہٰذا اطاعتِ الٰہی کا مقصد، لوگوں کی بھلائی روئے زمین کی تعمیر وترقی ،بہتر عمل اور اچھی زندگی پر آمادہ کرنا خالق کی پہچان، امن و سلامتی اور ہر ایک کی خیر خواہی کی بنیاد پر انسانی نظام حیات کی حفاظت ہے۔( نظریہ ضرورت الشریعۃ،ص۳۴۶)
عبادات انسان کی ذاتی منفعت اور بھلائی کے لیے ہیں اس سلسلے میں عز الدین بن عبدالسلام بیان کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ سب کی عبادت سے بے نیاز ہے نہ اسے فرماں برداروں کی اطاعت کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ گناہ گاروں کا گناہ کچھ نقصان پہنچا سکتا ہے۔
(عز الدین بن عبدالسلام، قواعد الاحکام،۲؍۷۰)
عبدالحامد بدایونی بیان کرتے ہیں:
عبادات انسان کے نفس کو مہذب بناتی ہیں۔ اخلاق ذمیمہ ترک کر کے اچھی عادتیں پیدا کرتی ہیں۔ انسان اتنی دیر دنیا اور اس کی لذات سے دماغ کو پاک صاف کر کے خالق کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس طرح بادشاہ کے خوش ہو جانے سے خادم و نوکر کی زندگی سنبھل جاتی ہے۔ اور وہ خوشنودی حاصل کر کے مراتب حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح عبادت سے انسان کی بندگی کا اظہار خالق کے قرب کا ذریعہ ہے اور رضائے الٰہی کا سامان ہے جتنا جتنا وہ قرب حاصل کر لے گا اتنا ہی معزز ہو گا۔ دل میں ایک سرور پیدا ہو گا قلب پر نورانی شعاعیں پڑنے سے اس کے اندر ایک انقلاب برپا ہو گا۔
(فلسفہ عبادات اسلامی،ص۱۰)
اصغر علی روحی بیان کرتے ہیں:
عبادت سے غرض یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو پاک کر لے اور بجز عبادت کے نفس مختلف قسم کی اندرونی نجاستوں سے کبھی پاک نہیں ہو سکتا۔اور یہ ایک ایسا امر ہے کہ اس سے کوئی شخص بھی مستثنیٰ نہیں۔ (ما فی الاسلام،۲؍۱۳)
امام رازی بیان کرتے ہیں:
عبادت تعلیم کی انتہا سے عبادت ہے اور اس کا کوئی حق دار نہیں سوائے اس کے جس سے انتہائی نعمتوں کا صدور ہوتا ہے اور اس انعام کا سب سے بڑا مظہر زندگی ہے جو فائدہ حاصل کرنے کے لیے فائدہ مند ہے۔ (تفسیر کبیر، ۲۸؍۱۹۹)
امام غزالی عبادات کا فلسفہ بیان کرتے ہیں:
عبادات انسان کے قلب کی صحت کے لیے وہی حکم رکھتی ہیں جو دعائیں اس کی بدنی صحت کے لیے جب کہ وہ دوا کے خواص اور اس کے ترکیب کے راز کو نہیں سمجھتا، اسے طبیب سمجھتا ہے یا وہ عالم جس نے اس کے علم میں اختصاص حاصل کرلیا ہو۔ طبیب جو دوائی تجویز کرتا ہے ہر مریض اس کی تقلید کرتا ہے اور اس سے اس بارے میں بحث و مباحثہ نہیں کرتا۔ لہٰذا مجھے یقین معلوم ہوا کہ عبادت کی دوائیں اپنی حدود اور مقداروں کے ساتھ انبیاء کی طرف سے مقرر شدہ ہیں۔( المنقذ من الضلال،ص۳۹،۴۰)
شریعت الٰہی نے انسانیت کی تربیت کے لیے بہت سے انداز اختیار کیے اور ان میں اسی بات کو پیش نظر رکھا کہ انسانوں کو ان کے مقصد حیات سے آگاہی دلائیں۔ چنانچہ اس ضمن میں شریعت نے دنیا کی بے ثباتی، آخرت کی طرف رغبت اور اللہ کی عبادت کا حکم دیا جن و انس کا تو بنیادی مقصد وجود ہی یہ قرار دیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (سورۃ الذریٰت،۵۱:۵۶)
میں نے جن اور انسانوں کو سوائے اس کے کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔
۱علی بن ابی طلحہ کہتے ہیں:
ابن عباس نے کہا الا لیعبدون کے معنی یہ ہیں کہ وہ خوشی سے کریں یا مجبور ہو کر کریں ہر حال میں وہ میری ہی عبادت کا اعتراف کریں ۔اور ابن جریر کا بھی یہی مؤقف ہے۔( تفسیر طبری،۲۷؍۱۷)
علامہ ماوردی بیان کرتے ہیں:
جنات اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ خوشی یا نا خوشی سے صرف میری ہی عبادت کریں۔ (تفسیر الماوردی،۵؍۳۷۴)
مقاتل بن سلیمان خلاصہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
آیت کا معنی یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ اکیلے اس کی عبادت کریں اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں جو اس کی اطاعت کرے گا اسے اس کا پورا اجر دیا جائے گا اور جو نافرمانی کرے گا اسے شدید ترین عذاب دیا جائے گا۔ (تفسیر مقاتل،۳؍۲۸۰،۲۸۱)
اسلام میں ہر طرح عبادات میں مالی بھی اور بدنی بھی ان کی ادائیگی میں مرغوبات نفس کو ترک بھی کرنا پڑتا ہے۔ مال کا خرچہ،وقت کا صرفہ، جسمانی ریاضت یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کے لیے ہر سطح کا انسان پورے شرح صدر کے ساتھ بروقت تیار رہے لیکن اسلام کا مقصود نفس کا تزکیہ ہے۔ اس کو اذیت دینا نہیں اس لیے اس کے مطالبات حد اعتدال سے آگے نہیں بڑھے۔ (اسلام کا نظام حقوق وفرائض، ص۱۰۷،۱۰۸)
الغرض بجز عبادت کے اور کوئی ذریعہ تہذیب نفس کا مقصود نہیں ہو سکتا۔ کوئی شخص علم و کمال کے خواہ کسی درجہ فضیلت تک ترقی حاصل کرے مگر بجز ذکر و عبادات کے وہ مردان الٰہی کی صف میں شمار کیے جانے کے قابل نہیں۔
(اصغر علی روحی، ما فی الاسلام،۲؍۱۶)
امام رازی بیان کرتے ہیں:
جب اللہ تعالیٰ نے تکذیب کرنے والوں کا تذکرہ کیا تو یہ آیت ذکر فرمائی تاکہ ان کے برے کاموں کا بھی تذکرہ کیا جائے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت ترک کر دی حالانکہ انھیں تو پیدا ہی اس لیے کیا گیا تھا۔( تفسیر کبیر، ۲۸؍۱۹۸)
لہٰذا انسان اسی حیثیت سے پیدا کیے گئے ہیں کہ ان سے عبادت ہی حاصل ہو اورعبادت کی طرف انھیں ہدایت کی گئی تو یہ ان کے پیدا کرنے کی غایت کمالیہ ہے۔
یعنی ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر ہو انسان اپنے آپ کو دائمی اور ہمہ وقتی ملازم سمجھے انسان کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اللہ کی عبادت سے خالی نہ ہو۔ اس دنیا میں انسان جو کچھ بھی کرے اللہ کی شریعت کے مطابق کرے، سونا جاگنا، چلنا پھرنا،کھانا پینا غرض سب کچھ اللہ کے قانون ِشرعی کی پابندی میں ہو۔ (اسلامی عبادات ایک نظر میں،ص۱۱)
اس لیے جو کوئی بھی اس فرض کو بجا لانے سے پہلو تہی کرتا ہے وہ درحقیقت انسان نہیں کیونکہ صحیح معنی میں کوئی چیز اسی وقت وہ چیز ہو سکتی ہے جب وہ اپنے اس فعل میں کامل ہو جس کے لیے وہ وجود پذیر ہوئی ہے۔ (ما فی الاسلام،۲؍۲)
یوسف قرضاوی بیان کرتے ہیں:
یہ عبادات ہی کا کام ہے کہ وہ اپنے مولا کو بھولنے یا اپنی آخرت سے غافل ہونے والے کے لیے تنبیہ اور تذکیر کا کام کریں۔ پھر ان کی ادائیگی کے بعد انسان کو چھوڑ دیں کہ وہ اپنی دنیا کی طرف لوٹے جسے وہ تیز قدموں اور پوری قوت کے ساتھ کوشش کر کے حاصل کر لے۔ (اسلام میں عبادات کا حقیقی مفہوم(مترجم ،خدا بخش کلیار)،ص۲۲۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہودیت میں عبادات کا معنی و مفہوم
Encyclopaedia Judaicaکا مقالہ نگار عبادات"Prayers"کے متعلق وضاحت کرتا ہے:
Prayer: the offering of petition, confession, adoration or thanksgiving to God. In the Bible the concept of prayer is based on the eonviction that God exists hears and answers, that he is a personal deity. (Encyclopaedia Judaica, 16/456)
عبادت سے مراد عرض داشت پیش کرنا، اقرار گناہ اور تحمید و تمجید کا اظہار یا شکر کی بجا آوری ہے اور بائبل میں تصور عبادت اس یقین پر مبنی ہے کہ خدا موجود ہے وہ سنتا ہے ،جواب دیتا ہے اور وہ ایک ہستی الٰہ ہے۔
Standered Jewish Encyclopaediaکا مقالہ نگار"Prayer"کے متعلق بیان کرتا ہے:
Man's appeal to God, wheather as a request or in thanksgiving. (The Standered Jewish Encyclopaedia, P.1535; Hasting's Dictionary of the Bible, 4/38)
اس سے مراد انسان کی استدعا ہے خواہ یہ بطور التجا کی جائے یا اظہار تشکر اور کرم فرمائی پر ادائے شکر کے طور پر کی جائے۔
Encyclopaedia Judaicaکا مقالہ نگار عبادات کے متعلق مزید بیان کرتا ہے:
Services rendered to god and comprehending both, the attitude of reverence and love toward the diety and the activity in conduct as well as ritual in which the homage finds expression. (Encyclopaedia Judaica, 21/230)
اللہ کی خوشنودی و رضا جوئی کے لیے کیے گئے کام اور الوہیت کی جانب بڑھنے کے آدابِ تکریم اور جذبہ عشق دونوں کا ادراک حاصل کرنا اس کے ساتھ ساتھ مناسب طرزِ عمل اور رسوم عبادت کی ادائیگی اظہار بندگی بن جاتی ہے۔ لہٰذا یہودیت میں عبادت سے مراد اللہ کے آگے جھکنا، گڑگڑانا، گناہوں کی معافی مانگنا، اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ عبادات بندگی کے اظہار کا ذریعہ بھی ہیں۔
تورات میں یہود کو انتہائی خوش دلی اور فرحت کے ساتھ عبادت کو بجا لانے کا حکم دیا گیا تھا اور عبادت سے انکار کی صورت میں انتہائی سخت وعید کی گئی تھی جس سے شریعت موسوی میں عبادات کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اور چونکہ تو باوجود سب چیزوں کی فراوانی کے فرحت اور خوشدلی سے خداوند اپنے خدا کی عبادت نہیں کرے گا اس لیے بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور سب چیزوں کا محتاج ہو کر تو اپنے دشمنوں کی خدمت کرے گا۔
(استثناء،۴۸:۴۷،۴۸)
یہودیت میں عبادات کا مقصد و فلسفہ

Fosdickاپنی کتاب"The Meaning of Prayers"میں بیان کرتاہے:
Prayers opens our lives to the guidence of God. (The Meaning of Prayer, P.55)
یعنی عبادات ہی کے ذریعے ہماری زندگیاں خدا کی ہدایات اور راہنمائی سے آگاہ ہوتی ہیں۔
Collier's Encyclopaediaکا مقالہ نگار یہودیت میں عبادات کی منشاء بیان کرتا ہے:
Judaism as a way of life requires practice. Every ritual practice and ceremonial observence is for the jew a reminder of God's continuous place in his life. Religious practice is regarded as a discipline to help improve man's character it is a form of instruction, learning by doing. For the jew it provides a way of reliving the expreiences of his people and thus strengthens his loyalty, it is mean of survival for his people and its faith. (Collier's Encyclopaedia, 13/657)
یہودیت بطورِ ایک طرزِ زندگی عمل کا تقاضا کرتی ہے ہر عمل عبادت اور رسم اظہار عبودیت ایک یہودی کو اس کی زندگی کے اندر خدا کی دائمی موجودگی کا احساس اجاگر کرتی ہے۔ مذہبی عبادات کا ایک ضابطہ سمجھا جاتا ہے جو انسان کے کردار کی پرورش کرتا ہے۔ یہ ہدایت کی ایک شکل ہے جو آموزش بذریعہ عمل کی حیثیت رکھتی ہے ایک یہودی کو یہ اپنے اندر اپنی قوم کے تجربات و احساسات دوبارہ تازہ کرنے کا ایک طریقہ ہوتی ہے اور اس طرح اس کی وفاداری کو استحکام ملتا ہے کیونکہ یہ اس کے لیے قوم کی بقا اور تازگی ایمان کا ذریعہ ہوتی ہے۔
Encyclopaedia Judaicaکا مقالہ نگار تورات کی رو سے زندگی کا مقصد عبادات بیان کرتا ہے:
That all man's deed should be for the sake of heaven; when a man eats and drinks, for example, it should not be in order to enjoy his food and drink but to have strength for God's service. The same applies to his working, sleeping, marital relations, and conversing with others. All should be done for the sake of heaven and not for personal gratification. (Encyclopaedia Judaica, 17/309)
انسان کے جملہ اعمال حصول جنت کے لیے ہونے چاہئیں مثال کے طور پر جب وہ کچھ کھاتا ہے اور پیتا ہے۔
اس کا مطلب صرف غذا اور مشروب کی لذت سے لطف اندوز ہونا نہ ہو بلکہ عباداتِ الٰہی کے لیے قوت حاصل کرنا ہونا چاہیے۔ اس کے کام کاج سونے اور ازدواجی تعلق اور دوسروں سے گفتگو بھی اسی اصول اور مقصد کے تابع ہونی چاہیے۔ غرض یہ کہ سب کچھ جنت کے لیے کیا جانا چاہیے ذاتی مفاد کے لیے نہیں ہونا چاہیے لہٰذا ایک یہودی کی ساری زندگی ہی عبادت شمار ہو گی اگر وہ اپنی شریعت کی روح سے واقف ہو گا اور اپنے ہر ہر عمل کو رضائے الٰہی و منشائے ربانی کے تابع بنائے گا۔ اسی سے تمام عبادات جو گھر پر ادا کی جائیں یا عبادت گاہ میں اور مطالعہ تورات صبح و شام وغیرہ سب ایک یہود کو بچپن سے ہی سکھا دیے جاتے ہیں اور آخری سانس تک وہ ان عبادات کو ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے کیونکہ شریعت اس سے تمام عمر عبادات کی مکمل ادائیگی کا تقاضا کرتی ہے۔
یہی بات
Geoffery Parrinderنے بیان کی ہے:
Many jews pray at home on week-days and attend the synagogue on the sabbath and festivals. Home prayers follow the outline of public prayers, with small omissions. The shema is repeated by devout jews every morning and evening, it is the first prayer learnt as a child and the last repeated by the dying. (Worship in the World's Religions, P.176)
اس سلسلے میںFosdickبیان کرتا ہے:
We should establish ourselves in a sense of God's prescenc; by continually conversing with him. (Harry Emerson Fosdick, The Meaning of Prayer, P.31)
ہمیں اپنی زندگی میں خدا کے وجود کے احساس کو پختہ کرنا چاہیے اور یہ صرف مسلسل خدا سے رجوع ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ لہٰذا عبادات ہی کے ذریعے انسان خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس سے مغفرت طلب کرتا ہے اور احسانات کا شکر اداکرتا ہے۔ اس طرح انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا احساس پختہ تر ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کی زندگی کا ہر ہر عمل خدا کی رضا کے تابع ہو جاتا ہے لہذا عبادات انسانی اعمال کی اصلاح میں اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں اور انسان کو عمل کے ذریعے اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شمار کراتے ہیں۔
شریعت موسوی کے مطابق عبادات کا مقصد رضائے الٰہی اور قربِ الٰہی کا حصول بھی ہے اور عبادات کی پابندی سے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت گھر کر جاتی ہے۔

Collier's Encyclopaediaکا مقالہ نگار اس سلسلے میں بیان کرتا ہے:
According to judaism, love of God is the first duty love he will seek to do the good even at the price of life itself. It is man's duty to keep his soul pure, for the soul is gift from God. (Collier's Encyclopaedia, 13/658)
یہودی مذہب کے مطابق اللہ سے محبت انسان کا سب سے اول فرض ہے چونکہ جب اللہ کی محبت انسان کے اندر سے گئی تو پھر وہ نیکی کی خاطر اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کرے گا۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی روح کو پاکیزہ رکھے کیونکہ روح اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا عطیہ ہے۔
لہٰذا شریعتِ موسوی میں عبادات کا فلسفہ تزکیۂ نفس، روحانی بالیدگی، دنیوی اور اُخروی فلاح اور ذریعہ رضا اور قرب الٰہی ہے۔

Rabbi Geigerبیان کرتا ہے کہ نیکی اور راست روی کی دونوں شرائع میں عزت اور فلاح کی ضامن ہے اور اعمال صالحہ پر موت اور نیک لوگوں کے ساتھ خاتمہ قابل انعام و سبب کامرانی ہے۔
Death with the righteous is to be prized. (Judaism and Islam, P.70)
اسی لیے تورات و قرآن میں مؤمنین اور زاہدین کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دنیا میں شریعت پر عمل پیرا ہونے،اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے نیکو کار بندوں میں شامل ہونے کی دعا کرتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ (سورۃ اٰل عمران، ۳:۱۹۳)
مالک ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہنا تھا کہ اپنے رب کی مانو ہم نے اس کی دعوت قبول کر لی پس اے ہمارے آقا، جو قصور ہم سے ہوئے ہیں۔ ان سے درگزر فرما اور جو برائیاں ہم میں ہیں انھیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔
اسی طرح تورات میں بلعام کی دعا بیان کی گئی ہے جس میں وہ خدا کے نبی یعقوب؈ کے نقش قدم پر چلنے کی دعا کرتا ہے اور ان ہی کی طرح خاتمہ مانگتا ہے۔
کاش میں صادقوں کی موت مروں، اور میری عاقبت بھی ان ہی کی مانند ہو۔
(گنتی،۲۳:۱۰)
پاکیزہ اخلاق اور اعمال انسانیت کا حسن ہیں اس حسن میں نکھار اطاعت خداوندی سے آتا ہے اسی لیے شریعت موسوی؈ اور محمدیﷺ میں اطاعت احکام خداوندی پر بڑا زور دیا گیا ہے اور احکامِ الٰہی کی اطاعت و فرماں برداری کی صورت میں دنیاوی اور اُخروی کامیابی اور انعامات و برکات کا وعدہ کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شریعت موسوی میں برکات و ثمرات اطاعت احکام الٰہی
تورات میں جہاں بھی احکامات بیان کیے گئے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی بے حد تاکید کی گئی ہے اور احکامِ الٰہی کی اطاعت کی صورت میں دنیا و آخرت کے ثمرات و برکات کا وعدہ کیا گیا ہے نیز برکات و ثمرات کے بیان میں واضح نور وحی جھلکتا ہے اور فصاحت و بلاغت کا رنگ نمایاں ہے۔
فراخی رزق، غلبہ ،امن و آشتی ،سکونِ قلب
شریعت موسوی سفر میں احکامات کی اطاعت کی صورت میں مندرجہ ذیل برکات بیان کی گئی ہیں:
اگر تم میری شریعت پر چلو اور میرے حکموں کو مانو اور ان پر عمل کرو تو میں تمہارے لیے بروقت مینہ برساؤں گا اور زمین سے اناج پیدا ہو گا اورمیدان کے درخت پھلیں گے یہاں تک کہ انگور جمع کرنے کے وقت تک تم داو تے رہو گے اور جوتنے بولنے کے وقت تک انگورجمع کرو گے۔ اور پیٹ بھر اپنی روٹی کھایا کرو گے اور چین سے اپنے ملک میں رہو گے اور میں ملک میں امن بخشوں گا اور تم سؤو گے اور تم کو کوئی نہیں ڈرائے گا اورمیں برے درندوں کو ملک سے نیست کر دوں گا اور تلوار تمہارے ملک میں نہیں چلے گی اور تم اپنے دشمنوں کا پیچھا کرو گے اور وہ تمہارے آگے آگے تلوار سے مارے جائیں گے اور تمہارے پانچ آدمی سو کو رگید دیں گے اور تمہارے سو آدمی دس ہزار کو کھدیڑ دیں گے۔
) احبار، ۲۶:۳ تا ۸(
نزولِ رحمت و برکت، دفع آفات اور موجب صحت تندرستی
اور تمہارے ان حکموں کو سننے ماننے اور ان پر عمل کرنے کے سبب …تجھ سے محبت رکھے گا اور تجھ کو برکت دے گا اور بڑھائے گا…تیری اولاد پر اور تیری زمین کی پیداوار بھی تیرے غلے تیل اور مے پر اور تیرے گائے بیل کے اور بھیڑ بکریوں کے بچوں پر برکت نازل کرے گا تجھ کو سب قوموں سے زیادہ برکت دی جائے گی اور تم میں یا تمہارے چوپایوں میں نہ تو کوئی عقیم ہو گا نہ بانجھ اور خداوند ہر قسم کی بیماری تجھ سے دور کرے گا۔
(استثناء، ۷:۱۲ تا ۱۵)
روئیدگی و شادابی،ضروریات زندگی کی فراوانی
اگر تم میرے حکموں کو جو آج میں تم کو دیتا ہوں دل لگا کر سنو، اور خداوند اپنے خدا سے محبت رکھو… تو میں تمہارے ملک میں عین وقت پر پہلا اور پچھلا مینہ برساؤں گا تاکہ تو اپنا غلہ اور تیل جمع کر سکے اور میں تیرے چوپایوں کے لیے میدان میں گھاس پیدا کروں گا اور تو کھائے گا اور سیر ہو گاسو تو خبردار رہنا تا ایسا نہ ہو… تم بہک کر اور معبودوں کی عبادت اور پرستش کرنے لگو۔ (ایضاً،۱۱: ۱۳ تا ۱۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شریعتِ محمدیﷺ میں برکات اطاعت احکام الٰہی
تورات کی طرح قرآنِ کریم میں بھی احکامِ الٰہی کی اطاعت کی صورت میں مومنین کو بے پناہ برکات و ثمرات سے نوازنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
عطائے خلافت و امن و آشتی
سورۃ النور میں ارشاد ہے:

وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا (سورۃ النور ۲۴:۵۵)
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے۔ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اورنیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے ان کے لیے اُن کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی (موجودہ ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا بس وہ میری بندگی کریں اورمیرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔
مغفرت و رزقِ کریم
سورۃ سبا میں ارشاد ہے:

لِّيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ(سورۃ سبا ۳۴:۴)
کہ جزا دے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کرتے رہے ہیں ان کے لیے مغفرت ہے اور رزقِ کریم ہے۔
کامیابی و کامرانی

وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّـهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ
(سورۃ النور ۲۴:۵۲)
اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔
اطمینانِ قلب

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّـهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(سورۃ الرعد ۱۳:۲۸)
ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبی ﷺ کی دعوت) کو مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان ہوتا ہے۔
جنت عدن اور رضائے الٰہی کے حق دار

جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ(سورۃ البینۃ،۹۸:۸)
ان کی جزا ان کے رب کے ہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ کچھ ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
احکامِ الٰہی کے عصیان کا نقصان
احکامِ الٰہی کا مقصد انسانوں کو عقلیت پرستی،فکری گمراہی، غلط اندیشی،آزاد خیالی اور عملی ضلالت سے بچا کر ان کے سامنے صحیح فکری اساس اور عملی بنیاد رکھنا ہے تاکہ انسان ہلاکت و بربادی سے بچ جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں پر جتنے بھی مصائب و آلام آئے اور جتنی بھی بربادیاں ہوئیں ان سب کا اصل سبب فکر و عمل کی بے قیدی،عقل کی بے راہ روی، آزاد خیالی،
خدا فراموشوی اور خود فراموشی اور مطلق العنانی تھی۔ جن بد بخت انسانوں نے احکامِ الٰہی سے منہ موڑا اور اپنی عقل پر بھروسہ کیا اور اپنے نفس کی پیروی کی اور اپنے آپ کو ہر طرح آزاد اور مطلق العنان سمجھا بالآخر وہ تباہ و برباد ہو گئے۔ ) مسلمان اسلام کی کسوٹی پر،ص۲۶(
Encyclopaedia Judaicaکا مقالہ نگار بھی احکامِ الٰہیہ کی نافرمانی کو یہود کی تباہی و بربادی کا سبب قرار دیتا ہے۔ کیونکہ تورات میں بیان کیا گیا ہے کہ ذاتی گناہوں کی وجہ سے بطورِ خاص اور خدائی احکامات کو نظر انداز کرنے کی وجہ یہود کی اکثر تباہیوں کی شکل میں سامنے آئی اور رسولوں نے بھی یہ تصور متعارف کرایا کہ قوموں کی اجتماعی تقدیر میں فیصلہ کن عوامل وہ باضابطہ قانونی اور اخلاقی رویے ہیں جو معاشرتی تعلقات کو اپنے حصار میں رکھتے ہیں۔لہٰذا خدائی فرمان کی نافرمانی قوموں کے زوال اور ذلت کا سبب بنی۔
In the pentateuch, national doon was threatened for cultic sins in particular and for neglect of the divine commandments in general. The prophets introduced the notion that the most decisive factor in the corporate fate of the nation was the aspect of mandated legal-moral behavioral norms which enconpassed social relation. (Encyclopaedia Judaica, 12/535)
شریعتِ موسوی علیہ السلام میں احکامِ الٰہیہ کے عصیان کا نقصان
شریعت موسوی میں جہاں احکامِ الٰہیہ کی اطاعت و فرماں برداری کی صورت میں بے شمار دنیوی و اخروی برکات و ثمرات کا وعدہ کیا گیا ہے وہاں احکامِ الٰہیہ کے عصیان کی صورت میں دنیوی اور اخروی عذاب اور آزمائش کی سخت وعید آتی ہے جو سراسر مخاطبین کی تباہی اور بربادی کا موجب ہیں۔
تباہی و بربادی
اگر تم ان سب باتوں پر بھی میری نہ سنو اورمیرے خلاف ہی چلتے رہو …میں تمہارے شہروں کو ویران کر دوں گا اور تمہارے مقدسوں کو اجاڑ بنا دوں گا… اور میں تم کو غیر قوموں میں پراگندہ کر دوں گا اور تمہارے پیچھے پیچھے تلوار کھینچے رہوں گا اور تمہارا ملک سونا ہو جائے اور تمہارے شہر ویرانہ بن جائیں گے۔
(احبار، ۲۶:۲۷ تا ۳۳)
لعنت و پھٹکار
اور چونکہ تو خداوند کے ان حکموں اور آئین پر جن کو اس نے تجھ کو دیا ہے عمل کرنے کے لیے اس کی بات نہیں سنے گا اس لیے یہ سب لعنتیں تجھ پر آئیں گی اور تیرے پیچھے پڑی رہیں گی اور تجھ کو لگیں گی جب تک تیرا ناس نہ ہو جائے اور تجھ پر اور تیری اولاد پر سدا نشان اچنبھے کے طور پر رہیں گے۔ (استثناء، ۲۸:۴۵ تا ۴۶)
خوف و ہراس
لیکن اگر تم میری نہ سنو اور ان سب حکموں پر عمل نہ کرو… تو میں بھی تمہارے ساتھ اس طرح پیش آؤں گا کہ دہشت اور تپ دق اور بخار کو تم پر مقرر کر دوں گا جو تمہاری آنکھوں کو چوپٹ کر دیں گے اور تمہاری جان کو گھلا ڈالیں گے اور تمہارا بیج بونا فضول ہو گا کیونکہ تمہارے دشمن اس کی فصل کاٹیں گے۔ (احبار، ۲۶:۱۴ تا ۱۷)
قحط اور خشک سالی
استثناء میں درج ہے:
اور آسمان جو تیرے سر پر ہے اور پیتل اور زمین جو تیرے نیچے ہے لوہے کی ہو جائے گی خداوند مینہ کے بدلے تیری زمین پر خاک اور دھول برسائے گا ۔ یہ آسمان سے تجھ پر پڑتی ہی رہے گی۔ جب تک کہ تو ہلاک نہ ہو جائے۔ (استثناء، ۲۸:۲۳ تا ۲۵)
اور میں تمہاری شہزوری کے فخر کو توڑ ڈالوں گا اور تمہارے لیے آسمان کولوہے کی طرح اور زمین کو پیتل کی مانند کر دوں گا اور تمہاری قوت بے فائدہ صرف ہو گی کیونکہ تمہاری زمین سے کچھ پیدا نہ ہو گا اور میدان کے درخت پھلنے ہی کے نہیں۔ (احبار، ۲۶: ۱۹ تا ۲۱)
وبائیں اور بیماریاں
خداوند تجھ کو مصر کے پھوڑوں اور بواسیر اور کھجلی اور خارش میں ایسا مبتلا کرے گا کہ تو کبھی اچھا بھی نہیں ہونے پائے گا خداوند تجھ کو جنون اور نابینائی اور دل کی گھبراہٹ میں بھی مبتلا کر دے گا اور جیسے اندھا اندھیرے میں ٹٹولتا ہے۔ ویسے ہی تو دوپہر دن کو ٹٹولتا پھرے گا اور تو اپنے سب دھندوں میں ناکام رہنے لگے گا اور تجھ پر ہمیشہ ظلم ہی ہو گا اور تو لٹتا ہی رہے گا اور کوئی نہ ہو گا جو تجھ کو بچائے۔ (استثناء ،۲۸: ۲۷ تا ۲۹)
بے برکتی
اور جب میں تمہاری روٹی کا سلسلہ توڑوں گا تو دس عورتیں ایک ہی تندور میں تمہاری روٹی پکائیں گی اور تمہاری ان روٹیوں کو تول تول کر دیتی جائیں گی اور تم کھاتے جاؤ گے پر سیر نہ ہو گے۔ (احبار، ۲۶: ۲۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسلام میں احکامِ الٰہی کے عصیان کا عتاب
شریعتِ محمدیﷺ میں احکامِ الٰہیہ کی روگردانی کی صورت میں مسلمانوں کو سخت عذاب و عتاب کی وعید کی گئی ہے اور ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی خیر ہے نہ آخرت میں کوئی حصہ ہے۔
غم و اندوہ اور عذاب جہنم
سورۃ السجدۃ میں ارشاد ہے:

وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَـٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴿١٣ فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا إِنَّا نَسِينَاكُمْ ۖ وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴿١٤ (سورۃ السجدۃ ۳۲:۱۳،۱۴)

اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا، پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا چکھو ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں کی پاداش میں۔
تنگی رزق
سورۃ طہ میں ارشاد ہے:

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴿١٢٤(سورۃ طہ ۲۰:۱۲۴)
جو میرے ذکر (درسِ نصیحت) سے منہ موڑ لے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے نیز یہ کہ نہ صرف دنیا میں تنگ روزی ہو گی بلکہ آخرت میں بھی مستحق سزا ہو گا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِن بِآيَاتِ رَبِّهِ ۚ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَىٰ (سورۃ طہ ،۱۲۷)
اس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے رب کی آیات نہ ماننے والے کو دنیا میں بدلہ دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔
کفرانِ نعمت کا عذاب
قرآنِ کریم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روگردانی کرنا اور احساناتِ الٰہی کا بجا طور پر شکر اد نہ کرنا مستوجب سزا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (سورۃ ابراہیم ۱۴:۷)
اور یاد رکھو تمہارے رب نے خبردار کیا تھا کہ اگر شکر گزاور بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
تباہی و بربادی اور آفاتِ آسمانی
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ وَكِيلًا ﴿٦٨ أَمْ أَمِنتُمْ أَن يُعِيدَكُمْ فِيهِ تَارَةً أُخْرَىٰ فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّيحِ فَيُغْرِقَكُم بِمَا كَفَرْتُمْ ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ عَلَيْنَا بِهِ تَبِيعًا ﴿٦٩(الاسراء ۱۷:۶۸،۶۹)
اچھاتو کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پاؤ اور کیا تمہیں اس کا اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمہاری نا شکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمہیں غرق کر دے اور تم کو ایسا کوئی نہ ملے جو اس سے تمہارے اس انجام کی پوچھ گچھ کر سکے۔
 
Top