• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اخلاق کا بیاں ہوجا محبت کی زباں ہوجا

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
برائی کو مٹانے کے دو طریقے ہیں ، برے کو مٹا دیا جائے یا برائی کو اچھائی میں تبدیل کیا جائے ، اسلام نے دوسرے طریقے کو پسند کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے :
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے دفع کیجیے ، پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہو جائے گا جیسا کہ کوئی قریبی دوست ہے اور یہ بات انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صابر ہوتے ہیں اور یہ بات اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہے۔
سورہ حٰم السجدۃ : 34-35

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہوئے نظم و ضبط اور حلم و بردباری کی طرف مائل کیا ہے، اگرچہ کہ اس میں مخاطبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے ہے مگر درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری امت سے خطاب ہے۔
یہ حکم اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ اور سیرت طیبہ کا نچوڑ ہے، اسی سے اسلام کے اصل مزاج کا اندازہ ہوتا ہے کہ دین اسلام ۔۔۔ جبر و بربریت ، ظلم و فساد اور جنگ و جدل کا مذہب نہیں بلکہ یہ خالصتاً عدل و انصاف ، رحم و کرم اور امن و سلامتی کا مذہب ہے۔
برائی کو مٹانے کے دو طریقے ہیں ، برے کو مٹا دیا جائے یا برائی کو اچھائی میں تبدیل کیا جائے ، اسلام نے دوسرے طریقے کو پسند کیا ہے۔

وہ اخلاق کی تلوار تھی جس کے ذریعے "فاتح قلوب" نے بڑے سے بڑے دشمن دل فتح کر لئے :
تیغ حلم از تیغ آہن تیز تر
بل زصد لشکر ظفر انگیز تر

صفوان بن امیہ جو قریش کے مشہور سردار تھے ، اسلام اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سخت ترین دشمن تھے ، فتح مکہ کے بعد یہ ڈر کر جدہ بھاگ گئے تھے اور ارادہ کیا کہ یمن جا کر پناہ حاصل کریں۔ عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ نے خدمت رسول اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) میں عرض کی :
صفوان آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خوف سے بھاگ رہے ہیں ، ایسا نہ ہو کہ اپنے آپ کو سمندر میں ڈبو دیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے صفوان کو امان دے دی۔
عمیر بن وہب (رضی اللہ عنہ) نے کہا : انہیں مطمئن کرنے کیلیے علامت چاہیے۔
جس پر آپ صلی اللہ علہ وسلم نے بطور علامت اپنا عمامہ مبارک عطا فرما دیا۔

طائف والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) لہو لہان ہو گئے۔ شقی القلب لوگوں کی اس بےرحمانہ کاروائی پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بددعا کرنے کیلیے کہا گیا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب دیا :
إني لم أبعث لعانا ، وإنما بعثت رحمة (1)
میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں ، میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

ماہر القادری (رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا خوب کہا ہے :
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
کیوں نہ ہو ۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا مقصد ہی مکارم اخلاق کی تکمیل ہے جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق (2)
میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی خلق عظیم تھا جس کی تحسین خلاق دوعالم نے فرمائی :
إنك لعلى خلق عظيم (3)
بےشک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بلند ترین درجۂ اخلاق پر ہیں۔

دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خوش اخلاق اور نیک اطوار بنائے ، آمین۔


اقتباس بشکریہ : "اسلام ہمیں خلق پیمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ملا ہے" - قاری سید حبیب اللہ الخطیب (کراچی) [روزنامہ اردو نیوز '' سپلیمنٹ ، جمعہ 30/دسمبر/2011]
حوالہ جات :
1 : صحيح مسلم » كتاب البر ، والصلة ، والآداب » باب النهي عن لعن الدواب وغيرها
2 : السلسلة الصحيحة - (علامہ البانی نے صحیح کہا) ، مجموع فتاوى ابن باز - (شیخ بن باز نے "اسنادہ جید" کہا)
3 : ( القلم:68 - آيت:4 )
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ماہر القادری (رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا خوب کہا ہے :
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
میرے خیال میں نہ صرف یہ جملہ درست نہیں بلکہ ایک طرح سے اس جملے کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب خالص جھوٹ اور کذب منسوب کیا گیا ہے جو جہنم میں لے جانے کا موجب ہے۔ گالی دینے والے کے حق میں دعائیں کرنا نبی کریم علیہ السلام سے ہرگز ثابت نہیں بلکہ اس کے برخلاف ایسے لوگوں کے قتل پر نبی علیہ السلام نے صحابہ کو ابھارا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دشنام طرازی کے ذریعے اذیت دینے والوں کے قتل پر رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتلوں کی تعریف کی اور مقتولین کے خون کو رائیگاں قرار دیا۔ اگرچہ نبی علیہ السلام کو گستاخان رسول کو معاف کردینے کا بھی اختیار تھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ بات یہی تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گستاخ عبداللہ بن ابو سرح کو بیعت کرنے سے پہلے چاہا کہ صحابہ اس کا کام تمام کردیں اور صحابہ کے یہ بات نہ سمجھنے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا۔ ملاحظہ ہو:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار اسکی جانب دیکھا، ہر بار آپ بیعت کا انکار کرتے رہے۔ آخر کار تیسری بار کے بعد آپ نے بیعت لے لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم میں کوئی دانا آدمی نہیں تھا؟ جو عبداللہ کو قتل کردیتا، جب وہ مجھے دیکھ رہا تھا کہ میں نے اس کی بیعت کرنے سے اپنے ہاتھ کو روک رکھا ہے۔ صحابہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! ہمیں پتا نہ چل سکا کہ آپ کے جی میں کیا ہے؟ آپ ہمیں اپنی آنکھ ہی سے اشارہ فرما دیتے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کسی نبی کو یہ لائق نہیں کہ وہ کن انکھیوں سے اشارہ کرے۔

اس حدیث کو پیش کرکے ڈاکٹر حافظ حسن مدنی حفظہ اللہ نے بھی اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں چناچہ لکھتے ہیں: اس حدیث سے استدلال یوں ہے کہ اول تو فتح مکہ کے روز جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام دیرینہ دشمنوں کو عام معافی دے دی لیکن اس کے باوجود اس امن کے دن اور امن کے مرکز بیت الحرام میں بھی گستاخان رسول کو معافی نہیں دی گئی۔مزید برآں مذکورہ بالا حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاتم رسول کو از خود قتل نہ کرنے پر صحابہ کرام سے ناراضگی کا اظہار کیا اور انہیں تنبیہ فرمائی۔(ماہنامہ محدث، اکتوبر 2011 صفحہ نمبر10)

اصل میں لوگوں کو یہ غلطی صرف نرمی کو ہی اخلاق سے تعبیر کر لینے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہترین اخلاق کے حامل تھے لیکن اس کے باوجود نرمی بھی فرماتے تھے اور بوقت ضرورت سختی سے بھی کام لیتے تھے۔ صحابہ کرام نبی علیہ السلام کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے اچھے اخلاق کے مالک تھے جبکہ اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کے ان ساتھیوں کی صفت یہ بیان کی کہ یہ لوگ مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہیں۔

پس معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت سختی اخلاقیات کے منافی نہیں ہے۔اصل خرابی ہر وقت سختی کرنے میں ہے یا ہر وقت نرمی کرنے میں ہے یا پھر وہاں نرمی کرنے میں جہاں سختی کی ضرورت ہو اور وہاں سختی کرنے میں ہے جہاں نرمی کرنے کی ضرورت ہو۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
شاہد نذیر بھائی ، یہ آپ کی سوچ ہے جس کا میں بےشک احترام کروں گا لیکن ضروری نہیں کہ اس سے اتفاق بھی کروں۔ :)
بات دراصل یہ ہے کہ بہت ساری چیزیں ادبی پیرائے میں ہوتی ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ادب یعنی لٹریچر [literature] کو بھی اپنی محدود سوچ و علم کا پابند کرنا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ۔۔۔ بقول ہمارے ایک مدمقابل کے : ہم ظاہر پرستی کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں!

جب علامہ ماہر القادری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسا کہا تھا :
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
تو یقیناً ان کے ذہن کے کسی گوشے میں لفظ "گالی" کا وہ مفہوم نہیں تھا جو آج ہمارے معاشرے میں ماں/بہن/بیٹی کی ننگی گالیوں کی شکل میں رائج ہے۔ (ویسے بھی میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ علامہ ماہر القادری [علیہ الرحمۃ] توہین رسالت کے کبھی مرتکب ہوئے تھے یا وہ توہین رسالت کی سزا کے منکر تھے۔ اگر آپ کی نظر میں ایسا کوئی ثبوت ہو تو ضرور دیجئے۔)

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۔۔۔ بچپن کے جس پرائمری اسکول میں ہم پڑھتے تھے تو کسی کو "کاہل" "جھوٹا" یا "بدمعاش" کہنا بھی "گالی" کی تعریف میں آجاتا تھا اور ہماری اساتذہ لڑکوں کے کان اینٹھتی تھیں کہ : "آپ نے انہیں گالی کیوں دی؟"
اور ایسی ہی کچھ غلطی ہمارے دور کے بزعم خود اصلاح پسند نوجوان دانشور یہ کرتے ہیں کہ دور حاضر کے "حکومتی اختلافات" کو دورِ صحابہ کے "اجتہادی اختلافات" سے تشبیہ دیتے ہوئے آج کے حکمرانوں کی غلطیوں کا صحابہ کرام کی اجتہادی غلطیوں سے موازنہ کرنے لگتے ہیں ۔۔۔ (جس پر مجھے یہ تحریر لکھنا پڑی تھی : "دین کی ترویج اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اختلافات ؟‫!")

سیاق و سباق کو بھی دیکھا جانا چاہیے اور اس پر بھی کہ کس انداز میں اور کس پس منظر میں کثیر المعانی الفاظ یا فقروں کی ادائیگی ہوئی ہے۔

اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کے ان ساتھیوں کی صفت یہ بیان کی کہ یہ لوگ مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہیں۔

پس معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت سختی اخلاقیات کے منافی نہیں ہے۔اصل خرابی ہر وقت سختی کرنے میں ہے یا ہر وقت نرمی کرنے میں ہے یا پھر وہاں نرمی کرنے میں جہاں سختی کی ضرورت ہو اور وہاں سختی کرنے میں ہے جہاں نرمی کرنے کی ضرورت ہو۔
آپ کی بات بالکل درست ہے۔ کفار پر سختی کے اصول قرآن و حدیث نے بیان کر دئے ہیں۔ لیکن مجھے علم نہیں کہ تبلیغ کے دوران صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین نے مسلمانوں ہی کے مختلف الخیال طبقات کے درمیان وہی "سخت رویہ" اپنایا ہو جو کفار کے مقابل اپناتے تھے۔
اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور صحابہ کی حیات مبارکہ کے واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو بخوبی علم ہو جائے گا کہ کس "ضرورت" کے وقت وہ سختی برتتے تھے ، وہ سختی کیسی سختی ہوتی تھی ، کتنی ہوتی تھی اور اس کی نوعیت پھر اس کا نتیجہ کیا ہوتا تھا؟

میں ایک باپ ہوں ، الحمدللہ کہ اولاد کی تربیت کے حوالے سے دینی اور دنیوی کتب میں نے خاصی پڑھی ہوئی ہیں لہذا مکمل نہ سہی تو کسی حد تک مجھے معلوم ہے کہ اپنے بیٹے کی کس غلطی پر مارنا ہے ، کب مارنا ہے اور کتنا مارنا ہے یا اس کی صرف سرزنش کرنا ہے؟ لیکن یہ بالکل ضروری نہیں کہ ہر باپ ایسی تربیت سے آگاہ ہو۔ آج کل نوجوانوں کے اخلاقی انحطاط کے سبب معاشرے میں بگاڑ کا سبب یہی تربیتی کمی ہے۔
اور یہی اصول تبلیغ کے میدان میں بھی لاگو ہوتے ہیں۔ دور حاضر میں اور بطور خاص انٹرنیٹ پر تبلیغ وہ یقیناً نہیں ہو رہی جو اسلام کو مطلوب و مقصود ہے بلکہ اس کے بجائے ایکدوسرے کے خلاف جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
ہر فرد جس نے کسی مخصوص موضوع پر آٹھ دس کتابیں پڑھ لیں ہوں ضروری نہیں کہ وہ "تبلیغ دین" جیسے میدان میں بھی ماہر ہو جائے۔ سلف الصالحین نے تبلیغ کی شرائط اصول و ضوابط پر ہزارہا کتب یونہی نہیں تحریر فرمائی ہیں۔ ضرور اس میں کوئی اہم حکمت پوشیدہ ہے۔ بدعت و ضلالت کی اصل جڑ سے واقف ہونے اور اسکے توڑ والے دلائل و براہین سے لیس ہو جانے کے باوجود ہم یہ بڑا دعویٰ نہیں کر سکتے کہ :
ہم اس اصول سے خوب واقف ہیں کہ کہاں سختی کرنا ہے اور کہاں نرمی برتنا ہے۔

یہ اصول تو اسی وقت سمجھ میں آئیں گے جب ہم تصفیہ و تربیہ (بقول علامہ البانی علیہ الرحمۃ) کے موضوعات کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں اور ان کی اہمیت ، ضرورت ، اغراض و مقاصد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
بصورت دیگر ہوگا وہی جو کہ ہو رہا ہے۔ :)
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
شاہد نذیر بھائی ، یہ آپ کی سوچ ہے جس کا میں بےشک احترام کروں گا لیکن ضروری نہیں کہ اس سے اتفاق بھی کروں۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
محترم باذوق بھائی آپ اسے میری سوچ کہہ کر زیادتی کررہے ہیں یہ محض میری ذاتی سوچ نہیں بلکہ شرعی سوچ ہے کیونکہ بادلائل ہے۔ ہاں البتہ آپکی تحریر کو ضرور آپکی سوچ کہا جاسکتا ہے کیونکہ بے دلیل ہے۔ میں آپ کو قطعاً مجبور نہیں کرتا کہ آپ مجھ سے ضرور اتفاق کریں کیونکہ یہ تحریر میں نے آپ کے اتفاق یا اختلاف کے لئے نہیں لکھی بلکہ ایک غلط اور خطرناک عبارت اور اس سے پیدا ہونے والی غلط سوچ کی نشاندہی مقصود تھی۔

بات دراصل یہ ہے کہ بہت ساری چیزیں ادبی پیرائے میں ہوتی ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ادب یعنی لٹریچر [literature] کو بھی اپنی محدود سوچ و علم کا پابند کرنا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ۔۔۔ بقول ہمارے ایک مدمقابل کے : ہم ظاہر پرستی کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں!
ادب کے لئے میدان وسیع ہے۔ کیا ادب کے ماروں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آتی جس پر ادبی طبع آزمائی کا شوق پورا کرتے ہیں؟! نبی علیہ السلام کی شان میں توہین وہ واحد مسئلہ ہے جس کا حکم ظاہری الفاظ پر بھی لگتا ہے۔ ہم ایسے ادب پر ہزار ہا لعنت بھیجتے ہیں جس کے ظاہر یا باطن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا کوئی ادنی سا بھی پہلو موجود ہو یا جس کے ذریعے دانستہ یا نادانستہ نبی علیہ السلام کی طرف کذب منسوب ہوتا ہو۔

جب علامہ ماہر القادری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسا کہا تھا :
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
تو یقیناً ان کے ذہن کے کسی گوشے میں لفظ "گالی" کا وہ مفہوم نہیں تھا جو آج ہمارے معاشرے میں ماں/بہن/بیٹی کی ننگی گالیوں کی شکل میں رائج ہے۔ (ویسے بھی میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ علامہ ماہر القادری [علیہ الرحمۃ] توہین رسالت کے کبھی مرتکب ہوئے تھے یا وہ توہین رسالت کی سزا کے منکر تھے۔ اگر آپ کی نظر میں ایسا کوئی ثبوت ہو تو ضرور دیجئے۔
ماہرالقادری صاحب کا کہیں ذکر تو ضرور پڑھا ہے لیکن اس وقت مجھے یاد نہیں۔ بہرحال میں نہیں جانتا کہ موصوف کون ہیں آیا اہل حدیث ہیں یا بدعتی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو بھی ہوں انکی شریعت سے جہالت کا اندازہ انکی تحریر سے بخوبی ہو رہا ہے کہ بیچارے ادب کو جاننے والے یہ بھی نہیں جانتے کہ نبی علیہ السلام کے بارے میں کوئی ایسا جملہ کہنا یا لکھنا بھی جائز نہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تنقیض کا احتمال بھی موجود ہو یا جس سے اندیشہ ہو کہ لوگ ظاہری الفاظ سے غلط معنی لے لیں گے (چاہے وہ ادبی شہہ پارہ یا شاعری ہی کیوں نہ ہو جس میں اکثر حقیقی الفاظ بول کر مجازی معنی مراد لئے جاتے ہیں)

تو یقیناً ان کے ذہن کے کسی گوشے میں لفظ "گالی" کا وہ مفہوم نہیں تھا جو آج ہمارے معاشرے میں ماں/بہن/بیٹی کی ننگی گالیوں کی شکل میں رائج ہے۔
باذوق صاحب آپ جو مجھے ادب سمجھا رہے ہیں کیا آپ کو معلوم نہیں کہ شخصیت کو دیکھ کر تعین کیا جاتا ہے شخصیت کے لئے استعمال شدہ لفظ گالی ہے یا نہیں۔ جیسے ابے، تبے، تو،تڑاک کا انداز اگر آپ اپنے قریبی دوست کے ساتھ رکھیں گے تو کوئی بھی اسے گستاخی میں شمار نہیں کرے گا بلکہ اسے دوستوں کی بے تکلفی اور محبت کا نام دے گا لیکن یہی انداز اگر آپ کا اپنے بوڑھے والد کے ساتھ ہوگا تو اس انداز کے بدتمیزانہ اور گستاخانہ ہونے میں کسی کو شبہ نہیں ہوگا۔ یہ بھی یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ماں، بہن، باپ کی عزت سے بہت بڑھکر ہے وہی الفاظ جو ماں بہن بیٹی اور باپ کے لئے خاص حالات میں گالی شمار نہیں ہوتے وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں عام حالات میں گالی شمار ہوسکتے ہیں۔

(ویسے بھی میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ علامہ ماہر القادری [علیہ الرحمۃ] توہین رسالت کے کبھی مرتکب ہوئے تھے یا وہ توہین رسالت کی سزا کے منکر تھے۔ اگر آپ کی نظر میں ایسا کوئی ثبوت ہو تو ضرور دیجئے۔
میں نے بھی کہیں اپنی تحریر میں ماہر القادری صاحب کو توہین رسالت کا مرتکب قرار نہیں دیا۔ بلکہ ان کے اس ادبی شہہ پارے کی جانب بھائیوں کی توجہ دلائی ہے جس کا ظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خالص جھوٹ منسوب کرتا ہے۔ اور نہ ہی یہ دعویٰ کیا کہ ماہر القادری موصوف کا ضرور بالضرور ان الفاظ سے یہی مقصد تھا جو میں بیان کر رہا ہوں۔ میں تو صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب واحترام نہ صرف دل میں ہونا چاہیے بلکہ زبان اور تحریر سے بھی اس کا اظہار ہونا چاہیے اور مکمل احتیاط کے ساتھ زبان و قلم سے نبی علیہ السلام سے متعلق کوئی ایسی بات نہیں نکالنی چاہیے جو ذو معنی ہو۔ جس میں اچھائی اور برائی دونوں کا احتمال موجود ہو یا وہ بات دوسروں کو کسی غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ایک مسلمان جو بھی بات کہے وہ دوٹوک اور واضح ہونی چاہیے جس کا ہر زاویے سے صرف اور صرف ایک ہی مطلب نکلنا چاہیے۔ ایک مسلمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ادب اور شاعری کے نام پر اپنی زبانوں اور قلموں کو بے لگام کرنا اخروی خسارے کا باعث بن سکتا ہے۔

جھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۔۔۔ بچپن کے جس پرائمری اسکول میں ہم پڑھتے تھے تو کسی کو "کاہل" "جھوٹا" یا "بدمعاش" کہنا بھی "گالی" کی تعریف میں آجاتا تھا اور ہماری اساتذہ لڑکوں کے کان اینٹھتی تھیں کہ : "آپ نے انہیں گالی کیوں دی؟"
عرض کیا جاچکا ہے شخصیت کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سے الفاظ اس شخصیت کے حق میں گالی شمار ہوتے ہیں اور کون سے نہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ جو الفاظ یعنی کاہل، جھوٹا، بدمعاش دوستوں کے حق میں آپ کے نزدیک گالی کی تعریف میں نہیں آتے۔ یہی الفاظ اگر آپ اپنے دوستوں کے بجائے اساتذہ اور والدین کے لئے استعمال کرینگے تو یقیناً انہیں گالی کہا جائے گا۔آپ موضوع سے متعلق کوئی بات کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق استعمال شدہ الفاظ پر بات کررہے ہیں عام لوگ یہاں زیر بحث نہیں۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔ شاہد نذیر بھائی ، آپ تو نفس مضمون کو چھوڑ کر کسی اور رد میں کافی آگے تک چلے گئے۔ :)
آپ کی اصل بات ، جس کا میں نے تفصیل سے اپنی دوسری پوسٹ میں جواب دیا تھا ، یہ تھی :
ماہر القادری (رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا خوب کہا ہے :
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
میرے خیال میں نہ صرف یہ جملہ درست نہیں بلکہ ایک طرح سے اس جملے کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب خالص جھوٹ اور کذب منسوب کیا گیا ہے جو جہنم میں لے جانے کا موجب ہے۔
آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ : کہنے والے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب خالص جھوٹ اور کذب منسوب کیا ہے جو جہنم میں لے جانے کا موجب ہے۔
جبکہ میں نے وضاحتا کہا تھا کہ ۔۔۔
جب علامہ ماہر القادری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسا کہا تھا تو یقیناً ان کے ذہن کے کسی گوشے میں لفظ "گالی" کا وہ (مروجہ) مفہوم نہیں تھا
سیاق و سباق کو بھی دیکھا جانا چاہیے اور اس پر بھی کہ کس انداز میں اور کس پس منظر میں کثیر المعانی الفاظ یا فقروں کی ادائیگی ہوئی ہے۔
اب اتنی سی وضاحت بھی آپ سمجھنا نہیں چاہتے تو بھائی پھر آپ کو لغت دیکھ لینے کا مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے۔ :)
مشہور زمانہ فیروز اللغات اور فرہنگ آصفیہ میں "گالی" کے معانی یہ بھی تحریر ہیں :
بدزبانی ، بری بات ، شرم کی بات ۔۔۔۔۔
اور فرہنگ آصفیہ میں یہ بھی درج ہے ۔۔۔
گالی دنیا یا سنانا = بدزبانی کرنا ، بری بات منہ سے نکالنا

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے واقف ہر فرد جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار نے کافی بدزبانی کی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جوابی رویہ کیا تھا یہ بھی کسی حوالے کا محتاج نہیں۔
امید ہے کہ اس وضاحت سے آپ کی تشفی ہو جائے گی۔

اور ہاں ، آپ کی یہ بات بہت اچھی ہے اور اس سے ہر طبقہ کے مسلمان کو کوئی اختلاف نہیں ہوگا :
میں تو صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب واحترام نہ صرف دل میں ہونا چاہیے بلکہ زبان اور تحریر سے بھی اس کا اظہار ہونا چاہیے اور مکمل احتیاط کے ساتھ زبان و قلم سے نبی علیہ السلام سے متعلق کوئی ایسی بات نہیں نکالنی چاہیے جو ذو معنی ہو۔ جس میں اچھائی اور برائی دونوں کا احتمال موجود ہو یا وہ بات دوسروں کو کسی غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ایک مسلمان جو بھی بات کہے وہ دوٹوک اور واضح ہونی چاہیے جس کا ہر زاویے سے صرف اور صرف ایک ہی مطلب نکلنا چاہیے۔ ایک مسلمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ادب اور شاعری کے نام پر اپنی زبانوں اور قلموں کو بے لگام کرنا اخروی خسارے کا باعث بن سکتا ہے۔
البتہ اس پر مستزاد ایک بات یہ بھی یاد رہے کہ ۔۔۔۔ اگر کسی فرد کو کم علمی کے سبب کوئی مغالطہ لگے تو جھٹ پٹ خود سے فیصلے کرنے کے بجائے متعلقہ علم کے ماہرین سے وضاحت طلب کر لینی چاہئے ۔۔۔۔ جیسا کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی "اصول حدیث" سے متعلق مقالے میں لکھا ہے کہ :
فن میں فن والے کی بات ہی معتبر مانی جائے گی۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
جبکہ میں نے وضاحتا کہا تھا کہ ۔۔۔
جب علامہ ماہر القادری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسا کہا تھا تو یقیناً ان کے ذہن کے کسی گوشے میں لفظ "گالی" کا وہ (مروجہ) مفہوم نہیں تھا
سیاق و سباق کو بھی دیکھا جانا چاہیے اور اس پر بھی کہ کس انداز میں اور کس پس منظر میں کثیر المعانی الفاظ یا فقروں کی ادائیگی ہوئی ہے۔
ہمیں بھی قوی امید ہے کہ ماہرالقادری کی مراد لفظ گالی سے حقیقی گالی نہیں ہوگی۔ لیکن ان کی غلطی یہ ہے انہوں نے ایسا لفظ ہی کیوں استعمال کیا جو شکوک شبہات پیدا کرنے کا باعث ہے۔ جہالت کے اس دور میں بہت زیادہ ممکن ہے کہ کوئی کم علم بھائی ماہر القادری کے ان جملوں سے یہ سمجھ لے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گالیاں دینے والے شخص کے حق میں بھی دعائیں کرتے تھے۔

ہم نے سیاق و سباق کو دیکھ لیا ہے اس لئے گزارش کی ہے کہ ان جملوں کے ظاہری اور مروجہ مفہوم سے نبی علیہ السلام کی جانب کذب منسوب ہوتا ہے۔اس لئے کسی مسلمان کو زیبا نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایسے جملے یا فقرے استعمال کرے جو کثیرالمعانی ہوں خصوصاً اس صورت میں کہ جب ان معنوں میں کچھ معنی برائی کو بھی بیان کرتے ہوں۔

اب اتنی سی وضاحت بھی آپ سمجھنا نہیں چاہتے تو بھائی پھر آپ کو لغت دیکھ لینے کا مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے۔
مشہور زمانہ فیروز اللغات اور فرہنگ آصفیہ میں "گالی" کے معانی یہ بھی تحریر ہیں :
بدزبانی ، بری بات ، شرم کی بات ۔۔۔۔۔
اور فرہنگ آصفیہ میں یہ بھی درج ہے ۔۔۔
گالی دنیا یا سنانا = بدزبانی کرنا ، بری بات منہ سے نکالنا

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے واقف ہر فرد جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار نے کافی بدزبانی کی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جوابی رویہ کیا تھا یہ بھی کسی حوالے کا محتاج نہیں۔
امید ہے کہ اس وضاحت سے آپ کی تشفی ہو جائے گی۔
ًمیں نے سمجھ بھی لیا اور جواب بھی دے دیا۔ کسی بھی لفظ کے عموماً وہی معنی مراد لئے جاتے ہیں جو معاشرے میں مروج ہوں۔ رائج معنوں سے ہٹ کر کوئی لغت نہیں دیکھتا اس لئے نبی علیہ السلام کے بارے میں کلام کرنے والے کو اس بات کا دیہان رکھنا چاہیے کہ وہ ایسے الفاظ استعمال نہ کرے جو معاشرے میں غلط معنوں میں سمجھے اور استعمال کئے جاتے ہوں۔ آپ نے گالی کو لغت کے ذریعے بدزبانی کہہ کر الفاظ کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اگر آپ لغت میں بدزبانی کو دیکھیں تو وہاں آپکو بدزبانی کے ساتھ دشنام طرازی کے الفاظ بھی ملیں گے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دشنام طرازی اور بدزبانی ہم معنی الفاظ ہیں اور یہ تو آپکو بھی معلوم ہوگا کہ دشنام طرازی اور گالی میں کوئی فرق نہیں۔یہاں انگریزی لفظ Abuser کو دیکھیں جس کے معنوں میں دشنام طراز یعنی گالی دینے والا اور بدزبان کے الفاظ بھی موجود ہیں۔Urdu to English Dictionary | English to Urdu Dictionary | abuse in Urdu | Page 6 چناچہ بات تو پھر وہیں آگئی جہاں سے شروع ہوئی تھی اور لغت کے حوالے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار نے کافی بدزبانی کی تھی
یہاں ہم بدزبانی کے وہی معنی لیں گے جو معاشرے میں مروج ہے یعنی گالی دینا اور لغت بھی اس لفظ یعنی بدزبانی کے یہی معنی بیان کرتی ہے یعنی گالی دینا یا دشنام طرازی کرنا۔
مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جوابی رویہ کیا تھا یہ بھی کسی حوالے کا محتاج نہیں۔
جی ہاں! نبی علیہ السلام نے ایسے بدزبان اور دشنام طراز لوگوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔

البتہ اس پر مستزاد ایک بات یہ بھی یاد رہے کہ ۔۔۔۔ اگر کسی فرد کو کم علمی کے سبب کوئی مغالطہ لگے تو جھٹ پٹ خود سے فیصلے کرنے کے بجائے متعلقہ علم کے ماہرین سے وضاحت طلب کر لینی چاہئے ۔۔۔۔ جیسا کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی "اصول حدیث" سے متعلق مقالے میں لکھا ہے کہ :
فن میں فن والے کی بات ہی معتبر مانی جائے گی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں دشنام طرازی اور بدزبانی کوئی اتنی باریک چیز نہیں ہے جس میں لازمی کسی ماہر فن کی ضرورت درپیش ہو۔ جب انسان اپنے حق میں عزت اور زلت کا باآسانی فرق کرسکتا ہو تو اپنی محبوب ترین ہستی کی ناموس کے بارے میں اسے کسی ماہر فن کی ضرورت کیونکر پیش آئے گی؟!

میں نے اپنی بات کہہ دی اور باذوق بھائی نے اپنی وضاحت پیش کردی میرے خیال میں ایک باریک فرق کے علاوہ ہمارے مابین کوئی اختلاف نہیں۔
 
Top