ادبی آئی پی ایل (IPL)
از زبیر حسن شیخ (zubair.ezeesoft@gmail.com)وہ دونوں ادیب تھے
جدید ادب کی تلاش میں نکل پڑے
بنا ٹکٹ زندگی کی ریل میں چڑھ گئے
شریک سفرتو بن گئے، شریک حیات نہ بن سکے
پھر وہ بھوک سے پریشان رہنے لگے
مجہول آگہی اور مذموم ادراک کی بھوک
سڑے ہوئے ماحول کو گلے ہوئے لفظوں میں پرونے کی بھوک
جدت پسندی اور شہرت پسندی کی بھوک
اعزازات اور دولت کی بھوک.....
الغرض، دونوں کی مراد بر آئی
انھوں نے آئی پی ایل پر تحقیق کا بیڑا اٹھایا
انھیں معلوم ہوا
آئی پی ایل ہر بھوک کی غذا فراہم کرتا ہے
آئی پی ایل جدت پسندی کا کھیل ہے
اہل مغرب کی اندھی تقلید کا کھیل ہے
تہذیب یافتہ انسانوں کی خرید و فروخت کا کھیل ہے
مردوں کی نورا کشتی اور عورتوں کی دھینگا مشتی کا کھیل
غریب احمقوں کی امیر خواہشوں کا کھیل
قمار بازی کے بازی گروں کا کھیل
بد عنوانی کو نئے عنوان دینے کا کھیل
سیاست کے ادب اور سرمایہ کے آداب کا کھیل
ذہین بھانڈوں اور فتین طوائفوں کی ملکیت کا کھیل
ذرائع ابلاغ کی آمدنی اور سنسنی کا کھیل
الغرض ان دونوں نے سب کچھ دیکھ لیا
ان کو جدیدیت کا مفہوم معلوم ہوگیا
شدت سے جدت کا احساس ہوا
عورت نے کہا...
انسان برہنہ پیدا ہوتا ہے،
برہنگی انسان کا پیدائشی حق ہے
مرد نے کہا....
لیکن جمہوریت میں ہر حق کے ساتھ ایک فرض ہوتا ہے
عورت نے کہا...
تو پھربرہنگی کو نمایاں کرنا فرض ٹہرا
مرد نے کہا....
لیکن یہ تو کھیل ہوا، فن کہاں؟
برہنگی کو برہنہ لفظوں کا جامہ پہنانا ہے
جو در اصل فن ہے
اور یہی جدید ادب ہے
یعنی "ادبی آئی پی ایل"
جسکی ہمیں تلاش تھی۔