محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
بسم الله الرحمن الرحيم
"ازدواجی زندگی،،، مقاصد، تعلیمات، اور حقوق"
فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 29 -صفر- 1437 کا خطبہ جمعہ بعنوان "ازدواجی زندگی،،، مقاصد، تعلیمات، اور حقوق" ارشاد فرمایا
جس میں انہوں نے ان نکات پر گفتگو کی:
٭مقصد کائنات اور انسان کی ذمہ داری
٭ انسانی تخلیق کا پہلا مرحلہ
٭ انسانی زندگی میں والدین کی اہمیت
٭ نکاح انبیاء کی سنت
٭ نکاح کیلئے ترغیب
٭ نکاح کے فوائد
٭ شریک حیات کے چناؤ کیلئے رہنما اصول
٭ شادی کیلئے لڑکی کی رضا مندی
٭ لڑکیوں کے حق میں ولی کی طرف سے ہونیوالی غلطیاں
٭ شادی سے قبل طرفین خود سے استخارہ کریں
٭ شادی کو آسان بنائیں
٭ شادی کے مقدس بندھن کا تحفظ
٭ زوجین کے حقوق
٭ عائلی زندگی کیلئے رہنما اصول
٭ دعوت ولیمہ کیلئے نصیحتیں
٭ شادی کے خواہش مند افراد کی معاونت، اور اسکے لئے جدید دور کے مطابق مشورے۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اسی نے پیدا اور درست انداز میں استوار کیا، وہی صحیح اندازے کے مطابق رہنمائی کرتا ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی کی طرف رجوع اور بخشش چاہتا ہوں، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، وہی بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، انکی اولاد اور متقی و نیکو کار صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
حکمِ الہی کے مطابق تقوی اختیار کرو، اور جن امور سے اس نے روکا ہے، ان سے رک جاؤ۔
اللہ کے بندو!
تمہارے رب نے اس کائنات کو ایک مقررہ وقت تک کیلئے آباد کرنے کا شرعی اور کونی ارادہ فرمایا، اور یہ آباد کاری باہمی تعاون، اتحاد و اتفاق ، اور زندگی کی بنیاد عدل و انصاف پر مبنی مفید اصولوں پر رکھنے کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔
انسان کو اس زمین پر نائب بنایا گیا کہ زمین پر آباد کاری کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے، اور یہاں رہتے ہوئے اللہ کی عبادت کرے، کیونکہ انسان کی خوشحالی کا راز اللہ کی بندگی اور بد بختی اللہ کی نافرمانی میں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ}
جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اللہ سے ڈرے، اور اس کی نا فرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ با مراد ہیں [النور : 52]
اسی طرح فرمایا:
{وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ}
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جائے اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا [النساء : 14]
ایک مقام پر فرمایا:
{وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ}
اور اگر حق ان کی خواہشات کے مطابق ہوتا تو یہ زمین و آسمان اور ان میں جو کچھ ہے ان سب کا نظام درہم برہم ہو جاتا [المؤمنون : 71]
اس دنیا میں انسان کی تخلیق کا سب سے پہلا مرحلہ اللہ اور اسکے رسول کے طریقے کے مطابق بیوی کا حصول ہے، خاوند و بیوی میں باہمی تعاون، پیار، انس، اور محبت کامل ترین صورت میں ہوتی ہے، انکے مقاصد و اہداف یکساں ہوتے ہیں، میاں بیوی باہمی تعلقات کے دوران عظیم تعمیری اور فطرتی تسکین حاصل کرتے ہیں، اور نیک اولاد کی صورت میں بلند اہداف و مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بیوی نسلوں کی پرورش گاہ، نو مولود بچوں کیلئے پہلی درس گاہ، اور بچوں کی تعمیری رہنمائی و اصلاح کیلئے تربیت گاہ ہے۔
ماں اور باپ کا اپنی اولاد پر ہمیشہ اثر رہتا ہے، اگر والدین نیک ہوں تو حقیقت میں وہی کسی بھی اچھے معاشرے کی بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
والدین چھوٹوں کیلئے پیار، رحمت، شفقت، محبت، اور الفت کا گہوارہ ہیں۔
اصل میں رشتہ داری اور قرابت داری یہ ہے کہ جس کی وجہ سے باہمی تعاون، شفقت، کفالت، ربط، محبت پیدا ہو اور حوادثات زمانہ میں ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے۔
نکاح ازلی رسم و رواج ہے، اس کے ان گنت فوائد ، اور لا متناہی برکتیں ہیں، نکاح ایسے ابدی طریقوں میں سے ہے جس کے فوائد کبھی ختم نہیں ہونگے۔
نکاح انبیائے کرام، اور رسولوں کی سنت بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً}
اور یقیناً ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے، اور ہم نے ان کیلئے بیویاں اور اولاد بھی بنائی[الرعد : 38]
اسی طرح مؤمنوں کی صفات ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}
اور وہ لوگ جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں، اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔[الفرقان : 74]
بلکہ نکاح کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
{وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ }
اور تم میں سے جو لوگ غیر شادی شدہ ہیں ان کے نکاح کر دو ، اور اپنی نیک صالح لونڈی، غلاموں کے بھی ،اگر وہ محتاج ہیں تو اللہ اپنی مہربانی سے انھیں غنی کر دے گا[النور : 32]
اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
(نوجوانو! جو تم میں سے نکاح کے اخراجات کی استطاعت رکھتا ہے، تو وہ نکاح کر لے؛ کیونکہ اس سے نظریں نیچی، اور شرمگاہ کو تحفظ حاصل ہوتا ہے، اور جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ روزے رکھے، اس طرح اسکی شہوت کم ہو جائے گی) بخاری و مسلم
حدیث میں مذکور "الباءۃ" سے مراد حق مہر، نان و نفقہ، اور رہائش کے اخراجات ہیں، جو ان کی استطاعت نہیں رکھتا اور اسے نکاح کی ضرورت بھی ہے تو وہ روزے رکھے، روزوں کا اسے ثواب بھی ملے گا، اور شہوت بھی کم ہوگی، اور اللہ کی طرف سے شادی میسر ہونے تک روزے ہی رکھتا رہے۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
کچھ لوگوں نے امہات المؤمنین سے آپکی تنہائی کی عبادات سے متعلق استفسار کیا، تو ان میں سے کچھ نے کہا: "میں شادی نہیں کرونگا"، اور کچھ نے کہا: "میں گوشت نہیں کھاؤں گا"، اور کچھ نے کہا کہ : "میں بستر پر آرام نہیں کرونگا" انکی یہ باتیں نبی ﷺ تک پہنچیں تو آپ ﷺ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا: (لوگوں کو کیا ہو گیا ہے!؟ انہوں نے کچھ ایسی ویسی باتیں کیں ہیں! لیکن میں [رات کو] نماز بھی پڑھتا ہوں، اور آرام بھی کرتا ہوں، [نفلی]روزے رکھتا بھی ہوں، اور چھوڑتا بھی ہوں، اور شادیاں بھی کی ہوئیں ہیں، جو شخص بھی میری سنت سے اعراض کرے، تو وہ مجھ سے نہیں ) بخاری مسلم
اسلام نے نکاح کی استطاعت اور ضرورت رکھنے والے پر اسے واجب قرار دیا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ :
(محبت کرنے والی اور بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو، یقیناً میں تمہاری کثرت کی وجہ سے قیامت کے دن دیگر انبیاء پر فخر کرونگا)
اسے احمد نے روایت کیا ہے، اور ابن حبان نے انس رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔
نکاح زوجین کیلئے پاکیزگی اور عفت کا باعث ہے، اسی کی بدولت معاشرے کی اصلاح ہوگی، اور انحراف سے تحفظ ملے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}
نیز جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اپنے (پہلے) خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ معروف طریقے سے آپس میں نکاح کرنے پر راضی ہوں ، جو کوئی تم میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اسی بات کی نصیحت کی جاتی ہے، یہی تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ ہے؛(اپنے احکام کی حکمت) اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے [البقرة : 232]
جاری ہے
Last edited: