• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استثناء کے ذریعہ تخصیص (اصول الفقہ)

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
استثناء کے صحیح ہونے کی شرائط:

اسثناء کے ذریعے تخصیص کرنے کےلیے کچھ شرائط مقرر کی گئی ہیں۔ ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں:

مستثنی لفظوں میں ہو کہ اس کو سنا جائے، صرف نیت نہ کرلی جائے۔ البتہ مالکیوں کے نزدیک جبری قسم میں اگر ایسا نہ کیا جائے تو جائز ہے۔

عرف عام میں یہ ماقبل سے لفظی طور پر متصل ہو۔ البتہ سانس لینے یا چھینک آجانے سے اگر فاصلہ آجائے تو کوئی بات نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں اختلاف کیا ہے ، ان کے نزدیک منقطع مطلقاً جائز ہے۔

مستثنی ، مستثنی منہ کو بالکل ہی اپنے اندر لینے والا نہ ہو، جیسا کہ میں نے اس کے پانچ دینار دینے ہیں سوائے پانچ دیناروں کے ۔ کیونکہ اس طرح کا استثناء تو بالکل لغو اور فضول ہے ۔ حنابلہ کے نزدیک مستثنی کو مستثنی منہ کے نصف سے زیادہ بھی نہیں ہونا چاہیے، جیسا کہ میں نے اس کے پانچ دینار دینے ہیں سوائے تین دیناروں کے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ استثناءقلیل کو نکالنے کےلیے ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا تفصیل سے آخری شرط میں اختلاف معلوم ہوتا ہے ،اس کی تین صورتیں بنتی ہیں، جیسا کہ حسب ذیل تفصیل سے معلوم ہوگا۔

۱۔ یہ کہ مستثنی، باقی بچ جانے والی چیز سے کم ہو، جیسا کہ میں نے اس کے پانچ دینار دینے ہیں سوائے دوکے۔ تو یہ صورت بالاجماع صحیح ہے۔

۲۔ یہ کہ مستثنی ، مستثنی منہ کو مکمل طور اپنے اندر شامل کرنے والا ہو، جیسا کہ میں نے اس کے پانچ دینار دینے ہیں سوائے پانچ دیناروں کے۔ تو یہ صورت ابن طلحہ اندلسی کے علاوہ اکثر کے نزدیک باطل ہے۔

۳۔ یہ کہ مستثنی باقی بچ جانے والی چیز سے زیاد ہو، جیسا کہ میں نے اس کے پانچ دینار دینے ہیں سوائے چار دیناروں کے ۔تو یہ صورت جمہور کے نزدیک جائز ہے جبکہ حنابلہ کے نزدیک ممنوع ہے۔

جملہ ہائے معطوفہ کے بعد استثناء کا آنا:

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿ وَالَّذِينَ يرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (4) إلاَّ الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [النور:5،4] اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت دھرتے ہیں ، پھر چار گواہ بھی نہیں لاتے تو انہیں اسی (۸۰) کوڑے مارو اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کرلی تو یقیناً اللہ سبحانہ وتعالیٰ بہت زیادہ بخشنے والے ، بہت زیادہ مہربان ہیں۔

اس آیت میں استثناء تین جملوں کے بعد آیا ہے:

کوڑے مارنے کا حکم والا جملہ

ان کی گواہی قبول کرنے کی ممانعت والا جملہ

ان کو فاسق قرار دینے والا جملہ

تو اب یہاں پر اس بارے میں اختلاف ہے کہ استثناء ان سب جملوں سے ہے یا صرف آخری جملہ سے۔

۱۔ جمہور کا کہنا ہے کہ ان تمام جملوں سے استثناء ہے کیونکہ یہی بات ظاہر ہے اور اس کے خلاف کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔ تواس استثناء کا صرف کوڑے مارنے والے جملہ سے کرنا صحیح نہیں ہے۔

۲۔ ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ یہ استثناء صرف آخری جملہ سے ہوگا کیونکہ یہی بات یقینی ہے۔

استثناء کا مفردات ہائے معطوفہ کے بعد آنے کی مثال بھی ایسے ہی ہے۔ مثلاً: فقیروں، مسکینوں اور مقروضوں (چٹی بھرنے والوں) پر صدقہ پر سوائے ان کے جو ان میں سے فاسق ہیں۔


ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 
Top