• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استخارہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
استخاره

(مشورہ لینا/ دو کاموں میں سے ایک کام اختیار کرنا)
لغوی بحث:
استخارہ(باب استفعال) کا مصدر ہے ۔اس کا اصل مادہ (خ ی ر) ہے جو کہ نرمی ،مہربانی اور میلان پر دلالت کرتا ہے اور خیر شر کی ضد ہے۔ اور ”الخِیَرَة“ کا معنی خِیَار یعنی اختیار ہے۔ اور استخارہ کا معنی دو کاموں میں سے اپنے لئے بہتر طلب کرنا ہے۔ اور استخارہ کا معنی استعطاف یعنی نرمی اور مہربانی طلب کرنابھی ہے۔
اور اصل میں”إِسْتِخَارَةُ الضَّبْعِ“ تھا ۔جس کا معنی ہے درندے کو موڑنا ۔وہ اس طرح کہ اس کے گھر کے سوراخ کے اندر لکڑی ڈال دو تاکہ وہ دوسری جگہ سے نکل کر چلا جائے ۔پھر استخارہ کسی چیز کے بارے میں اختیارطلب کرنے کے لئے استعمال ہوا۔
اور ”خَارَاللہُ لَكَ“ کا معنی ہے اللہ تجھے خیر یعنی اچھی چیز دے۔ اور”خَیَّرتُه بَیْنَ الشَّیْئَیْنِ“ کا معنی ہے میں نے اس کو دو چیزوں میں اختیار دیا۔ اور کہا جا تاہے ”إِسْتَخِرِاللہَ یَخِرْلَكَ“اللہ سے اچھی چیز کا اختیار طلب کر وہ تجھے اچھی چیز دے گا(یا اللہ تعالیٰ سے اچھی چیز طلب کر وہ تجھے خیر یعنی اچھی چیز عطا فرمائے گا۔)اور”وَاللہُ یَخِیْرُ لِلْعَبْدِ إِذَا اسْتَخَارَہُ“یعنی اللہ تعالیٰ بندے کو اچھی چیز کا اختیار دیتا ہے جب بھی بندہ اس سے اچھی چیز طلب کرتا ہے۔اور ”اسْتَخَارَ الْمَنْزِلَ“ کا معنی ہے ”اسْتَنْظَفَهُ“ یعنی صفائی کی۔ اور حدیث میں ہے ”البَیِّعَانُ بِالْخِیَارِ مَالَمْ یَتَفَرَّقَا“ دو خریدو فروخت کرنے والے اختیار رکھتے ہیں جب تک وہ ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں اور”الخِیَار“ اسم مصدر ہے اختیار کا (ازباب افتعال)اس کا معنی اچھی چیز طلب کرنا دو چیزوں میں سے سودے کو برقراررکھنا یا ختم کرنا۔ اور حدیث میں ہے”تَخَیَّرُوا لِنُطَفِکُمْ“ یعنی نکاح کے لئے اچھی عورت اور متقی اور پاکباز کو تلاش کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اصطلاحی وضاحت:

استخارہ دو چیزوں میں سے اچھی چیز کو طلب کرنا ہے جو ان میں سے ایک کی ضرورت رکھتا ہو۔ اور صلاة الاستخارہ یہ ہے کہ بندہ دو رکعت دن و رات میں کسی بھی وقت پڑھے ان کے اندر سورۂ الفاتحہ کے بعد جو چاہے پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کرے او ر نبی کریم ﷺپر درودپڑھے ۔پھر وہ د عا پڑھے جو صحیح البخاری میں جا برؓسے مروی ہے (احادیث استخارہ کے اندر پہلی حدیث)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
استخارہ میں مسنون طریقہ اپنانا ضروری ہے:

ابو عبداللہ محمدبن عبداللہ الحاج فرماتے ہیں کہ: آدمی پر واجب ہے کہ اس چیز سے بچے جو بعض لوگ کرتے ہیں یعنی وہ لوگ جن کو یا تو علم نہیں ہے یا علم ہے تو اس کے الفاظ کے اندر کیا شرعی حکمت ہے اس کی معرفت نہیں ہے ۔ کیوں کہ بعض لوگ مسنون طریقہ استخارہ کے علاوہ دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے لئے اس چیز کو اختیار کر رہا ہے جس کو اس ذات نے اختیار نہیں کیا جو اس کے لئے خود اس سے بڑھ کر رحیم اور مہربان ہے۔ بلکہ اس کے والدین سے بھی۔ وہ ذات جو معاملات کی اچھائی کو جاننے والا ہے اور اس چیز کا بتانے والا ہے جس کے اندر بھلائی ہوتی ہے اور کامیابی اور فلاح بھی۔صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔
اور بعض لوگ شرعی استخارہ کرنے کے بعد سونا چاہتے ہیں حتی کہ وہ اس کام کا کرنا یا نہ کرنا بذریعہ خواب معلوم کر سکیں یا کوئی دوسرا شخص خواب میں دیکھے، اس کی جب کہ حقیقت نہیں ہے۔ کیوں کہ نبی کریم ﷺنے استخارہ اور مشورہ کا حکم دیا ہے اس کا نہیں جو کہ خواب میں نظر آتا ہے ۔سبحا ن اللہ صاحب شرع ﷺنے ہمارے لئے وہ الفاظ اختیار کئے ہیں جو کہ صاف ہیں اور دنیا و آخرت کی خیر(کے مفہوم کو) جمع کرنے والے ہیں۔ یہاں تک کہ اس روایت کے راوی بھی (استخارہ کے لئے) ”عَلَی سَبِیْلِ التَّخْصِیْصِ“اور انہی الفاظ کے تمسک کی ترغیب دیتے ہوئے اور دیگر الفاظ کو شامل نہ کرتے ہوئے یوں کہا”کَانَ رَسُولُ اللہِﷺیُعَلِّمُنَا الاسْتِخَارَة فِی الأُمُورِ کُلِّهَا کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآن“یعنی رسول اللہ ﷺہمیں سارے معاملات میں استخارہ (کے لئے دعا) اس طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔​
اور یہ معلوم ہے کہ قرآن مجید کے اندر تغیر اور زیادتی اور کمی جائز نہیں ہے۔ پھر اس میں بھی حکمت دیکھیں جو رسول اللہ ﷺنے مکلف کو فرض کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور نہیں ہو سکتا کہ صاحب استخارہ اللہ سے یہ طلب کرنا چاہتا ہے کہ اس کی حاجت پوری کی جائے اور یہ ادب کی بات ہے کہ جس سے کام ہے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کا دروازہ نماز کے ذریعے سے کھٹکھٹایا جاتاہے ۔پھر جب نماز کے تمام فضائل کا حصول ہو گیا تو شارع نے مسنون دعا پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
صلاۃ الاستخارہ کی فضیلت:

استخارےکے بارے میں اگر کوئی خاص فضیلت نہ بھی ہوتی تو بھی سنت مطہرہ پر عمل کرنے سے اس کی برکت ضرور حاصل ہوتی ۔کتنا سعادت مند انسان ہے جو اس طرح کرتا ہے اور آدمی کو چاہیئے کہ استخارہ کی دعا پڑھنے سے قبل جو مسنون طریقہ ہے اس کو اختیار کرے یعنی پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کرے پھر نبی کریمﷺپر درود پڑھے پھر مسنون دعا استخارہ پڑھے اس کے بعد درود سے دعا ختم کرے۔ اس کے بعد افضل یہ ہے کہ مشورہ بھی کرے۔ کیوں کہ اس طرح سنت پر پورا عمل ہو گا۔
سلف صالحین میں سے بعض نے کہا ہے کہ حقیقی عاقل وہ ہے جو کہ اپنی رائے کے ساتھ علماء کی آراء بھی ملاتا ہے اور اپنے عقول کے ساتھ داناؤں کی عقل کو بھی ملاتا ہے۔ کیوں کہ ایک شخص کی رائے دھوکا بھی کھا سکتی ہے پھسل بھی سکتی ہے۔ اور ایک ہی(شخص کا ) عقل غلطی کر سکتا ہے اس لئے جو شخص نہ استخارہ کرتا ہے۔ نہ مشورہ اس کے بارے میں اس تنگی و تکلیف کا خدشہ رہتا ہے جو اس کام میں سنت کے طریقے کو چھوڑ کر اپنی صوابدیدگی کو اپنانے میں ممکن ہے ۔

مزید تفصیل کے لئے درج ذیل صفات دیکھئے:
الإسْتِعَانَة، الإسْتِعَاذَہ، الإبَانَة، التَوَکل، الدُعَا، الذِکْر، القُنُوت، الضَرَاعَة وَالتَضرُع
اس کی ضد کے لئے ان صفات کو دیکھئے:
الإعراض، الأمْن مِن المَكر، الکِبر وَالعَجَب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
وہ احادیث جو الاستخارہ پر دلالت کرتی ہیں

(1) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِی اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ النبی ﷺ یعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِی الْأُمُورِ كُلِّهَا كَالسُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ یقُولُ: إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْیرْكَعْ رَكْعَتَینِ مِنْ غَیرِ الْفَرِیضَةِ ثُمَّ یقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِیمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَیرٌ لِی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَةِ أَمْرِی أَوْ قَالَ فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِی وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَةِ أَمْرِی أَوْ قَالَ فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّی وَاصْرِفْنِی عَنْهُ وَاقْدُرْ لِی الْخَیرَ حَیثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِی بِهِ قَالَ وَیسَمِّی حَاجَتَهُ. ([1])
(١)جابر ؓنے بیان كیا كہ رسول اللہﷺہمیں تمام معاملات میں استخارہ كی تعلیم دیتے تھے۔ جیسا کہ قرآن کی سورت کی تعلیم دیتے قرآن كی سورت كی طرح۔ (نبی نے فرمایا:)جب تم میں سے كوئی شخص كسی (مباح) كام كا ارادہ كرے( ابھی عزم نہ ہوا ہو) تو دو ركعات( نفل ) پڑھے اس كے بعد یوں دعا كرے:اے اللہ اگر تو جانتا ہے كہ یہ كام میرے لئے بہتر ہے ،میرے دین كے اعتبار ،میری معاش اور میرے انجام كا ركے اعتبار سے یا دعا میں یہ الفاظ كہے (فی عاجل امری و آجلہ) تو اسے میرے لئے مقدر كر دے اور اگر تو جانتا ہے كہ یہ كام میرے لئے برا ہے میرے دین كے لئے میری زندگی كے لئے اور میرے انجام كار كے لئے یا یہ الفاظ فرمائے:”فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِهِ“تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیردے اور میرے لئے بھلائی مقدر كر دے جہاں كہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن كر دے (یہ دعا كرتے وقت) اپنی ضرورت كا بیان كر دینا چاہیئے۔

[1]- صحيح البخاري،كتاب الدعوات، باب الدعاء عند الاستخارة، رقم (6382)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
استخا رہ کے متعلق آثار اور علما ء و مفسرین کے اقوا ل

(۱) انس بن ما لک فرماتے ہیں : جب رسو ل اللہ ﷺفوت ہو ئے تو مد ینہ منو رہ کے اندر ایک آد می لحد بنا تا تھا اور دو سرا شخص (قبر کے لئے سیدھا)گڑ ھا بنا تا تھا ۔صحا بہ کر ام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین نے کہا ہم اپنے رب سے استخا رہ کر تے ہیں ( یعنی خیر و بھلا ئی طلب کر تے ہیں کہ جو کا م خیرو اچھا ئی وا لا ہو وہی ہو ) اور دو نوں کی طرف آدمی بھیجتے ہیں پھر جو بھی پہلے آئے گا (تو اس سے قبر بنوا ئیں گے اور ) دو سرے کو چھو ڑ دینگے ، پھر دو نو ں کی طرف آدمی بھیجا گیا تو لحد وا لا پہلے آیا پھر انہوں نے آپ ﷺکے لئے لحد بنا ئی ۔ اے اللہ! میں بھلائی مانگتا ہوں تیرے علم کے ساتھ اور قدرت طلب کرتا ہوں تیری قدرت کے ساتھ اور میں تجھ سے تیرے بڑے فضل کا سوال کرتا ہوں ،یا اللہ! تو ہی طاقت والا ہے اور میں طاقت والا نہیں اور تو علم والا ہے میں علم والا نہیں ،اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے ۔([1])

(۲)عطاء نے کہا: یزید بن معا ویہ کے زمانہ میں جب شام وا لوں نے (یعنی یزید کے لشکر نےعبداللہ بن زبیر کے خلاف مکہ پر ) حملہ کیا اور بیت اللہ شریف جل گیا اور نقصان ہوا تو عبداللہ بن زبیر نے اس کو اسی حال پر چھو ڑدیا یہا ں تک کہ لو گ حج کو آ ئے۔ وہ لوگوں کو اہل شام (یعنی یزید )کے خلاف لڑا ئی کے لئے جو ش د لا نا چا ھتے تھے ۔ پھر جب لوگ آئے تو کہا :اے لو گوں! مجھےبیت اللہ کے بارے میں مشورہ دو کیا میں اس کو گرا کر دوبارہ بناؤں؟ یا جو اس سے منہدم ہو گیاہے اس کی اصلاح کر ومرمت کردوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میری اس کے بارے میں رائے یہ تھی کہ جو اس کے حصے منہدم ہو گئے ہیں (منجنیق وغیرہ سے) ان کی مرمت و اصلاح کریں اور باقی بیت اللہ کو اس کے حال پر رہنے دیں جس حال میں لوگوں نے اسلام قبول کرتے وقت اس کو دیکھا۔ اور وہ پتھر رہنے دیں جن کو لوگوں نے ابتدائے اسلام میں پایا تھا۔ اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی۔ ابن زبیر نے کہا اگر ہم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو وہ اس کی تجدید کے سوا راضی نہیں ہو گا تو کیا تمہارے رب کے گھر کی تجدید نہیں ہو سکتی؟میں اپنے رب سے تین دن تک استخارہ کرتا ہوں پھر اپنے کام کا عزم کروں گا ۔پھر جب تین دن گزر گئے تو ان کا ارادہ و عزم اس پر ہوا کہ اس کو توڑ کر دوبارہ تعمیر کرے۔ پس لوگوں کو خوف ہوا کہ سب سے پہلے (گرانے کی ابتداء کرنے والے) شخص پر آسمان سے عذاب الٰہی نہ نازل ہو۔ پھر ایک شخص چڑھا اور اس نے ایک پتھر گرایا پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ اس کو کچھ نہیں ہوا ہے تو سارے لوگ شروع ہو گئے یہاں تک کہ زمین تک گرادیا۔ پھر عبداللہ بن زبیر نے پلر بنا کر ان پر پردہ ڈالے ۔یہاں تک کہ دیوار بلند ہو گئی۔ اور ابن زبیر نے کہا میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،اگر لوگوں نے تازہ تازہ کفر کو نہ چھوڑا ہوتا( اور میرے پاس وہ خرچہ نہیں ہے کہ بیت اللہ کی مضبوط تعمیر ہو سکے) تو حطیم سے پانچ ذراع بیت اللہ کے اند شامل کرتا اور اس کے دو دروازے بناتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے باہر نکلتے ۔ابن زبیر نے کہا میرے پاس آج خرچہ بھی ہے اور لوگوں کا خوف بھی نہیں ہے۔ پھر اس نے حطیم سے بیت اللہ کے اندر پانچ ذراع شامل کر دیئے (اور نیچے اتنا گہرا کھو دا کہ) لوگوں نے (ابراہیم کی) بنیادوں کو دیکھا پھر اس بنیاد پر تعمیر کیا اور کعبۃ اللہ شریف کی لمبائی اٹھارہ ذراع تھی۔ اس کے طول میں دس ذراع بڑھائے اور اس کے دو دروازے بنائے ایک دروازہ داخل ہونے کے لئے اور دوسرا نکلنے کے لئے۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر قتل ہو گئے تو حجاج بن یوسف نے خلیفہ عبدالملک کو اس معاملہ کی خبر پہنچائی اور بتایا کہ ابن زبیر نے ان بنیادوں پر بیت اللہ کی تعمیر کی ہے جن کو اہل مکہ کے ثقہ لوگوں نے دیکھا ہے۔ عبدالملک نے جواباً لکھا کہ ہم ابن زبیر کی غلطی میں اس کے شریک نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا جو اس نے طول میں اضافہ کیا ہے اس کو برقرا رکھ اور جو حصہ حطیم سے بڑھایا ہے اس کو واپس ختم کر دے اور وہ دروازہ بھی بند کر دے جو اس نے (نکلنے کے لئے) کھولا ہے۔ تو حجاج نے اس (اضافہ شدہ حصہ) توڑا اور پرانی بنیاد پر لوٹا دیا۔([2])

(۳)ابن ابی جمرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں استخارہ مباح(جائز) اور مستحب کا موں میں کرنا چاہیئے ۔جب دو کام آپس میں بظاہر متضاد ہوں۔ جبکہ واجب، اصل مستحب، حرام و مکرو ایسی ساری چیزوں میں استخارہ جائز نہیں ہے۔([3])

(۴)اور انہوں نے ہی کہا (دعا استخارہ سے پہلے نماز میں حکمت یہ ہے کہ استخارہ سے مراد دنیا و آخرت کے خیر کے حصول کو جمع کرنا ہے ۔ اس کے لئے باشاہ کا دروازہ کھٹکھٹا نا ضروری ہے اور اس کے لئے نمازسے بڑھ کر کوئی چیزکامیابی کا باعث نہیں ہو سکتی ہے۔کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم و ثناء اور اس کے سامنے بے بسی و محتاجی کا اظہار ہے۔([4])

(۵)طیبی نے کہا :جابر کی حدیث کا سیاق استخارہ کے خاص اھتمام پر دلالت کرتا ہے۔ ([5])

(۶)بعض اہل علم نے کہا ہے کہ جس شخص کو چار چیزیں ملیں گی وہ چار چیزوں سے محروم نہیں ہوگا۔ جس کو شکر ملے گا وہ مزید( برکت) سے محروم نہیں ہوگا اور جس کو توبہ کرنے( کی توفیق ملے گی) وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوگا۔ اور جس کو استخارہ حاصل ہوگا وہ (بہتر کے) اختیار سے محروم نہیں ہوگا اور جس کو مشورہ کرنا نصیب ہوگا وہ صواب( دوست) سے محروم نہیں ہوگا۔([6])

(۷)کسی ادیب نے کہا ہے جو استخارہ کرے گا وہ خوارونامراد نہیں ہوگا اور جو مشورہ کرے گا وہ نادم نہیں ہوگا۔([7])


[1]- ابن ماجه رقم (1557)، وقال في الزوائد: إسناده صحيح.
[2]- صحيح مسلم رقم (۱۳۳۳)
[3]- فتح الباري رقم (11/۱۸۸) بتصرف
[4]- المرجع السابق رقم (11/189) بتصرف
[5]- المرجع السابق رقم (11/188) بتصرف
[6]- أحياء علوم الدين رقم (1/206)
[7]- أدب الدنيا والدين رقم (309)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
استخارہ کے فوائد
(۱)استخارہ دلیل ہے مومن کے دل کے اللہ کے ساتھ ہر حال میں تعلق پر۔

(۲)استخارہ قضاءو تقدیر پر رضامند ی کی دلیل ہے۔

(۳)دنیا وآخرت میں سعادت کا سبب ہے۔

(۴)استخارہ کے بعد انسان میسر اسباب کے مطابق کوشش کرتا ہے تو خوشی اور سکون ملتا ہے اور (جو بھی حاصل ہو تا ہے اس پر)رضا اور قناعت سے خوشی محسوس کرتا ہے۔

(۵)استخارہ کی ہر چھوٹے بڑے معاملے میں سخت ضرورت ہے۔

(۶)استخارہ سے انسان کی روحانیت بڑھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت میں پختہ یقین ہو تا ہے۔

(۷)استخارہ سے انسان کان ثواب اور ہے اپنے رب سے قرب بڑھتا ہے کیوں کہ اس کے ساتھ نماز اور دعا بھی ہوتی ہے۔

(۸)استخارہ انسان کے اپنے رب پر بھروسہ کی دلیل اور اس کے قرب کا وسیلہ ہے۔

(۹)استخارہ کرنے والا اپنی کوشش میں ناکام نہیں ہوتا اور اسے بھلائی اور خیر کو اختیار کرنا نصیب ہوتا ہے اور ندامت سے بچاؤ ہوتا ہے۔

(۱۰)استخارہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی ثناء ہے۔

(۱۱)استخارہ کے اندرپریشانی اور شک سے نکلنے کا راستہ ہے اور یہ اطمینان اور خوش حالی کا ذریعہ ہے۔

(۱۲)استخارہ کے اندر سنت مطہرہ پر عمل ہوتا ہے اور اس کی برکت حاصل ہوتی ہے۔

نضرۃ النعیم
 
Top