مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
استعانت کے باب میں بریلویوں کا ایک فریب
تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، السلامہ – سعودی عرب
بریلویت ایک ایسے طریقے کا نام ہے جس میں اللہ کو چھوڑ کر غیراللہ سے مانگا جاتا ہے ، غیراللہ کو سجدہ کیا جاتا ہے ، اس کو مشکل کشا اورحاجت روا مانا جاتا ہے اس لئے بریلویوں کو جب اولاد چاہئے، یا مصیبت دور کرنا ہو، یا روزی روٹی کا سوال ہو، یہ لوگ مرے ہوئے مردوں کو پکارتے ہیں اور ان سے اولاد، بارش، روزی روٹی بلکہ سب کچھ مانگتے ہیں اور مصیبت میں بھی غیراللہ کو ہی پکارتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان بریلوں کی تمام تر بھاگ دوڑ قبرومزار اور میت وغیراللہ کی طرف ہوتی ہے ۔ حالانکہ یہ شرک کا راستہ ہے جو جہنم کی طرف لے جاتا ہے ۔
جب ان قبرپرستوں کو فرمان الہی اور فرمان رسول سنایا جاتا ہے تو حق تسلیم کرنے کی بجائےالٹا حق بتانے والے کو ہی غلط بتاتے ہیں اور اپنی بات منوالے کے لئے باطل استدلال پیش کرتے ہیں ۔اس تحریر میں ان لوگوں کے ایک باطل استدلال کی حقیقت آپ سے بیان کروں گا۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم بریلوی کو کہتے ہیں کہ غیراللہ سے مدد نہ مانگو، غیراللہ کو نہ پکارا تو بریلوی جواب دیتا ہے کہ پھر تم ماں سے روٹی کیسے مانگتے ہو، باپ سے پیسہ کیوں مانگتے ہو، درزی سے کپڑا کیوں سلاتے ہو؟ اس طرح متعدد باتیں بیان کرتا ہے ۔ بریلوی کا یہ جواب بالکل باطل ہے ۔ آئیے اس بات کی حقیقت جانتے ہیں ۔
مدد طلب کرنا جسے عربی میں استعانت کہتے ہیں ۔ اس کی دو قسمیں ہیں ۔
(1) استعانت کی پہلی قسم "ما تحت الاسباب"ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم دوسروں سے ایسے امور میں مدد حاصل کرسکتے ہیں جو اسباب ووسائل کے تحت ہوں یا یہ کہہ لیں کہ جو اس کے اختیار میں ہو جیسے ماں سے کھانا مانگنا، باپ سے پیسے مانگنا، درزی سے کپڑے سلاناوغیرہ ۔ ان کے بس میں یہ اختیارات ہیں اس لئے ان چیزوں میں دوسرے سے مددلے سکتے ہیں لیکن ان کے بس میں اولاد دینا نہیں ہے تو ان سے اولاد نہیں مانگیں گے ۔
(2)استعانت کی دوسری قسم "مافوق الاسباب" ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جواسباب کے تحت نہ ہو، اسباب ووسائل سے اوپر کی چیز ہویا یہ کہہ لیں کہ جس بات کا اختیار کسی مخلوق کو نہ ہو وہ چیز مخلوق سے مانگنا شرک ہے ، وہ صرف اور صرف اللہ سے ہی مانگیں گے ۔
گویا مدد حاصل کرنے کی دو قسمیں ہیں مگربریلوی حضرات ان دونوں قسموں کو خلط ملط کرکے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں اور باور کرانا چاہتے ہیں کہ غیراللہ کو مدد کے لئے پکارنا جائز ہے جبکہ ہمیں صاف صاف معلوم ہورہا ہے کہ مخلوق سے ہم وہی چیز مانگ سکتے ہیں جس کا اللہ نے اسے اختیار دیا ہے یعنی جو استعانت کی پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہے اور مخلوق سے ہم وہ چیز نہیں مانگ سکتے ہیں جس کا اختیار اللہ نے اسے دیا ہی نہیں ہے ۔ بطور مثال بخاری کی ایک حدیث پر غور کریں ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مردی ہے ، نبی ﷺ اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے ہیں:يَا فَاطِمَةُ بنْتَ مُحَمَّدٍ، سَلِينِي ما شِئْتِ مِن مَالِي، لا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شيئًا.(صحيح البخاري:4771)
ترجمہ: اے فاطمہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے لے لو لیکن اللہ کی بارگاہ میں، میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔
دنیا میں نبی ﷺ کے پاس مال دینے کا اختیار تھا تو آپ نے اپنی بیٹی سے کہا کہ اگر تجھے مال کی ضرورت ہو تو مانگ سکتی ہو مگر آخرت میں اللہ کے یہاں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاسکوں گا۔
اس بات کو سمجھ لینے کے بعد کہ مخلوق سے ہرچیز نہیں مانگ سکتے ہیں ، مخلوق سے صرف "ماتحت الاسباب " ہی مانگ سکتے ہیں اور "مافوق الاسباب " کا مخلوق سے سوال کرنا شرک ہے ۔
کوئی آپ سے سوال کرے کہ غیراللہ کو پکارنا شرک کیوں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پکار اور دعا عبادت ہے اور جملہ قسم کی عبادت صرف اور صرف اللہ کے لئے ہے ۔
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ "، ثُمَّ قَرَأَ: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ سورة غافر آية 60 ". (سنن ترمذی:3372، صححہ البانی)
ترجمہ:دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ نے آیت: «وقال ربكم ادعوني أستجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين» ”تمہارا رب فرماتا ہے، تم مجھے پکارو، میں تمہاری پکار (دعا) کو قبول کروں گا، جو لوگ مجھ سے مانگنے سے گھمنڈ کرتے ہیں، وہ جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوں گے“ (غافر: 60) پڑھی“۔
اس میں حدیث بھی ہے اور قرآن کی آیت بھی ۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا عبادت ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ جملہ قسم کی عبادت اللہ کے لئے ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے علاوہ غیرکو پکارنا عبادت کی ضد ہے جسے شرک کہا جاتا ہے ۔ اور قرآنی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اللہ کو ہی پکاریں گے ، وہ ہماری دعا کو قبول کرتا ہےاور جو اللہ کو نہیں پکارتا ہے وہ جہنم رسید کیا جائے گا۔ اللہ اکبر۔غیراللہ کو پکارنے کا انجام کس قدر بھیانک ہے ؟اسی لئے تو متعدد مقامات پر اللہ نے حکم دیا ہے کہ صرف میری ہی عبادت کرو جیسے اللہ کا یہ فرمان ہے:وَقَضٰی رَبُّکَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ(الاسراء :23)
ترجمہ:اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا۔
کوئی آپ سے یہ کہے کہ پھر اللہ نے قرآن میں وسیلہ اختیار کرنے یا نماز سے مدد مانگنے کا حکم کیوں دیا ہے، نماز بھی تو غیراللہ ہے بلکہ ایک بریلوی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ نے پچاس وقت کی نماز فرض کی تھی، موسی علیہ السلام کی وجہ سے پانچ وقت کی نماز ہوئی تو تم لوگ پانچ وقت کی نماز کیوں پڑھتے ہو، پچاس وقت کی نماز پڑھو؟
واضح رہے کہ ہم موسی علیہ السلام کی وجہ سے پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتے ہیں بلکہ اللہ نے ہی نماز کا حکم دیا ہے اور اللہ نے ہی پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے ، اس لئے اسے اللہ کا حکم مان کراس پر عمل کرتے ہیں ۔
ودسری بات یہ ہے کہ اللہ کو پکارتے ہوئے تین قسم کے وسیلے اختیار کرسکتے ہیں یعنی ہمارے لئے تین قسم کے وسیلے جائز ہیں ۔
پہلا وسیلہ : اللہ کے اسمائے حسنی کا، ہم اللہ کے ناموں کا وسیلہ لگاکر اللہ کو پکار سکتے ہیں ۔
دوسراوسیلہ : اپنے نیک عملوں کا ، ہم اپنے نیک اعمال کا وسیلہ دے کر اللہ کو پکار سکتے ہیں جیسے غار میں پھنسے تین لوگوں نے اپنے اپنے نیک عمل کاوسیلہ لگایا۔
تیسراوسیلہ: زندہ لوگوں کا، ہم زندہ نیک وموحد آدمی سے دعا کرواسکتے ہیں جیسے صحابہ کرام نے حیات رسول میں نبی ﷺ سے دعا کروائیں، عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی، اور جیسے ہم زندہ لوگوں کو کہتے ہیں کہ دعا میں یاد رکھنا یا میرے لئے دعا کرنا ، یہ وسیلہ جائز ہے ۔
ان تین صورتوں کے علاوہ کوئی اور صورت میں وسیلہ لگاتا ہے تو جائز نہیں ہے جیسے کسی مخلوق کی ذات کا وسیلہ لگانا جائز نہیں ہے، کسی میت کا وسیلہ لگانا جائز نہیں ہے۔جو لوگ اس طرح دعا کرتے ہیں کہ نبی کے وسیلہ سے دعا قبول فرما یا فلاں پیرومرشد کے صدقہ طفیل دعا قبول فرما ، یہ جائز نہیں ہے ۔
سورہ مائدہ میں اللہ کا وسیلہ اختیار کرنے کا جو حکم ہے اس کا مطلب ہے کہ نیک اعمال کا وسیلہ اللہ کے لئے اختیار کرواور اسی طرح نماز سے مدد طلب کرنا بھی نیک عمل کا وسیلہ لینا ہے جو وسیلہ کی جائز قسم ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک مومن کو صرف اللہ کو ہی مدد کے لئے پکارنا چاہئے اسی بات کا ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے اس سلسلے میں چند دلائل ملاحظہ فرمائیں اور اپنے ایمان واعمال کی اصلاح کریں ۔
ہم ہرنماز کی ہررکعت میں یہ آیت تلاوت کرتے ہیں ۔ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (اے اللہ !ہم فقط تیری ہی عبادت کر تے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چا ھتے ہیں) اس آیت میں ہم اللہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ تیرے سوا کسی سے مدد نہیں مانگیں گے ، صرف تجھ سے ہی مدد مانگیں گے گویا یہ آیت ہمیں غیراللہ سے مدد مانگنے سے روکتی ہے ۔
اوراللہ تعالی نےواضح طور پر تمام قسم کے غیراللہ کو پکارنے سے منع فرمادیا ہے ، فرمان الہی ہے:وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ(یونس:106)
ترجمہ:اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو جو نہ تجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر تو نے یہ کام کیا تو ظالموں میں شمار ہو گا۔
اللہ نے یہاں تک بتادیا کہ تم جن مردوں کو مدد کے لئے پکارتے ہو وہ قامت تک تمہاری پکار کا جواب نہیں دے سکتے ہیں ، اللہ فرماتا ہے :
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّـهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ * وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ(الاحقاف:5-6)
ترجمہ:اور ایسے لوگوں سے زیادہ کون گمراہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا ایسے لوگوں کو پکارتے ہیں جو قیامت تک ان کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کی آواز سے بھی بے خبر ہوں اور جب سب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادات سے انکار کر دیں گے۔
اسی طرح نبی ﷺ نے بھی تعلیم دی ہے کہ جب تم سوال کرو تو اللہ سے اور جب مدد مانگو تو اللہ سے ، چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ(ترمذی:2516، صححہ البانی)
ترجمہ: جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو۔
اس حدیث میں نبی ﷺ نے ہمیں یہاں تک تعلیم دی ہے ، آپ مزید فرماتے ہیں :
وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ۔
ترجمہ: اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔
ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ اللہ کے علاوہ ذرہ برابر بھی کوئی دوسرا نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتا ہے لہذا ہرحال میں اور ہر کام کے لئے ہمیں صرف اللہ کو پکارنا چاہئے ۔اور جو دینی یا دنیاوی معاملات میں"ماتحت الاسباب" کے قاعدہ کے تحت ہم ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں دراصل یہ مسئلہ الگ ہے، ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے اچھے کاموں پر ایک دوسرے کا تعاون کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدۃ:2)
ترجمہ: اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں آپس میں تعاون کرو، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دو۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :ما أَرَى بَأْسًا مَنِ اسْتَطَاعَ مِنكُم أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ.(صحيح مسلم:2199)
ترجمہ: تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو فا ئدہ پہنچا سکتا ہو تو اسے ایسا کرنا چا ہیے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں توحید پر قائم رکھے ، شرک و بدعت سے بچائے اور بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو سیدھے راستے کی ہدایت فرمائے۔