• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسراء و معراج کی شب میں جشن منانے کی شرعی حیثیت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسراء و معراج کی شب میں جشن منانے کی شرعی حیثیت
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ و علی آلہ وصحبہ ............أما بعد ۔
اسراء او رمعراج کی شب اللہ عزوجل کے ہاں عظیم نشانیوں میں سے ہے جو نبی کریم ﷺ کی صداقت اور اللہ کے آپ کے عظیم مقام و مرتبہ پر دلالت کرتی ہے، نیز اس سے اللہ عزوجل کی حیرت کن قدرت اور اس کے اپنی تمام مخلوقات پر عالی و بلند ہونے کاثبوت ملتا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا : سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِيَہٗ مِنْ اٰيٰتِنَا۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۝۱
'' پاک ہے وہ ذات۔ اللہ تعالی ۔ جو اپنے بندے کو رات ہی میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے''۔
رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ ﷺ کو آسمان پر لے جایا گیا ، آپ ﷺ کی خاطر آسمانوں کے دروازے کھولے گئے یہاں تک کہ ساتویں آسمان سے آگے گزر گئے ، وہاں پر آپ کے رب نے اپنے ارادہ کے مطابق آپ سے گفتگو فرمائی اور پانچ وقت کی نمازیں فرض کیں تھیں، پھر ہمارے نبی محمد ﷺ بار بار اللہ کے پاس جاتے اور تخفیف کاسوال کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے اسے باعتبار فرضیت پانچ وقت کی کردیا اور اجروثواب پچاس نمازوں ہی کاباقی رکھا، کیونکہ ہر نیکی دس گنابڑھائی جاتی ہے لہذا اللہ تعالی ہی تمام ترنعمتوں پر حمدو شکر کاسزاوار ہے۔
یہ رات جس میں اسراء و معراج کاواقعہ پیش آیا اس کی تعیین کے بارے میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے، بلکہ اس کی تعیین میں جو روایتیں بھی آئی ہیں محدثین کے نزدیک نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہیں ، اور اس شب کو لوگوں کے ذہنوں سے بھلادینے میں اللہ تعالی کی کوئی بڑی حکمت ضرور پوشیدہ ہے ، اور اگر اس کی تعیین ثابت بھی ہوجائے تومسلمانوں کے لئے اس میں کسی طرح کاجشن منانا اسے کسی عبادت کے لئے خاص کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام نے نہ تو اس میں کسی طرح کاکوئی جشن منایا اور نہ ہی اسی کسی عبادت کے لئے خاص کیا، اور اگر اس شب میں جشن منانا اور اجتماع کرناشرعاً ثابت ہوتا تونبی ﷺ اپنے قول یافعل سے اسے امت کے لئے ضرور واضح کرتے ، اور اگر عہد نبوی یاعہد صحابہ میں ایسی کوئی چیز ہوتی تووہ بلاشبہ معروف و مشہور ہوتی اور صحابہ کرام اسے نقل کرکے ہم تک ضرور پہنچاتے کیونکہ انہوں نے نبی ﷺ سے نقل کراکے امت کو ہر وہ بات پہنچائی جس کی امت کو ضرورت تھی ، اور دین کے کسی بھی معاملہ میں کوئی کوتاہی نہ کی بلکہ وہ نیکی کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے ۔ چنانچہ اگر اس شب جشن منانے اور محفل معراج منعقد کرنے کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی تووہ سب سے پہلے اس پر عمل کرتے۔
نبی ﷺ امت کے سب سے زیادہ خیرخواہ تھے،آپ ﷺ نے پیغام الہی کو پورے طور پر پہنچا کرامانت کی ادائیگی فرما دی، لہذا اگر ا س شب کی تعظیم اور س میں جشن منانا دین اسلام سے ہوتا توآپ ﷺ قطعاً اسے نہ چھوڑتے اور نہ ہی اسے چھپاتے ، لیکن جب عہد نبوی اور عہد صحابہ میں یہ سب کچھ نہیں ہوا تو یہ بات واضح ہوگئی کہ شب معراج کی تعظیم اور س کے اجتماع کادین اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اللہ تبارک و تعالی نے اس امت کے لئے اپنے دین کی تکمیل فرمادی ہے، اور ان پر اپنی نعمت کااتمام کردیاہے، اور ہر اس شخص پر عیب لگایا ہے جومرضی الہی کے خلاف بدعات ایجاد کرے، اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی کتاب مبین قرآن کریم میں سورۃ المائدہ کے اندر فرمایا :
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۔
'' آج میں نے تمہارے لئے دین کومکمل کردیا، اور تم پر اپنا انعام پورا کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پررضامند ہوگیا''۔
واللہ عزوجل نے سورۃ الشوری میں فرمایا :
اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۝۰ۭ وَلَوْلَا كَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَہُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۲۱
''کیا ان لوگوں نے اسے اللہ کے شریک مقرر کررکھے ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ تعالی کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں ، اگر فیصلہ کردیاجاتا ، یقیناً ان ظالموں کے لئے یہی درد ناک عذاب ہے ''۔(الشوریٰ:۲۱)
رسول اللہ ﷺ سے صحیح احادیث میں بدعات سے بچنے کی تاکید اورا س کے گمرای ہونے کی صراحت ثابت ہے ، تاکہ امت کے افراد ان کے بھیانک خطرات سے آگاہ ہوکر ان کے ارتکاب سے پرہیز و اجتناب کریں۔
چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیاکام نکالا جو دراصل اس میں سے نہیں ہے وہ ناقابل قبول ہے''۔
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : '' جس نے کوئی ایسا عمل کیاجو ہمارے اسلام میں نہیں تووہ ناقابل قبول ہے''۔
اور صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے:'' حمدو صلاۃ کے بعد : بیشک بہترین بات اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد ﷺ کاطریقہ ہے، اور بدترین کام نئی ایجاد کردہ بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
اور سنن میں حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں انتہائی جامع نصیحت فرمائی جس سے دلوں میں لرزہ طاری ہوگیا اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں، توہم نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ الوداعی پیغام معلوم ہوتا ہے لہذا آپ ہمیں وصیت فرمائیے آپ ﷺ نے فرمایا : '' میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے ، حاکم وقت کی بات سننے اور ماننے کی وصیت کرتاہوں اگرچہ تم پر حبشی غلام ہی حاکم بن جائے، اورمیرے بعد جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھےگا ، اس وقت تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اسے دانتوں سے مضبوط پکڑلو اور دین میں نئی نئی باتوں سے بچو۔ کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے''۔
رسول اکرم ﷺ کے صحابہ اور سلف صالحین بھی بدعتوں سے ڈرانے اوران سے بچنے کی تاکید کرتے رہے کیونکہ بدعات دین میں زیادتی اور مرضی الہی کے خلاف شریعت شریعت سازی ہیں بلکہ یہ اللہ کے دشمن یہود و نصاری کی مشابہت ہے، جس طرح انہوں نے اپنے اپنے دین یہودیت اور عیسائیت میں نئی چیزیں ایجاد کرلیں نیز بدعات ایجاد کرنے کالازمی نتیجہ دین اسلام کونقص اور عدم کمال سے مہتم کرنا ہے۔
اور یہ تو واضح ہی ہے کہ بدعات کے ایجاد کرنے میں بہت بڑی خرابی اور شریعت کی انتہائی خلاف ورزی ہے، نیز اللہ عزوجل کے اس فرمان اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ '' آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے'' سے ٹکراؤ اور بدعات سے ڈرانے اور نفرت دلانے والی احادیث رسول کی صریح مخالفت بھی ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس مسئلہ میں ہماری طرف سے پیش کردہ دلیلیں حق کے طلبگار کے لئے بدعت شب معراج کے انکار اور اس سے ڈرانے کے لئے کافی اور تسلی بخش ہوں گی ، اور ان سے یہ بھی واضح ہوگیا ہوگاکہ شب معراج کے جشن اور اجتماع کااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
چونکہ اللہ نے مسلمان بھائیوں کے ساتھ خیرخواہی اور ان تک شریعت کی تبلیغ و اشاعت کو واجب اور علم کے چھپانے کو حرام قرار دیا ہے ، تومیں نے مناسب سمجھا کہ مسلمان بھائیوں کو اس بدعت سے باخبر کردوں جو بیشتر ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اسے دین کا ایک حصہ سمجھ لیا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے احوال کی اصلاح فرمادے انہیں دین کی سمجھ عطا فرما دے اور ہمیں اور ان کو حق پر کاربند اور ثابت قدم رہنے اور خلاف حق امور سے گریز کرنے کی توفیق عطافرمائے، وہ اللہ اس کاکارساز اور اس پر قابو ہے۔
اور اللہ اپنے بندے اور رسول ہمارے نبی محمد ﷺ پر اور آپ کے اہل و عیال اور ساتھیوں پررحمت و سلامتی اور برکت نازل فرمائے۔
کتاب : توحید کا قلعہ
تالیف : عبدالملک القاسم
دارالقاسم للنشر والتوبیح
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ﺷﺐ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﻣﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ

27ﺭﺟﺐ ﮐﯽ ﺷﺐ، ﺷﺐ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ،ﺍﺱﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﺹ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﭘﺮ ﺧﺎﺹ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﻧﻔﻞ ﻧﻤﺎﺯﯾﮟ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﮐﻮ ” ﺻﻠﻮٰﺓ ﺍﻟﺮﻏﺎﺋﺐ“ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ،ﺍﺱ ﺷﺐ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﺱ ﺷﺐ ﮐﻮ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﭘﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ،ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﯽ ﺗﺎ ﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮨﮯ،ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻌﯿﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧﺳﺘﺎﺋﯿﺲ ﺭﺟﺐ ﮐﯽ ﺷﺐ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ،ﺑﺎﻟﻔﺮﺽ ﻭﺍﻟﻤﺤﺎﻝ ﺍﮔﺮﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﺤﺪﺛﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻓﻘﮩﺎﺀ ﻧﮯ ﺍﺱﮐﯽ ﺑﮭﺮ ﭘﻮﺭ ﺗﺮﺩﯾﺪ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﮯ۔
ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﯽ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻮﻭﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ: 27ﺭﺟﺐ ﺍﻭﺭ ﺷﻌﺒﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﻨﺪﺭﮨﻮﯾﮟ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻧﻤﺎﺯﯾﮟ ﺳﻨﺖ ﻧﮩﯿﮟ، ﺑﻠﮑﮧ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﻋﺖ ﮨﯿﮟ۔
یاد رہے” ﺍﺱ ﺷﺐ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﻧﻮﺍﻓﻞ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﮩﯿﮟ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ،ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺣﻀﻮﺭ اکرمﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ، ﻧﮧ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﻢ ﻧﮯ،ﻧﮧ ﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﻋﻈﺎﻡ ﺭﺣﮩﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ۔ مشہور حنفی فقیہ علامہﺍﺑﻦﮨﻤﺎﻡ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ
کے شاگردﻋﻼﻣﮧ ﺣﻠﺒﯽ ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﻏﻨﯿﺘﮧ ﺍﻟﻤﺴﺘﻤﻠﯽ، ﺹ 411: ﻣﯿﮟ، ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺑﻦ ﻧﺠﯿﻢ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻟﺠﺮ ﺍﻟﺮ ﺍﺋﻖ ﺷﺮﺡ ﮐﻨﺰ ﺍﻟﺪ ﻗﺎﺋﻖ ،ﺝ 2: ، ﺹ :56، ﻣﯿﮟ، ﻋﻼ ﻣﮧ ﻃﺤﻄﺎ ﻭﯼ ﻧﮯ ﻣﺮﺍﻗﯽ ﺍﻟﻔﻼﺡ ،ﺹ 22: ﻣﯿﮟ،ﺍﺱ ﺭﻭﺍﺝ ﭘﺮ ﻧﮑﯿﺮ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺟﻮ ﻓﻀﺎﺋﻞ ﻧﻘﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺭﺩﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔( ﻓﺘﺎﻭﯼٰﻣﺤﻤﻮﺩﯾﮧ: 3/284 ،ﺍﺩﺍﺭﮦ ﺍﻟﻔﺎﺭﻭﻕ ﮐﺮﺍﭼﯽ)
27 ﺭﺟﺐ ﮐﺎ ﺭﻭﺯﮦ ﻋﻮﺍﻡ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﺘﺎﺋﯿﺲ ﺭﺟﺐ ﮐﮯ ﺭﻭﺯﮮ ﮐﻮ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﻭﺍﻻﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ ﺍﻭﺭﻭﮦ ﺭﺟﺐ ﮐﯽ ﺳﺘﺎ ﺋﯿﺴﻮﯾﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺭﻭﺯﮦﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺛﻮﺍﺏ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺳﯽﻭﺍﺳﻄﮯ ﺍﺱ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﻮ ” ﮨﺰﺍﺭﯼ ﺭﻭﺯﮦ “ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ،ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﻓﻀﯿﻠﺖﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﺟﻮ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺿﻌﯿﻒ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯﺍﺱ ﺩﻥ ﮐﮯ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺛﻮﺍﺏ ﮐﺎﺑﺎﻋﺚ ﯾﺎ ﺍﺱ ﺩﻥ ﮐﮯ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺳﻨﺖ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﻘﺎ ﺩﻧﮧ ﺭﮐﮭﺎﺟﺎﺋﮯ۔ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻧﮯﺍﭘﻨﯽ ﺗﺼﺎﻧﯿﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺗﺮﺩﯾﺪ ﮐﯽ ﮨﮯ ،ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮﻋﺴﻘﻼﻧﯽ ﻧﮯ ”ﺗﺒﯿﯿﻦ ﺍﻟﻌﺠﺐ ﺑﻤﺎ ﻭﺭﺩ ﻓﻲ ﻓﻀﻞ ﺭﺟﺐ “ ﮐﮯ ﻧﺎﻡﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﺮ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮐﺘﺎﺏ ﻟﮑﮭﯽ ﮨﮯ،ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﺟﺐ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺿﻌﯿﻒ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺿﻮﻉﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺤﺪﺛﺎﻧﮧ ﮐﻼﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﺎﻃﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔
ـــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
شب معراج کی عدم تعیین، مبنی بر حکمت



* * * محمد منیر قمر ۔ الخبر* * *

ماہ رجب کی27تاریخ کو بعض لوگ ’’شب ِ معراج ‘‘ ہونے کے زعم میں جشن مناتے ہیں ،رات کو چراغاں کرتے ہیں اور خود ساختہ نمازیں پڑھتے ہیں ۔ان امور کی شرعی حیثیت متعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ’’شب ِ معراج ‘‘کاتعین ہو۔
جب محدثین و مؤرخین کی تالیف کردہ کتب کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 27 ویں شب کے ’’شب ِ معراج ‘‘ قرار پانے سے پہلے خود ماہ ِ رجب کے ماہ ِ معراج ہونے پربھی علمائے تاریخ کا اتفاق نہیں ۔معروف مفسر ومؤرخ امام ابن کثیر ؒ نے اپنی ضخیم کتاب ’’البدایہ و النہایہ‘‘ کے تیسرے جزمیں اسراء و معراج کا واقعہ نقل کرنے سے پہلے متعدد روایات بیان فرمائی ہیں۔وہاں انہوں نے امام بیہقی ؒ کے حوالہ سے امام ابو شہاب زہری ؒ کا قول نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
’’نبی ﷺ کو ہجرت ِ مدینہ سے ایک سال پہلے سفرِ معراج کرایا گیا۔ ‘‘

یہی قول مشہور تابعی جناب عروہ ؒ کا ہے۔ امام حاکم کے حوالے سے انہوں نے حضرت سدی کا قول بھی ذکر کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
’’نبی ﷺ کو ہجرت سے16 ماہ قبل معراج کرایا گیا۔‘‘
لہٰذا امام زہریؒ و عروہ ؒ کے قول کے مطابق ماہ ِ معراج ربیع الاول بنتا ہے جبکہ وہ بھی ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن عساکر ؒ نے اسراء و معراج کی احادیث کا ذکر ہی اوائلِ بعثت کے واقعات میں کیا ہے اور حضرت سدی ؒ کے قول کے مطابق معراج کا واقعہ ماہ ِ ذی القعدہ میں بنتا ہے ( البدایہ والنہایہ) ۔
ماہ ِ ربیع الاول کے ماہ ِ معراج ہونے سے متعلق امام زہریؒ وعروہؒ کے قول کی تائید حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ایک اثر سے بھی ہوتی تھی لیکن اسکی سند میں امام ابن کثیر ؒ کے نزدیک انقطاع ہے ۔یہ اثر مصنف ابن ابی شیبہ میں مذکور ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
’’نبی ﷺ عام الفیل ماہ ِ ربیع الاول کی12تاریخ کو پیر کے دن پیدا ہوئے ،اُسی دن آپ ﷺ کی بعثت ہوئی ،اُسی دن آپ ﷺ کو آسمان کی طرف معراج کرایا گیا ،اُسی دن آپ ﷺ نے ہجرت کی اور اُسی دن آپ ﷺ نے وفات پائی۔ ‘‘ ( البدایہ و النہایہ )۔
یہاں بھی معراج کے ماہ ِ ربیع الاول میں کرائے جانے کا ذکر ہے مگر یہ روایت چونکہ منقطع سند والی ہے لہٰذا اس سے استدلال درست نہیں۔ اسی طرح ماہ ِ ربیع الثانی، ماہ ِ رجب ،ماہ ِ شوال اور ماہ ِ ذو الحجہ میں معراج کرائے جانے کی روایات بھی ملتی ہیں۔ ماہ ِ رجب کی بھی اورجب ماہ ِ معراج پر ہی اتفاق نہیں تو تاریخِ معراج کی تعیین متفق علیہ کیسے ہوسکتی ہے ؟ مختصر یہ کہ اسی طرح ہی تاریخِ معراج میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ بات بھی حکمت ِ الٰہی سے خالی نہیں کہ ماہ وتاریخِ معراج پر اتفاق نہ ہوسکا تاکہ طرح طرح کی بدعات کو وجود میں لانے والوں کو یہ بنیادی چیزہی متفق علیہ نہ ملے ورنہ اللہ تعالیٰ سے کیا بعید تھا کہ تمام مؤرخین کا اتفاق ہوجاتا ۔
مشہور روایت کے مطابق اگر ماہِ رجب اور اس کی بھی 27 تاریخ کوہی ’’شب معراج ‘‘ مان لیا جائے تو اس رات میں چراغاں کا اہتمام کرنے ، جشن منانے ، خوشیاں منانے کے رنگا رنگ انداز اختیار کرنے ،دن کو روزہ رکھنے اور رات کو نوافل پڑھنے کی شرعی حیثیت کا تعین کیا جائے ۔اس سلسلہ میں سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ نبی ﷺ ، خلفائے راشدینؓ و صحابہ کرام ؓ،ائمہ اربعہؒ اور علمائے دین و سلف صالحین کسی سے بھی یہ مروجہ امور ثابت نہیں جنہیں جشن معراج کے نام سے کیا جاتا ہے۔ امام الانبیاء ﷺ اس عظیم معجزہ کے بعد ایک طویل مدت تک صحابہ کرام ؓ کے ما بین موجود رہے مگر آپ ﷺ نے نہ تو خود یہ کام کئے اور نہ ہی کسی کو ان کے کرنے کا حکم فرمایا۔ آپ ﷺ کے اشارۂ ا برو پر جانیں نچھاور کرنے والے صحابہ کرامؓ، تابعین ا ور ائمہ میں سے کسی سے بھی ان امور کا پتہ نہیں چلتا۔

محمد منیر قمر الخبر
 
Top