• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام، مسئلہ غلامی اور ملحدین

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
https://www.facebook.com/QariHanif/posts/10152823744776155

مسئلہ غلامی اور اسلام !

ابتدا میں ھی اگر ھم چند باتیں ذھن میں رکھ لیں تو آگے کی بات سمجھنا آسان ھو جائے گا !

1 - اسلام سے سلیبس کے اندر کا سوال کیا جائے آؤٹ آف سلیبس سوال بد دیانتی ھو گی !
2- اسلام غلامی کا موجد یا فاؤنڈر نہیں ھے ! البتہ اس کا پالا صدیوں سے قائم غلامی کے ادارے سے پڑا جو اس قدر قوی تھا کہ پوری دنیا کی معیشت اس نظام پر چلتی تھی،قوموں کی قومیں غلام بنائی جا رھی تھیں جو دوسری قومیں کی معیشت کی ریڑھ کر ھڈی بنی ھوئی تھی !
3- جس طرح تیل کے لئے کچھ معروف ممالک اور علاقے ھیں ، اسی طرح غلامی کے لیئے بھی مخصوص علاقے اور ممالک تھے،جہاں سے ھرنوں کی طرح انسانوں کا شکار کر کے انہیں غلام بنایا جاتا تھا ! اور یہ کام قبل مسیح سے جاری و ساری تھا،، امریکہ اور یورپی ممالک کی بنیادوں میں غلاموں اور لونڈیوں کا خون اور عصمتیں دفن ھیں !
4 - اسلام جب آیا تو غلام اسی طرح ایک بین الاقوامی کرنسی تھے،جس طرح ڈالر اور یورو ھیں !

اصل سوال یہ بنتا ھے کہ اسلام نے اس عفریت کا سامنا کس طرح کیا ؟
اسلامی اقدامات کے نتیجے میں غلامی کا ادارہ زوال پذیر ھو کر ختم ھو گیا یا اسلامی اقدامات نے اس بزنس کو طاقتور بنایا ؟؟؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

اسلام اگر آتے ھی تمام غلاموں اورلونڈیوں کو آزاد کر دیتا خاص کر اس دور میں جب کہ عرب دنیا میں روزی روٹی کے ذرائع نہایت قلیل تھے، اور قبائل دوسرے قبیلوں کو تاراج کر کے اپنی معیشت چلاتے تھے، ھر آنے جانے والے کو پکڑ کر غلام بنا لیا جاتا ،، دو آدمی دوست بن کر چلتے اور راستے میں قوی کمزور کو مغلوب کر کے اسے باندھ کر اگلی بستی میں غلام کی حیثیت سے بیچ جاتا،، ان حالات میں ان غلاموں کو بیک قلم آزاد کر کے قبائل کو کرائے کے ھزاروں قاتل فراھم کرنا اور علاقے میں انارکی پھیلانا ھوتا ! نیز لونڈیوں کے پاس روٹی کے لئے پیشہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ھوتا،، کیونکہ ان غلاموں اور لونڈیوں کی اخلاقی اور دینی تربیت تو ھوئی نہیں تھی لہذا ان کا فوراً ان قباحتوں میں مبتلا ھو جانا یقینی تھا، اب بھی جب حکومتیں بہت سارے لوگوں کو کام سے نکال دیتی ھیں تو اسٹریٹ کرائمز میں فوری اضافہ دیکھنے کو ملتا ھے،، جن بستیوں کے قریب آ کر جھگیوں والے آکر جھگیاں لگاتے ھیں،،وھاں کی اردگرد کی بستیوں کے لونڈے اور اوباش ان جھگیوں کے گرد ھی منڈلاتے رھتے ھیں اور اخلاقی گراوٹ کا نظارہ کھلم کھلا نظر آتا ھے ! کیریاں اور رکشے رات بھر بکنگ پر آتے جاتے دیکھے جا سکتے ھیں !
اسلامی حکمت !
اسلام سے پہلے غلام بنانے کے بہت سارے راستے تھے، جبکہ رھائی کا صرف ایک رستہ تھا اور وہ بھی سوئی کے ناکے کی طرح تھا یعنی یہ کہ مالک راضی ھو کر آزاد کر دے،اور چونکہ انسان میں لالچ کا مادہ رکھا گیا ھے لہذا سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو کون چھوڑتا ھے !

اسلام نے سب سے پہلے Inlets کو محدود کر کے ایک کر دیا ! جبکہ Outlets کو کھول دیا اور اس کے مختلف طریقے مشروع کر دیئے،مثلاً قتلِ خطا کی صورت میں غلام کو آزاد کرنا ! جھوٹی قسم کے کفارے میں غلام آزاد کرنا، بیوی کو ماں کہہ دینے پر غلام آزاد کرنا،، روزے کی حالت میں ھمبستری پر غلام آزاد کرنا، اگر غلام چاھے تو اپنے آقا سے رقم اور وقت طے کر کے مکاتبت کر لے اور آزاد ھو جائے اس صورت میں مالک کو کہا گیا کہ وہ اپنی زکوۃ بھی غلام کو دے سکتا ھے،، اور مسلمانوں کو بھی ترغیب دی گئ کہ وہ اس کی مدد کریں !

اس کے علاوہ مخیر اور نیک لوگوں کو اللہ پاک نے ترغیب دی کہ وہ جانیں آزاد کرا کر اپنی گردن عذاب سے بچا سکتے ھیں !
نیز دنیا میں تو غلام کی اولاد بھی غلام در غلام ھوتی تھی یوں غلام اصل میں غلام پروڈیوس کرنے کی فیکٹریاں تھے، جن کی موجودگی میں غلامی کا ختم ھونا ناممکن بات تھی، امریکہ میں بھی اسے 1865 میں غیر قانونی قرار دیا گیا ھے !

مگر اسلام نے غلام کی اولاد کو ایک مکمل آزاد انسان کا رتبہ دیا ! نیز لونڈی جب کسی کو دی جاتی تھی تو وہ اس آدمی کی نصف بیوی ھوتی تھی، یعنی چونکہ وہ اس رشتے سے انکار نہیں کر سکتی تھی ،، اس وجہ سے اسے لونڈی قرار دیا گیا،ورنہ اس کی اولاد ھو جانے کے بعد وہ آقا کی ام ولد یعنی بچے کی ماں بن جاتی تھی اور اس کا بچہ اپنے باپ کا نسب اور قبیلے کا نام پاتا تھااور اس کا شرعی وارث ھوتا تھا !،اولاد کے بعد ماں بیٹے کو جدا نہیں کیا جا سکتا تھا اور ام ولد کی فروخت منع تھی، یوں غلاموں کے یہاں آزاد پیدا ھوتے گئے اور غلام ختم ھوتے چلے گئے !

ایک لونڈی جب کسی کو دی جاتی تو صرف وھی اس کا جنسی پارٹنر ھو سکتا تھا،، جبکہ کافروں کے یہاں وہ وراثت میں تقسیم ھو کر سب کی جنسی بھوک مٹاتی تھی ! اور وہ اس سے پیسہ کمانے کے لئے پیشہ بھی کراتے تھے،جسے اللہ نے ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء،، کے حکم سے منع کر دیا !

جب آقا اپنی لونڈی کو کسی غلام سے بیاہ دیتا تھا تو پھر وہ اس کے لئے مطلقاً حرام ھو جاتی تھی اور صرف اسی غلام کی بیوی کی حیثیت سے رھتی تھی اور ان کی اولاد آزاد ھوتی تھی !

جو لوگ غلامی کا یورپی تصور اور مثال دیکھتے ھیں اور اسے گوگل سرچ سے لے کر دیکھتے ھیں وہ اسلام کے تصورِ غلامی کو سمجھ ھی نہیں سکتے !
سوال یہ ھے کہ اسلام نے چائنا سے لےکر سارے افریقہ پر اور ھندوستان سے لے کر پورے اسپین اور نصف فرانس تک صدیوں حکومت کی ھے، اس لحاظ سے دنیا کی منڈیاں غلاموں سے بھری ھوئی ھونی چاھئیں تھیِ ! کیا وجہ ھے کہ دنیا میں یورپین اور امریکی اور اسکینڈے نیوین ملکوں کے غلاموں کی داستانیں تو ملتی ھیں،، مسلمانوں کے بنائے ھوئے غلاموں کا کوئی سراغ نظر نہیں آتا !

اسلامی حکمتِ عملی !
اسلامی حکومت سب سے پہلے ان ھی لوگوں کو اپنی کسٹڈی میں لیتی ھے جو اسے میدانِ جنگ میں ملتے ھیں،، وہ بستیوں اور گھروں کی تلاشی لے کر غلام نہیں بناتی !
ان قیدیوں کا تبادلہ پہلی ترجیح ھوتی ھے ! تبادلے مکمل ھونے کے بعد تاوان دے کر قیدی چھڑانے کی باری آتی ھے اور پھر احسان کرتے ھوئے اللہ کی خاطر چھوڑنے کی باری آتی ھے،،

اب اگر مسلمانوں کو تو پابند کر دیا جائے کہ تم قیدی نہیں رکھ سکتے ! تو ظاھر ھے دشمن کو تو آسانی ھو گی کہ انہوں نے تو ھمارے قیدی چھوڑنے ھی چھوڑنے ھیں،، البتہ ھم آزاد ھیں اور پیسے لے کر ان کے قیدی چھوڑیں گے یا چھوڑیں گے ھی نہیں اور ان کو غلام بنائیں گے جیسا کہ اس وقت دنیا کا رجحان تھا،،لہذا اللہ نے غلامی کو بیک قلم حرام نہ کر کے مسلمانوں کے ھاتھ باندھنے اور اسلام دشمنوں کے ھاتھ مضبوط کرنے سے اجتناب کیا ھے !

البتہ اب یہ بات طے ھے کہ ساری دنیا سے غلامی کا رجحان ختم ھو جانے کے بعد صرف قیدیوں کا ھی کانسیپٹ باقی ھے،،غلامی کا ادارہ بین الاقومی ضمیر کے مطابق ختم ھو کر رہ گیا ھے ! اسلام نے نہ پہلے اسے ایجاد کیا تھا اور نہ اب اس کو reborn کرنا چاھتا ھے !

لونڈی کے بعض پہلوؤں سے ھمیں ایک اور سبق بھی ملتا ھے کہ شادی شدہ لونڈی کو آزاد ھوتے ھی جو سب سے پہلا تحفہ ملتا ھے وہ اس کا اختیارِ نکاح ھے ! وہ سب سے پہلا فیصلہ یہ کرتی ھے کہ اب وہ اس نکاح کو جاری رکھنا چاھتی ھے یا نہیں ! یہ حق اسے اسلام نے دیا اور حضرتِ بریرہؓ نے اسے نبیﷺ کے دربار میں استعمال کر کے دکھا دیا ،جب انہوں نے حضرت مغیث اپنا نکاح فسخ کردیا اور اس سلسلے میں یہ اسلام کی دی گئ بے مثل آزادی ھے کہ جس کی مثال دنیا کا کوئی مذھب پیش نہیں کر سکتا کہ۔۔ اللہ کا رسولﷺ اپنی بیوی کی آزاد کردہ لونڈی کو بھی اپنے صحابی سے نکاح برقرار رکھنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ جب آپ نے اس سے کہا کہ بریرہ تجھے اس شخص پر ترس نہیں آتا؟ تو اپنا نکاح جاری کیں نہیں رکھتی ؟ تو بریرہؓ نے پلٹ کر فرمایا کہ اللہ کے رسولﷺ کیا یہ آپ کا حکم ھے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ تیرے حق کو اپنے حکم سے ختم نہیں کرتا،، یہ تو صرف میری سفارش ھے! اس پر حضرت بریرہؓ نے فرمایا پھر مجھے اس سفارش یا مشورے کی حاجت نہیں !

یہ تو ایک لونڈی کا آزاد ھوتے ھی پہلا حق تھا کہ نکاح اپنی مرضی سے کرے اس کے سارے اختیارات اور آپشنز آزاد ھو گئے تھے،، ھم لوگ جو اپنی بیٹی کی پسند اور ناپسند پوچھنا اپنی چودھراھٹ کی توھین سمجھتے ھیں اور بیٹی کا اپنی پسند بتانا ایک گستاخی سمجھتے ھیں،، کیا ھم نے آزاد پیدا ھونے والی کو ایک آزاد کردہ لونڈی کا حق دینا بھی پسند نہیں کیا ! ھمارا سارا زور استخارے اور پھر استخارے اور پھر استخارے پر ھوتا ھے،، دوسروں کی زندگی کے فیصلے دوسروں سے مشورہ کر کے ھوتے ھیں،، ذاتی معاملات پر استخارہ فرما لیجئے،،ویسے بھی آج کل ایک مثال بن گئ ھے کہ" جب عرب کہے کہ ان شاء اللہ تو اس کا مطلب ھوتا ھے کہ اللہ پکڑ کر ھی کرائے تو کرائے ویسے میں نے نہیں کرنا،، اور جب جماعت والے کہیں کہ مشورے میں رکھیں گے تو سمجھ لیں یہ کام نہیں ھونا اور جب لڑکی دیکھنے والی کہے کہ استخارہ کریں گے تو بے شک سمجھ لیں کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا !
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
انسانوں کو غلام بنانا اور غلاموں کی تجارت​
یہ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر بات کرتے ہوئے ہم مسلمان بالعموم ”مدافعانہ“ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں جا بجا غلام اور لونڈی کا تذکرہ ملتا ہے اور یہ کہیں نہیں ملتا کہ اسلام اب غلام اور لونڈی کو ”اون“ نہیں کرتا یا اب مسلمان لونڈی اور غلام نہیں رکھ سکتے جیسا کہ جدید تہذیب نے غلام اور لونڈی کو ”ڈس اون“ کرتے ہوئے اس کا ”خاتمہ“ کردیا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ ”غلط فہمی“ دور ہوجانی چاہئے کہ آج کے نام نہاد جدید تہذیب یافتہ دنیا میں غلام اور لونڈی کا خاتمہ کردیا گیا ہے اور اب دنیا میں کہیں بھی اس جنس کی تجارت نہیں ہوتی۔ مسلم دنیا سمیت پوری دنیا میں آج بھی مرد و زن کو اغوا کرکے، انہیں بہلا پھسلا کر، انہیں اپنے مالی شکنجہ میں کس کر ”غلام اور لونڈی“ بنایا جاتا ہے، انہیں آگے فروخت کیا جاتا ہے، ان سے عصمت فروشی کرائی جاتی ہے اور عصمت فروشی کے یہ کاروبار ساری دنیا میں ”لیگل“ حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے منتظمین اپنی اپنی ریاستوں کو ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اس کے بدلہ میں ریاستی سیکیوریٹی فورسز سے اپنا اور اپنے کاروبار کو تحفظ حاصل کرتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی سر پھرا صحافی لڑکیوں اور عورتوں کے ان تاجروں کے کاروبار کی اپ ڈیٹس میڈیا میں چلا دیتا ہے بعد ازاں یہی میڈیا مالکان، حکومتی ادارے ایسی خبروں کو ”کِل“ کروادیتے ہیں اور پھر راوی چین ہی چین لکھنے لگتا ہے۔ اور ہم جیسے نادان یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا سے غلامی اور لونڈیوں کا ”خاتمہ“ ہوگیا ہے۔ لہٰذا ہمارا بھی یہ ”فرض“ بنتا ہے کہ ہم اسلام سے اس جنس کے ”خاتمے“ کا اعلان کردیں کہ پہلے بھی اسلام نے اس کا آغاز نہیں بلکہ اس کو ”کٹ ڈاؤن“ کیا تھا۔ اور اب تو اسلامی تعلیمات میں اس کے ”جاری“ رہنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہمارا دین دنیا کی تہذیب سے بھی زیادہ مہذب ہے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے کبھی بھی غلام اور لونڈیوں کے ”خاتمہ“ کا اعلان نہیں کیا۔ اور قرآن و حدیث میں لونڈی اور غلام سے متعلق تمام احکامات آج بھی اسی طرح ”نافذ العمل“ ہیں، جیسے اسلام کے ابتدائی صدیوں میں نافذ تھے ۔ اگر کسی کو اس بات سے ”اختلاف“ ہو تو قرآن یا صحیح احادیث سے (علماء کے اقوال سے نہیں) یہ بتلادے کہ قرآن و احادیث میں موجود لونڈی اور غلام سے متعلق جملہ اسلامی احکامات ”نافذالعمل“ نہیں رہے یا بتدریج ختم کردئے گئے ہیں جیسا کہ شراب کے معاملہ میں ہوا کہ پہلے اسے بُرا قرار دیا گیا، پھر صرف دوران نماز پینے پر پابندی لگائی گئی اور آخر میں کلیتاً شراب پینے کو حرام قرار دیا گیا۔

اسلام جس چیز سے روکتا اور منع کرتا ہے وہ ایک آزاد انسان کو پکڑ کر غلام بنانا اور اسے آگے فروخت کرنا ہے۔ یہ طرز عمل روز اول سے مسلمانوں کے لئے ”جائز“ نہیں رہا اور آج بھی نہیں ہے۔ لیکن اسلام کا یہ حکم غیر مسلموں کو نہ تو پہلے ایسا کرنے سے روکتا تھا اور نہ آج روکتا ہے۔ بلکہ اسلامی تعلیمات سے دوری کے نتیجہ میں انسانوں کی اسمگلنگ اور خرید و فروخت میں تو آج (نام نہاد سہی) کے مسلمان بھی غیر مسلم سے پیچھے نہیں ہیں۔ جبھی تو ”مال“ کی سپلائی میں کمی کے سبب کبھی بھی مسلم دنیا (بشمول پاکستان اور بہ استثنیٰ سعودی عرب) کے بازار حسن کا کاروبار کبھی ماند نہیں پڑا۔

آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں مرد و زن پکڑ کر ”غلام اور لونڈی“ بنائے جاتے ہیں۔ بس ان کے نام بدل دئے گئے ہیں۔ ان غلام مرد و زن سے جبری مزدوری بھی کرائی جاتی ہے اور عصمت فروشی بھی۔ اور بالعموم مسلمان یہ دونوں کام کرتے ہیں۔ اسلام ایک ”دین فطرت“ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس دنیا میں شیطان اور اس کے چیلے تا قیامت آزاد مرد و زن کو غلام بنا کر ان سے ”غیر انسانی“ کام کرواتے رہیں گے۔ غلام اور لونڈی تا قیامت دنیا میں موجود رہیں گے اور ان کے آقا ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتے رہیں گے۔

چنانچہ اسلام نے ”لونڈی اور غلام“ کے لئے تا قیامت ایک ایسا ”نظام“ پیش کیا ہے جس میں لونڈی اور غلام بنائے جانے والے بھی اپنی زندگی ”معیار انسانی“ سے گرے بغیر گزار سکیں۔ بازار حسن کی ایک لونڈی آج بھی ایک مسلم آقا کے حرم میں بخوشی رہنا پسند کرے گی، اگر اسے یہ ”آپشن“ دیا جائے، خواہ وہ مسلمہ ہو یا غیر مسلمہ ۔ اسی طرح ”بیگار کیمپوں“ میں قید مرد غلام بھی ایک مسلم آقا کے گھر میں غلام بن کر رہنا پسند کرے گا۔ کیونکہ اسے معلوم ہوگا کہ اسلام میں غلام کے جو حقوق موجود ہیں وہ کسی بیگار کیمپ یا بازار حسن میں پھنسے مرد و زن کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتے۔

اسی طرح اگر آج کوئی مسلمان بیگار کیمپ یا بازار حسن سے لونڈی اور غلاموں کو خرید کر اپنے گھر یا حرم میں لے آتا ہے تو وہ اسلام کے کسی حکم کی خلاف ورزی کئے بغیر ان مظلوموں پر احسان عظیم کرتا ہے۔ لیکن اسلام کے ”نام نہاد ٹھیکیداروں“ کا کیا کیجئے کہ وہ غیر مسلم تہذیب سے اتنے ”مرعوب اور متاثر“ ہیں کہ لونڈی اور غلامی کے ”اسلامی احکامات“ ہی کو ”اپنے خود ساختہ اختیارات“ سے ”کالعدم“ قرار دیتے ہوئے ذرا بھی نہیں جھجکتے۔

واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
”ہیومین ٹریفیکنگ“ انسانی غلامی ہی کی ایک جدیدشکل ہے جو یوں تو نارمل حالات میں بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ لیکن جب کبھی کسی معاشرہ کا معمول کا نظام کسی ”بڑے وقوعے“ سے اتھل پتھل ہوجا تا ہے تو بالخصوص ”لڑکیوں اور خواتین کی تجارت“ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ تقسیم ہند کا واقعہ ہو یا سقوط ڈھاکہ، افغان جہاد ہو یا کشمیر کا حالیہ زلزلہ، ان تمام وقوعوں کے دوران لاکھوں نہیں کروڑوں افراد کی ”جبری منتقلی“ عمل میں آئی اور اس دوران درجنوں ہزار خواتین اور لڑکیاں ”اغوا“ ہوکر آزاد سے ”لونڈی کے اسٹیٹس پر منتقل“ ہوئیں۔ یہ بار بار فروخت ہوکر مسلمان اور غیر مسلم صاحب حیثیت لوگوں کی ”جاگیر“ بنیں یا پھر بازار حسن کی ”مال تجارت“۔ مردوں کی زندگی میں اگر اس طرح کا وقوعہ ہوجائے تو وہ خود کو آزاد کرانے کی آخری دم تک کوشش کرتا ہے۔ اور جب کبھی آزاد ہوجائے تو آزاد دنیا میں وہ باعزت مقام بھی حاصل کرلیتا ہے۔ لیکن لڑکیوں اور عورتوں کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ ایک مرتبہ وہ ”بازار کی جنس“ بن جائے تو اول تو اپنے ظالم مرد آقاؤں سے چھٹکارا پانا ان کے لئے عملاً ناممکن ہوتا ہے۔ اور اگر ان سے بچ بھی نکلے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اہل خانہ اسے کبھی ”قبول“ نہیں کریں گے۔ کوئی ایسی عورت سے شادی کے لئے تیار نہیں ہوتا، تاہم اسے ”رکھیل “ بنانے کو سب ہی تیار رہتے ہیں۔ معاشرہ اسے پہلے جیسی عزت نہیں دیتا۔ چنانچہ وہ ”گناہ کی دلدل آلود“ زندگی کو ہی اپنا نصیب سمجھ کر اسی زندگی پر ”راضی“ ہوجاتی ہے۔ اور دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی خراب کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
اس پس منظر بلکہ ”پیش منظر“ میں اگر صاحب حیثیت مسلمانوں کے پاس یہ شرعی، قانونی اور باعزت ”آپشن“ موجود ہو کہ وہ بوجوہ بازار میں آجانے والی خواتین کو خرید کر اپنی ”لونڈی“ بنالیں جیسا کہ رون اولیٰ میں ہوا کرتا تھا تو یقیناً آج بھی بہت سے مسلمان یہ ”کارِ خیر“ پر راضی ہوں گے (خواہ پیش نظر ذاتی غرض، عیش و عشرت اور آسانیاں ہی کیوں نہ ہوں) لیکن اس کا دو بڑا مثبت اثر پڑے گا۔ ایک تو اس مظلومہ پر جو گناہوں کی مظلومی والی زندگی سے ایک چھت تلے، انسانی حقوق والی زندگی کی طرف خوشی خوشی آنا پسند کرے گی کہ اس کی دنیوی زندگی ”بازار حسن والی زندگی“ سے بہت بہتر اور شرعی اعتبار سے بھی ”جائز“ ہوگی۔دوسرے بازار حسن کا عصمت فروشی کا کاروبار ”متاثر“ ہوگا کہ لوگ وہاں سے خوشی خوشی ”مال تجارت“ کو اپنے گھر کی رونق بنالیں گے۔ یوں معاشرے میں جنسی انارکی میں کسی نہ کسی حدتک کمی ضرور آئے گی۔ یہ ہی تو ہے دین فطرت کا فائدہ جو فرد اور معاشرے پر ”احسان“ کرتا ہے اور فرد کی بدترین غلامی کی حالت میں بھی اس کے دنیا و آخرت کو بہتر بنانے کا راستہ دکھلاتا ہے۔ کیا بازار حسن فیم نام نہاد جدید تہذیب بھی مظلوم افراد اور معاشرے کو ایسا ہی فائدہ پہنچانے کی اہلیت رکھتی ہے ؟؟؟ پھر ہم کیوں اسے ”اُون“ اور اسلام کے ”نظام غلامی“ کو ڈس اُون کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ہماری تمام حکومتیں اس بات پر متفق رہی ہیں کہ سگریٹ نوشی مضرِ صحت ہے۔ چنانچہ عوام میں اس بات کی آگہی کے لئے سگریٹ کے ہر ڈبہ پر صاف صاف لکھوادیا گیا ہے کہ سگریٹ نوشی مضر صحت ہے۔ وزارت صحت مختلف این جی اوز کے تعاون سے اس سلسلہ میں عوامی سیمینار بھی منعقد کرتی ہے۔ قانون سازی بھی کرتی ہے عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی کی ممانعت بھی کردی گئی ہے فلموں اور ڈراموں جہاں کہیں سگریٹ نوشی کے مناظر نظر آتے ہیں، اسکرین پر فوراً یہ پٹی چلا دی جاتی ہے کہ سگریٹ نوشی مضر صحت ہے۔ ہماری حکومتوں کو عوام کی صحت کا کتنا خیال ہے ؟ ہے نا؟ لیکن اہل علم و دانش یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ حکومت سگریٹ نوشی کا خاتمہ چاہتی ہی نہیں ہے۔ اور یہ جملہ نمائشی اقدامات محض دکھاوا ہے۔ اگر حکومت سچ مچ یہ چاہے کہ لوگ سگریٹ پینا بند کردیں تو وہ ملک میں سگریٹ بنانے کے کارخانے اور سگریٹ کی امپورٹ پر پابندی لگا کر اس کی خلاف ورزی کو قابل سزا جرم قرار دیدے۔ سگریٹ نوشی کی وبا بتدریج کم سے کم ہوکر بالآخر ختم ہوجائے گی۔
یہی حال ملک میں زنا کے جاری و ساری کاروبار کا ہے۔حکومتی، غیر حکومتی، رفاہی اور مذہبی ادارے سب کے سبب اسے برا کہتے اور بھاشن دیتے ہیں کہ یہ برا فعل ہے۔ اس سے دور رہو۔ لیکن عملاً ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں اس برائی کے مراکز المعروف بازار حسن موجود ہیں، جن کے خاتمے کے لئے کوئی بولتا تک نہیں۔ کوئی یہ سوچتا بھی نہیں کہ صدیوں سے قائم ان بازار حسن میں آئے روز ”نیا حسن“ کہاں سے اور کیسے آتا ہے؟ ضیاء الحق شہید کی حکومت نے اپنی سی ایک کاوش ضرور کی تھی کہ ان مراکز پر عصمت فروشی کو قانوناً بند کروادیا تھا، لیکن اس کا ”نتیجہ“ یہ برآمد ہوا کہ محلہ محلہ بڑی، بڑی کوٹھیوں میں یہ مراکز کھل گئے۔ شوبز کے تمام شعبے جو اب ٹی وی چینلز کی معرفت گھر گھر پہنچ چکے ہیں، بازار حسن کے اصل کاروبار یعنی زنا کے پبلسٹی مرکز بن چکے ہیں۔ اور ہم سب اس قبیح کاروبار کے خاتمے کا سوچتے بھی نہیں (جاری)
 
Top