• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی اور عالمی ثقافت میں فرق

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
خطبہ جمعہ حرم مکی-----28جمادی الاولی 1433ھ

خطیب: شیخ سعود الشریم​
مترجم: عمران اسلم​

خطبہ مسنونہ کےبعد
بندگان خدا! اللہ تعالیٰ سے خلوت اور جلوت اور خوشی و سرور میں ڈرتے رہو۔ بلا شبہ بہترین انجام اہل تقویٰ کا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ‌ الْمُحْسِنِينَ
’’حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقوی اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجرمارا نہیں جاتا۔‘‘ (یوسف : 90)
اللہ کےبندو! ایک دن رسول مکرمﷺ صحابہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میری اورجو مجھے دے کر بھیجا گیا اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے اپنی قوم کو آکر کر خبر دار کیا ، لوگو میں تمہارے خلاف ایک لشکر آتا اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں اور میں تمہیں اس سے واضح طور پر خبردار کر رہاہوں کہ اس سے بچنے کی تدبیر کر لو، لوگوں میں سے ایک گروہ نے اس کی بات مان لی اور وہ رات ہی کو چل پڑے اور بچ نکلے۔ دوسرے گروہ نے اسے جھوٹا کہا اور وہیں پڑے رہے، چنانچہ صبح دم لشکر حملہ آور ہوا اور اس نے انھیں تہس نہس کر دیا۔ یہ مثال ہے مجھے اور میری تعلیمات کو ماننے والوں کی جنھوں نےمجھے نہ مانا اور میرے لائے ہوئے حق کو جھٹلایا۔ (بخاری ، مسلم)
بلاشبہ جس شخص نے خلوص دل کے ساتھ اس پر غور و خوض کیا اسے یقین ہو جائے گا کہ رسول اللہﷺ کی ذکر کردہ علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں کہ جب دین اور علم حقیقی کو باعث اعزاز و افتخار سمجھنے کا جذبہ ماند پڑ چکا ہے اور ایسے دور میں جب معلومات، انکشافات اور ثقافتی یلغار نے غیر معمولی چھلانگ لگالی ہے۔ آج کی ثقافت کو ایک ہی سانچے میں ڈھالا جارہا ہے یعنی پوری دنیا کو بلا امتیاز ایک ہی بلاک میں ڈھالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ان کوششوں میں سادہ لوح مسلمانوں کا بھی برابر کا حصہ ہے۔ ان کوششوں کا ہدف یہ ہے کہ اسلام کا شعور رکھنے والے بعض سادہ لوح مسلمانوں کی مدد سے اسلام و شریعت اور اس کی ثقافت و آداب سےمسلمانوں کا تعلق کمزور کیا جائے اور ان کا یہ اعتماد متزلزل کیا جائے کہ دین اسلام، دین و دنیا کوایک ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبیﷺ کی سنت پر مشتمل کامل دین کی بجائے اس کی جزوی تعلیمات پر اکتفا کر کے بیٹھ جائیں۔
دشمنان اسلام کی طرف سے کوششیں جاری ہیں دراصل وہ مسلمانوں کو ایک نامکمل، ٹوٹی ہوئی کڑیوں والے اور ادھورے قسم کے اسلام پر عمل پیرا دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو مکمل قانون سازی میں دخل اندازی نہ کرے۔ وہ عام زندگی کو اعلیٰ اقدار سے محروم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے مثالی کردار کو ختم کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کا صرف نام باقی رہے یا کم ازکم ایسی شکل باقی رہے جومرور ایام کےساتھ خود بخود زائل ہو جائے یا اس کے معانی یکسر تبدیل ہو کر رہ جائیں اور آئندہ نسلیں اسلام کی اسی مسخ شدہ صورت کو قبول کرنے کے لیے پہلے ہی سے تیا رہوں۔ ان میں سے کچھ نسلیں تو انصاف سے ویسے ہی دور ہو چکی ہیں اور وہ مسلمات سے آنکھیں چرائیں اور نقل صحیح اور عقل صریح کو تسلیم ہی نہ کریں۔
ان کی کوشش یہ بھی ہے کہ انصاف سے عاری بعض ایسی چیزیں تسلیم کر لی جائیں جو شریعت اور عقل کی نظر میں کامیابی سے عاری ہیں۔ معاصر عالمی ثقافت نے عصر حاضر میں ایک ہمہ گیر غلبہ حاصل کر لیا ہے، میڈیا اور انٹرنیٹ کے طوفان نے اسے اور زیادہ تقویت دی ہے۔ یہ کئی راستوں سے ہمارے اندر گھس آئی ہے اور ہر اس جگہ پہنچ گئی ہے جہاں سورج کی روشنی پہنچتی ہے۔
اس ثقافت نے زندگی کے مظاہر اور اسالیب کو یوں بدل کے رکھ دیا ہے کہ بہت سوں کے نزدیک تو اب اس سے چھٹکارا پانا ممکن ہی نہیں رہا۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں دین حنیف اور اعلیٰ اقدار سے ہی ہاتھ دھونا پڑیں۔ ہم انکار نہیں کرتے کہ موجودہ ثقافت میں کچھ مفید اور نفع بخش اشیا بھی ہیں مگر شرط یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہمیں اللہ کی مقر ر کردہ شریعت کو ایک طرف نہ رکھنا پڑے ہمیں اس پر عمل کرتے ہوئے کسی قسم کا کھٹکا یا خجالت طاری نہ ہونے لگے۔ اس لیے کہ اہل اسلام کی بدترین کیفیت یہی ہوسکتی ہے کہ ان کا اپنی شریعت و ثقافت پر اعتماد نہ رہے، یا ان کے اس اعتماد کو ٹھیس لگ چکی ہو اور ان سے کوئی بھی وہ بات نہ کہہ سکے جو حضرت فاروق اعظم نے کہی تھی۔
ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالی نے اسلام کے ذریعے سے عزت سے نوازا ہے اگر ہم اس کے علاوہ کہیں سے عزت کی جستجو کی تو اللہ تعالیٰ ہمیں ذلیل کر دے گا۔ اس پر تعجب نہیں کہ آج ہم عالمی ثقافت پر مائل لوگوں کے تصورات دیکھ رہے ہیں جن میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ وہ اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں ، اگرچہ یہ ثقافت شریعت اور ثفافت اسلامیہ کے ساتھ کتنا ہی تعارض و تضاد رکھتی ہے۔ اس کشش کے دو اسباب ہیں۔
1۔ آج مادی اور معنوی دونوں قوتیں غیر مسلموں کے پاس ہیں جس کا اثر زندگی کے تمام شعبوں پر پڑا ہے۔ عسکری، اقتصادی اور سیاسی تینوں قوتوں کا تثلیثی مجموعہ ان کے ہاتھ میں ہے۔
2۔ دوسرا سبب اعتماد کا فقدان، اسلامی ثفافت کے فہم سے نا آشنائی اور اسے صحیح طریقے سے واضح نہ کر سکنا ہے۔
پھر اس کے محاسن، کائنات اور عام زندگی میں اس کے تعمیری اثرات بیان کرنے میں اعتماد، جرات اور پختگی کا فقدان اور یہ بیان کرنے میں کمزوری او ناکامی کہ یہ رب تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ کا رنگ ہے، اللہ کے عطا کردہ رنگ سے اچھا رنگ کون سا ہے۔ اگر ایسی بعض چیزوں پر تقابلی نگاہ ڈالیں جن پر عالمی ثقافت والے تکیہ کیے بیٹھے ہیں اور جن کے مسلم وغیر مسلم دونوں دلدادہ ہیں تو ہم صحیح اسلامی ثقافت اور معاصر عالمی ثقافت میں کئی اعتبار سے تفاوت پاتے ہیں جس کی چند مثالیں ہم بیان کرتے ہیں:
1۔ اسلام اللہ کی طرف سے حق ہے ، اس کےقوانین ہر زمانے اور ہر عہد کے لیے موزوں ہیں جس میں کسی تبدیلی وتحریف کے امکانات نہیں۔ اس کے اصول اللہ تعالیٰ کی حفاظت سے محفوظ اور ثابت ہیں۔ ایک مسلمان اپنے نبی کے متعلق اس کے باوجود بھی دقیق تفصیلات سے بخوبی آگاہ ہے کہ اس مدت کے چودہ صدیوں سے زائد زمانہ بیت چکا ہے۔ مسلمان کبھی تواپنے ہمسائے، اپنے چچا اور چچازاد سے بھی زیادہ رسول اللہﷺ کے متعلق جانتے ہوتے ہیں۔
اسلام کے برعکس دوسرے ادیان میں یہ ناممکن ہے، اس لیے کہ یا تو وہ ایسے مذاہب ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان سے عاری ہیں یا اگر ایمان رکھتے بھی ہیں تو اس کی بنیاد کسی واضح تسلی بخش دلیل پر نہیں۔ بلکہ انسانی صناعی کے اثرات ان پر نمایاں ہیں۔ اللہ نے فرمایا:
وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرً‌ا
’’ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ‘‘ (النساء : 82)
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے سوا دیگر اقوام و مذاہب کے پاس اصلی آسمانی نسخہ موجود نہیں، جو موجود ہے اس میں انسانی تحریفات اور اوہام و خیالات جگہ پا گئے ہیں جواس بات کی دلیل ہیں کہ جو ان کے پاس ہے وہ اللہ کی جانب سے نہیں۔ اس کے برعکس اسلام میں کتاب اللہ کا ایسا اصلی نسخہ موجود ہے جس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود عصری حالات اورانسانی فہم کےعین مطابق ہے، کسی بھی تعارض سے پاک ہے۔
ابوالقاسم نے تو حدیث رسول ﷺ سے متعلق فرما دیا تھا کہ اگر راویان حدیث کے ہجوم میں کوئی ایسا شخص داخل ہو جائے جس کے متعلق حدیث میں غلطی کرنے کی نشان دہی کی گئی ہے تو وہ کبار محدثین اور سرکردہ علما کے ہاں مروج نہیں ہو سکتا۔ محدثین تو راویوں کی حدیث کے متن اور سند میں کی گئی غلطیاں بھی گن چکے ہیں بلکہ وہ تو یہ بھی گن چکے ہیں کہ کس راوی نے کتنی احادیث میں کتنی غلطیاں کی ہیں۔
اللہ کے بندو! اگر کوئی صاحب انصاف ان قوانین بنانے والوں کے قوانین میں سے ان کے اپنے تراشے ہوئے تضادات اور تنازعات ملاحظہ کرے تو یہ بھی ایک مکمل دلیل ہے جو ثابت کرتی ہے کہ انسانی عقل محدود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ
’’وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہےاورجو اس کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ ‘‘ (البقرۃ : 255)
جبکہ اصلی ثقافت اسلامیہ والے کسی معاملہ میں اختلاف ہو جانے پر اللہ کے اس فرمان کی طرف لوٹتے ہیں:
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
’’ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ‘‘(النسا: 59)
رہا دوسرا نکتہ تو وہ نقطہ عدل ہے جو خیرہ کن چمک رکھتی اسلامی ثفافت میں دوسری اسلامی اقدار کی طرح محدود اور دہرے معیار کا حامل ہے۔ حسب مصلحت اس کےالگ الگ پیمانے ہیں۔ جب مسلمان فریق نہ ہوں تو ان کا پیمانہ عدل مختلف ہوتا ہے اور جب مسلمان فریق ہوں تو تب وہ اپنا معیار عدل ان پر لاگو نہ کرنے پر متفق ہو جاتے ہیں جیسا کہ انھوں نے ہم مسلمانوں سے ڈرتے ہوئے شام میں ہمارے بھائیوں کے ساتھ کیا اور اگر ہم اسلام کی اصلی ثقافت اور اسلحہ سے لیس عالمی ثقافت کا عسکری میدان میں موازنہ کریں توہمیں اسلا م میں ظاہر و باہر عدل کار فرما نظر آتا ہے۔ اہل اسلام کے لشکر جنگ کے لیے روانہ ہوتے تو ان پر یہ فرض ہوتا کہ وہ درخت نہ کاٹیں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کریں اور لشکر یان اسلام نے ایک بھی دن ان احکامات کی خلاف ورزی نہیں کی۔
معاصر اسلامی ثقافت کے بڑے بڑے غیر مسلم مؤرخین نے گواہی دی ہے کہ تاریخ نے مسلمان فاتحین سے زیادہ رحم دل لوگ نہیں دیکھے۔ اس صدی اور پچھلی صدی میں کسی عربی یا اسلامی ملک نے کسی ملک پر چڑھائی نہیں بلکہ سامراجی طاقتوں ہی نے اپنی پیادہ اور سوار فوجوں کے ذریعے سے زیادتی کی بلکہ ہمارے زمانے کے ثقافت وتہذیب کے بعض علمبرداروں نے پچھلے سو سال میں دوسرے ممالک پر سو کے قریب حملے کیے اور اس دوران لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔
جہاں تک مسلمانوں کاتعلق ہے تویہ سب سے زیادہ مظلوم ا ور ستم رسیدہ قوم ہیں۔ انھی کی زمینیں، انھی کے ملک اور انھی کی جائیدادیں ایسی ہیں کہ وہاں گدھ بھی شاہین بن جاتا ہے۔ معاصر عالمی ثقافت کے ادارے آج اصلی مالک کو دہشت گرد قرار دے کر کہتے ہیں کہ اس کا بھی کوئی حق نہیں۔ یہ ثقافت مقدس مقامات اور ملکوں پر غالب آ جانے والے چور کو گھر کا محترم مالک قرار دے دیتی ہے۔
کیا خوب فرماتے ہیں بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین۔ جب وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے تصرفات ممالک اورتنظیموں کے مفادات کی روشنی میں جانچے جاتے ہیں۔ یہ تو بالکل ویسا ہی جواز ہے جو راہزن رکھتے ہیں یا جیسے جنگل کے درندے چیر پھاڑ کے لیے جواز رکھتے ہیں۔ موجودہ عالمی ثقافت کو اس حوالے سے جاننے والا ضرور دیکھے گا کہ یہاں صحرا میں لوٹنے والا ایک ڈاکو تو مجرم اور دہشت گرد ہے مگر دوسری جگہ پر جب شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی اور شہریوں کو قیدی بنا لیا جاتا ہے تو وحشیانہ جرم کے خلاف کوئی بات کرنے والا نہیں ہوتا کیونکہ اس کام کے اور اس کام کے کرنےو الوں میں فرق ہے۔ سو پہلے فعل کا مرتکب انتہا پسند، اجڈ اور گنوار ہے جبکہ دوسرے فعل کا مرتکب مہذب، متمدن اور ترقی یافتہ ہے۔
یہ ہے وہ عدل و انصاف جو معاصر اسلامی تہذیب و ثقافت کے پاس ہے اور اس کے مقابلہ میں یہ وہ عدل ہے جو ہم مسلمانوں کے پاس ہے۔ سو فیصلہ کرو:
فَأَيُّ الْفَرِ‌يقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٨١﴾الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ
’’ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی و اطمینان کا مستحق ہے؟ بتاؤ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا" ‘‘ (الانعام : 81،82)
دوسرا خطبہ

اما بعد.....!
اسلام تمام مشکلات کے حل پر مشتمل دین حق ہے اور موجودہ عالمی ثقافت کے درمیان فرق کرنے والے نکات میں تیسرے نکتے کا تعلق عالمی معیشت سے ہے۔ ہمارے زمانے کی عالمی ثقافت نے جو ڈھیروں برکات دنیا کو عطا کی ہیں ان میں سے ایک موجودہ بینکاری نظام کے تباہ کن اثرات ہیں جن کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی اور عالمی اقتصادی بحران ہم سے کوئی دور کی بات بھی نہیں۔
اس پر فریب خیرہ کن تہذیب کی طرف خود کو منسوب کرنے والے بھی یہ گواہی دینے پر مجبور ہیں کہ موجود نظام معیشت نے، جسے بین الاقوامی اقتصادیات کا نام دیا جاتا ہے، عالمی معیشت کو تباہ کن نقصانات پہنچائے ہیں اس لیے کہ اس کے نتیجہ میں تہ در تہ قرضوں کے پہاڑ کھڑے ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سے اقتصادی منصوبے شطرنج کی بساط کی مانند ہو کر رہ گئے ہیں جن میں اصلی منصوبوں کی نسبت ایک فیصد بھی نہیں۔
اس کے برخلاف اسلامی معیشت تین بڑے کامیاب اصولوں پر مبنی ہے:
1۔ مال سب لوگوں کے قیام کا ذریعہ ہے۔
2۔ غریبوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مال و دولت کی گردش صرف امرا کے درمیان محدود ومحصور نہیں کی جا سکتی۔
3۔ باہمی معاملات میں حقیقی عدل و انصاف کا قیام۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی اقتصادی ماہرین اس وقت دہشت زدہ ہو کر رہ گئے جب انھوں نے دیکھا کہ اشتراکی نظام معیشت ستر سال کےتجربے کے بعد دھڑام سے نیچے آ گرا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا مستقبل بھی اس سے مختلف نہیں کیونکہ یہ شخصی اور انفرادی مفادات کے گرد گھومتا ہے اور بے مقصد دائروں میں سفر کے دوران مسلسل اقتصادی ارتکاز پر قابض بھیڑئیے اسے نوچ رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ نظام ان حقیقی بنیادوں پر استوار نہیں۔
چنانچہ اس کے نزدیک مال تمام لوگوں کے قیام کا ذریعہ نہیں بلکہ چند لوگوں کی ملکیت ہے۔ دوسرے یہ نظام عدل و انصاف سے بالکل عاری ہے۔ تیسرے اس کے نتیجہ میں دولت امرا کے گھر کی باندی بن کر رہ گئی ہےجبکہ اسلام فیصلہ فرماتا ہے:
يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّ‌بَا وَيُرْ‌بِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ‌ أَثِيمٍ
’’ اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا ‘‘(البقرۃ : 276)
تو کیا خیال ہے، حق ان آندھیوں کے نتیجہ میں ضائع ہو کر رہ جائے گا؟ مسلمانوں کامستقبل اپنے وطنوں سے بے دخلی، اپنی دولت سے محرومی ہی سے عبارت رہے گا؟ اور اس نام نہاد تہذیب کے ٹکڑوں پر پلنے والے اور ان کے سامنے پیشہ ور گداگروں کی طرح ہاتھ پھیلانے والے ہی پھلتے پھولتے رہیں گے؟ یا اس غفلت کے بعد بیداری بھی آئے گی۔ ان زنجیروں سے آزادی کا بھی کوئی لمحہ میسر آئے گا اور اس غلامی سے نجات پانے کا جذبہ انگڑائی لے گا جس کا سایہ اہل اسلام کی عقلوں تک دراز ہو چکا ہے۔ اچھے مستقبل کی امید ہماری منزل اور یقین محکم، حقانیت اسلام پر غیر متزلزل ایمان اس تک پہنچنے کا زینہ ہے اور یہی اسلام پر کامل اعتماد ہے اور بغیر کسی تردد کے امکانات کی حفاظت ہے۔
هذا وصلُّوا - رحمكم الله - على خيرِ البرية، وأزكى البشرية: محمد بن عبد الله بن عبد المُطلب، صاحبِ الحوض والشفاعة؛ فقد أمركم الله بأمرٍ قد بدأ فيه بنفسه، وثنَّى بملائكته المُسبِّحة بقُدسِه، وأيَّه بكم - أيها المؤمنون -، فقال - جل وعلا -: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [الأحزاب : 56].
اللهم صلِّ وسلِّم وزِد وبارِك على عبدك ورسولك محمد، صاحبِ الوجهِ الأنور، والجَبين الأزهَر، وارضَ اللهم عن خلفائه الأربعة: أبي بكرٍ، وعُمر، وعثمان، وعليٍّ، وعن سائر صحابةِ نبيِّك - صلى الله عليه وسلم -، وعن التابعين، ومن تبِعَهم بإحسانٍ إلى يوم الدين، وعنَّا معهم بعفوك وجودك وكرمك يا أرحم الراحمين.
اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، واخذُل الشركَ والمشركين، اللهم انصُر دينَكَ وكتابَكَ وسنةَ نبيِّك وعبادَكَ المؤمنين.
اللهم فرِّج همَّ المهمومين من المُسلمين، ونفِّس كربَ المكروبين، واقضِ الدَّيْن عن المدينين، واشفِ مرضانا ومرضَى المُسلمين برحمتك يا أرحم الراحمين.
اللهم آتِ نفوسَنا تقواها، وزكِّها أنت خيرُ من زكَّاها، أنت وليُّها ومولاها.
اللهم انصُر إخواننا المُستضعفين في دينهم في سائر الأوطان، اللهم انصُر إخواننا المُستضعفين في دينهم في سائر الأوطان برحمتك يا أرحم الراحمين، اللهم انصُر إخواننا المُستضعفين في سوريا، اللهم انصُرهم على عدوِّهم، اللهم انصُرهم عاجِلًا غيرَ آجلٍ يا ذا الجلال والإكرام، اللهم اجعل الدائرةَ على عدوِّهم، واجعل شأنَه في سِفالٍ، وأمرَه في وَبالٍ يا حيُّ يا قيُّوم.
اللهم آمِنَّا في أوطاننا، وأصلِح أئمَّتنا وولاة أمورنا، واجعل ولايتنا فيمن خافك واتقاك، واتبع رضاك يا رب العالمين.
اللهم وفِّق وليَّ أمرنا لما تحبُّه وترضاه من الأقوال والأعمال يا حيُّ يا قيُّوم، اللهم أصلِح له بطانته يا ذا الجلال والإكرام.
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [البقرة: 201].
سبحان ربِّنا رب العزة عما يصفون، وسلامٌ على المرسلين، وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين.


اس خطبہ کو سننے کے لیے یہاں کلک کریں
 
Top