• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"اسلامی اور غیر اسلامی تعلیمات کا تقابلی جائزہ"

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
13087917_1030017053701186_6584658481138247167_n (1).png


بسم اللہ الرحمن الرحیم

"اسلامی اور غیر اسلامی تعلیمات کا تقابلی جائزہ"

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 06-شعبان-1437 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں "اسلامی اور غیر اسلامی تعلیمات کا تقابلی جائزہ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا :

جس میں انہوں نے بتلایا کہ دین اسلام اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہے، اور مسلمانوں کو دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے ممتاز رکھنا اسلام کا بنیادی ہدف ہے، اس کیلیے اسلام نے متعدد احکامات جاری کیے جس میں مسلمانوں کو اہل جاہلیت ، غیر مسلموں ، مشرکوں اور اہل کتاب کی مشابہت سے روکا گیا ہے، اس ضمن میں انہوں نے عقیدہ توحید، توہم پرستی، توکل، غیر اللہ کی پکار، نفاذ شریعت، تقدیر پر ایمان، حشر و نشر پر ایمان، ماخذ دین و شریعت، اذان، نماز، روزہ، حج، قربانی، صدقات، معاملات، اخلاقیات، تجارت، حقوقِ نسواں، حقوقِ اولاد، فرقہ واریت و دیگر امور میں اسلامی تعلیمات کا تقابل غیر اسلامی تعلیمات کے ساتھ انتہائی جامع انداز میں پیش کیا اور آخر میں اس بات پر زور دیا کہ اپنی کامیابی کیلیے سیرتِ نبوی پر ہمارے لیے چلنا انتہائی ضروری ہے۔

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

  • اللہ تعالی ہی نعمتوں سے نوازتا ہے ، بندوں پر اس کی بے شمار نعمتیں ہیں، جن میں سے عظیم ترین نعمت اسلام کی نعمت ہے، دینِ اسلام میں تمام تر خوبیاں ہیں، ا للہ تعالی نے اس دین کو اپنی مخلوقات کیلیے چنا اور لوگوں کی اس کی دعوت دی، چنانچہ اللہ تعالی جس پر اپنا فضل کرنا چاہتا ہے اسے دینِ اسلام کی ہدایت نصیب فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ }

بلکہ یہ اللہ تعالی کا احسان ہے کہ اس نے تمہاری ایمان کیلیے رہنمائی کی۔[الحجرات:17]

اگر کوئی شخص جاہلیت کے بارے میں نا بلد ہو تو وہ اسلام کی حقیقت اور فضیلت سے آشنا نہیں ہے، لوگ جاہلیت کی اندھیر نگری میں تھے جہاں پر انسانیت اور نبوت کی روشنی بالکل ختم ہو چکی تھی تو پھر اللہ تعالی نے لوگوں کو اجالے میں لانے کیلیے اپنے نبی محمد ﷺ کو نشانیاں اور ہدایت دے کر مبعوث فرمایا ۔

  • دین اسلام کے بنیادی ترین مقاصد میں یہ بات شامل ہے کہ دین دشمنوں کی مخالفت کی جائے مبادا لوگ دوبارہ دورِ جاہلیت میں نہ لوٹ جائیں؛ چنانچہ امور جاہلیت میں مشابہت کو منع قرار دیا چنانچہ اس کیلیے اہل کتاب اور مشرکین کی مخصوص عبادات وغیرہ میں مشابہت اور ان کی باتیں ماننا منع ہے:

{وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ}

ان لوگوں کی خواہشات پر مت چلیں جنہیں کچھ علم ہی نہیں ہے۔[الجاثیہ: 18]

دورِ جاہلیت کی کوئی بھی چیز قابل قدر نہیں ؛ کیونکہ نبی ﷺ نے انہیں اپنے قدموں تلے روند دیا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(جاہلیت سے تعلق رکھنے والی ہر چیز میرے قدموں تلے مسترد ہے) مسلم

شرک دور جاہلیت کا سب سے بڑا جرم تھا، اور یہی رسول اللہ ﷺ کی اہل جاہلیت سے اختلاف کی سب سے بڑی وجہ تھی، آپ ﷺ نے انہیں عقیدہ توحید، اور خالص ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔

  • رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت سے رو گردانی گمراہی کا راستہ ہے، اور اگر اس میں باطل کو اچھا سمجھنے کی روش بھی شامل ہو جائے تو مکمل بربادی کا سامان مہیا ہو جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ}

جو لوگ باطل پر اعتماد کریں اور اللہ کے ساتھ کفر کریں تو یہی لوگ ہی خسارہ پانے والے ہیں۔ [العنكبوت: 52]

اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھنا عین عبادت اور دین ہے، اس لیے اللہ تعالی کے بارے میں بد ظنی رکھنے والا شخص جاہلوں کی روش پر گامزن ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ}

وہ اللہ تعالی کے بارے میں جاہلیت والا ناحق گمان رکھتے ہیں۔[آل عمران: 154]

یہ بات اللہ تعالی کے متعلق بد ظنی میں شامل ہے کہ اللہ تعالی کے حکمت بھرے فیصلوں پر نکتہ چینی اور اللہ تعالی کے اسما و صفات سے متعلق کج روی اختیار کی جائے اور گھٹیا چیزوں کی اللہ تعالی کی جانب نسبت کریں۔

معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم جاہلیت میں کاہنوں کے پاس جاتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تم کاہنوں کے پاس مت جاؤ) مسلم

  • ہمیں اللہ تعالی پر توکل اور تمام امور اسی کے سپرد کرنے کا حکم دیا گیا جبکہ جنوں ، تعویذوں وغیرہ سے پناہ طلب کرنے پر انسان مزید ضعیف اور کمزور ہو جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا}

اور بلاشبہ بات یہ ہے کہ کچھ انسان بعض جنوں کی پناہ پکڑتے تھے تو انہوں نے ان کو سرکشی میں زیادہ کر دیا۔ [الجن: 6]

اسلام نے ہمیں ہر وقت اللہ تعالی کی پناہ لینے کا حکم دیا، چنانچہ جو شخص کسی جگہ پڑاؤ کرتے ہوئے کہے:

(أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ"

[میں اللہ تعالی کی مخلوقات کے شر سے اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں] جب تک وہ وہاں سے کوچ نہیں کر جاتا اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ) مسلم

  • فوت شدگان اپنے کیے ہوئے اعمال تک پہنچ جاتے ہیں۔ نیک لوگوں کیلیے دعا کی جاتی ہے ان سے مانگا نہیں جاتا۔ قبروں کو مسجدیں بنانا، مُردوں سے مانگنا اہل کتاب کا طریقہ ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(یہود و نصاری پر اللہ تعالی کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا ) متفق علیہ

  • حاکمیت صرف اللہ تعالی کیلیے ہے، اللہ تعالی کے دین و شریعت کو بالا دستی دینا واجب ہے، جبکہ کسی اور چیز کو اس کا متبادل قرار دینا پورے معاشرے کیلیے تباہی اور محض باطل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ}

کیا یہ لوگ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ یقین کرنے والوں کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہو سکتا [المائدة: 50]

بد شگونی لینے سے عزائم میں رخنے پیدا ہوتے ہیں اور اللہ تعالی پر اعتماد کمزور یا بالکل ختم ہو جاتا ہے، جبکہ مسلمان اللہ تعالی کے فیصلوں اور تقدیر پر یقین رکھتا ہے، مسلمان اپنے تمام تر معاملات میں اچھی فال لیتا ہے۔

بیماری خود بخود متعدی نہیں ہوتی، بد شگونی کچھ نہیں کر سکتی، نہ مُردوں پر الّو بولتا ہے، اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہوتا ہے۔

صرف اللہ تعالی سے برکت کی امید کی جا سکتی ہے، لہذا حجر، شجر، زندوں ، مردوں سے برکت حاصل کرنا یا ان میں برکت سمجھنا گمراہی اور رسوائی کا کام ہے، بلکہ یہ بت پرستوں کی روش ہے۔

نعمتوں کی نسبت اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف کرنے والا حقیقت میں اللہ تعالی کے فضل اور شکر سے عاری ہے، نیز یہ جاہلوں کا طریقہ کار ہے کہ:

{يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ}

وہ اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے بھی ہیں مگر پھر اس کا انکار کر دیتے ہیں اور ان میں سے بیشتر ناشکرے ہیں [النحل: 83]

تاروں سے بارش مانگنا اور اجرامِ فلکی سے معاملات کا تعلق جوڑنا بھی جاہلی طریقہ ہے، اسلام نے اسے یکسر مسترد کر دیا اور دلوں کو صرف اللہ تعالی کے ساتھ جوڑا ۔

  • زمانہ بھی اللہ تعالی کی مخلوق ہے، چنانچہ جو شخص زمانے کو برا بھلا کہے تو اس میں جاہلیت کی خصلت پائی جاتی ہے؛ کیونکہ اہل جاہلیت بھی کہا کرتے تھے کہ:

{ وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ}

ہمیں زمانہ ہی مارے گا۔[الجاثیہ: 24]

  • تقدیر حقیقت میں اللہ تعالی کا اندازہ ہے، مومن کیلیے تقدیر پر ایمان لانا اور سب کچھ رضائے الہی کے سپرد کرنا ضروری ہے، لیکن مشرکین تقدیر کا انکار کیا کرتے تھے اور شریعت کے مقابلے میں ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے کہتے:

{ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا}

اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے آبا کبھی شرک نہ کرتے۔[الأنعام: 148]

بعث اور دوبارہ جی اٹھنے کا انکار کرنا یا اس میں شک کرنا کفر ہے، یہ بھی جاہلیت سے تعلق رکھتا ہے؛ کیونکہ وہ بھی کہا کرتے تھے:

{ وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ}

ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا[الأنعام: 29]

اللہ تعالی کی آیات کو جھٹلانے والا یا ان میں شک کرنے والا بھی مشرکین کا پیرو ہے؛ کیونکہ وہ کہا کرتے تھے:

{ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ}

یہ تو صرف پہلے لوگوں کے قصے اور کہانیاں ہیں۔[الأنعام: 25]

اللہ تعالی کی آزمائش سے بے خوف ہو جانا یا اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس ہو جانا بھی ایمان کے منافی ہے اور یہ بت پرستوں کا طرز عمل ہے، جبکہ مومن اللہ کی جانب سفر کو خوف اور امید کے درمیان طے کرتا ہے، نیز مومن اپنے دل کو پروردگار کی محبت سے سرشار رکھتا ہے۔

  • اللہ تعالی ہی اشیا کو حلال و حرام قرار دیتا ہے، مخلوق کو اس بارے میں کوئی اختیار حاصل نہیں ، لیکن اہل کتاب اس کے بر عکس چلتے تھے، اس لیے کہ انہوں نے :

{اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ}

اللہ کو چھوڑ کر اپنے علما اور درویشوں کو اپنا رب بنا لیا تھا[التوبہ: 31]

  • ایک مومن کیلیے دلیل اور دین کا مصدر و ماخذ کتاب و سنت ہوتے ہیں، وہ کتاب سنت کو سمجھنے کیلیے سلف صالحین کے فہم سے روشنی لیتا ہے، جبکہ تقلید اور آبا و اجداد کے رسم و رواج کو بطور دلیل پیش کرنا مشرکوں کا طریقہ ہے، انہوں نے اپنے دین کی بنیاد انہی چیزوں پر رکھی ہوئی تھی، فرمانِ باری تعالی ہے:

{ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا }

اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی جانب سے نازل کردہ وحی کی اتباع کرو تو وہ کہتے ہیں : ہم تو اسی کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے آبا کو پایا ہے۔[لقمان: 21]

لوگوں کا جم غفیر بھی ہو تو وہ حق مٹا سکتا ہے اور نہ ہی باطل کو سچ بنا سکتا ہے، تعداد اور جم غفیر سے دھوکا کانا رسولوں کا طریقہ کار نہیں ہے، جبکہ مومن اپنے ہم نواؤں کی کم تعداد سے نہیں گھبراتا، اور نہ ہی گمراہی کی وجہ سے تباہ ہونے والوں کی کثرت سے مرعوب ہوتا ہے، چنانچہ جو شخص حق بات کو اہلیان حق کی کمزوری یا کمی کی وجہ سے مسترد کر دے تو اس نے حقیقت میں دین سمجھا ہی نہیں ۔

کتاب و سنت کے متبادل کے طور پر گمراہ لوگوں کے قوانین کو لینا بھی اہل کتاب کا وتیرہ ہے، کیونکہ انہوں نے بھی کتاب اللہ کو پس پشت ڈال کر شیاطین کی باتوں پر عمل شروع کر دیا تھا۔

اسلام ایک مضبوط اور ٹھوس دین ہے ، اس میں غلو ہے اور نہ ہی جفا ہے، اس میں افراط و تفریط بھی نہیں ، بلکہ یہی دین صراط مستقیم ہے جو کہ اہل کتاب کے راستے سے الگ تھلگ ہے ؛ کیونکہ غلو کرنا اہل کتاب کا طریقہ کار ہے جیسے کہ عیسائیوں نے اپنے نبی عیسی علیہ السلام کی شان میں غلو کرتے ہوئے آپ کو ربوبیت کے درجے پر پہنچا دیا، نیز عیسائیوں کی جانب سے جفا اس طرح عیاں ہوتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی کا حق وحدانیت ہی اللہ تعالی کو نہیں دیا، مزید برآں انہوں نے رسولوں کو قتل بھی کیا۔

حق بات کو باطل سے ملانا ، حق چھپانا انہی کا طریقہ کار ہے، انہوں نے اپنے دین کو لہو و لعب سمجھا اور ہوس پرستی میں ڈوب گئے، وہ بغیر عمل کے نجات اور حب الہی کا دعوی بلا دلیل کرتے ہیں، اس کیلیے محض اپنے خیالات اور جھوٹے دعووں پر ہی انحصار کیے ہوئے ہیں، ان کا دعوی ہے کہ:

{نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ}

ہم اللہ تعالی کے بیٹے اور محبوب ہیں۔[المائدة: 18]

اہل کتاب خفیہ و اعلانیہ حیلے بازی کیلیے سر توڑ کوششیں کرتے ہیں، نیز من مانی چیزیں بھی انبیائے کرام اور دیگر سر کردہ افراد کے نام لگا دیتے ہیں:

{وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا}

اور جب وہ کوئی شرمناک کام کرتے تو کہتے ہیں کہ : "ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے ہمیں ایسا ہی کرنے کا حکم دیا "[الأعراف: 28]

انہیں ایمان سے زیادہ اپنی زندگی عزیز ہوتی ہے، وہ اللہ تعالی سے آخرت کی بجائے صرف دنیا مانگتے ہیں، جب انہیں آسائشیں مہیا ہوں تو متکبر اور جب آزمائشیں ہوں تو مایوس ہو جاتے ہیں، مطلب ہو تو اللہ کی عبادت کرتے ہیں، جن سے ناتا جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اسے توڑتے ہیں، زمین پر رفاہی کاموں کی بجائے تباہی مچاتے ہیں، انہیں محنت کے بغیر خوش آمد پسند ہے، ان کے علما بے عمل اور جاہل اللہ تعالی کے متعلق جہالت میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں، گمراہی میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں، انہوں نے انصاف کرنے کی تلقین کرنے والوں کو بھی قتل کر دیا ، دین اسلام کے خلاف انہوں نے خوب مکاریاں کیں۔

ان کا حق سے صرف دشمنی کا واسطہ ہے، جبکہ باطل کے ساتھ دوستی اور تعاون رکھتے ہیں، چونکہ ان کی گمراہی انتہا کو پہنچ چکی تھی اسی لیے نبی ﷺ ہر چیز میں ان کی مخالفت کرتے تھے، یہاں تک کہ مشرکین نے یہ کہہ دیا: "یہ شخص ہر معاملے میں ہماری مخالفت ہی کرنا چاہتا ہے"

حتی کہ آپ ﷺ نے مشرکین کے ذبح کرنے کی جگہوں میں ذبح کرنے کی بھی مخالفت فرمائی :،

ایک شخص نے بوانہ جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ، اور نبی ﷺ کے پاس آ کر استفسار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: (وہاں دورِ جاہلیت کا کائی تھان وغیرہ تھا جس کی پوجا کی جاتی ہو؟) تو صحابہ کرام نے کہا: "نہیں" تو پھر آپ ﷺ نےفرمایا: (وہاں مشرکوں کا کوئی میلہ وغیرہ لگتا تھا؟) تو صحابہ کرام نے عرض کیا: "نہیں" تو پھر آپ ﷺ نے فرمایا: (جاؤ اور اپنی نذر پوری کرو)

ابو داود

نماز اور اذان میں بھی ہمیں ان کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا، چنانچہ یہودیوں کا سنکھ اور عیسائیوں کا نرسنگا نہیں اپنایا گیا بلکہ اذان کو شریعت کا حصہ بنایا گیا ، اللہ تعالی نے قبلہ بیت المقدس سے تبدیل کر دیا؛ کیونکہ اہل کتاب بیت المقدس کی جانب چہرے کرتے ہیں۔

اسی طرح سورج طلوع و غروب ہونے کے دوران نماز سے روک دیا گیا ؛ کیونکہ اس وقت مشرکین سورج کو سجدہ کرتے ہیں، مشرکین بیت اللہ کے پاس عبادت کی بجائے تالیوں اور سیٹیوں پر اکتفا کرتے ، ایسے ہی یہودیوں کی طرح نماز میں اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھنے اور اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لینے سے منع کیا گیا۔

اسی طرح امام بیٹھا ہو تو اس صورت میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے سے منع کیا گیا ، آپ ﷺ نے فرمایا:

(اس وقت عین ممکن تھا کہ تم فارسیوں اور رومیوں جیسا عمل کرنے لگو کہ وہ اپنے بیٹھے ہوئے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں، ایسا مت کرو، اگر تمہارا امام کھڑے ہو کر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو) مسلم

مُردوں کو دفنانے کیلیے ہمارا خاص طریقہ ہے جو دوسروں سے مختلف ہے، چنانچہ لحد یعنی بغلی قبر ہم بناتے ہیں اور شق دوسرے لوگ۔

  • اللہ کے راستے سے روکنے والوں کے مقابلے میں ہمیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا، فرمانِ باری تعالی ہے:

{فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ }

وہ عنقریب اپنے اموال خرچ کرینگے پھر یہی اموال ان کیلیے باعث حسرت ہوں گے اور پھر وہ مغلوب ہو جائیں گے۔[الأنفال: 36]

ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کا فرق ہے ، نیز اہل کتاب کی مخالفت کرتے ہوئے جب تک لوگ سحری میں تاخیر اور افطاری میں جلدی کریں گے خیر و بھلائی میں رہیں گے۔

جب نبی ﷺ نے عاشورا کا روزہ رکھا تو معلوم ہوا کہ یہود بھی عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں تو پھر آپ ﷺ نے فرمایا:

(اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو میں نو کا روزہ رکھوں گا) مسلم

رویت ہلال ہی روزوں اور عید کیلیے علامت ہے، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"تا کہ دیگر اقوام کی مخالفت ہو جو اپنی عبادات اور ایامِ عید کیلیے فلکی حساب پر اعتماد کرتے ہیں"

حج کے مہینوں میں جاہلیت کے لوگ عمرہ نہیں کیا کرتے تھے، تو نبی ﷺ نے ان کی مخالفت میں حکم دیتے ہوئے فرمایا:

(عمرہ حج میں شامل ہو چکا ہے)مسلم

مشرکین عرفات سے قبل از مغرب اور مزدلفہ سے بعد از طلوعِ آفتاب واپس آتے تھے، تو نبی ﷺ ان کی مخالفت کرتے ہوئے عرفات سے بعد از مغرب نکلتے اور مزدلفہ سے قبل از طلوعِ آفتاب واپس آتے۔

مشرکین بسا اوقات برہنہ حج کیا کرتے تھے، تو اللہ تعالی نے ستر ڈھانپنے اور مسجد میں جاتے ہوئے عمدہ لباس پہننے کا حکم دیا۔

دورِ جاہلیت میں مشرکین مخصوص جانور مختلف اوقات میں ذبح کرتے تھے، تو نبی ﷺ نے ان سے منع فرمایا کہ:

(فرع اور عتیرہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے) "فرع" یہ اونٹنی کا وہ پہلا بچہ ہوتا تھا جسے مشرکین اپنے معبودانِ باطلہ کیلیے ذبح کرتے تھے، اور "عتیرہ" ماہِ رجب میں ذبح کیے جانے والے جانور کو کہا جاتا ہے۔ متفق علیہ

آپ ﷺ نے ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت فرمائی؛ کیونکہ حبشی اس سے ذبح کرتے تھے۔

  • مصیبت پڑنے پر ہمیں صبر اور ثواب کی امید رکھنے کا حکم دیا گیا، جبکہ ان سے متصادم چیزوں سے روکا گیا، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(وہ ہم میں سے نہیں جس نے اپنے رخساروں کو پیٹا، سینہ چاک کیا، اور دورِ جاہلیت والی باتیں کیں) بخاری

تکبر اور نخوت جاہلیت سے تعلق رکھتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(جاہلیت سے تعلق رکھنے والی چار چیزیں میری امت میں جاری رہیں گی: اپنے آبا پر فخر، دوسروں کے نسب پر نکتہ چینی، تاروں سے بارش مانگنا، اور میت پر نوحہ کرنا) مسلم

سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا نہ کھانا بھی تواضع ہے، نیز اعلی قسم کے کپڑے پہن کر فخر کرنا بھی منع ہے، آپ ﷺ نے [عُصفر]گلرنگ سے رنگے ہوئے کپڑوں کے بارے میں فرمایا:

(یہ کفار کے کپڑے ہیں اس لیے انہیں زیب تن مت کرو) مسلم

اسلام انسانیت کا احترام کرتا ہے ، اسی لیے دوسروں کی تحقیر اور مذاق اڑانے سے منع کیا، آپ ﷺ نے کسی کو اس کی ماں کی وجہ سے حقارت کا نشانہ بناتے ہوئے سنا تو فرمایا:

(تمہارے اندر جاہلیت پائی جاتی ہے) متفق علیہ

  • نیز ہمیں تعصب سے بھی خبردار کیا ؛ کیونکہ یہ لڑائی جھگڑے کا باعث بنتی ہے:

{إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ }

جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والا تعصب بٹھا لیا۔[الفتح: 26]

اسی طرح جس وقت ایک انصاری صحابی نے انصاریوں اور ایک مہاجر صحابی نے مہاجروں کو صدا لگائی تو آپ ﷺ نے فرمایا:

(دورِ جاہلیت والی صدائیں کس لیے!) متفق علیہ

اندازہ لگائیں کہ اگر شرعی ناموں سے پکارنے کے بارے میں یہ نبوی ردّ عمل ہے تو دیگر ناموں سے پکارنے میں کیا ہوگا؟!

ہمیں خرید و فروخت وغیرہ کے وقت اپنے خصوصی اسلامی کردار کو اجاگر کرنے کا حکم دیا گیا ہے؛ کیونکہ اسی سے سچائی، عدل اور امانت داری چھلکتی ہے، ہمیں جاہلیت سے تعلق رکھنے والے طریقہ تجارت سے روکا گیا چنانچہ ماپ تول میں کمی، جوا اور سٹے بازی کی ممانعت کے ساتھ سودی لین دین کی سخت مذمت کی۔

اللہ تعالی نے ہمارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال اور گندی چیزیں حرام قرار دیں ، لیکن دورِ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس کے بر عکس عمل کیا۔

تخلیق الہی سے بڑھ کر کوئی خوبصورتی نہیں ہے، اہل کتاب کی یہ عادت ہے کہ وہ شیطان کی نرغے میں آ کر تخلیق الہی میں تبدیلیاں کرتے ہیں؛ چنانچہ نبی ﷺ نے ان کے پیرو بننے سے منع فرمایا دیا اور حکم دیا کہ:

(مشرکوں کی مخالفت کرو ؛ ڈاڑھی بڑھاؤ، مونچھیں کترواؤ) متفق علیہ

نبی ﷺ نے سفید بالوں رنگنے کا حکم دیا اور سیاہ رنگ سے روکا، نیز اگر کوئی شخص ڈاڑھی کے بالوں میں گرہ لگائے یا تانت باندھے تو اس سے آپ ﷺ نے اظہار لا تعلقی فرمایا۔

دورِ جاہلیت میں عورت کی اہانت کی جاتی تھی، چنانچہ نہ تو کوئی عورت کا پردہ تھا اور نہ ہی کوئی مرد عورت کا محافظ تھا، بلکہ جب کسی کے ہاں بچی کی پیدائش ہوتی تو اس کا چہرہ ہی غصے سے سیاہ ہو جاتا ، وہ لوگ بیٹیوں کو زندہ دبا دینے والے تھے، اگر کوئی زندہ رہ بھی جائے تو وراثت میں حصہ نہیں دیتے تھے، نیز خونی رشتہ داروں سے ازدواجی تعلقات استوار کرتے تھے، دوسری طرف یہودی ماہواری کے دنوں میں عورتوں سے الگ تھلگ رہتے حتی کہ ساتھ بیٹھ کر کھاتے بھی نہیں تھے، جبکہ عیسائی کسی بھی چیز سے گریز نہیں کرتے تھے، لیکن اسلام نے آ کر عورت کے پردے اور احترام کا اہتمام کیا، چنانچہ انہیں کہا:

{وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى}

اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو۔ [الاحزاب: 33]

اسلام نے خواتین کو حقوق دیے اور ان پر ذمہ داریاں عائد کیں، وراثت میں ان کیلیے مقررہ حصہ لازمی قرار دیا، بلکہ یہ بھی فرمایا: جو شخص دو یا اس سے زیادہ بچیوں کی پرورش کرے تو یہ اس کے اور جہنم کے درمیان رکاوٹ بن جائیں گیں۔

دور جاہلیت میں اولاد کی نسبت باپ کی بجائے کسی اور کی جانب کر دی جاتی تھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا:

(جس کے ہاں بچہ پیدا ہوگا نسبت بھی اسی کی طرف ہو گی) متفق علیہ

چونکہ نام کا ذات پر اثر ہوتا ہے اس لیے ہمیں بچوں اور دیگر اشیا کے اچھے اچھے نام اختیار کرنے کا حکم دیا گیا، اور جاہلیت کے طریقوں سے روکا گیا کہ وہ غیر اللہ کے نام کے ساتھ "عبد" کا سابقہ لگا کر نام رکھتے تھے، اسی طرح برے اور خود نمائی پر مشتمل ناموں سے بھی ہمیں روکا گیا، چنانچہ آپ ﷺ نے "عاصیہ" کا نام "جمیلہ" سے تبدیل فرمایا "برّۃ" [نیکو کار] کا نام "زینب" سے اور "ابو الحکم" کی کنیت "ابو شریح" سے تبدیل فرمائی، نیز آپ ﷺ نے فرمایا:

(اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں)

اہل جاہلیت اپنی مرضی سے عید کے دن مقرر کرتے تھے، تو اللہ تعالی نے ہمیں عید الفطر اور عید الاضحی کی شکل میں دو عیدیں عطا فرمائیں۔

دورِ جاہلیت کے لوگوں کا وتیرہ تھا کہ وہ نیکی کا حکم دیتے اور نہ ہی برائی سے روکتے تھے، اور اگر کسی کو نیکی کا حکم کر بھی دیتے تو خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے، لیکن یہ امت بہترین امت اس لیے قرار پائی کہ دوسروں کو نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں بلکہ دوسروں کیلیے پہلے خود عملی نمونہ بنتے ہیں۔

  • فرقہ واریت جاہلیت کا شعار ہے، چنانچہ وہ کبھی بھی کسی دینی یا دنیاوی چیز پر جمع نہیں ہو سکتے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ [31]مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ }

اور ان مشرکوں کی طرح مت بنو جنہوں نے اپنے دین کو ہی حصوں میں بانٹ دیا اور خود فرقہ فرقہ بن گئے، [اب] ہر فرقہ اپنی جمع پونجی پر خوش ہے۔[الروم: 31-32]

باہمی اتحاد قوت اور الفت ہے اسلام اسی کی دعوت دیتا ہے اور اختلاف سے روکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا}

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ واریت میں مت پڑو۔[آل عمران: 103]

لوگ کسی ایک حکمران پر متفق ہوں تو امن و شانتی کے ساتھ دشمنوں پر رعب بھی پیدا ہوتا ہے، جبکہ حکمران کے خلاف بغاوت ، اور معاشرتی اتحاد میں رخنے ڈالنا جاہلیت ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(جو شخص اپنے حکمران کے خلاف بغاوت کرے اور مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے) متفق علیہ، اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ: (جو شخص کسی تعصب کے جھنڈے تلے لڑتے ہوئے مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا) مسلم

اللہ تعالی کو تم سے تین چیزیں پسند ہیں: صرف اسی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک مت بناؤ، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ واریت میں مت پڑو، اور اللہ تعالی جسے تمہارا حکمران بنائے اس کی خیر خواہی چاہو۔

شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"دین و دنیا میں اگر کوئی خلل پیدا ہوتا ہے تو وہ ان تینوں میں سے کسی ایک یا تمام چیزوں میں کمی کی وجہ سے ہوتا ہے"

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!

ہمارا دین کامل اور معزز ترین دین ہے، ہم اس پر عمل پیرا ہو کر ہمہ قسم کی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں، جبکہ جاہلیت پر مبنی امور کو بجا لانا کمزور انسان کی علامت ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی بھی چیز کو اپناتا ہے تو وہ غضب الہی کا سامان پیدا کر رہا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(اللہ تعالی کے ہاں ناگوار ترین شخص وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کے امور تلاش کرے) بخاری

کسی کا پیرو بننے سے دل میں اس کی محبت پیدا ہوتی ہے، ظاہری طور پر کسی سے مشابہت اختیار کریں تو دلی میلان اس کی جانب بڑھنے لگتا ہے، جس شخص نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے، کسی بھی قوم میں جتنی بدعات پیدا ہونگی اتنی ہی سنتیں ان کے ہاں سے اٹھا لی جائیں گی، اسی طرح اگر کوئی قوم جاہلیت والا طریقہ اپنائے تو اس سے کئی گنا زیادہ ہدایت ان کے ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ:{وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ}

میرا یہ راستہ سیدھا ہے، تم اسی کی اتباع کرو، دیگر راستوں پر مت چلو؛ وگرنہ یہ راستے تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔[الانعام:153]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

قابل اقتدا و اتباع صرف ہمارے نبی محمد ﷺ ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے انہی پر دین و شریعت مکمل فرمائی، آپ کی رسالت ، اطاعت، اور اتباع کی گواہی دینا بھی لازمی قرار دیا، بلکہ جس قدر انسان ہمارے نبی کی تابعداری میں آگے ہوگا اس کا عقیدہ توحید بھی اتنا ہی پختہ ہو گا، تمام لوگوں میں سے خوش و خرم اور بلند درجات کا مالک وہی ہو گا جو قولی و فعلی ہر طرح سے آپ کی اتباع کرے ۔

اس لیے ہر انسان پر نبی ﷺ کی سیرت و کردار کے متعلق اتنی معلومات لینا ضروری ہے جس کی وجہ سے انسان جاہلوں میں شمار نہ ہو بلکہ آپ ﷺ کے پیروکاروں میں شامل ہو کر کامیاب ہونے والوں میں اپنے آپ کو شامل کروا لے۔

یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!

یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! انہیں اچھے طریقے سے تیری طرف لوٹنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کے خطوں کو امن و امان عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال اپنی رضا کیلیے مختص فرما، اور تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب کے نفاذ اور شریعت کو بالا دستی دینے کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہمارے سپاہیوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کے قدموں کو ثابت بنا ، یا اللہ! ان کے دلوں کو مضبوط بنا،یا اللہ! ان کی نشانے درست فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر خوب ظلم ڈھائے، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے [قبول کرو]اور یاد رکھو۔[النحل: 90]

تم عظیم و جلیل اللہ کو یاد کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

پی ڈی ایف فارمیٹ میں پڑھنے یا ڈاؤنلوڈ کرنے کیلیے کلک کریں
 
Last edited:
Top