• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام آباد میں ٹیچر کےعشق میں مبتلا ساتویں جماعت کے طالب علم کی خودکشی

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
16114266_1844363359164356_4153450921373717651_n.jpg

اسلام آباد میں ٹیچر کےعشق میں مبتلا ساتویں جماعت کے طالب علم کی خودکشی

ویب ڈیسک پير 16 جنوری 2017

15سالہ اسامہ نے مرنے سے قبل ٹیچر کے نام پر ایک خط بھی لکھا تھا،پولیس، فوٹو؛ فائل

اسلام آباد: ٹیچر کے عشق میں مبتلا ساتویں جماعت کے طالب علم اسامہ نے خود کو گولی مارکر خود کشی کرلی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ساتویں جماعت کا طالب علم 16 سالہ اسامہ اسکول ٹیچر کے عشق میں مبتلا تھا اورمحبت میں ناکامی پر خود کو گولی مارکر خود کشی کرلی۔ پولیس کے مطابق اسامہ نے مرنے سے قبل ٹیچر کے نام ایک خط لکھا تھا جو اس نے چھوٹے بھائی کو دے کر کہا کہ باہر جاکر 100 تک گنتی گنوجب گنتی ختم ہوجائے تو یہ خط ٹیچرکو دے دینا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چھوٹے بھائی نے باہر جاکر 50 تک ہی گنتی گنی تھی کہ گولی چلنے کی آواز آگئی۔

اس خبرکو بھی پڑھیں :

کراچی کے اسکول میں 16 سالہ لڑکے نے لڑکی کو مار کر خود کشی کرلی

اسامہ نے خط میں لکھا کہ میں اپنی ٹیچر سے بےحد محبت کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر لوگ جینے نہیں دیتے، پرنسپل صاحب مجھےاسکول میں ایسا نہیں کرنا چاہیے لہٰذا آپ سے معافی مانگتا ہوں جس کے بعد اس نے خود کشی کرلی۔ اسامہ نے خودکشی کے لیے جو پستول استعمال کیا اس نے خط میں لکھا کہ یہ میرے پاپا کا ہے،مرنے کے بعد اسے دورپھینک دیا جائے، نہیں چاہتا کہ مرنے کےبعد پولیس پاپا کو تنگ کرے۔دوسری جانب اسامہ کے والد عالمگیر کا کہنا ہے کہ انہیں بیٹے کی ٹیچرسے محبت کا علم نہیں تھا وہ توپہلے ہی اسامہ کی پسند کی لڑکی سے منگنی کراچکے تھے۔



 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
16143312_678679178969941_2378780159886051133_n.jpg
"میرے مرنے کے بعد میرے پیار کو سمجھا دینا کہ پیار ایسے ہوتا."

............

یہ اس ساتویں گریڈ کے طالبعلم کے آخری خط کے الوداعی الفاظ ہیں جو اس نے اپنی ٹیچر کی محبت میں خود کشی کرنے سے پہلے پرنسپل کے نام لکھا.
خبروں میں اسکی عمر 15 یا 16 سال بتائی جا رہی ہے جبکہ ساتویں کے بچے کی اوسط عمر 12 سال ہوتی ہے.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نو عمر لڑکے کو تو اسکے والدین نے "جہالت کی یونیورسٹیوں" سے بچا کے "روشن خیال" سکول میں پڑھ لکھ کر "بڑا آدمی" بننے بھیجا تھا. پھر اسکو:
"میں تمہارے بنا زندہ نہیں رہ سکتا."
"تم میری نہ بنی تو جان دے دوں گا."
"تو جو نہیں تو زندگی بیکار ہے."
"تیرے بنا مر جائیں گے."

.... جیسے ڈائیلاگز اور گانوں کی عملی تصویر کس نے بنایا؟

ذرا سوچئیے کہ آپکے بچوں کی تربیت کون کر رہا ہے؟!!!
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
16105635_562696480602492_260472450378477017_n.png

جس عمر میں ہمارے دودھ کے دانت ٹوٹا کرتے تھے
آج کل اس عمر کے بچوں کے دل ٹوٹتے ہیں !
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
15940484_562698800602260_7221523189371826061_n.png



جہاں سکولوں کے بچے عشق میں خود کشیاں کرنے لگیں
وہاں تعلیم کی نہیں بلکہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے !
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ساتویں جماعت کے طالب علم کی خود کشی –

سعدیہ نعمان
جب سے یہ خبر نظر سے گزری ہے ایک عجیب سی بے کلی اور بے چینی ہے. یقین کرنے کو جی نہیں چاہ رہا، لیکن کچھ تلخ حقائق ایسے ہوتے ہیں جن سے نظریں چرانے سے وہ بدل نہیں جاتے۔
ایسا کیوں ہوا؟
اس سے قبل کراچی میں دو سکول طالب علموں کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آ چکا ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

بد قسمتی سے ہم حادثات سہنا اور جذب کرنا سیکھ گئے ہیں۔ ان عوامل پر غور کرکے تجزیہ کرنے اور غلطیوں کو درست کرنے کی زحمت نہیں کرتے، یہاں تک کہ اگلا حادثہ نمودار ہو جاتا ہے۔
تعلیمی ادارے اگر کردار کی تعمیر کے بجائے اخلاق و کردار کی جنازہ گاہ بننے لگیں،
معلم کے عظیم مرتبہ پر فائز اساتذہ اگر اپنے منصب کی عظمت کھو بیٹھیں،
طالب علموں کے سامنے ایک بہترین ماڈل پیش نہ کر سکیں، بلکہ علمی قابلیت کے بجائے محض ظاہری رکھ رکھاؤ اور انگلش میں مہارت کو استادوں کے چناؤ کا معیار سمجھا جانے لگے،
بھاری بھر کم فیسوں کی وصولی کے بعد معصوم اذہان پہ الحاد و بےدینی اور دین بیزاری کے حملے کیے جانے لگیں،
بالخصوص مخلوط تعلیمی اداروں میں مرد و خواتین اساتذہ اور لڑکے لڑکیوں کے آزادانہ میل جول اور دوستیوں کے رحجان کو آزاد خیالی و روشن خیالی کے لبادے پہنائے جانے لگیں،
جب ہمارا میڈیا دن رات نام نہاد محبت و عشق پہ مبنی بےحیائی اور فحاشی کا پرچار کرتے ڈرامے، فلمیں اور اشتہار چلاتا رہے،
جب والدین آنکھیں بند کر کے بچوں کو اجنبی تہذیب کا شکار ہوتے اور ”لبرل“ جوان بنتا دیکھ کے بلائیں لیتے رہیں،
جب قرآن زندگیوں سے نکل کر بس الماری تک محدود ہو جائے، عمل سے نکل جائے۔
تو پھر مرے ہم وطنو
انتظار کرو، پھر ایسے ہی معصوم انھی نام نہاد اونچے اداروں اور روشنی کے مناروں میں اپنی قیمتی جانیں ضائع کرتے رہیں گے۔
کیسی جہالت ہے جو سب آنکھوں پہ پٹیاں باندھے ہوئے ہیں۔

مری التجا ہے،

سب سے پہلے والدین سے کہ:

اپنی آنکھیں کھولیے، اور جانچیے پرکھیے کہ آپ اپنی سب سے قیمتی متاع کس کے حوالے کر رہے ہیں؟
ایسے اداروں کی حقیقت پہچانیے جو آپ کے بچوں سے ان کی حقیقی شناخت چھین رہے ہیں۔
گھروں میں ان کو محبت اور پیار دیجیے، وقت دیجیے، ان کی تربیت اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کیجیے.

پھر مری درخواست ہے اساتذہ سے کہ :

خدارا اپنا مقام پہچانیے، اپنے منصب اور ذمہ داری کے مطابق اپنا رویہ اور کردار اپنائیے، بچے آپ کو ہی آئیڈیل بنا کے چلتے ہیں، ان کے کردار کی تعمیر درست بنیادوں پر کرنے سے پہلے آپ اپنے کردار کو مضبوط بنیادوں پر اور عمدہ سانچوں میں ڈھالیے۔

میڈیا مالکان اور پالیسی ساز اداروں سے گزارش ہے کہ :

پیسے کی ہوس اور لالچ سے ذرا دیر کو آزاد ہو کے سوچیے کہ آپ کا عمل اور ترجیحات کس طرح معصوم کلیوں کو مسل رہا ہے؟ کیسا جان لیوا زہر ہے جو اُن کے کچے ذہنوں میں اُتارا جا رہا ہے۔

میری اہل نظر اور اہلِ علم حضرات سے بھی درخواست ہے کہ :

کیا سب مل کے اس نظام تعلیم کو بدلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر سکتے یا پھر اپنی نئی نسل کو اسی طرح تباہ و برباد ہوتا دیکھتے رہیں گے۔
اگر متعلقہ ادارے، اصلاحی تنظیمیں، والدین اور صائب الرائے و اہلِ فکرو دانش سر جوڑ کے بیٹھیں تو مسئلہ کا حل نکالنا مشکل نہیں۔ لیکن یہ سب جلد کرنا ہوگا ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے گزر جائے اور ہم خدانخواستہ بہت کچھ کھو دیں۔

http://daleel.pk/2017/01/18/26293
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
16105787_680502358787623_8352982600486712749_n.jpg

یہ هے اسامہ ساتویں جماعت کا وہ سٹوڈنٹ جس نے اپنی هی ایک 19سالہ ٹیچر سے محبت میں ناکامی کے بعد خودکشی کرلی
اس معصوم سے چهرے کے خون کا ذمہ دال کون ؟؟؟؟؟
اس بچے کو یہ راستہ عشق معشوقی کا کس نے دکهایا ؟
اس ننهے سے چهرے کو یہ بات کس نے سمجهائی کہ محبوب نہ ملے تو خود کی جان سے هاته لو ؟ اس بچے کی تربیت کس نے کی تهی اس معصوم کو کس ادارے میں یہ درس دیا گیا یہ کس دینی ادارے کا طالبعلم تها ؟؟؟؟؟؟
اس بچے کا خون ان کے سر پے هے خو مخلوط تعلیم کو جائز کهتےهیں اور مخلوط تعلیم کو فروغ دینے پے تلے هیں اس کا خون ان ماوں بهنوں کے هاته پے تلاش کرناچاهئے جو هروقت ٹی وی کے سامنے بچوں کوگود میں بٹها کے پیار و محبت کی داستان دیکهتی هیں
اس بچے کا خون ان اساتذہ کےذمےهیں جو اسکی تعلیم و تربیت کرنے میں مصروف تهے ان لبرلز اور جدت پسند تعلیم اور مخلوط تعلیم کو فروغ دینا چاهتےهیں...

اوریا مقبول جان
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تعلیم اور تربیت کا یہ فقدان خود آپ نے پیدا کیا اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بربادی کے ذمہ دار آپ خود ھیں
اگر غور سے دیکھیں تو ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ھے
معاشرے سے رواداری ختم ہوگئی قوت برداشت ختم ہوگئ شارٹ کٹ دو نمبر طریقوں سے عیش و عشرت کی زندگی بغیر حرام حلال کی تمیز مقصد حیات بن گیا ایک دوسرے کو دھوکہ دینا عام بات بن گئی وعدہ وفا کرنے کی اہمیت ختم ہوگئ اپنی باتوں کا پاس نہیں رہا طلاق عام ہوگئی گھروں میں نماز روزہ ختم ہوگیا پاکستان کا بنیادی معاشی نظام سود ھے یعنی سب سود کھاتے ھیں سود لینے اور دینے والوں سے ﷲ کی کھلی جنگ ھے ایسے میں کون کس کی تربیت کرے گا ؟
ان سب باتوں کا علاج اب بھی موجود ھے
اسلامی معاشرہ اور صرف اسلامی
ورنہ تباہی مقدر ھے جو نظر آرہی ھے جس کو سب محسوس بھی کررہے ھیں
مگر تدارک کون کرے گا؟

Nasir Hussain
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مسجد سے دوری ، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا، ماں باپ کی عزت نہ کرنا، ماں باپ کا رزق حلال کا خیال نہ رکھنا حرام حلال میں تمیز کا خاتمہ، ماں باپ کا اپنی اولاد کے سامنے ایک دوسرے سے محبت کرنا، دین سے دوری اور علما کا مزاق اڑانا، اذان کے دوران ٹی وی دیکھنا اور اس کو برا بھی نہ سمجھنا، ایک دوسرے کا جائز حق مارنا، اپنوں کو چھوڑ کر غیروں سے قربت ، شراب اور نشہ کا عام ہونا، زنا کا عام ہونا اور میڈیا کا ایسا مواد نشر کرنا جس سے گناہ کی طرف رغبت پیدا ہو، اپنے اسلامی کلچر کو چھوڑ کر انڈیا کا کلچر اپنانا ، نکاح کو مشکل اور زنا کا آسان ہونا ، انصاف کا خاتمہ، اسطرح کے واقعات کی چند وجوہات ہیں -
اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دے اور ہم پر رحم فرمائے ، آمین


 
Top