• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"اسلام امن و سلامتی کا دین ہے" خطبہ جمعہ مسجد حرام

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
"اسلام امن و سلامتی کا دین ہے"

از شیخ ماھر بن حمد المعیقلی حفظ اللہ

خطبہ جمعہ مسجد حرام۔

خطیب : فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد المعیقلی۔
موضوع: اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔
تاریخ: 15 رجب 1440ھ بمطابق 22 مارچ 2019
مترجم: فرہاد احمد سالم۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفات بہت زیادہ پاکیزگی اور سلامتی والے حقیقی بادشاہ اللہ کے لیے ہیں۔ جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے کھڑا کیا اور زمین کو مخلوق کے لئے بچھا دیا۔ ہم اللہ تعالی کی حمد بیان کرتے اور اس کا شکر ادا کرتے ہیں، اسی سے توبہ و استغفار کرتے ہیں کہ وہ گناہوں کو معاف کرنے والا توبہ قبول کرنے والا اور سخت انتقام لینے والا ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کہ علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ گواہی سلامتی والے گھر کی طرف پہنچاتی ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، نیز خاتم النبیین اور مخلوق کے سردار بھی ہیں۔
اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل ، صحابہ ، تابعین، اور اچھے طریقے سے آپ کی پیروی کرنے والوں پر برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔

اما بعد:
امت اسلام !

میں اپنے آپ اور آپ سب کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں۔ کیونکہ بندوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ کما حقہ اس کا تقوی اختیار کرتے ہوئے ، اس کے علاوہ نہ کسی کی عبادت کریں اور نہ کسی سے مدد مانگیں۔

{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران: 102]
اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہیں آنی چاہیے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔

امت اسلام:

صحیح بخاری میں ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، ثُمَّ قَالَ: اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ مِنَ المَلاَئِكَةِ، فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ، تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: السَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَزَادُوهُ: وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الخَلْقُ يَنْقُصُ حَتَّى الآنَ۔
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیداکیا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو سلام کرو، نیز غور سے سنو وہ تمھیں کیا جواب دیتے ہیں؟ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کہا: "السلام علیکم" تم پر اللہ کی سلامتی ہو۔ فرشتوں نے جواب دیا: "السلام علیک ورحمۃ اللہ"تجھ پر سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔ انھوں نے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا۔ بہرحال جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہ سب حضرت آدم علیہ السلام کی شکل وصورت پر ہوں گے گویہ لوگ ابتدائے پیدائش سے اب تک جسامت میں کم ہورہے ہیں۔

پس سلام ہمارے باپ آدم (علیہ السلام) اور ان کے بعد کے انبیاء کی دعا ہے۔ اسی دعا کے ساتھ فرشتے مومنین کا جنت میں استقبال کریں گے۔ اور اہل جنت کی اپنے رب سے ملاقات کے دن بھی یہ ہی دعا ہو گی۔

{تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا} [الأحزاب: 44]
جس دن وہ اللہ سے ملیں گے ان کا استقبال سلام سے ہو گا اور اس نے ان کے لئے با عزت اجر تیار کر رکھا ہے۔

اس عظیم ''سلام ''میں لوگوں کے دلوں کو جوڑنے اور ان کی صفوں کو متحد رکھنے کے معانی اور مقاصد ہیں ، اس لئے اللہ تعالی نے اس کو ایمان کا شعار اور مسلمانوں کا سلام بنایا ہے۔

صحیح مسلم میں ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ»
حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو ، آپس میں سلام عام کرو۔ (صحیح مسلم 54)

اللہ کے بندو :
بے شک ''السلام ''اللہ تعالی کے پیارے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ پس اللہ جل جلالہ السلام ہے۔ سلامتی دیتا اور سلامتی والے گھر کی طرف بلاتا ہے۔

{وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ} [يونس: 25]
اور اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف تم کو بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہ راست پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔

دین ''اسلام'' سلم اور سلام سے مشتق ہے، یہ ہی اس کی وجہ تسمیہ ہے۔ چنانچہ ''سلامتی ''اس کا عنوان اور شعار ۔ اس کی دعوت اور منہج ہے۔ نیز یہ وہ دین ہے جس کو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے پسند کیا۔

{ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} [المائدة: 3]
آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے۔

خاتم الانبیاء و المرسلین محمد ﷺ امن و سلامتی کے علم بردار تھے۔ آپ ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ جب نماز سے فارغ ہوتے تو امت کو یہ بات یاد دلاتے کہ سلامتی اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ہے۔

اس کے ذریعے اللہ تعالی سے دعا کی جاتی ہے، چنانچہ آپ فرماتے :

اللہم انت السلام و منك السلام ،تباركت ذاالجلال والاكرام
عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ: «اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ»

حضرت ثوبان سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ استغفار کرتےاور اس کے بعد کہتے : اللہم انت السلام و منك السلام ،تباركت ذاالجلال والاكرام ’’ اے اللہ ! تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے ،تو صاحب رفعت و برکت ہے ، اے جلال والے اور عزت بخشنے والے .

امت اسلام : نبی ﷺ کی سیرت کو غور و فکر سے پڑھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بعثت سے پہلے اور اس کے بعد آپ کی دعوت سلامتی اور اسلام اور حیات مبارکہ اس کا مظہر تھی۔

آپ ﷺ ابتدائی عمر سے ہی لوگوں میں اچھے اخلاق ، صلح، اور مظلوم کی مدد، کے ذریعے امن و سلامتی کی کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حلف الفضول میں شرکت کی،

عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ , أَن ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَقَدْ شَهِدْتُ فِي دَارِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُدْعَانَ حِلْفًا مَا أُحِبُّ أَنَّ لِيَ بِهِ حُمْرَ النَّعَمِ ، وَلَوْ أُدْعَى بِهِ فِي الإِسْلامِ لأَجَبْتُ " السنن الکبری للبیھقی۔ 12110)
میں نے عبداللہ بن جدعان کے گھر ایسے معاہدے میں شرکت کی جس کے بدلے مجھے سرخ اونٹ بھی پسند نہیں۔ اگر مجھے اسلام کے بعد بھی اس میں بلایا جاتا تو میں جاتا۔

بعثت کے بعد آپ کا پیغام ،شفقت، رحم، صلح اور سلامتی تھا ۔ آپ اس ہی کی دعوت دیتے اور اسی پر عمل کرتے۔

{ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ} [الأنبياء: 107]
اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

صحیح بخاری میں ہے، جب آپ کی سواری قصواء حدیبیہ میں بیٹھ گئی اور کفار قریش نے نبی ﷺ کو عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا؛

فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا خَلَأَتْ الْقَصْوَاءُ وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا ۔
آپ ﷺ نے فرمایا : "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر کفار قریش مجھ سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کریں جس میں وہ اللہ کی طرف سے حرمت و عزت والی چیزوں کی تعظیم کریں تو میں اس کو ضرور منظور کروں گا۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا:

فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ وَلَكِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِينَ ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ہم کسی سے لڑنے نہیں بلکہ صرف عمرہ کرنے آئے ہیں ۔

اس کے باوجود بھی کہ قریش نے آپ کو حرم میں داخل ہونے سے منع کر دیا۔ آپ ﷺ نے ان کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ صلح اور سلامتی پسند شخصیت کے مالک تھے۔

{ وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ} [الأنفال: 61]
اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی اللہ پر توکل کرتے ہوئے صلح پر آمادہ ہو جائیے۔ یقیناً وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

اے مومنو۔ یہ آپ کی واضح سیرت مبارکہ ہے۔
آپ ﷺ جنگ و جدال ، اختلاف و جھگڑے کے داعی نہ تھے، بلکہ آپ رحم ، درگزر اور معاف کرنے والے تھے۔ چنانچہ ابتدائی مکی دور میں آپ نے دعوت دین دی اور قوم کے رویے میں شدت پسندی پائی۔

آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ آیا اور اجازت مانگی کہ کفار قریش کو مکہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان پیس دے؟ لیکن آپ نے امن اور سلامتی کے رستے کو اپناتے ہوئے فرمایا:

فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "(نہیں) بلکہ میں اُمید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔ ‌(صحيح البخاري 3231)

مخالفین کے ساتھ نبی ﷺ صرف عدل، سلامتی اور رحم کا معاملہ ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کے آپ احسان ، نیکی اور صلہ رحمی کا معاملہ فرماتے۔

چنانچہ صحیح بخاری میں ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنْ النَّارِ۔
(صحیح بخاری 1356)
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: ایک یہودی لڑکا نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہو گیا تو نبی کریم ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ کر اس سے فرمایا: "تو مسلمان ہو جا! اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: ابو القاسم ﷺ کی بات مان لو، چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا۔ پھر نبی کریم ﷺ یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لے آئے: "اللہ کا شکر ہے جس نے اس لڑکے کو آگ سے بچا لیا۔"

اور مسند احمد میں صحیح سند کی روایت ہے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ أَنَّ یَہُوْدِیًّا دَعَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ اِلٰی خُبْزِ شَعِیْرٍ وَاِہَالَۃٍ سَنِخَۃٍ فَأَجَابَہُ۔ (مسند أحمد: ۱۳۲۳۳)
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے رسول اللہ ﷺ ‌ کو جَو کی روٹی اورذائقہ بدلی ہوئی چربی والے سالن کی دعوت دی اور آپ ﷺ ‌ نے وہ قبول کی۔

ایمانی بھائیو: یہ عظیم مثالیں نبی ﷺ کی زندگی سے منہج اسلام، اور مخالفین کے ساتھ صلح و سلامتی کی دعوت کو بیان کرتی ہیں۔ جب تک وہ جنگ کرنے والے یا حد سے بڑھنے والے نہ ہوں۔

چنانچہ معاملات میں ان کے ساتھ احسان اور پڑوسی کی صورت میں اکرام کرنا، نیز ان کی دعوت قبول کرنا، ان کے تحائف قبول کرنا۔ اور ان کے دین کے معاملے میں کوئی مداہنت نہ کرنا، منہج نبوی ہے۔

صحابہ کرام نے نبی ﷺ سے اس چیز کو اچھی طرح سمجھا۔ چنانچہ وہ اپنے مشرک قرابت داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ صلہ رحمی اور احسان کا معاملہ ان کی ہدایت کی امید رکھتے ہوئے کرتے۔

صحیح بخاری میں ہے۔
عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنے ایک مشرک بھائی کو مکہ میں ایک جبہ تحفے میں دیا ۔ ( جبہ وہ لباس ہے جو پورے جسم کو ڈھانپتا ہے)۔

صحیح بخاری میں ہی ہے۔
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: وَهِيَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُ أُمِّي؟ قَالَ: «نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ»
حضرت اسماء بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں میری مشرک ماں میرے پاس آئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا میری والدہ میرے پاس آئی ہیں اور (صلہ رحمی کی ) خواہش مند ہیں۔ یا(خالی ہاتھ واپسی سے) خائف ہیں۔ کیا میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: "ہاں، تم اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔ "

اور سنن ترمذی میں صحیح سند کے ساتھ ہے،
أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ذُبِحَتْ لَهُ شَاةٌ فِي أَهْلِهِ فَلَمَّا جَاءَ قَالَ أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ۔
عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ کے لیے ان کے گھرمیں ایک بکری ذبح کی گئی، جب وہ آئے تو پوچھا: کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر (گوشت کا) ہدیہ بھیجا ؟ کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر ہدیہ بھیجا ہے؟ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سناہے : مجھے جبریل پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وارث بنادیں گے۔

اللہ کے بندو ۔ اسلام آسانی ، سلامتی ، نرمی اور رحم کا دین ہے۔ جو محبت اور الفت کے فروغ ، ایک صف اور ایک کلمہ پر اکٹھا کرنے کے لئے آیا ہے۔ تاکہ ایک اچھے معاشرے کا قیام ہو۔ اسلامی عقیدہ ، دین ،اور برتاو میں سلامتی کا عظیم پیغام دیتا ہے۔

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ } [البقرة: 208]
اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن مجید کی حکمت بھری نصیحتوں سے فائدہ پہنچائے۔
میں اسی بات پر اکتفا کرتا ہوں۔ اپنے اور آپ سب کے لئے ہر گناہ کی استغفار کرتا ہوں۔ آپ بھی اس ہی سے استغفار کریں ، بےشک وہ ہی بہت زیادہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں جیسے کہ اس کے چہرے کے جلال اور بادشاہت کی عظمت کے لائق ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہو کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل ، صحابہ ، تابعین اور آپ قیامت تک آپ کے طریقے پر چلنے والوں پر ڈھیروں سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

اما بعد:
مسلم اقوام:
بے شک ہم ہر روز کسی بھی قوم ، رنگ یا ملت کے خلاف تشدد اور اشتعال انگیزی کی جو باتیں بھی سنتے ہیں یہ سب دہشت گردی اور انتہا پسندی کی صورتوں میں سے ہیں۔

شریعت الہی اور عقل سلیم انہیں تسلیم نہیں کرتیں، کیونکہ یہ معاشرے میں انتشار اور احترام کی پامالی کا سبب ہیں۔

ایمانی بھائیو : اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امن و سلامتی محبت پھیلنے اور لوگوں کے درمیان تعاون کا باعث ہوتا ہے۔ اس سے ترقی ہوتی ہے، جس کے لیے ہر ملک کی عوام کوشش کرتی ہیں۔

معاشرتی معاملات کی اصلاح سلامتی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے اسلام نے پانچ ضروریات کی حفاظت کو واجب قرار دیا ہے۔ اور وہ یہ ہیں۔ دین ، نفس، عقل، مال اور نسل۔

چنانچہ نفس انسانی قابل احترام اور تکریم ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا} [الإسراء: 70]
بلاشبہ! ہم نے بنی آدم کو عزت عطا کی اور بحر و بر میں انہیں سواری مہیا کی، کھانے کو پاکیزہ چیزیں دیں اور جو کچھ ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے کثیر مخلوق پر نمایاں فوقیت دی۔

بخاری اور مسلم میں ہے۔
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ جِنَازَةٌ فَقَامَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُودِيٍّ، فَقَالَ: «أَلَيْسَتْ نَفْسًا۔
نبی ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ بھی کھڑے ہوگئے تھے۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ یہودی کا جنازہ ہے تو آپ نے فرمایا: کیا وہ انسان نہیں ہے۔؟

پس کسی بھی جان پر ظلم یا اس کی حق تلفی جائز نہیں۔ بلکہ اسلام تو ظلم کی تمام صورتوں سے روکتا ، اور ایسا عدل قائم کرتا ہے جسے تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

قرآن کریم میں ہے:

{ وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا} [الأنبياء: 47]
اور ہم روز قیامت انصاف کے ترازو رکھیں گے اور کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہ ہو گی۔

چنانچہ قیامت کے دن جہاں کہیں بھی یہ انسان ہو گا اس پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

بخاری اور مسلم میں ہے: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ۔
نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن(کاگورنر بنا کر) بھیجا تو ان سے فرمایا: "مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا کیونکہ اس کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ "

اس کے بعد وہ دن تھا کہ اہل یمن اسلام میں داخل ہو گئے۔
عظیم اسلام کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے ملکوں میں اپنی جان ، مال ، اور عزت کی حفاظت کے ساتھ امن کی زندگی گزاریں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل، اور جنس سے ہو۔ تمام لوگ آدم (علیہ السلام) سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} [الحجرات: 13]
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری ذاتیں اور قبیلے اس لئے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو (ورنہ) اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل عزت وہی ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

امت مسلمہ:

بے شک اللہ تعالی نے تمہیں بہت پیارے کام کا حکم دیا اور اس کی ابتدا اپنے آپ سے کی۔ چنانچہ فرمایا:

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا } [الأحزاب: 56]
اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اَللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.


یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، نیز اپنے رحم ، کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! کافروں کے ساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! تیرے اور دین دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ ! اے ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے والے ! زمین و آسمان اور تمام مخلوقات کو قائم رکھنے والے ! تیری رحمت کی اپیل ہے۔ تو ہمارے کام درست فرما دے اور ہمیں آنکھ جھپکنے کے برابر بھی ہمارے نفس کے سپرد نہ کرنا۔

اے اللہ ! مسلمان مومنین کے غموں کو دور فرما۔ پریشان حالوں کی پریشانی دور فرما۔ مقروضوں کے قرضے اتار دے۔ اور ہمارے بیماروں کو شفا یاب فرما۔

اے اللہ مسلمانوں کے معاملات درس فرما۔ اے اللہ مسلمانوں کے معاملات درس فرما۔

اے اللہ مسلمانوں کے معاملات درس فرما۔ یا ذالجلال و الاکرام
یا اللہ!ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ اور رضا کے موجب کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں تیری رضا اور رہنمائی کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کے ولی عہد کو ہر خیر کا کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو کتاب و سنت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا ہمارے ملک کے بارے میں یا اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں برے ارادے رکھے، یا اللہ! اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا عزیز یا ذالجلال و الاکرام!

{سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ (180) وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (181) وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } [الصافات: 180 - 182]

پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں۔ پیغمبروں پر سلام ہے۔ اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
 
Top