• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام اورمسلمانوں کے خلاف دشمنانِ وقت کی طرف سے محاذوں کی تکثیر

شمولیت
فروری 07، 2016
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
20

اسلام اورمسلمانوں کے خلاف
دشمنانِ وقت کی طرف سے محاذوں کی تکثیر
اور
اُسوہٴ نبیِ اکرم محمدصلی اللہ علیہ وسلم


حق و باطل کی آج کی کش مکش کوئی نئی بات نہیں۔ یہ کش مکش دونوں کے درمیان اسی وقت سے جاری ہے جب سے دونوں کا وجود ہے اور آیندہ بھی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دونوں کا باہم پایا جانا خدا کو منظور ہے۔ کش مکش کا رنگ و آہنگ زمانے اور جگہ کی تبدیلی کی وجہ سے تبدیل ہوتے رہیں گے لیکن کش مکش کی حقیقت تبدیل نہ ہوگی۔ بعض دفعہ ایسا محسوس ہوگا کہ باطل کا حملہ بے نظیر ہے اورایسا بھرپور ہے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی؛ لیکن درحقیقت، باطل کی یورش ہمیشہ ہی انتہائی قوت کے صرفے پر مبنی ہوگی۔ زمانے اورجگہ کے فریم میں وہ ہمیشہ غیرمعمولی ہوتی ہے۔ دوسرے زمانے کے تناظر میں وہ معمولی معلوم ہوتی ہے۔
بہ ہر صورت حق کے ساتھ باطل کی لڑائی کل بھی جاری تھی آج بھی جاری ہے۔ کل تیروتفنگ اور سیف و سناں کا زمانہ تھا، آج توپ وٹینک، میزائل اور بم، فضائی کارزار اور سائنس کے بازار کا زمانہ ہے؛ لہٰذا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا حق کے ساتھ باطل کی کل کی جنگ آسان، ہلکی اور قابل تسخیر تھی اور آج کی جنگ بہت سخت گمبھیر اور ناقابلِ تسخیر ہے۔ کل کے چوکھٹے میں کل کی جنگ اتنی ہی دشوار گزار تھی، جیسی آج کے حالات کے دائرے میں آج کی جنگ۔ کل حق کا دفاع کرنے والے کل کے لوگ تھے اور آج حق کا دفاع کرنے والے آج کے لوگ ہیں۔ حق کی کل کی جنگ اہلِ حق نے جیت لیاتھا، آج کی حق کی جنگ بھی اَہلِ حق بالآخر جیت لیں گے اِن شاء اللہ؛ لیکن شرط یہی ہے کہ کل کے اہلِ حق ہی کی طرح آج کے اہلِ حق میں اخلاص، جذبہٴ قربانی اور اِیثار کی فروانی ہو؛ ورنہ جنگ کا دورانیہ طویل، آزمایش کی گھڑی دراز، جیت کا موقع موٴخر، نقصان کا احتمال زیادہ اور صبر کے امتحان کی مدت قدرے طویل ہوجائے گی؛ جس کی وجہ سے بادی النظر میں ایسا محسوس ہوگا کہ باطل فتح مند اور حق شکست خوردہ ہوگیا ہے اور باطل پرستوں کی طرف سے اہلِ حق کو دل خراش طعنوں اور خدائے حکیم کی طرف سے اصلی ونقلی اِیمان کی پرکھ کے عمل سے گزرنا ہوگا جو بہت سی دفعہ قلیل الصبر حق پرستوں کے لیے بہت مشکل ثابت ہوگا۔
اِسلام دشمن طاقتیں آج اِسلام کے خلاف متحدہوکر اِس طرح اُس پر ٹوٹ پڑی ہیں کہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے کہ اسلام کے خلاف اس کے دشمنوں کی ایسی یگانگت، ایسا اتحاد، ایسی یک جائی کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اسلام سے لڑنے، اُس کا پیچھا کرنے، اُس کوگھیرنے اور ہرطرف سے اُس پر راہ بند کردینے کی ہرتدبیر سے کام لیا جارہا ہے، ہرذریعے کو آزمایا جارہا ہے، ہرطریقہٴ پیکار کو استعمال کیا جارہا ہے اور ایک کے بعد دوسرا محاذ کھول کر فرزندانِ اِسلام کو ہرمحاذ پر مشغول کرکے اُن کی طاقت کو منتشر کردینے اور فیصلہ کن اور آخری مزاحمت سے انھیں باز رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فرزندانِ اسلام غافل اور محوِ استراحت ہیں اور دشمنانِ اسلام ہمہ وقت محوِ فکر وعمل ہیں۔
محاذوں کی تکثیر اور جنگی کارراوائیوں کے مراکز کا تنوع، اِسلام سے برسرِ پیکار طاقتوں کے کارگر اور ترجیحی طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے، جس پر وہ ماضی میں بھی کاربند رہی ہیں۔ انھیں یقین رہا ہے کہ اگراسلام کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے محاذ ایک دو ہی رہیں گے، تو فرزندانِ اسلام کے لیے، ان سے نمٹنا اور حساب بے باق کرنا آسان ہوگا؛ لیکن محاذوں کی کثرت اور اُن کے متنوّع ہونے کی صورت میں دشمنانِ اسلام کے بہ زعم اہلِ اسلام کے لیے اُن سارے محاذوں پر، اُن سے لڑنا آسان نہ ہوگا نتیجتاً وہ شکست کھاجانے، اُن کے سامنے سرنگوں ہوجانے اور ان کے لیے جیت کو تسلیم کرلینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔
محاذِ جنگ کی تکثیر اوراس کو نوع بہ نوع کرنے کی پالیسی پر ہی آج اسلام دشمن طاقتیں عمل پیرا ہیں۔ دوسری طرف انھوں نے اپنی صفوں میں اتحاد ویک جہتی کی ایسی مثال قائم کی ہے، جو دیدنی بھی ہے اور باعثِ عبرت بھی۔ باعثِ عبرت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے درمیان اختلاف و تضاد کے اتنے سارے عوامل پائے جاتے ہیں کہ اُنھیں کسی بھی حال میں متحد نہیں ہونا چاہیے تھا؛ بلکہ انھیں ہمیشہ اورہر طرح متحارب یا متصادم رہنا چاہیے تھا۔ یہ زمانے کی نیرنگی اوراس کے عجائبات میں سے ہے کہ اختلاف کے لاتعداد محرکات کے باوجود صرف ایک محرک یعنی اِسلام دشمنی نے انھیں متحد اور متعاون بنادیا ہے۔ ان کے عقیدے مختلف ہیں، رجحانات ومیلانات مختلف ہیں، عبادتوں اور پرستشوں کا انداز مختلف ہے؛ ساتھ ہی ان کے مقاصد و مفادات، ان کی نسلوں اور جنسوں، رنگوں اور ملکوں، معبودوں اور عقیدتوں کے محوروں میں نہ صرف اختلاف؛ بلکہ بالکل تضاد پایا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی کے بت پتھر کے ہیں، تو کسی کے صنم لکڑی کے، کسی کے معبود گڑے ہیں تو کسی کے کھڑے، کسی کے پڑے ہیں تو کسی کے بیٹھے!۔ لیکن اُن کے درمیان ایک قدرے مشترک ہے اور وہ ہے اسلام دشمنی، جس نے سارے تضادات کے باوجود انھیں ایک بنادیا ہے۔ کیا یہ بات ہم مسلمانوں کے لیے درس انگیز نہیں کہ ہم مسلکوں اور مکاتب فکر کے اختلاف کے باوجود لا اِلٰہ اِلا اللہ محمد رسول اللہ کے قدر مشترک پر متحد ہوکر باطل کو راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیں تاکہ خدا کی کائنات امن کی جنت، سکون کا گہوارہ، راحت کی جا اور انسانیت کی جائے پناہ اسی طرح بن جائے جس طرح کہ خدانے چاہا ہے اور خدا کے نبی نے جس کو برپا کرکے دکھادیا ہے!۔
یہاں ہم مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا ہے کہ حق کے خلاف باطل کی سعی پیہم، محاذوں کی تکثیر اور معرکوں کی تنوّع کاری کوئی نئی بات تھی نہ ہے اور نہ آئندہ ہوگی۔ باطل کے ضمیر کی گہرائی میں اپنی فیصلہ کن آخری شکست کاایک جاوداں یقین موجود ہوتا ہے اور اُس کے لاشعور میں اِس کا واضح شعور محوِ عمل رہتا ہے کہ اُس کی ”تعمیر“ میں خرابی کی ایک صورت ضرور مضمر ہے؛ اِس لیے وہ ہمہ وقت حق سے لرزاں اور ترساں رہتا ہے اور اُس کے خلاف تگ و تاز کی ایسی کھیپ بروئے کار لاتا ہے، جو اُس کے نزدیک مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے حق کی کوششوں سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ حق کو اپنے حق ہونے کا یقین اور نتیجتاً دیریا سویر آخری فتح سے بہرہ یاب ہونے کا واضح اِحساس، اس کو جدوجہد کی آخری حد پار کرلینے سے روکے رکھتا ہے۔ اِسی لیے وہ قدرے مطمئن اور فارغ البال رہتا ہے، جو جہد وعمل کی اِس خاکی دنیا میں مناسب نہیں؛ اسی لیے بعض دفعہ وقتی طور پر ہی سہی باطل ”جیت“ اور حق ”ہار“ جاتا ہے جو عام اور ظاہر بیں لوگوں کے لیے نہ صرف دور رس نتائج کا حامل ہوتا ہے؛ بلکہ بڑی آزمایش کا ذریعہ بھی ہوتاہے۔
باطل کی یہ تکثیری اور تنویعی پالیسی اُسی پالیسی کا تسلسل ہے جو اُس نے اسلام کے آغاز میں، اس کو نیست و نابود کردینے کیلئے اپنائی تھی۔ قریش نے اِسلام کو اس کی گود یعنی مکہ مکرمہ، اس کے تکوینی دور یعنی مکہ مکرمہ کے اسکے ۱۳ سالہ دورانیے، پھر اُس کے دار اور اُس کی جائے قرار یعنی دورِ مدینہ منورہ اور اکنافِ بلادِ عرب میں اس کی ترویج کے پورے سفر میں؛ ترغیب و تخویف، اِیذا وتعذیب، ملک بدری ودیس سے بہ جبر اِخراج، لڑائی اور نسل کشی، مثلہ کرنے اورکلیجہ چبانے کے عمل، سازش و بلاک بندی، پروپیگنڈہ اور جھوٹ سچ کی صنعت گری اورہر تدبیر کے ذریعے اِسلام کی یقینی، عیاں اور روزِ روشن کی طرح واضح پیش قدمی کی راہ روکنے کی کوشش (جس کا ریکارڈ میں آنے والی تفصیل سے سیرومغازی اور اسلامی تاریخ کی متعدد الاجزا کتابیں بھری ہوئی ہیں) کے ذریعے کون سا حربہ ہے، جس کو اُس نے نہیں برتا اور کون سی کوشش ہے جس کو اس نے آزمانے سے گریز کیا ہے؟!۔
قریش اور ان کے ہم عصر و ہم مذہب و شریک درد مشرکین کے لیے کسی نہ کسی درجے کی جیت، خواہ وقتی سہی، اِسلام کے سیلِ رواں کو روک دینے کے لیے، جوہر رکاوٹ کو عبور، ہرچٹان کو پاش پاش اور اس کی راہ میں کھڑی کی گئی ہر پرشکوہ دیوار کو پارکرکے، ہر ”خس و خاشاک“ کو بہائے آگے بڑھتا جارہا تھا؛ حاصل ہوسکتی تھی اگر اِس سیل رواں کا جاری کنندہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی اور شخص ہوتا، جن کی ثابت قدمی سے پہاڑ ناآشنا اور جن کی حوصلہ مندی اور صبر سے چونٹیاں بھی نابلد اور جن کے جوش و جذبے اور زور آوری و روانی سے کسی سیل کو بھی سابقہ ہوا اور نہ ہوگا۔ آپ کی ثابت قدمی کے سامنے کفر و شرک اور ظلم و جارحیت کی ساری طاقتیں ڈھیرہوگئیں اور اُن کا لشکر جرار، بے پناہ سامانِ ضرب و حرب، تدبر و تفنن، مکرو دسیسہ کاری، نفاق اور دُہرا پن (اسلام کے خلاف ان کی ساری عسکری وغیرعسکری جنگوں میں، جن کے ذریعے انھوں نے اسلام کو دوڑایا) اُنھیں کچھ کام نہ دے سکا اور نازک سے نازک گھڑی میں بھی وہ اِسلام کے جن کو بوتل میں نہ کرسکے۔
تھک ہار کے اُنھوں نے اپنے ترکش کا آخری تیر آزمانا چاہا، چناں چہ انھوں نے اپنے دارالمشورہ میں جس کو وہ ”دارالندوہ“ کہتے تھے یہ طے کیا کہ ہرقبیلے سے ایک ایک پٹھا و توانا و خوب صورت و شریف النسب جوان چنیں گے، ہر ایک کو ایک سیفِ برّاں تھمادیں گے، یہ سب طے شدہ وقت پر رات کے وقت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر کو آگھیریں گے اورجب وہ گھرسے نکلیں گے تو سب کے سب یک بارگی حملے کے ذریعے اُن کا کام تمام کردیں گے، اِس طرح شرکی شاہ کلید اور فتنے کے سرچشمے سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل جائے گا، روز روز کا دردِ سر ختم ہوجائے گا، محمد کا خون سارے قبائل میں تقسیم ہوجائے گا، بنی عبدِ مناف سارے قبائل سے انتقام کی تاب نہ لاسکیں گے، سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹ پائے گی۔
اُنھوں نے اپنے زعم میں بڑی کامیاب تدبیر سوچی تھی اور اپنے ترکش کے آخری تیر کو آزمانے کا اِرادہ کرلیا تھا؛ لیکن اللہ تعالیٰ بھی اُن کی گھات میں لگا تھا۔ اللہ نے اپنے پیغام رساں فرشتے حضرتِ جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کردیا کہ اہلِ قریش اب یہ کرنا چاہتے ہیں؛ لہٰذا آج رات تم اپنے بستر پر مت سوؤ۔ اللہ کے سجھاؤ کے بہ موجب سرکار صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان سے گزرے اور دروازے سے ان کے جتھے کے بیچ سے نکلے لیکن اللہ کی حکمت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے کی اُنھیں خبر تک نہ ہوئی۔ اللہ نے اُنھیں اپنے نبی کے دیکھنے سے نابیناکردیا اور ایک مٹھی مٹی پر سورئہ یٰسین کی بعض آیتیں پڑھ کے پھونک کر اُن کے سروں پر پھینک دی تو وہ اُن میں ہر ایک کے سرپر جاپڑی۔ الغرض ”شکار“ اُن کے ہاتھ سے جاتا رہا۔
لیکن باطل کے یہ تجربہ کار نمایندے اور شرک و کفر کے یہ نام ور علم بردار و تاج دار تھک ہار کے بیٹھ نہیں گئے؛ بلکہ انھوں نے اپنے ”شکار“ کا اُس کے آخری اور مستحکم و محفوظ کچھار تک پیچھا کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دنیا و آخرت کے ساتھی ابوبکر کو زندہ یا مردہ پکڑلے آنے والوں کے لیے اتنا بڑا انعام مقرر کردیا جواُس وقت کی دنیا کے ماضی و حاضر کی تاریخ کا سب سے قیمتی اور ناقابل فہم تصور انعام تھا یعنی سو سرخ اونٹ کا اِنعام، عرب میں سرخ اونٹ کم یاب بلکہ نایاب تھے، آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ قریشیوں نے کتنا گراں قدر اِنعام رکھا تھا!۔ اِس زبردست انعام نے قریش کے طاقت ور و خوش قامت شخص ”سراقہ بن جعشم“ کو بری طرح ورغلایا کہ وہ حصولِ انعام کے ساتھ تاریخی شہرت اور پایندہ تذکرے اور وسیع تر عربی معاشرے میں اِس نیک نامی سے فائز المرام ہونے کے لیے کہ اُس نے اِنسانی تاریخ کے سب سے بڑے عربی ہاشمی ”مجرم“ اور اُس کے وفادار رفیق وہم راز کو پکڑلانے کا شرف حاصل کیا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گرد راہ کو پانے کے لیے بیتاب ہوگیا؛ چناں چہ اس نے تیروکمان لیے، تلوار کا پرتلا لٹکایا اور تاریخ کی ابدی سمت کی طرف محوِسفر دونوں عظیم مسافروں کے نقوشِ قدم کی پیروی کرتا ہوا اُن کا پیچھا کرنے کو مکہ سے روانہ ہوا، اُس سمت کے عظیم مسافروں کا پیچھا کرتا ہوا جس کی ابتدا اور انتہا کو صحیح معنی میں خالق کائنات کے سوا کوئی نہیں جانتا جو ہر چیز کا مبدا اور منتہاہے، اُس مرکز کی طرف سفر کرنے والے دونوں عظیم مسافروں کا پیچھا کرتا ہوا، جو حق کی مکمل اور آخری فتح اور باطل کی فیصلہ کن شکست کا نقطہ بننے والاتھا۔ مسکین سراقہ کو یہ پتا نہ تھا کہ وہ کوششِ ناکام کی سمت میں روانہ ہوا ہے؛ لیکن اُس کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اُس کی سعی کام یابی سے ہم کنار نہیں ہونے کی جب اُن کے قرعہ اندازی کے تیروں نے اُس کو یہ باور کرادیا کہ اُس کی اِس جدوجہد کی منزل صرف ناکامی ہے، اِس سے قبل اس کا گھوڑا دو مرتبہ بری طرح ٹھوکر کھاچکا تھا، جس کی وجہ سے اس کی ٹانگیں زمین میں دھنس گئیں اور سراقہ کی مایوسی اور انقباض کا سبب بن کر اُس کے مقصد کے حصول کی راہ کو دھندلانا شروع کرچکی تھیں۔
ناکامی کے یقین کا سایہ جیسے ہی سراقہ کے سامنے گہرا ہوکر خیمہ زن ہوا، اس نے مہاجر اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے امان کا وثیقہ طلب کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی دستاویز مانگی۔ پھر وہ اپنے نشانِ قدم پر پیچھے لوٹ آیا، اُس کی اِس سفر سے ناکام رجعت کفر کی آیندہ ہمیشہ، یقینی اور ہرمحاذ پر شکست کی علامت کی حیثیت رکھتا تھا جس سے یہ اندازہ ہوگیا کہ حق و باطل کی آیندہ کی ساری کشمکشیں باطل کی بے انتہا اور بے طرح شکست پر ہی منتج ہواکریں گی، چنانچہ صنادید قریش کی قائم کردہ بڑی سے بڑی رکاوٹوں کو عبور کرتاہوا اِسلام اپنی جاوداں فتح کی طرف سیل تیز رو کی طرح محوِ سفر رہا اور بالآخر عربوں کی سرزمین میں ہمیشہ کے لیے کفر و شرک کا چراغ گل ہوگیا۔ نورِ اسلام کو بجھانے کی اُس کی کوشش خاک میں مل گئی۔
لیکن مشرکین و کفار نے فوراً شکست تسلیم نہیں کرلی اور نہ ہی اِسلام کی مزاحمت کے حوالے سے اپنی بے بسی کے اعتراف پر بہ جلد رضامند ہوے؛ بلکہ اُنھوں نے ضد، ہٹ دھرمی اور اپنی مزید ذلت کا سامان بہم پہنچانے کا عمل جاری رکھا۔ گو علیم وحکیم خدا نے یہ چاہا کہ خود اُنھیں اور ساری کائنات کو اِس حقیقت کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کرادے کہ وہ ہر محاذ پر، ہر معرکے میں، ہر تدبیر کے ساتھ، ہر تیاری کے باوجود سقوط سے دوچار ہورہے ہیں، جس سے یہ عیاں ہے کہ اِسلام کی جیت جہاں محض ”خود کار“ اور صرف غیبی طاقت، اِلٰہی قدرت اور ربانی مدد ہی کا فیضان نہیں؛ وہیں کفر کی شکست بھی محض تقدیر اِلٰہی اور خدائی اِرادے کی دین نہیں؛ بلکہ اِسلام اور کفر کے مابین کشمکش اور کھلے ہوے مقابلے کی اُس سنت پر دونوں حقیقتیں مبنی ہیں جو خدانے اپنی حکمت کے تحت وضع کی ہے۔ یہی سنت اور اٹل خدائی قانون اس بات کا متقاضی ہوا کہ کفر، اِسلام کی کامیاب مزاحمت نہ کرسکے اوراس کا کام تمام کردینے کی وہ کوئی چال نفع بخش طور پر نہ چل سکے؛ بلکہ ہر سامان کے باوجود بے سروسامان ثابت ہو؛ لیکن پاسدارانِ باطل نے حق پر فتح پانے کے لیے اپنی جان توڑ کوشش میں کوئی کمی نہیں کی، چشم کائنات نے مشاہدہ کرلیا کہ باطل کے ناخدا بھی بہت سے طوفانوں سے نبرد آزما ہوے اور حق کی طرح باطل نے بھی جسم و جان پر ان گنت زخم کھاکر ہی حق سے شکست کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوسکا تھا۔ تاریخ نے حق سے مقابلے کے معرکے میں اُس کی جان کی بازی لگادینے کو اچھی طرح ریکارڈ کیا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی ریکارڈ کیا ہے کہ اہل باطل اپنے باطل اور عقیدے کو حق صریح سے زیادہ سچ، سچائی سے زیادہ تابناک اور اپنے افسانے کو حقیقت سے زیادہ کھرا اور محسوس وجود کا مالک سمجھتے ہیں اور اپنے باطل کی راہ میں بعض دفعہ اِس درجہ مارنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں کہ اہلِ حق، حق کے لیے بھی نہیں ہوتے۔
بدر، احد، خندق، تبوک اورحنین وغیرہ بڑی اور چھوٹیں جنگیں اہلِ باطل کے باطل پر اِصرار اورحق کے مسلسل اور آخری حد تک انکار کی واضح علامتیں ہیں۔ سازشوں کے رچنے، بلاک بندیوں کا عمل کرنے، گٹھ جوڑ کے لیے فن کاری دکھانے اور شبانہ روز کی تگ و دو میں اہل باطل نے اپنی ہمت کا جو ثبوت پیش کیا، وہ باعثِ عبرت بھی ہے اور جائے حیرت بھی۔ اُنھوں نے آخری طور پر اپنے بال و پرکے کترجانے کا اعتراف تب کیا جب نبی خاتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اُن کے گھر اور اصل قلعے مکہ مکرمہ میں اُنھیں جادبوچا اور ان کے لیے جائے رفتن رہا نہ پائے ماندن؛ لیکن نبی رحمت نے اُنھیں یکلخت معاف کردیا اوراُنھیں آزادی اورکسی بھی موٴاخذے سے مکمل چھٹکارے کاپروانہ عطا فرمادیا۔

 
Top