• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام اور جمہوریت (جواز کے دلائل پر تبصرہ کیجیے)

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو جمہوریت کو اسلام کے منافی سمجھتے ہیں۔ جمہوریت میں چونکہ اکثریت کی حکومت ہوتی ہے جمہوریت مخالف قرآن پاک کی ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ "اکثر لوگ نادان ہیں" ،"اکثر لوگ نہیں جانتے"۔ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمان اقلیت میں تھے اور غیر مسلم اکثریت میں تھے۔ اگر جمہوریت مخالف افراد کی یہ دلیل تسلیم کرلی جائے کہ قرآن اکثریت کو نادان اور لاشعور کہتا ہے تو پاکستان میں اس مذہبی یا سیاسی جماعت کو حکومت کرنے کا حق دے دینا چاہیے جو اقلیت میں ہو۔ پاکستان کے معروف قانون دان اور دانشور ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب "عوام، پارلیمنٹ، اسلام" میں اسلام اور جمہوریت کے بارے میں مستند ، سنجیدہ اور فکری تجزیہ پیش کیا ہے جس کی روشنی میں آج کا کالم ترتیب دیا گیا ہے لہذا اس کالم کو "اسلام میں جمہوریت کی کہانی کچھ میری کچھ ایس ایم ظفر کی زبانی" تصور کیا جائے۔ قرآن پاک میں اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں واضح تصور موجود نہیں ہے البتہ ایسے بنیادی اشارے ضرور ملتے ہیں جن سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جمہوری نظام قرآن اور سیرت کے قریب ہے۔ سورة آل عمران کی آیت 104 میں ارشاد ربانی ہے "اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں"۔ سورة المائدہ کی آیت نمبر 101 میں درج ہے "اے لوگو جو ایمان لائے ہو ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں"۔ قرآن پاک میں بہت سے امور کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ پروفیسر محمد عثمان نے اس خاموشی کو "سکوت حکیمانہ" قرار دیا۔ رسول اللہ نے سیاسی، عسکری، معاشی اور سماجی نوعیت کے امور صحابہ کرام کی مشاورت سے انجام دئیے۔
حضور اکرم نے کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہ کیا اور یہ ذمے داری امت پر چھوڑ دی تاکہ وہ مشاورت سے اپنا خلیفہ منتخب کرے تاکہ خلفیہ عوام کو جوابدہ ہو۔ مشہور محقق ڈاکٹر طہٰ حسین لکھتے ہیں کہ رسول اللہ کی خلیفہ کے بارے میں کوئی وصیت ہوتی تو مسلمان ثقیفہ بنی ساعدہ میں اجتماع کرکے خلیفہ کے بارے میں مشاورت اور مکالمہ نہ کرتے۔ اگر حضور اکرم کسی کو خلیفہ مقرر کردیتے تو ہر خلیفہ کو اپنا جانشین نامزد کرنے کا اختیار مل جاتا تو خاندانی وراثت کا سلسلہ چل نکلتا جو مشاورت کے جمہوری اصولوں کے منافی ہوتا۔ ثقیفہ بنی ساعدہ کی مجلس مشاورت میں انصار نے فیصلہ کرلیا کہ ان کے خلیفہ سعد بن عبادہؓ ہوں گے۔ انصار کا موقف یہ تھا کہ خلافت ان کا حق ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے دلیل دی کہ قریش چونکہ عرب میں معروف ہیں اور اسلامی ریاست وسعت اختیار کررہی ہے لہٰذا خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے تاکہ وہ وسعت پذیر ریاست کا نظام چلاسکے ۔ مشاورت اور افہام و تفہیم کے بعد انصار اور مہاجرین نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنا خلیفہ تسلیم کرلیا۔ انھوں نے مسجد نبوی میں بیعت عام لی۔ یہ ایک جمہوری فیصلہ تھا جس کے ذریعے اسلام کے نظام سیاست میں جمہوریت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اس اہم موڑ پر تین گروہ (انصار، مہاجرین، اہل بیت) سامنے آئے جنھوں نے خلافت اپنا استحقاق جانا۔ شبلی نعمانی نے ان گروپوں کو ابتدائی دور کی سیاسی جماعتیں قراردیا ہے۔
اسلام کے پہلے خلیفہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو خطبہ دیا اس میں "مساوات" اور "احتساب" کو نظام سیاست کے بنیادی اصول قراردیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے جانشین کے لیے رفقاکی مشاورت کے بعد حضرت عمرؓ کے نام کی سفارش کی تھی۔ حضرت عمرؓ کے نام کو مسجد نبوی میں موجود مسلمانوں کے سامنے پیش کیا گیا اور ان کی تائید حاصل کی گئی۔ اسلامی مورخین اور مفکرین کے مطابق خلفاے راشدین اور صحابہ کرام ؓکا متفقہ تصور یہ تھا کہ خلافت ایک انتخابی منصب ہے جسے مسلمانوں کی مشاورت اور ان کی آزادانہ راے سے قائم ہونا چاہیے۔ حضرت عمرؓ کا انتخاب میرٹ پر کیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے جانشین کے انتخاب کے لیے ایک کونسل قائم کی جس میں حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، زبیر عوامؓ اور ابو طلحہ بن عبداللہؓ شامل تھے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو اس کونسل کا مشیر مقرر کیا ان کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔ عبداللہ بن عوف ؓ نے مسلمانوں سے خلیفہ کے بارے میں مشاورت کی اور مسجد نبوی میں مسلمانوں کا اجلاس طلب کرکے ان کی تائید اور رضامندی سے حضرت عثمانؓ کا نام بطور خلیفہ پیش کیا۔ مسلمانوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد صحابہ نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنایا۔ طبری کی روایت کے مطابق حضرت علیؓ نے فرمایا "میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہوسکتی یہ مسلمانوں کی مرضی اور مشاورت سے ہونی چاہیے۔حضرت علیؓ کا انتخاب مسجد نبوی میں کھلی بیعت کے ذریعے کیا گیا۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں "اسلام کا جمہوریت کے اس اصول سے اتفاق ہے کہ حکومت کا بننا، بدلنا اور چلایا جانا عوام کی راے سے ہونا چاہیے"۔
اسلامی تاریخ کے مورخ اور مفکر عمومی طور پر متفق ہیں کہ خلفاے راشدین کا انتخاب مشاورت سے ہوا جو قرآن کی روح کے مطابق تھا۔ مشاورت اگرچہ حالات کے مطابق محدود تھی مگر اس عمل کو کسی صورت آمریت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام ہی قرآن و سیرت کے اصولوں کے قریب ترین ہے البتہ مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ جمہوریت کا جو ماڈل تشکیل دیںوہ اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق ہو۔ علامہ اقبال نے قائداعظم کے نام ایک خط میں تحریر کیا "اسلام کے قانونی اصولوں کے مطابق کسی مناسب شکل میں سماجی جمہوریت کو قبول کرلینا کوئی انقلاب نہیں ہے بلکہ اسلام کی اصل روح کی جانب لوٹنا ہے"۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک لیکچر میں تحریر کیا۔
"ہمیں چاہئے کہ آج ہم اپنے موقف کو سمجھیں اور اپنی حیات اجتماعیہ کی ازسرنو تشکیل نو کریں تاکہ اس کی وہ غرض و غایت جو ابھی تک صرف جزواََ ہمارے سامنے آئی ہے یعنی اس روحانی جمہوریت کی نشوونما جو اس کا مقصد و منتہا ہے تکمیل کو پہنچ سکے"۔
آج کے دور کے علما،مفکرین اور دانش وروں کا فرض ہے کہ وہ جمہوریت کی مخالفت کرنے کی بجاے پاکستان کے جمہوری ماڈل کو خلفاے راشدین کے فلسفہ سیاست، قائداعظم کے نظریات اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق ڈھالنے کے لیے تجاویز دیں۔ پاکستان کا جمہوری ماڈل اخلاقیات سے عاری ہوچکا ہے جس کے ذمے دار افراد میں جمہوری نظام نہیں ہے۔ پاکستان کی جمہوریت اشرافیہ کی جمہوریت بن چکی ہے۔ خاندان جمہوری نظام پر قابض ہوچکے ہیں لہٰذا ایسے افراد اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں جو اسلامی اوصاف کے حامل نہیں ہوتے اور اسلام و جمہوریت دونوں کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں لہٰذا لازم ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں جن کے نتیجے میں ایسے افراد کو سیاست سے باہر نکال دیا جائے جو مفاد پرست اور بدنیت ہوں اور ان کے اخلاق اور کردار اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق نہ ہوں۔ جمہوریت صرف اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ نہ کرے بل کہ ہر شہری بلاامتیاز اور بلاتفریق جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہوسکے۔ رب کائنات نے قرآن پاک میں فکر اور تدبر کا حکم دیا تھا مگر ہم اپنے عمل کا حساب کرنے سے قاصر ہیں....
آزادیِ افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
(قیوم نظامی،نواے وقت،26 مئی2014)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حافظ صاحب آپ کا اپنا تبصرہ کیا ہے؟
آپ اپنا تبصرہ ارشاد فرمائیں اس کے بعد بات آگے بڑھانے میں کافی مدد ملے گی۔
اگر آپ نے اپنا تبصرہ شامل نہ کیا تو
کم از کم میں یہی تصور کروں گا کہ آپ من و عن اس کالم سے کلی طور پر متفق ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قرآن پاک میں اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں واضح تصور موجود نہیں ہے

اللہ کی قسم!
حافظ صاحب آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر آپ کی تحریر کا یہ جملہ 0٫00001 فیصد بھی مان لیا جائے تو
مسلمانوں کے اس عقیدے کی مکمل نفی کے لئے کافی و وافی ہے
جس کے تحت
اسلام ایک مکمل دین حیات ہے۔
مشورہ یہ ہے کہ ایسی سوچ بھی آنے کے بعد
اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پکارئیے اور اپنے رب سے معافی کے طلب گار ہو جائیے
دلائل کا مرحلہ بعد میں آئے گا ان شاء اللہ العزیز
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو جمہوریت کو اسلام کے منافی سمجھتے ہیں۔
الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ بقول آپ کے ہی ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو جمہوریت کو اسلام کے منافی سمجھتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جمہوریت میں چونکہ اکثریت کی حکومت ہوتی ہے جمہوریت مخالف قرآن پاک کی ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ "اکثر لوگ نادان ہیں" ،"اکثر لوگ نہیں جانتے"۔
سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کے زیادہ تر انسان اللہ کے حق کو اور رسول اللہ ﷺ کے حق کو اور اسلام کے حق پہچانتے ہیں ؟
اگر پہچانتے ہیں تو کیا ایسے ہی لوگوں کے پاس حکومت کی باگ ڈور ہے؟
اور اگر حکومتی باگ ڈور سنبھالنے والے لوگ یہ تمام حقوق پہچانتے ہیں تو کیا اس پر عمل بھی کرتے ہیں؟
بالفرض ایسا ہی ہے تو پھر
نعوذباللہ قرآن کریم کی عبارت چیلنج ہوتی نظر آتی ہے
دور اندیشی سے کام لیا جائے تو بہت سے پوشیدہ راز بھی کھلتے چلے جاتے ہیں
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمان اقلیت میں تھے اور غیر مسلم اکثریت میں تھے۔
جناب عالی!
اگر مسلمان اقلیت میں تھے تو جمہوریت کی روح کے مطابق انہوںنے حکومت کیسے بنا لی حالانکہ حق تو اکثریت کا تھا۔ اگر برا نہ منائیں تو میں یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ آپ کا یہ جملہ اس بات کا غماز ہے کہ مسلمانوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجود زبردستی حکومت حاصل کی۔ (آگے چل کر آپ نے اسے آمریت کا لقب بھی دیا ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم آصف بھائی!
یہ تحریر ونظریات محترم عسکری بھائی کے نہیں۔ اس لیے آپ کا یہ کہنا مناسب نہیں۔
مشورہ یہ ہے کہ ایسی سوچ بھی آنے کے بعد
اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پکارئیے اور اپنے رب سے معافی کے طلب گار ہو جائیے
جزاک اللہ خیرا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم آصف بھائی!
یہ تحریر ونظریات محترم عسکری بھائی کے نہیں۔ اس لیے آپ کا یہ کہنا مناسب نہیں۔

جزاک اللہ خیرا۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بہت بہت شکریہ نعیم بھائی
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے
میں نے اپنی پہلی ہی پوسٹ میں حافظ صاحب کو اسی لئے مخاطب کیا ہے کہ آپ اپنا تبصرہ پہلے شامل فرمائیں تاکہ بات آگے بڑھانے میں مدد مل سکے۔ یقین کی حد تک میرا حسن ظن ہے کہ عسکری صاحب کا یہ نقطہ نظر نہیں ہے۔
بس وہ اپنا تبصرہ بھی ساتھ ہی شامل فرما دیتے تو مجھ جیسے ناتواں کو شمشیر و سناں اٹھانی ہی نہیں پڑتی۔
بہرحال میرے مخاطب محترم طاہر الاسلام عسکری صاحب ہرگز ہرگز نہیں ہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جو اس طرح کی سوچ و فکر اپنے اندر رکھتا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
میں نے اپنی پہلی ہی پوسٹ میں حافظ صاحب کو اسی لئے مخاطب کیا ہے کہ آپ اپنا تبصرہ پہلے شامل فرمائیں تاکہ بات آگے بڑھانے میں مدد مل سکے۔ یقین کی حد تک میرا حسن ظن ہے کہ عسکری صاحب کا یہ نقطہ نظر نہیں ہے۔
بس وہ اپنا تبصرہ بھی ساتھ ہی شامل فرما دیتے تو مجھ جیسے ناتواں کو شمشیر و سناں اٹھانی ہی نہیں پڑتی۔
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء۔
جزاک اللہ خیرا۔
آپ تحریر کے اقتباسات لے کر اس کا خوب علمی رد کیجئے۔مگر ان اقتباسات کو حافظ صاحب سے منسوب نہ کریں۔ کیونکہ وہ تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں
(جواز کے دلائل پر تبصرہ کیجیے)
 
Top