• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام سے مرتد ہوکر قادیانی بننے والے کی توبہ؛

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محترم بھائی @فرحان صاحب نے سوال کیا ہے کہ :
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

استاد محترم ایک بندہ قادیانی ہوجائے پیسوں کی لالچ میں
وہ پھر دوبارا مسلم بننا چاہے اس کے لیئے کیا حکم ؟
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
عقیدہ ختم نبوت
اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس میں معمولی ساشبہ بھی قابل برداشت نہیں‘
نبوت اور رسالت کا روشن سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر جناب خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی شخص منصب نبوت پر فائز نہ ہوگا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کادور قیامت تک رہیگا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کو'' عقیدہ ختم نبوت'' کہتے ہیں ۔
یہ عقیدہ دین اسلام کی بنیاد اور ایمان کی روح ہے ۔اور ملت اسلامیہ کی وحدت کا راز بھی تا قیامت اسی عقیدہ میں پنہاں ہے ۔ قرآن کریم کی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کی حقانیت کی گواہی دی ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سب سے پہلا اجماع مسئلہ ختم نبوت پر ہوا۔ جب مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری جماعت نے اس گستاخ کومتفقہ طور پر کافرو مرتد اور واجب قتل قرار دیکر اسے اس کی جماعت سمیت جہنم رسید کیا۔ہر دور میں جھوٹے مدعیان کے فتنے آئے لیکن ہر دور کے مسلمانوں نے ان فتنوں کو ختم کر کے اپنے اوپرجنت واجب کر لی ۔

اسلام کی بنیاد
اسلام کی بنیاد توحید‘ رسالت اور آخرت کے علاوہ جس بنیادی عقیدہ پر ہے ‘ وہ ہے ”عقیدہ ختم نبوت“ سیدالانبیاء محمدرسول اللہﷺ پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم کردیا گیا‘ آپ ﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں‘ آپ ﷺکے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔

ختم نبوت اسلام کی جان ہے؛
یہ عقیدہ اسلام کی جان ہے ‘ ساری شریعت اور سارے دین کا مدار اسی عقیدہ پر ہے‘ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور آنحضرت ﷺکی سینکڑوں احادیث اس عقیدہ پر گواہ ہیں‘ تمام صحابہ کرام‘ تابعین عظام‘ تبع تابعین‘ ائمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے مفسرین‘ محدثین ‘ علماء اور صلحا (اللہ ان سب پر رحمت کرے) کا اس پر اجماع ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
” مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ “ ۔ (الاحزاب:۴۰)
ترجمہ:․․․”جناب محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں‘ لیکن اللہ کے رسول اور نبیوں کو ختم کرنے والے آخری نبی ہیں“۔
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ”خاتم النبیین“ کے معنیٰ ہیں کہ: آپ ﷺ آخری نبی ہیں‘ آپﷺ کے بعد کسی کو ”منصب نبوت“ پر فائز نہیں کیا جائے گا۔
عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے‘ اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے۔چند احادیث ملاحظہ ہوں:
۱۔’’أنا خاتم النبيين لا نبي بعدي ‘‘میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں۔ (ابوداؤد ج:۲‘ ص:۲۲۸)
۲- ’’ أرسلت إلى الخلق كافة وختم بي النبيون ". رواه مسلم
مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مشکوٰة:۵۱۲)
۳- ’’ «إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ»رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی‘ج:۲‘ص:۵۱)
۴۔’’ وَأَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ‘‘میں آخری نبی ہوں اورتم آخری امت ہو۔ (ابن ماجہ:۲۹۷)
۵-’’ لا نبي بعدي ولا أمة بعدكم " میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ (مجمع الزوائد‘ج:۳ ص:۲۷۳)
ان ارشادات ِ نبوی میں اس امرکی تصریح فرمائی گئی ہے کہ آپ آخری نبی اور رسول ہیں‘ آپ ﷺکے بعد کسی کو اس عہدہ پر فائز نہیں کیا جائے گا‘ آپﷺ سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے‘ ان میں سے ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دی اور گزشتہ انبیاء کی تصدیق کی۔ آپ ﷺ نے گزشتہ انبیاء کی تصدیق تو فرمائی مگر کسی نئے آنے والے نبی کی بشارت نہیں دی۔
بلکہ فرمایا:
1- ’’ عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال((لا تقوم الساعة حتى يبعث دجالون كذابون قريب من ثلاثين. كلهم يزعم أنه رسول الله )) الصحیحین
قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ ۳۰ کے لگ بھک دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں‘ جن میں سے ہرایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔
2- ’’وإنه سيكون في أمتي كذابون ثلاثون، كلهم يزعم أنه نبي، وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي،". أخرجه أبو داود (4252)
‏‏‏وابن ماجة (3952) وأحمد (5 / 278) بسند صحيح على شرط مسلم،
قریب ہے کہ میری امت میں تیس ۳۰ جھوٹے پیدا ہوں‘ ہرایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں‘ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
ان دو ارشادات میں خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے ایسے ”مدعیان نبوت“ (نبوت کا دعویٰ کرنے والے) کے لئے دجال اور کذاب کا لفظ استعمال فرمایا‘ جس کا معنیٰ ہے کہ: وہ لوگ شدید دھوکے باز اور بہت زیادہ چھوٹ بولنے والے ہوں گے‘ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو اپنے دامن فریب میں پھنسائیں گے‘ لہذا امت کو خبردار کردیا گیا کہ وہ ایسے عیار ومکار مدعیان نبوت اور ان کے ماننے والوں سے دور رہیں۔ آپ ﷺ کی اس پیشنگوئی کے مطابق ۱۴۰۰ سو سالہ دورمیں بہت سے کذاب اور دجال مدعیان نبوت کھڑے ہوئے جن کا حشر تاریخ اسلام سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں۔ماضی قریب میں ”قادیانی دجال“ (مرزا غلام احمد قادیانی لعنہ اللہ) نے بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا‘ اللہ تعالی نے اس کو ذلیل کیا۔ اس لئے یہ ”ختم نبوت“ امت محمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم رحمت اور نعمت ہے‘ اس کی پاسداری اور شکر پوری امت محمدیہ پر واجب ہے۔
واضح رہے کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد سے ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' لوگو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں۔''(33/الاحزاب :40)

اس آیت کا سیاق وسباق قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کے ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ختم کردینے والے ہیں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ اس معنی کی تایئد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات سے بھی ہوتی ہے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:''پس میں آیا اور میں نے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔''(صحیح مسلم)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔''(صحیح بخاری)

اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں سب کے بعد آنے والا ہوں میرے بعد کوئی نبی علیہ السلام نہیں آئے گا۔''(ترمذی)

یہی وہ عقیدہ ختم نبوت ہے۔جس کا منکر مرتد اور واجب القتل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن لوگوں نے بھی دعویٰ نبوت کیا صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اس سے جنگ کی اور عقیدہ ختم نبوت پر آنچ نہ آنے دی اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے کے لئے یہ مسئلہ توحید باری تعالیٰ کے ساتھ اس امر کا اقرار کرنا انتہائی ضروری ہے۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سلسلہ نبوت ختم ہوچکا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد کسی قسم کاتشریعی یا غیر تشریعی ظلی یا بروزی کوئی نبی نہیں آسکتا۔نیز عقیدہ ختم نبوت ایمان کا ایک ایسا جزو ہے جس کے انکار سے ایمان ہی قائم نہیں رہتا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مدعیان نبوت کو دجال کذاب اور مفتری قرار دیا ہے۔

انہی میں سے ایک مرز اغلام احمد قادیانی ہے۔ جس نے قرآن وحدیث کی صریح نصوص کے خلاف دعویٰ نبوت کیا اس بنا پر مرزا قادیانی اور اس کے پیروکار دائرہ ااسلام سے خارج ہیں۔
چونکہ یہ نص قطعی کی مخالفت کرتے ہیں۔لہذا یہ صرف کافر ہی نہیں بلکہ مرتد واجب القتل ہیں۔یہ ایسے مارآستین ہیں۔ جوکلمہ کی آڑ میں لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
مرتد کی توبہ


اس دنیا میں کسی انسان کی سب سے بڑ ی بدنصیبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کودین اسلام پر پیدا کریں اور پھر وہ شخص اس نعمت کا فائدہ اٹھانے کے بجائے دین اسلام کو ترک کر کے کوئی دوسرا دین اختیار کر لے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ دین ان کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے اور انسانوں سے وہ اس کے سوا کوئی اور دین ہرگز قبول نہ کریں گے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ )''اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ ۔ ۔
اور(وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) جس نے اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین چاہا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہو گا''۔ (آل عمران3: 85,19)
ایمان کے بعد کفراختیارکرنا ایک بہت بڑ ا جرم ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اس حوالے سے وعیدیں آئی ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ (90) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (91)
''بیشک جن لوگو ں نے کفر کیا اپنے ایمان کے بعد، اور اپنے کفر میں بڑ ھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہو گی اور یہی لوگ اصلی گمراہ ہیں ۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور اسی کفر کی حالت میں مر گئے ، اگر وہ زمین بھر سونا بھی فدیہ میں دیں تو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کے لیے عذاب دردناک ہے اور ان کا کوئی مدد گار نہ ہو گا''۔ (آل عمران3: 90-91)

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا (137
''بے شک جو لوگ ایمان لائے ، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے ، پھر کفر کیا، پھر کفر میں بڑ ھتے گئے ، اللہ نہ ان کی مغفرت فرمانے والا ہے اور نہ ان کو راہ دکھانے والا ہے ''۔ (النساء4: 137)

) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (54)
''اے ایمان والو! جو تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گاتو (اللہ کو کوئی پرواہ نہیں) ، وہ جلد ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے ، وہ مسلمانوں کے لیے نرم مزاج اور کافروں کے مقابل میں سخت ہوں گے ، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، وہ جس کو چاہے بخشے گا۔ اور اللہ بڑ ی سمائی رکھنے والا اور علم رکھنے والا ہے ''۔ (المائدہ5: 54)

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (106)
''جو اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ کا کفر کرے گا، بجز اس کے جس پر جبر کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو، لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے گا تو ان پر اللہ کا غضب اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے ''۔ (النحل16: 106)


ان آیات سے یہ بات واضح ہے کہ ارتداد (apostasy) کتنا بڑ ا جرم ہے اور اس کی سزا کتنی سخت ہے۔اس اصولی بات کے بعد ہم آپ کے سوالات کے جواب ذیل میں پیش کر رہے ہیں :

۱) کوئی شخص اگر ارتداد اختیار کر لیتا ہے تواس جرم کی تمام تر شناعت کے باجود اس پر دوبارہ اسلام قبول کرنے کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔اسلام کا ایک عمومی اصول ہے کہ سچی توبہ ہر گناہ کو معاف کر دیتی ہے ، چاہے وہ ارتداد جیسا سنگین گناہ ہی کیو ں نہ ہو۔ مرتد اگر اسلام اختیار کر لیتا ہے تو یقینا یہ توبہ اور فلاح کاراستہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائےدین اس مسئلہ میں کہ مرتد عن الاسلام کی توبہ قبول ہوتی ہے یا نہیں اور بعد توبہ کے مسلمان ہوتا ہے یا نہیں۔بینوا توجروا۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مرتد عن الاسلام کی توبہ قبول ہوتی ہے اوربعد توبہ نصوح (سچے دل سے خالص توبہ) کے مسلمان ہوتا ہے:
﴿ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (86) أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (87) خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (88) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (89)﴾... سورة آل عمران
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے اور رسول کی حقانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد کافر ہوجائیں، اللہ تعالیٰ ایسے بے انصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا۔
ان کی تو یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔
جس میں یہ ہمیشہ پڑے رہیں گے نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔
مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ "


اس آیت سے مرتد عن الاسلام کی توبہ کا قبول ہونا اور بعدتوبہ نصوح کے اس کامسلمان ہونا صاف ظاہر ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔(سیدمحمد نذیر حسین)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاوی نذیریہ
جلد:2،کتاب التوبہ:صفحہ:54
محدث فتویٰ
_______________________
اور سنن النسائی ۴۰۷۴،سنن ابی داود میں حدیث ہے کہ:
عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:" في سورة النحل: من كفر بالله من بعد إيمانه إلا من اكره إلى قوله لهم عذاب عظيم سورة النحل آية 106 , فنسخ واستثنى من ذلك، فقال: ثم إن ربك للذين هاجروا من بعد ما فتنوا ثم جاهدوا وصبروا إن ربك من بعدها لغفور رحيم سورة النحل آية 110 , وهو عبد الله بن سعد بن ابي سرح الذي كان على مصر، كان يكتب لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فازله الشيطان , فلحق بالكفار، فامر به، ان يقتل يوم الفتح، فاستجار له عثمان بن عفان، فاجاره رسول الله صلى الله عليه وسلم".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے سورۃ النحل کی اس آیت: «من كفر باللہ من بعد إيمانه إلا من أكره‏» ”جس نے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کیا سوائے اس کے جسے مجبور کیا گیا ہو … ان کے لیے درد ناک عذاب ہے“ (النحل: ۱۰۶) کے بارے میں کہا: یہ منسوخ ہو گئی اور اس سے مستثنیٰ یہ لوگ ہوئے، پھر یہ آیت پڑھی: «ثم إن ربك للذين هاجروا من بعد ما فتنوا ثم جاهدوا وصبروا إن ربك من بعدها لغفور رحيم» ”پھر جو لوگ فتنے میں پڑ جانے کے بعد ہجرت کر کے آئے، جہاد کیا اور صبر کیا تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے“ (النحل: ۱۱۰) اور کہا: وہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح تھے جو (عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں) مصر کے والی ہوئے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منشی تھے، انہیں شیطان نے بہکایا تو وہ کفار سے مل گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن حکم دیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے تو ان کے لیے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پناہ طلب کی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پناہ دے دی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود1(4358)، (تحفة الأشراف: 6252) (صحیح الإسناد)»
لہذا بلاتاخیر صدق دل سے سیدالمرسلین محمدرسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر پختہ ایمان لائے ،اور اپنے گناہ کی معافی مانگتا رہے ،
واللہ تعالیٰ اعلم
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اگر کوئی مرتد ارتداد کی حالت میں گرفتار کرلیا جاتا ہے تب اس کی توبہ کے بارے کیا حکم ہے؟
 

فرحان

رکن
شمولیت
جولائی 13، 2017
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
57
مرتد کی توبہ


اس دنیا میں کسی انسان کی سب سے بڑ ی بدنصیبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کودین اسلام پر پیدا کریں اور پھر وہ شخص اس نعمت کا فائدہ اٹھانے کے بجائے دین اسلام کو ترک کر کے کوئی دوسرا دین اختیار کر لے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ دین ان کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے اور انسانوں سے وہ اس کے سوا کوئی اور دین ہرگز قبول نہ کریں گے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ )''اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ ۔ ۔
اور(وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) جس نے اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین چاہا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہو گا''۔ (آل عمران3: 85,19)
ایمان کے بعد کفراختیارکرنا ایک بہت بڑ ا جرم ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اس حوالے سے وعیدیں آئی ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ (90) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (91)
''بیشک جن لوگو ں نے کفر کیا اپنے ایمان کے بعد، اور اپنے کفر میں بڑ ھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہو گی اور یہی لوگ اصلی گمراہ ہیں ۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور اسی کفر کی حالت میں مر گئے ، اگر وہ زمین بھر سونا بھی فدیہ میں دیں تو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کے لیے عذاب دردناک ہے اور ان کا کوئی مدد گار نہ ہو گا''۔ (آل عمران3: 90-91)

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا (137
''بے شک جو لوگ ایمان لائے ، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے ، پھر کفر کیا، پھر کفر میں بڑ ھتے گئے ، اللہ نہ ان کی مغفرت فرمانے والا ہے اور نہ ان کو راہ دکھانے والا ہے ''۔ (النساء4: 137)

) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (54)
''اے ایمان والو! جو تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گاتو (اللہ کو کوئی پرواہ نہیں) ، وہ جلد ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے ، وہ مسلمانوں کے لیے نرم مزاج اور کافروں کے مقابل میں سخت ہوں گے ، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، وہ جس کو چاہے بخشے گا۔ اور اللہ بڑ ی سمائی رکھنے والا اور علم رکھنے والا ہے ''۔ (المائدہ5: 54)

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (106)
''جو اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ کا کفر کرے گا، بجز اس کے جس پر جبر کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو، لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے گا تو ان پر اللہ کا غضب اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے ''۔ (النحل16: 106)


ان آیات سے یہ بات واضح ہے کہ ارتداد (apostasy) کتنا بڑ ا جرم ہے اور اس کی سزا کتنی سخت ہے۔اس اصولی بات کے بعد ہم آپ کے سوالات کے جواب ذیل میں پیش کر رہے ہیں :

۱) کوئی شخص اگر ارتداد اختیار کر لیتا ہے تواس جرم کی تمام تر شناعت کے باجود اس پر دوبارہ اسلام قبول کرنے کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔اسلام کا ایک عمومی اصول ہے کہ سچی توبہ ہر گناہ کو معاف کر دیتی ہے ، چاہے وہ ارتداد جیسا سنگین گناہ ہی کیو ں نہ ہو۔ مرتد اگر اسلام اختیار کر لیتا ہے تو یقینا یہ توبہ اور فلاح کاراستہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائےدین اس مسئلہ میں کہ مرتد عن الاسلام کی توبہ قبول ہوتی ہے یا نہیں اور بعد توبہ کے مسلمان ہوتا ہے یا نہیں۔بینوا توجروا۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مرتد عن الاسلام کی توبہ قبول ہوتی ہے اوربعد توبہ نصوح (سچے دل سے خالص توبہ) کے مسلمان ہوتا ہے:
﴿ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (86) أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (87) خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (88) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (89)﴾... سورة آل عمران
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے اور رسول کی حقانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد کافر ہوجائیں، اللہ تعالیٰ ایسے بے انصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا۔
ان کی تو یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔
جس میں یہ ہمیشہ پڑے رہیں گے نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔
مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ "


اس آیت سے مرتد عن الاسلام کی توبہ کا قبول ہونا اور بعدتوبہ نصوح کے اس کامسلمان ہونا صاف ظاہر ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔(سیدمحمد نذیر حسین)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاوی نذیریہ
جلد:2،کتاب التوبہ:صفحہ:54
محدث فتویٰ
_______________________
اور سنن النسائی ۴۰۷۴،سنن ابی داود میں حدیث ہے کہ:
عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:" في سورة النحل: من كفر بالله من بعد إيمانه إلا من اكره إلى قوله لهم عذاب عظيم سورة النحل آية 106 , فنسخ واستثنى من ذلك، فقال: ثم إن ربك للذين هاجروا من بعد ما فتنوا ثم جاهدوا وصبروا إن ربك من بعدها لغفور رحيم سورة النحل آية 110 , وهو عبد الله بن سعد بن ابي سرح الذي كان على مصر، كان يكتب لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فازله الشيطان , فلحق بالكفار، فامر به، ان يقتل يوم الفتح، فاستجار له عثمان بن عفان، فاجاره رسول الله صلى الله عليه وسلم".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے سورۃ النحل کی اس آیت: «من كفر باللہ من بعد إيمانه إلا من أكره‏» ”جس نے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کیا سوائے اس کے جسے مجبور کیا گیا ہو … ان کے لیے درد ناک عذاب ہے“ (النحل: ۱۰۶) کے بارے میں کہا: یہ منسوخ ہو گئی اور اس سے مستثنیٰ یہ لوگ ہوئے، پھر یہ آیت پڑھی: «ثم إن ربك للذين هاجروا من بعد ما فتنوا ثم جاهدوا وصبروا إن ربك من بعدها لغفور رحيم» ”پھر جو لوگ فتنے میں پڑ جانے کے بعد ہجرت کر کے آئے، جہاد کیا اور صبر کیا تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے“ (النحل: ۱۱۰) اور کہا: وہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح تھے جو (عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں) مصر کے والی ہوئے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منشی تھے، انہیں شیطان نے بہکایا تو وہ کفار سے مل گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن حکم دیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے تو ان کے لیے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پناہ طلب کی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پناہ دے دی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود1(4358)، (تحفة الأشراف: 6252) (صحیح الإسناد)»
لہذا بلاتاخیر صدق دل سے سیدالمرسلین محمدرسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر پختہ ایمان لائے ،اور اپنے گناہ کی معافی مانگتا رہے ،
واللہ تعالیٰ اعلم



جزاک اللہ خیرا کثیرا واحسن الجزاء فی الدنیا ولآخرا

شیخ محترم
 
Top