• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کا پیغام ہر شیعہ کے نام - - از جابر الجزائری

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نام کتاب: اسلام کا پیغام ہر شیعہ کے نام

مصنف: فضیلۃ الشیخ أبوبکرجابر الجزائری (حفظہ اللہ)
ترجمہ و تلخیص: فضل الرحمٰن رحمانی ندوی مدنی(حفظہ اللہ)
کمپوزنگ: أبوبکرالسلفی
پروف ریڈنگ / تصحیح اغلاط: محمد شاکر
بشکریہ: اردو مجلس فورم

یونیکوڈ ورڈ فائل: ڈاؤن لوڈ لنک
پی ڈی ایف فائل: ڈاؤن لوڈ لنک
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ہدیہ تبریک
مذہب شیعہ سے تعلق رکھتے والے ہر باضمیر اور صاحب عقل انسان جو حق کا متلاشی، بھلائی کا خواستگار ہو اور حصول علم کا خواہاں ہو، کی خدمت میں یہ کتابچہ بطور ہدیہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
میں پندونصائح کے اس حسین گلدستے کو ایسے شخص کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں جو مذکورہ صفات سے بہرہ ورہو لہٰذا میری ہرذی شعور انسان سے یہی گزارش ہے کہ وہ اس رسالہ کو تعصب کی عینک اتار کر غور سے پڑھے تاکہ اس کتابچہ میں مذکور پندونصائح سے مستفید ہوسکے کیونکہ میں نے اس رسالہ کو نصیحت کی غرض سے عوام کی خاطر لکھا ہے یہی میرا دیرینہ خواب تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرے اس خواب کو شرمندہ تعبیر فرمائے۔ آمین ۔
أبوبکر جابر الجزائری(حفظہ اللہ)​
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
مقدمہ

الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ نبینا محمد وآلہ وصحبہ وبعد!
میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اس حقیقت سے روشناس کراؤں، ایک عرصہ تک جس کا میں شکار رہا ہوں۔ درحقیقت میں آل بیت شیعوں سے ناواقف تھا اور مجھے پتہ نہیں تھا کہ شیعوں میں بھی کچھ لوگ اپنے آپ کو آل بیت کہلاتے ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت ہے جو نبی کریمﷺ کی محبت میں غلو کار شکار ہے مگر اس میں بے جا تاویل کرتے ہوئے وہ اہل سنت والجماعت سے اختلاف کرتے ہیں اور انھیں فاسق وفاجر قرار دیتے ہیں جو نہایت دکھ کی بات ہے کہ ایک بھائی خود اپنے کلمہ گو بھائی کو فاسق قرار دے رہا ہے یا اسے ان لوگوں کے زمرے میں گردان رہا ہے جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اس زمرے میں داخلہ ، دین اسلام سے خروج کا پیش خیمہ ہے۔ مگر میری یہ کیفیت زیادہ دن تک برقرار نہیں رہی اور بعض دینی بھائیوں نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ میں اس فرقہ کے لٹریچر کا مطالعہ کروں تاکہ اس جماعت کے بارے میں حتمی فیصلہ کرسکوں اتفاق سے اس سلسلہ میں کلینی کی کتاب "کتاب الکافی" کا انتخاب عمل میں آیا کیونکہ یہ کتاب شیعوں کے نزدیک مرجع اور سند کا درجہ رکھتی ہے چناچہ میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا اور اس کو پڑھ کر علمی حقائق سے آگاہ ہوا تو میں نے ان دوستوں سے معذرت کی جو شیعوں کے بارے میں، میرے نرم گوشہ پرچیں بچیں ہوجایا کرتے تھے اور شیعوں کی طرف داری پر میری مذمت کیا کرتے تھے میں اس خیال سے یہ موقف اختیار کرتا تھا کہ شاید اہل سنت والجماعت نا سمجھی میں اس فرقہ کے ساتھ ظلم و زیادتی کا شکار ہوں کیونکہ اہل سنت اور شیعہ کے مابین پائی جانے والی مخالفت تو سب سے لئے واضح ہے ۔ لیکن تحقیق کے بعد مجھے پتہ چلا کہ شیعہ حضرات واقعی غلطی پر ہیں، لہذا میں یہاں پر شیعہ کے نزدیک اہم ترین کتاب جو خود فرقہ شیعہ میں اپنے مذہب کے اثبات میں سند کا درجہ رکھتی ے اور شیعہ حضرات اس کو اپنے اعتقاد کی اساس گردانتے ہیں، سے چند حقائق کا خلاصہ پیش کروں گا۔ میری فرقہ شیعہ کے ہر فرد سے گذارش ہے کہ وہ ان حقائق کا اخلاص کے ساتھ فکری ومذہبی تعصب کی کالی عینک اتار کر ، اس کتاب کا مطالعہ کرکے اس کی روشنی میں اپنے مذہب پر عادلانہ فیصلہ کرے اگر اس کے بعد بھی وہ اس مذہب کے صحیح ہونے کا حکم صادر کرتا ہے تو ہماری اس سے گزارش ہے کہ اپنی کج روی پر قائم رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی نگاہ بصیرت کھول دے اور وہ اس کی روشنی میں اس حکم کے ابطال اور فاسد اور اس مذہب کی شرانگیزی کا اعتراف کرتے ہوئے اہل سنت والجماعت کے حق میں فیصلہ صادر کرسکے۔ میں اس موقع پر شیعہ کے ہر فرد سے یہی درخواست کروں گا کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرکے اس کو نصیحت کرنے کی کوشش کرے اور نجات کی غرض سے اس مذہب فاسد کو ترک کردے اور آنکھ بند کرکے اس سے براءت کا اعلان کرے کیونکہ نجات کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کی اتباع ہی کافی اور شافی ہے جس کی آغوش میں کروڑوں اور اربوں لوگ پناہ گزیں ہیں،تم لوگ کیوں اس چشمہ نور سے فیضیاب ہونے میں پہلو تہی کا شکار ہو۔

میں اہل سنت کے ہر مسلمان کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی ہٹ دھرمی کا سہارا لیتے ہوئے باطل کا مرید نہ بنا رہے جو شخص تعصب، تقید، خواہش، مفاد کے لیے اپنی غلط فکر سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ ہو تو ایسا شخص اپنے نفس کو دھوکہ دے رہا ہے اور کفر و نفاق ، شرور وفتن کے گرداب میں پھنس کر رہ گیا ہے اور اپنی آل و اولاد ، اپنے بھائی بندوں اور اپنی آئندہ نسل کے لئے معاشرے میں بطور فتنہ فساد اس کا وجود باقی ہے کیونکہ اس صورت میں ایسا شخص سماج میں ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اپنی کج فہمی کی وجہ سے لوگوں کو حق سے روشناس کرانے کے بجائے ضلالت و گمراہی کی اندھی گھاٹی میں دھکیلنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔وہ لوگوں کو سنت سے روشناس کرانے کے بجائے بدعت کی راہ پر گامزن کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا اور صاف شفاف دین اسلام کی شاہرہ سے کج روی اختیار کرکے وہ اپنے بدنما مذہب کی داغ بیل ڈالنا شروع کردیتا ہے۔

اس وقت میں شیعہ حضرات سے مخاطب ہو کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ آپ کے مذہب شیعہ کے چند حقائق اور آپ کے معاشرے اور ماحول کے چند قواعد ہیں جو خود آپ لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے گھڑے ہوئے ہیں یا آپ کے اسلاف نے ان کو بنا کر رواج دیا ہے دراصل یہ ان کے رائج کدہ سنگین جرائم کا پٹارہ ہے جس کا مکاری اور دغابازی کی خاطر پروپگنڈہ کیا گیا ہے اور شریر النفس لوگوں نے اس کو رسم ورواج کی شکل دے کر آپ کو اور آپ کی قوم کو اسلام سے اسلام کے نام پر دور کرنے اور حق کو حق کے نام پر بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش کی ہے۔

یہ سات قسم کے بدیہی حقائق ہیں جس پر آپ کی مذہبی کتاب الکافی مشتمل ہے جو آپ کے مذہب شیعہ میں سند کا درجہ رکھتی ہے اور اس کو مصدر یا مرجع تصور کیا جاتا ہے، یہ حقائق آپ کے سامنے ہیں آپ کا کام یہ ہے کہ آپ ان پر غائرانہ نظر ڈالیں اور اسے پڑھ کر غور فکر سے کام لیں اور تدبر وتفکر کریں تاکہ آپ حق کو حق سمجھیں اور باطل سے کنارہ کش ہوجائیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ اس عمل کے ذریعہ آپ لوگوں کو حق کی بصیرت عطا فرمائے اور اس کو بطور دین وملت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حق کی امانت کو سینے سے لگا کر اس کی دعوت کی سعادت نصیب فرمائے۔(انہ لاالہ الا ھو ولا قادر سواہ)۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
قرآن کریم سے بے نیازی کا عقیدہ


شیعوں کا دعویٰ ہے کہ آل بیت رسول ﷺ اپنے پاس سابقہ کتب الہٰیہ تو راۃ اور انجیل وغیرہ کی موجودگی کی وجہ سے قرآن کریم سے مستغنی ہیں!

یہ بات شیعوں کی بنیادی کتاب" الکافی" میں کتاب الحجۃ کے صفحہ ۲۰۷ پر لکھی ہوئی ہے۔ اس سے شیعوں کا عقیدہ عیاں ہوکر سامنے آجاتا ہے جس کو مؤلف کتاب نے باب ان الائمۃ علیہم السلام عندھم جمیع الکتب التی نزلت من اللہ عزوجل وانھم یعرفون کلھا علی اختلاف السنتھا کے تحت بیان کرکے اس اپنے عقیدہ کی تاکید کردی ہے اور استدلال کے طور پر دوحدیثوں کو ابو عبد اللہ سے نقل کرکے اس کی توثیق کردی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ابو عبد اللہ توراۃ، وانجیل اور زبور کو سریانی زبان میں پڑھتے تھے۔

شیعہ کا یہ عقیدہ کہ آل بیت اور شیعان آل بیت کے لئے اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ سابقہ کتب سماویہ کا علم وادراک رکھنے کی وجہ سے وہ قرآن کریم اور اس کی تعلیمات سے مستغنی ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ اپنے فرقہ کو اسلام اور دین الہٰی سے الگ کردیا جائے اور تعلیمات اسلامیہ سے ان کا دور دور تک تعلق نہ رہے اور اسلام و مسلمانوں سے وہ یکسر بیگانے ہوجائیں کیونکہ اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ کوئی شخص قرآن کریم سے کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم سے بے رغبتی کا دعوی کرتا ہے، چاہے اس کی جوبھی نوعیت ہو، تو وہ اپنے اس قول کی وجہ سے ملت اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا اور مسلمانوں کی جماعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔

میں ا ن حضرات سے پوچھتا ہوں کہ یہ مذکورہ عقیدہ قرآن کریم سے بے رغبتی کی دلیل نہیں ہے؟ قرآن کریم تو وہ کتاب ہے جس میں عقائد کے اعتبار سے، احکام کے اعتبار سے ، آداب کے اعتبار سے، امت اسلامیہ کی وحدت کا راز مضمر ہے؟ کیا دوسری تحریف شدہ اور منسوخ کتابوں کی تعلیم وتعلّم پر توجہ صرف کرنا اور ان پر عمل پیرا ہونا کتاب اللہ سے بے رغبتی اور بے توجہی کی دلیل نہیں ہے؟ کیا قرآن کی طرف سے بے رغبتی اور بے توجہی دین سے بے توجہی اور ارتکاب کفر کا باعث نہیں؟ سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر ان منسوخ اور تحریف شدہ کتابوں کا پڑھنا جائز ہوسکتا ہے حالانکہ نبی کریمﷺ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں جب توراۃ کا ایک ورق دیکھا تو آپ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا" کیا میں تمہارے پاس اس سے بہتر صاف و شفاف کتاب لے کر نہیں آیا؟" گویا آپﷺ نے حضر عمرؓ کو سرزنش فرماتے ہوئے یہ بات کہی کہ جب میں تمہارے پاس اس سے بہتر کتاب لاچکا ہوں تو پھر تمہاری توجہ کسی دوسری کتاب کی طرف مرکوز نہیں ہونی چاہیے۔

آپ ذرا اندازہ کریں کہ نبی کریمﷺ کو یہ بھی پسند نہیں تھا کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب کے بعد کوئی پہلی کتاب کے ایک بھی ورق کی تلاوت کرے پھر سابقہ کنیت کی علوم تحریف شدہ کتب پر ایمان لانے کا عقیدہ اور قرآن سے بے رغبتی کا عقیدہ کہاں کا اسلام ہے؟

ہم پورے دعوے کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ محض آل بیت رسول ﷺ کے خلاف ڈھونگ رچایا گیا ہے بلکہ ایسا اعتقاد رکھنے والے نہ صرف اہل بیت کے دشمن ہیں بلکہ یہ تو اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دینا چاہتے ہیں، میں فرقہ شیعہ کے ایک ایک فرد سے یہ بات کہنا چاہوں گا کہ تم میں سے ہر ہر فرد کا یہ مسلمہ عقیدہ بالکل غلط ہے۔ آپ کو نسل در نسل اپنے ذہنوں میں رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم سے استغناء کا اعتقاد فاسد اعتقاد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب مقدس ہے جس کی حفاظت کے لئے امت مسلمہ کے سینوں کو مخزن بنادیا ہے وہ مسلمانوں کے سینوں میں بالکل محفوظ انداز میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہے اور اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی وہ ہمارے پاس محفوظ ومامون ہے۔ اس میں نہ ایک کلمہ کی کمی ہے اور نہ ہی زیادتی ، بلکہ یہ جیسے نازل ہوئی ویسے ہی ہمارے سامنے موجود ہے اور قیامت تک اسی طرح محفوظ ومامون رہے گی۔ اس میں کسی صورت میں تحریف وتبدیل کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ اس کے حفاظت خود اپنے ذمہ لے لی ہے۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ(الحجر:۹)
"ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔"
یہی وہ قرآن ہے جس کو جبریل امین لے کر نازل ہوئے اور نبی کریمﷺ کو اس کی تعلیم دی، نبی کریمﷺ نے اس کو پڑھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ سے ہزاروں صحابہ کرام نے پڑھا ۔ ان سے سینہ در سینہ یہ امانت لاکھوں کروڑوں مسلمانوں تک منتقل ہوئی۔ اس کے بعد آج تک نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی چلی آرہی ہے اور ہم نے بھی اس کو سند کے ساتھ اپنے اساتذہ سے پڑھا ہے آج بھی عرب ہوں یا عجم ہر ایک کے سینہ میں محفوظ ہے کیا مجال ہے کہ جو اس میں ایک حرف ادھر سے ادھر ہو جائے۔

لہٰذا کسی شخص کا قرآن کریم یا اسے اس کے بعد اجزاء سے بے نیاز کا عقیدہ رکھنا کسی صورت میں جائز نہیں بلکہ یہ تو اسلام سے عین ارتداد ہے اور دین محمدیﷺ سے روگردانی کی واضح دلیل ہے۔ یہ عقیدہ رکھنے والے کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں اور اسلام بھی ایسے لوگوں سے براءت کا اعلان کرتا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
کسی بھی صحابی کے جامع قرآن اور حافظ قرآن نہ ہونے کا عقیدہ

اس عقیدہ کو" کتاب الکافی" کے مؤلف نے اپنی کتاب میں "کتاب الحجۃ،ص:۲۶" پر حضرت جابر ؓ کی طرف منسوب کرتے ہوئے بڑے شدومد کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جعفر ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے آپؓ فرما رہے تھے کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے قرآن کریم یاد ہے تو وہ جھوٹا ہے کیونکہ حضرت علی ؓ بن ابی طالب اور آپ ؓ کے بعد ائمہ کرام کے علاوہ کسی اور نے قرآن کریم من وعن نہ تو حفظ کیا ہے اور نہ یاد کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی اسے جمع کرنے کی تگ ودوکی ہے۔

میں شیعہ حضرات سے یہ پوچھتا ہوں کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ مسلمانوں میں کوئی شخص نہیں پایا جاتا جس نے قرآن کو اپنے پاس جمع کرکے محفوظ کیا ہو یا اسے حفظ کیا ہو۔ گویا ائمہ آل بیت کے یا شیعان آل بیت کے علاوہ کسی کو یہ سعادت حاصل نہیں ہے ذرا بتلائیے کیا صحابہ پر اس سے بڑھ کر بھی کوئی بہتان باندھا جاسکتاہے؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی شرانگیزی یا بلا خیزی ہوسکتی ہے؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی کجروی اور انتہا پسندی ہو سکتی ہے؟۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اس عقیدہ کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے۔

اس عقیدہ سے وہ تمام لوگ سراسر جھوٹے قرار پائیں گے جنہوں نے کتاب اللہ کو یاد کرکے اپنے سینوں میں محفوظ کیا یا اسے گتوں کے درمیان ایک مصحف میں جمع کیا مثلاً حضرت عثمان، ابی بن کعب، زید بن ثابت، عبد اللہ بن عسعود رضی اللہ عنہم اور ان جیسے سینکڑوں دیگر اصحاب رسول اللہﷺ حالانکہ ان حضرات کو متہم بالکذب قرار دینا صحابہ کرام کی شخصیات کو داغدار کرنا عظیم شخصیات کو فسق وفجور کی گندگی سے آلودہ کرنا اور ان کی عدالت کو کالعدم کرکے اسلامی خزانے پر نقب زنی کرنے کے درپے ہونے کے مترادف ہے (نعوذباللہ من ذلک) اہل بیت رسول ﷺ یہ بات کسی صورت میں بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ تو بڑے پاکیزہ اور پاک دامن لوگ تھے اس بات کو کہنے والے دشمنان اسلام اور مسلمانوں کے مخالفین کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا مخالفین اسلام نے یہ پروپیگنڈا اس لئے رچایا ہے تاکہ مسلمانوں کے اندرا افتراق و انتشار کی صورت پیدا ہو جائے اور وہ نت نئے فتنوں سے دوچار ہو جائیں۔

کتاب (الکافی) کے مؤلف کے مذکورہ پیرا یہ بیان سے یہ بات لازم آتی ہے کہ شیعوں کے نزدیک شیعان آل بیت کے علاوہ تمام کے تمام مسلمان گمراہی اور بے راہ روی کا شکار ہیں کیونکہ شیعوں کے اس قول کے مطابق یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سارے کے سارے مسلمان بعض قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض پر نہیں رکھتے حالانکہ ایسے آدمی کے کفر اور اس کی گمراہی میں کوئی شک و شبہ نہیں! کیونکہ شیعوں کے دعوے کے مطابق مسلمان اپنے پاس پورے قرآن کی عدم موجوگی کی وجہ سے اللہ کی شریعت پر پورے طور پر گامزن نہیں ہیں اور جو شخص اللہ کی شریعت کے بعض حصہ کو مانے اور بعض کو نہ مانے تو وہ کافر ہے(تعالیٰ اللہ عما یقولون علوا کبیراً) !

اور ان کے اس دعویٰ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ہوسکتا ہے قرآن کا وہ حصہ جو مسلمانوں کے پاس نہیں ہے وہ عقائد وایمانیات، شریعت و دین، عبادات و معاملات اور آداب و احکام پر مشتمل ہو! اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین اسلام ان کے قول کے مطابق نامکمل ہے۔ اس قسم کے عقیدے سے اللہ کی تکذیب لازم آتی ہے اور اللہ کے اس قول کا بطلان ثابت ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ(الحجر:۹)
"ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔"
اللہ کے فرمان کو جھٹلانا باعث کفر ہے۔ کفر ہی کیا، شریعت اسلامیہ کے ساتھ مذاق ہے۔
کیا اہل بیت کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ قرآن کریم کو صرف اور صرف اپنے لئے مخصوص کرکے اپنے پاس چھپا کر رکھ لیں اور شیعان آل بیت کے علاوہ اس کا کسی کو پتہ تک نہ ہو اور ان میں سے وہ جسے چاہیں یہ قرآن کو سونپ دیں! کیا یہ اللہ کی رحمت کو بطور جاگیرا پنے لئے خاص کرنا نہیں ہے اور تعلیمات اسلامیہ پر ڈاکہ ڈالنا نہیں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس تہمت سے آل بیت رسول ﷺ کو منزہ ومبرا رکھا ہے! اے اللہ ہم جانتے ہیں کہ تیرے رسول ﷺ کے اہل بیت اس تہمت اور بہتان سے پاک ہیں۔ اسے اللہ جس نے بھی ان پر یہ تہمت طرازی کی ہے اور ان کو اپنی اس دروغ گوئی کا شکار بنایا ہے، اس پر لعنت بھیج، اسے واصل جہنم کر، تاکہ رسوائی وبدنامی اس کا مقدر بن جائے۔

ان کے اس عقیدے سے یہ بات لازم آتی ہے کہ فرقہ شیعہ تن تنہا اہل حق کہلانے کا مستحق ہے اور وہی راہ حق پر وائل و دائم کیونکہ بلا کسی زیادتی اور نقصان کے انہیں کی دسترس میں کتاب اللہ موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اللہ کی شریعت پر پورے طور پر کوئی گامزن ہے تو وہ شیعہ حضرات ہیں اور ان کے علاوہ سارے کے سارے مسلمان گمراہی اور کجروی کا شکار ہیں کیونکہ وہ کتاب اللہ کے ایک بہت بڑے حصہ کی تعلیمات سے محروم ہیں اور ان کو پورے طور پر قرآن کی ہدایت اور رہنمائی حاصل نہیں ہے۔

اے فرقہ شیعہ سے تعلق رکھنے والے لوگو! ایک عقل مند شخص جس کو ادنیٰ سابھی شعور ہوگا وہ اس قسم کی بیہودہ بکواس نہیں کرسکتا! چہ جائیکہ وہ لوگ اس قسم کی بے ہنگم بات کریں جو اسلام کی طرف اپنا انتساب کرتے ہیں! سنو! نبی کریمﷺ اس دنیا سے اس وقت تک رخصت نہیں ہوئے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو نازل فرما کر اس کے کلمات ومعانی کی تشریح ، حرام وحلال کی توضیح اور اپنی شریعت کا اتمام نہ فرما دیا اور مسلمانوں نے اسے اپنے سینوں میں حفظ کر کے اور صحیفوں میں رقم کرکے محفوظ نہیں کیا ۔ جب تک اس کی تعلیمات عام ہوکر لوگوں کے درمیان رواج نہ پاگئیں اور خواص وعام میں سے دونوں نے اسے حفظ نہ کرلیا۔ قرآن کریم کو جمع کرنے اور حفظ کرنے کے سلسلہ میں آل بیت رسول ﷺ بھی عام مسلمانوں کی طرح ایک ہی نہج پر برابر کے شریک ہیں۔ ان کو قرآن کریم کے جمع کرنے اور حفظ کرنے کے سلسلہ میں خصوصت حاصل نہیں ہے۔

تو یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ شیعان آل بیت کے علاوہ کسی نے نہ تو قرآن کو جمع کیا ہے اور نہ حفظ کیاہے؟ ہم کہتے ہیں کہ ایسا دعویٰ کرنے والا جھوٹا اور دروغ گوہے اور اس کا یہ دعویٰ باطل اور بے بنیاد ہے۔ ہم ایسے شخص سے اگر یہ کہیں کہ ہمیں ذرا وہ قرآن لاکر دکھلاؤ جو شیعان آل بیت نے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے یا اس میں سے چند سورتیں یا ایک سورت ہی لاکر پیش کرو جس کی بنیاد پر تم یہ چیلنج کرتے پھر رہے ہو! تو اس وقت ان کا کیا موقف ہوگا؟ ہمیں یقین ہے کہ وہ بغلیں جھانکنے پر مجبور ہو جائیں گے اور ان کے پیروں تلے سے زمین نکل جائے گی! سبحانک ھذا بھتان عظیم۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
انبیاء کے معجزات آل بیت کے ساتھ مخصوص ہیں


مؤلف کتاب [الکافی] کا یہ اقتباس اس حقیقت کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے نقل کیا ہے کہ حضرت ابو بصیر نے امام جعفرعلیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ امیر الؤمنین علیہ السلام ایک دفعہ رات کے اندھیرے میں گھر سے باہر نکلے اور آپؓ فرما رہے تھے آہستہ گفتگو کرو۔ رات کافی اندھیری! امام نکل کر آرہے ہیں وہ حضرت آدم علہ السلام کی قمیص زیب تن کیے ہوئے ہیں اور اپنی انگلی میں سلیمان علیہ السلام کی انگو ٹھی بھی پہنے ہوئے ہیں اور ہاتھ میں عصا موسیٰ پکڑے ہوئے ہیں۔

صاحب کتاب الکافی نے اپنی کتاب میں (کتاب الحجۃ، ص:۲۲۷) پر حضرت حمزہ ؓ سے حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام کے واسطے سے یہ اقتباس نقل کیا ہے کہ وہ فرما رہے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام کی الواح اور ان کا عصامیرے پاس ہے، اور ہم انبیاء کے وارث ہیں۔

اے فرقہ شیعہ سے تعلق رکھنے والو! حقیقت میں اس طرح کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے تم لوگ بہت سے ایسے معاملات میں پھنسے ہوئے ہو جو عقیدہ فاسدہ میں اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں اب عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ تم تو بہ کرو اور فوراً اس عقیدہ کو چھوڑ دو کیونکہ اس عقیدے کے نتائج نہایت خطرناک ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں۔

۱۔ اس سے حضرت علی ؓ کی تکذیب لازم آتی ہے کیونکہ حضرت علیؓ سے جب سوال کیا گیا کہ کیا رسول ﷺ نے آپ ؓ اور آل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کوئی مخصوص چیزوں سے نوازا ہے ، تو آپ ؓ نے جواب دیا کہ نہیں الا یہ کہ جو میری تلوار کے میان میں ہے۔ پھر آپؓ نے تلوار کے میان سے ایک صحیفہ نکالا۔ اس میں چار چیزیں لکھی ہوئی تھیں ان چار چیزوں کو ائمہ حدیث میں سے امام بخاری اور امام مسلم رحمہ اللہ علیہم نے اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کیاہے۔

۲۔ شیعوں کا مذکورہ عقیدہ صحابی رسول کی ثقاہت وعدالت اور صداقت کی تکذیب کا ذریعہ ہے اس قول کی نسبت کا مطلب یہ ہے صحابی مذکور نعوذباللہ جھوٹے ہیں حالانکہ صحابہ کی ذات سے جھوٹ جیسی بری صفت صادر ہونا ناممکن ہے۔

۳۔ یہ عقیدہ اس قسم کا اعتقاد رکھنے والے شخص کی گھٹیا سوچ سمجھ اور کج فہمی کی واضح دلیل ہے اور ایسا شخص یقیناً کم عقل ہے اور اس کو اپنی عزت و آبرو تک کی پرواہ نہیں ہے گویا کہ اپنی ذات تک کا اس کو احترام کرنا نہیں آتا اور نہ ہی اپنی ناموس کا کوئی خیال ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کہاں ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگھوٹھی؟ اور کہاں ہے عصا موسیٰ علیہ السلام اور کہاں ہیں الواح موسیٰ علیہ السلام ؟ تو اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا اور ہمارا دعویٰ ہے کہ اس کسی صورت میں وہ مذکورہ چیزیں فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ یہ قصہ خود ساختہ ہے اور اس قصے کو دورغ گوئی اور جھوٹی باتوں سے مزین کرکے حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہٰذا ان کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں میں سے کسی ایک بھی چیز کا ثبوت فراہم کرسکیں جس کا وہ دعویٰ کررہے ہیں یہی وہ راز ہے جو اول سے آخر تک اس خود ساختہ قصہ کی غلط بیانی کا پردہ چاک کرتا ہے۔

اس سے بھی واضح بات یہ ہے کہ اگر شیعہ حضرات اپنے دعوے میں حق بجانب ہیں تو ان پر کتنے ایسے نازک مواقع آئے کہ بار ہا شرو ر وفتن کے گرداب میں پھنس کر شیعوں کو تاخت وتاراج ہونا پڑا۔ اگر ان کے پاس عصا موسیٰ یا خاتم سلیمان کا وجود تھا تو انہوں نے اپنے دشمنوں کے خلاف اس کو استعمال کیوں نہ کیا؟ تاکہ ان کا دشمن نیست ونابود ہو جاتا اور اس کا نام ونشان تک باقی نہ رہتا ۔ آخر ان خطرناک مواقع پر انہوں نے ان معجزاتی سازو سامان کو استعمال کرکے اپنا دفاع کیوں نہیں کیا۔

۴۔ شیعہ کی اس کتاب کی تالیف کا بنیادی مقصد شیعوں کو ہدایت و رشد کا سرچشمہ اور نوروحکمت کا منبع ثابت کرنا ہے اور شیعوں کے علاوہ اسلام اور مسلمانوں کو گمراہ اور بے راہ رو قرار دینا ہے، ان تمام حرکتوں کا لب لباب یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے شیعہ مذہب کی بقا کی گارنٹی فراہم ہوجائے، چاہے اس کے لئے مسلمانوں کو جو بھی قیمت چکانا پڑے تاکہ اس فرقہ کے مجتہدوں اور سرداروں اور ان کے حاشیہ برداروں میں سے فاسد نیتوں کے حاملین اور خبیث طبیعت کے انسانوں و مسلمانوں کے شیرازے کو منتشر کرکے، اور اسلام کی عمارت کو منہدم کرکے، اس کے کھنڈرات پر راج کرنے کا موقع مل جائے اگر شیعوں کے عقیدے کا بنیادی مقصد اس قسم کے فاسد لائحہ عمل کو وجود میں لانا ہے تو میں آنکھ بند کرکے کہتا ہوں کہ یہ بڑا ہی فاسد اور شرانگیز عقیدہ ہے اور یہ لوگ بڑے ہی بدطینت اور خبیث النفس ہیں جو اس عقیدہ کے حامل ہیں جو اس عقیدہ سے رضا مندی کا اظہار کرتے ہیں یا جو اس عقیدہ کے حاملین کی کاسہ لیسی کا شکار ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اہل بیت کا تمام نبوی علوم سے بہرہ مند ہونے کا عقیدہ


اس حقیقت کے ثبوت کے لئے صاحب کتاب کا وہ قول ہی کافی ہے جس کو انہوں نے اپنی کتاب مذکور میں کتاب الحجہ، ص:۱۳۸ پر ذکر کیا ہے وہ اس میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبصیر سے روایت ہے کہ وہ ایک مرتبہ ابوعبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دریافت کیا کہ شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت علی کو علم کے ہزار باب سکھلائے ہیں۔ ابو عبد اللہ نے فرمایا کہ اے ابو محمد! بلاشبہ رسول اللہﷺ نے حضرت علی کو علم کے ہزار باب سکھلائے ہیں اور ان مین سے ہر باب ہزار ہزار ابواب پر مشتمل ہے۔ اور ہمارے پاس ایک صحیفہ ہے جس کو جامعہ کہا جاتا ہے اور آپ کو کیا معلوم کہ یہ جامعہ کیا ہے؟ یہ ایک ایسا صحیفہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیمائش کے مطابق اس کی لمبائی ۷۰ ستر ہاتھ ہے اور نبی کریمﷺ نے اس کو خود اپنے زبان مبارک سے املاء کروایا ہے اور حضرت علی نے اس کو اپنے ہاتھوں سے لکھا ہے۔ اس میں حلال و حرام اور لوگوں کو جن احکامات کی ضرورت پڑتی ہے ، اسے ثبت کردیا گیا ہے حتیٰ کہ دیت اور خون خرابہ میں اگر خراش تک آجائے اس کا بھی اس میں ذکر ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا خدا کی قسم یہی حقیقی علم ہے۔ فرمایا کہ ہاں! بلاشبہ یہی علم ہے اور دوسرا کوئی علم نہیں ہے۔ ابو عبد اللہ لمحہ بھر کے لیے خاموش رہے پھر گو یا ہوئے کہ ہمارے پاس علم جفر ہے اور تم کو کیا معلوم کہ علم جفر کیاہوتاہے؟ فرمایا کہ جفر سے مراد وہ برتن ہے جس میں انبیاء اولیاء اور علمائے بنی اسرائل میں جو لوگ فوت ہوچکے ہیں، ان کے علوم و معارف موجود ہیں۔ میں نے کہا: بلاشبہ علم تو یہی ہے۔ آپ نے فرمایا : ہاں یہی علم ہے! بلاشبہ اسی کو علم کہا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے سکوت طاری رہا ۔ پھر فرمایا کہ ہمارے پاس مصحف فاطمہ علیہا السلام ہے اور لوگوں کو کیا پتہ مصحف فاطمہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ مصحف فاطمہ کیا ہے؟ ابو عبد اللہ نے جواب دیا کہ مصحف فاطمہ تمہارے موجودہ قرآن سے تین گناہ بڑا ہے اور واللہ! اس میں تمہارے اس قرآن کا ایک حرف تک موجود نہیں ہے۔ میں نے کہا: واللہ! اصلاً یہی علم حقیقی ہے۔ فرمایا کہ میرے پاس ماضی کا علم ہے اور مستقبل میں قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس کا بھی علم ہے۔
اس باطل عقیدہ کا حتمی نتیجہ مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں نکلتا ہے:

اس عقیدہ باطلہ کی وجہ سے کتاب اللہ سے بے نیازی لازم آتی ہے جو صریح کفر ہے۔
عوام الناس کے سوا علوم ومعارف کو آل بیت علیہم السلام کی ذات کے ساتھ مخصوص سمجھنا ایسی صریح خیانت ہے جس کو نبی کریمﷺ کی ذات کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے اور نبی کریمﷺ کی ذات کے ساتھ خیانت منسوب کرنا کفر ہے ایسا اعتقاد رکھنے والا کسی بنیاد پر مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں۔ اس عقیدے سے حضرت علیؓ کی تکذیب لازم آتی ہے اور آپؓ کے اس صریح اور مستند قول کا بطلان ثابت ہوتا ہے جس میں آپؓ نے صراحت فرما دی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے آپ بیت کے لئے احکام شریعت میں سے کسی چیز کو یا علوم ومعرفت میں سے کسی قضیہ یا نکتہ کو انہیں مخصوص طور پر بتلا کر صیغہ راز میں نہیں رکھا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ بول کر کسی بات کو منسوب کرنا کبیرہ گناہ ہے اور اللہ کے نزدیک اس حرکت کا شمار قبیح ترین حرکت میں ہوتا ہے کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ مجھ پر جھوٹ گھڑ کر کسی جھوٹی بات کو تھوپنا تمہارے آپس میں ایک دوسرے پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے اگر کسی شخص نے مجھ پر عمداً جھوٹ باندھا تو وہ ضرور جہنم رسید ہوگا۔

شیعہ کے اس اعتقاد سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر تہمت طرازی لازم آتی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس خاص مصحف تھا جو قرآن کریم کے مقابلہ میں تین گنا بڑا تھا اور اس میں قرآن کریم میں موجود حرفوں میں سے ایک حرف بھی پایا نہیں جاتا ہے۔ آخر حضرت فاطمہ نے سب لوگوں سے اس قرآن کو چھپایا کیوں؟

اس قسم کے اعتقاد رکھنے والے لوگوں کو کس بنیاد پر مسلمان کہا جائے؟ کی اایسا عقیدہ رکھنے والے مسلمان ہوسکتے ہیں؟ اور ان کا شمار اہل سنت والجماعت ے زمرے میں ہوسکتا ہے ؟ کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس علومومعارف کا ایسا خزانہ ہے، اہل سنت والجماعت کو جس کی دور دورکی ہوا تک نہیں لگی ہے، وہ اس جادہ ہدایت پر گامزن ہیں مسلمانوں کو جس کا پتہ تک نہیں ہے۔ اس قسم کا تصور رکھنے والوں کا اہل سنت والجماعت سے کوئی ربط تعلق ہر گز نہیں ہوسکتا؟

واضح طور پر میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ اس قسم کی دروغ گوئی اور بے عقلی پر مشتمل باتوں کا اسلام کی طرف انتساب ہر گز درست نہیں ہوسکتا ہے۔ دین اسلام اللہ کا منتخب کردہ دین ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دین کے علاوہ اور کوئی دین قابل قبول نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ(آل عمران:۸۵)
"جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا خواہاں ہو اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔"
شیعہ برادران سے میری درخواست ہے کہ وہ ہمارے ہم رکاب ہوجائیں تاکہ ہم سب کے سب اس بڑی مصیبت اور عظیم مشکل سے نجات باجائیں۔ جس کی گہری کھائی میں ہم لوگ گرچکے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اے اللہ! لوگوں نے آپ کی ذات کے ساتھ جو جھوٹ اور بہتان باندھا ہے اور تیرے رسول ﷺ کی ذات اور آل بیت رسول ﷺ کی ذات کو جن بہتان بازیوں اور دروغ گوئیوں سے آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے اور تیرے نیک بندوں کو گمراہ کرنے ، تیرے دین کی بنیاد کو بگاڑنے ، تیرے نبی کی امت کے شیرازے کو منتشر کرنے اور تیرے رسول محمدﷺ کے کلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے جو بے ہنگم اور باطل اسلوب اپنایا ہے، ہم اس سے براءت کا اعلان کرتے ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
شیعہ کی قربانی کا عقیدہ

مؤلف کتاب[الکافی] نے اس بات کا انکشاف اپنی کتاب میں کتاب الحجۃ کے ص:۲۶۰ پر اس قول سے کیا ہے کہ ابو الحسن الکاظم جو کہ شیعہ اثنا عشریہ کے ائمہ میں ساتویں امام ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مرتبہ شیعوں پر غضب ناک ہوگیا اس حالت میں مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ یا تو تم رہو اور شیعوں کو قربان کردو یا خود قربان ہو جاؤ اور شیعوں کو بچا لو تو میں نے قربانی دے کر کے شیعوں کو بچا لیا۔

یہاں ہمارا شیعوں سے یہ سوال ہے کہ اس موضوع اور خود ساختہ قصے کے کیا مقاصد ہیں؟ جس کی وجہ سے تم نے یہ اعتقاد اپنایا ہےتم کو اس قصہ پر ایمان لانے اور اسکی تصدیق کرنے کے لئے مجبور کیا گیا اور اس کایت کو من وعین تسلیم کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا گیا کہ موسیٰ کاظم رحمہ اللہ نے اپنے متبعین کو بچانے کی غرض سے اپنے آپ کو قربان کردینے پر رضا مندی کا اظہار کیا تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے متبعین کی مغفرت فرما دے اور انہیں جنت میں بے حساب وکتاب کے داخل فرما دے۔

یہاں میں شیعہ برادری سے مخاطب ہوکر یہ کہنا چاہوں گا کہ ذرا ہوش کے ناخن لو! اور سمجھ بوجھ سے کام لو! ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ حضرات کو اپنی رضا اور خوشنودی کی راہ پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور قول و عمل میں صراط مستقیم پر چلائے۔ ذرا اس دروغ گوئی اور بہتان طرازی پر غور کرو۔ اگر مذکورہ عقیدے کو دروغ گوئی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ در حقیقت یہ کھلی ہوئی بہتان تراشی اور اتہام بازی ہے ۔ اس کو الزام تراشی کے علاوہ اور کچھ نام نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ اس میں حق سے اغماض کیا گیا ہے اور حقیقت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ ذرا مذکورہ پیرا گراف کو غور سے پڑھو تمہیں پتہ چل جائے گا کہ یہ پیرا گراف کتنے خطرناک اعتقادات کا ائینہ دار ہے۔ اسن اعتقادات کی حقیقت کا اگر آپ کو پتہ چل جائے تو آپ لوگوں میں سے کوئی شخص یہ گوارانہ کرے کہ اسے اس کی ذات کی طرف منسوب کیا جائے یا اس کے نام سے منسوب کرکے ان کا حوالہ دیا جائے۔ اس عقیدے کی خرابیاں مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ مذکورہ اقتباس سے ، جس کو شیعوں نے ابو الحسن موسیٰ کاظم رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ کی نسبت لازم آتی ہے کیونکہ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کاظم رحمہ اللہ علیہ کو وحی کے ذریعہ بتلایا کہ وہ شیعہ برادران پر غصے ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کاظم کو اختیار دیا کہ یا تو اپنے نفس کو بچالیں اور پوری شیعہ برادری کو قربانی کی نذر کردیں یا خود قربانی پیش کرکے اپنی قوم کو بچالیں تو انہوں نے اپنی قربانی پیش کرکے شیعوں کو ہلاکت وبربادی سے بچا لیا۔

ہمارا کہنا ہے کہ یہ اللہ کی ذات کے متعلق صریح جھوٹ اور دروغ گوئی ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا
"اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے۔"
۲۔ اس اعتقاد سے حضرت موسیٰ کاظم رحمہ اللہ علیہ پر تہمت طرازی اور بہتان تراشی لازم آتی ہے کیونکہ حضرت موسیٰ کاظم رحمہ اللہ علیہ نہ تو نبی تھے اور نہ ہی رسول۔ ان کی جانب اس بات کا انتساب حضرت موسیٰ کاظم رحمہ اللہ کی نبوت کی غمازی کرتا ہے۔ جبکہ ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ مسلمانوں کا اس شخص کے کفر پر اتفاق ہے جو نبی کریمﷺ کے بعد کسی شخص کی نبوت کا اعتقاد رکھے کیونکہ وہ اپنے اس قول کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کی صریح خلاف ورزی کرنے والا کہلائے گا جس میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اعلان فرما دیا ہے کہ محمدﷺ رسول اللہ ہیں اور خاتم النّبیین ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ(الاحزاب:۴۰)
"محمد ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں البتہ اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں۔"
اس اعتقاد سے شیعوں اور نصرانیوں کے عقیدہ میں یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے جیسے کہ نصاریٰ کا اعتقاد ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے پوری انسانیت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ دیا اور تمام انسانیت کے گناہوں کا کفارہ بن گئے۔ حضرات شیعہ اسی پس منظر میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کاظم رحمہ اللہ نے شیعوں کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اپنے رب کریم کے غصہ کا تاوان چکا دیا اور اس کے عذاب کا فدیہ پیش کردیا ۔ پتہ یہ چلا کہ شیعہ اور نصاریٰ دونوں میں یہ عقیدہ کے اعتبار سے مماثلت پائی جاتی ہے گویا دونوں کا عقیدہ ایک ہی ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ نصاریٰ کتاب اللہ کی رو سے کافر ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت موجود ہے تو کیا شیعہ حضرات ایمان کے بعدکفر کی آلودگی سے اپنے دامن کو بچانا نہیں چاہتے؟

کیا صریح کفر سے بھی اپنے آپ کو بچانے میں انہیں دریغ ہے؟ کیا ایمان کے بعد کفر کا ارتکاب انہیں زیب دیتا ہے؟ اور کیا اس پر وہ راضی ہیں کہ کفر صریح کا کھلم کھلا ارتکاب کریں؟
قد ھیؤوک لامر لو فطنت لہ
فاربا بنفسک ان ترعیٰ مع الھمل​
"انہوں نے تم کو ایسے کام کے لئے آمادہ کیا ہے اگر تمھیں اس کی حقیقت کا پتہ چل جائے تو تم ان جیسے بے لگام لوگوں کے ساتھ تعلق رکھنے سے گریز کرو۔"

اے شیعہ حضرات! میری تمھیں نصیحت ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت وبربادی سے بچاؤ۔
ان شیطانی اور بیہودہ حرکتوں ، بے اصل کہانیوں اور بے بنیاد باتوں کا عقیدہ رکھنے سے توبہ کرو اور اس باطل عقیدہ سے براءت کا کھل کھل اعلان کرکے اس شیطانی چولے کواتار کر پھینک دو کیونکہ تمہارے سامنے اس کا نعم البدل جادہ حق جو مومنوں کا راستہ ہے ، موجودہے، اسے اختیا رکرو کامیاب و کامران ہو جاؤ گے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
امام کی معصومیت کا عقیدہ

یہ ایک ایسا فاسد عقیدہ ہے جو ائمہ شیعہ کو رسول اللہ ﷺ کے مرتبہ کا اہل قرار دیتا ہے اس کو صاحب الکافی نے دو روایتوں کے ذریعہ ثابت کیا ہے:

(۱)۔۔۔۔۔ ان کی مذہبی کتاب الکافی کے کتاب الحجہ کے ص، ۲۲۹ پر وارد ہوا ہے حضرت مفضل ابوعبد الہ کے پاس تھے انہوں نے ابو عبد اللہ کومخاطب کرتے ہوئے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی بندے کی اطاعت کو بندوں پر فرض قرار دیا ہے اور اس سے آسمان کی وحی روک دی گئی ہو۔ ابوعبد للہ نے جواب دیا کہ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ معززومکرم ہے اس کی ذات رحیم وکریم سے بات بعید از قیاس ہے کہ وہ کسی بندے کی اطاعت کو اپنے بندوں پر فرض قرار دے اور اس سے آسمان کی خبروں کو صبح شام آنے سے روک دے۔"

یہ روایت اپنے منطوق کے اعتبار سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر شیعوں کی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے جس طرح اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کا ہے۔ بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے ائمہ پر وحی بھی آتی ہے اور صبح و شام ان کے ائمہ آسمان کی خبروں سے بھی بذریعہ وحی مطلع ہوتے ہیں گویا انہوں نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شیعوں کے ائمہ اور انبیاء مرتبہ میں برابر اور یکساں ہیں اور دونوں میں ان کے اعتقاد کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔

اس بات کا اعتقاد رکھناکہ ہمارے نبی محمدﷺ کے بعد بھی کوئی ایسی ذات ہے جس پر وحی آتی ہے وہ بھی نبی ہے، اسلام سے مرتد ہونے کی واضح نشانی ہےا ور باجماع امت یہ صریح کفر ہے لیکن حیرت ہے کہ اس کے باوجود، شیعہ حضرات جن کو اپنے اس باطل عقیدہ پر ناز ہے جس کے اثبات کے لئے وہ جھوٹ پر جھوٹ اور دروغ پر دروغ کرتے ہیں ۔ اس قسم کے عقیدہ کی طرف کس بنیاد پر انشراح صدر ہے؟ حالانکہ ان کا اس قسم کا اعتقاد انہیں اسلام سے کوسوں دور لے جا کر کھڑا کر دیتا ہے تاکہ وہ اسلام سے بے بہرہ ہو کر زندگی گزاریں اور اسلام سے ان کا دور کا تعلق تک نہ رہے۔ اگرچہ اپنی سوچ کے مطابق انہوں نے یہ باطل عقیدہ اس لئے گھڑا تھا کہ ایمان اور اسلام کے سایہ میں وہ بھی سعادت مندی کی زندگی سے محفوظ ہوں اور اہل اسلام و ایمان کے زمرے میں شامل ہو کر کامیاب و کامران ہوسکیں مگر ان کے اس اعتقاد کی نحوست نے انہیں اسلام و ایمان کا چولا اتار کر پھینک دینے پر مجبور کردیا ہے اور تعلیمات اسلامیہ اور احکامات دینیہ سے ان کے ربط وضبط کو جڑ سے کاٹ کر پھینک دیا ہے۔

اے اللہ ان مجرموں کے ہاتھ ناکارہ بنادے جنہوں نے ان لوگوں کو تیری ذات سے کوسوں دور کر کے تیری ذات سے تعلق کی جڑوں کو کاٹ کر پھینک دیاہے اور انہیں تیرے صراط مستقیم سے روگردانی پر آمادہ کرکے گمراہی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

(۲)۔۔۔۔۔دوسری روایت وہ ہے جس کو صاحب کتاب(الکافی) نے کتاب الحجۃ کے صفحہ ۲۲۹ پر نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ محمد بن سالم سے روایت ہے کہ میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام کو کہتے ہوئے سنا ہے ائمہ رسول اللہ ﷺ کے قائم مقام ہیں اگرچہ وہ انبیاء نہیں ہیں اور ان کے لئے عورتوں کے بارے میں وہ معاملہ روا نہیں ہے جو نبی کریمﷺ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کے ائمہ کا مرتبہ رسول اللہﷺ سے کسی صورت میں کم نہیں ہے بلکہ وہ من و عن رسول اللہﷺ کے مرتبہ پر فائز ہیں۔

اگرچہ ظاہری طور پر اس روایت میں تناقض اور نظر آرہا ہے لیکن حقیقت میں یہ روایت بھی ائمہ کی عصمت اور ان کی اطاعت کے وجود کی غماز ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ ائمہ کے پاس وحی آتی ہے کیونکہ ان کا یہ بات کہنا کہ الائمہ بمنزلۃ الانبیاء او بمنزلۃ رسول اللہﷺ الافی موضوع النساء۔ ائمہ مرتبہ کے اعتبار سے رسول اللہﷺ کے قائم مقام ہیں عورتوں کے معاملہ کے علاوہ ان میں اور انبیاء ورسول اللہﷺمیں فرق نہیں ہے" یہ اس بات کی صراحت ہے کہ شیعوں کے ائمہ معصوم ہیں اور ان کی اطاعت واجب ہے اور ان کے لئے وہ تمام خصائص اور کمالات ہیں جس سے نبی کریمﷺ کی ذات بہرہ ور تھی۔ ہم یہاں یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اس تمام کذب بیانی کے پیچھے صرف اور صرف مقصد کار فرما ہے کہ اس طرح کے اعتقادات اور اختلافات کو ہوا دیکر فرقہ شیعہ کو ملت اسلامیہ اور اہل سنت والجماعت سے الگ تھلگ کردیا جائے اور یہ ثابت کر دیا جائے کہ شیعہ حضرات مسلمانوں کے علوم و فنون کے خزینہ اور حکمت معرفت کے گنجینہ سے مستغنی ہیں۔ جو قرآن کریم اور سنت نبی کریمﷺ کی صور میں مسلمانوں کے پاس موجود ہے یہی وجہ ہے کہ شیعوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس مصحف فاطمہ ہے جو قرآن کریم سے بھی فائق ہے اور انکے پاس جفر اور جامعہ اور سابق انبیاء ورسل اور ان ائمہ معصومین کی وحی کا مسودہ موجود ہے جو مرتبہ میں نبی کریمﷺ کے برابر ہیں۔ اس کی رو سے وہ کتاب وسنت سے، نعوذباللہ ، بے نیاز ہیں مگر چار عورتوں سے زیادہ نکاح کے جواز میں ان کے پاس کوئی استثنائی شکل نہیں ہے یہ اور اس قسم کے اعتقاد ہیں جو شیعوں کو اہل سنت والجماعت کے زمرے سے اس طرح نکال کر الگ کردیتے ہیں جیسے کہ(گوندے ہوئے) آٹے سے بال نکال کر الگ کردیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان شرپسندوں اور ان خبیث النفس لوگوں کو نیست ونابود کرے! جنہوں نے امت مسلمہ کے جسم سے اس کے عزیز ترین حصہ کو جدا کر کے اسلام کے نام پر فتنہ وفساد برپا کرنے کی کوشش کی ہے اور ایک بہت بڑی مخلوق کو آل بیت رسول ﷺ کی نصر اور مدد کے نام پر آل رسول ﷺ کے بتلائے ہوئے طریقہ سے کوسوں دورلے جاکر کھڑا کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ان لوگوں کو محض اپنے فضل وکرم سے ہدایت کی دولت سے مالا مال کرے اور دین کا پکا اور سچا داعی بنادے اور اسلام کا صحیح فہم اور دین کی صحیح فکر عطا فرما کر سرخروئی سے نوازے۔(آمین!)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
صحابہ کرام کے ارتداد کا عقیدہ

شیعہ کا یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر تقریباً ان کے تمام رؤ سا کا اجماع ہے، خوا وہ ان کے بڑے بڑے فقہا ء ہوں یا علماء ہوں یا دعاۃ ہوں اس عقیدہ کی توضیح میں ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ شیعوں میں سے ہر شخص اسی عقیدہ کا اعلان اور پرچار کرتادکھائی دیتا ہے اور ان میں سے اگر کسی نے اس سلسلہ میں سکوت اختیار کیا تو سمجھ لو اس نے تقیہ کرکے اپنے عقیدہ کو چھپایا ہے ورنہ وہ اسی مذکورہ عقیدہ کا قائل ہے۔ اس نے چپ سادھ کراپنے شیعی شعار دینی کادفاع کیا ہے ہم اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرنے کیلئے مندرجہ ذیل نصوص کا ذکرنا گزیر سمجھتے ہیں:

۱: (روضۃ الکافی للکلینی) کے صفحہ ۲۰۲ پر یہ روایت نقل ہے کہ حضرت حنان اپنے والد کے واسطہ سے حضرت جعفر ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں، انہوں نے حضرت مقداد، اور حضرت سلمان اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہم اجمعین سے تفسیر صافی میں مذکورہ بالا روایت نقل کی ہے۔

صافی شیعوں کی عظیم الشان اور انتہائی معتبر تفسیر تصور کی جاتی ہے اس میں بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں جو شیعوں کے اس اعتقاد کی تائید کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی وفات کے بعد آل بیت رسول ﷺ اور معدودے چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین مثلا حضرت سلمان اور حضرت عمار اور حضرت بلال رضی اللہ عنہم کے علاوہ تمام کے تمام صحابہ کرام نعوذباللہ مرتد ہوگئے ۔

جہاں تک شیخین کریمین حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کا تعلق ہے تو شیعوں کی کتابوں میں ایسی نصوص پائی جاتی ہیں جو شیخین کی تکفیر کے لئے بطور دلیل موجود ہیں۔ انہیں اقوال میں ایک قول کو کتاب (الکلینی) کے مؤلف نے اپنی کتاب مذکور کے ص نمبر ۲۰ پر نقل کیا ہے ۔ انہوں نے حضرت ابوجعفر رضی اللہ عنہ کی طرف روایت کو منسوب کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ" میں نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے شیخین کے بارے میں سوال کیا ۔ انہوں نے جواب دیا کہ شیخین اس دنیا سے اس حالت میں رخصت ہوئے کہ وہ مرتد ہوچکے تھے اور ان کو توبہ بھی نصیب نہیں ہوئی اور نہ ان کو اس بات کا خیال آیا کہ انہوں نے امیر المؤمنین کے ساتھ کیا سلوک اور برتاؤ روارکھا تھا۔ ان دونوں پر اللہ کی ملائکہ اور ساری مخلوق کی لعنت ہو۔"[نعوذباللہ]

شیعوں کی کتاب الکلینی میں حضرت شیخین رضی اللہ عنہما کے بارے میں ص ۱۰۷ پر یہ بات لکھی گئی ہے " کہ تم مجھ سے ابوبکر و عمر کے بارے میں پوچھتے ہو؟ میری عمر کی قسم! وہ دونوں تو منافق ہوگئے تھے( نعوذبالہ من ذلک) ان دونوں نے اللہ کے کلام کو رد کردیا تھا۔ رسول اللہﷺ سے استہزاء کیا اور ان کا مذاق اڑایا تھا، وہ دونوں کافر تھے ان پر اللہ کی اور ملائکہ اور تمام مخلوق کی لعنت ہو۔"

ہم شیعہ برادران سے مخاطب ہوکر کہنا چاہیں گے کہ کیا کوئی عقل مند اور ذی ہوش انسان اصحاب رسول ﷺ پر کفر اور ارتداد کا الزام تھوپ سکتا ہے؟ کیا یہ چیز تصور کی جاسکتی ہے کہ اصحاب رسول ﷺ پر اس قسم کا بہتان باندھا جائے حالانکہ اصحاب رسول ﷺ ہی نبی کریمﷺ کے وفادار ساتھی اور آپﷺ کے دین کے وفاشعار اور برگزیدہ مدد گار تھے اور آپﷺ کی لائی ہوئی شریعت اسلامیہ کے حاملین تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان سے رضا مندی کا اظہار کیا ہے اور اپنے نبی ﷺ کی زبانی دنیا ہی میں ان کو جنت کی بشارت سے نوازا ہے۔ ان کے ذریعہ اپنے دین کی حفاظت اور حمایت کا کام لیا ہے۔ بلکہ انہیں کے ذریعہ دین اسلام کو بام عروج تک پہنچاکر ان کے نام کو دونوں عالم میں قیامت تک کے لئے زندہ جاویدبنادیا ہے اب ہم شیعہ برادران سے یہ بات پوچھنا چاہتے ہیں کہ تم نے اصحاب رسول ﷺ کی ذات کو لعنتی، کافر اور فاسق کہا ہے۔ حقیقت میں اصحاب رسولﷺ پاک وصاف ہیں کیا اس حرکت کے پس پردہ کوئی چال یا کوئی مقصد کارفرما نہیں ہے؟ ہم کہتے(ہیں) کہ ایسا ضرور ہے اس کا بنیادی اور جوہری مقصد یہ ہے کہ اسلام کے چراغ کو ہمیشہ ہمیش کے لئے گل کردیا جائے اور یہودیوں اور مجوسیوں سے برسر پیکار ہونے والے فریق کا نام ونشان مٹادیا جائے اور شرک و بت پرستی کے پرستاروں سے نبرد آزمائی کرنے والوں خو نیست ونابود کردیا جائے۔

شیعوں کے اس عقیدہ کابنیادی مقصد اس مجوسی دور کا احیا ہے جس کی اسلام اور مسلمانوں نے اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور جس کو تاخت وتاراج کرکے اسلامی جھنڈا لہرادیا تھا ارو اس کے نام و نشان تک کو یکسر مٹا کررکھ دیا تھا۔ گویا ہمیشہ ہمیش کے لئے اس کا نام ونشان کا وجود تک ختم ہو گیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انہی لوگوں نے اپنے مذموم مقاصر کی تکمیل کی غرض سے کیا مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ فاروق اعظم کو مجوسی غلام سے قتل نہیں کروایا؟

کیا ان مخالفین اسلام نے خلیفہ المسلمین حضرت عثان ؓ کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا؟ حضرت عثمانؓ جس بغاوت کی نذر ہوکر شہید ہوگئے۔ دراصل دیار اسلام ور مسلمین میں سب سے پہلے فتنہ کا بیج یہی بغاوت تھی، جس کی بنیاد عبد اللہ بن سبا یہودی نے رکھی تھی اور اس منحوس فتنہ کے رحم سے شیعہ جیسے شیطان نے جنم لیا یہ اسی یہودی کی اولاد ہیں جو ولایت علی رضی اللہ عنہ کی عم برداری کے دعوے دار ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے سینے پر چڑھ کر ڈنکا بجانے کے درپے ہیں۔ گویا مجوسی اور یہودی کی صورت میں ننگی تلوار بن کر اسلام اور مسلمانوں کے سر پر لٹکے رہنا چاہتے ہیں۔ جو ولایت کی دعوت دے کر اصحاب رسول ﷺ کی تکفیر کے درپے ہیں، انہوں نے مسلمانوں میں سے ہر اس شخص کی تکفیر اور ہر اس فرد کو اپنی لعن طعن کا نشانہ بنایا ہے جس نے اصحاب رسو ل ﷺ سے اپنی رضا مندی کا ظہار کیا یا اصحاب رسول ﷺ کی خوشنودی چاہی ہے۔ انہوں نے امامت کی بدعت کی داغ بیل ڈال کر مسلمانوں کے خلاف سازش کا ضال بنا ہے یہی وہ سازش ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے مابین گھمسان کی جنگیں ہوئیں، اس سے اسلام کا شیرازہ منتشر ہوگیا اور اسلام کی عمارت کی بنیادیں ہل گئیں یہ مسلمانوں کے ان دشمنوں کی سازش کے نتیجہ میں ہوا جو اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں مگر حقیقت میں ایسے لوگ اعداء اسلام سےبھی زیادہ خطرناک ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کی صف میں دراندازی کرکے مسلمانوں کی مخالفت کے درپے ہیں اور ان کے بالمقابل صف آرائی کرکے اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کی کوشش میں مصروف ہیں جو ملت اسلامیہ کے مد مقابل دشمنان اسلام کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔

ہم شیعہ برادران سے کہنا چاہتے ہیں کہ تمہارے مذہب کی بنیاد اور اس کی خشت اول ان تلخ حقائق پر قائم ہے انہی کی خدمت کی غرض سے تم لوگوں کے عقائد وضع کئے گئے ہیں اور بلاشبہ تمہارے مذہب کا اجراء اسی بنیاد پر ہوا ہے گویا دین اسلام کے بالمقابل شیعوں کا بھی ایک مستقل دین ہے۔ جس کے اپنے اصول و مبادی ہیں، جس کی اپنی کتاب خاص ہے جس کے خصوصی علوم معارف ہیں میرے کتابچہ میں اس کا تفصیلی بیان گذرچکا ہے اور آپ اس سے مطلع بھی ہو چکے ہوں گے اگر آپ کو شیعوں کے عقائد کے بارے میں کچھ ترددیا شک وشبہ ہے تو ایک بار پھر آپ میرے اس کتابچہ کا مطالطہ کیجئے اور غورو فکر کرکے اس کے خطر ناک اثرات کا جائزہ لیجئے اگر شیعوں کے اہداف ومقاصد غلط نہ ہوتے اور ان کے اغراض وعزائم خباثت پرمبنی نہ ہوتے تو وہ ولایت اور امامت کی بنیاد ڈال کر مسلمانوں میں تفرقہ بازی کی کوشش نہ کرتے اور نہ ان کے عقیدہ ولایت اور امامت کا کوئی معنی ہوتا بلکہ اس عقیدہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ شرانگیزی اور تفرقہ بازی کا بیج بودیا جائے اور مسلمانوں میں فتنہ فساد کی آگ بھڑکادی جائے۔

اگر مسلمان کہلانے کا کوئی مستحق ہے تو وہ اہل سنت والجماعت کا گروہ ہے یہی وہ لوگ ہیں جن کو حقیقت میں مسلمان کہا جاسکتا ہے۔ میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اہل سنت والجماعت کے گروہ میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو آل بیت رسول ﷺ سے بغض یا عداوت روارکھتا ہو۔آخر شیعہ برادران وصف ولایت امامت کا دعوی کرکے اپنی انفرادی حیثیت ثابت کرنے کے درپے کیوں ہیں؟ اور امارت وولایت کو اپنا ہدف بناکر کیوں پیش کرتے ہیں ؟ اور اس کی بنیاد پر مسلمانوں سے بغض وعداوت بلکہ شیخین کو کافر اور فاسق کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے؟


امامت کا معاملہ کوئی مذاق یا کھیل تماشہ نہیں ہے بلکہ اسلام نے مسلمانوں کو اپنی صوابد ید پر ایسا حاکم چننے کا اختیار دیا ہے جو رب کریم کی شریعت اور ہدایت نبوی کے مطابق حکومت کرنے کا اہل ہو۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ جسے مناسب سمجھیں چن کر حکومت کے لئے منتخب کریں اور اپنی حکومت اور قیادت کے لئے جس کو لائق سمجھیں اسے شوریٰ کے ذریعہ بے دریغ اختیار کریں۔ اس کی قابلیت اور اہلیت کاخیال ضرور رکھیں۔ لیکن شیعہ برادران کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ امامت کے لئے اسی کو منتخب کیا جائے گا جو وصیت شدہ ہوگا اور صراحت کے ساتھ جس کا نام منتخب کیا ہوا ہوگا نیز ان کے امام کا معصوم ہونا بھی ضروری ہے اور ان کے عقیدہ کے مطابق اس پر وحی بھی آتی ہے اس قسم کا امام مسلمانوں کو کس زمانہ میں میسر آئے گا؟ کیا اس خود سے شیعہ حضرات مسلمانوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے درپے ہیں کہ کہیں اہل سنت والجماعت ان کی امامت پر قبضہ نہ کرلیں؟ اسی لئے وہ مسلمانوں پر لعن طعن کرتے ہیں اور ان سے بغض و عداوت کا معاملہ کرتے ہیں۔

اے شیعہ برادران تم اس باطل عقیدہ کی کب تک غلامی کرتے رہو گے؟ تم اپنے جسم سے آلودگی بھرے چولے کو اتار کر پھینک کیوں نہیں دیتے؟ اور اس کالے اور باطل مذہب کے طوق کو اپنے گلے سے اتار کیوں نہیں ڈالتے؟۔

شیعہ برادران! ہم یہاں یہ بھی صراحت کردیں کہ تم کو اس بات کا بخوبی علم ہونا چاہئے کہ تم اپنے ذات اور اپنے کنبہ کے ذمہ دار ہو لہٰذا سب سے پہلے تم اپنے نفس اور اپنے خاندان کو اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرو! اور یہ بات اسی وقت متوقع ہے جب تم صحیح طور پر دائرہ ایمان میں داخل ہو جاؤ اور عمل صالح کے عادی بن جاؤ۔ یہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی پیروی ہی سے ممکن ہے تم مذہب شیعی کی اندھیری نگری میں محصور ہو لہٰذا تمہیں ایمان صحیح کی معرفت اور اس کی حلاوت اور چاشنی کیوں کر نصیب ہو سکتی ہے؟ اور تم عمل صالح کے عادی کیوں کر بن سکتے ہو؟ یہ اسی وقت ممکن ہے جب تم اہل سنت والجماعت کے دامن عدل و انصاف میں آکر پناہ گزیں ہو جاؤ؟ اس وقت تم کو کتاب اللہ کی حقیقت کا پورا پورا اندازہ ہوسکے گا اور تم کو پتہ چل جائے گا کہ کتاب اللہ باطل تاویلات اور دروغ گوئی کے امکانات سے پاک وصاف ہے۔ جس کی عزت و ناموس کو گمرہ اور فسادی قسم کے شیعہ داعیوں نے دروغ گوئیوں اور تہمت طرازیوں سے داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کے برعکس سنت نبویہ صحیحہ ہر قسم کی دروغ گوئی اور شیعہ عقائد سے مبرا و منزہ ہے۔ یہی وہ کتاب وسنت ہے جس کے ذریعہ تم ایمان حقیقی اور صحیح و سالم عقائد اسلامیہ کی دولت سے بہرہ ور ہو سکتے ہو۔ اس عمل صالح کے ذریعہ اس میں نکھار پیدا کرسکتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مشروع قرار دیا ہے۔ یہی وہ عمل صالح ہے جو تزکیہ نفس کا فریضہ انجام دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر عمل پیرا ہونے والوں کو کامیابی وکامرانی سے ہم کنار کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ لہٰذا شیعہ برادری کے لوگو تم سے میری درخواست ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے کشادہ صحن میں آکر پناہ لے لو تم قیام کے لئے موزوں جگہ پاجاؤ گے اور تم کو کشادگی بھی ملے گی۔

آخر میں یہاں یہ بھی وضاحت کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ میں نے آپ تمام کو یہ نصیحت کسی لالچ یا ذاتی مفاد کی غرض سے نہیں کی ہے یاتمہارے علاوہ کسی شخص سے دادرسی یا مفاد کی وابستگی کی حرص میں نہیں کی ہے یا تم سے خوف و دہشت کی وجہ سے یا تمہارے علاوہ کسی اور شخص سے ڈر کی وجہ سے نہیں کی ہے۔ لہٰذا کوئی شخص اس قسم کا خیال اپنے ذہن و دماغ میں نہ لائے ۔ اگر میں یہ کہوں کہ اللہ کی قسم میں نے مذکورہ اسباب میں سے کسی سبب کو مدنظر رکھ کر یہ ناصحانہ انداز اختیار نہیں کیا ہے، تو میری قسم نہیں ٹوٹے گی بلکہ اسلامی اخوت اور بھائی چارگی کی بنیاد پر میں نے ایسا کیا ہے کیونکہ کہ اللہ کے لئے اور اس کی کتاب کے لئے اس کے رسول ﷺ کے لئے اور ائمہ مسلمین کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے نصیحت واجب ہے۔ اسی حکم نبوی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے ایسا کیا ہے۔ یہی وہ داعیہ ہے جس نے مجھے آپ کے لئے ناصحانہ اقدام کرنے پر آمادہ کیا اور میں نے یہ کلمات لکھ کر نصیحت کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو انشراح صدر عطافرمائے اور ان پندونصائح کو آپ کے لئے باعث ہدایت اور دنیا و آخر میں باعث سعادت بنائے ۔(آمین!)

وسلام علی المرسلین والحمدللہ رب العالمین

-------------------- ختم شد --------------------​
 
Top