• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کی ابتداء غریب/اجنبی کی سی ہوئی

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
اسلام کی ابتداء غریب/اجنبی کی سی ہوئی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السؤال:

ما معنى هذا الحديث (بدأ الإسلام غريبا ، وسيعود غريبا كما بدأ) ؟
اس حدیث کا کیا مطلب ہے: ’’اسلام کی ابتداء غریب/اجنبی کی سی ہوئی اور عنقریب اسلام پہلی حالت میں لوٹ آئے گا۔‘‘؟

الجواب:

الحمد للہ۔


هذا الحديث رواه مسلم (۱۴۵) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( بَدَأَ الإِسْلامُ غَرِيبًا ، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا ، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ )

اس حدیث کو مسلم (۱۴۵) نے بیان کیا ہے : ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اسلام غربت و اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا اور دوبارہ عنقریب غربت کی طرف لوٹ جائے گا جیسے شروع ہوا تھا پس خوشخبری ہو غرباء/اجنبیوں کے لئے۔‘‘

قال السندي في حاشية ابن ماجه :

(غَرِيبًا) أَيْ لِقِلَّةِ أَهْله وَأَصْل الْغَرِيب الْبَعِيد مِنْ الْوَطَن ( وَسَيَعُودُ غَرِيبًا ) بِقِلَّةِ مَنْ يَقُوم بِهِ وَيُعِين عَلَيْهِ وَإِنْ كَانَ أَهْله كَثِيرًا (فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ) الْقَائِمِينَ بِأَمْرِهِ ، و"طُوبَى" تُفَسَّر بِالْجَنَّةِ وَبِشَجَرَةٍ عَظِيمَة فِيهَا . وَفِيهِ تَنْبِيه عَلَى أَنَّ نُصْرَة الإِسْلام وَالْقِيَام بِأَمْرِهِ يَصِير مُحْتَاجًا إِلَى التَّغَرُّب عَنْ الأَوْطَان وَالصَّبْر عَلَى مَشَاقّ الْغُرْبَة كَمَا كَانَ فِي أَوَّل الأَمْر
اهـ .

ابن ماجہ کے حاشیے میں السندی فرماتے ہیں:

’’غَرِیبًا‘ (غریب/اجنبی) یعنی اپنے (اصل) پیروکاروں کی کم تعداد کی وجہ سے اور لفظ ’غریب‘کے اصل معنی وطن سے دور (اجنبی) کے ہیں۔ ’وَسَیَعُودُ کَمَا بَدَاَغَرِیبًا‘سے مراد ان لوگوں کی قلیل تعداد ہے جو اس پر حقیقتاً قائم )کاربند (رہیں گے اور اس پر متعین رہیں گے جبکہ اس کے )سطحی( ماننے والے تو بہت ہوں گے ۔

فَطُوبَی لِلْغُرَبَائ‘ (پس خوشخبری ہو غرباء/اجنبیوں کے لئے) جو اس کے حکم پر قائم رہیں گے۔اور ’طُوبَی‘کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ یہ جنت اور اس میں ایک عظیم درخت کا نام ہے ۔اور اس میں انتباہ ہے کہ اسلام کی مناصرت کرنا اور اس کے حکم پر قائم رہنا اس امر کا متقاضی (ہو سکتا) ہے کہ اپنے وطنوں کو چھوڑا جائے اوراجنبیت کی مشکلات پر صبر کیا جائے‘ جیسا کہ اس معاملے کی شروعات میں ہوا تھا۔‘‘

ونقل النووي في شرح صحيح مسلم عن القاضي عياض أنه قال في معنى الحديث :"أَنَّ الإِسْلام بَدَأَ فِي آحَاد مِنْ النَّاس وَقِلَّة ، ثُمَّ اِنْتَشَرَ وَظَهَرَ ، ثُمَّ سَيَلْحَقُهُ النَّقْص وَالإِخْلال ، حَتَّى لا يَبْقَى إِلا فِي آحَاد وَقِلَّة أَيْضًا كَمَا بَدَأَ " اهـ .

اور صحیح مسلم کی شرح میں نووی نے قاضی عیاض کو نقل کیا ہے کہ اس حدیث کا مطلب بیان کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:
’’پہلے اسلام شروع ہوا چند معدود لوگوں سے؛ پھر یہ پھیل گیا اور ظاہر ہو گیا‘ پھر اس پر نقص اورخلل طاری ہو جائے گا ‘ یہاں تک کہ پھر یہ چند معدود لوگوں تک محدود رہ جائے گا جس طرح کہ یہ شروع ہوا تھا۔‘‘


وجاء في "فتاوى اللجنة الدائمة" (۲/۱۷۰) :

"معنى الحديث أن الإسلام بدأ غريباً حينما دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس إليه الناس إليه فلم يستجب له إلا الواحد بعد الواحد ، فكان حينذاك غريباً بغربة أهله ، لقلتهم وضعفهم مع كثرة خصومهم وقوتهم وطغيانهم وتسلطهم على المسلمين ، حتى هاجر من هاجر إلى الحبشة فراراً بدينه من الفتن وبنفسه من الأذى والاضطهاد والظلم والاستبداد ، وحتى هاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم بأمر الله تعالى إلى المدينة بعد ما ناله من شدة الأذى ما ناله رجاء أن يهيئ الله له من يؤازره في دعوته ، ويقوم معه بنصر الإسلام وقد حقق الله رجاءه فأعز جنده ونصر عبده وقامت دولة الإسلام وانتشر بحول الله في أرجاء الأرض وجعل سبحانه كلمة الكفر هي السفلى وكلمة الله هي العليا والله عزيز حكيم ولله العزة ولرسوله وللمؤمنين ، واستمر الأمر على ذلك زمناً طويلاً ، ثم بدأ التفرق والوهن ودب بين المسلمين الضعف والفشل شيئاً فشيئاً حتى عاد الإسلام غريباً كما بدأ ، لكن ليس ذلك لقلتهم فإنهم يومئذ كثير، وإنما ذلك لعدم تمسكهم بدينهم واعتصامهم بكتاب ربهم وتنكبهم هدي رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا من شاء الله فشغلهم بأنفسهم وبالإقبال على الدنيا فتنافسوا فيها كما تنافس من كان قبلهم وتناحروا فيما بينهم على إمارتها وتراثها ، فوجد أعداء الإسلام المداخل عليهم وتمكنوا من ديارهم ورقابهم فاستعمروها وأذلوا أهلها وساموهم سوء العذاب ، هذه هي غربة الإسلام التي عاد إليها كما بدأ بها.


اور اللجنۃ الدائمۃ (۲/۱۷۰) کے فتاویٰ میں بیان ہے :
’’اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی شروعات ایک غریب/اجنبی کی سی ہوئی‘ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ابتداء میں) لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی تو اس دعوت کے جواب میں صرف اِکاّ دُکاّ لوگوں کے سوا کسی نے بھی مثبت جواب نہ دیا‘ تو اس وقت یہ اپنے (چند) لوگوں کے اجنبی پن کی وجہ سے اجنبی تھا (مترجم: یہ قلیل تعداد افراد محض عقیدے اور عمل کے فرق کی وجہ سے اپنوں سے بیگانے اور اجنبی بن گئے تھے)؛ ان (اہلِ اسلام) کی تعداد کی قلت اور کمزوری اور ساتھ ہی ساتھ اُن کے دشمنوں کی کثرت اور مسلمانوں کے خلاف ان (دشمنوں) کی قوت اور ظلم اور تسلط کی وجہ سے‘ یہاں تک کہ حبشہ ہجرت کرنے والے وہاں ہجرت کر گئے تا کہ اپنے دین کو فتنوں سے اور اپنے آپ کو اذیتوں اور زیادتیوں اور ظلم و استبداد سے بچا سکیں ‘ اور حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اذیتوں کی انتہاء برداشت کرتے رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم پر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے ‘ اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ان کو ایسے افراد فراہم کر دیں گے جو دعوت و تبلیغ میں ان کی مدد کریں گے اور اسلام کو نصرت دلانے میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے ‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی امید کو پورا کیا اور اپنے سپاہی کو اعزاز بخشا اور اور اپنے بندے کو کامرانی عطا فرمائی اور اسلام کی ریاست قائم ہو گئی اور اسلام اللہ تعالیٰ کی مدد سے زمین میں چہار سو پھیل گیا اور اس پاک ذات نے کلمۂ کفر کو کمتر کر دیا اور کلمۃ اللہ کو برتر کر دیا اور اللہ عزیز و حکیم ہے اور عزت اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول اور مؤمنین کے لئے ہے‘ اور یہ معاملہ ایک طویل عرصے تک اسی طرح جاری رہا‘پھر (اس کے بعد) تفریق اور وہن (کی بیماریوں) کی ابتداء ہوئی اور مسلمانوں میں کمزوری اور ناکامی بتدریج بڑھنے لگی یہاں تک کہ اسلام ویسے ہی غریب/اجنبی ہو گیا (ہے) جیسے شروع ہوا تھا‘ لیکن ایسا اُن (اہلِ اسلام) کی قلت ِ تعداد کی وجہ سے نہیں ہوا کیونکہ اس وقت وہ کثرت سے تھے‘ بلکہ ایسا ان کے دین سے دوری (عدم وابستگی) اور اپنے رب کی کتاب کو مضبوطی سے نہ تھامے رہنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت سے رو گردانی کی وجہ سے ہوا‘ اِلّا ما شاء اللہ‘ پس ان کا اپنے آپ میں مگن ہو جانا اور دنیا کی طرف مائل ہوجانا اس بات کا سبب بنا اور پھر وہ بھی (دنیا داری میں) آپس میں اس طرح مقابلے کرنے لگے جیسے ان سے پہلے گذرنے والوں نے کیا اور وہ بھی اس (دنیا) کے مال و جائیداد کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے لڑنے لگے‘ تو دشمنانِ اسلام کو ان میں در اندازی کرنے کے راستے مل گئے اوروہ اِن (اہلِ اسلام) کے علاقوں اور جانوں پر پنجہ کشی کرنے لگے پس انہوں نے اپنا استعمار (نو آبادیاتی نظام) قائم کر دیا اور اس (اسلام) کے لوگوں کی تذلیل کی اور انہیں بدترین اذیتوں سے دوچار کیا‘ یہ ہے اسلام کی غربت/اجنبیت جس کی طرف یہ لوٹ آیا ‘کہ جس (غربت/اجنبیت) کے ساتھ یہ شروع ہوا تھا۔

وقد رأى جماعة – منهم الشيخ محمد رشيد رضا – أن في الحديث بشارة بنصرة الإسلام بعد غربته الثانية آخذين ذلك من التشبيه في قوله صلى الله عليه وسلم "وسيعود غريباً كما بدأ " فكما كان بعد الغربة الأولى عز للمسلمين وانتشار للإسلام فكذا سيكون له بعد الغربة الثانية نصر وانتشار.

اور علماء کی ایک جماعت کی رائے میں . جن میں شیخ محمد رشید رضا بھی ہیں. اس حدیث میں اسلام کی دوسری غربت کے بعد اِس کی نصرت کی بشارت ہے اور اس کے لئے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قول سے تشبیہ اخذ کرتے ہیں: ’’اور دوبارہ عنقریب غربت کی طرف لوٹ جائے گا جیسے شروع ہوا تھا‘‘ سو جس طرح پہلی غربت/اجنبیت کے بعد مسلمانوں کے لئے سر بلندی اور اسلام کا پھیلاؤ ہوا تو اسی طرح دوسری غربت/اجنبیت (کے دور) کے بعد بھی اس کی نصرت اور پھیلاؤ ہو گا۔

وهذا الرأي أظهر ، ويؤيده ما ثبت في أحاديث المهدي ونزول عيسى عليه السلام آخر الزمان من انتشار الإسلام وعزة المسلمين وقوتهم ودحض الكفر والكفرة.

اور یہ رائے زیادہ قابلِ اعتبار ہے‘ اور اس کی تائید مہدی کے ظہور اور آخر زمانے میں نزولِ عیسیٰ علیہ السلام اور اسلام کے ہر سو پھیلنے اور مسلمانوں کی سر بلندی اور طاقتوری اور کفر اور کافرین کی شکست سے متعلق احادیث سے بھی ہوتی ہے۔

وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم" اهـ


اور تمام طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور سلامتی نازل ہو ہمارے نبی محمد اور ان کے آل و اصحاب پر۔ ‘‘

[الاسلام سوال و جواب رقم السؤال : ۴۵۸۵۵]
 
Top