• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کے معاشی نظام میں شراکتی کارو بار[ایک جائز تجارتی سکیم [

شمولیت
دسمبر 22، 2013
پیغامات
62
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
62
اسلام کے معاشی نظام میں شراکتی کارو بار[ایک جائز تجارتی سکیم [
اسلام دین رحمت ہے اس نے زندگی کے تمام شعبوں کے لیے ایسے اصول وضوابط مقرر کیے ہیں کہ اگر ان پر عمل کیے جائے تو مسلمان زندگی کی دوڑمیں کبھی بھی پیچھے نہیںرہ سکتے۔ تجارت زندگی کا اہم ترین اور بہت با عزت پیشہ ہے،حضور اکرم ﷺ نے اور صحابہ اکرام نے پیشہ ء تجارت اپنایا اور ہمارے لیے بہترین نمونہ چھوڑا ،گویا تجارت مسلمانوں کی میراث ہے اور ہمیں اس میدان میں سب سے آگے ہونا چاہئے۔تجارت کے جواز اور اہمیت کے ساتھ ساتھ اسلام نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ نا جائز ذرائع سے دولت قطعاًنہ کمائی جائے،بلکہ ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کو حرام ،سُحت اور کسب ِخبیث فرمایا ہے ،چنانچہ چوری ، غصب ،رہزنی ،سود، قمار بازی ، ذخیرہ اندوزی ،کم تولنا گویا کمائی کی ہر ضررساں صورت کو حرام قرار دیا ہے ،ربوٰکو اسلئےحرام قرار دیا ہے کہ اس میں ایک فریق کو بلا کسی معاوضہ کے فائدہ اور دوسرے نقصان پہنچتا ہے اور اس کےمقا بلہ میں صرف ایسی تجارتی سکیمیں یا کارو با رجس میں ہر دو طرف کے افراد کو نفع یا نقصان میں شریک ہوں ،کو جائز قررا دیا ہے ۔اسلام کے اقتصاد ی نظام میں مشترکہ سرمایہ وار کمپنیوں کی بہت اہمیت ہے ۔امام الانبیاء ولمرسلین کے دور میں شراکتی کاروبار بہت مقبول تھے ،آپ نے شراکت ہی کے ذریعہ بے روزگار مہاجرین کو کاروبار پر لگایا تھا ،چنانچہ جب انصار نے مہاجرین سے کہا کہ محنت اپنے زمہ لو اور ہم میوے میں شریک کر لیںگے تو مہاجرین نے کہا کہ ہم نے مانا (۱)فقہی اصطلاح میں اگر شراکت زراعت کے متعلق ہو تو اسے مزار عت کہتے ہیں اور درختوں اور گلاب وغیرہ کی کیاریوں سے متعلق ہو تو اسے ’’مساقاة‘‘(۲)
سرکة العقود ۔۔۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسی سرمایہ کاری یا تجارتی کاروبار جس میں دو یس دو سے زیادہ افراد مل کر سرمایہ فرہام کرتے ہیں اور نفع و نقصان میں باہم شریک ہوتے ہیں تو اسے ’’شرکہ‘‘العقود‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،یعنی ایسی شراکت جو معاہدہ کے ذیعہ عمل میں آتی ہے گویا اسے ہم partnership of contrect''‘‘بھی کہ سکتے ہیں ۔
یہ تجارتی کاروبار دنیا کے دیگر حصوں کی طرح قبل ازاسلام بھی عربوں میں رائج تھا ،طلوعِ سلام کے بعد اسے برقرار رکھا گیا (۳)،اور رسول اکرم ﷺ کو بعد سے آج تک لوگ شرکت کے ذریعہ کاروبار کرتے آئےہیں (۴)کیوں کہ کسی بڑی تجارتی مہم کو سر انجام دینا کسی ایک فرد کا کام نہیں چنانچہ افراد مشترکہ سرمایہ اور محنت کے ساتھ اس مہم کو سر کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ۔تمام علاءاسلام ایسی شرکت کے جواز کے قائل ہیں جس میں ہر ایک شریک دوسرے شریک ہی کی طرح اس قسم کا مال یعنی درہم دینار کا روبار پر لگا دیتا ہے اور انہیں اس طرح خلط ملط کر دیتا ہے کہ وہ مل کر ایک ہی مال بن جاتے ہیں او ر تمیز باقی نہیں رہتی کہ کس کامال فروخت ہوا اور کس کا مال سے تجارت کا سامان خریدا گیا ،اگر نفع میں حصہ رسدی ملتا ہےاگر نقصان ہو تو سب نقصان میں شریک ہوتے ہیں ۔(۵)
شراکت کی شرائط
۔۔شراکت کی شرائط درج ذیل ہیں:
۱۔شرکت ایک معاہدہ ہے لہٰذہ اس کے لیے ایجاب وقبول لازمی ہے(۶)۔ب۔معاہدہ شرکت درہم ،دینار اور رائج الوقت سکہ سے منعقد ہوتا ہے(۷)،لیکن امام ابو حنیفہ او ر قاضی ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ صرف دینار (سونے کے سکے )اوردرہم (چاندی کے سکے )سے ہی شرکت کا معاہدہو سکتا ہے،تانبے کے سکہ (فلوس)سے نہیں ہوتا ،کیونکہ ان کی قیمت ہر وقت بدلتی رہتی ہے اور ان کی نوعیت دوسرے سامان کی مثل ہو جاتی ہے(۸)۔ج۔اگر مال اشیاءکی شراکت کی شکل میں ہو تو شراکت کا کاروبار شروع کرنے سے پہلے اس کی قیمت کا تعین زر کی صورت میں ہونا ضروری ہے یا ایک شریک اپنا نصف مال دوسرے کے نصف سے تبادلہ کر لے اور اس طرح سامان ہی کو سرمایا قررا دیا جائے تو اس میں کوئی عذر باقی نہیں رہتا اور نہ مالیت کے متعلق جھگڑا ہو سکتا ہے۔
دستا ویز کی تحریر
۔شمس الائمہ علامہ سر خی شراکت کے معاہدے کے لیے دستاویز کا لکھا جانا ضروری قرار دیتے ہیں،شرکت ایک ایسا معاہدہ ہے جو ایک مدت تک جاری رہتا ہے لٰہذا اس کےلئے دستاویز کا لکھا جانا ضراوری ہے تاکہ کبھی جھگڑا ہوا جائے تا اس دستاویز کے ذیریعہ فیصلہ کیا جا سکتےاللہ تعالےخود ارشاد فرماتا ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْہُ۰ۭ
’’اے مسلمانوں !جب ایک مدت کے لئے قرض لو تو اس کو لکھ لیا کرو ‘‘
نیزدستاویز کا مقصد تو ثیق اور احتیاط ہے،پس اس کے لئے ضراری اور لازمی ہے کہ دستاویز لکھی جا ئے تاکہ مستقبل میں کسی قسم کے جھگڑےاور شکوک و شبہات سے بچا جا سکے اور دستاویز کے الفاظ یو ہونے چاہیں :’’ھذاکتاب فیہ ذکر ما اشترک علیہ فالان وفلام‘‘
’’یہ وہ دستاویز ہے جس میں فلاں لاں شخص نے جو اشتراک کیا ہے اس کا تزکرہ ہے‘‘۔ اسی طرح جب کبھی حضورﷺنے کوئی معاہدہ کیا تو با قاعدہ اس کو تحریر کیا ،جس طرح کہ آپ نے صلح حدیبیہ والے دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو صلح نامہ لکھنے کا حکم دیا کہ:’’ھذا ما اصطلح محمد بن عبداللہ وسہیل بن عمرو علی اھل مکة‘‘’’یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان مکہ والوں کے لئے ہوا‘‘دستاویز تحریر کرتے وقت اس میں سرمایہ کی مقدارکا ذکر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ اس سے نفع کی مقدار معلوم ہو سکے اور بوقت ِنزاع اس کی طرف رجوع کیا جاسکے اور اس دستاویز میں یہ بھی تحریر کیا جا ئے کہ ’’وذلک کلہ فی ایدیہعا‘‘اور یہ سرمایایہ ان کے ہاتھ میں نقد مجود ہے‘‘(۱۰)اور اسی طرح لکھنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سر مایہ غائب نہیں ہے اور نہ قرض ہےبلکہ وہ زر ہے جو ان کے ہاتھ میں مجود ہے،پھر اس شرکت کی دستاویز میں ہر ایک کو ان کی مقدارِ سرمایہ کے مواقف جو نفع ملے گا اس کا تذکرہ کیا جائے نیز یہ بھی لکھا جائے کہ انہوں نے فلاں سال اور فالاح مہینے میں اشتراک کے تعین سے جھگڑے نہیں ہو پا تے اور نہ ہی ان میں سے کوئی ایک بات کا دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس تاریخ سے پہلے اس نے مال خرید ا او ر اس میں اس کا حق ہے۔
شرکت کی اقسام
۔بلحاظ نوعیت اور سرما یہ فقہا ءِاسلام نے شرکت کی چار قسمیں بیان کی ہیں :
(۱)شرکةالمفاوضہ
(۲)شرکةالعنان
(۳)شرکةالصنائع
(۴)شرکةالوجوہ۔
ہر ایک کی وضاحت ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
شرکة المفاوضہ
۔دو یا دو سے زائد افراد مساوی سرمایہ کے ساتھ اور نفع و نقصان میں برابری کے اصول پر کسی کا روبارمیں شریک ہوں تو اسے شرکةالمفاوضہ کہتے ہیں (۱۱)۔شرکت کی اس قسم میں ہر شریک دوسرے کا وکیل بھی ہوتا ہے اور ضامن بھی ،کاروبار کے آغاز کےلئے ضروری ہے کہ سرکاءمالِ حاضر کے ساتھ شریک ہوں ،سٹاک یا واجب الوصل ثاثوںکے ساتھ شرکت المفاوضہ وجود میں نہیں آسکتی(۱۲)۔شرکة المفاوضہ میں کاروبار کا مالک کوئی بھی شریک رہن رکھ کر کاروبار کے لئے قرض لے سکتا ہے اور تما م کاروبار اس قرض کو ادا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اس طرح کوئی شریک مشترکہ کا روبارکا کوئی حصہ کسی بیرونی شخص کو مضاربت کے طور پر بھی دے سکتا یا پھر باہر سے کوئی سرمایہ اس اصول پر مشترکہ کا روبار کے لئے لے سکتا ہے ۔شرکةالمفاوضہ کی جملہ قسموں میں تما م شرکاءکو کاروبار چلانے کی مکمل آزادی ہوتی ہے ہر شریک کو امین تصور کیا جاتا ہے(۱۳)۔
شرکة العنان۔۔۔۔شرکةالعنان میں دو یا دو سے زائد اشخاص غیر مساوی سرمایوں اورمساوی نفع و نقصان کی نسبتوں سے کاروبار کرنے کےلئے جمع ہو سکتے ہیں ۔اس میں ہر شریک دوسرے شریک کا وکیل ہوتا ہے ضامن نہیں ہوتا (۱۴)چنانچہ اگر ایک شریک دوسروے کی رضامندی کے بغیر کوئی ایسا عمل کرتا ہے جس سےکاروبار پر کوئی بوجھ آئے تو باقی شرکاءاس کے ذمہ دار نہ ہو ں گے۔ شرکة العنا ن میں چونکہ ہر شریک تو دوشرے کا وکیل تو ہوتا ہے کفیل نہیں ہوتا لٰہذا اگر کا روبار کے کسی واجب الوصول قرضے میں ایک شریک مہلت دے دیتا ہے یا کچھ چھوٹ دے دیتا ہے تو ودسروے شراکاءاس کے اس عمل میں بریَ الذمہ ہوں گے۔(دیکھیئےالسرخسی،المبسوط:۱۱ ۔ص۱۷۴)
شرکةالصنائع۔
اگر ہنر مندوں اور دستکاروں کا گروہ مل کر کاروبار اس طرح چلا نا چاہیں کہ لوگوں سے اپنے متعلقہ پیشہ کے سلسلہ میں کام لیا کریں اور جونفع ہو اسے باہم تقسیم کریں مثلاًدھوبیوںکا کوئی گروہ اگر چاہےتو واشنگ کمپنی بنا کر دھونے کے لئےلوگوں سے کپڑے لے سکتا ہے اور کمپنی کا جو نفع ہوگا وہ تقسیم ہوتا رہے گا ،اس کا دو سرانام شرکتِ تقبل یاشرکت ِااعمال اور شرکة’’ابدان ہے‘‘(۱۵)۔اس قسم کی شراکت میں شرکاء ایک دوسرے کے کفیل بھی ہوتے ہیں اور ضامن بھی ہوتے ہیں (۱۶)احناف کے نزدیک تو اس قسم میں اتنی وسعت ہے کہ دو مختلف پیشے یا ہنر والے جیسے درزی،رنگ ریز وغیرہ کا روبار
میں شرکت کرلیںاور اپنے اپنےپیشے کو مطابق کام کرکے نفع باہم بانٹ سکتے ہیں ،اسی طرح حنفی فقہاءنے بطور استحسان نہ شراکت بھی جائز قراردی کہ ایک آدمی دکان (سٹاک )وغیرہ کا مالک ہے ایک شخص کا ریگر ہے ،دونوں نفع و نقصان میں شریک ہیں تو یہ کا روبار جائزہے(دیکھیے:السر خسی،المبسوط:۱۱ ص۱۵۹)
شرکةالوجوہ
دو یا دو سے زائد افراد جو نہ کسی ہنر سے واقف ہوں اور نہ ان کےپاس سرمایہ ہو لیکن اپنی ساکھ اور اعتماد پر لوگوںسے مال لے کر باہمی کاروبار کر سکتے ہیں اور اس طریقے سے جو نفع ہو گا وہ آپس اور اعتماد پر لوگوں سے مال کر باہمی کا رو بار کر سکتے ہیں اور اس طریقے سے جو نفع ہو گا آپس میں بانٹ لیں گے ۔اسے شرکة’’الوجوہ یا شرکة‘‘ الناس کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔۔(دیکھئےالسر خسی ،المبسوط ج۱۱ ص ۱۵۲)مذہبِ ما لکیہ کی مستند کتاب ’’المدونہ‘‘الکبریٰ‘‘میںشراکتی کاروبار کی بہت سی مثالیں بیان کی ہیں ان میں سے چند ایک کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے :
(۱)طبی شراکت۔
دو یا دو سے زائد ڈاکڑمل کر مشترکہ طور پر علاج معالجہ کے لئےدواخانہ قائم کر سکتے ہیں،مشترکہ سرمایہ سے ادویاتخرید کر ہسپتال چلا سکتے ہیں۔اخرجات کی کٹوتی کے بعد جو خالص آمدنی ہو اسے حسبِ تصفیہ باہم تقسیم کر لیں (۱۷)۔
(۲)تعلیمی شراکت ۔
طبی شراکت کی طرح دو یا دو سے زیادہ اساتذہ مل کر تعلیمی ادارے کھول کر آمدنی باہم تقسیم کرسکتے ہیں۔
(۳)مشترکہ کاشت ۔
امام مالک کے نذدیک مشترکہ سرمایہ سے مویشی ،آلات زراعت جیسے ٹریکٹر اور بیج وغیرہ خرید کر مشترکہ عمل سے زراعت کریں تو جائزہے(۱۸)۔
(۴)شراکتِ نقلو حمل(Transport Company)
دو یا دو سے زائد افراد مل کر نقل و حمل کی شراکت (ٹرانسپورٹ کمپنی )قائم کر سکتے ہیں (۱۹)اسی طرح مشترکہ سرمایہ سے بری ،بحری اور ہوائی کمپنیاں نقل و حمل کیلئے شراکتی کاروبار کیا جا سکتا ہے۔
انفساخِ شرکت ۔
درج ذیل صورتوں میں تمام قسم کے شرکتی کا روبار منسوخ ہو جائیں گے :(1)واضح ہونا چاہئے کہ ہر شریک کو شراکتی معاہدہ کے فسخ کا اختیار حاصل ہوتا ہے لٰہذا جب کو ئی شریک معاہدہ کو نسخ کرنے کا اختیاراستعمال کرتا ہے تو انفساخ تک جاری نہ ہوگا جب تک دیگر شرکاء کو اطلاع نہ دی جائے ۔(2)کسی شریک کے مرجانے پر معاہدئہ شراکت فسخ ہو جائیگا ۔ہاں اگر ورثاءچاہیں تو شریک کے معاہدے کی ازسرِتجدید کر سکتے ہیں ۔(3)اسی طرح اگر کوئی شریک مرتد ہو جاتا ہے تو بھی اس کا معاہدہ فسخ ہو جاتا ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ۔
یہ خیال انتہائی غلط ہے کہ مشترکہ سرمایہ دار کمپنیاں عہد جدید کی پیداوار ہیں بلکہ قدیم زمانہ سے اس کا رواج رہا ہے ۔زمانہ قبل اسلام میم میں بھی یہی رائج تھا چنانچہ عرب کے قدیم معاشی نظام کا اگر مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ قریش کے تجارتی قافلے مسترکہ سر مایہ سے چلتے تھے ۔البتہ عصرِ حاضر میں ان سے زیادا سے زیادہ فائدہ اٹھایا گیا اور متعلقہ قوانین میں وسعت اور لچک پیدا کی گئی ۔خلاصہ کلام ! اسلام کے نظام معشیت میں ہم نفع آور کارو بار جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وہ جائز ہیں لیکن ساتھ ساتھ ہر ضررساں کارو بار اور بلخصوص ربا قطعی حرام ہے۔مساقاہ یا مزارعہ ،شرکہ ہو یا مضاربہ،سب اجتماع کاروبار کے دروازے اسلام کے نظام ِمعشیت میں کھلے ہیں ۔حاشیہ جات۔(۱)البخاری ،الجامعالصحیح،کتاب الشروط،باب الشروط فی المعالمہ:۳ / ۲۴۹ (۲)فقہ اور حدیث کی کتب میں شرکت کی طرح مزارعہ اور مساقہ سے علیدہ علیدہ باب پائے جاتے ہیں ۔(۳)المر غنیانی،الہد ایہ ،کتاب الشرکہ،ج ۱۱ ،ص۱۵۱ ،مطبوعہ کراچی (۴) السر خسی ،المبسوط،کتاب الشراکہ،ج۱۱،ص۱۵۱ ،مطبوع مکتبہ التجاریہ مکہ المکرمہ۔(۵)ابن رشد ،بدایةالمتجہد،کتاب الشرکہ،ج۲ /ص۱۹۱،مطبوع المکتبہ العلمیہ لاہور (۶)المر غیانی ،الہدایہ،کتاب الشرکہ ،ج۲ ۵۸۸/(۷)ایضاً:ج۲ /ص ۵۹۱ (۸)ایضاً:ج۲ /ص ۵۹۱ (۹)سورةبقرہ :آیت۲۸۲ (۱۰)السر خسی ،’’السر خسی ،‘‘المسبوط‘‘ص ۱۵۶ (۱۱)ایضا،ج ۱۱ /ص۱۵۲ ،المرغینانی :الہدایہ ،کتاب الشرکہ ،ج۲ / ص ۵۸۸ (۱۲)الکاسانی ،بد ائع :ج ۶ /ص۵۲ ،۶۰ (۱۳)السر خسی ،المبسو ط ،ج۱۱ /ص۱۵۷ (۱۴)ایضاً،ج۱۱ / ۱۷۴ (۱۵)الکاسانی ،بدائع الصنائع ،ج۶ /ص۵۶ (۱۶)السر خسی ،المبسوط ،ج۱۱ / ۱۵۵ (۱۷)امام مالک  بن انس ،المدونة الکبریٰ،جا۴ /ص۲۶ ،شرکةالاطباءوا المعلمین(۱۸)المدونةالکبریٰ،ج۴ / ص۲۹ ،باب الشرکةفی الزرع(۱۹) امام مالک؄ المدونہ ،ج۴ /ص۲۷ ،شرکةالحمالین ۔۔
مقالات ۔۔حافظہ عائشہ۔۔ تعمیر معاشرہ میں مسلمان معلّم کا کردار ۔۔۔۔اسلام میں علم کو مرکز ی مقام حاصل ہے ۔ اسلام جس طرح دین ہدایت ہے ، اسی طرح اس کو بجاطور پر ’’دین علم‘‘ بھی کہ اجا سکتا ہے ۔ آنحضور ﷺپر جو پہلی وحی نازل ہو ئی تھی ۔اسی نے علم کی اہمیت کو واضح اور اجاگر کر دیا تھا ،ارشاہوا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ
۝۱ۚ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۝۲ۚ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ۝۳ۙ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۝۴ۙ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۝۵ۭ (سورةالعلق :۱تا ۵ )’’اپنے رب کے نام سے پڑھئے جس نے پیدا کیا ،جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا اور آپ کا رب معزز و محترم ہے جس نے انسان کو قلم سکھایا ۔اس نے وہ کچھ سکھایا جو انسان نہیں جانتا تھا ۔‘‘ غور کیجئے اس پہلی وحی میں علم کے متعلق کتنی بنیادی باتوں کا تذکرہ ہوا :
(۱) پڑھنے کا حکم ،مسلمان ہونے کے لئے پڑھنا ضروری ہے ۔اسی بات کو نبی کریم ﷺنے یو ںبیان فرمایا :۔طلب العلم الفریضہ علی کل مسلم’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مردوزن)پر فرض ہے‘‘۔(مشکوةکتاب العلم)(۲)تعلیم کی بنیاد معرفت ِالٰہی ہے ۔ یعنی اپنے رب کے نام سے اس کے حکم کے مطابق پڑھئے ۔کیونکہ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور ہدایت دینے والا ہے ۔لٗہذا اس کے ساتھ تمہارا کوئی مضبوط ہونا لازمی ہے۔(۳)انسان بذات خود بڑاا عاجز،بے بس اور ایک حقیر چیز سے پیدا ہونے والا ہے ۔یہ تو اس کا اللہ تعلی کے ساتھ تعلق اور اس کی ذات پر ایمان اور علم کا حصول ہے اس کو بلند مرتبے پر فائز کرتا ہے ۔(۴)اللہ تعلی بڑا فیاض اور کریم ہے ۔اس کی شان کریمی کا عطیہ ہے کہ وہ خود انسان کو ان چیزوں کی علم عطا فرما رہا ہے جس سے انسان بالکل نا واقف تھا ۔(۵)علم اور تعلیم و تتلّم کے ساتھ ساتھ ذرائع ِتعلیم یعنی قلم وغیرہ کی بھی اللہ تعلی نے تعریف و توصیف بیان فرمائی ۔بلکہ قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعلی نے ’’قلم ‘‘کی قسم کھا کر پوری ایک سورت کا عنوان ’’قلم ‘‘بنا دیا ہے ۔اس طرح اسلام علمی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیامبر ثابت ہوا ۔کسی بھی تہذیب کے صحت مند ارتقااور نشو نما کے لئے جو عوامل ضرور ہیں ان میں تعلیم سر فہرست ہے ۔اسلام ہی کو یہ امتیاز حا صل ہے کہ جہاں دنیا کے دیگر نظاموں نے تعلیم کو زندگی کی اولین ضرورت قرار دیا ۔تعلیم ایک ہمہ گیرہے جس کا کام ہے وہ غلط اور صحیح،حق اور باطل ،مفید اور مضر نیک اور بد کو الگ الگ چھانت کر رکھ دے اور ہدایت اور گمراہی کو واضح کر دے ۔جس کے ذریعے نئی نسلوں کی اخلاقی ،ذہنی اور جسمانی نشونما بھی ہوتی رہے اور وہ اپنے عقائد ونظریات،تہذیب و ثقافت کی اقدار بھی تعلیم سے اخذ کرتے رہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم کی ذندگی کا انحصار ہی اس تعلیم پر ہے ۔ایک چینی کہاوت اس بات کی کتنی صحیح عکاسی کرتی ہے:’’تمہارا منصوبہ اگر سال بھر کے لئے ہے تو فصل کاشت کرو ۔اگر دس سال کے لئے ہے تو درخت لگائو،اگر دائمی ہے توافراد پیدا کرو۔‘‘اور افراد کی تعمیر صرف تعلیم ہی سے ممکن ہے اور استاد یہی کام انجام دیتا ہے۔قرآن کریم میں رحمت للعالمین ﷺکی بعثت کے جو اغراض و مقصد بتائے گئے ہیں ۔اس میں تلاوتِ قرآن ،تعلیم ِکتاب و تعلیم حکمت اور تزکیہ ءنفس کا بالخصوص ذکر ہے۔ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ
۝۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۔(سورةالجمعة)
’’وہی ذات تو ہے جس نے ان پڑھوں کے درمیان ایک پیغمبر مبعوث فرمایا جو ان کو قرآن پاک کی آیت پڑھ کر سناتا ہے انہیں گناہوں سے پاک کرتا ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے یقیناً اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے ۔‘‘نبی پاک ﷺ نے خود اپنے بارے میں ارشاد فرما یا :انما بعثت معلّما‘‘بیشک مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘چنانچہ اس معلمِ اعظمﷺنے سر زمین حجا ز کے صحرائی کلاس رام میں عرب کے جاہل اور اُجدْبدوئو کو خوف ِخدا ،راستی اور صدق وصفاکی تعلیم دی کہ وہ دیکھتے دیکھتے نہ صرف خود اقوام ِعالم کے رہبرو رہنمابن گئےبلکہ اپنے تدبرو تفکر سے علم و فنون کے بند خزانوں کے دروازے سارے ۔نوع انسان کےلئے کھول دیئے ۔۔۔۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:’’العلماءورثةالانبیاء....... الخ‘‘علماءانبیاء نے درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑے بلکہ ان کا ورثہ علم ہے جس نے علم حاصل کیا ۔اس نے انبیاء کے ورثہ سے وافر حصہ پالیا ۔پس تعلیم کا بنیادی مقصد ان پیغبرانہ فرائض کی بجا آوری ہے یعنی انسانوں کو اس مقصداور مشن کی تعلیم دینا ،اس کو صحیح الفکر بنا نا ،ان میں اپنے دین کا حقیقی اور سچا شعور پیدا کرنا اور انہیں مکمل وبا شعور مسلمان،محب ّوطن شہری بنانا ہے اور ہے دور حاضری کی ضرورت پوری کرنے کےلئے دور حاضر کرنا سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے ماہر تیار کرنا ۔
تعلیم کو با مقصد ہونا چاہئے ۔
واضح مقصد اور نصب العلین کی حرارت ہی کسی منصوبہ میں جان ڈال سکتی ہے اور جذبوں کو زبان عطا کرسکتی ہے ۔ تعلیم بذات خود منزل نہیں بلکہ منزل کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اما غزالی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’‘احیاءالعلوم‘‘ میں لکھتے ہیں :’’تعلیم کا مقصد یہی نہیں ہونا چاہیے کہ نو جوان ذہن کے علم کی پیاس بجھادے ۔بلکہ اس کے ساتھ اس کے اخلاق و کردار اور اجتماعی زندگی کے اوصاف نکھارنے کا احساس بھی پیدا کرنا چاہئے ۔ہمارے سامنے انسانی زندگی کا مثالی نم،ونہ رسول اکرم ﷺ کی مبارک ذات ہےجس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ۔(بیشک تمہارے لئے نبی پاکﷺ کی ذات بہترین نمونہ مجود ہے)اور آپﷺ چونکہ معلم اعظم تھے۔لٰہذا آج کے مطعین کےلئےآپﷺکی ذات ارفع کی پیروی کرنا لازمی ہے۔ پھر اسلام ،انسانی زندگی کو مذہبی اور غیر مذہبی حصوں میں تقسیم کرتا اسی طرح اسلامی نظامِ تعلیم کو دینی اور لاوینی شعبوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ۔اسلام نظام تعلیم کا مقصد وہ مکمل تعلیم ہے جو ایک طرف خود کائنات اور کا ئنات میں انسان کے مقام کے خالق کائنات اور انسان کے درمیان تعلق کی وضاحت کرے تو دوسری طرف اس زندگی کے بعد آنے والی ابدی زندگی کے لئے بھی تیار کرے‘‘۔
اسلامی معاشرہ میں استاد کی قدرو منزلت ۔
فرمان نبوی ہے کہ ’’خیرکم من تعلم القرآن و علمہ‘‘’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے پھر (آگے دوسروں کو سکھائے ۔‘‘’’رشک صرف دو آدمیوں پر جائز ہے ایک وہ جس نے مال دیا پھر اسے راہِ خدا میں خرچ کرنے کی تو فیق بخشی اور دوسرے وہ جسے اللہ نے علم و حکمت عطا فرمائی پھر وہ اس کے مطابق لوگوں کے فیصلے کرتا اور ان کو حکمت کی تعلیم دیتا ہے ‘‘
من دلَّ علی خیر فلہ مثل اجر فاعلہ(مسلم) ’’جس نے (دوسروں کو )نیکی کی کوئی بات بتائی تو اس پر عمل کر نے والے کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا‘‘جوو شخص طلب علم کے گھرسے نکلتا ہے۔اسے اللہ تعلی جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے ۔‘‘ طالب علم کی رضا کے لئے فرشتے اپنے پر بچھا دیتے ہیں ۔آسمان و زمین کی ہر مخلوق عالم کے لئے اللہ سے بخشش کرتی ہے۔۔۔۔۔۔’’عبادت گزار کے مقابلے میں عالم کو اتنی فضیلت حا صل ہے جتنی چودھویں رات کے چاند کو سارے ستاروں پر‘‘عالم کو ایک عبادت گزار کے مقابلے میں وہی فضیلت حاسل ہے جو مجھے یعنی نبی پاک ﷺکو، تمہارے ادنیٰ صحابی پر ،بیشک اللہ تعلی اس پر رحمت نازل کرتا ہے۔فرشتے اور آسمان و زمین کی ہر مخلوق حتیٰ کہ اپنے بلوں کے اندر چونٹیاں اور پانی کے اندر مچھلیاں بھی اس کئ لئے دعائے خیر کرتے ہیں ۔پھر آپﷺ نے یہ آیت قرآن ارشاد فرمائی: اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰؤُا۰
ۭ ) یعنی اللہ سے علماءہی صحیح طور پر ڈرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مشہور مقول ہے کہ :تمہارے باپ تین ہیں : تمہارا باپ جس نے جنا ،دوسرا جس نے تمہیں بیٹی دی ،اور تیسرا جس نے تمہیں علم سکھا یا ۔نبی کریم ﷺکا فرما ن ہے :’’اللہ تعلی اس آدمی کو سر سبز و شاداب رکھے جس نے میری کوئی حدیث سنی پھر آگے لوگوں تک پہنچائی ۔‘‘استاد کا کردار یہ معلم کی فضیلت اور تقدس محض اس بنا پر ہے کہ وہ کار ِنبوی کی وراثت اور تسلسل کا ذمہ دار ہے۔آنحضور ﷺ آخری پیغمبر ہیں ۔آپ ﷺ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا ۔اس لئے آپﷺکے بعد یہ مشن اساتذہ کے کندھوں پر ہے کہ وہ امت کی بہترین انداز میں رہنمائی کریں اور انہیں راہ حق سے نہ بھٹکنے دیں ۔اس عظیم مقام و مرتبہ کی عظمت جتنی مسرت بخش ہے،اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی نازک اور اہم ہے ۔معلمین کرام اگر اپنی ذمہ داریوں کی تعین اس پہلو سے کریں اور اس نقطئہ نظر سے اپنے فرائض منصبی اور اہمیت ِکارپرغور کریں تو اضطراب کے بے شمار پہلوان کے سامنے آئیں گے ۔معلم بچوں کی تربیت ،معاشرے کی رہنمائی اور امت مسلمہ کی تعمیروترقی کا ذمہ داری پر فائز ہو ا کرتے تھے ۔ لٰہذا اس ذمہ داری کی بکمال و تما م انجام وہی معلم کو محترم اور معتبر بناتی ہے اور اپنے فرائض میں کوتاہی ،غفلت اور حلیہ جوئی اسے اللہ کے نزدیک ناراضی کا باعث اور عوام میں بے آبرو دبے وُقعت بناتی ہے۔مقامِ غور ہے کہ استاد جن جن برگزیدہ ہستیوں کا وارث ٹھہرایا گیا ہے وہ کتنی بے غرض تھیں وہ تو پتھر کہا کر بھی اپنے فرائض ادا کیا کتی تھیں ۔گالیا سُن کر بھی اپنی قوم کے لئے ‘ہدایت کے لئے دعائے خیر کیا کرتی تھیں ۔انتہائی مشکل اور نا مُساعد حالات میں بھی کسی دنیاوی منفعت اور جاہ طلبی کے بغیر پوری جان ماری سے معاشرے کی خدمت جاری رکھی ،اسے جہالت لے ظلمتوں سے نکالنے کی سعی کی اور ان کو اپنے رب کی فرما بردارو مطیع بندہ بنے کا راستہ بتایا ۔آج کے معلم یہ اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ ہم جیسے کمزور انسان اتنے مثالی کردار کا مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں لیکن تھوڑا سا غور کرنے کے بعد یہ بات بے وزن محسوس ہونے لگتی ہے ۔کیونکہ معلم کا عظیم منصب ہم نے خود نہیں چُنا تھا ،بلکہ اللہ نے ہمیں مسلمان بننے کی سعادت بخشی پھر اس کے بعدمعلم بننے کی سعادت بھی اسی کی عطا کردہ ہے ۔ہمیں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئےکہ اس نے خود اپنی نوازش سے مقام عطا کیا ۔نہ صرف یہ مقام دیا بلکہ ساتھ ہی ہمارے نان نفقہ کا بندوبست بھی اسی ذمہ داری کے ساتھ وابستہ کردیا ۔معلم تو قوم کا مُربیّ ہے،وہ ان کو تعلیم دیتا ہے پھر ان کی تربیت کرتا ہے۔پھر معلم قوم کا مُزکیّ ہے کیونکہ ان کا تزکیہ نفس کرتا ہے اور انہیں گناہوں سے پاک صاف کرتا ہے ۔اس معلم کے مزکی اور عربی منصب پر فائز ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ معلمین ِکرام پوری دلسوزی سے ، جا نفسانی اور خلوصِ دل سے اپنے فرائض انجام دیں ،مسلم امت کی تعمیر کےلئے نسلِ نَو کی تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھار کھیں ۔انہیں اسلامی نظریہ دیں ۔نظرییہ قوم کو روحانی قوت عطا کرتا ہے نظر یہ کے بغیر قوم بے تربیت افراد کا مجموعہ بن جاتی ہے۔یہ جذبہ ایمانی تو ہے جو انسان کو بے تیغ بھی لڑنے کےلئےآمادہ کردیتا ہے،جنگیں صرف سازو سامان سے نہیں جیتی جا سکتیں ۔مادی فائدوں ،دنیاوی لزتوں کے لالچ کے بغیر اپنے فرائض پوری تندہی سے انجام دیں ۔تاکہ روزِقیامت اللہ کے ہاں سرخروہوں،باقی رہ گئی بات دنیاوی حرص و ہَوَس کی تو اس کی کوئی حد نہیں ہوتی اور صبرو قناعت سے بڑھ کر کوئی نومت نہیں ہے ۔اساتذہ کو تو نہ صرف خودصبر و قناعت اختیار کرنا ہے بلکہ اپنے شاگردوں کو اس کی تعلیم دینا اور اس کی تربیت بھی کرنا ہے ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔’’جو کوئی بھی مسلمانوں کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا پھر ان کےلئے ایسی خیر خواہی اور کوشش نہ کی جتنی وہ اپنی ذات کے لئے کرتا ہے ۔تو اللہ تعلی اس منہ کہ بل جہنم میں ڈال دے گا ‘‘۔تو جومعلمین و معلمات اپنی ذمہ داریاں (جو نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میںاساتذہ پر عائد ہوتی ہیں )اُسی اضطراب و احساس کے ساتھ پھری کر رہے ہیں ،جس اضطراب اور فکر سے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کرتے ہیں ،بے شک اللہ کے بھی سرخرو اور بندوں میں بھی محترم اور معزز ہیں ۔اور اگر اس میں ذرہ بھر بھی کوتاہی کرتے ہیں تو روزِ قیامت اللہ کو کیا جواب دیں گے جبکہ وہاں حلات کی ناسازگاری ،ماد ی سہولتوں کی کمیابی اور ملازمتی آسائٹوںکی نایابی ،قوم کی عدم توجہی ،طلبہ کی عدم دلچسپی میں سے کوئی بھی عذر کام نہ آسکے گا۔جو اساتذہ اپنے مقام و منصب کو سمجہ کر بطریقِ احسن اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو وہ تاریخ کے اوراق میں اپنا ذکر ثبت کر جاتے ہیں ۔ان کے شاگرد ان سے ابدی رشتہ جوڑلیتے ہیں ،ان کی شاگردی پر تادمِ مرگ فخر کرتے رہتے ہیں ۔ان کی تیار کردہ ٹیم دنیا کے لئے حیات بخش انقلاب کی نوید بنتی ہے اور رسوم و رواج کی زنجیروں ،جہالت کی تاریکوں کو دور کرکے اپنی پوری قو م اور ملت کے لئے رُشد و ہدیت کا باعث ثابت ہوتی ہے ۔امام احمد بن حنبل ،امام ابو حنیفہ ،امام غزالی ،امام ابن تیمیہ جیسے بڑے بڑے اساتذہ کے ذکر خیر کے بغیر ہماری تاریخوں ادھوری رہ جاتی ہے۔
مسلمان معلمین کی ذمہ داریاں۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمان معلم پر دوہری ذمہ داریاںعائد ہوتی ہیں ایک تو وہ جو محض معلم ہونے کے ناطے ان کے لئے ضروری ہے ۔دوم وہ جو مسلما ن معلم ہونے کی بنا پر ہیں ۔ بنیا دی طور پر ہر معلم معمارِقوم ہوتا ہے۔وہی ہر وقت نسلِ نو کی تربیت کرتا رہتا ہے اور ان کو مختلف علم وفنون پڑھا تا رہتا ہے،ذاتی نمونہ و کردار سے ان کی تربیت کرتا رہتا ہے۔حتیٰ کہ تمدن کے تمام شعبوں کوسنبھال نے والےمردان ِ کار استا د ہی کی تعلیم و تربیت کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔چاہئے وہ مملکت کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہوں یا عدلیہ کو لانے والے ،وہ وکیل ہوں یا انجینئر،ڈاکٹرہوں یا پروفیسر ۔وہ فوج میں ہویا پولیس میں ۔بہر حال ہر کوئی زندگی کے جس شعبہ میں کام کررہا ہے وہ اپنے استاد کی تربیت کا عکس ہوتا ہے۔ لٰہذا استاد کا بنیادی فریضہ انسان سازی میں اگرچہ نصابِ تعلیم اور تعلیمی اداروں کی بھی گہرا اثر ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑہھ کر اس کا اہم ستون استاد ہی ہے وہ پورے نظام ِتعلیم کا مرکزو محور ہے۔نصاب تعلیم اسی نے پڑھانا ہے اس لئے جس طرح جاہےپڑھائے ۔لٰہذا اگر استاد اپنی اہمیت و ذمہ داری محسوس کرلے اگر اس کو اپنے مقام سے آگہی ہو اگر اس کو ااحساس ہو کہ وہ اول و آخر مسلمان ہے اور اس نے اسلامی انقلاب کےلئے نسل نو کو تیار کرنا ہے ۔تو ہر قسم کے حلات میں بھی آنےوالی نسل نو کی بے پناہ قوتوں کو اسلام کے لئے مسخر کر سکتا ہے۔ع
آگاہ اپنی حقیقت سے ہو اے دمقان ذرا
کہ دانہ بھی تو کھیتی بھی تو حاصل بھی تو ۔۔۔
استاد کےلئے چار میدانِ عمل ۔
چار عملی میدان ہیں جہاں استاد کو اپنا مقام پہچاننا اور اس کے مطابق کام کرنا ہے:(۱)اپنی ذات کی تعمیر (۲)علم میں مسلسل اضافہ کرتے رہنا (۳)شاگردی کی تعمیرسیرت (۴)اپنا تعلیمی ادارہ ۔
اپنی ذات کی تعمیر :اسلامی نظام تعلیم کا پہلا مقصد یہ ہے کہ انسان کے دل میں اپنے خالق کی عظمت جاگزیں ہو ۔اللہ پر اس کا ایمان مضبوط ہو ۔احکام ِالہٰی کے سامنے وہ تابع ہو نبی اکرم ﷺ کی شریعت کا پابند ہو ۔آخرت کی جو ابدی کا احساس ہروقت اس کو غلط کام سے روکے ۔دوسرے لوگوں کے ساتھ وہ عدل کا برتائو کرے۔ اعلٰی اخلاقی اقدار کا پابند ہو ۔خوش اخلاق اور نرم خو ہو۔علم کو عبادت سمجھ کر حصل کرے نہ کہ معاش کی خاطر ۔علم تو تعمیر سیرت کے لئے ہے۔خود شناسی کے لئے ہے۔ روح کی پاکیزگی ،اخلاق کی بلند ی اور کردار کی تعمیر کے لئے ہے وسیلہ معاشی او فکر معاشی کے لئے ہمارے تیرہ صد سالہ دور ماضی میں تعلیم ہمیشہ مُفت رہی اور کبھی بھی طلبہ سے فیس وصل نہ کی گئی ۔ حکومت خود تعلیم کا سارا بندوبست کرتی تھی ۔تعلیم ایک مشن ہے:چنانچہ ایک حقیقی استاد کوئی پیشہ ورکتابیں پڑھانے والا نہیں ہوتا بلکہ وہ ہروقت اپنے علم میں اضافہ کرتا رہتا ہے ۔اپنے مضمون کے بارے میں جدید ترین معلومات حاصل کرتا رہتا ہے وہ ایک مشنری ہوتا ہے ۔ محض روزی کمانے کے لئے اور بھی بہت سے کام کئے جا سکتے ہیں ،اسی طرح استا د بھی بن گئے ،مگر حقیقی استاد کا معاملہ بالکل اور ہوتا ہے۔حقیقی استاد ہی ہے جو اپنی زندگی کا مشن سمجھتا ہو کہ جو علم ہم کو اگلوں سے پہنچا ہے ،جو نظریات تہذیب ، اعقائد ،انکار ،عا دات ،خصائل جو کچھ بھی ہمیں اپنے اسلاف سے ملا ہے۔ اس کو ہم صحیح شکل میں عمدگی اور پوری دیانت داری کے ساتھاگلی نسل تک پہنچا دیں ۔تو ایسا شخص واقعی استا د ہے اور اگر کوئی اس جذبے سے کام نہیں ہے۔پھر ایک معلم اپنی رفتار ،گفتار ،غرض ہر بات میں معلم ہوتا ہے ۔اس کی ایک ایک چیز شاگردوں پر اثر ڈالتی ہے ۔وہ صرف کتاب نہیں پڑھتے بلکہ وہ خود اس کی بھی مطالعہ کرتے ہیٍں ۔جس وقت وہ کلاس میں داخل ہوتا ہے جب پڑھا ھوتا ہے ،پڑھانے کے دوران اس کی دلچسپی یا بیزاری ہر بارت پورے وقت میں طلبہ پر اثر انداز ہوتی ہے پھر وہ کلاس سے باہر ،بازار میں ،اپنے گھریلو معاملات میں ،ہر وقت طلبہ کے لئے نمو نہ ہوتا ہے گالی دینے والا استاد زبان سے گالی دینے کو تو نہ کہے مگر عمل سے وہ گالی دے رہا ہوتا ہے ۔ایک بد مزاج استاد جو ذرا سی بات پر تو مشتعل ہو جائے لیکن زبان سے طلبہ کو بد مزاج بننے کی تعلیم دے مگر عمل سے وہ طالب علم کو یہی سبق دے رہا ہوتا ہے کہ جو بات تمہاری مرضی کے برعکس ہو فوراً بھڑک اٹھو اور جو شخص تمہاری مرضی کے خلاف کام کرے اس پر فوراً برس پڑو لہٰذا یہ دیکھنا استاد کا کام ہے وہ معاشرے کو کس قسم کے انسان دے رہا ہے اور کس نوع کے کردار تعمیر کر رہا ہے ۔
شاگردوں کی تعمیر سیرت :
بنی پاک ﷺ کا ارشاد ہے:الاکلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ‘‘سنو تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پو چھا جائے گا’’۔چنانچہ ایک حقیقی معلم اپنے شاگردوں سے شفقت و محبت اور نرمی سے پیش آتا ہے۔ وہ ان کو دبکانے کے بجائے اپنی ذات سے مانوس کرتا ہے ۔ جو سوال وہ کریں اس کا جواب وہ شفکت سے دیتا ہے ۔ کلاس روم میں وقت پر پہنچتا ہے ۔وقت پورا ہونے پر کلاس چھوڑتا ہے اور خواہش مند بچوں کو کلاس کے علاوہ بھی وقت دیتا ہے ۔ان کی تعمیر سیرت کی بہت فکر کرتا ہے ۔ ان کے دلوں میں ایمان خوف خدا اور اتباع شریعت ،آخرت کی جو ابدہی کا احساس اجاگر کرنے کی کو شش کرتا ہے ۔ان کے ذہنوں سے تمام آلودگیوں کو دور کرنے اور دین کے بارے میں اغیار کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات دور کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتا ہے ان میں حمیت اور جذبہ جہاد بیدار کرتا ہے ۔اپنے طلبہ کی سیرت سازی کی خاطر خود بھی پابند دین و شریعت کے عملی نمونہ پیش کرتا ہے ۔پھر ایک اچھا استاد اپنے طالب علموں کے دلوں میں بھی مقصد اور نصب العین کی لگن پیدا کرتا ہے ان کو بیکار مشاغل سے اجتناب کرنے اور دین اسلام کو سر بلند کرنے کی لگن سے سر شار کرتا ہے۔وہ ان کو دنیا سے بے نیازی اور مادیت پرستی سے اجتناب کی تلقین بھی کرتا ہے کیونکہ جو علم صرف تلاشِ معاشی اور تن آسانی کا ذریعہ بن جائے ،وہ آستین کا سانپ ہے او رجو علم دل و نگاہ کو پاک صاف کرے وہی :اصلی علم ہے ۔پھر ایک اچھے معلم کے لئے ضروری ہے کہاپنے شاگردوں کو محنت کا عادی بنائے ۔قانون قدرت کے تحت جھولی اسی کسان کو بھرتی ہے جو اپنا خو ن پسینہ ایک کردے ۔آج کاہلی ،سستی ،ضیاع وقت اور کام کو ٹالنے کی عادت ہماری امتیازی خصوصیت بن چکی ہے ۔نتحیتاًتعلیم و تتلم کا معیاربہت گر چکا ہے چنانچہ شاگردوں کے دلوں میں محنت کی عظمت راسخ کرنا اور جانفشانی سے کام کرنے کی عادت ڈالنا استاد کے لئے بہت ضروری ہے تاکہ وہ نِت نئے تجربات کرے اور قدرت کی نعمتوں کو انسان کی فلاح و بہبو کے لےاستعمال کرنے میں سب سے آگے آگے ہو ۔کسی بھی قوم کے لئے قومی اتحاد و یکجہتی اولین ترجیع ہوتی ہے ۔ اورہمارے پاس تو اسلامی عقائد و فنکار ہیں ۔ہمارا اپنا نظریہ ہے جو اس یکجہتی کی بنیاد بن سکتا ہے اور مختلف ثقافتوں اور ززبانوں کو متحد رکھ سکتا ہے ۔
چند برس پہلے کا قصہ ہے کہ مختلف لسانی و صوبائی تعّصّبات کو ہندو اساتذہ کےہوا دے کر ہماری یکجہتی اور قوم و حدت کو بہت نقصان پہنچایا بلکہ آدھا پاکستان بھی گنوادیا اور باقی پاکستان میں بھی اپنی تعصبات کازہر گھولا جا رہا ہے ۔تو ایک اچھے معلم کا فرض ہے کہ وہ اپنے کو ان صوبائی ولسانی تعّصبات سے نکال کر ان کے ذہنوں کو اسلامی اخوت سے آشنا کرے ۔نظریہ پاکستان اور جذبہ حبُ الوطنی کا درس دے ، پھر اچھا استاد وہ ہے جو خود تخلیقی قوت رکھتا ہو اور آگے یہی تخلیقی قوت اپنے شگردوں کو منتقل کرے ۔اک تخلیقی ذہن رکھنے والا استاد اسباب و و سائل نہ ہونے کے باوجود مسلسل محنت سے اپنے کام میں لگا رہتا ہے وہ اپنے شاگردوں میں بھی یہ عادت راسخ کر دیتا ہے۔
استاد اور تعلیم گاہ :ایک مسلمان معلم اپنے تعلیمی ادارے میں پوری کوشش سے اپنا پورا وزن اسلام کےحق میں ڈالتا ہے ۔یہ کتنی بد نصیبی ہے کہ اسلام دشمن یا سلام بیزار لوگ ہر موقع پر یکجا ہو جاتے ہیں ۔ مگر اسلام پسند لوگ اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔اس لئے مسلمان استاد کا فرض ہے کہ اپنے تعلیمی ادارے میں اپنے طلبہ کے درمیان اسلامی قدروں کے نفاذکےلئے ایک مضبوط ستون بن کر کھڑا ہو جائے ۔وہ برحال پہلے اللہ کا بندہ ہے او ر پھر گورمنت کا ملازم ۔لازمی ہے کہ ہر حالت میں ہر مقام پر:تَعْتَدُوْا۰ وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۰
۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۰۠ :(نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ زیادتی کے کاموں میں باہم تعاون نہ کرنا)کے حکم قرآنی کی تعمیلکرتے ہوئے خیر کے موقع پر سب سے آگے آگے ہو اور اس کی ووٹ لازماً اسلامی کے حق میں جائے اور دینداروں کی تقویت کا باعث بنے۔ یہی عصر حاضر میں معلمین کےلئے چیلنج ہیں جن کو بحُسن و خوبی مکمل کرکے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔آج کے دور میں جنگیں میدانِ جنگ میں کم لڑی جاتی ہیں اور فکر و نظریا تی محاذ پرزیدہ تو معلمین ہیں جو قوم کو اعلیٰ قیادت مہیا کرتے ہیں ۔ ان کو بلند مقصدِحیات کا شعور دیتے ہیں اور ان کے لئے فکری و نظریاتی جہت مقرر کرتے ہیں ۔اس طرح ان کو بامِ ان کو بامِ عروج پر پہنچاتے ہیں ۔لارڈ میکالے کے وضع کردہ نظام ِ تعلیم نے مسلمان کو نہ صرف ان کے شاندار ماضی سے بیگانہ کیا آندہ کے لئے بھی ان کو دین بیزاراور تہذیب ِ مغرب کا دلدار بنادیا ۔پھر اس فرنگبت زدہ نظام تعلیم کو نتیجے میں جو قائدین مسلمانوں کو میسر آئےوہ سب اسلام سے دور ،اپنے دین سے تفور،اہل مغرب کے مفا دات کے پجاری اور ان سے بڑھ کر ان کے وفارار ثناخواں تھے۔نتیجہ یہ نکلا کہ بیشتر مسلمان ممالک جسمانی طور پر آزاد ہونے کے باوجود ذہنی طور پر امریکہ و بر طانیہ کے تسلط سے آزادنہ ہو سکے ۔بلکہ مغرب کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ۔نہ صرف قائدین بلکہ تقریباً تمام جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی مغربی طور اطوار کا دلدادہ بن گیا او راپنی اقدار و روایات کو رجعت پسند اور دقیانوسی قرار دینے لگا ۔مادیت کی ہمارے معاشرے میں ایک دوڑ شروع ہوگئی ۔اپنے فرائض سے پہلو تہی اور حقوق کے حصول کے لئے تشدد و تخریب کاری کا عنصر بڑھنے لگا ۔یہ تعلیمی ادارے جن کو مادرِ علمی کہا جاتا ہے ،جہا ں سے علم و حکمت کے اُجالے پھوٹنا تھے ،آج یہا ں عصبیت پرستی اور کلاشن کوف کلچر کا راج اخلاق اقتدار تباہ ہو رہی ہیں اور تعلیمی معیار زوال ی انتہا پر ہے ۔آج کوئی حولہ مئوثر نہیں آتا ۔دین کے نام پر پکا ریئےیا مشرقی تہذیب و اقتدار کی دہائیدیجئے۔دلوں میں ندامت کا کوئی احساس نہیں جاگتا ۔بزرگوں کے حولے سے بات ’’جزیشن گیپ‘‘کے مغربی طرزفکر نے غیر مئو ثر بنا کر رکھ دی ہے۔اسی کی زد میں آکر خود اساتذہ کی تاقیر اور احترام بھی قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔اس صورت حال کے پیدا ہونے کے یقیناً بہت سے عوامل ہیں جس میں نو جوان نسل کی اپنی کو تاہی بھی ہے، والدین کی تغافل بھی اور نصاب تعلیم کی خامیا ںبھی ہیں مگر قومی زندگی کےذمہ دار منصب پر فاےئز ہونے کی وجہ سے اساتذہ کو بھی اپنا جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ اس قومی بحر ان کے وجود میں آنے میں اساتذہ کی ذمہ داری کہا تک ہے ۔اس لئے کہ زندہ قومو ں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ بقول ِ اقبال
صورت شمشیر ہےدست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر ہر زماں اپنے عمل کا احتساب
اگر استا د اپنی کو تاہیوں کا تھو ڑا سا اوراک بھی کر لیں تو یہ احساس ہی ترقی کی جانب سفر پہلا قدم ہو گا ۔ مغربی مادہ پرست معاشرہ کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ وہاں ہر چیز کو پیسے کے ترازو میں تولا جاتا ہے ۔ بد قسمتی سے یہی رحجا ن ہماری شعبہ تعلیم و تدریس میں بھی گھس آیا ہے ۔اب تدریس ایک منصب نہیں رہا ، بلکہ بڑھئی اور موچی کی طرح کی ایک پیشہ بن گیا ہے ۔ہماری (B.A ۔(M.A ایم ۔اے ۔اور بی۔اے کی ڈگریاں گریڈ 15،16 اور 17کی ملازمت کے حصول کی ذریعہ بن کر وہ گئی ہیں ۔اگر پڑھی لکھی نسل کو حسبِ منشا ملازمت نہیں ملتی تو وہ سکولوں میں تدریس کا پیشہ اپنا لیتے ہیں۔ پھر انہیں اپنی تذلیل کا احساس، ناقدری کا احساس، محرومی کا احساس، اور ضروریا تِ زندگی کے لئے آمدنی کے ناکافی ہونے کا احساس اتنا دل برداشتی ہوتا ہے کے اسے تدریس سے، تعلیمی ادارے سے، اور اپنے طالب علموں سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ اس کی کار گرد گی پست ترین ہو کر رہ جاتی ہے۔ غور فرمایئے کہ روزانہ پانچ گھنٹے اس لا پرواہ، دل برداشتہ اور تندخو استاد کے ساتھ گزار کر بچوں کی شخصیت کس سانچےمیں ڈھلے گی۔ پھر جب یہی بچے گستاخی سے ہمیں آگے جواب دیتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ جب ہم شاگرد تھے تو ہم ایسے گستاخ اور بد زبان تو نہ تھے۔ واقعی ٹھیک! مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہما رے استا د بھی تو ہمارے جیسے نہ تھے۔ ہمارے استاد تو شوقِ علم اور ذوق تحقیق کم ہوتا گیا ہم زوال پذیر ہوتے گئے۔ سکولوں کالجوں کی بات جانے دیں، خود ہماری یونیورسٹی کے اساتذہ بھی کی عملی لیاقت کو چلانے کے عادی ہوتے ہیں۔ پھر مزید ستم یہ کہ ہماری اساتذہ کی علمی لیاقت کو جلانے کے لئے دوران سیشن یا طویل تعطیلات گرما کے دوران کوئی تعلیمی لیکچر، کسی سیمینا ر یا ورکشاپ،کسی ریفریشر کورس کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ الا ماشاءاللہ،نہ حکومتی سطح پر نہ تعلیمی اداروں کی جانب سے نہ اساتذہ تنظیموں کی طرف سے۔ محسوس ہوتا ہے کہ تعلیم و تحقیق کا میدان ہم نے مغربی اقوام کے لئے چھوڑدیا ہے آج ہمارا اچھے سے اچھا استاد وہ ہے جوذاتی زندگی میں عباد ت گزار اور دیانت دار ہے مگر منصبِ تدریسی کے تقاضے پورے کرنے والے، اپنے علم و تحقیق کو مسلسل جِلا دیتے رہنے والے اساتذہ بالکل معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ نو جوان نسل کی بے مقصد زندگی، نظم و ضبط سے عاری اور بے سلیقہ طور پر تنقید کرنا تو اساتذہ کا روزمرہ کا موضوع ہے۔ مگر ہم لوگ اس لحاظ سے اپنا جائزہ بہت کم لیتے ہیں کہ ہمارے کمرے جماعت، ہمارے تعلیمی شیڈول، ہمارے تعلیمی ادارے اور خود ہمارا طرز عمل تو انہیں نظم و ضبط کے بجائے بدنظمی اور خود غرضی کی تعلیم دینا ہے۔ ٹیوشن ،گائیڈبکس استعمال کرنے کی ترغیب، ڈیوٹی کے اوقات میں ذاتی کام، سرکاری ملکیت اشیاء کو ذاتی استعمال میں لانا، کلاسوں میں پانچ دس منٹ کی تاخیر سے جانا، جلدی کلاسیںچھوڑ دینا ،داخلوں امتحانات اور نتائج کی تیاری میں اصول کے خلاف کام کرنا یہ سارے عملی مظاہر جب طلباء کے سامنے ہوں اور اس استاد کے ہاتوں وہ یہ سب کچھ ہوتا دیکھیں جس کو وہ علم و تقدس کے اعلی معیار پر فائز سمجھتے ہوں تو یہ سب کچھ پھر اُن کے اپنے لئے کیوں یہ جائز اورمستند ہوگا؟
خواتین اساتذہ میں یہی مسائل کچھ اور طرح سے بھی رنگ دکھاتے اور مسائل پیدا کرتے ہیں کہ اساتذہ کے اس اخلاقی و عملی طرز عمل کے ساتھ فیشن، اسراف، مغرب زدگی، بے حیائی او ر عریانی کا ایک جو از طالبات کے پاس ہے اور وہ ہے خود اساتذہ کے خوبصورت میچنگ والے لباس، جوتے ہینڈ بیگ، بلکہ ہم اگر کسی حد تک رُکے ہوئے ہیں تو خود اس کی تکمیل ہماری اس فیشن پرستی نے کردی ہے اب اگر بچے اسلامی شعائر سے نالاں ہیں، تو کیا ہم نے اپنی شخصیت سے اور اپنے رویے سے یہ چیز یں ان کے لئے پسند یدہ بنا نے کی کو شش کی بلکہ ہمارا طرزعمل تو شاگردوں کی روحانی اور اخلاقی موت کے مترادف ہے۔ یقین کیجئے کہ اساتذہ کی اخلاقی شعور سے بے نیاز ی نے اگلی نسل کی بد دیانت ، خائن ،لالچی بنا کر معاشرتی بگاڑ پیدا کیا ۔ علمی سے بے پر وا ہی نے نقل ، سفارش اور اثر و سوخ سے اسناد حاصل کرنے والے نا لائق ڈاکٹر ،انجینئر ،وکیل ،جج،استاد اور سائنسدان ان معاشرے کو دیئے جن کی بے بصیرتی اور پیشہ ورانہ مہا رت میں کوتاہی نے معاشرہ میںہر ذمہ دارانہ ڈیوڈٹی کا معیا ر گرادیا ۔اور پھر اساتذہ کی نظریا تی شعور سےمحرومی ،اگلی نسل کو جب حبُّ الوطنی ،دین اسلام سےمحبت مضبوت ایمان اور جذبہ نہ دے سکی تو انہوں نے پھر ہر نظریے ،ہر پکار اور نعرے کو آنکھیں بند کر کے اپنانا شروع کردیا بغیر دیکھے کہ اس سے ہمارا ایمان خطرے میں نہیں پڑتا ،یہ وطن کی بنیادوں کیوتو نہیں مسمار کر رہا ۔چنانچہ آج کی نسل نہ مسلمان ہے اور نہ محّب وطن بلکہ وہ پہلے سندھی ،بلوچی اور پنجابی اور سرحدی بنی۔بعد میں کچھ اذر۔۔۔۔بقول ِ اقبال
گلا تو گھونٹ دیا اہل ِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئےصدا لا الہ الا اللہ
اگر استاد اپنے پیشے کے تقدس اور اس کی اہمیت پر غور کریں کہ بڑے بڑے قومی رہنمائوں سے لے کر معمولی کلر اور پرائمری پاس تاجر سب ہی اس کے زیر تربیت رہ کر آتے ہیں اور ان میں سے ہر کسی کا بگاڑ اساتذہ کے کھاتے میں آتا ہےتو یہ بات ان کے اپنے طرز عمل میں اصلاح کی ضرورت اور اہمیت پر انہیں خود ہی آمادہ کر سکتی ہے ۔ مزید برآں جب یہ احساس جا گزیں ہو جائے کہ یہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں شاگرد ہمارے پاس امانت ہیں ۔اور ہم اس امانت کے لئے خدا کے ہاں جوابدہ ہیں اور یہ روز قیامت ہمارے لئے سر خرو ئی یا سیا ہ روئی کا سبب اور میزان بنیں گے تو پھر ہم کو ہر گھڑی طالب علم کے حقوق ادا کرنے کی فکر ہو گی ادر اپنے منصب کا یہ شعور ہما ری دین و دنیا سنواردے گا ۔ یاد رکھئے اگر کسی استا د کا اپنے طلبہ پر کوئی اثر نہیں ،وہ ان کو غنڈہ گردی اور ایجی ٹیشن سے نہیں روک سکتا ۔تو وہ بحیثیت ِ استاد با لکل نا کارہ ہے وہ اپنے ادارے یہ اپنے معا شرے کے لئے کسی قدرو قیمت کا حامل نہیں ۔اساتذہ تو اپنے طلباءکے لئے قابل ِ بھروسہ مشیر و رہنماہوتے ہیں ۔اچھے قابل استاد آج بھی طلبہ کے درمیان عزت و تکریم و احترام کی نگاہ سے دیکھےجاتے ہیں ۔اگر نئی نسل نظم و ضبط کی پابندی اور اپنے نظریہ ایمانی سے سر شار اسلام کی معاشرتی و اخلاقی اقدار پر یقین رکھتی ہو یقیناً اعتراف کیا جائے گا کہ ان کے اساتذہ بہت اچھے تھے ۔جنہوں نے جنہوں نے ان کو صحیح تعلیم وتربیت اور رہنمائی فراہم کی ہے ۔ اس کے بر عکس اگر طلباء سر کشی ، کج روی ت،توڑپھوڑ، ہنگامہ آرائی کا مظاہرہ کریں ،منشیات اور کلاشن کوف کی غلط عادات بڑھتی جائیںتو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ان کی تربیت غلط ہاتوں میں ہوئی ہے۔
 
Top