- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
فقہ السیرۃ النبویہ : سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تنظیمی ، تربیتی اور سیاسی رہنمائی
اسوہ حسنہ ،باب نمبر:3 ،عرب کی معاشی حالت :
(1) جزیرہ عرب کا زیادہ تر حصہ بے آب وگیاہ، لق و دق صحرا اور طویل پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔
(2) موسم خشک اور شدید گرم ہے۔ بارشیں بہت کم ہوتیں اور پانی کی شدید قلت ہے۔
(3) اہل عرب کے پالتوں جانور، بھیڑ، بکری اور اونٹ ہیں۔ اونٹ کو عرب میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ عرب ان جانوروں کا گوشت کھاتے اور دودھ پیتے تھے ۔
(4) جانوروں کا چمڑا فروخت کرکے ضروریات زندگی کا سامان کرتے تھے۔ ان کی معاش کازیادہ تر انحصار جانوروں پر ہی تھا۔ ان کی کھالوں اور چمڑے کا کاروبار کرتے۔
(5) عرب کا مقامی پھل کھجور تھی ،دودھ اور کھجور ہی ان کی عام طور پر غذا تھی۔
(6) عرب کا معزز ترین اور مشہور ترین ذریعہ معاش تجارت تھا۔ اس کے لیے وہ مختلف موسموں میں شام، یمن اور حبشہ جایا کرتے۔
(7) تجارت کے لیے بحری رستہ کے بجائے بری رستے زیادہ اختیار کیے جاتے، وہ بھی خاص ایام اور خاص موسم میں۔
(8) عرب تجارت کے لیے قافلوں اور گروہوں کی صورت میں رخت سفر باندھا کرتے۔
(9) مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں عارضی منڈیاں لگتیں،جن میں عرب بھر کے لوگ آتے۔ اس کے علاوہ کئی ایک مستقل تجارتی منڈیاں بھی تھیں۔
(10) اسواق عرب کے کھنڈر ابھی بھی موجود ہیں۔ عکاظ، مجنہ، ذوالمجاز ان کی مشہور ترین تجارتی منڈیاں تھیں۔
(11) مدینہ، طائف اور ساحل سمندر پر محدود پیمانے میں زراعت بھی کی جاتی تھی۔
(12) صنعت و حرفت، غلاموں اور جانوروں کی خرید و فروخت،کنووں کا پانی بیچنا، نفس فروشی، لوٹ گھسوٹ، غارت گری، شراب اور بت فروشی بھی عرب کے ذرائع آمدن میں شامل تھی ۔
(13) بتوں کے نام نذر و نیاز ، بت کدوں کے مخافظین کے لیے بہت بڑا ذریعہ معاش سمجھا جاتا تھا۔
(14) جزیرہ عرب کے یہودی سب سے زیادہ مالدار تھے۔ سونے چاندی کے انبار اور اسلحہ کے ذخائر کے مالک تھے۔ لوگوں کو سود پر قرض دیتے اور متحارب گروہوں کو اسلحہ فروخت کرتے۔
(15)عرب کی برآمدات، درآمدات کی نسبت بہت کم تھیں۔
(16) قدیم اور جدید عرب کے ذرائع آمدن اور سامان تجارت ومعاش میں بہت فرق ہے۔
(17) سونے،چاندی اور دیگر معدنیات کی کانیں اور تیل کے ذخائر نے عرب ممالک کی معاشی حالت بہت مستحکم کر دی ہے۔
(18) تیل کی ضروریات کے لیے تو ساری دنیا اب ان کی محتاج ہے۔
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))
اسوہ حسنہ ،باب نمبر:3 ،عرب کی معاشی حالت :
(1) جزیرہ عرب کا زیادہ تر حصہ بے آب وگیاہ، لق و دق صحرا اور طویل پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔
(2) موسم خشک اور شدید گرم ہے۔ بارشیں بہت کم ہوتیں اور پانی کی شدید قلت ہے۔
(3) اہل عرب کے پالتوں جانور، بھیڑ، بکری اور اونٹ ہیں۔ اونٹ کو عرب میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ عرب ان جانوروں کا گوشت کھاتے اور دودھ پیتے تھے ۔
(4) جانوروں کا چمڑا فروخت کرکے ضروریات زندگی کا سامان کرتے تھے۔ ان کی معاش کازیادہ تر انحصار جانوروں پر ہی تھا۔ ان کی کھالوں اور چمڑے کا کاروبار کرتے۔
(5) عرب کا مقامی پھل کھجور تھی ،دودھ اور کھجور ہی ان کی عام طور پر غذا تھی۔
(6) عرب کا معزز ترین اور مشہور ترین ذریعہ معاش تجارت تھا۔ اس کے لیے وہ مختلف موسموں میں شام، یمن اور حبشہ جایا کرتے۔
(7) تجارت کے لیے بحری رستہ کے بجائے بری رستے زیادہ اختیار کیے جاتے، وہ بھی خاص ایام اور خاص موسم میں۔
(8) عرب تجارت کے لیے قافلوں اور گروہوں کی صورت میں رخت سفر باندھا کرتے۔
(9) مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں عارضی منڈیاں لگتیں،جن میں عرب بھر کے لوگ آتے۔ اس کے علاوہ کئی ایک مستقل تجارتی منڈیاں بھی تھیں۔
(10) اسواق عرب کے کھنڈر ابھی بھی موجود ہیں۔ عکاظ، مجنہ، ذوالمجاز ان کی مشہور ترین تجارتی منڈیاں تھیں۔
(11) مدینہ، طائف اور ساحل سمندر پر محدود پیمانے میں زراعت بھی کی جاتی تھی۔
(12) صنعت و حرفت، غلاموں اور جانوروں کی خرید و فروخت،کنووں کا پانی بیچنا، نفس فروشی، لوٹ گھسوٹ، غارت گری، شراب اور بت فروشی بھی عرب کے ذرائع آمدن میں شامل تھی ۔
(13) بتوں کے نام نذر و نیاز ، بت کدوں کے مخافظین کے لیے بہت بڑا ذریعہ معاش سمجھا جاتا تھا۔
(14) جزیرہ عرب کے یہودی سب سے زیادہ مالدار تھے۔ سونے چاندی کے انبار اور اسلحہ کے ذخائر کے مالک تھے۔ لوگوں کو سود پر قرض دیتے اور متحارب گروہوں کو اسلحہ فروخت کرتے۔
(15)عرب کی برآمدات، درآمدات کی نسبت بہت کم تھیں۔
(16) قدیم اور جدید عرب کے ذرائع آمدن اور سامان تجارت ومعاش میں بہت فرق ہے۔
(17) سونے،چاندی اور دیگر معدنیات کی کانیں اور تیل کے ذخائر نے عرب ممالک کی معاشی حالت بہت مستحکم کر دی ہے۔
(18) تیل کی ضروریات کے لیے تو ساری دنیا اب ان کی محتاج ہے۔
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))