• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس حدیث کی شرح درکار ہے

Badar Umair

مبتدی
شمولیت
فروری 01، 2022
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
حدثنا عبد الرحمن بن المبارك، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا ايوب ويونس، عن الحسن، عن الاحنف بن قيس، قال: ذهبت لانصر هذا الرجل فلقيني ابو بكرة، فقال: اين تريد؟ قلت: انصر هذا الرجل، قال: ارجع، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا التقى المسلمان بسيفيهما، فالقاتل والمقتول في النار، فقلت: يا رسول الله، هذا القاتل، فما بال المقتول؟ قال: إنه كان حريصا على قتل صاحبه".
ہم سے بیان کیا عبدالرحمٰن بن مبارک نے، کہا ہم سے بیان کیا حماد بن زید نے، کہا ہم سے بیان کیا ایوب اور یونس نے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے احنف بن قیس سے، کہا کہ میں اس شخص (علی رضی اللہ عنہ) کی مدد کرنے کو چلا۔ راستے میں مجھ کو ابوبکرہ ملے۔ پوچھا کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا، اس شخص (علی رضی اللہ عنہ) کی مدد کرنے کو جاتا ہوں۔ ابوبکرہ نے کہا اپنے گھر کو لوٹ جاؤ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر (ضرور دوزخی ہونا چاہیے) مقتول کیوں؟ فرمایا ” وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا۔ “ (موقع پاتا تو وہ اسے ضرور قتل کر دیتا دل کے عزم صمیم پر وہ دوزخی ہوا
 
شمولیت
جنوری 06، 2022
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
یہ بخآری کی حدیث ہے، کتاب ایمان میں سے۔ مسلمان کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ قتل گناہ کبیرہ ہے۔ مسلمان جب آپس میں لڑیں، سیاسی، معاشی یا پھر وطن پرستی کی لڑائی، مسلک کی لڑائی، فقہ کی لڑائی، جہاں آپس میں ایک دوسرے کے لیئے عداوت ہو، نفرت و حقارت ہو، تو قاتل و مقتول دونوں گناہ گار ہیں اگر ایک نے دوسرے کو قتل کردیا۔
 

Badar Umair

مبتدی
شمولیت
فروری 01، 2022
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
یہ بخآری کی حدیث ہے، کتاب ایمان میں سے۔ مسلمان کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ قتل گناہ کبیرہ ہے۔ مسلمان جب آپس میں لڑیں، سیاسی، معاشی یا پھر وطن پرستی کی لڑائی، مسلک کی لڑائی، فقہ کی لڑائی، جہاں آپس میں ایک دوسرے کے لیئے عداوت ہو، نفرت و حقارت ہو، تو قاتل و مقتول دونوں گناہ گار ہیں اگر ایک نے دوسرے کو قتل کردیا۔
جناب اس روایت کے بارے میں ایک شیعہ نے اعتراض کیاتھا کہ آپ اس بخاری کو قرآن مجید کے بعد صحیح کہتے ہیں لیکن اس میں تو صحابہ کرام کو نعوذباللہ جہنمی کہا گیا ہے اس لئے اس کی شرح درکار تھی اگر کوئی اور بھائی اس اعتراض کا جواب دے تو مہربانی ہوگی
 

سنی شیر 313

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 27، 2021
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
9
جناب اس روایت کے بارے میں ایک شیعہ نے اعتراض کیاتھا کہ آپ اس بخاری کو قرآن مجید کے بعد صحیح کہتے ہیں لیکن اس میں تو صحابہ کرام کو نعوذباللہ جہنمی کہا گیا ہے اس لئے اس کی شرح درکار تھی اگر کوئی اور بھائی اس اعتراض کا جواب دے تو مہربانی ہوگی
روایات میں یہ کہا ہے کہ صحابی جہنمی ہیں ؟ نوذبللہ ۔۔۔ پُوچھو اُس رافضی سے
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
فالقاتل والمقتول في النار
اس میں تو صحابہ کرام کو نعوذباللہ جہنمی کہا گیا ہے
جنگ جمل و صفین کے قتل کرنے والے اور قتل ہونے والے صحابہ اس میں شامل نہیں کیونکہ ان کے درمیان قتال اجتہادی تھا لہذا سیدنا علی و سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں ہی و دونوں کے لشکر میں موجود صحابہ ثواب کے مستحق ہیں۔ حتی کہ جنہیں اجتہادی خطا تھی ان کے لیے بھی اجر ثواب ہے۔
التقى المسلمان بسيفيهما
اور اس روایت میں عمل قتال کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ’’مسلمان‘‘ کہا ہے
في النار
یہ اس عملِ قتل کی جزاء بتائی گئی ہے اسے قاتل و مقتول کے لیے لازم نہیں کیا گیا ہے جیسا کہ

شمس الدين الكرماني (المتوفى: 786هـ) اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :

(فالقاتل والمقتول في النار) فإن قلت القاتل والمقتول من الصحابة في الجنة إذا كان قتالهم عن الاجتهاد الواجب إتباعه قلت ذاك عند عدم الاجتهاد وعدم ظن أن فيه الصلاح الديني أما إذا اجتهد وظن الصلاح فيه فهم مأجوران مثابان من أصاب فله أجران ومن أخطأ فله أجر وما وقع بين الصحابة رضي الله تعالى عنهم هو من هذا القسم فالحديث ليس عاماً. فإن قلت فلم منع أبوب كرة الأحنف منه وامتنع بنفسه منه قلت ذلك ايضاً اجتهادي فكان اجتهاده أدى إلى الامتناع والمنع فهو أيضاً يثاب في ذلك فإن قلت لفظة في النار مشعرة بحقيقة مذهب المعتزلة حيث قالوا بوجوب العقاب للعاصي قلت لا إذ معناه حقهما أن يكونا في النار وقد يعفو الله عنهما نحو قوله: تعالى (فجزاؤه جهنم) معناه هذا جزاؤه وليس بلازم أن يجازى بها.

[الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري، ج ١ ، ص : ١٤٣]
 
Top