• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس روایت کی ’’فھم‘‘ کیا ہوگی؟ کیا یہ آج کے دور میں شام کے حالات کے بارے میں ہے؟

شمولیت
اپریل 16، 2015
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
57
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2535

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي ضَمْرَةُ أَنَّ ابْنَ زُغْبٍ الإِيَادِيَّ حَدَّثَهُ، قَالَ: نَزَلَ عَلَيَّ عَبْدُاللَّهِ بْنُ حَوَالَةَ الأَزْدِيُّ، فَقَالَ لِي: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِنَغْنَمَ عَلَى أَقْدَامِنَا، فَرَجَعْنَا، فَلَمْ نَغْنَمْ شَيْئًا، وَعَرَفَ الْجَهْدَ فِي وُجُوهِنَا فَقَامَ فِينَا، فَقَالَ: < اللَّهُمَّ لا تَكِلْهُمْ إِلَيَّ، فَأَضْعُفَ عَنْهُمْ، وَلا تَكِلْهُمْ إِلَى أَنْفُسِهِمْ، فَيَعْجِزُوا عَنْهَا، وَلا تَكِلْهُمْ إِلَى النَّاسِ، فَيَسْتَأْثِرُوا عَلَيْهِمْ >، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي، أَوْ قَالَ: عَلَى هَامَتِي، ثُمَّ قَالَ: < يَا ابْنَ حَوَالَةَ! إِذَا رَأَيْتَ الْخِلافَةَ قَدْ نَزَلَتْ أَرْضَ الْمُقَدَّسَةِ فَقَدْ دَنَتِ الزَّلازِلُ وَالْبَلابِلُ وَالأُمُورُ الْعِظَامُ وَالسَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنَ النَّاسِ مِنْ يَدِي هَذِهِ مِنْ رَأْسِكَ >.
[قَالَ أَبو دَاود: عَبْدُاللَّهِ بْنُ حَوَالَةَ حِمْصِيٌّ]۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۸۸) (صحیح)۲۵۳۵- ضمرہ کا بیان ہے کہ ابن زغب ایادی نے ان سے بیان کیا کہ عبداللہ بن حوالہ ازدی رضی اللہ عنہ میرے پاس اُترے، اور مجھ سے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بھیجا ہے کہ ہم پیدل چل کر مال غنیمت حاصل کریں، تو ہم واپس لوٹے اور ہمیں کچھ بھی مال غنیمت نہ ملا، اور آپ ﷺ نے ہمارے چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھے تو ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا:''اللہ! انہیں میرے سپرد نہ فرما کہ میں ان کی خبرگیری سے عاجز رہ جائوں، اور انہیں ان کی ذات کے حوالہ (بھی) نہ کر کہ وہ اپنی خبرگیری خود کرنے سے عاجز آجائیں، اور ان کو دوسروں کے حوالہ نہ کر کہ وہ خود کو ان پر ترجیح دیں'' ، پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سر پر یا میری گدی پر رکھا اور فرمایا :'' اے ابن حوالہ! جب تم دیکھو کہ خلافت شام میں اتر چکی ہے، تو سمجھ لو کہ زلزلے، مصیبتیں اور بڑے بڑے واقعات (کے ظہور کا وقت) قریب آگیا ہے، اور قیامت اس وقت لوگوں سے اتنی قریب ہو گی جتنا کہ میرا یہ ہاتھ تمہارے سر سے قریب ہے''۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
جب تم دیکھو کہ خلافت شام میں اتر چکی ہے، تو سمجھ لو کہ زلزلے، مصیبتیں اور بڑے بڑے واقعات (کے ظہور کا وقت) قریب آگیا ہے
علامہ ابو سلیمان الخطابی رحمہ اللہ۔۔معالم السنن ۔۔میں لکھتے ہیں :
’’ وإنما أنذر به صلى الله عليه وسلم أيام بني أمية وما حدث من الفتن في زمانهم والله أعلم.‘‘ اس حدیث میں جناب رسول اللہ ﷺ نے بنو امیہ کے دور کے متعلق خبردار کیا ہے ،کہ اس میں بڑے بڑے آزمائشی امور نمودار ہونگے ‘‘(معالم السنن ج۲ ص۲۴۷ )
اور علامہ عظیم آبادی ۔۔عون المعبود ۔۔میں لکھتے ہیں :
(إِذَا رَأَيْتَ الْخِلَافَةَ) أَيْ خِلَافَةَ النُّبُوَّةِ (قَدْ نَزَلَتْ أَرْضَ الْمُقَدَّسَةِ) أَيْ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى أَرْضِ الشَّامِ كَمَا وَقَعَتْ فِي إِمَارَةِ بني أمية قاله القارىء ‘‘
کہ خلافت سے مراد ’’خلافت نبوت ‘‘ ہے ۔اور ’’ ارض مقدس ‘‘ سے مراد ملک شام ہے ،اور خلافتِ نبوت بنو امیہ کے دور میں مدینہ سے شام منتقل ہوئی ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ’’ ارض مقدس ‘‘ سے مراد ۔۔بیت المقدس ۔۔بھی ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی زبانی بیان فرمایا :( (يا قوم ادخلوا الأرض المقدسة التي كتب الله لكم)، اے قوم ’’ ارض مقدس ‘‘ میں داخل ہو جائو ،جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ‘‘
اور ’’ الإسلام سؤال وجواب ‘‘ پر ایک سوال کے جواب میں اس حدیث سے مراد ۔۔بیت المقدس ۔۔ہی لیا ہے
’’ ويحتمل أن يكون المراد بعمارة بيت المقدس نزول الخلافة فيه في آخر الزمان . ويدل عليه ما رواه أبو داود (2535) عن عبد الله بن حَوَالة الأزدي ، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم لنغنم على أقدامنا فرجعنا ، فلم نغنم شيئا ، وعرف الجهد في وجوهنا ، فقام فينا فقال: (اللهم لا تكلهم إليّ فأضعف عنهم ، ولا تكلهم إلى أنفسهم فيعجزوا عنها ، ولا تكلهم إلى الناس فيستأثروا عليهم) ثم وضع يده على رأسي أو قال: على هامتي ، ثم قال: (يا ابن حوالة ، إذا رأيت الخلافة قد نزلت أرض المقدسة فقد دنت الزلازل والبلابل [البلابل: الهموم والأحزان] والأمور العظام ، والساعة يومئذ أقرب من الناس من يدي هذه من رأسك) . وصححه الألباني في صحيح أبي داود . فظاهره أن نزول الخلافة في الأرض المقدسة سيكون قريبا جداً من الساعة ، فقد يكون هذا هو المراد بعمارتها . والله أعلم .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس وقت تو دنیا میں کسی ۔۔خلافت نبوت ۔۔کا وجود نظر نہیں آتا ،ملک شام میں جس فرقے ( نصيري شيعة ) کی حکومت ہے ،اس فرقے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ،
’’النصيرية هي حركة باطنية ظهرت في القرن الثالث الهجري , أصحابها يعدون من غلاة الشيعة , الذين زعموا بأن الإله قد حل في علي بن أبي طالب رضي الله عنه , ومقصدهم من ذلك هو هدم الإسلام ونقض عراه .‘‘
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
جب تم دیکھو کہ خلافت شام میں اتر چکی ہے، تو سمجھ لو کہ زلزلے، مصیبتیں اور بڑے بڑے واقعات (کے ظہور کا وقت) قریب آگیا ہے
اس حدیث میں لفظ ہے (((إذا نزلت الخلافة))) جب خلافت نازل ہوگی۔۔۔۔۔اور عام طور اس موقع پر کہا جاتا ہے ۔۔۔خلافت قائم ہوگی ۔۔۔
تو اس ’’خلافت کے نازل ہونے ‘‘ سے مراد ’’ نزول عیسی علیہ السلام ‘‘ بھی ہو سکتا ہے ۔۔
یعنی جب عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہونگے ،اس وقت مسلمانوں کی حکومت ارض شام میں ہو گی جیسا احادیث میں وارد ہے :
رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: » كَيْفَ أَنْتُم إذا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فيكُمْ وإمامُكُم مِنْكُمْ « تم اس وقت کس حال میں جب عیسی ابن مریم تم میں نازل ہونگے ،اور تمہارا امام تمہی میں سے ہوگا ‘‘صحیح بخاری (3449 )
 
شمولیت
اپریل 16، 2015
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
57

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
’’ عون المعبود ‘‘ علامہ شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے ؛

امام شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا

مختصر تعارف:
امام شمس الحق عظیم آبادی 1273ھ بمطابق 1857ئ کو رمنہ ( عظیم آباد ، پٹنہ ) میں پیدا ہوئے ۔ ان کا شمار اپنے وقت کے جلیل القدر محدثین میں ہوتا ہے ۔

اساتذہ كرام:
انہوں نے عرب و عجم کے جید علمائے حدیث و تفسیر سے علم کی تحصیل کی ۔ جن میں سید نذیر حسین محدث دہلوی ، قاضی بشیر الدین قنوجی ، شیخ حسین بن محسن یمانی ، شیخ احمد بن عیسیٰ نجدی ، امام ابو البرکات نعمان بن محمود آلوسی ، شیخ محمد بن سلیمان حسب اللہ شافعی ، امام محمد بن فالح مہناوی مدنی ، شیخ عبد الرحمان بن عبد اللہ السراج مکی وغیرہم شامل ہیں ۔

تصانيف:
امام عظیم آبادی نے
غایۃ المقصود شرح سنن ابی داود (23 جلد ) ،
عون المعبود شرح سنن ابی داود (4 جلد ) ،
التعلیق المغنی علیٰ سنن الدارقطنی (2 جلد ) ،
اعلام اھل العصر باحکام رکعتی الفجر ،
رفع الالتباس عن بعض الناس جیسی بلند پایہ تصانیف رقم فرمائیں ۔

وفات:
امام عظیم آبادی کا انتقال 1329ھ بمطابق 1911ئ کو ڈیانواں ( پٹنہ ) میں ہوا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم، ان کے بارے میں وضاحت کردیں کہ یہ کون اور کب کے علماء ہیں؟
جزاک اللہ خیر
امام أبو سليمان حمد بن محمد بن إبراهيم ابن الخطاب البستي، : فقيه محدث، من أهل بست (من بلاد كابل) من نسل زيد بن الخطاب (أخي عمر بن الخطاب) .
چوتھی صدی ہجری (319 - 388 هـ = 931 - 998 م) کے نامور محدث ۔انہوں نے علم حدیث پر ویسے تو کئی کتب مرتب فرمائیں تاہم انکی دو کتابیں بہت مشہور ہیں
(۱) غریب الحدیث (۲) معالم السنن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام ابو سلیمان الخطابی
جریدہ "الواقعۃ" کراچی، شمارہ8 ، 9 محرم، صفر 1433ھ/ نومبر ، دسمبر 2012
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
امام ابو سلیمان الخطابی
شیخ الاسلام امام ابو سلیمان حمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب الخطابی البستی مشاہیر ائمہ اسلام و فقہائے محدثین میں سے تھے ۔
آپ کی کنیت ابو سلیمان نام حمد تھا ۔ بعض تذکرہ نگاروں نے احمد بھی لکھا ہے جو کہ درست نہیں ۔ اپنے جدّ بزرگوار الخطاب کی صفتِ نسبتی سے الخطابی کہلائے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصوف کا سلسلۂ نسب خلیفۂ ثانی سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے بھائی زید رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے اسی نسبت سے '' الخطابی '' کہا جاتا ہے ۔ ( وفیات الاعیان، غایة المقصود)
٣١٩ھ میں بمقام '' بُست '' ولادت ہوئی ۔ '' بست '' بلادِ کابل کے اطراف میں ہرات و غزنی کے درمیان واقع ہے (وفیات الاعیان، غایة المقصود) ۔ لیکن مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری کی تحقیق کے مطابق : '' بُست بضم الباء مدینة بین سجستان و غزنین و ہراة ۔''( سیرة البخاری : ١٧٧)


امام خطابی نے تحصیلِ علم کے لیے عراق ، حجاز ، خراسان اور ماوراء النہر کا سفر کیا اور ہر جگہ کے اساطینِ علم سے استفادئہ علمی کیا ۔ عراق میں شیخ ابو علی الصفار ، ابو جعفر الرزاز وغیرہما سے استفادہ کیا ۔ مکہ مکرمہ میں امام ابو سعید بن الاعرابی ، بصرہ میں ابوبکر بن داسہ ، بغداد میں امام اسماعیل بن محمد الصفار سے کسبِ علم کیا ۔

صاحبِ '' غایة المقصود '' علّامہ ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی نے امام خطابی کے اساتذئہ حدیث و فقہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے مشائخِ حدیث میں ابو العباس الاصم نیشاپوری ، ابو عمر محمد بن عبد الواحد زاہد صاحب ابی العباس اور عبد اللہ بن محمد المسکی شامل ہیں اور مشائخِ فقہ میں ابو علی اور قفال ہیں ۔( غایة المقصود :١/٤٢ -٤٣)

امام خطابی نے ایک طویل عرصہ تک نیشاپور میں قیام کیا ۔ یہاں درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع کیا ۔ امام خطابی کثیر الدرس مدرس تھے ۔ ان کے حلقۂ وابستگانِ علم کا دائرہ بہت وسیع تھا ۔ ان کے تلامذہ و مستفدین میں امام ابو عبد اللہ الحاکم نیشاپوری ، امام عبد الغفار بن محمد الفارسی ، ابو القاسم عبد الوہاب بن ابی سہل الخطابی ، ابو الحسین عبد الغافر الفارسی ، ابو حامد اسفرائنی ، ابو نصر محمد بن احمد بلخی ،ابو بکر محمد بن حسین غزنوی ، ابو مسعود حسین بن محمد الکرابیسی وغیرہم شامل ہیں ۔

امام خطابی بڑے زاہد و عابد ، متقی و متدین اور پرہیزگار تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں علم و ادب ، زہد و ورع اور تدریس و تالیف میں ابو عبید القاسم بن سلام سے مشابہ تھے ۔(وفیات الاعیان ، انباہ الرواة ، غایة المقصود ، تاریخ التراث العربی )

امام خطابی علمی اعتبار سے بھی نہایت بلند مرتبہ رکھتے تھے ۔ '' طبقات الشافعیہ ''میں علّامہ سبکی نے انہیں '' امام حدیث '' قرار دیا ہے ۔

علامہ سمعانی نے '' کتاب الانساب '' میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : '' امام ، فاضل ، کبیر الشان ، جلیل القدر ، صاحب التصانیف الحسنة ۔''

امام خطابی صاحبِ تصنیف تھے ۔ ان کی تصانیف کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے :

١-معالم السنن شرح سنن أبی داود :

امام ابو داود کی معروف ترین کتاب ہے ۔ اس کا شمار سنن ابی داود کی اہم شروحات میں ہوتا ہے ۔ اس میں احادیث کی شرح و توضیح اور اس کے اسرار و حکم سے تعرض کیا گیا ہے ۔ اصولِ حدیث و دیگر فنی مباحث پر بھی ابحاث شامل ہیں ۔شیخ کامل محمد محمد عویضہ اپنی کتاب '' ابو داود'' میں اس شرح سے متعلق لکھتے ہیں :'' ھو شرح وسط اعتنی فیہ باللغات و تحقیق الروایات، و ضبط الکلمات، و استنباط الاحکام و الآداب ، و الکشف عن المعانی الفقھیة المنطویة علیھا الاحادیث، و بیان ما استغلق من المعانی ۔'' (ص ٣٣)

امام خطابی نے یہ شرح ایک جماعتِ اہلِ علم کے اصرار پر تالیف فرمائی تھی ۔اس کی اہمیت کو ہر دور کے علماء نے تسلیم کیا ہے اور ان کے بعد آنے والے تمام شارحینِ سنن ابی داود نے اس سے خصوصی اعتنا کیا ۔

علّامہ شہاب الدین احمد بن محمد بن ابراہیم مقدسی ( م ٧٦٩ھ ) نے '' عج الة العالم من کتاب المعالم '' کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے ۔ '' معالم السنن '' متعدد بار مرحلۂ طباعت سے گزری ہے ۔ پہلی مرتبہ حلب سے ١٩٢٠ تا ١٩٢٤ء میں طبع ہوئی ۔ اس کی ایک اہم طباعت شیخ احمد شاکر مصری اور شیخ محمد حامد الفقی کی تحقیق سے قاہرہ سے ١٩٤٨ء میں ہوئی ہے ۔

٢-اعلام السنن فی شرح البخاری :

مولانا عبد السلام مبارکپوری لکھتے ہیں : '' یہ ایک نہایت پاکیزہ شرح ہے ابتدا کا لفظ '' الحمد للّٰہ المنعم'' ہے ۔ مصنف نے اپنی مشہور کتاب معالم السنن سے فرصت کرکے بلخ میں لوگوں کے بڑے تقاضے پر ایک جلد میں لکھی ۔ محمد تمیمی نے ان ضروری شروکات کے پورا کرنے کا التزام کیا جو خطابی سے واقع ہوئے تھے اور جس قدر اوہام خطابی سے اس شرح میں صادر ہوئے اس پر بھی بحث کی ۔ ''( سیرة البخاری : ١٧٧-١٧٨)

٣-اصلاح اغلاط المحدثین

٤-غریب الحدیث

٥-' ' کتاب الع زلة '' أو '' الاعتصام بالعزلة ''

٦-علم الحدیث

٧-کتاب شان الدعاء الماثور

٨-بیان اعجاز القرآن

٩-کتاب الشجاع

١٠-شرح الاسماء الحسنیٰ

١١-الغنیة عن الکلام و اھلہ

١٢-تفسیر الادعیة الماثورة عن رسول اللّٰہ ﷺ

١٣-کتاب الجہاد

١٤-معرفة السنن و الآثار(١)

امام خطابی تجارت پیشہ تھے ۔ کسبِ حلال کے لیے اپنی قوتوں کو صرف کیا کرتے تھے ۔ آخری عمر میں طبیعت کا رجحان زہد و ورع کی طرف بہت زیادہ مائل ہوگیا تھا ۔ ربیع الاول ٣٨٨ھ میں بست میں وفات پائی ۔ بعض تذکرہ نگاروں نے ٣٨٦ھ کو سالِ وفات قرار دیا ہے ۔

امام خطابی کے حالات امام حاکم نے '' تاریخ نیشاپور '' ، علامہ سمعانی نے '' الانساب '' ، علامہ ابن الجوزی نے '' المنتظم ''، ابن خلکان نے '' وفیات الاعیان '' ،امام ذہبی نے '' سیر اعلام النبلاء '' اور '' تذکرة الحفاظ ''، علامہ سبکی نے '' طبقات الشافعیہ ''، امام ابن کثیر نے ''البدایة و النہایة '' ، ابن العماد الحنبلی نے '' شذرات الذھب '' ، جمال الدین قفطی نے '' انباہ الرواة علی انباہ النحاة '' ، علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے '' غایة المقصود فی حل سنن أبی داود '' ، خیر الدین الزرکلی نے ''الاعلام'' ، عمر رضا کحالہ نے ''معجم المولفین '' اور مولانا ضیاء الدین اصلاحی نے '' تذکرة المحدثین '' میں لکھے ہیں ۔ ان تمام تذکرہ نگاروں نے امام خطابی کی علمی فضیلت و کمالِ جامعیت کا اعتراف کیا ہے ۔ ان کے علاوہ بھی تذکرہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے امام خطابی کے احوال رقم کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔

حواشی
(١) اس نام سے امام بیہقی کی کتاب مشہورِ زمانہ ہے ۔ تاہم اسی عنوان سے امام خطابی نے بھی ایک کتاب لکھی تھی ۔ اس کا ذکر علامہ چلپی نے ''کشف الظنون'' اور اسماعیل پاشا بغدادی نے '' ھدیة العارفین ''میں کیا ہے ۔
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
امام أبو سليمان حمد بن محمد بن إبراهيم ابن الخطاب البستي، : فقيه محدث، من أهل بست (من بلاد كابل) من نسل زيد بن الخطاب (أخي عمر بن الخطاب) .
چوتھی صدی ہجری (319 - 388 هـ = 931 - 998 م) کے نامور محدث ۔انہوں نے علم حدیث پر ویسے تو کئی کتب مرتب فرمائیں تاہم انکی دو کتابیں بہت مشہور ہیں
(۱) غریب الحدیث (۲) معالم السنن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام ابو سلیمان الخطابی
جریدہ "الواقعۃ" کراچی، شمارہ8 ، 9 محرم، صفر 1433ھ/ نومبر ، دسمبر 2012
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
امام ابو سلیمان الخطابی
شیخ الاسلام امام ابو سلیمان حمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب الخطابی البستی مشاہیر ائمہ اسلام و فقہائے محدثین میں سے تھے ۔
آپ کی کنیت ابو سلیمان نام حمد تھا ۔ بعض تذکرہ نگاروں نے احمد بھی لکھا ہے جو کہ درست نہیں ۔ اپنے جدّ بزرگوار الخطاب کی صفتِ نسبتی سے الخطابی کہلائے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصوف کا سلسلۂ نسب خلیفۂ ثانی سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے بھائی زید رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے اسی نسبت سے '' الخطابی '' کہا جاتا ہے ۔ ( وفیات الاعیان، غایة المقصود)
٣١٩ھ میں بمقام '' بُست '' ولادت ہوئی ۔ '' بست '' بلادِ کابل کے اطراف میں ہرات و غزنی کے درمیان واقع ہے (وفیات الاعیان، غایة المقصود) ۔ لیکن مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری کی تحقیق کے مطابق : '' بُست بضم الباء مدینة بین سجستان و غزنین و ہراة ۔''( سیرة البخاری : ١٧٧)


امام خطابی نے تحصیلِ علم کے لیے عراق ، حجاز ، خراسان اور ماوراء النہر کا سفر کیا اور ہر جگہ کے اساطینِ علم سے استفادئہ علمی کیا ۔ عراق میں شیخ ابو علی الصفار ، ابو جعفر الرزاز وغیرہما سے استفادہ کیا ۔ مکہ مکرمہ میں امام ابو سعید بن الاعرابی ، بصرہ میں ابوبکر بن داسہ ، بغداد میں امام اسماعیل بن محمد الصفار سے کسبِ علم کیا ۔

صاحبِ '' غایة المقصود '' علّامہ ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی نے امام خطابی کے اساتذئہ حدیث و فقہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے مشائخِ حدیث میں ابو العباس الاصم نیشاپوری ، ابو عمر محمد بن عبد الواحد زاہد صاحب ابی العباس اور عبد اللہ بن محمد المسکی شامل ہیں اور مشائخِ فقہ میں ابو علی اور قفال ہیں ۔( غایة المقصود :١/٤٢ -٤٣)

امام خطابی نے ایک طویل عرصہ تک نیشاپور میں قیام کیا ۔ یہاں درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع کیا ۔ امام خطابی کثیر الدرس مدرس تھے ۔ ان کے حلقۂ وابستگانِ علم کا دائرہ بہت وسیع تھا ۔ ان کے تلامذہ و مستفدین میں امام ابو عبد اللہ الحاکم نیشاپوری ، امام عبد الغفار بن محمد الفارسی ، ابو القاسم عبد الوہاب بن ابی سہل الخطابی ، ابو الحسین عبد الغافر الفارسی ، ابو حامد اسفرائنی ، ابو نصر محمد بن احمد بلخی ،ابو بکر محمد بن حسین غزنوی ، ابو مسعود حسین بن محمد الکرابیسی وغیرہم شامل ہیں ۔

امام خطابی بڑے زاہد و عابد ، متقی و متدین اور پرہیزگار تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں علم و ادب ، زہد و ورع اور تدریس و تالیف میں ابو عبید القاسم بن سلام سے مشابہ تھے ۔(وفیات الاعیان ، انباہ الرواة ، غایة المقصود ، تاریخ التراث العربی )

امام خطابی علمی اعتبار سے بھی نہایت بلند مرتبہ رکھتے تھے ۔ '' طبقات الشافعیہ ''میں علّامہ سبکی نے انہیں '' امام حدیث '' قرار دیا ہے ۔

علامہ سمعانی نے '' کتاب الانساب '' میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : '' امام ، فاضل ، کبیر الشان ، جلیل القدر ، صاحب التصانیف الحسنة ۔''

امام خطابی صاحبِ تصنیف تھے ۔ ان کی تصانیف کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے :

١-معالم السنن شرح سنن أبی داود :

امام ابو داود کی معروف ترین کتاب ہے ۔ اس کا شمار سنن ابی داود کی اہم شروحات میں ہوتا ہے ۔ اس میں احادیث کی شرح و توضیح اور اس کے اسرار و حکم سے تعرض کیا گیا ہے ۔ اصولِ حدیث و دیگر فنی مباحث پر بھی ابحاث شامل ہیں ۔شیخ کامل محمد محمد عویضہ اپنی کتاب '' ابو داود'' میں اس شرح سے متعلق لکھتے ہیں :'' ھو شرح وسط اعتنی فیہ باللغات و تحقیق الروایات، و ضبط الکلمات، و استنباط الاحکام و الآداب ، و الکشف عن المعانی الفقھیة المنطویة علیھا الاحادیث، و بیان ما استغلق من المعانی ۔'' (ص ٣٣)

امام خطابی نے یہ شرح ایک جماعتِ اہلِ علم کے اصرار پر تالیف فرمائی تھی ۔اس کی اہمیت کو ہر دور کے علماء نے تسلیم کیا ہے اور ان کے بعد آنے والے تمام شارحینِ سنن ابی داود نے اس سے خصوصی اعتنا کیا ۔

علّامہ شہاب الدین احمد بن محمد بن ابراہیم مقدسی ( م ٧٦٩ھ ) نے '' عج الة العالم من کتاب المعالم '' کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے ۔ '' معالم السنن '' متعدد بار مرحلۂ طباعت سے گزری ہے ۔ پہلی مرتبہ حلب سے ١٩٢٠ تا ١٩٢٤ء میں طبع ہوئی ۔ اس کی ایک اہم طباعت شیخ احمد شاکر مصری اور شیخ محمد حامد الفقی کی تحقیق سے قاہرہ سے ١٩٤٨ء میں ہوئی ہے ۔

٢-اعلام السنن فی شرح البخاری :

مولانا عبد السلام مبارکپوری لکھتے ہیں : '' یہ ایک نہایت پاکیزہ شرح ہے ابتدا کا لفظ '' الحمد للّٰہ المنعم'' ہے ۔ مصنف نے اپنی مشہور کتاب معالم السنن سے فرصت کرکے بلخ میں لوگوں کے بڑے تقاضے پر ایک جلد میں لکھی ۔ محمد تمیمی نے ان ضروری شروکات کے پورا کرنے کا التزام کیا جو خطابی سے واقع ہوئے تھے اور جس قدر اوہام خطابی سے اس شرح میں صادر ہوئے اس پر بھی بحث کی ۔ ''( سیرة البخاری : ١٧٧-١٧٨)

٣-اصلاح اغلاط المحدثین

٤-غریب الحدیث

٥-' ' کتاب الع زلة '' أو '' الاعتصام بالعزلة ''

٦-علم الحدیث

٧-کتاب شان الدعاء الماثور

٨-بیان اعجاز القرآن

٩-کتاب الشجاع

١٠-شرح الاسماء الحسنیٰ

١١-الغنیة عن الکلام و اھلہ

١٢-تفسیر الادعیة الماثورة عن رسول اللّٰہ ﷺ

١٣-کتاب الجہاد

١٤-معرفة السنن و الآثار(١)

امام خطابی تجارت پیشہ تھے ۔ کسبِ حلال کے لیے اپنی قوتوں کو صرف کیا کرتے تھے ۔ آخری عمر میں طبیعت کا رجحان زہد و ورع کی طرف بہت زیادہ مائل ہوگیا تھا ۔ ربیع الاول ٣٨٨ھ میں بست میں وفات پائی ۔ بعض تذکرہ نگاروں نے ٣٨٦ھ کو سالِ وفات قرار دیا ہے ۔

امام خطابی کے حالات امام حاکم نے '' تاریخ نیشاپور '' ، علامہ سمعانی نے '' الانساب '' ، علامہ ابن الجوزی نے '' المنتظم ''، ابن خلکان نے '' وفیات الاعیان '' ،امام ذہبی نے '' سیر اعلام النبلاء '' اور '' تذکرة الحفاظ ''، علامہ سبکی نے '' طبقات الشافعیہ ''، امام ابن کثیر نے ''البدایة و النہایة '' ، ابن العماد الحنبلی نے '' شذرات الذھب '' ، جمال الدین قفطی نے '' انباہ الرواة علی انباہ النحاة '' ، علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے '' غایة المقصود فی حل سنن أبی داود '' ، خیر الدین الزرکلی نے ''الاعلام'' ، عمر رضا کحالہ نے ''معجم المولفین '' اور مولانا ضیاء الدین اصلاحی نے '' تذکرة المحدثین '' میں لکھے ہیں ۔ ان تمام تذکرہ نگاروں نے امام خطابی کی علمی فضیلت و کمالِ جامعیت کا اعتراف کیا ہے ۔ ان کے علاوہ بھی تذکرہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے امام خطابی کے احوال رقم کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔

حواشی
(١) اس نام سے امام بیہقی کی کتاب مشہورِ زمانہ ہے ۔ تاہم اسی عنوان سے امام خطابی نے بھی ایک کتاب لکھی تھی ۔ اس کا ذکر علامہ چلپی نے ''کشف الظنون'' اور اسماعیل پاشا بغدادی نے '' ھدیة العارفین ''میں کیا ہے ۔
بھائی اس تحریر کے بارے میں بھی کچھ بتاہیں
http://www.eeqaz.com/ebooks/015Falasteen/015Falasteen04.htm
 
Top