• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصحاب ِ رسولﷺ اور اہل بیت کرام رض کے درمیان محبت و یگانگت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کتاب:
اصحاب ِ رسولﷺ اور اہل بیت کرام رض کے درمیان محبت و یگانگت

مؤلف:
ابو مسعود عبد الجبار سلفی ایم اے

ناشر:
اسلامک ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ دیپال پور
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فہرست موضوعات

  • پیش لفظ
  • آلِ رسولﷺ اور اصحابِ رسولﷺ کے فضائل اور ان کی باہمی محبت کی مثالیں
  • خانوادۂ رسالتﷺ کے فضائل
  • رسولﷺ کی اوّلین منصبی ذمہ داری؛ تزکیہ نفوس
  • اصحابِ رسولﷺ کا وصف ِجمیل؛ ان کا آپس میں محبت کرنا
  • اصحابِؓ رسولﷺ اور اہل بیتؓ کے مابین محبت ،اُخوت او ریگانگت پر تین استدلال
  • پہلا استدلال: پوری زندگی ان کا مل جل کر رہنا
  • دوسرا استدلال: اہل ؓبیت کا صحابہ کرامؓ کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھنا
  • اس استدلال کے منکرین کے خیالات کاتجزیہ
  • تیسرا استدلال:اہل بیت عظام اور صحابہؓ کی آپس میں رشتہ داریاں
  • اہل بیت عظامؓ کی صدیقیؓ گھرانے سے مصاہرت
  • امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰؓ کی اُموی گھرانے سے مصاہرت
  • امیر المؤمنین عمر فاروقؓ کی ہاشمی گھرانے سے مصاہرت
  • اہل بیت النبی ؐ کی دیگر گھرانوں سے مصاہرت کا نقشہ
  • اہل السنہ کی نظر میں آلِ رسول ؐ کا مقام اور ان کے فضائل
  • اہل السنہ کے نزدیک اہل بیت کا مرتبہ ومقام
  • آلِ رسولؐ سے مراد
  • شجرۂ بنو عبد مناف
  • آلِ رسول کے متعلق اہل السنہ کا عقیدہ
  • امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰؓ کے فضائل
  • سیدہ فاطمہ الزہراء ؓکے فضائل
  • سیدنا حسنؓ وحسینؓ کے فضائل
  • سیدنا علی بن حسین زین العابدینؒ کے فضائل
  • سیدنامحمد بن علی بن حسین (باقر ؒ) کے فضائل
  • سیدناجعفر بن محمد الصادق ؒکے فضائل
  • سیدناموسیٰ بن جعفر بن محمد الکاظم ؒکے فضائل
  • سیدناعلی بن موسی (الرضاؒ) کے فضائل
  • سیدنامحمد بن علی (الجوادؒ) کے فضائل
  • اُمت ِمسلمہ پر آلِ رسولﷺ کے حقوق
  • پہلا حق: محبت اور وابستگی
  • دوسرا حق:درود وسلام
  • تیسرا حق:خمس
  • ناصبی کون ہیں؟
  • ایک سوال اور اس کا جواب
  • صحابہ کرامؓ سے محبت جزوِ ایمان ہے !
  • حضرت عمروؓ بن العاص
  • حضرت معاویہؓ بن ابی سفیان
  • حضرت ابو سفیانؓ بن حرب بن اُمیہ
  • حضرت ہندؓ بنت ِعتبہ زوجہ ابی سفیانؓ

فرمان خداوندی:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اﷲِ وَرِضْوَانًا (الفتح:۲۹)
’’محمدﷺ، اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں تو انہیں رکوع اور سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا،وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پیش لفظ

اَہلِ سُنّت اور اہلِ تَشیُّع کے درمیان عقائد و اعمال کا اختلاف یقیناً دونوں فرقوں کے درمیان بعد کا سبب ہے۔ تاہم اس کے علاوہ بعض تاریخی واقعات ایسے ہیں جو بے بنیاد ہیں لیکن اُنہیں پروپیگنڈے کے ذریعے سے عام کردیا گیا ہے جس سے بعد وبے گانگی کی خلیج مزید وسیع ہوئی ہے، نفرت کی دیواریں مزید مستحکم ہوئی ہیں اور دِلوں کے انقباض میں اضافہ ہوا ہے۔
پروپیگنڈے کی ان دبیز تہوں کو البتہ صاف کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہئے، یہ یقیناً ایک دینی خدمت بھی ہے، وقت کی ضرورت بھی اور حالات کا تقاضا بھی! ان میں ایک پروپیگنڈہ یہ ہے کہ اہل سنت، اہل بیتؓ کی عظمت و فضیلت کو نہیں مانتے اور ان کے اندر ناصبیت پائی جاتی ہے یعنی وہ حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما وغیرہما کا قرار ِ واقعی احترام نہیں کرتے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ ایک ناروا الزام ہے، بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے اور حقائق کے یکسر خلاف ہے!!
زیر ِ نظر کتابچہ اسی بے بنیاد پروپیگنڈے کی وضاحت کے لئے لکھا گیا ہے۔ فاضل مؤلف نے پہلے اس امر کو واضح کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کے درمیان خوشگوار تعلقات تھے اور اس کے اُنہوں نے ناقابل تردید ثبوت پیش کئے ہیں۔
یہی روایت اہل سنت میں مسلسل چلی آرہی ہے کہ وہ صحابہ کرام او راہل بیت نبوت رضی اللہ عنہم سب کے ساتھ محبت رکھتے ہیں، بلکہ ان کی عظمت و محبت ان کے عقیدہ وایمان کا حصہ ہے۔
اس کتابچہ میں اہل بیت کے مفہوم کو بھی واضح کیا گیا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تمام اہل بیت کو پورے طور پر ماننے والے بھی صرف اہل سنت ہی ہیں۔ ورنہ شیعہ حضرات تو ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو اہل بیت میں شامل ہی نہیں کرتے، حالانکہ خود قرآن کریم نے اُنہیں اہل بیت قرار دیا ہے۔اہل سنت دونوں کو اہل بیت تسلیم کرتے ہیں اور دونوں کو یکساں قدر واحترام کامستحق سمجھتے ہیں!!
اِسی طرح ناصبیت کیا ہے؟ اور اہلسنّت کو ناصبی قرا ر دینا کہاں تک صحیح ہے؟ فاضل مؤلف نے اس نکتے پر بھی مدلل گفتگو کی ہے اور بتلایا ہے کہ اہل سنت دیگر صحابہ کرامؓ کی طرح، حضرت علی و حضرت حسین رضی اللہ عنہما اور دیگر اہل بیت عظام کی بھی عزت کرتے ہیں اور وہ ان میں سے کسی کی بھی تنقیص و توہین کو جائز نہیں سمجھتے، اس لئے ناصبیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف حفظہ اللہ کی اس کاوش کوقبول فرمائے اور اسے غلط فہمیوں کے ازالے اور دونوں فرقوں کے درمیان قربت و ہم آہنگی کا ذریعہ بنائے۔ ضرورت ہے کہ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے تاکہ شکوک و شبہات دُور ہوں اور حقیقت تک رسائی آسان ہو۔

حافظ صلاح الدین یوسف​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آلِ رسولﷺ اور اصحابِؓ رسولﷺ کے فضائل اور ان کی باہمی محبت

الحمد ﷲ ربّ العالمین والصلوٰة والسلام علیٰ أفضل الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وأصحابہ الطیّبین الطاہرین وعلیٰ من تبعھم بإحسان إلیٰ یوم الدین وبعد


خانوادۂ رسالتﷺ کے فضائل

قارئین کرام! اس حقیقت پر تمام اہل اسلام متفق ہیں کہ حضرت رسول کریمﷺ اولادِ آدم کے سردار اور تمام کائنات سے افضل انسان ہیں اوریہ اتفاق اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے۔
اگرچہ ملا مجلسی نے بحار الانوار (ج۲؍ ص۸۲) پر "باب أن الأئمة أعلم من الأنبیاء" لکھ کر کسی پہلو سے آئمہ اہل بیت کو انبیاء سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جمہور آئمہ دین نے اس کوشش کو مسترد کردیا ہے یا اس کی تاویل کردی ہے اور شاید اہل تشیع کو بھی اس کوشش سے اتفاق نہ ہو، کیونکہ حضرت رسولِ کریمﷺ کے مقام ومرتبہ کی درخشانی اور آپ کی شان و شوکت کی تابانی اور آپﷺ کا مقامِ محمود پر فائز ہونا اور شفاعت کبریٰ اور حوضِ کوثر کا والی ہونا، ایسے ایسے حقائق ہیں کہ کوئی مسلمان ان کی حقانیت پر ذرّہ برابر شبہ نہیں کرسکتا اور جس طرح آپﷺ اپنی ذات کے اعتبار سے افضل ہیں، اس طرح آپ کا خاندان بھی تمام خاندانوں سے افضل و اعلیٰ ہے اور جس طرح آپﷺ کا خاندان سب خاندانوں سے اعلیٰ و افضل ہے، اس طرح آپﷺ کا گھرانہ بھی تمام گھرانوں سے افضل و اعلیٰ ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
" إنَّ اﷲَ اصْطَفیٰ کَنَانَۃَ مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعِیْلَ وَاصْطَفٰی قُرَیْشًا مِّنْ کَنَانَۃَ وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِیْ ہَاشِمٍوَاصْطَفَانِيْ مِنْ بَنِيْ ہَاشِمٍ "( رقم:۲۲۷۶)
’’بے شک اللہ نے اسماعیل کی اولاد سے کنانہ کو چن لیا اورکنانہ سے قریش کوچن لیا اور قریش سے اولادہاشم کو چن لیا اورمجھے اولاد ہاشم سے چن لیا۔‘‘
چنانچہ آپ ﷺ کا خاندان صدق و صفا، جود وسخا، بذل و عطا، سیادت و قیادت اور فہم وفراست جیسے اوصافِ حسنہ میں اعلیٰ مقام پر فائز تھا۔ اس خاندان کے اوصافِ حمیدہ کی و جہ سے قبائل عرب اس کا احترام کرتے تھے اور اس خاندان میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا، وہ سیادت وقیادت اور کشورکشائی کے مرتبے پربھی فائز ہوگئے اور انہوں نے خداداد صلاحیت سے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا۔ اس خاندان کے افراد شرافت ونجابت، فہم وفراست،سیادت وقیادت میں ایک سے ایک بڑھ کر تھے۔
اس حقیقت کا اعتراف امیر المؤمنین امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما اُموی قریشی کی زبانی سنیے:
’’ان سے پوچھا گیاکہ بنو امیہ اور بنو ہاشم میں شریف کون تھا؟ انہوں نے فرمایا: کہ ہم میں اشراف زیادہ تھے اور ان میں شریف زیادہ تھے۔ ان میں ایک بزرگ ہاشم تھے جس کے برابر (ہمارے جد امجد) عبد مناف بن قصی کی اولاد میں سے کوئی بھی نہ تھا، جب وہ فوت ہو گئے تو تعداد کے اعتبار سے ہم میں اشراف زیادہ ہو گئے،لیکن ہم میں سے کوئی شخص عبد المطلب بن ہاشم کے برابر نہ تھا۔جب وہ فوت ہوگئے تو ہم تعداد اور اشراف کے اعتبار سے زیادہ ہوگئے،لیکن ان میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون اور سرور تھا (اور ہم میں بلکہ پوری دنیا میں اس جیسا انسان پیدا ہی نہیں ہوا) اسی بنا پر انہوں نے کہا کہ ہم میں نبی پیدا ہوا ہے اور حقیقت یہ ہے اولین وآخرین میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی اب بتاؤ کہ یہ شرف کن کو نصیب ہوا؟! (ظاہر ہے کہ بنو ہاشم کو نصیب ہوا)‘‘ (1)
سبحان اللہ! آپ ؓ نے کتنے کھلے دل کے ساتھ اپنے عم زاد ہاشمیوں کی فضیلت کا اعتراف کیا ہے۔ بہر حال آپ کے گھرانے میں سے جن لوگوں نے اسلام اور ایمان قبول کرلیا اسے نسبی شرافت کے ساتھ شرفِ صحابیت بھی حاصل ہوگیااور شرفِ صحابیت بذاتِ خود ایک ایسا شرف ہے کہ اس کے برابر اورکوئی شرف نہیں ہوسکتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں شرف صحابیت سے مشرف ہونے والوں کو اپنا لشکر قرار دیا ہے۔
چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
" اُوْلئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الِایْمَانَ وَأیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ اُوْلٰئِکَ حِزْبُ اﷲِ اَلَا إنَّ حِزْبَ اﷲِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ" (المجادلہ:۲۲)
’’یہ وہ (اصحابِ رسولﷺ) ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے (پتھر پر لکیر کی طرح) ایمان لکھ دیا ہے اور نصرتِ غیبی سے ان کی تائید فرمائی اور وہ انہیں ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ وہ اللہ کا لشکر ہیں اور سن لو اللہ کا لشکر ہی کامران ہونے والا ہے۔‘‘
غور فرمائیں کہ جن خوش نصیبوں کے دلوں میں اللہ نے ایمان کا ثمربار پودا گاڑ دیا ہو اور اپنے غیبی خزانوں سے اس کی آب یاری کی ہو اور کلمۃ التقویٰ سے اسے غذا فراہم کی ہو اور اُنہوں نے جنگ ِبدر و اُحد اور غزوۂ موتہ و تبوک میں ایمانی جذبات کا مظاہرہ بھی کیا ہو، بھلا بعد والوں میں کوئی شخص ان کے برابر ہوسکتا ہے؟!
حضرت امام عبداللہ بن مبارک مروزیؒ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ افضل ہیں یا حضرت امیر معاویہؓ؟ تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم! حضرت امیرمعاویہؓ کے اس گھوڑے کی ناک کا غبار بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے عمل سے بہتر ہے جس پر اس نے سوار ہوکر حضرت رسول کریمﷺ کے ہمراہ جہاد کیا تھا، اس کے بعد آپ نے فرمایا:
’’لَایُقَاسُ أَحَدٌ بِأصْحَاب ِمُحَمَّدٍ ﷺ‘‘ (کتاب الشریعۃ از امام آجری)
یعنی ’’کسی امتی کو حضرت محمدﷺ کے صحابہؓ کے برابر تولہ نہیں جا سکتا ۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ
’’لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ فَلَمُقَامُ أَحَدِھِمْ سَاعَةً (یعني مع النبيﷺ) خَیْرٌ مِنْ عِبَادَةِ أَحَدِکُمْ عُمْرَہٗ‘‘ (شرح عقیدہ طحاویہ:ص۵۳۲)
’’ اصحابِ محمدﷺ کو برا نہ کہو ۔ ان کا حضرت نبی کریمﷺکے ساتھ ایک گھڑی ٹھہرنا، تمہاری ساری زندگی کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘
پانچویں صدی ہجری کے نامور فقیہ ومتکلم اور مایہ ناز مورخ ومحقق امام ابو محمد علی بن احمد بن حزم اندلسیؒ،جن کے بارے میں شیخ اکبر ابن عربی حاتمی طائی کو خواب آیا تھا کہ حضرت رسول کریمﷺ ان سے بغل گیر ہوئے تووہ آپﷺ کے بدن میں سما گئے ۔
اپنی گراں قدر تالیف الإحکام في أصول الأحکام:۵؍ ۸۹میں فرماتے ہیں:
’’صحابی رسولﷺ وہ ہوتا ہے جو حضرت رسول کریمﷺکے پاس بیٹھنے کی سعادت حاصل کر چکا ہو، اگرچہ ایک گھڑی ہی سہی اور وہ آپ کا فرمان مبارک سن سکا ہو، اگرچہ ایک جملہ ہی سہی یا اس نے شعور کی حالت میں آپﷺ کے کسی کام کا مشاہدہ کر لیا ہو اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جن کا نفاق، پیہم مشہور ہے اور وہ نفاق کی حالت میں ہی مرے تھے۔‘‘
چنانچہ صحابہ کرامؓ سب کے سب بلند اخلاق،باکمال اور پسندیدہ انسان تھے اور ہم پر ان سب کی تکریم وتعظیم کرنا واجب ہے اور ہم پر ان کے لیے استغفار کرنا اور ان سب سے محبت کرنا فرض ہے۔ ان کی صدقہ کی ہوئی ایک کھجور کا ثواب، ہماری صدقہ کی ہوئی ساری دولت کے ثواب سے کہیں زیادہ ہے اور حضرت رسول کریمﷺ کے پاس ان کا ایک گھڑی بھر بیٹھنا ،ہماری ساری زندگی کی عبادت الٰہی سے افضل ہے، اگر ہم میں سے کوئی انسان، اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے میں اپنی ساری زندگی بھی صرف کر دے تو اس کی یہ اطاعت،صحابیؓ رسولﷺکے گھڑی بھر کے عمل کے برابر نہیں ہوسکتی۔
حضرت رسول کریمﷺنے فرمایا:
’’ میرے صحابہ کو میرے لیے چھوڑ دو اگر تم میں سے کسی کی ملکیت میں اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے فی سبیل اللہ صدقہ کر دے تو وہ پھر بھی ان کی فی سبیل اللہ صدقہ کردہ لپ بھرجَوکے ثواب کونہیں پہنچ سکتا۔(جب انہیں اس قدر رفعت شان حاصل ہے) توکوئی ہوش مندانسان کسی صحابی کی گردپا تک پہنچنے کاتصورکس طرح کرسکتاہے ؟ کیونکہ کسی آدمی کے پاس اُحد پہاڑ کی مقدار برابر سونے کا ہونا ناممکن اور پھر اس کا اسے خرچ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔‘‘
چنانچہ خوش نصیب ہیں وہ حضرات جواَصحابؓ رسولؐ بھی ہیں اور خانوادہ رسولؐ بھی ہیں۔خانوادۂ رسولؐ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا مرتبہ و مقام ہے۔ خلیفہ رسولؐ سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما جب عمِ رسولؐ سیدناعباسؓ بن عبدالمطلب ہاشمی کو دیکھتے تو احتراماً اپنی سواریوں سے نیچے اُتر پڑتے تھے،بلکہ حضرت عمر فاروقؓ اپنے دورِ خلافت میں سیدنا عباسؓ بن عبدالمطلب سے بارش کی دعا کی درخواست کرتے تھے اور اُن کی دعا قبول بھی ہوتی تھی۔جب آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں صحابہ کرام ؓکے عطیات مقرر کئے تو اپنے سیکرٹری سے فرمایاکہ سب سے پہلے حضرت رسول کریمﷺکے خاندان کے افراد کے نام لکھو اور ان میں آپ کی بیویوں کے بعد بنی عبدمناف کے نام لکھو اور ان میں سے پہلے حضرت علیؓ اور پھر حسنؓ و حسینؓ کے نام لکھو۔
چنانچہ آپؓ نے سیدنا علی المرتضیٰ ؓکے لئے پانچ ہزار(۵۰۰۰)،سیدنا حسنؓ کے لئے چار ہزار(۴۰۰۰) اور سیدنا حسینؓ کے لئے تین ہزار(۳۰۰۰) دینار مقرر کئے۔ آپ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ ہاشمی کو کم سنی کے باوجود کبار صحابہ کرامؓ کی مجلس میں جگہ دیا کرتے تھے اور ان کے علم وفضل سے مستفید ہوا کرتے تھے۔
تاریخ یعقوبی میں ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ،سبط ِ رسولؐ سیدنا حسن بن علی ؓ کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر ان سے خوش طبعی کرتے اور فرماتے:
’’بأبِيْ، شَبِیْہٌ بِالنَّبِيِّ، غَیْرُ شَبِیْہٍ بِعَلِيٍّ‘‘ (ج۲ ؍ص۱۱۷)
’’میرا باپ فدا ہو، یہ تو حضرت نبی کریمﷺ کے مشابہ ہے، حضرت علی کے مشابہ نہیں ہیں۔‘‘
چنانچہ سیدہ فاطمہؓ بنت ِرسولؐ بھی انہی الفاظ سے اپنے پھول حسنؓ بن علیؓ کو لوری دیا کرتی تھیں اور جب آپ بیمار ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیوی حضرت اسما بنت عمیس ہی آپؓ کی تیمارداری کرتی رہیں حتیٰ کہ انہوں نے ہی سیدہ فاطمہؓ کو غسل دیا اور آپ کے جنازے کے ساتھ گئیں اور جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ فوت ہوئے تو سیدنا علی مرتضیٰؓ نے آپ کی اسی بیوہ سے شادی کی اور ان کے بیٹے محمد بن ابی بکر صدیق کی کفالت کی اور اسے مصر کا گورنر مقرر کیا اور بعد ازاں صدیقی گھرانے کی لخت ِجگر اُم فروہ بنت قاسم بن محمدبن ابوبکر صدیقؓ کا نکاح ہاشمی گھرانے کے نورِ چشم سیدنا محمد بن علیؒ بن حسینؓ سے ہوا۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ اصحاب النبی رضوان اﷲ علیہم أجمعین اہل بیتؓ کی عظمت کے پیش نظر، دل و جان سے ان کا احترام کرتے تھے اور ان کا حق پہچانتے تھے اور ان سے تعلق جوڑنے میں فخر محسوس کرتے تھے اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔
لہٰذا متاخرین اور آخرین مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ بھی متقدمین کی طرح اہل بیتؓ کا احترام کریں اور برصغیر کے مصنوعی سادات کی بد اعمالیوں کو اصلی سادات کے استخفاف کا ذریعہ نہ بنائیں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ حقیقی ساداتِ کرام واقعی اشراف، صبر مند اور عزت دار اور طہارتِ قلبی کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ وہ اُمت میں فساد نہیں ڈالتے بلکہ اسے پُرامن رکھنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔
محترم قارئین کرام!
جب یہ بات ثابت ہے کہ اہل بیت اور صحابہ کرامؓ رحماء بینھم تھے تو پھر ان کی محبت کے پردے میں آج کل اتنا بڑا فساد کیوں ہورہا ہے؟ اور مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کیوں کٹ رہے ہیں؟ اور عبادت خانوں اور جلسہ گاہوں میں بے گناہ شیعہ سنی کیوں مارے جارہے ہیں؟ اس بات پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اصل خرابی اور بیماری کا پتہ لگے اور اس کا علاج کیا جاسکے۔ ہم ان شاء اللہ اپنے اس کتابچے میں اسی چیز کا پتہ لگائیں گے اوراس کے لیے شافی نسخہ بھی بتائیں گے،کیونکہ اُمت میں افتراق وانتشار کے طاعون کی وجوہات تلاش کرنا اور اس کا علاج کرنا شرعی فریضہ ہے ۔
برادرانِ ملت!
ہمیں ایسے محققین اورمصنّفین پر تعجب آتا ہے جویہودیت زدہ مؤرخین کی من گھڑت اوربے سروپا روایات پر اعتماد کرکے اُمت میں افتراق کو فروغ دے رہے ہیں اور ان میں سے بعض مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ علمی حقائق تک رسائی حاصل کرچکے ہیں حالانکہ جس چیز پر انہوں نے اعتمادکیا ہے، اس کی علمی بنیاد، سرے سے موجود ہی نہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نیک کام کررہے ہیں جبکہ ان کے اس ’نیک کام‘ کا نتیجہ سوائے افتراق و اختلاف کے اور کچھ نہیں ہے اور جب ہم ان سے ان کے سعی و عمل کے نتیجے کے متعلق پوچھیں گے تو ان کی طرف سے اچھے خیالات رکھنے والا صرف یہی جواب دے گا کہ فقط علم اور معلومات کے لئے اوربس۔ حالانکہ اگر ان معلومات کی کوئی بنیاد ہوتی بھی تو پھر بھی فتنے کے خوف کے پیش نظر انہیں دفن ہی رہنے دینا چاہئے تھا۔
چنانچہ ہم اس قسم کے محققین اور تاریخ نگاروں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ خدارا اُمت ِمحمدیہ پر ترس کھائیں اور ان تاریخی مسائل اور مشاجرات کو اُچھالنے سے گریز کریں جن کے منفی نتائج برآمدہوتے ہیں اور وہ زخم خوردہ اُمت ِمحمدیہ کو خاک و خون میں تڑپا دیتے ہیں اور ان کی بجائے اُن حقائق کو بیان کریں جو امت کو آپس میں جوڑ دیں تاکہ وہ کفار کے سامنے بنیانِ مرصوص بن کر کھڑی ہوسکے۔

ہم بفضل اللہ تعالیٰ آپ کے سامنے وہ حقائق بیان کریں گے جو اُمت ِمحمدیہ کو باہم مل بیٹھنے اور سابقہ غلطیوں کی تلافی کرنے پر مجبور کردیں گے۔ ان شاء اللہ!


(1). a امیرمعاویہؓ بن ابی سفیانؓ مؤلفہ منیر احمد الغضبان
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رسولِ کریمﷺ کی اوّلین ذمہ داری ؛ تزکیۂ نفوس

حضرت رسولِ کریمﷺ کا فرضِ منصبی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو آیاتِ الٰہی پڑھ کر سنائیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیں اور ان کا تزکیۂ نفوس کریں ۔چنانچہ قرآن کریم نے اس فریضے کو ان کلمات میں بیان کیا ہے:
’’ ھُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّیِِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ آیَاتِه وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَة وَإنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ‘‘ (الجمعہ:۲)
’’اللہ وہ ذات ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں رسول بھیجا جو انہیں میں سے ہے، وہ ان پر اس کی آیات پڑھتا ہے اور ان کے دلوںکا تزکیہ کرتا ہے او رانہیں کتاب اورحکمت سکھاتا ہے اوراس سے قبل وہ صریح گمراہی میں تھے۔‘‘
چنانچہ اس بات میں ذرّہ برابر شک کی گنجائش نہیں کہ حضرت رسولِ کریمﷺ نے اس فریضے کو بہترین طریقے سے سرانجام دیا اور اس کے نتیجے میں آپ کے صحابہ کرامؓ تقویٰ و طہارت،امانت ودیانت،شرافت و صداقت،شجاعت وبسالت،رافت ورحمت، فہم وفراست کا مجسمہ بن گئے تھے۔
ان کی عظمت ِشان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین اُمت قرار دیا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
"کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّة اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ" (آل عمران:۱۱۰)
’’تم بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لئے نکالا گیا ہے۔‘‘
اور انہی ہستیوں کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے کسوٹی اور ماڈل بنایا اور انہیں اُمت ِوسط قرار دیا۔
قرآن میں ہے:
" وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّة وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا" (البقرۃ:۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں اُمت ِوسط (معتدل) بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر گواہ بن جائے۔‘‘
ان پاک باز ہستیوں کی شان کریم میں اتنی آیات موجود ہیں کہ اگر ان کا مکمل تذکرہ کیا جائے تو یہ مضمون طویل ہوجائے گا۔ اگر کوئی شخص تفصیل میں جانا چاہے تو شیخ صالح بن عبداللہ درویش سیشن جج قطیف سعودی عرب کے مقالے صحبۃ الرسول کا مطالعہ کرے یا پھر أعلام الموقعین کی طرف رجوع کرے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ان ہستیوں کے نفوس کا تزکیہ حضرت رسول مقبولﷺنے کیا اور حق ادا کردیا۔
برادرانِ ملت!
ذرا اس بات پر غور کیجئے کہ ان قدسی نفوس کو کس نے متقون، صادقون کا خطاب عطا کیا اور أشداء علیٰ الکفار رحماء بینھم کی صفات سے موصوف کیا؟
کیایہ حقیقت نہیں کہ اللہ نے ہی اُنہیں یہ خطاب عطا کیا اور ان صفات سے موصوف کیا ہے تو پھر ہمیں کیا پڑی کہ ہم ضعیف اور کذاب راویوں کی جھوٹی روایات کے ذریعے ان کی کردار کشی کریں اور مسلمان بھائیوں کی دل آزاری کا سامان پیدا کریں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اصحابِؓ رسولﷺ کا وصف ِجمیل؛ان کا آپس میں محبت کرنا

برادرانِ ملت! دُنیا جانتی ہے کہ حضرت رسول کریمﷺ کے صحابہ کرامؓ دُنیا کے منفرد انسان تھے اور انہیں وہ امتیازات اور خوبیاں حاصل تھیں جو دوسرے گروہوں کو حاصل ہونی محال ہیں، کیونکہ حضرت رسول مقبولﷺنے اپنے زیر سایہ ان کی تربیت کی اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دی اور پرآشوب حالات میں ان کے صدقِ ایمان کا امتحان لیا تو وہ کامیاب اور کامران ثابت ہوئے۔ انہوں نے آپ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں پھوڑ دیں اور قتل کی غرض سے آنے والوں کی کلائیاں کاٹ دیں اور اس سلسلے میں اپنے اور پرائے کا فرق نہ کیا۔ کیا حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنے کافر باپ کو جنگ ِبدر میں جہنم رسید نہ کیا تھا؟! او رحضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنے کافر ماموں کا سر نہیں کاٹا تھا ؟! اور حضرت ابوحذیفہؓ اپنے کافر باپ عتبہ بن ربیعہ کے مقابلے نہ آئے تھے؟! یہ لوگ کفار کے مقابلے میں جس قدر سخت تھے، آپس میں اتنے ہی رحمدل اور مہربان تھے۔چنانچہ اس مقالے میں ہم ان کے اس مرغوب وصف کا تذکرہ کریں گے کیونکہ اس میں بہت سے حقائق پوشیدہ ہیں۔
یہ وصف اس لائق ہے کہ اس کی تشریح و تفسیر بیان کی جائے اور اسے لوگوں میں متعارف کرایا جائے تاکہ وہ اس سے آگاہی حاصل کرکے قصہ گو واعظین اور ذاکرین کی زہریلی تقریروں کے اثرات سے محفوظ رہیں اور اہل بیت و صحابہ رض کے ساتھ اپنا رشتہ ایمان مضبوط رکھیں۔
آپ جانتے ہیں کہ وہ وصف کون ساہے؟
وہ ہے…
رحماء بینھم !
چنانچہ غور فرمائیے کہ رحمٰن اور رحیم،اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں اور اس نے قرآنِ کریم میں بیشتر مقامات پر ان کا تذکرہ کیا ہے۔ چنانچہ ہر سورۃ کی ابتدا میں ہے: بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اور سورئہ فاتحہ میں ہے اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اور سورئہ بقرہ میں ہے " وَاِلھُکُمْ اِلہٌ وَّاحِدٌ لَا اِلہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ" سورہ حم ٓ سجدہ میں ہے:" تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسولﷺ کا تذکرہ بھی انہی اوصاف سے بیان کیا ہے۔ چنانچہ سورئہ توبہ کے آخر میں ہے: " لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُم عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ " (۱۲۸)
المختصر اس صفت کے متعلق بیان شدہ آیا ت و احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے اختصار کے پیش نظر انہیں پر ا کتفا کرتے ہوئے مزید دو احادیث ذکر کی جاتی ہیں :
٭ امام ابوداود اپنی سنن میں حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریمﷺ نے فرمایا:
’’ اَلرَّاحِمُوْنَ یَرْحَمُھُمُ الرَّحْمٰنُ‘‘ (رقم:۴۹۴۱)
’’رحم کرنے والوں پر رحمن، رحمت کرتا ہے۔‘‘
٭ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’ مَنْ لَا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمُ‘‘ (بخاری:۶۰۱۳،مسلم۲۳۱۹)
’’ جو رحم نہ کرے، اس پر رحم نہیں کیا جاتا‘‘
ہمیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے پیارے رسولﷺ کے صحابہ کرامؓ کا وصف بھی اسی مادے سے مشتق رحماء بینھم بیان کیا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے :
’’ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اﷲِ وَرِضْوَانًا۔۔۔الخ‘‘ ( الفتح:۲۹ )
’’محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں رکوع اور سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا،وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔‘‘
اس صریح نص کے مقابلے میں ان روایات اور قصوں، کہانیوں کی کیا حیثیت ہے جنہیں کذاب راویوں نے روایت کیا ہے اور وہ ہمارے سامنے ان کی تصویر یوں پیش کرتی ہیں کہ وہ آپس میں نفور اور نامانوس تھے اور ان کے درمیان شدید عداوت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ آپس میں رحم دل تھے اور صفت ِرحمت ان کے دلوں میں جاگزیں تھی، اگر زندگی کے کسی موڑ پر وہ مسلم نما یہودیوں کی سازشوں کے جال میں پھنسے بھی تھے تو اللہ نے انہیں اس جال سے نکال لیا تھا اور وہ باہم شیروشکر ہوگئے تھے۔
ہمیں یہ زیبا نہیں کہ ہم ان کی عارضی اور وقتی شکر رنجی کو بنیاد بنا کر صریح نص قرآنی کو بھول جائیں اور ان کی بشری اور وقتی کمزوریوں کواُچھالنا شرو ع کردیں اور ان کی عمر بھر کی محبت و یگانگت اتحاد و اتفاق سے آنکھیں موند لیں بلکہ ہمیں چاہئے کہ ہم حکم الٰہی کے موافق ان کے لئے دعا کریں اور ان لوگوں میں شامل ہوجائیں جن کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے :
’’ وَالَّذِیْنَ جَاؤُوْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالِایْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا إنَّکَ رَؤوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘ (الحشر:۱۰)
’’وہ لوگ جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان قبول کرنے میں ہم سے سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے متعلق کینہ و کدورت پیدا نہ کر جو ایمان لے آئے۔ اے ہمارے ربّ! توبخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
قارئین کرام! ہمارے اکثر مؤرخین نے تاریخ لکھتے وقت اسانید پر توجہ نہیں دی اور جن مؤرخین نے اسانید کا اہتمام کیا ہے، اُنہوں نے تاریخی متون کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی اور حاسدین اسلام کی پھیلائی ہوئی جھوٹی داستانوں کو اپنی کتابوںمیں داخل کرکے اپنی کتابوں کا حجم بڑھا لیا۔ نتیجتاً سطحی سوچ رکھنے والے عوام اُنہیں پڑھ پڑھا اور سن سنا کر اپنے محسنین کے بارے میں بدگمان ہوگئے اور ان پر طعن و لعن کرنے لگے۔ حالانکہ محققین کے نزدیک معتمد اُصول یہ ہے کہ متن کو سند کے ساتھ بیان کیا جائے اور اسناد کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد روایات کے متون کی تحقیق کی جائے اوراُن کے مفہوم کو بیان کرنے میں قرآن وسنت او راور اسلام کے کلی اُصول کو سامنے رکھا جائے اور ان کے درمیان تطبیق دی جائے اور جو روایت قرآن کی واضح نصوص اور اسلام کے کلی اُصول سے میل نہ رکھتی ہو، اس کے مفہوم میں توقف کیا جائے۔ یہ ہے طور طریقہ ان لوگوں کا جنہیں علم میں رسوخ حاصل ہے اور ان کے دل کھوٹ اور کجی سے پاک ہیں۔ اور جن کے دلوں میں کھوٹ اور کجی ہے وہ قرآن کی واضح نص پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ کذاب راویوں کی خود تراشیدہ داستانوں پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تو ان کے متعلق یوں بیان فرمایا ہے :
’’ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ تَرَاھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اﷲِ وَرِضْوَاًنا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذَلِکَ مَثَلُھُمْ فِي التَّوْرَاة وَمَثَلُھُمْ فِي الاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطَئَہٗ فَاٰزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی عَلٰی سُوْقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اﷲُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ مِنْھُمْ مَغْفِرَة وَّاَجْرًا عَظِیْمًا‘‘ (الفتح:۲۹)
’’محمدﷺ، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر بڑے سخت اور آپس میں بڑے نرم دل ہیں، تو انہیں رکوع کرتے اور سجدے کرتے ہوئے پائے گا، وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔ سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر (شرافت و وقار) کی نشانیاں ہیں۔ان کے یہی اوصاف تورات میں بیان ہوئے ہیں اوریہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ اس کھیتی کی طرح جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اسے مضبوط کیا پھر وہ موٹی ہوئی پھر وہ اپنی نال پر کھڑی ہوئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اللہ ان (صحابہ کی قوت و شوکت) کے ساتھ کفار کا دل جلائے، اللہ نے ان لوگوں کے ساتھ جو ان میں سے ایمان لائے او رانہوں نے اچھے اعمال کئے، مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
قارئین کرام ! اب ہم آپ کے سامنے ایسے دلائل ذکر کرنے والے ہیں جو اس حقیقت سے نقاب کشائی کریں گے کہ اصحاب ِؓ رسولؐ باہم شیرو شکر اور اُخوت و محبت کا پیکر تھے۔یہ دلائل اپنی وضاحت اور ستھرائی اور قوت معانی اور قریب الفہم ہونے کے باوجود جدید اور انوکھے ہیں۔ لہٰذا آپ نے ان دلائل کا جذباتی ہونے سے قبل، بلکہ اپنی خاندانی معلومات اور تاریخ کے بارے میں اپنی یادداشتوں پر اعتماد کرنے سے قبل، ٹھنڈے دل سے مطالعہ کرنا ہے ۔ یہ دلائل حقیقی صورتِ حال سے ہم آہنگ اور قرآنی نص سے مطابقت رکھتے ہیں اور ہمارے سینوں کو صحابہ کرام ؓکے متعلق بدگمانی سے پاک کرتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اصحابِ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کے مابین محبت واُخوت اور یگانگت
پہلا استدلال :پوری زندگی ان کا باہم مل جل کر رہنا


قارئین کرام! انسان فطرتاً مدنی الطبع ہے اورانسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنا، اس کی فطرت میں داخل ہے، اس لئے وہ سامری کی طرح اکیلا زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ اسے بچپن میں والدین او ربہن بھائیوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے اور جب دس بارہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے مکتب میں ہم جماعتوں کے ساتھ مل کر پڑھنا اور کام کرنا پڑتا ہے اور پھرجب وہ عالم شباب میں داخل ہوتا ہے تو اسے جوانوں کے ساتھ مل کر کمانا پڑتا ہے۔ اسے سفرو حضر میں ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ اسے پڑوسیوں کے ساتھ رہنے اور مسافروں کے ساتھ مل کر سفر کرنے اوران کے ساتھ مل کر روزی کمانے کے لئے صنعت و حرفت اور تجارت و مضاربت کرنی پڑتی ہے اور ان مواقع پر اسے لوگوں کی نفسیات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اگر ان مواقع پر اسے کوئی ضرورت پیش آئے اور کوئی انسان اس کی ضرورت پوری کردے یا اس کی تنگی دور کردے تو وہ انسان اسے ہمیشہ یاد رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اچھے ہمسائے اور اچھے ہم نشین اور ہم جماعت زندگی بھر یاد رہتے ہیں بلکہ بعض لوگ تو حج یا عمرہ کے محدود سفر کے ساتھیوں کو عمر بھر نہیں بھولتے۔

لیکن ان ہستیوں کے متعلق کیا خیال ہے جو دعوتِ ایمان کے پُرآشوب ابتدائی دور میں دارِ ارقم میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام او رایمان کا درس لیتی تھیں او رباہم متحد ہوکر کفارِ قریش سے نبرد آزما تھیں، پھر انہوں نے ایمان کی خاطر گھر بار، خویش و اقارب، مال و دولت کو چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کی، اس سفر میں انہیں سنگلاخ پہاڑ اور لق ودق صحراء اور مہیب سمندر عبور کرنے پڑے، بعد ازاں انہیں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی اور اپنے محبوب اہل و عیال او رپیارے وطن کو چھوڑنا پڑا۔

پھروہ پاکیزہ فطرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جنہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمان میں متفق اور متحد ہوکر جنگ بدر و اُحد لڑی ہو اور وہ غزوہ خندق میں اکٹھے محصور رہے ہوں، اور وہ شدید گرمیوں میں بے آب و گیاہ میدانوں اور سنگلاخ پہاڑوں اور وسیع و عریض ریگستانوں کو پیدل اور سوار طے کرکے میدان تبوک میں پہنچے ہوں اور ان مواقع پر انہوں نے اکٹھے ہوکر ظلم وستم کا مقابلہ کیا ہو۔ بھلا وہ آپس میں رحمدل اور متفق و متحدہ نہ تھے؟ یقیناً وہ متفق و متحد اور بنیانِ مرصوص تھے، اللہ نے انہیں باہم متفق و متحد کرکے رشتہ ایمان میں پرو دیا تھا اور وہ یک جان اور کئی قالب بن گئے تھے، انہی کے متعلق اللہ نے بیان کیا ہے :

’’ ھُوَ الَّذِیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الاَرْضِ جَمِیْعًا مَا اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَلٰکِنَّ اﷲَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ إنَّہٗ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘‘ (الانفال :۶۲)
''وہی اللہ جس نے اپنی نصرت اور مومنوں کے ذریعے تیری مدد فرمائی اور ان کے دلوں کو جوڑ دیا۔ اگر تو زمین میں جو کچھ ہے وہ سارے کا سارا خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دلوں کو نہ جوڑ سکتا تھا، لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا،بیشک وہ غالب حکمت والا ہے۔''
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قارئین کرام! اس روشن حقیقت کے باوجود کچھ لوگ ان کے درمیان جدی پشتی عداوت ثابت کرنے کے لئے بیک گیئر لگاتے ہیں اور تاریخی کباڑ خانے سے ناکارہ مواد اکٹھا کرکے صحابہ کرام پر سب و شتم کو فروغ دیتے ہیں، اگر یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر اللہ کے احسان کو مان لیں کہ اس نے ان کے درمیان عداوت ختم کردی تھی اور ان کو بھائی بھا ئی بنا دیا تھا تو اس میں ان کا کیا نقصان ہے؟ ربّ کریم اس بات کی خود شہادت دے رہا ہے کہ ان کے دل صاف و شفاف تھے اور وہ باہم شیروشکر تھے اور ان کے درمیان وقتی اور عارضی جھگڑوں کے باوجود وہ بات نہ تھی جو کذاب راویوں نے مکذوبہ روایات میں ثابت کی ہے۔

قارئین کرام!آپ درج ذیل قرآنی آیات پر غور کریں،کیونکہ ان میں ان کے درمیان باہمی محبت کے ثمر آور درخت سے پھوٹنے والے ایثار کا ذکر بھی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

’’ لِلْفُقَرَائِ الْمُھَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَأَمْوَالِھِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اﷲِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَہُ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ٭وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمٰنَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وُیُؤثِرُوْنَ عَلٰی أنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘ (الحشر :۸،۹)
''مال فئ میں)ان نادار مہاجرین کا بھی حصہ ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے بے دخل کردیے گئے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کرتے ہیں۔ وہی لوگ سچے ہیں اور جن لوگوں نے ان سے پہلے دار ہجرت) اور ایمان کو ٹھکانہ بنا لیا، وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ان کی طرف ہجرت کرکے آئیں اور جب ان مہاجرین) کو کچھ دیا جائے تو وہ انصار) اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہیں کرتے، اگرچہ خود انہیں بھی اس مال) کی ضرورت ہو اور جو لوگ اپنے نفس کی ہوس سے بچ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔''
اس کے بعد ہم آپ کے سامنے امیرالمومنین سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی زبان سے آپ کا وہ بیان نقل کرتے ہیں جو حقیقی صورتحال کاترجمان ہے اور ایمانی اخوت کی حلاوت سے لبریز ہیـ ۔چنانچہ کنزالعمال میں ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی جامع مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں لوگوں کو مخاطب کرکے پوچھا:
أیھا الناس أخبروني من أشجع الناس؟
''لوگو! مجھے بتاؤ کہ سب سے بڑھ کر شجاع اور دلیر کون ہے؟''
اُنہوں نے جواب دیا: اے امیرالمومنین!آپ ہی شجاع ترین انسان ہیں۔
آپ نے فرمایا:جہاں تک میرا معاملہ ہے اس میں اتنی حقیقت ہے کہ ) میرا جس کسی دشمن سے مقابلہ ہوا میں نے حساب برابر کردیا لیکن تم مجھے أشجع الناس کے متعلق بتاؤ کہ وہ کون ہے؟
حاضرین نے کہا : پھر ہم نہیں جانتے، لہٰذا آپ ہی بتائیں کہ وہ کون ہے؟
آپ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ
اس کے بعد آپ نے حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارِ قریش کی گرفت سے چھڑانے کی پاداش میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے المناک انجام اور آپ کے صبر و استقلال کا واقعہ سنایا اور پھر اتنا روئے کہ آپ کی چادر تر ہونے لگی۔ پھر آپ نے کوفی سامعین سے کہا: ''میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ مجھے بتاؤ :
'' مؤمن ِآلِ فرعون بہتر تھا ... یا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ؟''
حاضرین کوئی جواب نہ دے سکے تو آپ نے فرمایا:
''تم جواب کیوں نہیں دیتے، اللہ کی قسم! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ گھڑی جس میں اُنہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارِ قریش سے چھڑانے کی پاداش میں خوفناک مار کھائی تھی) آلِ فرعون کے مؤمن سے بہتر ہے،کیونکہ وہ اپنا ایمان چھپائے پھرتا تھااور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کا اعلان کررہا تھا۔'' الکنز: رقم۳۵۶۹۰)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
علاوہ ازیں آپ کو اہل السنہ اور شیعہ کی کتابوں میں بہت سے واضح ارشادات ملیں گے جن میں آپ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کھلے دل کے ساتھ جی بھر کر اپنے ساتھیوں کی فضیلت بیان کی ہے۔ چنانچہ کنز العمال میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ کچھ لوگ حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں تو آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا:

’’ وَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَ النَّسْمَۃَ لَا یُحِبُّہُمَا إلَّا مَوْمِنٌ فَاضِلٌ، وَلَا یُبْغِضُہُمَا وَلَا یُخَالِفُہُمَا إلاَّ شَقِیٌّ مَارِقٌ،فَحُبُّہُمَا قُرْبَۃٌ وَبُغْضُہُمَا مُرُوْقٌ،مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَذْکُرُوْنَ أَخَوَیْ رَسُوْلِ اﷲِ وَوَزِیْرَیْہِ وَصَاحِبَیْہِ وَسَیِّدَيْ قُرَیْشٍ وَأَبَوَيِ الْمُسْلِمِیْنَ؟ فَأَنَا بَرِیٌٔ مِّمَّنْ یَذْکُرُہُمَا بِسُوْئٍ وَعَلَیْہِ مُعَاقِبٌ‘‘ ( رقم:۳۶۰۹۶)
'' اس ذات کی قسم جس نے دانے اور گٹھلی کو پھاڑا اور روح کو پیدا کیا! ان دونوں سے وہی محبت کرے گا جو فاضل مؤمن ہو گا اور ان دونوں سے وہی بغض وعداوت رکھے گا جو بدبخت اور مارق ہو گا،کیونکہ ان دونوں کی محبت تقرب الٰہی کا سبب ہے اور ان سے بغض ونفرت رکھنا دین سے خارج ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبھائیوں اوردو وزیروں اوردو ساتھیوں اور قریش کے دو سرداروں اور مسلمانوں کے دو باپوں کو نازیبا الفاظ سے یاد کرتے ہیں؟ میں ان لوگوں سے لا تعلق ہوں جو ان دونوں کوبرے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور اس پر انہیں سزا دوں گا۔''
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مزید برآں نہج البلاغۃ میں آپ رضی اللہ عنہم اجمعین سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی تعریف منقول ہے۔ آپ رضی اللہ عنہم اجمعین فرماتے ہیں :
''میں نے اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، میں تم میں کوئی ایسا انسان نہیں دیکھ رہا جو ان کے مشابہ ہو۔ وہ پراگندہ حالی میں صبح کرتے تھے، کیونکہ وہ قیام اور سجدوں میں رات بسرکرتے تھے۔ وہ تھکاوٹ کی وجہ سے سجدوں میں) اپنی پیشانیوں اور رخساروں پر ٹیک لگا کر راحت حاصل کرتے تھے اوراپنے یومِ حساب کو یاد کرکے یوں کھڑے ہوتے تھے، جیسے وہ انگاروں پر کھڑے ہوں اور طویل سجدوں کی وجہ سے گویا ان کی آنکھوں کے درمیان بکری کے گھٹنے جیسے نشان پڑ گئے تھے۔ جب اللہ کاذکر کیا جاتا تو ان کی آنکھوں سے آنسو اُمڈ پڑتے یہاں تک کہ ان کے گریبان تر ہوجاتے۔ وہ عذاب کے خوف اور ثواب کی اُمید کی وجہ سے یوں لرزتے کانپتے جھک جاتے جیسے آندھی کے طوفان سے درخت جھک جاتے ہیں۔''
اور جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کی طرف نکلے اور فرمایا:

’’ ﷲ درُّ باکیة عمر! واعمراہ! قَوَّمَ الاَوْدَ وَابْرَأ الْعَمَد،واعمراہ! مات نقیَّ الثوب،قلیل العیب،واعمراہ! ذھب بالسنة وخلف الفتنة ‘‘ ( نہج البلاغۃ: ص۲۷۷ اور الرقۃ والبکاء لابن قدامۃ)
'' عمر رضی اللہ عنہ کی خوبیوں کو یاد کر کے رونے والی کا کمال، اللہ ہی کو زیبا ہے۔ آہ عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کس قدر غم ناک ہے! اس نے ٹیڑھ اور بگاڑ کو سیدھا کردیااوربیماری کو تندرسی میں بدل دیا۔ آہ عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کس قدرغمناک ہے!وہ اس حال میں فوت ہوا کہ وہ صاف وشفاف لباس والا اور معمولی داغ والا تھا۔ آہ عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کس قدر اندوہناک ہے! وہ سنت لے گیا اور آزمائش چھوڑ گیا۔''
 
Top