• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصلاحِ نفس جہاد اکبر ہے؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
اصلاحِ نفس جہاد اکبر ہے؟

قَدِمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ قَوْمٌ غُزَاۃٌ فَقَالَ قَدِ مْتُمْ بِخَیْرِ مَقْدَمٍ مِّنَ الْجِہَادِ الْاَصْغَرِاِلَی الْجِہَادِ الْاَکْبَرِ قِیْلَ وَمَا الْجِہَادُ الْاَکْبَرُ قَالَ مُجَاہَدَۃُ الْعَبْدِہَوَاہٗ

مجاہدین کی ایک جماعت حضرت پاک ﷺ کی خدمت میں آئی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف خوب بہتر طور پر لوٹ آئے ہو۔ کسی نے عرض کیا کہ جہاد اکبر کیا ہے؟ تو حضرت پاک ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بندہ کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا۔(تفسیر کشاف)

اس روایت میں اس بات کی تصریح ہے کہ حضرت پاک ﷺ نے اپنی زبانِ مبارک سے مجاہدہ اور اصلاحِ نفس کو جہاد ہی نہیں بلکہ جہاد اکبر فرمایا ہے اس روایت کی اس قدر وضاحت کے بعد تو جہاد فی سبیل اللہ کا معنی صرف قتال سے کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔


جواب نمبر۱:

آئیے ہم نہایت اختصار کے ساتھ پہلے تو اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس روایت کے بارے میں محدثین ِکرام کیا رائے رکھتے ہیں۔

صاحبِ مختصر علامہ محمد طاہر پٹنی فرماتے ہیں

رَجَعْنَامِنَ الْجِہَادِ الْاَصْغَرِاِلٰی الْجِہَادِ الْاَکْبَرضَعِیْفٌ۔ (تذکرۃ الموضوعات)

کہ یہ روایت ضعیف ہے ۔


علامہ شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔

مُحَمَّدُ بْنُ زِیَادٍ یَّقُوْلُ سَمِعْتُ ابْنَ اَبِیْ عَبْلَۃَ وَھُوَ یَقُوْلُ لِمَنْ جَاءَ مِنَ الْغَزْوقَدْ جِئْتُمْ مِّنَ الْجِہَادِ الْاَصْغَرِاِلٰی الْجِہَادِ الْاَکْبَر جِہَادُ الْقَلْبَ(سِیَرُ اَعْلَامِ النُّبَلَا ج۶)

یہ حدیث نہیں بلکہ ابراہیم ابن ابی عبلۃ کا قول ہے۔


علامہ سید محمود آلوسی ؒمفتی بغداد فرماتے ہیں

وَالْحَدِیْثُ الَّذِیْ ذَکَرَہٗ لَا اَصْلَ لَہُ

اس حدیث کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے (روح المعانی ج۳)


حضرت علامہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

اَمَّاْ الْحَدِیْثُ الَّذِیْ یَرْوِیْہٖ بَعْضُہُمْ اَنَّہُ قَالَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ رَجَعْنَامِنَ الْجِہَادِ الْاَصْغَرِاِلٰی الْجِہَادِ الْاَکْبَرفَلَا اَصْلَ لَہٗ

اس روایت کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔


جواب نمبر ۲:

اگر اس کو حدیث تسلیم کرلیا جائے تو یہ قرآن کریم کی کئی آیات مبارکہ کے خلاف ہوگی اور قرآن و حدیث کے درمیان تعارض تو ہر گز ممکن نہیں لہٰذا یہ کہنا پڑے گا کہ یہ حدیث ہے ہی نہیں۔

دیکھئے آیت

فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجَاہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَانْفُسِہِمْ عَلٰی الْقَاعِدِیْنَ دَرَجَۃً۔(سورۃ النساء ، آیت نمبر ۹۵)

ﷲ تعالیٰ نے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنے والوں کا بنسبت گھر بیٹھنے والوں کے بہت زیادہ درجہ بلند فرمایا ہے۔

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِہِم اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَاُولٓئِکَ ہُمُ الْفَائِزُوْنَ۔(سورۃ التوبۃ ، آیت نمبر۲۰)

جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑے درجہ میں ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔


اگر اس کو حدیث تسلیم کرلیا جائے تو اس سے شریعت کے اہم فریضہ جہاد فی سبیل اللہ کی توہین لازم آتی ہے۔

علامہ محمد بن لطفی الضباع فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف بلکہ علامہ عراقی کے فیصلہ کے مطابق باطل ہے۔ اس لئے کہ یہ اسلام کے ایک ایسے فریضے کی شان گھٹا رہی ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی کوہان ، چوٹی قرار دیا (الاسرار المرفوعہ)

جواب نمبر ۳:

اس روایت پر ایک عقلی اعتراض یہ ہے کہ رجوع کا معنی ہوتا ہے ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونا تو اس روایت کا مطلب تو یہ ہوا کہ حضرت پاک ﷺ نے فرمایا کہ تم جہاد اصغر سے یعنی ایسے فریضہ قتال جس میں اصلاحِ نفس اور مجاہدہ نفس نہیں ہوتا واپس آئے ہو ۔ جہاد اکبر یعنی ایسے عمل کی طرف جس میں اصلاحِ نفس اور مجاہدہ نفس ہوتا ہے۔

تو آپ خیال فرمائیں کہ اس میں العیاذ باللہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی کس قدر توہین ہے کیا اسے ضمیر برداشت کر سکتا ہے اور کیا العیاذ باللہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا جہاد ایسا ہی تھا کہ وہ لوگ جہاد میں تو حدودِ شریعت، اصلاح ِنفس اور مجاہدات سے غفلت برتتے تھے مگر واپس مدینہ آکر اصلاحِ نفس اور مجاہدات کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ جہاد میں مجاہدہ کس حد تک ہوتا ہے اس کو تو بیان کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ قتل کرنے اور قتل ہونے، زخمی کرنے اور زخمی ہونے سے بڑا کیا مجاہدہ ہوگا یہ قتل و قتال تو قرآن کریم کی تصریح

کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَکُرْہٌ لَّکُمْ (سورۃ بقرہ ، آیت نمبر۲۱۶)

کے مطابق نفس کو بالطبع اور بالذات ناپسندیدہ ہے ۔

البتہ ایسے چند ایک واقعات کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے جس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم عین حالت ِجنگ میں بھی حدودِشریعت اور اصلاح ِنفس کا کس قدر خیال فرماتے تھے۔

(۱)حضرت معاذ ؓ غزوہ بدر میں اپنا کٹا ہوا اور لٹکتا ہو ابازو سارا دن ساتھ لے کر جہاد فرماتے ہیں اور زیادہ رکاوٹ بنتا ہے تو اس کو پاؤں کے نیچے دے کر کاٹ کر پھر جہاد شروع فرماتے ہیں کیا یہ مجاہدہ نفس نہیں ہے ؟

(۲)غزوہ خندق کے موقع پر حضرت پاک ﷺکے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے آقا کے ساتھ پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہیں کیا یہ مجاہدہ نفس نہیں ہے ؟

(۳)سَرِےَّۃُ العَنبر میں صحابہ رضی اللہ عنہم ایک ایک کھجور کی گٹھلی کو چوس کر روزانہ گزارا کرتے ہیں کیا یہ مجاہدہ نفس نہیں ہے ؟

یہ چند ایک واقعات بطور نمونے کے عرض کئے ہیں۔ کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو عین حالتِ جنگ میں بھی اخلاص، مجاہدات اور توجہ الی اللہ سے ذرہ برابر غافل نہ رہتے تھے۔

جہاد اکبر:

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ جہاد اکبر کی حقیقت کیا ہے؟ ہم اس کی تفصیل بیان کئے بغیر صرف ایک حوالہ پر اکتفا کرتے ہیں۔

(۱) علامہ محمد بن علی شو کانی رحمۃ اللہ علیہ آیت کریمہ

وَجَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ کے تحت فرماتے ہیں

اَلْمُرَادُ بِہٖ الْجِہَادُ الْاَکْبَرُ وَھُوَ الْغَزْوُ لِلْکُفَّارِ وَمُدَافَعَتُہُمْ اِذَا غَزَوْا بِلَادَالْمُسْلِمِیْنَ (فتح القدیر ج۳)

کہ کافروں سے جنگ کرنا اور ان کو دفع کرنا ہی جہاد اکبر ہے۔


متاعِ جان لٹانا جہادِ اکبر ہے
فسادِ کفر مٹانا جہادِ اکبر ہے

شبہ:

مگر اس پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ قتال اور غزوہ کو جہاد اکبر کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ قتال اور غزوات کے علاوہ دوسرے اعمال بھی جہاد ہیں اگرچہ وہ جہاد ِاصغر ہی سہی تو آپ کا یہ دعویٰ کرنا کہ جہاد کا معنی صرف قتال ہے غلط ثابت ہوا۔

پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا معنی ہے قتال فی سبیل اللہ مگر چونکہ بسا اوقات مناسبت کی وجہ سے مجازاً بعض دوسرے اعمال پر بھی جہاد کا اطلاق کیا گیا ہے مگر ان میں سے بھی اصل جہاد چونکہ قتال فی سبیل اللہ ہی ہے اس لئے اس پر بسا اوقات جہادِ اکبر کا اطلاق بھی کردیا جاتا ہے۔

مگر قتال پر جہادِ اکبر کے اطلاق سے ہر گز اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا چاہئے کہ شاید قتال کے علاوہ بعض دوسرے اعمال بھی اصطلاحی جہاد فی سبیل اللہ کے تحت داخل ہیں۔

یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے عمرہ اور حج الگ الگ عبادات ہیں مگر چونکہ حج کے بعض افعال افعالِ عمرہ بھی ہیں جیسے احرام، سعی، حلق، قصر، طواف وغیرہ تو اس مناسبت کی بنا پر بسااوقات عمرہ پر حج ِاصغر اور حج پر حج ِاکبر کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔

جیسا کہ قرآن کریم میں ہے

بَرَاءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ اِلٰی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ (سورۃ توبہ ، آیت نمبر۱)

مگر اس اطلاق اور مجازی استعمال سے کوئی شخص عمرہ کو حقیقی حج شمار کرنے لگے تو سوائے اس کے کہ اس کی عقل پر ماتم کیا جائے اور کیا کیا جا سکتا ہے؟
 

ایوب

رکن
شمولیت
مارچ 25، 2017
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
-3
پوائنٹ
62
ایسی جھوٹی روایات کے ذریعہ مسلمانوں کے نسل کو بزدل بنانے کی ناکامیاب کوشش کی جارہی ہے۔
 
Top