اصل ِ اَوّل
پہلا اُصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یوم آخرت اور تقدیر کی اچھائی وبرائی پر ایمان لایا جائے، اب اس کی توضیح کی جاتی ہے:
1۔ایمان باﷲ
اس سے مراد یہ ہے کہ توحید کی تینوں اقسام یعنی توحید ربوبیت، توحید اُلوہیت اور توحید اسما وصفات کا اقرار اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جائے۔
توحید ربوبیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اعمال میں اکیلا تسلیم کیا جائے جیسے پیدا کرنا، رزق دینا، زندگی اور موت دینا وغیرہ اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ہر شے کا پروردگار اور مالک سمجھا جائے۔
توحید اُلوہیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ وہ افعال جن کے ذریعے لوگ خدا کا قرب حاصل کرتے ہیں، صرف خدا ہی کے لئے خاص کئے جائیں۔ مثلاً دعا، خوف، اُمید، محبت، ذبح، نذر، استعانت، استعاذہ، استغاثہ، نماز، روزہ، حج، انفاق فی سبیل اللہ اور وہ تمام دیگر اُمور جنہیں خدا نے طے کیا ہے اور بجا لانے کا حکم دیا ہے ان میں کسی دوسری ہستی - خواہ وہ ولی ہو، نبی ہو، یا فرشتہ - کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
توحید اسما وصفات کا مفہوم یہ ہے کہ جن اسماء و صفات کو خدا نے خو داپنے لئے یا اس کے رسولﷺ نے ثابت فرمایا ہے انہیں ثابت سمجھا جائے اور جن عیوب و نقائص سے اس نے خود اپنے آپ کو یا ا س کے رسولﷺ نے پاک قرار دیا ہے، ان سے منزہ ہونے کا اعتقاد رکھا جائے اور ا سباب میں کسی قسم کی تمثیل، تشبیہ، تحریف، تعطیل یا تاویل کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
’’ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ‘‘ [الشوریٰ: ۱۱]
’’اس کی مثل کوئی شے نہیں اور وہ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ وَﷲِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنَیٰ فَادْعُوْہُ بِھَا ‘‘ [الأعراف: ۱۸۰]
’’اللہ کے اَچھے اَچھے نام ہیں، تم اسے ان کے ذریعے پکارو۔‘‘
2۔ایمان بالملائکہ
فرشتوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے وجود کی تصدیق کی جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ اللہ کی مخلوق میں شامل ہیں جنہیں اس نے نور سے پیدا کیا ہے۔ اور ان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور کائنات میں اس کے احکامات کی بجا آوری کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ بَلْ عِبَادٌ مُکْرَمُوْنَ ۔ لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ ‘‘ [الأنبیائ: ۲۶، ۲۷]
’’بلکہ وہ معزز بندے ہیں۔ وہ اس کی بات پر سبقت نہیں لے جاتے اور وہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔‘‘
3۔ایمان بالکتب
کتابوں پر ایمان سے مقصود یہ ہے کہ ان کی تصدیق کی جائے کہ ان میں ہدایت اور نور موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے انسانوں کی ہدایت کیلئے اپنے رسولوں پر نازل فرمایا ہے۔ ان میں سے چار جلیل القدر ہیں یعنی تورات، زبور، انجیل اور قرآنِ مجید۔ ان چاروں میں رفیع الشان قرآنِ مجید ہے جو ایک عظیم معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَیٰٓ اَنْ یَاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا ‘‘ [الإسرائ: ۸۸]
’’اعلان کردیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب کیلئے اس کا مثل لانا ناممکن ہے، خواہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔‘‘
جہمیہ، معتزلہ اور اَشاعرہ کے برعکس اہل سنت کا ایمان ہے کہ قرآنِ مجید اپنے حروف اور معانی سمیت اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔ جہمیہ اور معتزلہ کے نزدیک تو قرآن کریم کے الفاظ ومعانی دونوں مخلوق ہیں، جبکہ اَشاعرہ کے نزدیک معانی اللہ کا کلام ہیں اور حروف مخلوق ہیں۔ لیکن یہ دونوں قول صحیح نہیں۔ ارشاد باری ہے:
’’ وَاِنْ اَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتَّیٰ یَسْمَعَ کَلَامَ اﷲِ ‘‘ [التّوبۃ: ۶]
’’اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دے حتی کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُبَدِّلُوْا کَلَامَ اﷲِ ‘‘ [الفتح: ۱۵]
’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کوبدل ڈالیں۔‘‘
لہٰذا قرآن مجید اللہ کا کلام ہے، نہ کہ کسی اور کا، جیسا کہ گمراہ فرقوں اور باطل گروہوں کا نقطۂ نظر ہے۔