• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول اہل سنت والجماعت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اُصول اہل سنت والجماعت

طاہر اِسلام عسکری​
کسی بھی گروہ یا جماعت کی اصل شناخت اُن اصولوں ہی سے کی جاسکتی ہے جن کی روشنی میں وہ اپنا طرزِ فکر وعمل طے کرتے ہیں۔ اہل ِسنت والجماعت کا تعارف بھی ان کے اُصولوں کی روشنی میں ہی ممکن ہے۔
زیر نظر تحریر الشیخ صالح الفوزان کے ایک رسالے بنام (من أصول أہل السنۃ والجماعۃ) سے ماخوذ ہے، جس میں وہی اُصول پیش کئے جارہے ہیں، جو اہل سنت والجماعت کے ترجمان ہیں اور عقیدہ ومنہج میں ان کا حقیقی تعارف بھی۔
اہل سنت والجماعت اعتقاد وعمل اور اخلاق وسلوک میں انتہائی واضح اور پختہ اُصولوں پر گامزن ہیں۔ یہ اُصول کتاب اللہ، سنت ِرسولﷺ اور اُمت کے سلف صالحین یعنی صحابہ کرام رض اور تابعین عظام رح کے منہج سے ماخوذ ہیں۔ ذیل میں اُن کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اصل ِ اَوّل

پہلا اُصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یوم آخرت اور تقدیر کی اچھائی وبرائی پر ایمان لایا جائے، اب اس کی توضیح کی جاتی ہے:
1۔ایمان باﷲ
اس سے مراد یہ ہے کہ توحید کی تینوں اقسام یعنی توحید ربوبیت، توحید اُلوہیت اور توحید اسما وصفات کا اقرار اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جائے۔
توحید ربوبیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اعمال میں اکیلا تسلیم کیا جائے جیسے پیدا کرنا، رزق دینا، زندگی اور موت دینا وغیرہ اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ہر شے کا پروردگار اور مالک سمجھا جائے۔
توحید اُلوہیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ وہ افعال جن کے ذریعے لوگ خدا کا قرب حاصل کرتے ہیں، صرف خدا ہی کے لئے خاص کئے جائیں۔ مثلاً دعا، خوف، اُمید، محبت، ذبح، نذر، استعانت، استعاذہ، استغاثہ، نماز، روزہ، حج، انفاق فی سبیل اللہ اور وہ تمام دیگر اُمور جنہیں خدا نے طے کیا ہے اور بجا لانے کا حکم دیا ہے ان میں کسی دوسری ہستی - خواہ وہ ولی ہو، نبی ہو، یا فرشتہ - کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
توحید اسما وصفات کا مفہوم یہ ہے کہ جن اسماء و صفات کو خدا نے خو داپنے لئے یا اس کے رسولﷺ نے ثابت فرمایا ہے انہیں ثابت سمجھا جائے اور جن عیوب و نقائص سے اس نے خود اپنے آپ کو یا ا س کے رسولﷺ نے پاک قرار دیا ہے، ان سے منزہ ہونے کا اعتقاد رکھا جائے اور ا سباب میں کسی قسم کی تمثیل، تشبیہ، تحریف، تعطیل یا تاویل کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
’’ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ‘‘ [الشوریٰ: ۱۱]
’’اس کی مثل کوئی شے نہیں اور وہ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ وَﷲِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنَیٰ فَادْعُوْہُ بِھَا ‘‘ [الأعراف: ۱۸۰]
’’اللہ کے اَچھے اَچھے نام ہیں، تم اسے ان کے ذریعے پکارو۔‘‘
2۔ایمان بالملائکہ
فرشتوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے وجود کی تصدیق کی جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ اللہ کی مخلوق میں شامل ہیں جنہیں اس نے نور سے پیدا کیا ہے۔ اور ان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور کائنات میں اس کے احکامات کی بجا آوری کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ بَلْ عِبَادٌ مُکْرَمُوْنَ ۔ لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ ‘‘ [الأنبیائ: ۲۶، ۲۷]
’’بلکہ وہ معزز بندے ہیں۔ وہ اس کی بات پر سبقت نہیں لے جاتے اور وہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔‘‘
3۔ایمان بالکتب
کتابوں پر ایمان سے مقصود یہ ہے کہ ان کی تصدیق کی جائے کہ ان میں ہدایت اور نور موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے انسانوں کی ہدایت کیلئے اپنے رسولوں پر نازل فرمایا ہے۔ ان میں سے چار جلیل القدر ہیں یعنی تورات، زبور، انجیل اور قرآنِ مجید۔ ان چاروں میں رفیع الشان قرآنِ مجید ہے جو ایک عظیم معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَیٰٓ اَنْ یَاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا ‘‘ [الإسرائ: ۸۸]
’’اعلان کردیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب کیلئے اس کا مثل لانا ناممکن ہے، خواہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔‘‘
جہمیہ، معتزلہ اور اَشاعرہ کے برعکس اہل سنت کا ایمان ہے کہ قرآنِ مجید اپنے حروف اور معانی سمیت اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔ جہمیہ اور معتزلہ کے نزدیک تو قرآن کریم کے الفاظ ومعانی دونوں مخلوق ہیں، جبکہ اَشاعرہ کے نزدیک معانی اللہ کا کلام ہیں اور حروف مخلوق ہیں۔ لیکن یہ دونوں قول صحیح نہیں۔ ارشاد باری ہے:
’’ وَاِنْ اَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتَّیٰ یَسْمَعَ کَلَامَ اﷲِ ‘‘ [التّوبۃ: ۶]
’’اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دے حتی کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُبَدِّلُوْا کَلَامَ اﷲِ ‘‘ [الفتح: ۱۵]
’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کوبدل ڈالیں۔‘‘
لہٰذا قرآن مجید اللہ کا کلام ہے، نہ کہ کسی اور کا، جیسا کہ گمراہ فرقوں اور باطل گروہوں کا نقطۂ نظر ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔ایمان بالرسل

اللہ کے نبیوں اور پیغمبروں پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ اوّل تا آخر ان سب کی تصدیق کی جائے۔ خواہ ان کا نام ذکر کیا گیا ہے یا نہیں۔ ان میں سے خاتم النبیّین یعنی آخری نبی سیدنا محمد رسول اللہﷺ ہیں۔ دیگر تمام انبیا ورُسل علیہم السلام پر ایمانِ مجمل، جبکہ رُسولِ اَکرمﷺ پر ایمانِ مفصل لانا ہو گا اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آپﷺ خاتم الرسل ہیں اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، جو یہ اعتقاد نہیں رکھتا وہ کافر ہے۔
تمام رسولوں پر یہود ونصاریٰ وغیرہ کے برعکس بغیر کسی اِفراط وتفریط کے ایمان لانا ضروری ہے کہ انہوں نے بعض انبیا کے حق میں غلو اور افراط کا مظاہرہ کیا، یہاں تک کہ انہیں اللہ کا بیٹا بنا ڈالا۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’ وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرٌ ابْنُ اﷲِ وَقَالَتِ النَّصَٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اﷲِ ‘‘ [التّوبۃ:۳۰]
’’یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا اور عیسائیوں نے کہا کہ مسیح اللہ کا فرزند ہے۔‘‘
صوفیا اور فلاسفہ نے انبیا علیہم السلام کے سلسلے میں تفریط کی راہ اپنائی اور اپنے ائمہ کو ان سے افضل جانا۔ بت پرستوں اور ملحدوں نے تمام رسولوں کا کفر کیا جبکہ یہود نے سیدنا عیسیٰ﷤ اور محمد مصطفیﷺ کا اور عیسائیوں نے خاتم الانبیاءﷺ کا انکار کردیا۔ جو بعض انبیا کرام علیہم السلام کو مانے اور بعض کو نہ مانے تو اس نے گویا تمام پیغمبروں کا انکار کردیا، ارشاد ہے:
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاﷲِ وَرُسُلِہِ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اﷲَ وَرُسُلِہِ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیْلًا۔اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا ‘‘ [النّسائ: ۱۵۰، ۱۵۱]
’’جو اللہ اور ا س کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان کوئی راہ نکالیں، یقین مانو یہ سب لوگ اصلی کافر ہیں۔‘‘
اورفرمایا:
’’ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ ‘‘ [البقرۃ: ۲۸۵]
’’ہم اللہ کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔‘‘
یعنی سب کو یکساں طور پر سچا تسلیم کرتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔ایمان بالیوم الآخر

آخرت پر ایمان کا مفہوم یہ ہے کہ اس سلسلے میں اللہ اور رسول کریمﷺ نے جو کچھ بتایا ہے اس کی تصدیق کی جائے، مثلاً قبر کا عذاب وثواب، قبروں سے اُٹھایا جانا، حشر، حساب و کتاب کا ہونا، وزنِ اعمال، نامۂ اَعمال کا دائیں یا بائیں ہاتھ میں دِیا جانا، پل صراط اور جنت و دوزخ کا وجود وغیرہ۔ نیز اعمالِ صالحہ کے ذریعے اور بُرے اعمال کو چھوڑ کر توبہ کر کے، اس کیلئے تیاری کرنا بھی ایمان بالیوم الآخر میں شامل ہے۔
دہریوں اور مشرکوں نے تو کلی طور پر یومِ آخرت کا انکار کردیا اور یہود و نصاریٰ نے اس کا اقرار تو کیا، لیکن جو ایمان مطلوب تھا اس کے مطابق اسے تسلیم نہ کیا۔ چنانچہ وہ کہتے تھے:
’’ لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصَرَیٰ ‘‘ [البقرۃ: ۱۱۱]
’’جنت میں سوائے یہودیوں یا عیسائیوں کے اور کوئی داخل نہ ہوگا۔‘‘
نیز یہ بھی کہا کرتے تھے کہ :
’’ لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃً ‘‘ [البقرۃ: ۸۰]
’’ہم تو صرف چند روز جہنم میں رہیں گے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔ایمان بالقدر

تقدیر پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ یہ مانا جائے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر شے کا علم ہے خواہ پہلے وہ گزر چکی ہے یا آئندہ آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا اندازہ لوحِ محفوظ میں مقرر کر رکھا ہے۔ اسی طرح ایمان، کفر، اطاعت ومعصیت ہر شے اللہ نے پیدا کی ہے، اسی کی مشیت کے تحت ہے اور اسی کے اندازے کے مطابق ہے۔ وہ اطاعت وفرمانبرداری کو پسند فرماتا ہے اور معصیت و نافرمانی کو ناپسند جانتا ہے۔ انسانوں کو اپنے افعال پر قدرت، ارادہ اور اختیار حاصل ہے اسی لئے وہ اطاعت و معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کے تابع ہے۔
تقدیر کے باب میں اہل سنت کے اس معتدل اور واضح عقیدہ کے برعکس باطل فرقے دو انتہاؤں پر ہیں۔ چنانچہ جبریہ کہتے ہیں کہ بندہ اپنے افعال کے سلسلہ میں مجبورِ محض ہے اور اسے کچھ بھی کوئی اختیار حاصل نہیں، جبکہ قدریہ کے نزدیک انسان مستقل ارادے کا مالک ہے اور وہ اللہ کے ارادے اور مشیت کی بجائے خود اپنے افعال کا خالق ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کا ردّ کیا ہے۔ فرمایا:
’’ وَمَا تَشَائُ وْنَ اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اﷲُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ‘‘ [التکویر: ۲۹]
’’اور تم بغیر پروردگارِ عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے۔‘‘
چنانچہ غالی جبریہ کی تردید کرتے ہوئے بندے کیلئے مشیت کا اثبات فرمایا، لیکن اسے اللہ کی مشیت کے تابع کر دیا جس سے قدریہ کے نقطۂ نظر کا باطل ہونا بھی معلوم ہوگیا۔
تقدیر پر ایمان سے انسان میں مشکلات و مصائب پر صبر کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے، اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ عقیدۂ تقدیر انسان کو عمل کی ترغیب دیتا ہے اور بے بسی، خوف اور سستی جیسے رذائل سے بچنے پر اُبھارتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اَصل دوم

اہل السنۃ والجماعۃ کے اُصولوں میں سے ایک اُصول یہ بھی ہے کہ ان کے نزدیک ایمان، قول، عمل اور اعتقاد کا نام ہے جو اطاعت سے بڑھتا اور معصیت سے کم ہوتا ہے۔ ایمان، اعتقاد کے بغیر محض قول وعمل کا نام نہیں کیونکہ یہ منافقوں کا ایمان ہے اورنہ قول وعمل کے بغیر محض معرفت کو ایمان کہا جائے گا، کیونکہ یہ انکار وجُحود کی روش اپنانے والے کافروں کا ایمان ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَآ اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ‘‘ [النّمل: ۱۴]
’’اُنہوں نے ظلم وتکبر کرتے ہوئے انکار کر دیا، حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے۔‘‘
مزید فرمایا:
’’ فَاِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ باٰیٰت اﷲَ یَجْحَدُوْنَ ‘‘[الأنعام: ۳۳]
’’سو، یہ لوگ آپ (ﷺ) کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
اسی طرح فقط اعتقاد یا عمل کو چھوڑ کر صرف قول اور تصدیق کو بھی ایمان قرار نہیں دیا جاسکتا جو کم یا زیادہ نہ ہو سکتا ہو کیونکہ یہ مُرجِئَہ کا ایمان ہے۔ باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر اعمال کو ایمان کہا ہے، جو کم اور زیادہ ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا:
’’ اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ ایَاتُہُ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکلُوْنَ ۔ اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلَوٰۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤمِنُوْنَ حَقًّا ‘‘ [الأنفال: ۲- ۴]
’’بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں اُن کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں، سچے ایمان والے یہی لوگ ہیں۔‘‘
مزید فرمایا:
’’ وَمَا کَانَ اﷲُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ‘‘ [البقرۃ: ۱۴۳]
’’اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان ضائع نہ کرے گا۔‘‘
مراد یہ ہے کہ بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے پڑھی گئی تمہاری نمازوں کو ضائع نہ فرمائے گا۔ گویا یہاں نماز کو، جو ایک عمل ہے، اللہ تعالیٰ نے ایمان قرار دیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اصل سوم

اہل سنت والجماعت کا ایک اہم اُصول یہ بھی ہے کہ وہ کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرتے اِلا کہ وہ نواقض ِاسلام میں سے کسی کا ارتکاب کر بیٹھے۔جہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے جو شرک سے کم تر ہیں اور ان کے مرتکب کے کفر پر کوئی دلیل موجود نہ ہو، جیسا کہ سستی سے نماز چھوڑ دینا، تو وہ اسے کافر نہیں کہتے بلکہ فاسق یا ناقص الایمان قرار دیتے ہیں۔ اگر مرتکب کبائر توبہ نہ کرے تووہ اللہ کی مشیت کے سپرد ہے کہ چاہے تو اسے معاف کردے اور چاہے تو عذاب دے، لیکن وہ دائمی جہنمی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ اِنَّ اﷲَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذَلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ‘‘ [النّسائ: ۴۸]
’’یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جو چاہے بخش دیتا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں اہل سنت کا نقطۂ نظر خوارج اور مُرجِئَہ کے برعکس اعتدال و توازن پر مبنی ہے۔ خوارج مرتکب ِکبائر کو کافر کہتے ہیں جبکہ مُرجِئَہ کے نزدیک وہ کامل الایمان ہے۔ مُرجِئَہ کا کہنا ہے کہ جس طرح کفر کے ساتھ کوئی نیکی فائدہ نہیں دیتی اسی طرح ایمان کے ساتھ کوئی معصیت نقصان دہ نہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اصل چہارم

یہ اَمر بھی اہل سنت والجماعت کے اُصول میں شامل ہے کہ مسلمان حکام جب تک معصیت کا حکم نہ دیں، ان کی اطاعت واجب ہے۔ اگر وہ کسی نافرمانی کا حکم دیتے ہیں تو اس معاملے میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی اور دیگر اُمورِ خیر میں ان کے احکامات کی پابندی لازم رہے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْا اﷲَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُولِیْ الْاَمْرِ مِنْکُمْ ‘‘ [النّسائ: ۵۹]
’’اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ اور رسول کریم (ﷺ) اور اپنے میں سے اختیار والوں کی۔‘‘
رسولِ مکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
’’ أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اﷲِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا ‘‘ [صحیح سنن أبي داؤد: ۴۶۰۷]
’’میں تمہیں تقویٰ اور سمع و اطاعت کی وصیت کرتا ہوں خواہ تم پر ایک حبشی غلام ہی (اَمیر کیوں نہ ہو۔)‘‘
اہل ِسنت کے نزدیک اَمیر کی نافرمانی دراصل رسول اکرمﷺ کی حکم عدولی ہے، ارشادِ نبویﷺ ہے:
’’ مَنْ یُطِعِ الْأَمِیرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ یَعْصِ الْأَمِیرَ فَقَدْ عَصَانِي ‘‘ [صحیح البخاري: ۲۹۵۷]
’’جس نے اَمیر کی اطاعت کی اس نے درحقیقت میری فرمانبرداری کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے حقیقتاً میری نافرمانی کی۔‘‘
اہل سنت والجماعت سمجھتے ہیں کہ حکام کی اقتدا میں نماز اور ان کی معیت میں جہاد کرنا چاہئے اور ان کیلئے نیکی واستقامت کی دُعا نیز ان کی خیر خواہی کرنی چاہئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اصل پنجم

اہل سنت والجماعت کے اُصولوں میں یہ بھی ہے کہ حکمرانوں کے کسی ایسے اقدام پر، جو کفر نہ ہوں ان کے خلاف بغاوت جائز نہیں، کیونکہ رسول کریمﷺ نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے جب تک وہ معصیت کا حکم نہ دیں اور ان سے کفر بواح یعنی کھلا اور واضح کفر سر زَد نہ ہو۔ اس کے بالمقابل معتزلہ کے نزدیک اگر حکمران کسی کبیرہ گناہ کا اِرتکاب کرلیں خواہ وہ کفر نہ ہو، تو ان کے خلاف خروج لازمی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اَمربالمعروف و نہی عن المنکرمیں شامل ہے۔ لیکن اَمر واقعہ یہ ہے کہ معتزلہ کا یہ عمل خود سب سے بڑا منکر ہے، کیونکہ اس میں انتشار و بد نظمی، اختلاف و افتراق اور دشمنوں کی جارحیت جیسے شدید قسم کے خطرات مضمر ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اصل ششم

اُصولِ اہل سنت والجماعت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اصحابِ رسولﷺ کے بارے میں اپنے دل و زبان کو کسی بھی قسم کی بے اَدبی و گستاخی سے پاک رکھا جائے، جیساکہ اللہ رب العزت نے مہاجرین و انصار کا ذکر کرتے ہوئے ان کا یہ وصف بیان فرمایا ہے اور ان کی تعریف کی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ وَالَّذِیْنَ جَائُ وْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالِاْیَمانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا إِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ‘‘ [الحشر: ۱۰]
’’اور جو لوگ ان کے بعد میں آئیں گے، کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیںبخش دے اور ہمارے اُن بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کے بارے میں ہمارے دل میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال۔ اے ہمارے رب! بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘
نیز رسول اللہﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادِ گرامی کا عملی تقاضا بھی یہی ہے۔ فرمایا:
’’ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیفَہٗ ‘‘ [صحیح البخاري: ۳۶۷۳]
’’میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ ثواب میں ان کے (خرچ کئے گئے) ایک مد بلکہ آدھے مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
اس کے برخلاف بدعتی گروہ رافضہ اور خوارج وغیرہ صحابہ کرام رض کو بُرا بھلا کہتے اور ان کے فضائل و مناقب کا انکار کرتے ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک رسولِ اکرمﷺ کے بعد پہلے خلیفہ سیدنا صدیق اکبر﷜ تھے، پھر سیدنا فاروقِ اعظم﷜، پھر سیدنا عثمان غنی﷜ اور پھر سیدنا علی المرتضیٰ﷜ تھے۔ جو شخص ان میں سے کسی ایک کی خلافت میں طعن کرتا ہے وہ یقینا سبیل المومنین سے ہٹا ہوا ہے، کیونکہ وہ مذکورہ ترتیب کے مطابق ان حضرات کی خلافت کے سلسلے میں نص اور اجماع کی مخالفت کا مرتکب ہوا ہے۔
 
Top