• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول حدیث کی تدوین

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
اصول حدیث کی تدوین
استاذ شیخ محمدعبدالرزاق حمزہ

حدیث کی روایت پے کام کرنے والے کے لئے اصول ِحدیث اور اصطلاحات حدیث کا علم ہونا بے حد ضروری ہے۔کیونکہ طالب حدیث اصول حدیث ہی کے ذریعے صحیح وضعیف میں تمیز کرنے کے قابل ہوتاہے او راسے یہ علم حاصل ہوتاہے کہ کس حدیث کو اس نے لیناہے اور کس کو چھوڑ دیناہے۔اصول حدیث کا علم روایت کے لئے بالکل اسی طرح ہے جس طرح سے عربی جملوں کی ترکیبوں کی صحت جاننے کے لئے نحو کا علم ہے اسلئے اگر یہ کہاجائے کہ یہ روایات کی زبان او ران کی صحت وضعف جاننے کا ترازو ہے توکچھ غلط نہ ہوگا۔
اس کی تدوین کے وقت سے لے کرآج تک علماء حدیث نے اس فن پے ایک سے ایک بہترین تصنیفات لکھی ہیں۔مثال کے طورپر امام شافعی کی کتاب الرسالہ کے بعض مباحث لے لیجئے اسیطرح سے ان ہی کی فقہی کتاب کتاب الام میں بھی بعض جگہوں پر نظرڈالئے۔ نیزدیکھئے امام مسلم کی صحیح مسلم کامقدمہ اور امام ابوداؤد سجستانی کا اہل مکہ کی طرف خط جس میں انہوں نے اپنی کتاب السنن کے بیان کاطریقہ ذکرکیاہے ۔ اس کے علاوہ امام ابوحافظ عیسی ترمذی کی کتاب ''العلل المفرد'' اور انہیں کی کتاب الجامع الصحیح کا آخری حصہ نیز اپنی کتاب میں مختلف احادیث پے جو کلام کیاہے کہیں تصحیح کہیں تضعیف کہیں حدیث کو قوی کہتے ہیں اور کہیں اس کی تعلیل کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ اگرپھر بھی آپ کے دل میں کوئی خلش باقی رہ جائے تو امام بخاری کی تین کتابیں تاریخ پے دیکھ جائیں۔نیز ان کے ہم عصر اور ان کے بعد کے علماء وجرح وتعدیل کی اس موضوع پے بے شمارتصنیفات ہیں جو آپ کو ان کے کلام میں ملیں گی۔یہاں تک کہ وہ دور آیا جب علماء نے ان تمام قواعد وضوابط کو یکجاکرکے ان کتب وتصنیفات میں اکھٹاکردیاجیسے کہ امام حافظ ابن حجرعسقلانی نخبۃ الفکر کی شرح کے مقدمے میں فرماتے ہیں:''اس علم میں سب سے پہلے جس نے تصنیف کی وہ ابومحمد رامہرمزی (حسن بن عبدالرحمن جو ٣٦٠؁ھ تک زندہ رہے )(١)جنہوں نے کتاب المحدث الفاصل تحریر کی لیکن اس میں وہ تمام مباحث نہ سمیٹ پائے ۔اس کے بعدحاکم ابوعبداللہ نیساپوری (محمد بن عبداللہ بن البیع صاحبِ مستدرک علی الصحیحین، اکلیل، المدخل، تاریخ نیساپور، آپ نے٤٠٥؁ھ میں وفات پائی)نے بھی اس فن پے ایک کتاب تصنیف کی لیکن اس میں ترتیب وتہذیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ا سکے بعد آئے ابونعیم اصفہانی (احمد بن عبداللہ الصوفی صاحب حلیۃ الاولیائ، مستخرج علی البخاری وغیرہ آپ نے ٤٣٠؁ھ میں وفات پائی) انہوں نے ان کی کتاب پے ایک مستخرج لکھی لیکن بعد میں آنے والوں کے لئے بھی گنجائش چھوڑ گئے۔
اس کے بعدخطیب ابوبکربغدادی (احمد بن علی بن ثابت ،صاحب تاریخ بغداد وغیرہ آپ نے ٤٦٣؁ھ میں وفات پائی)تشریف لائے اورروایت کے قوانین وضوابط پے ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام انہوں نے ''الکفایۃ'' رکھا۔ اسی طرح سے ایک کتاب انہوں نے آدابِ روایت پے ''الجامع لآداب الشیخ والسامع'' کے نام سے بھی تحریرکی۔ فنون حدیث میں سے شائد ہی کوئی ایسا فن ہو جس میں آپ نے کوئی نہ کوئی کتاب نہ لکھی ہو۔آپ کے بار ے میں حافظ ابوبکر ابن نقطۃ(محمد بن عبدالغنی البغدادی الحنبلی، آپ نے ٦٢٩؁ھ میں وفات پائی) فرماتے ہیں:جو شخص بھی بنظرانصاف دیکھے گااسے یہ علم ہوجائے گاکہ خطیب بغدادی کے بعد تمام محدثین کی کتب کے محتاج ہیں۔
پھراس کے بعد کچھ او رعلماء آئے جنہوں نے اس علم کو حاصل کیا چنانچہ قاضی عیاض (بن موسی الیحصبی الاندلسی، آپ نے ٥٤٤؁ھ میں وفات پائی) نے کتاب تصنیف کی جس کو آپ نے ''الالماع'' سے موسوم کیا نیز ابوحفص المیانجی نے بھی ایک مختصر رسالہ''ما لا یسع المحدث جہلہ'' کے نام سے لکھا۔
یہاں تک کے حافظ فقیہ تقی الدین ابوعمروعثمان بن الصلاح عبدالرحمن الشہرزوری آئے(آپ نے ٦٤٣؁ھ میں وفات پائی) ، آپ نے دمشق کو اپنا مسکن بنایا اور جب مدرسہ اشرفیہ میں استاذ حدیث مقرر ہوئے تو ایک کتاب ''علوم الحدیث'' کے نام سے تصنیف کی جو بعد میں ''مقدمہ ابن الصلاح'' کے نام سے مشہورہوئی۔ آپ نے اس کتاب میں علوم ِ حدیث کے فنون کی تہذیب کی او رتھوڑی تھوڑی املاء کروائی ۔یہی وجہ ہے کہ کتاب کی ترتیب مناسب طریقے سے نہیں ہوپائی۔آپ نے خطیب بغدادی کی متفرق تصانیف کا خاص اہتمام کیا او ران کے مختلف مقاصد جمع کرکے اس کتاب میں ذکر کئے ساتھ میں آپ نے دوسری کتب سے بھی فوائد اکھٹے کرکے انہیں ا س کتاب میں ضم کردیاچنانچہ اس کتا ب میں وہ سارے فوائد اکھٹے ہوگئے جو دوسری کتب میں ادہر ادہربکھرے ہوئے تھے۔ اس کتا ب کے آنے کے بعد لوگوں نے اپنا قبلہ اس کتاب کی طرف کرلیا او ر پھر مڑ کے دوسری طرف نہ دیکھا۔ کسی نے اس کی نظم لکھی،کسی نے اس کاخلاصہ ترتیب دیا،کسی نے اس پے استدراکات کئے اور کسی نے اسی پے ہی بس کیا۔کسی نے مخالفت کی تو کسی نے اس کتاب کا دفاع بھی کیا''۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ختم ہوا۔
حافظ ابن حجر کی گواہی سے آپ کو معلوم ہواکہ ابن الصلاح رحمہ اللہ کی کتاب پچھلی لکھی جانے والی تمام کتب کی جامع تھی ۔اس کتا ب میں آپ نے خطیب بغدادی سے لے کے ان سے پہلے اور بعد کے آنے والے علماؤں کے فنون حدیث کو یکجاکردیا۔نیز علماء نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا او راس کی نظمیں،شروحات او رخلاصے لکھے۔اس کی نظم لکھنے والوں میں سے ایک عالم حافظ زین الدین عبدالرحیم بن حسین عراقی ہیں جنہوں نے ٨٠٦؁ھ میں وفات پائی آپ نے اپنی کتاب ''الفیۃالعراقی'' میں ابن الصلاح کی کتاب کی نظم لکھی او رپھر اس کے بعد اس کی شرح بھی کی۔ان کے بعد اما م سخاوی نے بھی اس نظم کی شرح لکھی۔
نیزمذکورحافظ عراقی کی ایک شرح مقدمہ ابن الصلاح پے بھی ہے(١)جن علماؤں نے اس کا اختصار کیاہے ان میں سے ایک امام نووی ہیں جو ''مجموع''، ''الروضۃ'' ،''شرح صحیح مسلم'' جیسی مفید مؤلفات کے مصنف ہیں۔آپ نے اپنے اختصار کا نام ''تقریب'' رکھا جس کی شرح امام سیوطی نے اپنی کتاب ''تدریب الراوی '' میں فرمائی۔
اس کے بعدامام فقیہ حافظ ابن کثیر آئے جنہوں نے ایک مختصر سے رسالے میں اس کتاب کا لب لباب جمع کیا او راسے''الباعث الحثیث علی معرفۃ علوم الحدیث '' کا نام دیا۔کتا ب کی عبارت آسان اور فصیح ہے، اس کے جملے عام فہم ہیں۔کتاب میں آپ نے کئی مقام پے ابن الصلاح پے استدراک کیاہے جس آپ ( میں کہتاہوں) سے شروع کرتے ہیں۔ اس سے طالب علم کا اس فن کوایک متوسط رسالے میں سمجھنااو رپڑھناآسان ہوجاتاہے۔آپ نے نہ تو اس کا بالکل ہی کٹا ہوا اختصار لکھا جس سے طالب علم کتاب کے تمام فوائد سے ہی محروم ہوجائے او رنہ اسے اتنامطول کیاکہ طالب علم کا ذہن کتاب کے مباحث میں قلابازیاں کھانے لگے چنانچہ یہ کتاب طالب حدیثس کے لئے ابتدائی مرحلے میں مقرر ہوئی جسے پڑھ کے وہ آگے اس فن کے اساطین کی کتابیں سمجھ سکے یہاں تک کہ تحقیق کا ملکہ اسے حاصل ہوجائے اور دوسرے محقیقین کے ساتھ مل کے وہ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرسکے۔
(الباعث الحثیث شرح اختصار علوم الحدیث مترجم مکتبہ سلفیہ شایع کر رہا ہے )
 
Top