• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اعادہ روح اور منکرین حدیث

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اعادہ روح اور منکرین حدیث

محمد رفیق طاھر​
بعض منکرین حدیث مرنے کے بعد روح کے اسی جسم میں لوٹنے کا انکار کرتے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں کہ یہ عقیدہ رکھنا قرآن کے بر خلاف ہے ۔ اور اسکی دلیل کےطور پر وہ یہ قرآنی آیت پیش کرتے ہیں :​
وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (المؤمنون:۱۰۰)
اور انکے پیچھے ایک آڑ ہے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے ۔
اور یہ آیت پیش کرکے کہتے ہیں کہ چونکہ روح وبدن کے مابین قیامت تک آڑ ہے لہذا قیامت سے قبل روح بدن میں داخل نہیں ہوسکتی ۔ اور اس ضمن میں وہ سنن ابی داود کی حدیث۴۷۵۳ جو کہ مسند احمد ۱۸۵۳۴ میں مفصلا ذکر ہوئی ہے , اسکا انکار کرتے ہیں کیونکہ اس میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ مرنے والے کی روح اسکے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آسمانوں میں کوئی قبر یا برزخ ہے جہاں روحوں کو نئے بدن دے کر انہیں ثواب یا عذاب دیا جاتا ہے ۔​
لیکن اللہ تعالى نے کتاب عزیز قرآن مجید فرقان حمید کی یہ خوبی رکھی ہے کہ کوئی بھی باطل پرست اسکی آیات بینات سے اپنا باطل نظریہ ثابت نہیں سکتا۔ اور یہی معاملہ یہاں ہے ۔ اک ذرا غور کرنے سے معاملہ صاف ہو جاتا ہے کہ یہ آیات انکے موقف کے خلاف ہیں , انکے حق میں نہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں :​
اللہ کا فرمان ہے : حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)
حتى کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دو ۔ تاکہ میں جو چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں, ہرگز نہیں یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہنے والا ہے , اور انکے پیچھے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے , ایک پردہ ہے ۔
ان آیات بینات پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالى فرما رہے ہیں "جب ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے" تو جسے موت آرہی ہے وہ مرنے سے قبل "روح وجسد کا مجموعہ ہے" نہ کہ صرف بدن یا صرف روح !۔ اور پھر فرمایا کہ "وہ کہتا ہے" اب اختلاف یہاں ہے کہ کہنے والا کون ہے؟ روح کہہ رہی ہے یا روح وجسد کا مجموعہ ؟! ادنی تأمل سے بھی یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ یہاں "قال" کا مرجع ہے "أحدھم" اور وہ بالاتفاق روح وبدن کا مجموعہ ہے نہ کہ صرف روح ۔ کیونکہ زندہ انسان روح وجسم کا مرکب ہوتا ہے ۔ تو اس کا صاف معنى بنتا ہے کہ مرنے کے بعد وہی روح وجسد کا مجموعہ جسے موت آئی تھی اللہ سے درخواست کرتا ہے کہ مجھے لوٹا دیجئے ۔ تو جب مرنے کے بعد کہنے والا بھی روح وجسد کا وہی مجموعہ ہے جسے موت آئی تھی تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح اسکے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے تبھی تو وہ روح وجسد کا مجموعہ اللہ کے حضور عرض گداز ہوتا ہے ۔ کیونکہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا "قال روحہ ربی ارجعون" بلکہ فرمایا ہے "قال رب ارجعون"...اور روح کو بدن سے جدا کرنے کی یہاں کوئی دلیل موجودنہیں ہے ۔ کیونکہ قال کا مرجع ہی روح وجسد کا مجموعہ ہے ۔ فتدبر !​
پھر فرمایا : وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ تو یہاں بھی ورائہم کا مرجع وہی احدھم ہی ہے ۔ جسکا معنى صاف ظاہر ہے کہ روح وجسد کے مجموعہ اور فیما ترکت کے مابین ایک آڑ ہے, نہ کہ روح وجسد کے درمیان ۔ کیونکہ اللہ تعالى نے ومن وراء أرواحھم یا ومن وراء اجسادہم یا ومن بین ارواحھم واجسادھم نہیں فرمایا ۔ اور یہی بات حدیث نبوی میں ذکر ہوئی ہے " فتعاد روحہ فی جسدہ ".....خوب سمجھ لیں۔​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا ارسلان بھائی۔
جہاں آپ نے مجلہ اھل الحدیث لکھا ہے اگر اس کے ساتھ لنک جوڑ دیں تو کیسا رہے گا؟
جزاک اللہ خیرا
شاہد بھائی! لنک لگا دیا ہے، چیک کریں
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
اعادہ روح اور منکرین حدیث
یہ عنوان اچھا نہیں لگا
قیامت سے پہلے اسی جسم عنصری میں اعادہ روح کا انکار دلائل کی روشنی میں کیا جاتا ہے ۔ اسے انکار حدیث سے تعبیر کرنا مناسب نہیں ہے
اگر کل کوئی عدم اعادہ پر قرآنی دلائل پیش کر کے کہے اعادہ روح کے قائل منکر قرآن ہیں کیا یہ درست ہوگا ؟
ان احادیث کے بارے میں کیا کہیں گے اعادہ کے قائلین
حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھے ک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا

حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرض کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 388

پہلی حدیث میں بلکل واضع ہے کہ روح جنت میں ہے اور قیامت میں اس جسم میں واپس آئیگی اور دوسری حدیث شھدا کی ارواح کا جنت میں ہونا اور اپنے جسم میں واپسی کا مطالبہ کرنا بتا رہا ہے کہ روح اس عنصری جسم میں نہیں ہوتی
اگر ان احادیث کی روشنی میں کوئی یہ کہے کہ اعادہ کے قائلین منکر حدیث ہیں کیا یہ درست ہوگا؟؟؟
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
محمد ارسلان صاحب۔
کاش کہ آپ قرآن مجید کی آیات پر غور فکر کرنے والے ہوتے لیکن آپ صرف ایک عالم کی کہی ہوئی بات کر رہے ہیں۔

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)
حتى کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دو ۔ تاکہ میں جو چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں, ہرگز نہیں یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہنے والا ہے , اور انکے پیچھے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے , ایک پردہ ہے ۔​
پوائنٹ نمبر 1۔۔۔۔موت آتی ہے۔۔۔یہ نہیں کہا گیا کہ موت کا وقت آتا ہے۔موت آچکی ہے اب وہ کہہ رہا ہے مجھے لوٹا دو۔
پوائنٹ نمبر 2۔۔۔۔وہ کہہ رہا ہے اے رب مجھے لوٹا دو۔۔۔۔۔۔اگر آپ کے عقیدہ کو دیکھا جائے تو آپ کہہ رہے ہیں کہ ابھی موت نہیں آئی اور روح کوجسم سے نہیں نکالا گیا تو بھائی۔۔یہ روح۔۔۔اللہ تعالیٰ سے کیا التجائ کر رہی ہے کہ لوٹا دو۔۔۔۔کس کو لوٹا دو اگر موت نہیں آئی اگر روح جسم میں ہے تو کس چیز کو لوٹانےکی بات ہو رہی؟؟؟جواب دیں مہربانی فرما کر۔
پوائنٹ نمبر 3۔۔۔۔تاکہ میں جو چھوڑ آیا ہوں۔۔۔۔کس کو چھوڑ آیا ہے۔۔۔۔اگر آپ کے عقیدہ کو دیکھا جائے آپ کہہ رہے ابھی موت نہیں آئی اور روح بھی جسم میں ہے تو بھائی وہ واضح ہے کہ ’’جو چھوڑ آیا ہوں‘‘ سے کیا مراد ہے جواب دیں۔ ۔۔۔۔۔۔
اگر میرا جواب چاہئے تو وہ اس دنیا کہ کہہ رہا ہے کہ جو میں(دنیا )چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کر لوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غور فکر کیا کریں پہلے سوچ لیا کریں۔۔۔۔۔۔۔

ہر روح کو نکالنے کے بعد عرش پر رکھا جاتا ہے اور وہ قیامت کے دن سے پہلے نہیں آ سکتی یہ قانون تمام خاص و عام کے لئے ہے ۔۔۔پیغمبروں کے لئے بھی یہی ہے۔۔۔۔شکریہ۔۔۔۔۔
اگر یہ سب مرنے سے قبل ہے تو بھائی ۔۔۔۔وہ یہ کیوں کہہ رہا ہے مجھے لوٹا دو۔۔۔۔۔اور یہ کہہ رہا ہے جو میں چھوڑ آیا ہوں۔۔۔۔
آپ کے عقیدہ کے مطابق اس کو یہ الفاظ نہیں کہنے چاہئے تھے ۔۔۔بات کو سمجھیں واضح آیات کا انکار مت کریں اور دلائل کو سن کر اس پر ایمان لائیں۔۔۔شکریہ۔





[FONT=KFGQPC Uthman Taha Naskh, Trad Arabic Bold Unicode, Tahoma]ھ[/FONT]
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
اعادہ روح اور منکرین حدیث
یہ عنوان اچھا نہیں لگا
قیامت سے پہلے اسی جسم عنصری میں اعادہ روح کا انکار دلائل کی روشنی میں کیا جاتا ہے ۔ اسے انکار حدیث سے تعبیر کرنا مناسب نہیں ہے
اگر کل کوئی عدم اعادہ پر قرآنی دلائل پیش کر کے کہے اعادہ روح کے قائل منکر قرآن ہیں کیا یہ درست ہوگا ؟
ان احادیث کے بارے میں کیا کہیں گے اعادہ کے قائلین
حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھے ک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا

حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرض کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 388
پہلی حدیث میں بلکل واضع ہے کہ روح جنت میں ہے اور قیامت میں اس جسم میں واپس آئیگی اور دوسری حدیث شھدا کی ارواح کا جنت میں ہونا اور اپنے جسم میں واپسی کا مطالبہ کرنا بتا رہا ہے کہ روح اس عنصری جسم میں نہیں ہوتی
اگر ان احادیث کی روشنی میں کوئی یہ کہے کہ اعادہ کے قائلین منکر حدیث ہیں کیا یہ درست ہوگا؟؟؟
@محمد عامر یونس بھائی کیا @علی معاویہ بھائی بھائی نے صحیح کہا ہے -
 
Top