• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اقامت کا جواب دینے کا حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
اقامت کا جواب دینے کا حکم
مقبول احمد سلفی

اقامت کا جواب دینے کے سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ،صحیح بات یہ ہے کہ اقامت کا جواب دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی صحابہ کرام سے اقامت کا جواب دینا ہی ثابت ہے ۔ اگر اقامت کا جواب دینا مسنون ہوتا تو نبی ﷺ اور صحابہ کرام سے ضرور اس کا جواب دینا منقول ہوتامگر ایسا نہیں ہےاور اسی طرح اذان کے بعد درود پڑھنااور دعا کرناثابت ہے جبکہ اقامت کے متعلق ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اقامت کا جواب نہیں دینا چاہئے ۔ اقامت تو اذان کی آواز سن کر مسجد میں حاض ہوئے نمازیوں کو نماز کے لئے تیار کرنے کی غرض سے ہے ،یہاں بجائے اس کے کہ اقامت کا جواب دیا جائے خاموشی بہتر ہے اور اقامت ختم ہوتے ہوئے امام کو صفیں درست کرنا چاہئے اور نماز کھڑی کردینی چاہئے اس میں اقامت کے بعد دعا کرنے کا وقت بھی نہیں موجود ہےاور نہ ہی اقامت کے بعد تکبیرتحریمہ سے پہلے کوئی دعا پڑھنا ثابت ہے ۔ اقامت کے فورا بعد نبی ﷺ صفیں درست کرتے اور نماز کھڑی کردیتے تھے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أقيمتْ الصلاةُ ، فأقْبَلَ علينَا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بوجهِهِ ، فقالَ : أقِيمُوا صفُوفَكُم وتَرَاصُّوا ، فإنِّي أرَاكُم من ورَاءِ ظَهْرِي .(صحيح البخاري:719)
ترجمہ:نماز کے لئے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا چہرہ ہماری طرف کیا اور فرمایاکہ اپنی صفیں برابر کرلو اور مل کر کھڑے ہوجاؤ ،میں تم کو اپنی پیٹھ پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۔
یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ اقامت کا جواب نہیں دینا ہے ۔ اس کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يسوي صفوفَنا . حتى كأنما يسوي بها القداحَ . حتى رأى أنا قد عقلنا عنه . ثم خرج يومًا فقام حتى كاد يكبِّر . فرأى رجلًا باديًا صدرُه من الصفِّ . فقال عبادِ اللهِ ! لتسوُّن صفوفَكم أو ليخالفنَّ اللهُ بين وجوهِكم .(صحيح مسلم:436)
ترجمہ: رسول اللہﷺ ہماری صفوں کو (اس قدر ) سیدھا اور برابر کراتے تھے، گویا آپ ان کے ذریعے سے تیروں کو سیدھا کر رہے ہیں، حتیٰ کہ جب آپ کو یقین ہو گیا کہ ہم نے آپ سے (اس بات کو) اچھی طرح سمجھ لیا ہے تو اس کے بعد ایک دن آپ گھر سے نکل کر تشریف لائے اور (نماز پڑھانے کی جگہ ) کھڑے ہو گئے اور قریب تھا کہ آپ تکبیر کہیں (اور نماز شروع فرما دیں کہ) آپ نے ایک آدمی کو دیکھا، اس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا، آپ نے فرمایا:اللہ کے بندو! تم لازمی طور پر اپنی صفوں کو سیدھا کرو ورنہ اللہ تمہارے رخ ایک دوسرے کے خلاف مور دے گا۔

ان احادیث کا جواب جن سے اقامت کا جواب دینے کی دلیل پکڑی جاتی ہے :
جو لوگ اقامت کو اذان پر قیاس کرتے ہیں اور اذان کی طرح اقامت کا جواب دینا مسنون کہتے ہیں وہ چند احادیث سے دلیل پکڑتے ہیں ان احادیث کا یہاں جواب دے رہاہوں ۔
پہلی دلیل : اس سلسلے میں سب سے قوی دلیل وہ روایت ہے جس میں اذان واقامت کو اذانین کہاگیا ہے ۔ بخاری شریف میں ہے :
بين كلِّ أذانين صلاةٌ، بين كلِّ أذانينِ صلاةٌ . ثم قال في الثالثةِ : لمن شاءَ (صحيح البخاري:627)
ترجمہ: ہر دو اذانوں ( اذان و اقامت) کے بیچ میں نماز ہے۔ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے۔
جواب : یہاں اقامت کو اذان عربی کے مشہور قاعدے تغلیب کے تحت کہا گیا ہے جیسے ماں باپ کے لئے ابوین ، سورج وچاند کے لئے قمرین، پانی وکھجور کے لئے اسودان(دوکالے)اوربوبکروعمرکے لئے عمران کبھی کبھی بول دیاجاتا ہے ۔ تو اذان الگ چیز ہے اور اقامت الگ چیز یعنی اقامت کو اذان کے زمرے میں نہیں رکھاجائے گا۔

دوسری دلیل : ایک دوسری دلیل بخاری کی یہ روایت ہےجس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ نداء کا لفظ عام ہے جو اذان واقامت دونوں پر اطلاق ہوگا ۔
إذا سمعتُمُ النداءَ ، فقولوا مثلَ ما يقولُ المؤذنُ .(صحيح البخاري:611)
ترجمہ: جب تم ندا(اذان) سنو تو جس طرح مؤذن کہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو۔
جواب : یہاں نداء سے مرادصرف اذان ہے نہ کہ اذان واقامت جیساکہ آگے والا لفظ مؤذن اس بات کا ثبوت ہے ۔ بخاری شریف کی ایک دوسری روایت سےبھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔

من قال حين يسمعُ النداءَ : اللهمَّ ربَّ هذه الدعوةِ التامةِ ، والصلاةِ القائمةِ ، آتِ محمدًا الوسيلةَ والفضيلةَ ، وابعثْه مقامًا محمودًا الذي وعدته ، حلَّت له شفاعتي يومَ القيامةِ(صحيح البخاري:4719)
ترجمہ: جو شخص ندا(اذان) سننے کے بعد یہ دعا پڑھے:اللهم رب هذه الدعوة التامة، والصلاة القائمة، آت محمدًا الوسيلة والفضيلة، وابعثه مقامًا محمودًا الذي وعدته(اے اللہ! يہ دعوت تامہ اور قائم شدہ نماز ہے، تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما، اور انہیں مقام محمود پر فائز فرما، جس کا تونے ان سے وعدہ فرمایا ہے) تو قیامت کے دن اس کے لئے میری شفاعت حلال ہو جائے گی۔
اس حدیث میں ندا ء کا لفظ وارد ہے جس سے اذان مراد ہے کیونکہ اس میں مذکور دعا اذان کے بعد کی دعا ہے ۔
جہاں تک اقامت کہنے کا مستحق کون ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مؤذن اور امام ومصلی میں سے کوئی بھی اقامت کہہ سکتا ہے ۔ اور وہ حدیث ضعیف ہے جس میں ذکرہے کہ جو اذان دے وہی اقامت کہے ۔

تیسری دلیل : ایک خاص قسم کی روایت ہے جس میں اقامت کے الفاظ قدقامت الصلاۃ کا جواب دینا وارد ہے ، وہ اس طرح سے ہے ۔
أنَّ بلالًا أخذ في الإقامةِ فلما أن قال قد قامتِ الصلاةُ قال النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أقامَها اللهُ وأدامَها( ضعيف أبي داود:528)
ترجمہ: بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت شروع کی، جب انہوں نے «قد قامت الصلاة» کہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أقامها الله وأدامها» اللہ اسے قائم رکھے اور اس کو دوام عطا فرمائے۔
جواب : یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں محمد بن ثابت اور شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں اور اس میں ایک مجہول راوی بھی ہے ۔لہذا اس روایت سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دلائل کی روشنی میں اقامت کا جواب دینا مسنون نہیں ہے یہی راحج مسلک ہے ۔ شیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے اقامت کے جواب کے بارے میں سوال کیاگیا تو شیخ نے جواب دیا کہ اقامت کا جواب دینے کے متعلق حدیث آئی ہے ابوداؤد نے جس کی تخریج کی ہے مگر وہ ضعیف ہے اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی ۔راحج یہی ہے کہ اقامت کا جواب نہیں دیا جائے گا۔ (مجموع فتاوى الشيخ العثيمين 12 / السؤال رقم 129 ) .
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
جو لوگ اقامت کو اذان پر قیاس کرتے ہیں اور اذان کی طرح اقامت کا جواب دینا مسنون کہتے ہیں
مسنون ہونے کا دعوی کس کا ہے؟؟
اولا.... تو ایسا دعوی میرے علم نہیں
ثانیا.... اگر یہ دعوی ہو بھی تب بھی یہ ایک مغالطہ ہے.
اقامت کا جواب دینے کے متعلق بحث افضل اور غیر افضل کی بحث ہے،
مسنون، غیر مسنون کی بحث نہیں ہے
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے
اس پر میں نے اپنے شیخ مولانا جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ سے بات کی تھی ان کا بھی مؤقف یہ ہے کہ اقامت کا جواب دینا چاہئے.
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
هل يستحب الترديد خلف المؤذن إذا أقام الصلاة ، ثم أصلي على النبي صلى الله عليه وسلم وأدعو بالدعاء الوارد بعد الأذان : اللهم رب هذه الدعوة التامة .......؟
نص الجواب
ذهب جمهور العلماء إلى أن الإقامة تأخذ حكم الأذان في استحباب الترديد خلف المقيم ، ثم الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم ، ثم الدعاء : اللهم رب هذه الدعوة التامة ........إلخ.
وهو قول الشافعية والحنابلة ، وجمهور الحنفية ، وقال به من العلماء المعاصرين : علماء اللجنة الدائمة للإفتاء ، والشيخ عبد العزيز بن باز ، والشيخ الألباني رحمهم الله .
جاء في "الموسوعة الفقهية" (18/250) :
"وكذلك بالنّسبة للمقيم فقد صرّح الحنفيّة والشّافعيّة والحنابلة أن يستحبّ أن يقول في الإقامة: مثل ما يقول في الأذان" انتهى .
وجاء في "الدر المختار" (1 /431) (حنفي) :
"ويجيب الإقامة ندباً ، إجماعاً كالأذان ، ويقول عند : " قد قامت الصلاة " : أقامها الله وأدامها ، وقيل : لا يجيبها ، وبه جزم الشُّمُنِّي" انتهى .
قال الشيرازي الشافعي رحمه الله :
"ويستحب لمن سمع الإقامة أن يقول مثل ما يقول" انتهى .
وشرحه النووي رحمه الله بقوله :
واتفق أصحابنا علي استحباب متابعته في الإقامة كما قال المصنف ، إلا الوجه الشاذ الذي قدمناه عن " البسيط " .
" المجموع " ( 3 / 122 ، 123 ) .
وقال ابن قدامة رحمه الله (حنبلي) :
"ويستحب أن يقول في الإقامة مثل ما يقول" انتهى .
"المغني" (1/474) .
وقال علماء اللجنة الدائمة للإفتاء :
"السنَّة أن المستمع للإقامة يقول كما يقول المقيم ؛ لأنها أذان ثان ، فتجاب كما يجاب الأذان ، ويقول المستمع عند قول المقيم : " حي على الصلاة ، حي على الفلاح " : لا حول ولا قوة إلا بالله ، ويقول عند قوله : " قد قامت الصلاة " مثل قوله ، ولا يقول : " أقامها الله وأدامها " ؛ لأن الحديث في ذلك ضعيف ، وقد صح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال : ( إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ) ، وهذا يعم الأذان والإقامة ؛ لأن كلا منهما يسمى أذاناً . ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم بعد قول المقيم " لا إله إلا الله " ويقول : اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة... إلخ كما يقول بعد الأذان ، ولا نعلم دليلا يصح يدل على استحباب ذكر شيء من الأدعية بين انتهاء الإقامة وقبل تكبيرة الإحرام سوى ما ذكر" انتهى .
الشيخ عبد العزيز بن باز ، الشيخ عبد الرزاق عفيفي ، الشيخ عبد الله بن قعود .
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 6 / 89 ، 90 ) .
وذهب بعض الأحناف إلى أن الترديد خلف المؤذن ثم الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم والدعاء ، خاص بالأذان ، ولا يستحب ذلك في الإقامة ، واختاره من المعاصرين : الشيخ محمد بن عثيمين رحمه الله .
واستدل جمهور العلماء على الترديد خلف المقيم بقوله صلى الله عليه وسلم : (بين كل أذانين صلاة) متفق عليه . والمراد بذلك : الأذان والإقامة . قالوا : فإذا سميت الإقامة أذاناً ، دخلت في قوله صلى الله عليه وسلم: (إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول) ، فيشملها ما يشمل الأذان ، من الترديد خلفه، ومن الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم ، ومن الدعاء بعده .
لكن .. قد يقال : إن الإقامة سميت أذاناً على سبيل التغليب ، كما قيل " الأسودان " للتمر والماء ، و " القمران " للشمس والقمر ، و " العُمَران " لأبي بكر وعمر رضي الله عنهما ، وهذا التغليب يكون إذا جمع اللفظان في لفظ واحد ، فإذا جُمع الشمس والقمر في لفظ واحد قلنا: القمران ، لكن إذا قيل : القمر . لم يطلق على الشمس . فهكذا "الأذانان" يطلق على الأذان والإقامة ، أما "الأذان" فقط فلا يطلق على الإقامة .
واستدلوا أيضاً بحديث رواه أبو داود (528) أن النبي صلى الله عليه وسلم قال مثل ما يقول بلال في الإقامة ، إلا قول "قد قامت الصلاة" قال : أقامها الله وأدامها .
إلا أنه حديث ضعيف ، ضعفه النووي والحافظ ابن حجر ، والألباني ، وغيرهم . وقد سبق بيان هذا في جواب السؤال رقم (111820) .
وبين الأذان والإقامة فروق كثيرة تمنع قياس الإقامة على الأذان ، وإعطائها حكم الأذان في كل شيء .
وقد سئل الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله عن المتابعة في الإقامة .
فأجاب :
"المتابعة في الإقامة فيها حديث أخرجه أبو داود ، لكنه ضعيف لا تقوم به الحجة ، والراجح : أنه لا يُتابع" انتهى .
" مجموع فتاوى الشيخ العثيمين " ( 12 / السؤال رقم 129 ) .
وسئل – أيضاً - : هل ورد الذكر بعد إقامة الصلاة كقوله : ( اللهم رب هذه الدعوة التامة ) ، أو قوله : ( أقامها الله وأدامها ) أم هل السكوت أفضل من ذلك ؟ .
فأجاب :
"جواب هذا السؤال ينبني على صحة الحديث الوارد في ذلك ، فمن صحح الحديث قال : إنه يجيب المقيم كما يجيب المؤذن ، ويدعو ، ويقول في الإقامة : " أقاماها الله وأدامها " ، ويدعو بعد انتهاء الإقامة بما يدعو به بعد انتهاء الأذان ؛ لكن الحديث ضعيف ، والقول الراجح : أنه لا يقول شيئاً ، ولا يتابع المقيم ، ولا يدعو بدعاء الأذان" انتهى .
" لقاءات الباب المفتوح " ( 219 / السؤال رقم 1 ) .
وعلى كل حال ؛ فالمسألة من مسائل الاجتهاد ، والأدلة فيها محتملة ، وكل إنسان يعمل بما وصل إليه علمه ، وإن كنا نختار أن الترديد خلف المؤذن خاص بالأذان فقط .
والله أعلم

https://www.google.com/url?sa=t&source=web&rct=j&url=https://islamqa.info/amp/ar/answers/111791&ved=2ahUKEwiU4Iubo7zmAhVFqaQKHdczBiYQFjABegQIBRAB&usg=AOvVaw2_TeJ45rdFGX43O2etvpR5&ampcf=1

یہ فتوی دیکھنے کے لئے یہ لنک کلک کریں
 
Top