• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاعتراف بالفضل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الاعتراف بالفضل

اعتراف"اعترف بالشیء " یعنی اس نے اقرار کیا کا مصدر ہے۔ اس کا اصل مادہ (ع ر ف) ہے جو کہ دو معانی پر دلالت کرتا ہے۔
اول: کسی چیز کا متصل یکے بعد دیگرے ہونا آنا وغیرہ اسی سے ہے "عَدفُ الفرَس" .
ثانی: سکون اور اطمینان اور اسی سے ہے" اعرفة ولاعرفان" جس طرح کہتے ہو "عرف فلانا عرفان ومعرفة " اس نے فلاں کو پہچانا ۔اور یہ امر معروف ہے کہ جو کسی کو پہچانتا ہے۔ تو اس سے اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اور جو کسی کو نہیں پہچانتا تو اس سے وحشت محسوس کرتا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے۔ اور اس طرح "اعترف بالشی" یعنی اقرار کیا گویا کہ اس نے اس کو پہچانا اور اقرار کیا۔
اور صحاح میں ہے "اعتراف بالذنب" یعنی گناہ کا اقرار کرنا اور اِعتَرَفتُ القوم" یعنی میں نے لوگوں سے کسی خبر کے متعلق پوچھا تاکہ میں اس کو جان سکوں.
اور کبھی کبھی اِعتَرَفَ عَرَفَ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور عَرَفَ اِعتَرَفَ کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً :عَرَفَ بذنبه عُرفاً وَاعتَرَفَ لاِعتِرَافاً یعنی اقرار کیا گناہ کا۔
اور اعتراف کا ضد اَلجُحُود اور "النُکران" یعنی انکار کرنا ہے۔ فرمان الٰہی ہے: يَعْرِ‌فُونَ نِعْمَتَ اللَّـهِ ثُمَّ يُنكِرُ‌ونَهَا وَأَكْثَرُ‌هُمُ الْكَافِرُ‌ونَ ﴿٨٣النحل
یعنی کفار نعمت کو پہچاننے کے بعد اس کا انکار کرتے ہیں ۔
اور "الفضل "احسان کو کہتے ہیں اور یہ نقص اور کمی اور عیب کا ضد ہے۔ کہا جا تا ہے "رَجُل مِفضَال وَامرَأ ۃ مِفضالة علی قومها " یعنی مرد جو د سخاء کرنے والا اور اپنی قوم پر جود و سخا کرنےوالی۔ اور افضل علیہ وتفضل کا معنی ہے اس نے فضل و احسان کیا اور المتفضل اس شخص کو کہتے ہیں جو خود کو اپنے ساتھیوں سے افضل سمجھے اور خود کی ان پر فضیلت کا دعوی کرے ۔اور فضَّلتُه علیٰ عَیرہٖ "یعنی میں نے اس پر دوسروں سے افضل ہونے کا حکم لگایا۔
اور فاضَلتُه فَفَضَلتُه یعنی میں نے اس کے ساتھ فضل و فضیلت اوراحسان اور جود و سخا میں مقابلہ کیا اور جیت گیا /اسے ہرا دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اعتراف بالفضل کا اصطلاحی معنیٰ:

اعتراف بالفضل کا اصطلاحی معنیٰ اس کے لغوی معنی سے مختلف نہیں ہے۔ یعنی وہ شخص جس پر احسان اور مہربانی ہوئی ہے ۔وہ احسان کرنے والے کا احسان مانے اور اس کا انکار نہ کرے اور نہ بھول جائے۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی دنیا و آخرت میں فضل و مہربانی کرنے والا نعمتیں اور مہربانیاں کرنےو الا ہے۔ اور آخرت میں اپنے نیک وصالح بندوں کو اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل کرے گا اور دارالمقامۃ یعنی ہمیشہ کے ٹھہرنے کی جگہ کا وارث بنائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آیات

﴿١﴾ وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَ‌ضْتُمْ لَهُنَّ فَرِ‌يضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَ‌ضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَ‌بُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿٢٣٧ البقرة
﴿١﴾اور اگر تم عورتوں كو اس سے پہلے طلاق دے دو كہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان كا مہر بھی مقرر كر دیا ہو تو مقررہ مہر كا آدھا مہر دے دو، یہ اور بات ہے كہ وہ خود معاف كر دیں یا وہ شخص معاف كر دے جس كے ہاتھ میں نكاح كی گرہ ہے، تمہارا معاف كردینا تقویٰ سے بہت نزدیك ہے اور آپس كی فضیلت اور بزرگی كو فراموش نہ كرو، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال كو دیكھ رہا ہے﴿237﴾

﴿٢﴾ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ‌ وَهُدًى وَرَ‌حْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾ قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ وَبِرَ‌حْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَ‌حُوا هُوَ خَيْرٌ‌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴿٥٨ يونس
﴿٢﴾اے لوگو تمہارے رب كی طرف سے ایك ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان كے لئے شفا ہے اور رہنمائی كرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں كے لئے﴿57﴾آپ كہہ دیجئے كہ بس لوگوں كو اللہ كے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیئے وہ اس سے بدر جہا بہتر ہے جس كو وہ جمع كر رہے ہیں﴿58﴾

﴿٣﴾ وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَ‌انِي أَعْصِرُ‌ خَمْرً‌ا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ‌ إِنِّي أَرَ‌انِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَ‌أْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ‌ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ۖ إِنَّا نَرَ‌اكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿٣٦﴾ قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْ‌زَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَ‌بِّي ۚ إِنِّي تَرَ‌كْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَهُم بِالْآخِرَ‌ةِ هُمْ كَافِرُ‌ونَ ﴿٣٧﴾ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِ‌كَ بِاللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٣٨ يوسف
﴿٣﴾اس كے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے ان میں سے ایك نے كہا میں نے خواب میں اپنے آپ كو شراب نچوڑتے دیكھا ہے ،اور دوسرے نے كہا میں نے اپنے آپ كو دیكھا ہے كہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے كھا رہے ہیں، ہمیں آپ اس كی تعبیر بتایئے، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دكھائی دیتے ہیں﴿36﴾یوسف نے كہا تمہیں جو كھانا دیا جاتا ہے اس كے تمہارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس كی تعبیر بتلادوں گا ۔یہ سب اس علم كی بدولت ہے جو مجھے میرے رب نے سكھایا ہے، میں نے ان لوگوں كا مذہب چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں ركھتے اور آخرت كے بھی منكر ہیں﴿37﴾میں اپنے باپ دادوں كے دین كا پابند ہوں، یعنی ابراہیم و اسحاق اور یعقوب كے دین كا، ہمیں ہر گز یہ سزاوار نہیں كہ ہم اللہ تعالیٰ كے ساتھ كسی كو بھی شریك كریں، ہم پر اور تمام اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ كا یہ فضل ہے، لیكن اكثر لوگ ناشكری كرتے ہیں﴿38﴾

﴿٤﴾ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْ‌تَدَّ إِلَيْكَ طَرْ‌فُكَ ۚ فَلَمَّا رَ‌آهُ مُسْتَقِرًّ‌ا عِندَهُ قَالَ هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَ‌بِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ‌ أَمْ أَكْفُرُ‌ ۖ وَمَن شَكَرَ‌ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ‌ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ‌ فَإِنَّ رَ‌بِّي غَنِيٌّ كَرِ‌يمٌ ﴿٤٠ النمل
﴿٤﴾جس كے پاس كتاب كا علم تھا وہ بول اٹھا كہ آپ پلك جھپكائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ كے پاس پہنچا سكتا ہوں ، جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب كا فضل ہے ،تاكہ وہ مجھے آزمائے كہ میں شكر گزاری كرتا ہوں یا نا شكری، شكر گزار اپنے ہی نفع كے لئے شكر گزاری كرتا ہے اور جو ناشكری كرے تو میرا پروردگار﴿بے پروا اور بزرگ﴾ غنی اور كریم ہے﴿40﴾

﴿٥﴾ ثُمَّ أَوْرَ‌ثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَ‌اتِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ‌ ﴿٣٢﴾ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ‌ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِ‌يرٌ‌ ﴿٣٣﴾ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۖ إِنَّ رَ‌بَّنَا لَغَفُورٌ‌ شَكُورٌ‌ ﴿٣٤﴾ الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ‌ الْمُقَامَةِ مِن فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ ﴿٣٥ فاطر
﴿٥﴾پھر ہم نے ان لوگوں كو ﴿ اس﴾ كتاب كا وارث بنایا جن كو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا۔ پھر بعضے تو ان میں اپنی جانوں پر ظلم كرنے والے ہیں اور بعضے ان میں متوسط درجے كے ہیں اور بعضے ان میں اللہ كی توفیق سے نیكیوں میں ترقی كیے چلے جاتے ہیں، یہ بڑا فضل ہے﴿32﴾وہ باغات میں ہمیشہ رہنے كے جن میں یہ لوگ داخل ہوں سونے كے كنگن اور موتی پہنائے جاویں گے اور پوشاك ان كی وہاں ریشم كی ہو گی﴿33﴾اور كہیں گے كہ اللہ كا لاكھ لاكھ شكر ہے جس نے ہم سے غم دور كیا، بے شك ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا بڑا قدردان ہے﴿34﴾جس نے ہم كو اپنے فضل سے ہمیشہ رہنے كے مقام میں لا اتارا جہاں نہ ہم كو كوئی تكلیف پہنچے گی اور نہ ہم كو كوئی خستگی پہنچے گی﴿35﴾
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
احادیث​

الاعتراف بالفضل
1- عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺصَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنْ اللَّيْلَةِ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺأَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ. ([1])
(۱)زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺنے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہو چکی تھی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺخوب جانتے ہیں( آپﷺ نے فرمایا کہ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تومیرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے اور کچھ میرے منکر ہوئے جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لئے بارش ہوئی تو وہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلانی جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں کا مومن۔([2])

2- عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ قَالَ كَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ حِينَ يُسَلِّمُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ وَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺيُهَلِّلُ بِهِنَّ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ.
(۲)ابو الزبیر نے کہاکہ ابن الزبیر رضی اللہ عنہ ہمیشہ ہر نماز کے بعد سلام پھیرتے وقت لا الہ الا اللہ سے کافرون تک پڑھتے یعنی کوئی معبود لائق عبادت کے نہیں نہ اس کا کوئی شریک ہے۔ اسی کی ہے سلطنت اور سای کے لئے ہے سب تعریف اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور نہ گناہ سے بچنے کی طاقت نہ عبادت کرنے کی قوت ہے مگراللہ کے ساتھ ۔نہیں کوئی معبود لائق عبادت کے سوائے اللہ کے اور نہیں عبادت کرتے ہم مگر اسی کی۔ اسی کا ہے سب احسان اور اسی کو سب بزرگی اور اسی کے لئے ہے سب تعریف اچھی نہیں ہے کوئی معبود عبادت کے لائق مگر اللہ۔ ہم صرف اسی کی عبادت کرنے والے ہیں اگرچہ کافر پڑے برامانیں اور کہا راوی ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہﷺہر نماز کے بعد یہی پڑھا کرتے۔ ([3])

[1] - صحيح البخاري - (ج 4 / ص 149) كِتَاب الْجُمُعَةِ, بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى{ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ }قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ شُكْرَكُمْ (980)
[2] )صحيح بخاري حديث نمبر(۸۴۶)
[3] - صحيح مسلم - (ج 3 / ص 258) بَاب اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَبَيَانِ صِفَتِهِ, كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ (935)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ ﷺفَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْكَ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ وَمِنِّي وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ. ([1])
(۳)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہﷺکے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! یہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں آپ کے پاس آتی ہیں ایک برتن لے کر اس میں سالن ہے یا کھانا ہے یا شربت ہے ۔پھر جب وہ آئیں تو آپ ان کو سلام کہئے ان کے پروردگار کی طرف سے اور میری طرف سے اور ان کو خوشخبری دیجئے ایک گھر کی جنت میں جو خولدار موتی کا بنا ہوا ہے۔ اس میں نہ غل ہے نہ کوئی تکلیف ہے۔

4- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺبِالصَّدَقَةِ فَقِيلَ مَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺمَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَأَمَّا خَالِدٌ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا قَدْ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَعَمُّ رَسُولِ اللَّهِ ﷺفَهِيَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ وَمِثْلُهَا مَعَهَا. ([2])
(۴)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے زکوة وصول کرنے کا حکم دیا پھر آپ سے کہا گیا کہ ابن جمیل اور خالد بن ولید اور عباس بن عبد المطلب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پر نبی کریمﷺنے فرمایا کہ ابن جمیل یہ شکر نہیں کرتا کہ کل تک تو وہ فقیر تھا۔ پھر اللہ نے اپنے رسولﷺکی دعا کی برکت سے اسے مالدار بنادیا ۔باقی رہے خالد تو ان پر تم لوگ ظلم کرتے ہو ۔انہوں نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کر رکھی ہیں۔ اور عباس بن عبدالمطلب تو وہ رسول اللہﷺ کے چچا ہیں اور ان کی زکوٰۃ انہی پر صدقہ ہے۔ او اتنا ہی اور انہیں میری طرف سے دینا ہے۔ اس روایت کی متابعت ابو الزناد نے اپنے والد سے کی اور ابن اسحاق نے ابو الزناد سے یہ الفاظ بیان کئے "ھی علیه ومثلھا معھا" (صدقہ کے لفظ کے بغیر) اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے اعرج سے اسی طرح یہ حدیث بیان کی گئی۔ ([3])

[1] - صحيح مسلم - (ج 12 / ص 177) بَاب فَضَائِلِ خَدِيجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا, كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ (4460)
[2] - صحيح البخاري - (ج 5 / ص 316) كِتَاب الزَّكَاةِ, بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى{ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ } (1375)
[3] )صحيح بخاري حديث نمبر(۱۴۶۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
6- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺيَقُولُ إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى فَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا فَأَتَى الْأَبْرَصَ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ لَوْنٌ حَسَنٌ وَجِلْدٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ وَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْإِبِلُ أَوْ قَالَ الْبَقَرُ شَكَّ إِسْحَقُ إِلَّا أَنَّ الْأَبْرَصَ أَوْ الْأَقْرَعَ قَالَ أَحَدُهُمَا الْإِبِلُ وَقَالَ الْآخَرُ الْبَقَرُ قَالَ فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ فَقَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا قَالَ فَأَتَى الْأَقْرَعَ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ شَعَرٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْبَقَرُ فَأُعْطِيَ بَقَرَةً حَامِلًا فَقَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا قَالَ فَأَتَى الْأَعْمَى فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ أَنْ يَرُدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرَ بِهِ النَّاسَ قَالَ فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْغَنَمُ فَأُعْطِيَ شَاةً وَالِدًا فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا قَالَ فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنْ الْإِبِلِ وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ الْبَقَرِ وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ الْغَنَمِ قَالَ ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ قَدْ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ وَالْمَالَ بَعِيرًا أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي فَقَالَ الْحُقُوقُ كَثِيرَةٌ فَقَالَ لَهُ كَأَنِّي أَعْرِفُكَ أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللَّهُ فَقَالَ إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ قَالَ وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا وَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَى هَذَا فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ قَالَ وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَخُذْ مَا شِئْتَ وَدَعْ مَا شِئْتَ فَوَاللَّهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ شَيْئًا أَخَذْتَهُ لِلَّهِ فَقَالَ أَمْسِكْ مَالَكَ فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رُضِيَ عَنْكَ وَسُخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ. ([1])
(۶)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا رسول اللہﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو قرعہ ڈالتے اپنی عورتوں پر اور جس عورت کے نام پر قرعہ نکلتا اس کو سفر میں ساتھ لے جاتے ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تو رسول اللہﷺ نے قرعہ ڈالا ایک جہاد کے سفر میں اس میں میرا نام نکلا ۔ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ گئی اور یہ ذکر اس وقت کا ہے جب پردہ کا حکم اتر چکا تھا میں اپنے ہودے میں سواری ہوتی اور راہ میں جب اترتی تو بھی اسی ہودے میں رہتی جب رسول اللہﷺ جہاد سے فارغ ہوئے اور لوٹے اور مدینہ سے قریب ہوگئے ایک بار آپ نے رات کو کوچ کا حکم دیا میں کھڑی ہوئی جب لوگوں نے کوچ کی خبر کر دی اور چلی یہاں تک کہ لشکر کے آگے بڑھ گئی۔ جب میں اپنے کام سے فارغ ہوئی تو اپنے ہودے کی طرف آئی اور سینہ کو چھوا ۔معلوم ہوا کہ میرا ہار ظفار کے نگینوں کا گر گیا ہے (ظفار ایک گاؤں ہے یمن میں) میں لوٹی اور اس ہار کو ڈھونڈھنے لگی۔ اس کو ڈھونڈھنےمیں مجھے دیر لگی اور وہ لوگ آپہنچے جو میرا ہودے اٹھاتے تھے، انہوں نے ہودہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی۔ وہ یہ سمجھے کہ میں اسی ہودے میں ہوں اس وقت عورتیں ہلکی (دبلی) تھیں۔ نہ سنڈھی تھیں نہ موتی کیونکہ تھوڑا کھاتی تھیں۔ اس لئے ان کو ہودے کا بوجھ عادت کے خلاف معلوم نہ ہوا۔ جب انہوں نے اس کو اونٹ پر لادا اور اٹھایا اور میں ایک کم سن لڑکی بھی تھی آخر لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا اور چل دیئے اور میں نے اپنا ہار اس وقت پایا جب سارا لشکر چل دیا۔ میں جو ان کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں نہ کسی کی آواز ہے نہ کوئی سننے والا ہے۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھ جاؤں۔ اور میں یہ سمجھی کہ لوگ جب مجھے نہ پائیں گے تو یہیں لوٹ کر آئیں گے۔ تو میں اسی ٹھکانے پر بیٹھی تھی اتنے میں میرے آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ اور صفوان بن معطل سلمی ذکوانی ایک شخص تھا وہ آرام کے لئے آخر راتے میں لشکر کے پیثھے ٹھہرا تھا جب وہ روانہ ہوا تو صبح کو میرے ٹھکانے پر پہنچا اس کو ایک آدمی کاحبثہ معلوم ہوا جو سو رہا ہے وہ میرے پاس آیا اور مجھ کو پہچان لیا۔ دیکھتے ہی اس لئے کہ میں پردہ کا حکم اتر نے سے پہلے اس کے سامنے ہوا کرتی تھی۔ میں جاگ اٹھی اس کی آواز سن کر جب اس نے "ان اللہ وانا للہ الیہ راجعون " پڑھا مجھ کو پہچان کر میں نے اپنا منہ ڈھانپ لیا اپنی اوڑھنی سے ۔قسم اللہ کی اس نے کوئی بات مجھ سے نہیں کی نہ میں نے اس کی کوئی بات سنی سوا "انا اللہ وانا الیہ راجعون" کہنے کے پھر اس نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اپنا ہاتھ میرے چڑھنے کے لئے بچھا دیا ۔میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ پیدل چلا اونٹ کو کھینچتا ہوا یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے اور لشکر کے لوگ اتر چکے تھے سخت دوپہر کی گرمی میں۔ تو میرے مقدمہ میں تباہ ہوئے جو لوگ تباہ ہوئے( یعنی جنہوں نے بدگمانی کی ) اور قرآن میں جس کی نسبت "تولی کبرہ" آیا ہے ۔یعنی بانی مبانی اس تہمت کا وہ عبداللہ بن ابی بن سلول (منافق) تھا، آخر ہم مدینہ میں آئے اور میں جب مدینہ میں ہنچی تو بیمار ہو گئی ایک مہینہ تک بیمار رہی اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ بہتان کرنے والوں کی باتوں میں غور کرتے اور مجھے ان کی کسی بات کی خبر نہ تھی۔ صرف مجھ کو اس امر سے شک ہوا کہ میں نے اپنی بیماری میں رسول اللہﷺ کی وہ شفقت نہ دیکھی جو پہلے میرے حال پر ہوتی۔ جب میں بیمار ہوئی آپ صرف اندر آتے سلام کرتے پھر فرماتے یہ عورت کیسی ہے ۔ سو اس امر سے مجھے شک ہوتا لیکن مجھے اس خرابی کی خبر نہ تھی یہاں تک کہ جب میں دبلی ہو گئی بیماری جانے کے بعد تو میں نکلی اور میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی نکلی مناصع کی طرف( مناصع موضع تھے مدینہ کے باہر) اور وہ پائخانے تھے ہم لوگوں کی (پائخانے بننے سے پہلے) ہم لوگ رات ہی کو نکلا کرتے اور رات ہی کو چلے آتے اور یہ ذکر اس وت کا ہے جب ہمارے گھروں کے نزدیک پائخانے نہیں بنے تھے۔ اور ہم اگلے عربوں کی طرح جنگل میں جا یا کرتے( پائخانے کے لئے) اور گھر کے پاس پائخانے بنانے سے نفرت رکھتے تو میں چلی اور ام مسطح میرے ساتھ تھی وہ بیٹھی تھی ابی رہم بن مطلب بن عبدمناف کی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی تھی جو خالہ تھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کی( اس کا نام سلمٰی تھا) اس کے بیٹے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب تھا ۔غرض میں اور ام مسطح دونوں جب اپنے کام سے فارغ ہوچکیں تو لوٹی ہوئی اپنے گھر کی طرف آرہی تھیں اتنے میں ام مسطح کا پاؤں الجھا اپنی چادر میں اور بولی ہلاک ہوا مسطح ،میں نے کاہ تو نے بری بات کہی۔ تو برا کہتی ہے اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا۔ وہ بولی اے نادان تو نے کچھ نہیں سنا مسطح نے کیا کہا میں نے کہا کیا کہا۔ اس نے مجھ سے بیان کیا جو بہتان والوں نے کہا تھا ،یہ سن کر میری بیماری دو چند ہو گئی اور بیماری بڑھی ۔میں جب اپنے گھر پہنچی تو رسول اللہﷺ اندر تشریف لائے اور سلام کیا اور فرمایا اب اس عورت کا کیا حال ہے میں نے کہاآپ مجھے اجازت دیتے ہیں اپنے ماں باپ کے پاس جانے کی اور میرا اس وت یہ ارادہ تھا کہ میں اپنے ماں باپ کےپاس جا کر اس خبر کی تحقیق کروں۔ آخر رسول اللہﷺ نے مجھ کو اجازت دی اور میں اپنے ماں باپ کے پاس آئی۔میں نے اپنی ماں سے کہا اماں یہ لوگ کیا بک رہے ہیں ۔وہ بولی بیٹا تو اس کا خیال نہ کر اور اس کو بڑی بات مت سمجھ قسم اللہ کی ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی مرد کے پاس ایک خوبصورت عورت ہو جو اس کو چاہتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور سوکنیں اس کے عیب نہ نکالیں میں نے کہا سبحان اللہ ! لوگوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا۔ میں ساری رات روتی رہی۔ صبح تک میرے آنسو نہ ٹھہرے اور نہ نیند آئی صبح کو بھی میں رو رہی تھی اور جناب رسول اللہﷺ نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو بلایا کیونکہ وحی نہیں اتری تھی۔ اور ان دونوں سے مشورہ کیا مجھ کو جدا کرنے کے لئے (یعنی طلاق دینے کے لئے) اسامہ بن زید نے تو وہی رائے دی جو وہ جانتے تھے رسول اللہﷺ کی بی بی کے حال کو اور اس کی عصمت کو اور آپ کی محبت کو اس کے ساتھ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کی بی بی ہیں اور ہم تو سوابہتری کے اور کوئی بات اس کی نہیں جانتے ،علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ تعالیٰ نے آپ پر تنگی نہیں کی اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا عورتیں بہت ہیں اور اگر آپ لونڈی سے پوچھئے تو وہ آپ سے سچ کہہ دیگی ّلونڈی سے مراد بریرہ ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتی ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسولﷺ نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا اے بریرہ تونے کبھی عائشہ سے ایسی بات دیکھی ہے جس سے تجھ کو اس کی پاکدامنی میں شک پڑے بریرہ نے کہا قسم اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے اگر میں ان کا کوئی کام دیکھتی کبھی تو میں ان میں عیب بیان کرتی۔ اس سے زیادہ کوئی عیب نہیں ہے کہ عائشہ کم عمر لڑکی ہے آٹا چھوڑ کر گھر کو سوجاتی ہے پھر بکری آتی ہے اور اس کو کھالیتی ہے( مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی عیب نہیں جس کو تم پوچھتے ہو نہ اس کے سوا کوئی عیب ہے جو عیب ہے وہ یہی ہے کہ بھولی بھالی لڑکی ہے اور کم عمری کی وجہ سے گھر کا بندوبست نہیں کر سکتی) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا پھر رسول اللہﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول سے بدلا چاہا۔ آپ نے فرمایا منبر پر اے مسلمان لوگوں ! کون بدلہ لے گا میرا اس شخص سے جس کی سخت بات ایذادینے والی میرے گھر والوں کی نسبت مجھ تک پہنچی ۔قسم اللہ کی میں تو اپنی گھر والی( یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کو) نیک سمجھتا ہوں اور جس شخص سے یہ لوگ تہمت لگاتے ہیں (یعن صفوان بن معطل سے اس کو بھی میں نیک سمجھتا ہوں اور وہ کبھی میرے گھر نہیں گیا مگر میرے ساتھ یہ سن کر سعد بن معاذ انصاری (جو قبیل اوس کے سردار تھے) کھڑے ہوئے اور کہنےلگے یا رسول اللہ! آپ کا بدلہ میں لیتا ہوں ۔اگر تہمت کرنے والا ہماری قوم اوس میں سے ہو تو ہم اس کی گردن مارتے ہیں اور ہم ہمارے بھائیوں خزرج میں سے ہو تو آپ حکم کیجئے ہم آ کے حکم کی تعمیل کریں گے نے فرمایا بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا ،تیسرا اندھا ۔ سو اللہ نے چاہا کہ ان کو آزمائے تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا سو وہ سفید داغ والے کے پاس آیا پھر ان نے کہا کہ تجھ کو کونسی چیز بہت پیاری ہے۔ اس نے کہا کہ اچھا رنگ اور اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دور ہو جائے جس کے سبب لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں ۔جناب نے فرمایا کہ فرشتہ نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کی گھن دور ہوئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتہ نے کہا کون سا مال تجھ کو بہت پسند ہے اس نے کہا اونٹ یا گائے۔ اسحاق بن عبداللہ اس حدیث کے ایک راوی کو شک پڑگیا کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے۔ لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا دوسرے نے گائے۔ سو اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی پھر کہا اللہ تعالیٰ تیرے لئے اس میں برکت دے۔ محمدﷺنے فرمایا پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا سو کہا کون سی چیز تجھ کو بہت پسند آتی ہے۔ اس نے کہا کہ اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے گھناتے ہیں پھر اس نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کی بیماری دور ہو گئی۔ اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتہ نے کہا کہ کون سا مال تجھ کو بھاتا ہے۔ اس نے کہا کہ گائے سو اس کو گابھن گائے ملی۔ فرشتہ نے کہا کہ اللہ تیرے مال میں برکت دے ۔ محمدﷺنے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا سو کہا کہ تجھ کو کون سی چیز بہت پسند ہے اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ میری آنکھ میں روشنی دے تو میں اس کے سبب لوگوں کو دیکھوں ۔محمدﷺنے فرمایا پھر فرشتہ نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کو اللہ نے روشنی دی فرشتہ نے کہا کہ کونسا مال تجھ کو بہت پسند ہے؟ اس نے کہا بھیڑ بکری تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر اونٹنی اور گائے بیائی اور بکری بھی جنی۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے۔ اور اندھےکے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔ محمدﷺنے فرمایا بعد مدت کے وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اپنی اگلی صورت اور شکل میں آیا۔ سو اس نے کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں سفر مین میرے تمام اسباب کٹ گئے( یعنی تدبیر یں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا) سو آج منزل پر پہنچنا مجھ کو ممکن نہیں بدوں اللہ کی مدد کے پھر بدوں تیرے کرم کے۔ میں تجھ سے مانگتاہوں اسی کے نام پر جس نے تجھ کو ستھرا رنگ اور ستھری کھال دی اور مال اونٹ دیئے ایک اونٹ جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا لوگوں کے حق مجھ پر بہت ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھر بار کے خرچ سے مال زیادہ نہیں جو تجھ کو دوں ) پھر فرشتہ نے کہا البتہ میں تجھ کو پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا کہ تجھ سے لوگ گھناتے تھے پھر اللہ نے اپنے فضل سے تجھ کو یہ مال دیا۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے بڑے آدمی تھے۔ فرشتہ نے کہا اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھ کو ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔ محمدﷺنے فرمایا پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اسی اپنی صورت اور شکل میں پھر اس سے کہا جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا اس نے بھی وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتہ نے کہا اگر تو جھوٹا ہو تواللہ تجھ کو ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔ محمدﷺنے فرمایاپھر فرشتہ اندھے کے پاس گیا اپنی اسی صورت اور شکل میں ۔پھر فرشتہ نے کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں اور مسافر ہوں میرے سفر میں سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں ۔ سو مجھ کو آج منزل پر پہنچنا بغیر اللہ کی مدد اور تیرے کرم کے مشکل ہے سو میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر جس نے تجھ کو آنکھ دی ایک بکری مانگتا ہوں کہ میری سفر میں وہ کام آئے ۔اس نے کہا بے شک میں اندھا تھا اللہ نے مجھ کو آنکھ دی تو لے جا ان بکریوں میں سے جتنا تیرا جی چاہے اور چھوڑ جا بکریوں میں سے جتنا تیرا جی چاہے ۔ قسم اللہ کی آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا میں تجھ کو مشکل میں نہیں ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا) سو فرشتہ نے کہا اپنا مال رہنے دے تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ سو تجھ سے تو البتہ اللہ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے نا خوش ہوا۔

[1] - صحيح مسلم - (ج 14 / ص 214) كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ (5265)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
7- عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ جَلَسَ إِحْدَى عَشْرَةَ امْرَأَةً فَتَعَاهَدْنَ وَتَعَاقَدْنَ أَنْ لَا يَكْتُمْنَ مِنْ أَخْبَارِ أَزْوَاجِهِنَّ شَيْئًا قَالَتْ الْأُولَى زَوْجِي لَحْمُ جَمَلٍ غَثٍّ عَلَى رَأْسِ جَبَلٍ وَعْرٍ لَا سَهْلٌ فَيُرْتَقَى وَلَا سَمِينٌ فَيُنْتَقَلَ قَالَتْ الثَّانِيَةُ زَوْجِي لَا أَبُثُّ خَبَرَهُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ لَا أَذَرَهُ إِنْ أَذْكُرْهُ أَذْكُرْ عُجَرَهُ وَبُجَرَهُ قَالَتْ الثَّالِثَةُ زَوْجِي الْعَشَنَّقُ إِنْ أَنْطِقْ أُطَلَّقْ وَإِنْ أَسْكُتْ أُعَلَّقْ قَالَتْ الرَّابِعَةُ زَوْجِي كَلَيْلِ تِهَامَةَ لَا حَرَّ وَلَا قُرَّ وَلَا مَخَافَةَ وَلَا سَآمَةَ قَالَتْ الْخَامِسَةُ زَوْجِي إِنْ دَخَلَ فَهِدَ وَإِنْ خَرَجَ أَسِدَ وَلَا يَسْأَلُ عَمَّا عَهِدَ قَالَتْ السَّادِسَةُ زَوْجِي إِنْ أَكَلَ لَفَّ وَإِنْ شَرِبَ اشْتَفَّ وَإِنْ اضْطَجَعَ الْتَفَّ وَلَا يُولِجُ الْكَفَّ لِيَعْلَمَ الْبَثَّ قَالَتْ السَّابِعَةُ زَوْجِي غَيَايَاءُ أَوْ عَيَايَاءُ طَبَاقَاءُ كُلُّ دَاءٍ لَهُ دَاءٌ شَجَّكِ أَوْ فَلَّكِ أَوْ جَمَعَ كُلًّا لَكِ قَالَتْ الثَّامِنَةُ زَوْجِي الرِّيحُ رِيحُ زَرْنَبٍ وَالْمَسُّ مَسُّ أَرْنَبٍ قَالَتْ التَّاسِعَةُ زَوْجِي رَفِيعُ الْعِمَادِ طَوِيلُ النِّجَادِ عَظِيمُ الرَّمَادِ قَرِيبُ الْبَيْتِ مِنْ النَّادِي قَالَتْ الْعَاشِرَةُ زَوْجِي مَالِكٌ وَمَا مَالِكٌ مَالِكٌ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ لَهُ إِبِلٌ كَثِيرَاتُ الْمَبَارِكِ قَلِيلَاتُ الْمَسَارِحِ إِذَا سَمِعْنَ صَوْتَ الْمِزْهَرِ أَيْقَنَّ أَنَّهُنَّ هَوَالِكُ قَالَتْ الْحَادِيَةَ عَشْرَةَ زَوْجِي أَبُو زَرْعٍ فَمَا أَبُو زَرْعٍ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنَيَّ وَمَلَأَ مِنْ شَحْمٍ عَضُدَيَّ وَبَجَّحَنِي فَبَجَحَتْ إِلَيَّ نَفْسِي وَجَدَنِي فِي أَهْلِ غُنَيْمَةٍ بِشِقٍّ فَجَعَلَنِي فِي أَهْلِ صَهِيلٍ وَأَطِيطٍ وَدَائِسٍ وَمُنَقٍّ فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلَا أُقَبَّحُ وَأَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ وَأَشْرَبُ فَأَتَقَنَّحُ أُمُّ أَبِي زَرْعٍ فَمَا أُمُّ أَبِي زَرْعٍ عُكُومُهَا رَدَاحٌ وَبَيْتُهَا فَسَاحٌ ابْنُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا ابْنُ أَبِي زَرْعٍ مَضْجَعُهُ كَمَسَلِّ شَطْبَةٍ وَيُشْبِعُهُ ذِرَاعُ الْجَفْرَةِ بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ طَوْعُ أَبِيهَا وَطَوْعُ أُمِّهَا وَمِلْءُ كِسَائِهَا وَغَيْظُ جَارَتِهَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ لَا تَبُثُّ حَدِيثَنَا تَبْثِيثًا وَلَا تُنَقِّثُ مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا وَلَا تَمْلَأُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا قَالَتْ خَرَجَ أَبُو زَرْعٍ وَالْأَوْطَابُ تُمْخَضُ فَلَقِيَ امْرَأَةً مَعَهَا وَلَدَانِ لَهَا كَالْفَهْدَيْنِ يَلْعَبَانِ مِنْ تَحْتِ خَصْرِهَا بِرُمَّانَتَيْنِ فَطَلَّقَنِي وَنَكَحَهَا فَنَكَحْتُ بَعْدَهُ رَجُلًا سَرِيًّا رَكِبَ شَرِيًّا وَأَخَذَ خَطِّيًّا وَأَرَاحَ عَلَيَّ نَعَمًا ثَرِيًّا وَأَعْطَانِي مِنْ كُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا قَالَ كُلِي أُمَّ زَرْعٍ وَمِيرِي أَهْلَكِ فَلَوْ جَمَعْتُ كُلَّ شَيْءٍ أَعْطَانِي مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِيَةِ أَبِي زَرْعٍ قَالَتْ عَائِشَةُ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺكُنْتُ لَكِ كَأَبِي زَرْعٍ لِأُمِّ زَرْعٍ. ([1])
(۷)ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے گیارہ عورتیں بیٹھیں اور ان سبھوں نے یہ اقرار کیا اور عہد کیا کہ اپنے خاوندوں کی کوئی نہ چھپائیں گی۔پہلی عورت نے کہا میرا خاوند گویا دبلے اونٹ کا گوشت ہے جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔دوسری عورت نے کہا میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی۔ میں ڈرتی ہوں اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کرسکوں گی ۔اس قدر اس میں عیوب ہیں ۔ظاہری بھی اور باطنی بھی ( اور بعضوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں اگر بیان کروں تو اس کو چھوڑ دوں گی یعنی وہ خفا ہو کر مجھ کو طلاق دے گا اور اس کو چھوڑنا پڑے گا)تیسری عورت نے کہا میرا خاوند لمبا ہے( یعنی احمق) اگر میں اس کی برائی بیان کروں تو مجھ کو طلاق دے دے گا۔ اور جو چپ رہوں تو اوہڑ رہوں گی( یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی)۔ چوتھی عورت نے کہا میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ (حجازا ورمکہ ) کی رات نہ گرم ہے نہ سرد، نہ ڈر ہے نہ رنج۔پانچویں عورت نے کہا میرا خاوند جب گھر میں آتا تو چیتا ہے (یعنی پڑ کر سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستا تا ) اور جب باہر نکلتا ہے توشیر ہے ،اور جو مال اسباب گھر میں چھوڑ جاتا ہے اس کو نہیں پوچھتا۔چھٹی عورت نے کہا میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب تمام کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑ تا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ اور درد پہچانے ( یہ بھی ہجو ہے یعنی سوا کھانے پینے کے بیل کی طرف اور کوئی کام کا نہیں عورت کی خبر تک نہیں لیتا)۔ساتویں عورت نے کہا میرا خاوند نامرد ہے یا شریری نہایت احمق ہے کہ کلام نہیں کرنا جانتا سب جہاں بھر کے عیب اس میں موجود ہیں ایسا ظالم ہے کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے۔آٹھویں عورت نے کہا میرا خاوند بو میں زرنب ہے (رزنب ایک خوشبودار گھانس ہے) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش (یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں) ۔نویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند اونچے محل والا لمبے پرتلے والا(یعنی قد آور) بڑی راکھ و الا( یعنی سخی ہے اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے ،تو راکھ بہت نکلتی ہے) اس کا گھر نزدیک ہے مجلس اورمسافر خانہ سے( یعنی سردار اور سخی ہے اس کا لنگر جاری ہے)۔ دسویں عورت نے کہا میرے خاوند کانام مالک ہے مالک افضل ہے میری اس تعریف سے اس کے اونٹوں کے بہت شتر خانے ہیں اور کمتر چراگاہیں ہیں (یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ ذبح ہوا کرتے ہیں اس سبب سے شتر خانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں) جب کہ اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں اپنے ذبح ہونے کا یقین کرلیتے ہیں( ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا اس سبب سے باجے کی آواز سن کے اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہوجاتا تھا۔)

[1] - صحيح مسلم - (ج 12 / ص 200) بَاب ذِكْرِ حَدِيثِ أُمِّ زَرْعٍ, كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ (4481)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
8- عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ مَرَّ أَبُو بَكْرٍ وَالْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِمَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ وَهُمْ يَبْكُونَ فَقَالَ مَا يُبْكِيكُمْ قَالُوا ذَكَرْنَا مَجْلِسَ النَّبِيِّ ﷺمِنَّا فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺفَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ قَالَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺوَقَدْ عَصَبَ عَلَى رَأْسِهِ حَاشِيَةَ بُرْدٍ قَالَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وَلَمْ يَصْعَدْهُ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أُوصِيكُمْ بِالْأَنْصَارِ فَإِنَّهُمْ كَرِشِي وَعَيْبَتِي وَقَدْ قَضَوْا الَّذِي عَلَيْهِمْ وَبَقِيَ الَّذِي لَهُمْ فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ. ([1])
(۸)انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ابو بکر اور عباس رضی اللہ عنہما انصار کی ایک مجلس سے گذرے۔ دیکھا کہ تمام اہل مجلس رو رہے ہیں۔ پوچھا آپ لوگ کیوں رو رہے ہیں؟ مجلس والوں نے کہا کہ ابھی ہم رسول اللہﷺکی مجلس کو یاد کر رہے تھے جس میں ہم بیٹھا کر تے تھے (یہ رسول اللہﷺکے مرض الوفات کا واقعہ ہے) اس کے بعد یہ رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی اطلاع دی۔ بیان کیا کہ اس پر رسول اللہﷺباہر تشریف لائے ،سر مبارک پر کپڑے کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور اس کے بعد پھر کبھی منبر پر آپ تشریف نہ لاسکے۔ آپ نے اللہ کی حمدو ثناء کے بعد فرمایا تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ میرے جسم و جان ہیں انہوں نے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کی ہیں لیکن اس کا بدلہ جو انہیں ملنا چاہیئے تھا ،وہ ملنا ابھی باقی ہے۔ اس لئے تم لوگ بھی ان کے نیک لوگوں کی نیکیوں کی قدر کرنا اور ان کے خطا کاروں سے در گذر کرتے رہنا۔

9- عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : لَمَّا بُعِثَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- أَتَيْتُهُ فَقَالَ :« يَا جَرِيرُ لأَىِّ شَىْءٍ جِئْتَ؟ ». قَالَ : جِئْتُ لأُسْلِمَ عَلَى يَدَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : فَأَلْقَى إِلَىَّ كِسَاءَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ وَقَالَ :« إِذَا جَاءَكُمْ كَرِيمُ قَوْمٍ فَأَكْرِمُوهُ ». وَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَفِيهِ قَالَ : وَكَانَ لاَ يَرَانِى بَعْدَ ذَلِكَ إِلاَّ تَبَسَّمَ فِى وَجْهِى. ([2])
(۹)جریر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپﷺکو مبعوث کیا گیا ۔تو میں آپﷺکے پاس آیا ۔آپ نے پوچھا اے جریر! کس چیز کے لئے آئے ہو؟ میں نے کہا کہ میں اسلام قبول کرنے کے لئے آیا ہوں۔ تو آپﷺنے اپنی چادر مجھے دی،پھر آپ نے صحابہ کو مخاطب ہو کر کہا کہ جب تمہارے پاس کسی قوم کا بڑا آئے تو اس کی تکریم کرو۔اور آپﷺاس کے بعد جب بھی مجھے دیکھتے تو آپ مسکراتے ۔

[1] - صحيح البخاري - (ج 12 / ص 159) كِتَاب الْمَنَاقِبِ, بَاب قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ (3515)
[2] - السنن الكبرى للبيهقي - (ج 42 / ص 67 ) كتاب قتال أهل البغى باب مَا عَلَى السُّلْطَانِ مِنْ إِكْرَامِ وُجُوهِ النَّاسِ (17132) السلسلة الصحيحة مختصرة - (ج 3 / ص 203)1205 (صحيح )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
10- عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺالْمَدِينَةَ أَتَاهُ الْمُهَاجِرُونَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْنَا قَوْمًا أَبْذَلَ مِنْ كَثِيرٍ وَلَا أَحْسَنَ مُوَاسَاةً مِنْ قَلِيلٍ مِنْ قَوْمٍ نَزَلْنَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ لَقَدْ كَفَوْنَا الْمُؤْنَةَ وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَهْنَإِ حَتَّى لَقَدْ خِفْنَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالْأَجْرِ كُلِّهِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺلَا مَا دَعَوْتُمْ اللَّهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ. ([1])
(۱۰)انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺجب مدینہ تشریف لے آئے تو آپ کے پاس مہاجر آئےکہ ہم نے ایسی قوم نہیں دیکھی جو اپنے زیادہ مال سے خرچ کرے اور بہترین اخوت قائم کرے۔جس قوم کے درمیان ہم نے ضیافت اختیار کی ہے اس سے۔تحقیق انہوں نے ہمارے ہر کام کی ذمہ داری لے لی اور ہمیں ہر کام میں اپنا شریک سمجھ بیٹھے ۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہماری نیکیاں انہیں نہ مل جائیں۔آپﷺنے فرمایا نہیں جب تک تم ان کے لئے دعائیں کرتے رہو گے اور ان کی اچھا ئی بیان کرتے رہو گے۔

11- عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺمَنْ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ وَمَنْ سَأَلَ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ. ([2])
(۱۱)عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آپﷺنے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ کی ذات کے ساتھ پناہ لیتا ہے تو اسے پناہ دو جس نے اللہ کے نام پر سوال کیا ہے اس کو دو۔ اور جس نے تمہیں دعوت دی اس کی دعوت قبول کرو، جس نے تمہارے ساتھ اچھائی کی اس کا اسے بدلہ دو،اگر تم بدلہ نہیں دے سکتے ،تو اس کے لئے دعا کرتے رہو یہاں تک کہ تم محسوس کر لو کہ تمہارا بدلہ پورا ہو چکا ۔

12- عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺمَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ. ([3])
(۱۲)اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا جس شخص کے ساتھ کسی نے اچھائی کی تو اس شخص نے اچھائی کرنے والے کے لئے یہ الفاظ کہے "جزاک اللہ خیرا" تحقیق اس نے اس کی اچھائی بیان کرنے کا پورا حق ادا کیا۔


[1] - سنن الترمذى - كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ, بَاب مِنْهُ (2411 ) قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ صحيح وضعيف سنن الترمذي - (ج 5 / ص 487) برقم: (2487) صحيح
[2] - سنن أبى داود - (ج 4 / ص 487) كِتَاب الزَّكَاةِ, بَاب عَطِيَّةِ مَنْ سَأَلَ بِاللَّهِ (1424) صحيح وضعيف سنن أبي داود - (ج 1 / ص 2) [1672]
[3] - سنن الترمذى - (ج 7 / ص 343) كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ , بَاب مَا جَاءَ فِي الثَّنَاءِ بِالْمَعْرُوفِ (1958) صحيح وضعيف سنن الترمذي - (ج 5 / ص 35) 2035 صحيح
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
13- عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺيَوْمَ حُنَيْنٍ وَجَاءَتْهُ وُفُودُ هَوَازِنَ فَقَالُوا يَا مُحَمَّدُ إِنَّا أَصْلٌ وَعَشِيرَةٌ فَمُنَّ عَلَيْنَا مَنَّ اللَّهُ عَلَيْكَ فَإِنَّهُ قَدْ نَزَلَ بِنَا مِنْ الْبَلَاءِ مَا لَا يَخْفَى عَلَيْكَ فَقَالَ اخْتَارُوا بَيْنَ نِسَائِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَأَبْنَائِكُمْ قَالُوا خَيَّرْتَنَا بَيْنَ أَحْسَابِنَا وَأَمْوَالِنَا نَخْتَارُ أَبْنَاءَنَا فَقَالَ أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ فَإِذَا صَلَّيْتُ الظُّهْرَ فَقُولُوا إِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَبِالْمُؤْمِنِينَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺفِي نِسَائِنَا وَأَبْنَائِنَا قَالَ فَفَعَلُوا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺأَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ وَقَالَ الْمُهَاجِرُونَ وَمَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺوَقَالَتْ الْأَنْصَارُ مِثْلَ ذَلِكَ وَقَالَ عُيَيْنَةُ بْنُ بَدْرٍ أَمَّا مَا كَانَ لِي ولِبَنِي فَزَارَةَ فَلَا وَقَالَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ أَمَّا أَنَا وَبَنُو تَمِيمٍ فَلَا وَقَالَ عَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ أَمَّا أَنَا وَبَنُو سُلَيْمٍ فَلَا فَقَالَتْ الْحَيَّانِ كَذَبْتَ بَلْ هُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺفَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺيَا أَيُّهَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ فَمَنْ تَمَسَّكَ بِشَيْءٍ مِنْ الْفَيْءِ فَلَهُ عَلَيْنَا سِتَّةُ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْءٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَلَيْنَا ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ وَتَعَلَّقَ بِهِ النَّاسُ يَقُولُونَ اقْسِمْ عَلَيْنَا فَيْئَنَا بَيْنَنَا حَتَّى أَلْجَئُوهُ إِلَى سَمُرَةٍ فَخَطَفَتْ رِدَاءَهُ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَيَّ رِدَائِي فَوَاللَّهِ لَوْ كَانَ لَكُمْ بِعَدَدِ شَجَرِ تِهَامَةَ نَعَمٌ لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ ثُمَّ لَا تُلْفُونِي بَخِيلًا وَلَا جَبَانًا وَلَا كَذُوبًا ثُمَّ دَنَا مِنْ بَعِيرِهِ فَأَخَذَ وَبَرَةً مِنْ سَنَامِهِ فَجَعَلَهَا بَيْنَ أَصَابِعِهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى ثُمَّ رَفَعَهَا فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ لَيْسَ لِي مِنْ هَذَا الْفَيْءِ وَلَا هَذِهِ إِلَّا الْخُمُسُ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ فَرُدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمَخِيطَ فَإِنَّ الْغُلُولَ يَكُونُ عَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَارًا وَنَارًا وَشَنَارًا فَقَامَ رَجُلٌ مَعَهُ كُبَّةٌ مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَذْتُ هَذِهِ أُصْلِحُ بِهَا بَرْدَعَةَ بَعِيرٍ لِي دَبِرَ قَالَ أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكَ فَقَالَ الرَّجُلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا إِذْ بَلَغَتْ مَا أَرَى فَلَا أَرَبَ لِي بِهَا وَنَبَذَهَا. ([1])
(۱۳)انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے چچا انس بن نجر رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں حاضر نہ وہ سکے۔ اس لئے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میں پہلی لڑائی میں سے غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی لیکن اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ پھر جب احد کی لڑائی کا موقع آیااور مسلمان بھاگ نکلے تو انس بن نضر نے کہا اے اللہ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا اس میں اس سے معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ ان مشرکین نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں۔ پھر وہ آگے بڑھے (مشرکین کی طرف) تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے سامنا ہوا۔ ان سے انس بن نضر رضی اللہ نے کہا اے سعد بن معاذ! میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور نضر (ان کے باپ) کے رب کی قسم میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہﷺ! جو انہوں نے کر دیکھایا اس کی مجھے میں ہمت نہ تھی ۔انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد جب انس بن نضررضی اللہ عنہ کو ہم نے پایا تو تلوار نیزے اور تیر کے تقریباً اسی زخم ان کے جسم پر تھے۔ وہ شہید ہو چکے تھے۔ مشرکوں نے ان کے اعضاء کاٹ دیئے تھے۔ اور کوئی شخص انہیںپہچان نہ سکتا تھا۔ صرف ان کی بہن انگلیوں سے انہیں پہچان سکی تھی۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہم سمجھتے ہیں( یا آپ نے بجائے نری کے نظن کہا) مطلب ایک ہے کہ یہ آیت ان کے اور ان جیسے مومنین کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ" مومنوں میں کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھا یا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا "آخر تک۔ ([2])

14- عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ اسْتَأْذَنَتْ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أُخْتُ خَدِيجَةَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺفَعَرَفَ اسْتِئْذَانَ خَدِيجَةَ فَارْتَاحَ لِذَلِكَ فَقَالَ اللَّهُمَّ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ فَغِرْتُ فَقُلْتُ وَمَا تَذْكُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ حَمْرَاءِ الشِّدْقَيْنِ هَلَكَتْ فِي الدَّهْرِ فَأَبْدَلَكَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا. ([3])
(۱۴)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہالہ بنت خویلد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن نے اجازت مانگی رسول اللہﷺکے پاس آنے کی۔ آپ کو خدیجہ کا اجازت مانگنا یاد آیا۔ آپ خوش ہوئے اور فرمایا یا اللہ ہالہ بیٹی خویلد کی۔ مجھے رشک آئی میں نے کہا آپ کیا یاد کرتے ہیں قریش کی بڑھیوں میں سے ایک بڑھیا کی سرخ مسوڑھوں والی ،پتلی پنڈلیوں والی وہ مر گئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر عورت دی (جو ان باکرہ جیسےمیں ہوں۔(قاضی نے کہا عورتوں کو ایسی رشک معاف ہے کیوں کہ یہ ان کی طبعی ہے اور اسی واسطے آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو منع نہ کیا اور میرے نزدیک اس کی وجہ یہ تھی کہ عائشہ کم سن تھیں اور شاید بالغ بھی نہ ہوئی ہوں۔اس وجہ سے آپ ان پر خفا نہ ہوئے۔)


[1] - مسند أحمد - (ج 13 / ص 479) (6441) صحيح وضعيف سنن النسائي - (ج 8 / ص 260) (3688) حسن
[2] )صحيح بخاري حديث نمبر(۲۸۰۵)
[3] - صحيح مسلم - (ج 12 / ص 184) بَاب فَضَائِلِ خَدِيجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا, كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ (4467)
 
Top