ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 569
- ری ایکشن اسکور
- 176
- پوائنٹ
- 77
التحقیق والتنقیح في مسئلة التدلیس!
تحریر: محمد خبیب احمد حفظه الله
الحمد للٰه رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء وخاتم المرسلین، وعلیٰ آلٰه وصحبه، ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد:
علم اصولِ حدیث کے ذریعے سے محدثینِ عظام نے چودہ صدیوں پہلے نبی کریم ﷺ کی طرف ہر منسوب بات کی غلطی و صحت کو جانچنے کے لیے ایسے بہترین اصول وضع کیے، جو نہایت مستحکم ہیں، کسی بھی قول کے مستند ہونے کے لیے راویوں کا سلسلۂ إسناد متصل ہونا از بس ضروری ہے اور یہ اتصالِ سند کسی حدیث کے صحیح ہونے کی پہلی شرط ہے، سند میں یہ انقطاع اگر ظاہری ہو یعنی کسی مرحلہ پر راویوں کا سلسلہ منقطع ہو تو اس کو عام علماء بھی جان سکتے ہیں، تاہم بعض راویانِ حدیث سند کے مخفی عیب کو دانستہ یا نادانستہ طور پر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے اس طرزِ عمل کو مصطلح الحدیث میں تدلیس سے موسوم کیا جاتا ہے، اس کی متعدد اقسام کی بنا پر اس کا حکم بھی مختلف ہے۔
مگر بعض حضرات جبلِ علم امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کو اساس قرار دے کر سبھی مدلسین کی مرویات سے مساوی سلوک کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جس راوی نے بھی زندگی میں صرف ایک بار تدلیس کی تو اس کی ہر معنعن روایت ناقابل قبول ہوگی۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اسے
’’جمہور محدثین‘‘ کا منہج باور کراتے ہیں، جو سرتا سر حقیقت کے منافی ہے۔
چند ضروری اور تمہیدی باتیں عرض کرنے کے بعد ہم جمہور محدثین کے اصل موقف کی راہنمائی کریں گے۔ ان شاء الله
(✿) تدلیس کے لغوی معنی:
تدلیس کے لغوی معنی پوشیدگی اور پردہ پوشی کے ہیں۔ اسی سے الدَّلس (دال اور لام کے زبر کے ساتھ) ہے۔ جس کا مطلب ہے: ’’اختلاط النور بالظلمۃ‘‘، یعنی اندھیرے اور اجالے کا سنگم۔ دلس البائع کے معنی: بائع کا خریدار سے سودے کے عیب کو چھپانا ہیں۔ مزید تفصیل الصحاح للجوھری: (ج:۲، ص:۹۲۷) ، لسان العرب لابن منظور (ج:۷، ص:۳۸۹) ، تاج العروس للزبیدی (ج:۴، ص:۱۵۳) میں ملاحظہ فرمائیں۔
(✿) اصطلاحی تعریف:
اگر راوی اپنے ایسے استاذ جس سے اس کا سماع یا معاصرت ثابت ہے، وہ روایت ’’عَنْ، أنَّ، قَالَ، حَدَّثَ‘‘ وغیرہ الفاظ سے بیان کرے، جسے اس نے اپنے استاد کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے سُنی ہے، اور سامعین کو خیال ہو کہ اس نے یہ اپنے استاد سے سنی ہوگی۔ اسے تدلیس کہا جاتا ہے۔
[ معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح، ص:۶۶ ]
(✪) محرکات تدلیس:
تدلیس کے متعدد محرکات ہیں۔ جن میں سے اکثر قابل مذمت ہیں، ان کی تفصیل ملاحظہ ہو:
❶ سند سے ضعیف راوی گرا کر سند کو عمدہ باور کرانا۔
❷ مدلس کے استاد کا ضعیف ہونا۔
❸ عالی سند بنانے کے لیے راویان کی تعداد کم کرنا۔
❹ مروی عنہ (جس سے روایت کی جائے) کو حقیر سمجھنا۔
❺ تدلیس سے محبت کرنا۔
❻ کسی شیخ سے بکثرت روایات کی بنا پر اس کے نام، کنیت کو مختلف انداز سے ذکر کرنا۔
❼ بکثرت اساتذہ کا تأثر دینا۔
❽ مدلس کے شیخ کا ضعیف راویوں سے روایت کرنا۔ اس شیخ کی خدمت کے پیشِ نظر یا اس کی علمی جلالت کی وجہ سے اس کی پردہ پوشی کرنا۔
❾ مدلس کا اپنے شیخ سے سنی اور ان سنی مرویات میں تمیز نہ کر سکنا۔
❿ مخصوص شیخ کی چند مرویات رہ جانے پر تدلیس کرنا اور یہ باور کرانا کہ میں نے اس کی سبھی مرویات سنی ہیں۔
مگر تدلیس کی بعض صورتیں قابل مذمت نہیں ہوتیں۔ مثلا:
❶ اختصار کے پیشِ نظر سند مختصر کر دینا یا کچھ راویان گرا دینا۔
❷ راوی اور مروی عنہ کے مابین نزاع کی صورت میں تدلیس کرنا۔ تاکہ تنازع کی وجہ سے ذخیرۂ حدیث کا ضیاع نہ ہو۔
❸ عالی سند کو محفوظ کرنا، اگرچہ اس میں بہ نسبت نازل سند کے کم ثقاہت ہو۔
❹ بطور امتحان تدلیس کرنا۔
اس مقام پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ تدلیس بسا اوقات جان بوجھ کر نہیں کی جاتی، جیسے بعض کبار تابعین اپنی تقریروں، خطبوں، دروس یا مجالسِ مذاکرہ میں احادیث بیان کرتے اور اختصار کے پیشِ نظر سند سے ایک یا دو راوی، جو عموماً ثقہ ہوتے، گرا دیتے تھے۔ اور سننے والے اسی طرح بیان کر دیتے تھے، جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا کہ اس راوی نے تدلیس کی ہے، حالانکہ وہ مجلسِ حدیث میں حدیث کی مکمل سند بیان کرتے تھے ۔
کبار تابعین کے طبقہ میں ارادتا تدلیس کی شرح انتہائی قلیل تھی، مگر متأخر طبقات میں یہ نسبت بڑھ گئی۔
جاری۔۔۔۔