حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
السنن الکبریٰ کے مراحل تالیف اور موضوع و اصطلاحات
السنن الکبریٰ کی تصنیف کی تاریخ
یہ تو نہیں معلوم کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’السنن الکبریٰ‘ کی تصنیف کب شروع کی اور نہ ہی کسی ایسے اشارہ کا پتہ چلتا ہے جو اس کا تعین کرتا ہو۔
امام بیہقی رحمہ اللہ خود اپنے منہج کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’جب میں علم کی تلاش کے لیے نکلا تو سب سے پہلے میں نے سیدنا محمد ﷺ کی احادیث کو اکٹھا کیا اور لکھنا شروع کیا اور ان صحابہ کے آثار کو جمع کیا جو دین کے ستون تھے جن سے انہو ں نے مرویات کو حاصل کیا ہوتا تھا میں ان سے سمع کیا کرتا تھا۔ حفاظ حدیث سے راویوں کے حالات معلوم کیا کرتا اور میں یہ محنت اور کوشش کرتا کہ صحیح حدیث کو ضعیف سے ، مرفوع کو موقوف سے اور موصول کو مرسل حدیث سے الگ کر دوں ۔ ‘‘(معرفة السنن، والآثارلاحمد بن حسین بيهقي:1/ 140)
اس بات سے ہمارے لیے ممکن ہو جاتا ہے کہ ہم حدیث کو محفوظ کرنے کے اس مرحلہ کا اعتبار کر سکیں جس کا تعلق نقد و جرح سے ہے جس کے متعلق امام بیہقی رحمہ اللہ نے خود بیان کیا ہے کہ انہوں نے ’السنن الکبریٰ‘ کو تیار کرنے کی ابتداء کیسے کی۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے سنن کو مکمل کرنے کے لیے طویل مدت تک اس کام کو جاری رکھا اور وہ اس کی تصنیف سے برو ز سوموار 12 جمادی الثانی 432ھ کو فارغ ہوئے ۔(معرفة السنن والآثار لأحمد بن حسین بيهقي:1/ 142- 143) یہ وہ دور ہے جب امام بیہقی رحمہ اللہ شہرت کے عروج پر تھے اور آپ کی عمر48 سال تھی اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی یہ دوسری کتاب تھی۔ اس سے پہلے وہ نو جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب ’’المبسوط‘‘ لکھ چکے تھے ۔(السنن الکبری لاحمد بن حسین بيهقي:2/ 28)
السنن الکبریٰ کو تصنیف کرنے کے اسباب
امام بیہقی رحمہ اللہ نے جب اس کتاب کو تصنیف کرنا چاہا تو انہوں نے سرور کونین ﷺ کی سنتوں کو جمع کیا ور احکام شرعی کے سلسلہ میں جن کی ضرورت تھی ان میں صحابہ کرام کے آثار کو بھی جمع کیا خواہ وہ موقوف ہو یا مقطوع ان سب کو فقہ کے ابواب کے طرز پر جمع کیا۔ درپردہ آپ کا مقصد امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کو صحیح ثابت کرنا تھا ور یہ بھی واضح کرنا تھا کہ شافعی مذہب کتاب و سنت پر قائم ہے۔ اس کے ساتھ امام بیہقی رحمہ اللہ بھی چاہتے تھے کہ وہ مذہب کی مدد کرنے سے پہلے حدیث پر کام کریں ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’اگر امام بیہقی رحمہ اللہ اپنا ذاتی مذہب بنانا چاہتے تو وہ ایسا کرنے پر قادر تھے، کیونکہ ان کے پاس علمی وسعت موجود تھی اور اختلاف کی خوب معرفت تھی اسی وجہ سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے صحیح حدیث پر مسائل کو روشن اور واضح طور پر ثابت کر دیا ہے۔‘‘(سیر النبلاء لشمس الدین محمد بن أحمد ذهبي : 18/ 169)
اس لیے ہم اشارہ کریں گے کہ السنن الکبریٰ کا کتاب المبسوط، معرفة السنن و الآثار اور بیان خطأ من أخطا علی الشافعی کے ساتھ کیسا اور کیا تعلق ہے ۔ ان کتابوں کے مابین مذہب کے دفاع میں اور دلائل بیان کرنے میں باہمی مضبوط ربط پایا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے ان تمام کتابوں کا منہج ایک ہی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ان کتابوں کو عمدہ مرکزیت حاصل ہے کسی ایک پر تحقیق کر کے ان تمام سے استفادہ کرنا ممکن بن جاتا ہے ۔ (مقدمة بیان خطأمن أخطاعلی الشافعی از نایف دعیس:ص 79)
السنن الکبریٰ کا موضوع
امام بیہقی رحمہ اللہ نے نبیﷺ کی سنتوں پر جامع کتاب مرتب کی اور اس کا نام ’’السنن الکبریٰ‘‘ رکھا اور وضاحت کے ساتھ اس میں سنن پر احادیث جمع کیں اور صحابہ کے ان آثار کو جمع کیا جن کی ضرورت پڑتی ہے خواہ وہ آثار موقوف ہوں یا مقطوع۔(معرفة السنن والآثار لاحمد بن حسین بيهقي: 1/ 142)
’السنن الکبریٰ‘ کا موضوع احکام کی وہ احادیث ہیں جنہیں فقہی ابواب پر مرتب کیا گیا ہے پس یہی کتاب کا اصل موضوع ہے یہی وجہ ہے کہ کتاب کا عنوان اور نام اس پر دلالت کرتا ہے ۔ اس کو وسعت دیتے ہوئے حدیث کی دوسری اقسام موقوف اور مقطوع کو بھی اس میں داخل کر لیا گیا ہے۔ (ايضا)
امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث کے مواد کو کتاب اور باب کے نظام کے مطابق مرتب کیا ہے اور انہوں نے ہر نص پر تنقیدی احکام میں سے اس کا مناسب فیصلہ اور حکم صادر کیا ہے ۔ احکام کو ثابت کرنے کے لیے اس کے شواہد، متابعات، غریب اور معلل کو بھی جمع کر دیا اور اگر اس کا ناسخ اور منسوخ مل گیا تو اس کو بھی پیش کر دیا۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ایسا انداز اختیار کیا کہ آپ نص اور دلیل سے استفادہ کرتے ہوئے فقہی استنباط سے جرح و قدح کرتے ہیں ۔
’السنن الکبریٰ‘ احکام کے ابواب کو جمع کرنے والے مسائل کے اصول اور فروع پر مشتمل ہے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے موضوعات کو جس طریقہ سے بیان کیا ہے اس کی کیفیت اور صورت یہ ہے :
1. کتاب الطهارة 2. کتاب الصلاة
3. کتاب الجمعة 4. کتاب صلاۃ الخوف
5. کتاب صلاة العیدین 6. کتاب صلاة الخسوف
7. کتاب صلاۃ الاستسقاء 8. کتاب الجنائز
9. کتاب الزکاة 10. کتاب الصیام
11. کتاب الحج 12. کتاب البیوع
13. کتاب الرهن 14. کتاب التفلیس
15. کتاب الحجر 16. کتاب الصلح
17. کتاب الحوالة 18. کتاب الضمان
19. کتاب الشركة 20. کتاب الوکالة
21. کتاب الاقرار 22. کتاب العارية
23. کتاب الغصب 24. کتاب الشفعة
25. کتاب القراض 26. کتاب المساقات
27. کتاب الاجارة 28. کتاب المزارعة
29. کتاب احیاء الموات 30. کتاب الوقف
31. کتاب الهبات 32. کتاب اللقطة
33. کتاب الفرائض 34. کتاب الوصایا
35. کتاب الودیعة 36. کتاب قسم الفی والغنیمة
37. کتاب قسم الصدقات 38. کتاب النکاح
39. کتاب الصداق 40. کتاب القسمة والنشوز
41. کتاب الخلع والطلاق 42. کتاب الراجعة
43. کتاب الایلاء 44. کتاب الظهار
45. کتاب اللعان 46. کتاب العدد
47. کتاب الرضاع 48. کتاب النفقات
49. کتاب الجنایات 50. کتاب الدیات
15. کتاب القسامة 52. کتاب قتال أهل البغی
53. کتاب المرتد 54. کتاب الحدود
55. کتاب السرقة 56. کتاب الاشربة
57. کتاب السیر 58. کتاب الجزية
59. کتاب الصید والذبائح 60. کتاب الضحایا
61. کتاب السبق والرمی 62. کتاب الایمان
63. کتاب النذور 64. کتاب آداب القاضی
65. کتاب الشہادات 66. کتاب الدعوی والبینات
67. کتاب العتق 68. کتاب الولاء
69. کتاب المدبر 70. کتاب المکاتب
17. کتاب عتق أمهات الأولاد
اگر ’السنن الکبریٰ‘ اور’سنن ابی داؤد‘ کا احادیث پر لکھی جانے ولی اہم کتب کے اعتبار سے موازنہ کرنا چاہیں تو کچھ اس طرح ہو گا:
1. کتابوں کی تعداد جن پر السنن الکبریٰ مشتمل ہے وہ ’سنن ابو داؤد‘ میں کتابوں کی تعداد سے دگنی ہے ۔ ’سنن ابو داؤد‘ میں ان کی تعداد صرف 35 ہے ۔
2. ’السنن الکبری‘ میں کتاب الصلوٰۃکے ابواب کی تعداد 736ہے جبکہ سنن ابو داؤد میں326 باب ہیں ۔
3. امام بیہقی رحمہ اللہ کے نزدیک سنن میں ان احادیث کی تعداد جن پر کتاب الصلوٰۃ مشتمل ہے وہ 4481 ہیں جبکہ ابو داؤد سجستانی کے نزدیک 1387 ہے ۔ کتاب الجمعة والخوف والعیدین والاستسقاء والجنائز اس میں شامل نہیں ہیں اگران کو بھی ان کے ساتھ شامل کر دیں تو پھر’ السنن الکبریٰ‘ میں کتاب الصلوٰۃ کی احادیث کی تعدادان احادیث کی تعداد سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے جو مکمل طور پر’ سنن ابو داؤد‘ میں موجود ہیں ۔ ’سنن ابو داؤد‘ میں 2574 احادیث ہیں۔
امام بیہقی رحمہ اللہ کی ’السنن الکبریٰ‘ میں خاص اصطلاحات
امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’السنن الکبریٰ‘ میں عبارات کو مختصر کرنے کا طریقہ استعمال کیا ہے جو شخص امام بیہقی رحمہ اللہ کے اسلوب سے واقف نہیں تو اس کی معرفت اس پر مشکل ہو جاتی ہے :
•’’حافظ ابو عبداللہ‘‘ اس سے مراد امام بیہقی اپنے استاد محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری لیتے ہیں اور جب حدثنا أبو عبداللہ یا قال عبداللہ کہتے ہیں تو اس سے مراد امام حاکم لیتے ہیں ۔
•’’ابو بکر ابن اسحاق‘‘ اس سے آپ امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ مراد لیتے ہیں ۔
•’’ابو حمد‘‘ اس کنیت سے امام عبداللہ بن عدی جرجانی مراد لیتے ہیں جو ابن عدی سے مشہور ہیں ۔
•’’علی ‘‘ یا ’’علی بن عمر ‘‘ اس سے وہ امام دار قطنی رحمہ اللہ مراد لیتے ہیں ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی تمام تالیفات میں یہی طریقہ استعمال کیا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ اپنے ہم عصر اساتذہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے کنیت اور القاب کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔ طوالت سے بچتے ہوئے مقالہ ہذا میں امام بیہقی رحمہ اللہ کی استعمال کردہ چنداصلاحات ہی پر اکتفاء کیا گیا ہے ۔
السنن الکبریٰ پر تنقیدات کا سلسلہ
السنن الکبریٰ تنقید اور مؤاخذہ سے محفوظ نہیں کیونکہ یہ ایک انسانی عمل ہے جو صحیح اور خطا پر مشتمل ہے ۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اور بے عیب ہے ۔ امام علاء الدین علی بن عثمان المعروف ابن ترکمانی رحمہ اللہ ( الوافی بالوفیاتل لصلاح الدین:2/ 117)نے السنن الکبریٰ کے کچھ مقامات اور عنوانات پر تنقید لکھی جس کا نام ’’الجوهر النقی فی الرد علی البيهقي‘‘ ر کھا۔
جس کے شروع میں کہا ہے :
’’ یہ وہ فوائد جو میں نے حافظ ابو بکر بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب السنن الکبریٰ پر معلق کئے ہیں جن میں سے اکثر اس پر اعتراضات ہیں اور اس کے ساتھ بحث و مباحثے ہیں۔(الجوهر النقی فی الرد علی البيهقي لعلاء الدین علی بن عثمان ابن ترکمانی:1/ 2، دائرۃ المعارف الہند1344ھ)
الجوهر النقی مختلف اعتراضات پر مشتمل ہے اس سے امام ابن ترکمانی رحمہ اللہ کی علمی گہرائی اور بیداری کا پتہ چلتا ہے ۔ اس میں بہت سے مسائل ایسے ہیں جن پر تنقید نہیں ہو سکتی۔ لیکن امام ابن ترکمانی رحمہ اللہ نے تنقید کی وہ اس لیے کہ ان کا تعلق حنفی مذہب کا فقہاء سے ہے جبکہ امام ابن بیہقی رحمہ اللہ کا تعلق شوافع کے بڑے آئمہ سے ہے ۔
انہوں نے بہت سے ایسے مسائل بھی بیان کئے جن سے حنفیہ نے ان سے اختلاف کیا اور امام ابن ترکمانی کی تنقید بھی اس کی وضاحت کرتی ہے ۔
انہوں نے چند ایسے امور پر تنقید کی ہے جن کا وجود ہی نہیں ہے وہ کہتے ہیں :
’’امام بیہقی رحمہ اللہ نے رسول اللہ ﷺکے سترہ ایسے صحابہ کا نام لیا ہے جو نماز میں رکوع کے وقت رفع یدین کرتے ہیں پھر آپ نے کبار تابعین میں سے دس کا نام لیا ہے جن کا تعلق مکہ، حجاز، عراق، شام، بصرہ اور یمن سے تھا پھر کہا کہ ہم نے ایسی حدیث کو ابو قلابہ، ابو زبیر پھر مالک بن انس سے بیان کیا ہے ۔ ‘‘
ابن ترکمانی نے بیہقی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ ابن زبیر لکھ کر اس سے عبداللہ مراد لیتے ہیں۔ (الجواهر النقی فی الرد علی البيهقي لابن ترکمانی:2/ 75)
یہ ابن ترکمانی کی عجیب تنقید ہے جو کہ صحیح نہیں ہے اس سے ان کا مقصد تنقید کرنا اور ملامت کرنا ہے ۔ حالانکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے جن کا ذکر کیا ہے وہ ابو زبیر ہے ابن زبیر نہیں ان دونوں میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے ۔ علم رجال کے متعلق معمولی سی شدھ بدھ رکھنے والا اس فرق کو جان سکتا ہے ۔ کیونکہ ابن زبیر صحابی ابن صحابی ہیں جبکہ ابو زبیر محمد بن مسلم بن تدرس مکی ہے جن کی تاریخ پیدائش 126ھ ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ تابعین اور تبع تابعین کے چھوٹے طبقہ سے حدیث بیان کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ صحابہ اور کبار تابعین کا پورا تذکرہ کرتے ہیں اسی وجہ سے امام بیہقی رحمہ اللہ پر تنقید ہوتی ہے کہ وہ محمد بن طائفی کو ثقہ بیان کرتے ہیں ۔ ابن ترکمانی نے کہا کہ طائفی ایک مجہول راوی ہے ۔ ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا کہ ثقات سے مروی حدیثیں ان کی نہیں ہیں۔(الجوھر النقی لابن ترکمانی:3/ 173- 174) حالانکہ امام بیہقی رحمہ اللہ امام ابو داؤد سجستانی رحمہ اللہ کی سند سے اپنی سنن میں حدیث بیان کرتے ہیں طائفی مجہول راوی ابو داؤد کے رجال میں سے ہے ۔
امام ابن ترکمانی رحمہ اللہ نے جانچ پڑتال سے قبل تنقید کی۔ کیونکہ انہوں نے محمد بن سعید طائفی اورابو سعید مؤذن جو صدوق اور ثقہ ہے کے مابین فرق نہیں کیا ان سے کتب صحاح ستہ میں سے کسی ایک نے بھی روایت نہیں کی ہے۔ (تهذيب التهذيب:9/ 191)