• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الله تعالیٰ کی محبت کیسے حاصل کی جائے اور اس کے قریب کیسے ہوا جائے؟

شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم​
سوال :
الله کی محبت کیسے حاصل کی جائے اور اس کے قریب کیسے ہوا جائے؟
جواب :
باشعور انسان کسی شے کو اپنا آئیڈیل ٹھہراتا ہے اور پھر اس سے بھرپور محبت کرتا ہے ‘ اس کے لیے جیتا ہے ‘ اس کے لیے مرتا ہے ‘ قربانیاں دیتا ہے ‘ ایثار کرتا ہے۔ چنانچہ کوئی قوم کے لیے ‘ کوئی وطن کے لیے اور کوئی خود اپنی ذات کے لیے قربانی دیتا ہے۔ لیکن بندۂ مؤمن یہ سارے کام اللہ کے لیے کرتا ہے۔ وہ اپنا مطلوب و مقصود اور محبوب صرف اللہ کو بناتا ہے۔ وہ اسی کے لیے جیتا ہے ‘ اسی کے لیے مرتا ہے : (اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) (الانعام-162) بےشک میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ۭ وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ ۙ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ

اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر کچھ اور چیزوں کو اس کا ہمسر اور مدمقابلّ بنا دیتے ہیں وہ ان سے ایسی محبت کرنے لگتے ہیں جیسی اللہ سے کرنی چاہیے اور جو لوگ واقعتا صاحب ایمان ہوتے ہیں ان کی شدید ترین محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے اور اگر یہ ظالم لوگ اس وقت کو دیکھ لیں جب یہ دیکھیں گے عذاب کو ‘ تو (ان پر یہ بات واضح ہوجائے کہ) قوت تو ساری کی ساری اللہ کے پاس ہے اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے(البقرہ -165)
الله تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلی چیز ہے ایمان ۔
ایمان کے معنی ہیں : ماننا ، یقین ، بے خوفی ، عقیدہ ، اللہ تعالیٰ اوراس کے دین پر دل سے یقین کرنا ۔
ایمان کا تعلق دل سے ہے لہذا اللہ تعالیٰ کو دل کے یقین کے ساتھ ماننے کے بعد اس کی ذات ، صفات اور حقوق میں ذرا سا بھی شرک کرنا ایمان کے خلاف ہے ۔
اللہ تعالیٰ پرایمان لانے کے بعد اس کی ذات ، صفات اور حقوق میں کوئی دوسرا شریک نہیں کرنا ،یہ توحید کہلاتا ہے ۔
توحید : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کواس کی ذات ، صفات اور حقوق میں یکتا مانا جائے ، نہ اس کی ذات میں کسی کو شریک کیا جائے نہ اس کی صفات میں کسی کو شریک کیا جائے اور نہ اس کے حقوق میں کسی کو شریک کیا جائے ۔اللہ تعالیٰ ایک ہے ، یکتا ہے ، اکیلا ہے اور نرالا ہے ۔
توحید نہیں تو ایمان نہیں ، توحید اور شرک ایک دوسرے کی ضد ہیں ، لہذا توحید ہی تمام اعمال ِ صالحہ کی اصل ہے ، توحید کے بغیر تمام اعمال صالح بیکارہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں ایمان وہی مفید و قبول ہو گا جس میں شرک کی ملاوٹ نہ ہو گی ۔
ایمان لانے کے بعد جو کوئی بھی شرک کرے گا اس کا ایمان اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمۡ يَلۡبِسُوۡۤا اِيۡمَانَهُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰۤٮِٕكَ لَهُمُ الۡاَمۡنُ وَهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ ۔

(سنو)جو لوگ ایمان لائے پھر انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم(یعنی شرک) کی آمیزش نہیں کی تو ایسے ہی لوگوں کے لیئے امن ہے اور یہی لوگ ہدایت یاب ہیں ﴿ الانعام :۸۲﴾
اللہ کے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق مندرجہ بالا آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے ۔
( صحیح بخاری و صحیح مسلم)
توحید کے بعد ہے تقویٰ کی صفت ، جس کے ذریعے الله تعالیٰ کے قریب بھی ہوا جا سکتا ہے اور اس کی محبت بھی حاصل کی جا سکتی ہے ۔
تقویٰ : کے معنی ہیں ڈرنا ، بچنا ، یعنی اللہ تعالیٰ کے خوف سے گناہوں سے بچنا۔
تقویٰ : اتّقَاء سے اسم ہے اور اتّقَاء سے اسم فاعل متقی ہے جس کے معنی ہیں تقویٰ والا ، ڈرنے والا ، ہر اس چیز سے بچنے والا جس سے کسی قسم کا خدشہ ، خطرہ یا اندیشہ ہو ۔
گویا تقویٰ کو اختیار کرنے والا یعنی متقی ، الله تعالی کا قرب حاصل کر سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی اطاعت :
اصل اور حقیقی اطاعت یعنی فرمابرداری صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ، اس کی اطاعت غیر محدود و غیر مشروط ہے۔ اطاعت کرانا اسی کا حق ہے۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
فَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗٓ اَسْلِمُوْا، وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ

تو (اے لوگو! سنو) تمہارا الٰہ ایک الٰہ ہے لہذا اسی کی اطاعت کرو اور(اے رسول!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے ۔(الحج : 34)
جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمابرداری کرتا ہے وہ مسلم ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا فرمابردار ہے اطاعت گزار ہے مطیع ہے ۔
اللہ تعالیٰ کےرسولوں کی اطاعت :
وَّلَا يُشۡرِكُ فِىۡ حُكۡمِهٖۤ اَحَدًا‏۔

اوروہ(یعنی اللہ تعالیٰ) اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔ ﴿الکہف : 26﴾
لہذا رسولوں کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے حکم سے کی جاتی ہے ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ۔

اور( اے رسول) ہم نے جو بھی رسول بھیجا وہ اسی لیئے بھیجا کی اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(النسآء : ۶۴)
یعنی رسولوں کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں ہی کی جاتی ہے ۔ یعنی رسولوں کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت ہوتی ہے ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
مَنۡ يُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰهَ ‌ وَمَنۡ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ عَلَيۡهِمۡ حَفِيۡظًا ۔

جو شخص رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ یقیناً اللہ ہی کی اطاعت کرتا ہے (اے رسول) جو شخص(آپ کی فرمانبرداری سے) منہ موڑے تو ہم نے آپ کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا ۔
( النسآء : ۸۰)

تو یہ بات واضح ہوئی کہ الله تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا لازمی ہے ۔
اور یہ اطاعت اخلاص کے ساتھ کرنی ہے ۔
اخلاص : کے معنی خلوص ، خالص ، پاک و صاف ، عبادت جس میں دکھلاوا نہ ہو ، اطاعت خالص ۔
یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت اس طرح کرے کہ اس میں ریاء نہ ہو اور دل کی خوشی کے ساتھ اورعاجزی کے ساتھ فرمابرداری کرے ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
قُلۡ اَ تُحَآجُّوۡنَـنَا فِى اللّٰهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّکُمۡ وَلَنَآ اَعۡمَالُـنَا وَلَـكُمۡ اَعۡمَالُكُمۡ وَنَحۡنُ لَهٗ مُخۡلِصُوۡنَ ۔

(اور اےرسول ان سے ) پوچھیئے کیا تم اللہ( کے معاملہ ) میں ہم سے جھگڑ رہے ہو حالانکہ وہ ہمارا بھی ربّ ہے اور تمہارا بھی اور( اگر تم اس کے معاملہ میں شرک سے باز نہیں آئے تو سن لو) ہمارے اعمال ہمارے لیئے اور تمہارے اعمال تمہارے لیئے ہیں اور ہم تو (بہر حال ) خالص طور پر اسی (واحد اِلہٰ ) کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ ( البقرہ : ۱۳۹)
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اِلَّا الَّذِيۡنَ تَابُوۡا وَاَصۡلَحُوۡا وَاعۡتَصَمُوۡا بِاللّٰهِ وَاَخۡلَصُوۡا دِيۡنَهُمۡ لِلّٰهِ فَاُولٰٓٮِٕكَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ وَسَوۡفَ يُـؤۡتِ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ۔

مگرجن لوگوں نے توبہ کرلی(اپنی) اصلاح کرلی، اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور اپنے دین کو خالص اللہ کے لیئے قرار دے لیا تو ایسے لوگ مؤمنین کے ساتھ جنت میں رہیں گےاور مؤمنین کو اللہ عنقریب اجر عظیم عطاء کریگا ۔ ( النسآء : ۱۴۶)
یعنی دل کی خوشی سے اورعاجزی سے اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانا اخلاص ہے ۔
اور جو کوئی اخلاص کے ساتھ الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ یقیناً اللہ کا قرب حاصل کر لے گا ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا

اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیائ، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں
(النساء - 69)
یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ ہ وسلم) کی اطاعت کرنے والوں کا شمار ان لوگوں کے زمرے میں ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے۔جنہیں پسند فرمایا ہے ، یعنی جن لوگوں کو الله تعالیٰ کا قرب حاصل ہوا ہے ۔
بندے کو درج ذیل باتوں پر بھی عمل کرنا چاہیے :
١۔ہر اس چیز اور عمل کو پسند کرے جواللہ کا پسندیدہ ہو ۔اور اسی طرح ہر اس چیز کو ناپسند کرے ،جو اللہ کو ناپسند ہو ۔
٢۔الله کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو ہر صورت ناپسند کرے اور ہر صورت دور رہے ۔
٣۔الله تعالیٰ کی رضا کیلئے ہر ممکن حد تک کوشش کرے ۔اللہ کی رضا کو باقی تمام پر ترجیح دے ۔
٤۔بندے کو چاہیے کہ الله تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچانے اور پھر الله کا شکر ادا کرے ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے ؛
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو ان کا احاطہ نہیں کرسکو گے یقیناً اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے
(النحل -18)

٥۔بندے کو چاہیے کہ الله کی نعمتوں کی ناشکری نہ کرے بلکہ شکر ادا کرے ۔کیوں کہ ناشکرے کو الله تعالیٰ پسند نہیں کرتا ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ

اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر تم کفر کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بھی بہت سخت ہے
(ابراہیم -7)

٦۔الله کے رسول کی ہر صورت میں اطاعت کرے کیوں کہ الله تعالیٰ نے اپنے رسول کو نمونہ بنایا ہے امت کے لئے ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا

تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے (یہ اسوہ ہے) ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور آخرت کی امید رکھتا ہو } ” اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو۔(الاحزاب -21)
جو کوئی چاہتا ہے کہ الله تعالیٰ کا قرب حاصل کرے یعنی الله تعالیٰ کی محبت حاصل ہو ،الله تعالیٰ کے قریب ہو جائے ،
اسے چاہیے کہ الله تعالیٰ کی پسند کے عمل کرے ، جو کہ الله تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے بتائے اور پھر اعلان بھی کر دیا کہ " تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے (یہ اسوہ ہے) ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور آخرت کی امید رکھتا ہو } ” اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو۔(الاحزاب -21)"
۷ ۔ جب بندہ کسی سے محبت کرتا ہے تو اسے خوش کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔
چونکہ مومن سب سے زیادہ محبت الله تعالیٰ سے کرتے ہیں لہذا وہ الله تعالیٰ کی ہر ممکن اطاعت کرتے ہیں بغیر کسی قسم کی اگر مگر کیے ۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دنیا و آخرت میں اپنی رحمت کے سائے میں رکھیں اور ہمیں اپنے نیک مقرب بندوں میں شامل فرمائیں !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
 
Top