lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,898
- پوائنٹ
- 436
فرق الشیعة --- الحسن بن موسی النوبختی ---
اس عقیدے کا مفہوم ہے کہ معاذ الله ، الله کو بعض واقعات کے ہونے کا علم نہیں ہوتا تاوقتیکہ کہ وہ وقوع پزیر نہ ہو جائیں - شیعہ محدث کلینی نے اپنی کتاب "الکافی" میں "البداء" کے عنوان سے بہت سی روایات ذکر کی ہیں - لکھتا ہے کہ:
علی رضا شیعوں کے آٹھویں امام فرماتے ہیں:
علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن الريان بن الصلت قال: سمعت الرضا (عليه السلام) يقول ما بعث الله نبيا قط إلا بتحريم الخمر وأن يقر لله بالبداء
ترجمہ : الله کے تمام انبیاء (علیھم الصلاة و السلام) نے الله کے لئے عقیدہ بداء کا اقرار و اعتراف کیا ہے
(الکافی ، جلد ١، کتاب التوحید ، باب البداء ، صفحہ ١٠٦ ، دارالمرتضی ، بیروت - لبنان)
اس عقیدے کی وضاحت کرتے ہوے "النوبختی" لکھتا ہے:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے بیٹے اسماعیل بن جعفر کو اپنے بعد امامت کے لئے نامزد کیا تھا کہ میرے بعد وہ امام ہوں گے ، لیکن ان کے بیٹے اسماعیل کی امام جعفر کی زندگی میں ہی وفات ہو گئی - جس پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ حضرت! آپ نے تو انہیں امامت کے لئے نامزد فرمایا تھا آپ کو اپنے بیٹے کی وفات کا علم نہ تھا؟ - تو آپ نے فرمایا: (صرف مجھے ہی نہیں) الله کو بھی علم نہ تھا ، الله کو اسماعیل بن جعفر کی امامت کے متعلق بداء (یعنی علم بعد الجہل) ہوا - استغفرالله
(فرق الشیعة ، صفحہ ٧٦ ، ٧٨)
اسماعیلیوں اور شیعہ اثناء عشریہ کے درمیان اختلاف کا آغاز بھی یہیں سے ہوا ، اسماعیلیوں کا مؤقف تھا کہ چونکہ امامت باپ کے بعد بیٹے کی طرف منتقل ہوتی ہے اس لئے اسماعیل کے بعد امامت ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل کا حق تھا نہ کہ اسماعیل کے بھائی موسی کاظم کا -
جبکہ شیعہ اثناء عشریہ نے ان کے مؤقف کی مخالفت کرتے ہوے موسی کاظم کو امام مان لیا اور ان کی امامت کے لئے عقیدۂ بداء کا سہارا لیا کہ غلطی امام جعفر صادق کی نہیں بلکہ معاذالله ، الله کی تھی -
اس طرح کی صورت حال سے موسی کاظم کو بھی دو چار ہونا پڑا چناچہ کلینی لکھتا ہے کہ:
علي بن محمد، عن إسحاق بن محمد، عن أبي هاشم الجعفري قال: كنت عند أبي الحسن (عليه السلام) بعد ما مضى ابنه أبوجعفر وإني لافكر في نفسي أريد أن أقول: كأنهما أعني أبا جعفر وأبا محمد في هذا الوقت كأبي الحسن موسى وإسماعيل ابني جعفر ابن محمد (عليهم السلام) وإن قصتهما كقصتهما، إذ كان أبومحمد المرجى بعد أبي جعفر (عليه السلام) فأقبل علي أبوالحسن قبل أن أنطق فقال: نعم يا أبا هاشم بدا لله في أبي محمد بعد أبي جعفر (عليه السلام) ما لم يكن يعرف له، كما بدا له في موسى بعد مضي إسماعيل ما كشف به عن حاله وهو كما حدثتك نفسك وإن كره المبطلون، وأبومحمد ابني الخلف من بعدي، عنده علم ما يحتاج إليه ومعه آلة الامامةجعفري -
ترجمہ : ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں کہ میں ابو الحسن علیہ السلام (موسی کاظم) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ میرے دل میں خیال گزرا کہ آپکے بڑے بیٹے ابو جعفر کی وفات ہو گئی ہے لہٰذا اب امامت آپ کے دوسرے بیٹے ابو محمد کو ملے گی جس طرح کہ اسماعیل کی وفات کے بعد امامت آپکو مل گئی تھی ، جوں ہی میرے دل میں یہ خیال گزرا ، آپ فرمانے لگے: ہاں! ابو ہاشم! تم درست سوچ رہے ہو ، میرے بیٹے ابو جعفر کے متعلق الله کو اس طرح بداء ہوا ہے جس طرح اسماعیل کے متعلق ہوا تھا ، اب میرے بعد میرا بیٹا ابو محمد امام ہو گا ، اسے غیب کا علم حاصل ہے اور اس کے پاس آلہ امامت ہے -
(الکافی ، جلد ١ ، کتاب الحجة ، باب : الاشارة والنص على ابی محمدعلیہ السلام ، صفحہ ٢٤٢ ، دارالمرتضی ، بیروت - لبنان)
الله کو اسماعیل بن جعفر کی امامت کے متعلق بداء ہوا - استغفرالله
اس عقیدے کا مفہوم ہے کہ معاذ الله ، الله کو بعض واقعات کے ہونے کا علم نہیں ہوتا تاوقتیکہ کہ وہ وقوع پزیر نہ ہو جائیں - شیعہ محدث کلینی نے اپنی کتاب "الکافی" میں "البداء" کے عنوان سے بہت سی روایات ذکر کی ہیں - لکھتا ہے کہ:
علی رضا شیعوں کے آٹھویں امام فرماتے ہیں:
علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن الريان بن الصلت قال: سمعت الرضا (عليه السلام) يقول ما بعث الله نبيا قط إلا بتحريم الخمر وأن يقر لله بالبداء
ترجمہ : الله کے تمام انبیاء (علیھم الصلاة و السلام) نے الله کے لئے عقیدہ بداء کا اقرار و اعتراف کیا ہے
(الکافی ، جلد ١، کتاب التوحید ، باب البداء ، صفحہ ١٠٦ ، دارالمرتضی ، بیروت - لبنان)
اس عقیدے کی وضاحت کرتے ہوے "النوبختی" لکھتا ہے:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے بیٹے اسماعیل بن جعفر کو اپنے بعد امامت کے لئے نامزد کیا تھا کہ میرے بعد وہ امام ہوں گے ، لیکن ان کے بیٹے اسماعیل کی امام جعفر کی زندگی میں ہی وفات ہو گئی - جس پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ حضرت! آپ نے تو انہیں امامت کے لئے نامزد فرمایا تھا آپ کو اپنے بیٹے کی وفات کا علم نہ تھا؟ - تو آپ نے فرمایا: (صرف مجھے ہی نہیں) الله کو بھی علم نہ تھا ، الله کو اسماعیل بن جعفر کی امامت کے متعلق بداء (یعنی علم بعد الجہل) ہوا - استغفرالله
(فرق الشیعة ، صفحہ ٧٦ ، ٧٨)
اسماعیلیوں اور شیعہ اثناء عشریہ کے درمیان اختلاف کا آغاز بھی یہیں سے ہوا ، اسماعیلیوں کا مؤقف تھا کہ چونکہ امامت باپ کے بعد بیٹے کی طرف منتقل ہوتی ہے اس لئے اسماعیل کے بعد امامت ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل کا حق تھا نہ کہ اسماعیل کے بھائی موسی کاظم کا -
جبکہ شیعہ اثناء عشریہ نے ان کے مؤقف کی مخالفت کرتے ہوے موسی کاظم کو امام مان لیا اور ان کی امامت کے لئے عقیدۂ بداء کا سہارا لیا کہ غلطی امام جعفر صادق کی نہیں بلکہ معاذالله ، الله کی تھی -
اس طرح کی صورت حال سے موسی کاظم کو بھی دو چار ہونا پڑا چناچہ کلینی لکھتا ہے کہ:
علي بن محمد، عن إسحاق بن محمد، عن أبي هاشم الجعفري قال: كنت عند أبي الحسن (عليه السلام) بعد ما مضى ابنه أبوجعفر وإني لافكر في نفسي أريد أن أقول: كأنهما أعني أبا جعفر وأبا محمد في هذا الوقت كأبي الحسن موسى وإسماعيل ابني جعفر ابن محمد (عليهم السلام) وإن قصتهما كقصتهما، إذ كان أبومحمد المرجى بعد أبي جعفر (عليه السلام) فأقبل علي أبوالحسن قبل أن أنطق فقال: نعم يا أبا هاشم بدا لله في أبي محمد بعد أبي جعفر (عليه السلام) ما لم يكن يعرف له، كما بدا له في موسى بعد مضي إسماعيل ما كشف به عن حاله وهو كما حدثتك نفسك وإن كره المبطلون، وأبومحمد ابني الخلف من بعدي، عنده علم ما يحتاج إليه ومعه آلة الامامةجعفري -
ترجمہ : ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں کہ میں ابو الحسن علیہ السلام (موسی کاظم) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ میرے دل میں خیال گزرا کہ آپکے بڑے بیٹے ابو جعفر کی وفات ہو گئی ہے لہٰذا اب امامت آپ کے دوسرے بیٹے ابو محمد کو ملے گی جس طرح کہ اسماعیل کی وفات کے بعد امامت آپکو مل گئی تھی ، جوں ہی میرے دل میں یہ خیال گزرا ، آپ فرمانے لگے: ہاں! ابو ہاشم! تم درست سوچ رہے ہو ، میرے بیٹے ابو جعفر کے متعلق الله کو اس طرح بداء ہوا ہے جس طرح اسماعیل کے متعلق ہوا تھا ، اب میرے بعد میرا بیٹا ابو محمد امام ہو گا ، اسے غیب کا علم حاصل ہے اور اس کے پاس آلہ امامت ہے -
(الکافی ، جلد ١ ، کتاب الحجة ، باب : الاشارة والنص على ابی محمدعلیہ السلام ، صفحہ ٢٤٢ ، دارالمرتضی ، بیروت - لبنان)