• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کا محبوب اور ناپسندیدہ بندہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کا محبوب اور ناپسندیدہ بندہ


ہر عمل کا پھل ہوتا ہے اور ہر پھل اپنے درخت کی جنس سے ہوتا ہے چنانچہ جس نے اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور محبوب کام کیے تو وہ انسان رب تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے اور جس کے اعمال ناپسندیدہ ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کا مبغوض بندہ بن جاتا ہے۔

تیرا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا اصل شان نہیں بلکہ اصل شان یہ ہے کہ رب کائنات تجھ سے پیار کرے، لہٰذا تجھے کامیابی و نجات، نیک بختی، سعادت و بھلائی اور دنیا و آخرت میں قبولیت بھی ملے گی۔ ہائے افسوس! جس انسان کو اللہ تعالیٰ دشمن سمجھے، اس کا ٹھکانہ بہت برا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں خسارہ پانے والا اور ناپسندیدہ شخصیت ہے۔

رب کائنات کے محبوب بندے کا ٹھکانہ اور بدلہ معروف ہے۔ چنانچہ اللہ عزوجل جنت کے مختلف درجات میں سے کسی میں داخلہ نصیب فرمائے گا اور اپنے چہرے کے دیدار کے ساتھ اپنی رضا مندی کا مزید اضافہ اسے مہیا کرے گا۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ انسان کا آخرت میں ٹھکانہ اور سزا بھی معروف ہے کہ آگ میں ایک گڑھے کا مالک اور اپنے عمل کے مطابق خاص قسم کے عذاب سے دو چار ہوگا۔

لیکن دنیا میں محبوب اور پسندیدہ شخصیت کا کیا ٹھکانہ اور اللہ کی محبت اور اس کے بغض کے ثمرات کیا ہیں؟ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
محبوب بندہ

زمین میں مقبولیت:
ارشاد ہوا:
(( إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدًا وُضِعَ لَہُ الْقُبُوْلُ فِيْ الْأَرْضِ۔ ))1
’’ جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ ‘‘
کئی ایسے افراد ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے محبوب اقوال و افعال بجا لاتے ہیں اور ان پر ہمیشگی کرتے ہیں حتیٰ کہ رب تعالیٰ ان سے محبت کرنا شروع کردیتے ہیں چنانچہ جب ایسا انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے تو اللہ رب العزت جبریل علیہ السلام کو پکار کر کہتے ہیں: تو بھی اس سے محبت کر، اسی طرح سب آسمان والوں کو اس سے پیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے پھر زمین میں اسے مقبول کردیا جاتا ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- راجع: تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر، ص: ۱۴۷، ۱۴۸/۳۔ وفتح الباري للعسقلاني، ص: ۴۶۲/۱۰، ۴۶۲/۱۳، والجامع للأحکام القرآن للقرطبي، ص: ۱۰۷، ۱۰۸/۱۱۔ وفیض القدیر للمناوي، ص: ۲۴۷/۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چنانچہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا نَادَی جِبْرِیلَ إِنَّ اللَّہَ قَدْ أَحَبَّ فُلَانًا فَأَحِبَّہُ، فَیُحِبُّہُ جِبْرِیلُ، ثُمَّ یُنَادِيْ جِبْرِیلُ فِي السَّمَائِ: إِنَّ اللَّہَ قَدْ أَحَبَّ فُلَانًا فَأَحِبُّوہُ، فَیُحِبُّہُ أَہْلُ السَّمَائِ، وَیُوضَعُ لَہُ الْقَبُولُ فِيْ أَہْلِ الْأَرْضِ۔))1
’’ بے شک جب اللہ عزوجل کسی بندے سے پیار کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلاتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ فلاں کو پسند کرتے ہیں تو بھی اس سے محبت کر۔ چنانچہ جبریل اس سے محبت کرنا شروع کردیتا ہے پھر جبریل علیہ السلام آسمان میں آواز لگاتا ہے کہ یقینا رب تعالیٰ فلاں سے محبت کرتے ہیں تو تم بھی اس سے پیار کرو چنانچہ آسمان والے اس سے محبت شروع کردیتے ہیں اور اہل زمین میں اُسے مقبول کردیا جاتا ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کا بندے سے محبت کرنے کے ثمرات میں سے یہ ہے کہ اسے زمین میں قبولیت مل جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے دل اس سے محبت کرتے ہیں، اس کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور اس سے خوش ہوتے ہیں۔ لوگ اس کے متعلق اچھا گمان رکھتے ہیں اور ممکن حد تک اس سے برائی دور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں… چنانچہ تو جسے بھی پائے گا وہ اس کی طرف مائل ہونے والا اور کلیتہً اس پر جھکنے والا ہوگا اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اس کی جہات روشن ہوجاتی ہیں اور ہدایت کے نور کے ساتھ اس کے میدان چمک اٹھتے ہیں اور اس پر محبت و اقبال کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں اور جمال و جلال کی اس کے لیے نشانی ہوجاتی ہے چنانچہ مخلوق اس کو محبت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
{ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط} [الحدید: ۲۱]
’’ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہتے ہیں عطا کرتے ہیں۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ البخاري في کتاب التوحید، باب: کلام الرب مع جبریل ونداء اللّٰہ الملائکۃ، رقم: ۷۴۸۵۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مذکورہ حدیث سے یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کی نشانی ہے اس کی تائید
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کرتا ہے:
(( عَنْ أَنَسِ بْنَ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ یَقُولُ: مُرَّ بِجَنَازَۃٍ فَأَثْنَوْا عَلَیْہَا خَیْرًا فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِأُخْرَی فَأَثْنَوْا عَلَیْہَا شَرًّا فَقَالَ وَجَبَتْ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ مَا وَجَبَتْ؟ قَالَ ہَذَا أَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ خَیْرًا فَوَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ وَہَذَا أَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَہُ النَّارُ أَنْتُمْ شُہَدَائُ اللّٰہِ فِی الْأَرْضِ۔ )) …؟؟1
’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس میت کے بارے میں کلمات خیر کہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’واجب ہوگئی۔ پھر وہ ایک اور جنازے کے پاس سے گزرے تو لوگوں نے میت کے بارے میں برے کلمات کہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واجب ہوگئی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں یارسول اللہ بتائیے تو کیا واجب ہوگئی؟ آپ نے فرمایا ’’یہی کہ جو تم نے جس پر کلمات خیر کہے ہیں اس پر جنت واجب ہوگئی اور جس پر تم نے برے کلمات کہے ہیں اس پر جہنم واجب ہوگئی۔‘‘
(( أَنْتُمْ شُھَدَائُ اللّٰہِ فِي الْأَرْضِ۔ ))
’’ کہ تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔ ‘‘
اس حدیث میں بندوں کو مانوس کیا گیا اور ان پر خوشی داخل کی گئی ہے کیونکہ جب انسان سنتا ہے کہ میرا آقا و مولیٰ مجھ سے محبت کرتا ہے تو اسے اعلیٰ ترین خوشی حاصل ہوتی ہے اور ہر بھلائی یقینی ہوجاتی ہے یہ چیز اس شخص کے موافق ہے جس کی طبع میں مردانگی، جواں نمردی اور اچھی انابت (رجوع) ہو جیسے کہ رب تعالیٰ نے فرمایا:
{وَمَا یَتَذَکَّرُ إِلاَّ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ o} [غافر: ۱۳]
’’ اور نہیں نصیحت پکڑتا مگر وہی جو رجوع کرتا ہے۔ ‘‘
اور جس کے نفس میں اوچھا پن سختی اور شہوت کا غلبہ ہے تو اسے صرف مار اور سختی کے ساتھ ڈانٹ ہی لوٹا سکتی ہے۔
مذکورہ حدیث میں مختلف انواع کے نیک اعمال، فرائض و سنن کو بجا لانے پر ابھارا گیا ہے، نیز نافرمانیوں اور بدعتوں سے بہت زیادہ محتاط رہنا بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہ ناراضگی کا باعث ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا o} [مریم: ۹۶]
’’ بے شک جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے شائستہ اعمال کیے ہیں ان کے لیے رحمان محبت پیدا کرے گا۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-أخرجہ البخاري في کتاب الجنائز، باب: ثناء الناس علی المیت، رقم: ۱۳۶۷۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیونکہ مومن کو اللہ تعالیٰ نیک لوگوں اور مقرب فرشتوں کے سینوں میں محبوب بنا دیتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے محبت پیدا کردیتا ہے اور پھر جو بھی مومن اسے ملتا ہے وہی اس کی عزت کرتا اور جس منافق و مشرک کی اس سے ملاقات ہوتی ہے وہی اس کی تعظیم کرتا ہے۔ ہرم بن حیان k کا قول ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف اپنا دل متوجہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے دل اس کی طرف پھیر دیتا ہے یہاں تک کہ ایمان والوں کی محبت اور شفقت اس کے نصیبے میں لکھ دیتا ہے۔ امام ابن کثیر k نے فرمایا: ایسے مومن جو نیک اعمال کرتے ہیں یعنی ایسے اعمال جو اللہ تعالیٰ کو شریعت محمدیہ کے مطابق ہونے کی وجہ سے خوش کردیتے ہیں رب تعالیٰ ان کے لیے اپنے نیک بندوں کے دلوں میں محبت گاڑ دیتا ہے۔ یہ معاملہ بالکل ضروری ہے اس سے کوئی مفر نہیں۔
مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے: {سَیَجْعَلَ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا} کا مطلب ہے دنیا میں اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دے گا۔
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے کہا: مطلب ہے کہ اللہ خود بھی ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی محبت اپنی مومن مخلوق کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں۔
عوفی رحمہ اللہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کی طرف سے محبت ملتی ہے اور اسے اچھا رزق ا ور سچی زبان کا مالک بنا دیا جاتا ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ نے مذکورہ آیت کا معنی بیان کیا ہے کہ اہل ایمان کے دلوں میں رب تعالیٰ ان نیک اعمال کرنے والے مومنین کی محبت ڈال دیں گے۔
قتادہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو بھی بندہ برا یا اچھا عمل کرتا ہے تو ضرور بالضرور اللہ تعالیٰ اس کے عمل کی چادر اسے پہنائیں گے۔
حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے: ایک آدمی نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کروں گا جس کے ذریعہ میں مشہور ہوجاؤں گا چنانچہ نماز کے وقت میں وہ نماز پڑھتا ہی نظر آتا اور سب سے پہلے مسجد میں داخل ہوتا اور سب کے بعد مسجد سے نکلتا لیکن اس کی عظمت و عزت نہ کی گئی۔ مسلسل سات ماہ تک وہ ایسا کرتا رہا اور جن لوگوں کے پاس سے گزرتا تو وہ کہتے: اس ریا کار کی طرف دیکھو۔ اس نے سوچا: میرا تذکرہ تو برائی کے ساتھ ہی ہورہا ہے، لہٰذا اب میں تمام اعمال خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کروں گا، اس نے صرف دل کی نیت ہی بدلی اور اعمال میں بھی اضافہ نہ کیا چنانچہ اس کے بعد جن لوگوں کے پاس سے گزرتا تو کہتے: اب اللہ تعالیٰ فلاں پر رحم کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
(( إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدًا نَادٰی جِبْرَئِیْلَ: إِنِّيْ قَدْ أَحْبَبْتُ فَـلَانًا فَأحِبَّہُ، فَیُنَادِيْ فِيْ السَّمَآئِ، ثُمَّ تُنْزَلُ لَہُ الْمُحَبَّۃُ فِيْ أَھْلِ الْأَرْضِ فَذٰلِکَ قُوْلُ اللّٰہِ: {إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا} وَإِذَا أَبْغَضَ اللّٰہُ عَبْدًا نَادَی جِبْرَئِیْلَ: إِنِّيْ قَدْ أَبْغَضْتُ فُـلَانًا، فَیُنَادِيْ فِيْ السَّمَآئِ، ثُمَّ تُنْزَلُ لَہُ الْبَغْضَائُ فِيْ أَھْلِ الْأَرْضِ۔ ))1
’’ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو آواز دیتے ہیں کہ میں فلاں شخص سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام آسمان میں اعلان کرتا ہے، پھر اہل زمین میں اس کی محبت اترتی ہے تو اللہ کے فرمان: ’’بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے جلد ہی اللہ تعالیٰ ان کے لیے محبت پیدا کردیں گے۔ ‘‘ کا یہی مفہوم ہے۔‘‘
جب دنیا میں کوئی انسان محبوب بن جاتا ہے تو وہ آخرت میں بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف مومن متقی آدمی سے ہی محبت کرتا ہے اور راضی بھی صرف خالص اور پاک طینت آدمیوں سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے احسان اور کرم کے ذریعہ ہمیں بھی انہی میں شامل کرے۔ (آمین)
دنیا پرستی سے حفاظت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : (( إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدًا حَمَاہُ الدُّنْیَا کَمَا یَظِلُّ أَحَدُکُمْ یَحْمِيْ سَقِیْمَہُ الْمَائَ۔ ))2
’’ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کو دنیوی مال و مناصب سے روکے رکھتا ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص بیمار کو پانی سے روکتا ہے۔ ‘‘
صحیح الجامع کی حدیث میں ارشا دہے:
وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : (( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ لَیَحْمِيْ عَبْدَہُ الْمُؤْمِنَ مِنَ الدُّنْیَا وَھُوَ یُحِبُّہُ، کَمَا تُحِبُّوْنَ مَرِیْضَکُمُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ تَخَافُوْنَ عَلَیْہِ۔ ))3
’’ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو دنیا سے روکتا ہے حالانکہ وہ اس دنیا کو پسند کر رہا ہوتا ہے جیسے تم اپنے مریض کو (بیماری کے اضافہ) کے ڈر سے کھانے اور پینے سے روکتے ہو۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۵۲۸۔
2- صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۶۵۹۔
3- صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۸۱۴۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ عزوجل جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو دنیا کے مال و مناصب و عہدے سے اسے بچاتا ہے اور بندے اور دنیا کے درمیان حائل ہوجاتا اور اس کا حصول بندے کے لیے مشکل بنا دیتا اور دنیا سے دور کردیتا ہے چنانچہ وہ بندے اور دنیوی نعمتوں و شہوتوں کے درمیان حائل ہوتا ہے اور اس کی رونق میں کھو جانے اور ملوث ہونے سے بچاتا ہے تاکہ اس کا دل دنیا کی محبت و الفت میں کہیں بیمار نہ ہوجائے اور آخرت کو برا نہ سمجھنا شروع کردے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے پانی جب مریض کے لیے نقصان دہ ہو تو اسے پانی پینے سے روک دیا جاتا ہے… چنانچہ اللہ جل اسمہ اپنے محبوب کو دنیا سے دور رکھتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے اور اس کی بندگی سے میلا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ اس کے گلے کا پھندا بنتی ہے۔
ایسا کیوں نہ ہو، حالانکہ دنیا بڑے بڑوں کے لیے تکلیف دہ، دین کے چاہنے والوں کے آگے حائل ہونے والی اور عام مومنین کے لیے نقصان دہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کا مددگار ہے، گو وہ دنیا کی آرزو رکھتے بھی ہوں لیکن اللہ اس سے بچانے والے اور حفاظت فرمانے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کو دنیا سے ایسے دور رکھتا ہے جیسے مریض کے گھر والے اسے نقصان دینے اور اس کی بیماری بڑھانے والے کھانے سے دور رکھتے ہیں۔
بلاشبہ رب تعالیٰ اپنے بندے کی حفاظت عمدہ، اچھے انجام، آسان اور قابل قدر امور کے لیے کرتا ہے۔
تشبیہ کی غرض اللہ تعالیٰ کی کمال حفاظت، محبت و شفقت کا بیان کرنا ہے۔ 1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- فیض القدیر للمناوی، ص: ۲۴۶؍۱۔ ص: ۲۶۰، ۲۶۱؍۲۔ تحفۃ الاحوذی، ص: ۱۵۹؍۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آزمائش:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ اللّٰہَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا إِبْتَلَاھُمْ، فَمَنْ صَبَرَ فَلَہُ الصَّبْرُ، وَمَنْ جَزَعَ فَلَہُ الْجَزْعُ۔ ))1
’’ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کو آزمائش سے دو چار کرتا ہے۔ چنانچہ جس نے صبر کیا اس کے لیے صبر ہے اور جس نے بے صبری کا مظاہرہ کیا اس کے لیے بے صبری ہے۔ ‘‘
شرح…: جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے پیار کرتے ہیں تو انہیں مختلف اقسام کی آزمائش پہنچا کر آزماتے ہیں، یہاں تک کہ گناہوں سے پاک و صاف کردیتے ہیں اور دنیا کی مشغولیت سے ان کے دلوں کو خالی کردیتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان پر غیرت کرتے ہیں کہ ایسی چیز میں غلطاں ہوں جو آخرت میں ان کے لیے نقصان دہ ہے، نیز اللہ تعالیٰ ہر قسم کی آزمائش سے انہیں دوچار کرتے ہیں، خواہ معیشت کی تنگی سے تعلق ہو یا دنیا کی کدورت اور دنیا والوں کو مسلط کرنے سے اس کا تعلق ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشکلات میں ان کا صبر اور اس آزمائش کے ساتھ ان کا صدق دیکھنا اور مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصَّابِرِیْنَ وَنَبْلُوَا أَخْبَارَکُمْ o} [محمد: ۳۱]
’’ یقینا ہم تمہارا امتحان کرکے تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو صاف معلوم کرلیں گے اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کریں گے۔ ‘‘
معاملات میں نرمی و آسانی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : (( إِنَّ اللّٰہَ إِذَا أَحَبَّ أَھْلَ بَیْتٍ أَدْخَلَ عَلَیْھِمُ الرِّفْقَ۔ ))2
’’ بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی گھر والوں سے محبت کرتا ہے تو ان کے معاملات میں نرمی داخل کردیتے ہیں۔‘‘
شرح…: جب اللہ تعالیٰ کسی گھر والوں کو پسند کرتے ہیں تو ان کو نرمی عطا کرتے ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ خود شفقت اور لطف و کرم والے ہیں ۔ہر معاملہ میں نرمی کو پسند کرتے ہیں اور نرمی کی بناء پر جو اشیاء و انعامات مہیا کرتے ہیں سختی سے اور دیگر وجوہ سے عطا نہیں کرتے۔
ہر بھلائی کا سبب نرمی ہے، چنانچہ جو نرمی سے محروم کیا گیا وہ درحقیقت بھلائی سے محروم ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۷۰۶۔
2- صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۷۰۴۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان گھر والوں پر اللہ تعالیٰ نرمی اس لیے داخل کرتے ہیں تاکہ اس وجہ سے ایسا بدلہ و ثواب دے جو کسی اور وجہ سے نہیں دیتا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں وہ مقام اور مرتبہ دے کہ لوگ ان کی اچھی تعریف کریں اور وہ اپنی مطلوبہ خواہشات کو حاصل کرسکیں اور ان کے مقاصد آسان ہوں اور آخرت میں مکمل اور کامل ثواب دے سکے، جو کہ سختی اور دوسری وجہ سے نہیں دیتا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ الرِّفْقَ لَا یَکُوْنُ فِيْ شَيْئٍ إِلاَّ زَانَہُ، وَلَا یُنْزِعُ مِنْ شَيْئٍ إِلاَّ شَانَہُ۔))1
’’ بلاشبہ نرمی جس چیز میں بھی ہوگی تو اسے خوبصورت بنا دے گی اور جس چیز سے بھی نکال لی جائے تو اسے عیب دار کردے گی۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم: ۶۶۰۲۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ناپسندیدہ بندہ

دنیا میں ناپسندیدگی اتاردی جاتی ہے:
بعض ایسے انسان ہیں جو حرام اقوال و افعال کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان پر ہمیشگی کرتے ہیں حتیٰ کہ رب تعالیٰ انہیں ناپسند کرنا شروع کردیتا ہے چنانچہ جب اللہ تعالیٰ اسے دشمن سمجھتا ہے تو جبریل کو بلاتا ہے کہ وہ بھی اسے ناپسند سمجھے اور اسی طرح آسمان والے بھی اسے مبغوض جانیں… پھر اس کے لیے ناپسندیدگی زمین پر اتاری جاتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ اللّٰہَ … إذَا أَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیْلَ فَیَقُوْلُ: إِنِّيْ أُبْغِضُ فُـلَانًا فَأَبْغِضْہُ، فَیُبْغِضُہُ جِبْرِیْلُ، ثُمَّ یُنَادِيْ فِيْ أَھْلِ السَّمَائِ إِنَّ اللّٰہَ یُبْغِضُ فُـلَانًا فَأَبْغِضُوْہُ فَیُبْغِضُوْنَہٗ، ثُمَّ تُوْضَعُ لَہُ الْبَغْضَائُ فِيْ الْأَرْضِ۔ ))1
’’ بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے دشمنی رکھتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلاتے ہیں اور فرماتے ہیں میں فلاں کا دشمن ہوں تو بھی اس کو دشمن سمجھ (فرمایا) جبریل علیہ السلام بھی اس کا دشمن ہوجاتا ہے۔ پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کردیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں کو دشمن سمجھتے ہیں، لہٰذا تم بھی اس سے دشمنی رکھو (فرمایا:) وہ بھی اسے دشمن بنا لیتے ہیں پھر زمین میں اس کے لیے دشمنی اتاری جاتی ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کے دشمنی رکھنے کے نتائج میں بندے کی بدبختی اور سزا ہے کہ زمین میں اس کے لیے انتشار ہوتا ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب: إذا أحب اللّٰہ عبدًا وضع لہ القبول في الأرض، رقم: ۶۷۰۵۔
 
Top