• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان

اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ وہ اکیلا اور تن تنہا پروردگار ہے ہے۔(نہ)اس کا کوئی شریک ہے نہ مددگار۔
رب سے مراد وہ ہستی ہے جو پوری مخلوق اور بادشاہی کی مالک ہو،اور حکم بھی صرف اسی کا چلتا ہو،پس اللہ تعالیٰ کے علاوہ (نہ) کوئی دوسرا خالق ہے نہ کوئی دوسرا مالک ہے،اور حاکم مطلق بھی وہی ہے۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا حاکم نہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ
ترجمہ: اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا (سورۃ الاعراف،آیت 54)
اور ایک مقام پر ارشاد ہوا:
ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ ٱلْمُلْكُ ۚ وَٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ
ترجمہ: یہی الله تمہارا رب ہے اسی کی بادشاہی ہے اور جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ ایک گھٹلی کے چھلکے کے مالک نہیں (سورۃ فاطر،آیت 13)
مخلوق میں سے کسی نے کبھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ربوبیت کا انکار نہیں کیا۔سوائے ان لوگوں کے جن کو تکبر کا مرض لاحق ہو گیا تھا لیکن وہ بھی جو کچھ کہتے تھے خود اس پر عقیدہ نہ رکھتے تھے جیسا کہ فرعون کے اس خطاب سے ظاہر ہے جو اس نے اس قوم سے کیا تھا:
فَقَالَ أَنَا۠ رَبُّكُمُ ٱلْأَعْلَىٰ ﴿24﴾
ترجمہ: کہنے لگا کہ تمہارا سب سے بڑا پروردگار میں ہوں (سورۃ النازعات،آیت 24)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے دعوائے فرعونی کو ان الفاظ میں بیان کیا:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرِى
ترجمہ: اے سردارو! میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا او رکوئی معبود ہے (سورۃ القصص ،آیت 38)
لیکن فرعون کا یہ دعوی عقیدے کی بنیاد پر نہیں تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَحَدُوا۟ بِهَا وَٱسْتَيْقَنَتْهَآ أَنفُسُهُمْ ظُلْمًۭا وَعُلُوًّۭا ۚ
ترجمہ: اور انہوں نے انکا ظلم اور تکبر سے انکار کرد یا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے (سورۃ النمل،آیت 14)
اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون سے جو کچھ فرمایا تھا،قرآن کریم میں اس کی حکایت یوں بیان ہوئی ہے،موسی علیہ السلام نے فرمایا:
قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ أَنزَلَ هَٰٓؤُلَآءِ إِلَّا رَبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّى لَأَظُنُّكَ يَٰفِرْعَوْنُ مَثْبُورًۭا ﴿102﴾
ترجمہ: انہوں نے کہا کہ تم یہ جانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے پروردگار کے سوا ان کو کسی نے نازل نہیں کیا۔ (اور وہ بھی تم لوگوں کے) سمجھانے کو۔ اور اے فرعون میں خیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤ گے (سورۃ بنی اسرائیل،آیت 102)
اسی طرح مشرکین عرب بھی اللہ تعالیٰ کی الوہیت ،یعنی اس کو ایک جاننے میں شرک کے باوجود اس کی "ربوبیت"کا اقرار کرتے تھے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُل لِّمَنِ ٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهَآ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿84﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿85﴾قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ ٱلسَّبْعِ وَرَبُّ ٱلْعَرْشِ ٱلْعَظِيمِ ﴿86﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿87﴾قُلْ مَنۢ بِيَدِهِۦ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍۢ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿88﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ ﴿89﴾
ترجمہ: ان سے پوچھو یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کا ہے اگر تم جانتے ہو وہ فوراً کہیں گے الله کاہے کہہ دو پھر تم کیوں نہیں سمجھتے ان سے پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے وہ فوراً کہیں گے الله ہے کہہ دوکیاپھر تم الله سے نہیں ڈرتے ان سے پوچھو کہ ہر چیز کی حکومت کس کے ہاتھ میں ہے اور وہ بچا لیتا ہے اور اسے کوئی نہیں بچا سکتا اگر تم جانتے ہو وہ فوراً کہیں گے الله ہی کے ہاتھ میں ہے کہہ دو پھرتم کیسے دیوانے ہو رہے ہو (سورۃ المومنون،آیت84-89)
اور ایک جگہ یوں ارشاد ہے:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ ٱلْعَزِيزُ ٱلْعَلِيمُ ﴿9﴾
ترجمہ: اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے کہ انہیں اس بڑے زبردست جاننے والے نے پیدا کیا ہے (سورۃ الزخرف،آیت 9)
ایک اور جگہ فرمایا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿87﴾
ترجمہ: اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے الله نے پھر کہا ں بہکے جا رہے ہیں (سورۃ الزخرف،آیت 87)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا امر (حکم) ،امر کونی و شرعی دووں پر مشتمل ہے جس طرح وہ کائنات کا مدبر اعلیٰ ہے،اسی طرح وہ اس کا قاضی بھی ہے،لہذا اپنی بہترین حکمت عملی کے مطابق وہ جو کچھ چاہتا ہے اس کا فیصلہ فرماتا ہے ۔وہ اس کائنات کا حاکم مطلق بھی ہے،چنانچہ عبادت احکام اور معاملات میں بتقاضائے مصلحت ،شریعت کے احکام نافذ فرماتا ہے۔جو فرد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو عبادت میں شریعت ساز،یا معاملات میں حاکم بنا لے وہ مشرک ہے اور اس کا ایمان غیر معتبر ہے۔

اسلام کے بنیادی عقائد از شیخ محمد بن صالح العثیمین​
 
Top