• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کے بعض احکامات کو ماننا اور بعض کا انکار؟

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ يأيها الذين ءامنوا ادخلوا في السلم كافة ﴾ ... سورة البقرة کہ ’’اے ایمان والو! سلامتی (اسلام) میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔‘‘

اللہ رب العٰلمین ہمارے خالق، مالک اور رازق ہیں، انہوں نے ہمیں پیدا کیا، جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے رب کی ہر ہر بات کو مانیں اور ان کے کسی بھی حکم سے سرتابی نہ کریں۔اور یہی ہمارا مقصدِ زندگی ہے، جسے ’عبادت‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ کوتاہی عام پائی جاتی ہے کہ لوگ بعض دینی احکامات پر عمل کرتے ہیں، اور بعض احکامات پر عمل نہیں کرتے، اور وہ اسے کچھ زیادہ برا نہیں سمجھتے، وہ تصور کرتے ہیں کہ جب ہم نے بہت سے احکامات پر عمل کر لیا ہے تو اگر بعض پر نہیں کریں گے، تو اس سے کچھ نقصان نہیں ہوگا، بعض لوگوں سے آپ نماز کے متعلق پوچھیں تو مکمل اطمینان کے ساتھ کہیں گے، جی نماز پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں، ہر روز کم از کم تین چار نمازیں پڑھ ہی لیتا ہوں، صبح کی نماز نہیں پڑھی جاتی کیونکہ اس وقت اٹھنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کا اصل مفہوم یہ نکلتا ہے کہ انسان در اصل اللہ کے حکم پر نہیں، بلکہ اپنی خواہش کے مطابق دین پر عمل کرتا ہے۔ اس کا دل کیا تو تین یا چار نمازیں پڑھ لیں، نہ دل کیا تو جو نماز چاہے چھوڑ دی، تو گویا یہ اللہ کی عبادت نہیں بلکہ اپنے نفس کی عبادت ہوئی۔ ﴿ أفرأيت من اتخذ إلهه هواه ﴾ ... سورة الفرقان کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو یہ ہے تو انسان دن میں پانچ نمازیں پڑھ سکتا ہے، اور یہ انسان پر کوئی ایسی مشقت نہیں جو انسان پوری ہی نہ کر سکے، ﴿ لا يكلف الله نفسا الا وسعها ﴾ ہمارا دین دینِ فطرت ہے۔

بعض لوگ ویسے ہر نماز روزہ زکوٰۃ اور حج وغیرہ سب اہتمام سے کرتے ہیں، لیکن معاملات میں، کاروبار میں، سیاست میں دینی احکامات پر عمل نہیں کرتے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم نے حقوق اللہ پر عمل کر لیا ہے تو بہت احسان کر دیا ہے، حقوق العباد وغیرہ پر عمل نہ بھی کریں تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں، حالانکہ یہ بھی پھر اللہ کی عبادت نہیں، بلکہ نفس کی عبادت ہے، کہ جتنا دل چاہا اللہ کی بات مان لی، اور جتنا دل نہ چاہا چھوڑ دی، اصل تو پھر دل ہوا نہ کہ اللہ رب العٰلمین کا حکم!

اللہ تعالیٰ کا ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ ہم دین پر مکمل طور پر عمل کریں: ﴿ يأيها الذين ءامنوا ادخلوا في السلم كافة ﴾ ... سورة البقرة کہ ’’اے لوگو! دین میں مکمل داخل ہوجاؤ۔‘‘ اور بعض احکامات پر عمل کرنا اور بعض پر عمل نہ کرنا، قرآن کریم کے مطابق یہ یہودیوں اور منافقین کا رویہ ہے، فرمان باری ہے: ﴿ أفتؤمنون ببعض الكتاب وتكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم إلا خزي في الحيوٰة الدنيا ويوم القيامة يردون إلى أشد العذاب ﴾ ... سورة البقرة کہ ’’(اے یہودیو!) کیا تم بعض کتاب پر عمل کرتے اور بعض کا انکار کرتے ہو، تو جو ایسا کرے اس کی سزا اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہ وہ دنیا میں رسوا ہو اور آخرت میں اسے سخت ترین عذاب دیا جائے۔‘‘

سورۃ البقرہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے یہی علامت منافقین کی بیان کی ہے کہ جو جو کام انہیں آسان لگتا ہے، کر لیتے ہیں، اور جو کام مشکل لگتا ہے، چھوڑ دیتے ہیں: ﴿ كلما أضاء لهم مشوا فيه وإذا أظلم عليهم قاموا ﴾

سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ میں بعض پر ایمان لانا اور بعض پر نہ لانے کو یقینی اور پکا کفر قرار دیا ہے، اور سخت ترین سزا کی وعید سنائی ہے: ﴿ إن الذين يكفرون بالله ورسله ويريدون أن يفرقوا بين الله ورسله ويقولون نؤمن ببعض ونكفر ببعض ويريدون أن يتخذوا بين ذلك سبيلا * أولئك هم الكافرون حقا وأعتدنا للكافرين عذابا مهينا ﴾

بعض لوگوں نے دین میں چھوٹے بڑے کاموں کی خود ساختہ تفصیل بنائی ہوئی ہے، کہ جی نماز روزہ وغیرہ بڑے احکامات ہیں، لیکن داڑھی، لباس وغیرہ کے معاملات چھوٹے کام ہیں، حالانکہ اگر یہ دونوں قسم کے احکامات ہمیں اللہ تعالیٰ اور ان کے نبی کریم ﷺ نے دئیے ہیں، تو در اصل کام بذاتِ خود بڑا چھوٹا نہیں ہوتا، بلکہ کہنے والے کے مطابق بڑا چھوٹا ہوتا ہے، اس کی سادہ سی دنیاوی مثال یہ ہے کہ اگر ایک عام آدمی کے ساتھ بڑا حادثہ بھی پیش آجائے تو اس کی میڈیا میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی، لیکن اگر وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم، صدر وغیرہ کو چھینک بھی آجائے تو یہ ایک بڑی خبر سمجھی جاتی ہے۔

بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ کی شخصیت ایسی ہے کہ ان کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں، جو کسی حکم کو ہلکا سمجھتا ہے، حالانکہ ہمارے دین نے اس کا حکم دیا ہے تو در اصل وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا معترف نہیں۔
جو کچھ اوپر ذکر کیا گیا، اس کا تعلق عقیدہ سے ہے، کہ انسان کو عقیدہ کی حد تک اللہ کے حکم کو ماننا ہے اور مکمل دین میں داخل ہونا ہے، ایک دو احکامات کو بھی اہمیت نہ دینے سے کفر لازم آئے گا، لیکن اگر انسان اپنا عقیدہ بہتر کر لے اور پھر عملاً اس سے بعض معاملات میں کوتاہی ہوجائے تو انسان خطا پتلا ہے، اللہ سے استغفار کرے گا تو اللہ معاف کر دیں گے، ان شاء اللہ!

واللہ اعلم!

اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!
 
Top