• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پہ پیدا کیا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پہ پیدا کیا ۔ یہ بات صحیح ہے اور متعدد احادیث سے ثابت ہے بلکہ صحیحین میں بھی روایت ہے ۔

چند روایات دیکھیں :

(1)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ مِنْ الْمَلائِكَةِ جُلُوسٌ فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ فَقَالَ السَّلامُ عَلَيْكُمْ فَقَالُوا السَّلامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ فَلَمْ يَزَلْ الْخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّى الآن۔(روى البخاري :6227و مسلم :2841)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا : اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوپیداکیا، ان (کے قد) کی لمبائی ساٹھ گز تھی، پھراللہ تعالی ٰنےفرمایاجاؤ فرشتوں کو سلام کرو اور جو کچھ وہ جواب دیں اسے غور سے سنو کیونکہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔حضرت آدم علیہ السلام نے(فرشتوں کےپاس جاکر)کہا السلام علیکم، فرشتوں نےجواب میں کہا السلام علیک ورحمۃاللہ، اور لفظ و رحمۃاللہ زیادہ کیا، پس جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگاوہ آدم علیہ السلام کی صورت پرہوگا،(آدم علیہ السلام ساٹھ گزکےتھےلیکن) اب تک مسلسل آدمیوں کا قد کم ہوتا جا رہاہے۔

(2)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيَجْتَنِبْ الْوَجْهَ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ ۔(مسلم : 2612)
ترجمہ : حضرت ابوہریری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے بھائی سے جھگڑا لڑائی کرو تو چہرے (پہ مارنے) سے بچو کیونکہ اللہ تعالی نے آدم کو اپنی صورت پہ پیدا کیا ہے ۔

(3)عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إذا قاتل أحدكم فليجتب الوجه فإن الله تعالى خلق آدم على صورة وجهه(روى ابن أبي عاصم :516)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم آپس میں لڑائی کرو تو چہرے سے بچو کیونکہ اللہ تعالی نے آدم کو اپنی صورت پہ بنایا ہے ۔

٭ البانی ؒ نے اس کی سندکو صحیح قرار دیا ہے ۔(تخريج كتاب السنة:516)

مذکورہ بالا تینوں روایات میں صورت کے ساتھ "ہ" ضمیر آئی ہے ، راحج قول کے مطابق یہ اللہ کی طرف لوٹتی ہے ۔ معنی ہوگا کہ آدم علیہ السلام اللہ کی صورت پہ پیدا کئے گئے ۔

یہ حدیث ظاہری طور پہ قرآن کی آیت سے تکراتی ہے ۔
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (سورة الشورى:11)
ترجمہ: اس کے جیسا کوئی نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔

گوکہ بظاہر قرآن کی آیت اور حدیث میں تکراؤ نظر آرہا ہے مگر حقیقت میں ان دونوں میں کوئی تکراؤ نہیں ہے ۔
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اللہ تعالی کی جمیع صفات پہ بغیر تحریف و تعطیل کے اور بغیر تکییف و تمثیل کے ایمان لائیں گے۔
تحریف : صفات یا اس کے معانی میں ہیرپھیر کرنا
تعطیل : صفات کا انکار کرنا
تکییف: صفات کی کیفیت بیان کرنا
تمثیل : صفات کی مثال بیان کرنا

بطور مثال : اللہ کے لئے ہاتھ آیا ہے ، ہم اللہ کی صفت ید پہ ایمان لائیں گے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی، انکار، کیفیت و تشبیہ نہیں بیان کریں گے ۔

اس لحاظ سے خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ (اللہ نے آدم کو اپنی صورت پہ پیدا کیا) کا مطلب ہوگا آدم علیہ السلام اللہ تعالی نے اپنی صفت پہ پیدا کیا ۔

یعنی آدم علیہ السلام بھی اللہ کی طرح سننے والے ، دیکھنے والے اور بولنے والے ہیں ۔اللہ کو ہاتھ ، پیر، آنکھ اور چہرہ ہے تو آدم علیہ السلام کو بھی ہاتھ ، پیر، آنکھ اور چہرہ ہے ۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جائے گاکہ آدم علیہ السلام کو آنکھ ہے تو وہ اللہ کے جیسی ہوگی ۔ تشبیہ اور مثال قائم نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ کے جیسا کوئی نہیں ، اس کی تشبیہ اور مثال نہیں دی جاسکتی ۔

واللہ اعلم
 
شمولیت
جنوری 12، 2018
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
اگر
اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پہ پیدا کیا ۔ یہ بات صحیح ہے اور متعدد احادیث سے ثابت ہے بلکہ صحیحین میں بھی روایت ہے ۔

چند روایات دیکھیں :

(1)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ مِنْ الْمَلائِكَةِ جُلُوسٌ فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ فَقَالَ السَّلامُ عَلَيْكُمْ فَقَالُوا السَّلامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ فَلَمْ يَزَلْ الْخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّى الآن۔(روى البخاري :6227و مسلم :2841)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا : اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوپیداکیا، ان (کے قد) کی لمبائی ساٹھ گز تھی، پھراللہ تعالی ٰنےفرمایاجاؤ فرشتوں کو سلام کرو اور جو کچھ وہ جواب دیں اسے غور سے سنو کیونکہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔حضرت آدم علیہ السلام نے(فرشتوں کےپاس جاکر)کہا السلام علیکم، فرشتوں نےجواب میں کہا السلام علیک ورحمۃاللہ، اور لفظ و رحمۃاللہ زیادہ کیا، پس جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگاوہ آدم علیہ السلام کی صورت پرہوگا،(آدم علیہ السلام ساٹھ گزکےتھےلیکن) اب تک مسلسل آدمیوں کا قد کم ہوتا جا رہاہے۔

(2)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيَجْتَنِبْ الْوَجْهَ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ ۔(مسلم : 2612)
ترجمہ : حضرت ابوہریری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے بھائی سے جھگڑا لڑائی کرو تو چہرے (پہ مارنے) سے بچو کیونکہ اللہ تعالی نے آدم کو اپنی صورت پہ پیدا کیا ہے ۔

(3)عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إذا قاتل أحدكم فليجتب الوجه فإن الله تعالى خلق آدم على صورة وجهه(روى ابن أبي عاصم :516)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم آپس میں لڑائی کرو تو چہرے سے بچو کیونکہ اللہ تعالی نے آدم کو اپنی صورت پہ بنایا ہے ۔

٭ البانی ؒ نے اس کی سندکو صحیح قرار دیا ہے ۔(تخريج كتاب السنة:516)

مذکورہ بالا تینوں روایات میں صورت کے ساتھ "ہ" ضمیر آئی ہے ، راحج قول کے مطابق یہ اللہ کی طرف لوٹتی ہے ۔ معنی ہوگا کہ آدم علیہ السلام اللہ کی صورت پہ پیدا کئے گئے ۔

یہ حدیث ظاہری طور پہ قرآن کی آیت سے تکراتی ہے ۔
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (سورة الشورى:11)
ترجمہ: اس کے جیسا کوئی نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔

گوکہ بظاہر قرآن کی آیت اور حدیث میں تکراؤ نظر آرہا ہے مگر حقیقت میں ان دونوں میں کوئی تکراؤ نہیں ہے ۔
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اللہ تعالی کی جمیع صفات پہ بغیر تحریف و تعطیل کے اور بغیر تکییف و تمثیل کے ایمان لائیں گے۔
تحریف : صفات یا اس کے معانی میں ہیرپھیر کرنا
تعطیل : صفات کا انکار کرنا
تکییف: صفات کی کیفیت بیان کرنا
تمثیل : صفات کی مثال بیان کرنا

بطور مثال : اللہ کے لئے ہاتھ آیا ہے ، ہم اللہ کی صفت ید پہ ایمان لائیں گے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی، انکار، کیفیت و تشبیہ نہیں بیان کریں گے ۔

اس لحاظ سے خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ (اللہ نے آدم کو اپنی صورت پہ پیدا کیا) کا مطلب ہوگا آدم علیہ السلام اللہ تعالی نے اپنی صفت پہ پیدا کیا ۔

یعنی آدم علیہ السلام بھی اللہ کی طرح سننے والے ، دیکھنے والے اور بولنے والے ہیں ۔اللہ کو ہاتھ ، پیر، آنکھ اور چہرہ ہے تو آدم علیہ السلام کو بھی ہاتھ ، پیر، آنکھ اور چہرہ ہے ۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جائے گاکہ آدم علیہ السلام کو آنکھ ہے تو وہ اللہ کے جیسی ہوگی ۔ تشبیہ اور مثال قائم نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ کے جیسا کوئی نہیں ، اس کی تشبیہ اور مثال نہیں دی جاسکتی ۔

واللہ اعلم
سوال۔ اگر اللہ تعالی کی آنکھ ھے تو پھر اللہ تعالی دیکھنے میں آنکھ کا محتاج نہ ہوگا نعوذ باللہ
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
اگر

سوال۔ اگر اللہ تعالی کی آنکھ ھے تو پھر اللہ تعالی دیکھنے میں آنکھ کا محتاج نہ ہوگا نعوذ باللہ
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

یہ سوال شیطانی وسوسہ ہے، شیطان کی طرف سے ہے، بدعتی اور گمراہ لوگوں کا سوال ہے، سلف صالحین میں سے کسی نے اس طرح کا سوال اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق نہیں کیا، گمراہ فرقے جیسے جہمی وغیرہ کا سوال ہے یہ، اس طرح کے سوالات سے بچنا چاہیے اور جب ایسی خرافات دماغ میں آئیں تو اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے شیطان سے اور ایسی سونچ سے روک جانا چاہیے۔


صحيح البخاري
بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ
ابلیس اور اس کی فوج کی صفت کا بیان:

٣٢٧٦ - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خَلَقَ كَذَا، مَنْ خَلَقَ كَذَا، حَتَّى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ؟ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ "

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور تمہارے دل میں پہلے تو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی، فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ اور آخر میں بات یہاں تک پہنچاتا ہے کہ خود تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب کسی شخص کو ایسا وسوسہ ڈالے تو اللہ سے پناہ مانگے اور شیطانی خیال کو چھوڑ دے۔“

اللّٰہ تعالٰی کے اسماء و صفات میں اہل سنت والجماعت، اہل حدیث کا طریقہ

اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ میں جو اللہ کے اسماء اور صفات وارد ہوئے ہیں، اہل سنت والجماعت ان کو اس طور پر ثابت کرتے ہیں جو اس کی شایان شان ہے، تحریف، تعطیل، تمثیل، زیادتی اور نقصان کے بغیر، بلکہ ان کو ویسے ہی ثابت کرتے ہیں جیسا کہ ان کا ذکر آیا ہے اور ویسے ہی ان کو گزارتے ہیں، جس طرح وہ وارد ہوئے ہیں یہ ایمان رکھتے ہوئے کہ وہ حق ہیں، اور بے شک وہ اللہ کے لئے اس طور پر ثابت ہیں جو اس کی شان کے مطابق ہے، ان اسماء و صفات میں اللہ اپنے مخلوق سے کسی بھی اعتبار سے مشابہ نہیں، جیسا کہ اللہ عز وجل نے فرمایا: ﺍﺱ ﺟﯿﺴﯽ ﻛﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ، ﻭﮦ ﺳﻨﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻜﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ۔ ( فتاویٰ شیخ بن باز رحمہ اللّٰہ سے ماخوذ)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تفسیر میں اللہ تعالی کے فرمان: " إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ " ﺑﮯ ﺷﻚ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﺍللہ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﻛﻮ ﭼﮫ ﺭﻭﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﯿﺎ ﮨﮯ، ﭘﮭﺮ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮﺍ" کی تفسیر کرتے ہوئے بہت عمدہ بات کہی جسے نفع عام کی غرض سے نقل کرنا بہتر سمجھتا ہوں، ابن کثیر رحمہ اللہ نے جو بات کہی وہ درج ذیل ہے : "اس مقام پر لوگوں نے کئی طرح کی باتیں ذکرکی ہيں جسے تفصیل سے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے، ہم اس مقام پر سلف صالحین مثلا امام مالک،امام اوزاعی، امام ثوری، لیث بن سعد،امام شافعی، امام احمد، اسحاق بن راہویہ وغیرہ قدیم وجدید ائمہ کے مسلک کے مطابق عمل کرینگے، وہ مسلک یہ ہے کہ ان آیتوں کو جس طرح نازل ہوئی ہیں اسی معنی ميں اسے جاری و ساری مانيں گے، یعنی نہ تو کیفیت بیان کرینگے نہ تشبیہ دینگے اور نہ ہی تعطیل کرینگے، اور تشبیہ دینے والوں کے ذہن میں جو بات ظاہری طور پر آجاتی ہے اس معنی کی اللہ سے نفی کردی گئی ہے، کیونکہ مخلوقات میں سے کوئی بھی مخلوق اللہ تعالی کے مشابہ نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے مثل کوئی چیز ہے، وہ بہت سننے اور دیکھنے والا ہے، بلکہ معاملہ یہ ہے جیسا کہ ائمہ کرام بیان کرتے ہیں، ان میں سے نعیم بن حماد الخزاعی شیخ البخاری ہیں، کہتے ہیں: جس شخص نے اللہ کو کسی مخلوق کے مشابہ قرار ديا اس نے کفر کیا، اسی طرح جو شخص اللہ کے کسی وصف کو جو اس نے اپنے لیے بیان فرمایا ہے، انکار کرے تو اس نے بھی کفر کیا، اور جن اوصاف سے اللہ نے خود کو متصف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وصف بیان کیا اس میں تشبیہ نہیں ہے، لہذا جو شخص اللہ تعالی کے لیے وہی اوصاف ثابت کرے جو صریح آیات اور صحیح احادیث میں مذکور ہیں، اور اللہ تعالی کی عظمت کے شایان شان بیان کرے، نیز اللہ تعالی کو نقائص اور عیوب سے منزہ کرے وہی ہدایت یافتہ رہا" ابن کثير رحمہ اللہ کا کلام ختم ہوا۔ ( فتاویٰ شیخ بن باز رحمہ اللّٰہ سے ماخوذ)
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
امام دارمی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی کتاب "نقض على المريسي الجهمي العنيد فيما افترى على الله من التوحيد" میں اللہ تعالیٰ کی صفت دیکھنے اور سننے کو ثابت کرتے ہوئے اور جہمی بشر مریسی پر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ کی آنکھیں ہیں جس سے وہ دیکھتا ہے، پھر درج ذیل دلائل پیش کئے ہیں:

قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِمُوسَى {وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي﴾ [سُورَة طه، آيَة: ٣٩]
اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: «تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے ہو»

اور نوح علیہ السلام کے قصے میں فرمایا: وَقَالَ: {تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا} [سُورَة الْقَمَر: ١٤]( نوح کی کشتی) ہمارے آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی۔

وَٱصْنَعِ ٱلْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَـٰطِبْنِى فِى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ‌ۚ إِنَّہُم مُّغْرَقُونَ [سُورَة هود، آيَة: ٣٧]
اور ایک کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے تیار کر اور ﻇالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت (سفارش) نہ کر وه پانی میں ڈبو دیئے جانے والے ہیں۔

ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَوْمًا بَيْنَ ظَهْرَيِ النَّاسِ المَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، أَلاَ إِنَّ المَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ العَيْنِ اليُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ۔ ( صحيح البخاري: ٣٤٣٩)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے، لیکن دجال داہنی آنکھ سے کانا ہو گا، اس کی آنکھ اٹھے ہوئے انگور کی طرح ہو گی۔
 
Top