طارق بن زیاد
مشہور رکن
- شمولیت
- اگست 04، 2011
- پیغامات
- 324
- ری ایکشن اسکور
- 1,719
- پوائنٹ
- 139
نوجوانوں کے لئے/ رب سے تعلق
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
ایک نوجوان انجینئر دوست نے جاب کی تلاش میں آسانی کے لئے دعاء کا کہا ہے۔ دعاء تو ہم ویسے بھی اپنے تمام نوجوان بچوں کو دیتے ہی ہیں اور آئندہ بھی دینگے مگر ایک بات سمجھ لیجئے۔ زندگی میں سٹرگل یعنی مشکلات کا ایک دور آتا ہے۔ یہ دور زندگی کے شروع میں، درمیان میں اور یا آخر میں یعنی کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب قدرت اپنے بندے کو اس کی پوری قوت برداشت کی حد تک نچوڑتی ہے۔ جو کھوٹے ہوتے ہیں وہ یا تو خدا کے ہی باغی ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ خدا نام کی کوئی ہستی ہے ہی نہیں ورنہ میری دعائیں بے اثر نہ ہوتیں، خدا آتا اور مجھے بچا لیتا۔ گویا معاذاللہ خدا نہ ہوا ان کے باپ کا نوکر ہوگیا۔ یہ کھوٹا ہونے کا ثبوت یوں ہے کہ خدا کو فقط ٹربل شوٹر سمجھ لینا بھی بدترین خود غرضی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان حالات میں خودکشیاں وغیرہ بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن جو کھرے ہوتے ہیں وہ دو چیزوں کا دامن نہیں چھوڑتے۔ ایک خدا اور دوسری "امید"۔
میرے خیال میں زندگی کے اوائل بالخصوص نوجوانی میں سٹرگل کا دور آنا خوش قسمتی ہے۔ کیونکہ یہ بھرپور ہمت اور قوت والا دور ہوتا ہے۔ اس میں مشکلات کا مقابلہ آسان ہوتا ہے اور اولاد کا بوجھ بھی نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے۔ زندگی کے درمیانی حصے میں یہ قدرے زیادہ مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ انسان اپنی فیملی کی تعمیر سے گزر رہا ہوتا ہے یوں اس کا اثر بچوں پر بھی پڑنے لگتا ہے۔ عمر کے آخری حصے میں مشکلات کے دور کا آنا سب سے مہلک ہوتا ہے۔ جوان اولاد کا سامنا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جو بہن بھائی ساری زندگی آپ سے قدم قدم پر رہنمائی لیتے رہے ہوں وہ پہلے مشیر اور پھر باپ بن جاتے ہیں۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ اپنے حصے کے اس مشکل پیریڈ سے گزر رہے ہیں جو سب پر آتا ہے بلکہ وہ آپ کے عیب تلاش کرکے آپ کا گوشت کھانے لگ جاتے ہیں۔
سو بچہ لوگ ! میں آپ میں سے سب سے زیادہ سٹرگل سہنے والا انسان ہوں۔ میں صرف اپنا بچپن معمولی سا بیان کردوں تو آپ کے آنسو نہ تھم سکیں۔ میں اپنی جوانی اور اس موجودہ عمر کا ایک دن آپ کے سامنے پوری طرح رکھ دوں تو آپ سانس لینا بھول جائیں۔ لہجے کی یہ تلخی بے سبب نہیں ہے۔ لوگ زندگی جیتے ہیں۔ میں اسے 49 برس سے بھگت رہا ہوں۔ خدا آپ کو میری مسکراتی دیوار کے اس پار کا منظر نہ دکھائے۔ لیکن احسان میرے رب کا یہ ہے کہ میں اپنے خدا سے چمٹا ہوا ہوں۔ میں اسے ایک ہی بات کہتا ہوں کہ
"میرے رب اب بھی آپ کا دیا زیادہ ہے اور وہ بہت کم ہے جو نہیں دیا"
نتیجہ یہ ہے کہ وہ ہر مشکل میں تھامنے آجاتا ہے۔ میرے پاس طارق کی انجینئرنگ یونیورسٹی کی فیس کے ایک چوتھائی کا بھی بندوبست نہیں تھا۔ میرے اللہ نے اسے کامسیٹس جیسی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کروا دی۔ اب وقاص کے لئے بھی وہی صورتحال ہے۔ اسے یونیورسٹی جانا ہے لیکن فیس نہیں ہے۔ کیا وہ محروم رہ جائے گا ؟ نہیں ! مجھے یقین کی حد تک امید ہے کہ یونیورسٹی جائے گا۔ اور میرا اللہ بھیجے گا۔
سٹرگل کرتے بچے دو باتیں اچھی طرح سمجھ لیں۔ ایک یہ کہ مشکلات کا سامنا کیجئے ان سے گھبرائے مت۔ یہ ہمالیہ جیسے پہاڑ اور بحر الکاہل جیسے سمندر اللہ نے آپ کے لئے مسخر کر رکھے ہیں اور آپ کا یہ حال ہے کہ معمولی سی مشکلات سے گھبرا جاتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ گھبرانا بند کیجئے۔ اور دوسرا کام یہ کیجئے کہ یہ جو پانچ وقت کی نماز والا احسان آپ اپنے رب پر چڑھا کر فارغ ہوجاتے ہیں اس سے تھوڑا آگے بڑھئے۔ تنہائی میں اپنے رب سے گپیں لگانے کی عادت ڈالئے۔ بالکل بے تکلف دوست کی طرح اس کو یوں اپنی سٹوریاں سنایا کیجئے جیسے وہ جانتا نہ ہو۔ اسے بتایا کیجئے کہ آپ اس کی عظمت کے حوالے کیا کیا سوچتے ہیں۔ اس سے بعض سوالات پوچھنے شروع کیجئے۔ غرضیکہ اپنے لنگوٹئے کے ساتھ آپ کا جس طرح کا بے حجاب اور بے تکلف تعلق ہے ویسا ہی اس سے قائم کیجئے۔ پھر دیکھئے تماشا کہ جو نظر نہیں آتا وہ آپ کے آس پاس "محسوس" کیسے ہوتا ہے۔ اگر آپ کے ایک ایک سوال کا جواب اس نے نہ دیا تو آکر میرا گریبان پھاڑ دیجئے گا۔
مگر یہ سمجھ لیجئے کہ کبھی سوال کا جواب یوں ملے گا کہ آپ نے ٹی وی آن کیا تو وہاں کوئی صاحب علم اسی سوال کے جواب پر روشنی ڈال رہا ہوگا۔ کبھی منبر پر بیٹھا مولوی یوں بولتا نظر آئے گا جیسے آپ نے سوال اسی سے پوچھا ہو۔ کبھی کلاس میں کھڑا پروفیسر کسی تھیوری کی گتھی سلجھاتا نظر آئے گا مگر وہی سلجھاؤ درحقیقت آپ کے سوال کا جواب ہوگا۔ کبھی کوئی مہمان آجائے گا اور باتوں باتوں میں آپ کے ہی سوال پر بات شروع کرکے آپ کی الجھن دور کر جائے گا۔ یہ عجیب ہی دنیا ہے۔ اپنے رب کا یہ رسپانس اپنی نظروں سے دیکھنے کے لئے آپ کو اس سے یاری لگانی ہوگی۔ جو آپ کے سوالات کے جوابات تک دینے لگے گا وہ مشکل میں آپ کی پکار پر آپ کو بھول جائے گا ؟ آپ نے اسے خدا بنایا کب ہے ؟ ایک خود غرضی والا تعلق قائم کر رکھا ہے اور اس میں بھی وہ دعاء قبول کرنے میں دوچار دن لگادے تو واویلا شروع۔ اس سے دوستی لگائے اور پھر یہ تماشا بھی اپنی آنکھوں سے دیکھئے کہ جسے آپ نظر شوق سے دیکھ لیں اس کی ہی زندگی سنورنے لگ جائے۔ جو آپ کا دل چیز دے اسے سڑک پر گزری کوئی گاڑی چیر دے اور نوبت یہ ہوجائے کہ جو آپ کا دل دکھا دے آپ فورا اس کے لئے خیر کی دعائیں مانگنی شروع کردیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔
یہ میں پڑھی ہوئی باتیں نہیں کر رہا کہ آپ کو کتابوں میں مل جائیں۔ مصیبت یہ ہے کہ پیروں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے لاکھوں کلومیٹر طویل ایسی موٹرویز بنا ڈالی ہیں جن کے کنارے لگے سائن بورڈز پر درج ہے کہ وہ وظیفہ کرو، یہ اوراد کرو، فلاں چلہ کاٹو۔ وہ والا وظیفہ سوا لاکھ مرتبہ اور وہ والا 90 راتوں تک کرو۔ سب پیدا گیری کے دھندے ہیں اور آپ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ جتنا حضرت کا حلقہ وسیع ہورہا ہے اتنا ہی حضرت کروڑپتی سے ارب پتی ہوئے جارہے ہیں۔ جس تصوف کی بنیاد ہی دنیا سے بے رغبتی پر رکھی گئی تھی اس تصوف کے 99 فیصد پیر اب ارب پتی ہیں۔ سادہ سی بات ہے یار ! جہاں آپ بیٹھ گئے وہیں آپ کا رب بھی بیٹھا ہے، جہاں آپ کھڑے ہوگئے وہیں آپ کا رب بھی کھڑا ہے۔ گپ شروع کردیجئے۔ دو چار ہفتے ہی آپ نے گپیں لگانی ہیں اس کے بعد تو آپ کے اساتذہ، آپ کے کلاس فیلوز، آپ کے عزیزوں، اور آپ کے ملاقاتیوں کی زبان میں خدا بولنا شروع کردے گا۔ تب آپ کا خود ہی تلاوت اور وظائف کو جی کرنے لگے گا۔ اور وہ ہوں گے اصل وظائف اور اصل تلاوتیں و عبادتیں !
از رعایت اللہ فاروقی
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
ایک نوجوان انجینئر دوست نے جاب کی تلاش میں آسانی کے لئے دعاء کا کہا ہے۔ دعاء تو ہم ویسے بھی اپنے تمام نوجوان بچوں کو دیتے ہی ہیں اور آئندہ بھی دینگے مگر ایک بات سمجھ لیجئے۔ زندگی میں سٹرگل یعنی مشکلات کا ایک دور آتا ہے۔ یہ دور زندگی کے شروع میں، درمیان میں اور یا آخر میں یعنی کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب قدرت اپنے بندے کو اس کی پوری قوت برداشت کی حد تک نچوڑتی ہے۔ جو کھوٹے ہوتے ہیں وہ یا تو خدا کے ہی باغی ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ خدا نام کی کوئی ہستی ہے ہی نہیں ورنہ میری دعائیں بے اثر نہ ہوتیں، خدا آتا اور مجھے بچا لیتا۔ گویا معاذاللہ خدا نہ ہوا ان کے باپ کا نوکر ہوگیا۔ یہ کھوٹا ہونے کا ثبوت یوں ہے کہ خدا کو فقط ٹربل شوٹر سمجھ لینا بھی بدترین خود غرضی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان حالات میں خودکشیاں وغیرہ بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن جو کھرے ہوتے ہیں وہ دو چیزوں کا دامن نہیں چھوڑتے۔ ایک خدا اور دوسری "امید"۔
میرے خیال میں زندگی کے اوائل بالخصوص نوجوانی میں سٹرگل کا دور آنا خوش قسمتی ہے۔ کیونکہ یہ بھرپور ہمت اور قوت والا دور ہوتا ہے۔ اس میں مشکلات کا مقابلہ آسان ہوتا ہے اور اولاد کا بوجھ بھی نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے۔ زندگی کے درمیانی حصے میں یہ قدرے زیادہ مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ انسان اپنی فیملی کی تعمیر سے گزر رہا ہوتا ہے یوں اس کا اثر بچوں پر بھی پڑنے لگتا ہے۔ عمر کے آخری حصے میں مشکلات کے دور کا آنا سب سے مہلک ہوتا ہے۔ جوان اولاد کا سامنا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جو بہن بھائی ساری زندگی آپ سے قدم قدم پر رہنمائی لیتے رہے ہوں وہ پہلے مشیر اور پھر باپ بن جاتے ہیں۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ اپنے حصے کے اس مشکل پیریڈ سے گزر رہے ہیں جو سب پر آتا ہے بلکہ وہ آپ کے عیب تلاش کرکے آپ کا گوشت کھانے لگ جاتے ہیں۔
سو بچہ لوگ ! میں آپ میں سے سب سے زیادہ سٹرگل سہنے والا انسان ہوں۔ میں صرف اپنا بچپن معمولی سا بیان کردوں تو آپ کے آنسو نہ تھم سکیں۔ میں اپنی جوانی اور اس موجودہ عمر کا ایک دن آپ کے سامنے پوری طرح رکھ دوں تو آپ سانس لینا بھول جائیں۔ لہجے کی یہ تلخی بے سبب نہیں ہے۔ لوگ زندگی جیتے ہیں۔ میں اسے 49 برس سے بھگت رہا ہوں۔ خدا آپ کو میری مسکراتی دیوار کے اس پار کا منظر نہ دکھائے۔ لیکن احسان میرے رب کا یہ ہے کہ میں اپنے خدا سے چمٹا ہوا ہوں۔ میں اسے ایک ہی بات کہتا ہوں کہ
"میرے رب اب بھی آپ کا دیا زیادہ ہے اور وہ بہت کم ہے جو نہیں دیا"
نتیجہ یہ ہے کہ وہ ہر مشکل میں تھامنے آجاتا ہے۔ میرے پاس طارق کی انجینئرنگ یونیورسٹی کی فیس کے ایک چوتھائی کا بھی بندوبست نہیں تھا۔ میرے اللہ نے اسے کامسیٹس جیسی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کروا دی۔ اب وقاص کے لئے بھی وہی صورتحال ہے۔ اسے یونیورسٹی جانا ہے لیکن فیس نہیں ہے۔ کیا وہ محروم رہ جائے گا ؟ نہیں ! مجھے یقین کی حد تک امید ہے کہ یونیورسٹی جائے گا۔ اور میرا اللہ بھیجے گا۔
سٹرگل کرتے بچے دو باتیں اچھی طرح سمجھ لیں۔ ایک یہ کہ مشکلات کا سامنا کیجئے ان سے گھبرائے مت۔ یہ ہمالیہ جیسے پہاڑ اور بحر الکاہل جیسے سمندر اللہ نے آپ کے لئے مسخر کر رکھے ہیں اور آپ کا یہ حال ہے کہ معمولی سی مشکلات سے گھبرا جاتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ گھبرانا بند کیجئے۔ اور دوسرا کام یہ کیجئے کہ یہ جو پانچ وقت کی نماز والا احسان آپ اپنے رب پر چڑھا کر فارغ ہوجاتے ہیں اس سے تھوڑا آگے بڑھئے۔ تنہائی میں اپنے رب سے گپیں لگانے کی عادت ڈالئے۔ بالکل بے تکلف دوست کی طرح اس کو یوں اپنی سٹوریاں سنایا کیجئے جیسے وہ جانتا نہ ہو۔ اسے بتایا کیجئے کہ آپ اس کی عظمت کے حوالے کیا کیا سوچتے ہیں۔ اس سے بعض سوالات پوچھنے شروع کیجئے۔ غرضیکہ اپنے لنگوٹئے کے ساتھ آپ کا جس طرح کا بے حجاب اور بے تکلف تعلق ہے ویسا ہی اس سے قائم کیجئے۔ پھر دیکھئے تماشا کہ جو نظر نہیں آتا وہ آپ کے آس پاس "محسوس" کیسے ہوتا ہے۔ اگر آپ کے ایک ایک سوال کا جواب اس نے نہ دیا تو آکر میرا گریبان پھاڑ دیجئے گا۔
مگر یہ سمجھ لیجئے کہ کبھی سوال کا جواب یوں ملے گا کہ آپ نے ٹی وی آن کیا تو وہاں کوئی صاحب علم اسی سوال کے جواب پر روشنی ڈال رہا ہوگا۔ کبھی منبر پر بیٹھا مولوی یوں بولتا نظر آئے گا جیسے آپ نے سوال اسی سے پوچھا ہو۔ کبھی کلاس میں کھڑا پروفیسر کسی تھیوری کی گتھی سلجھاتا نظر آئے گا مگر وہی سلجھاؤ درحقیقت آپ کے سوال کا جواب ہوگا۔ کبھی کوئی مہمان آجائے گا اور باتوں باتوں میں آپ کے ہی سوال پر بات شروع کرکے آپ کی الجھن دور کر جائے گا۔ یہ عجیب ہی دنیا ہے۔ اپنے رب کا یہ رسپانس اپنی نظروں سے دیکھنے کے لئے آپ کو اس سے یاری لگانی ہوگی۔ جو آپ کے سوالات کے جوابات تک دینے لگے گا وہ مشکل میں آپ کی پکار پر آپ کو بھول جائے گا ؟ آپ نے اسے خدا بنایا کب ہے ؟ ایک خود غرضی والا تعلق قائم کر رکھا ہے اور اس میں بھی وہ دعاء قبول کرنے میں دوچار دن لگادے تو واویلا شروع۔ اس سے دوستی لگائے اور پھر یہ تماشا بھی اپنی آنکھوں سے دیکھئے کہ جسے آپ نظر شوق سے دیکھ لیں اس کی ہی زندگی سنورنے لگ جائے۔ جو آپ کا دل چیز دے اسے سڑک پر گزری کوئی گاڑی چیر دے اور نوبت یہ ہوجائے کہ جو آپ کا دل دکھا دے آپ فورا اس کے لئے خیر کی دعائیں مانگنی شروع کردیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔
یہ میں پڑھی ہوئی باتیں نہیں کر رہا کہ آپ کو کتابوں میں مل جائیں۔ مصیبت یہ ہے کہ پیروں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے لاکھوں کلومیٹر طویل ایسی موٹرویز بنا ڈالی ہیں جن کے کنارے لگے سائن بورڈز پر درج ہے کہ وہ وظیفہ کرو، یہ اوراد کرو، فلاں چلہ کاٹو۔ وہ والا وظیفہ سوا لاکھ مرتبہ اور وہ والا 90 راتوں تک کرو۔ سب پیدا گیری کے دھندے ہیں اور آپ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ جتنا حضرت کا حلقہ وسیع ہورہا ہے اتنا ہی حضرت کروڑپتی سے ارب پتی ہوئے جارہے ہیں۔ جس تصوف کی بنیاد ہی دنیا سے بے رغبتی پر رکھی گئی تھی اس تصوف کے 99 فیصد پیر اب ارب پتی ہیں۔ سادہ سی بات ہے یار ! جہاں آپ بیٹھ گئے وہیں آپ کا رب بھی بیٹھا ہے، جہاں آپ کھڑے ہوگئے وہیں آپ کا رب بھی کھڑا ہے۔ گپ شروع کردیجئے۔ دو چار ہفتے ہی آپ نے گپیں لگانی ہیں اس کے بعد تو آپ کے اساتذہ، آپ کے کلاس فیلوز، آپ کے عزیزوں، اور آپ کے ملاقاتیوں کی زبان میں خدا بولنا شروع کردے گا۔ تب آپ کا خود ہی تلاوت اور وظائف کو جی کرنے لگے گا۔ اور وہ ہوں گے اصل وظائف اور اصل تلاوتیں و عبادتیں !
از رعایت اللہ فاروقی