• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ نے ان پر تباہی پھیر دی، اور کافروں کیلئے اسی طرح کے کئی ہلاکت خیز عزاب ہیں

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
بسم الله الرحمن الرحيم

شیخ ابو حمزہ القرشی حفظہ اللہ کے صوتی خطاب:"دَمَّرَ الله عَلَيْهِمْ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا" کا اردو ترجمہ بعنوان: "اللہ نے ان پر تباہی پھیر دی، اور کافروں کیلئے اسی طرح کے کئی ہلاکت خیز عزاب ہیں"


بے شک تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں، ہم اسی کی ہم حمد بیان کرتے ہیں، اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہیں، اور ہم اللہ سے اپنے نفس کی شرر انگیزیوں سے اور اپنے اعمال کی برائیوں سے پناہ مانگتے ہیں، اور جسے وہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اما بعد!۔۔۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ


ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا ڈالیں، جبکہ اللہ تو اپنے نور کو پورا کرکے رہنے والا ہے اگرچہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے، وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ برحق دے کر بھیجا تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے، بھلے کافروں کو لاکھ ناگوار گزرے۔

[سورة الصف، آیت: ۸، ۹]


وہ ذاتِ باری تعالی جو بزرگ و برتر ہے اور اس کے نام پاک و طاہر ہیں،(اس آیت میں) اس نے اپنے نور کو بجھا ڈالنے کیلئے کفار کیجاری کوششوں کو ذکر فرمایا ہے، اور وہ اسی مقصد کو پانے کیلئے موحدین پر اپنے مسلسل عسکری و میڈیائی حملوں کے ذریعے جُتے ہوئے ہیں، ایسی جنگ جو ہر میدان میںجاری ہے، یہ سب اس لئے ہے کہ وہ کسی طرح اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا ڈالیں، بعد اس کے کہ وہ اس کی رحمت کے ساتھ پھیل چکا ہے اور وہ نور موحدین کو راہِ ہدایت دکھا چکا ہے۔

پس انہوں نے اس کیلئے کتنے ہی بگل باجوں کو کرائے پر لے لیا اور کتنے ہی طاغوتی ملاؤں اور رذالت کے مددگاروں کی داڑھیوں کو خرید لیا تاکہ وہ دولتِ اسلامیہ میں کیڑے نکالیں اور اس پر گھٹیا الزام تراشی کرسکیں، اور اس کی اصل حقیقت اور اس کے عقیدے کو اور دین و ملت کے دفاع میں اس کے جہاد کو مسخ کرڈالیں، اور اس لئے کہ وہ اس کی قیادت اور اس کے سپاہیوں پر طعن و تشنیع کریں کہ جنہوں نے اس پاک ذات کے کلمے کو بلند کرنے کیلئے اپنے خون کو ارزاں کردیا اور ان کے جسم چیتھڑے چیتھڑے ہوگئے۔

ان کے ان سب ہتھکنڈوں کے باوجود اللہ کا نور پھر بھی ضَو فشاں ہے ،اور اس پاک ذات کے فضل سے موحدین کا جہاد پھر بھی جاری و ساری ہے، پس ہم صلیب کے پاسدار امریکا اور اس کے جوتا چاٹ عرب و عجم کے حکمرانوں سے کہتے ہیں:

تحقیق تم دولتِ اسلامیہ سے جنگ کا مزہ تو اسی وقت سے چکھ چکے ہو کہ جب جہاد صرف عراق تک محدود تھا، یعنی فلوجۃ، رمادی، شمالی و جنوبی بغداد، دیالی، صلاح الدین اور موصل کے کارزاروں میں، اور اس کے بعد تم نے مجاہدین کو ختم کرڈالنے کا گمان کرلیا جس کا تم نے بارہا کھلے عام اعلان بھی کیا، اور بعد ازاں اللہ کے فضل سے اس کے مزید پھیلاؤ اور اس کے سپاہیوں کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے تم اپنے ہر اعلان کے بعد بوکھلا کر رہ گئے۔

اور جب صلیبیوں نے سر زمینِ عراق پر اپنے قدم رکھنے پر خوشیاں منائیں تو امریکی طاغوت بش نے اپنے جہاز بردار بیڑے پر نکل کر اس مہم کو کامیابی سے سر کرنے کا اعلان کیا کہ جس کا اس نے اپنے پیروکاروں سے وعدہ کر رکھا تھا اور وہ اپنے تئیں اس آسان جنگ پر خوش ہو رہا تھا جبکہ یہ بھی طے ہوچکا تھا کہ اس کے سپاہی چند ہی ماہ میں واپس پلٹ جائیں گے، لیکن اس ناکام و نامراد کو یہ نہیں پتا تھا کہ اس کی فوج کیلئے مشکل ترین مرحلہ تو اب شروع ہوا ہے۔

پس اس کی فوج کے عسکری اڈوں پر استشہادی گاڑیوں کے دھماکوں کی تند و تیز آندھی نے اس کی مدہوشی کو توڑا ڈالا اور بارودی سرنگوں کی دھماکہ دار کڑکوں نے اسے دردناک گھبراہٹ کا پتا دیا، کہ جن سے اس کی بکتر بند گاڑیوں کے قافلے پارہ پارہ ہوگئے اور وہ پگھلے ہوئے لوہے کا ڈھیر بن کر رہ گئیں، اور جو کوئی بھی ان میں تھا وہ یا تو ہلاک ہوگیایا پھر مفلوج ہوکر حقیر و ذلیل ہوکر رہ گیا، اور پھر یکے بعد دیگرے تابوتوں کی واپسی اور فوجی جنازوں کے مناظر اس کی ہر ریاست میں روز کا معمول بن گئے، اور بڑے پیمانے پر بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے امریکی معیشت تیزی سے بیٹھنے لگی، اس جنگ میں کہ جو نہ تو ختم ہونے والی تھی اور نہ ہی ان میں اس کی ہمت تھی، (یہاں تک کہ) وہاں سے جان چھڑا کر نکلنا ہی امریکا اور اس کے حکمرانوں کیلئے خواب بن کر رہ گیا، چاہے انہیں شکست خوردہ ہوکر ہی نکلنا پڑے۔

پس امریکیوں اور ان کے مرتد دم چھلوں کا امیر الاستشہادییّن ابو مصعب زرقاوی تقبلہ اللہ اور آپ کے بھائیوں سے پڑنے والا یہ پالا ان کیلئے نہایت ہی دردناک ثابت ہوا، دن بدن ان کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں اور تمام مشرکوں سے برابر قتال کی وجہ سے، یہاں تک کہ زمین میں فتنہ باقی نہ رہے اور سارے کا سارا دین اللہ ہی کیلئے ہوجائے، اور کسی ایسی جنگ و جدل کا وجود نہ رہے جو کسی زمین، قومیت، وطنیت اور اللہ کے نازل کردہ دین کے علاوہ کی حکمرانی کیلئے لڑی جارہی ہو، اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اسلام و اہلِ اسلام سے جنگ کرنے والے تمام گروہوں یعنی عیسائیوں، مشرک رافضیوں اور اہلِ سنت والجماعت سے جھوٹی نسبت رکھنے والے مرتدین سے قتال کرتے تھے، اپنے مولی کریم کے اس حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے:

وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً

ترجمہ: تم سب کے سب مشرکوں سے لڑوں جیسا کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں۔

[سورة التوبة، آیت : ۳
٦]

جبکہ اس وقت بہت سوں نے کوشش کی کہ وہ کسی بہانے قتال کو صرف صلیبیوں تک محدود کردیں، اور مرتد حکومتیں اپنی افواج و پولیس کے ساتھ زمین میں فساد پھیلاتی رہیں، اور دین بھی غیراللہ کیلئے ہوا رہے، اور لوگ اللہ کے نازل کردہ دین کے علاوہ سے حکمرانی کرتے رہیں۔

پس اللہ سبحانہ وتعالی ہی نے مجاہدین کو توفیق بخشی کہ وہ اس کے حکم کوبجا لائے اور انہوں نے بہت کم عرصے میں لوگوں کے ذہنوں میں اسے پختہ کردیا، اس لئے کہ انہوں نے اسے عملی جامہ پہنایا، نہ کہ زبانی کلامی دعوت پر اکتفاء کیے بیٹھے رہے، بلکہ انہوں نے نفاذِ شریعتِ الہیہ کی راہ میں آڑے آنے والے ہر ایک سے قتال کیا۔

پس شیخ ابو مصعب زرقاوی تقبلہ اللہ کا دور جہاد کو زندہ کرنے، سیدھے و مضبوط منہج کو بیان کرنے اور اس پر مجاہدین کی تربیت کرنے اور اللہ کے حکم سے بیت المقدس کی فتح تک پہنچنے کیلئے دولت ِاسلامیہ کو قائم کرنے کی کوششوں کا مرحلہ ثابت ہوا جیساکہ شیخ ابو مصعب زرقاوی تقبلہ اللہ نے اپنے ایک بیان میں فرمایا:

"ہم قتال تو عراق میں کررہے ہیں لیکن ہماری نظریں بیت المقدس پر ہیں"
پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے دولتِ اسلامیہ کو قائم کرنے کا پہلا سبب میسر کردیا اور وہ مجاہدین کی مجلس شوری کا قیام تھا، اور پھر ایک وقت تک صلیبیوں اور مرتدوں میںجاری خونریزی کے بعد صلیبیوں نے شیخ زرقاوی تقبلہ اللہ کی شہادت پر خوشیاں منائیں، جوکہ عراق میں مجاہدین کے امیر تھے، اور انہوں نے اس واقعے کو خوب اچھالا گویا کہ یہ جہاد کا اختتام ہے اور اس سے مجاہدین کا دور ختم ہوگیا ہے اور گویا کہ یہ اس نئے مرحلے کا آغاز ہے جس میں صلیبیوں کیلئے ہر وہ چیز ممکن ہو جائے گی جو وہ اس سے پہلے گزشتہ سالوں کے دوران حاصل کرنے سے عاجز آچکے تھے پس اللہ نے ان کی باتوں کو جھوٹا ثابت کر دیااور ان کی کوششوں کو ناکامی سے دوچار کر ڈالا ۔

اور پھر اس نے شیخ و مجاہد ابو حمزہ المہاجر تقبلہ اللہ تعالیٰ کی تقرری میں اپنے موحد بندوں کی مدد فرمائی، کہ جسے انہوں نے اپنے سلف شیخ ابو مصعب زرقاوی تقبلہ اللہ تعالیٰ کی وصیت پرعمل درآمد کرتے ہوئے، اپنے جہاد کو درجہ ِکمال تک پہنچاتے ہوئے، اپنی صفوں کو مظبوط بناتے ہوئے اور اپنے کام کو مرتدوں اور مشرکوں کے خلاف بڑھاتے ہوئے پورا کیا،چنانچہ حِلف المطیبین کا اعلان کردیا گیا۔

اور پھر مجاہدین نے دیکھا کہ ان کیلئے ایک اسلامی ریاست کے قیام کیلئے (ضروری) اسباب میسر آچکے ہیں، (ایک ایسی ریاست) جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کیطرف سے انہیں عطا کی گئی زمین پر اس کے نازل کردہ دین کے ساتھ فیصلہ کرتی ہو، اپنے بلند و برتر پروردگار کی اطاعت کرتے ہوئے، اور جہاد و اہل جہاد پر گھات لگائے بیٹھنے والوں کی راہیں مسدود کرتے ہوئے، کہ جو اپنے فیڈرالی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس پر دھڑا دھڑ مال لٹانے میں لگے ہوئے تھے، خطہ ِکردستان کی طرح، کہ جس پر مرتد سیکولر کردی جماعتیں حکومت کررہی ہیں۔

اور اسی طرح ان کے منصوبے کی وفادار ،خلیجی ممالک کی مدد یافتہ اور مرتد شیوخ کے فتووں پر قائم ہونے والی صحواتی تنظیموں کا پردہ بھی چاک ہوگیا، اور ساتھ ہی میں فسادی جمہوری مرتد اخوانی بھی آشکار ہوگئے، جس میں حزب غیر اسلامی سرِ فہرست ہے، جبکہ اسی اثناء میں امریکہ کی شکست خوردگی کے اور کسی بہانے عراق سے بھاگنے کیلئے ان کی تیاری کے آثار بھی ہر خاص و عام پر واضح ہونے لگے، پس دولت العراق الاسلامیہ کا اعلان کردیا گیا، جس کیامارت شیخ و مجاہد ابو عمر البغدادی الحسینی القرشی تقبلہ اللہ تعالیٰ کو سونپ دی گئی۔

پس صلیبی ایک بار پھر اپنے خوفناک خواب سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے، ان کی پسپائی نے ان کے خواب چکنا چور کر ڈالے، جس کے بعد انہوں نے اعلان کردیا کہ وہ عراق پر اپنے حملے میں (مطلوبہ) اہداف کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

حالانکہ اب تو دولتِ اسلامیہ وجود میں آ چکی تھی جو کہ زمین کے ایک بڑے حصے پر اپنا اثر و رسوخ رکھتی تھی، اور دیگر علاقوں میں دین کو قائم کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھی، جبکہ اس کی نگاہیں بیت المقدس پر لگی ہوئی تھیں، اور اس تک پہنچنے کیلئے وہ ہر دم کوشاں تھی۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے، اکیلےاللہ تعالیٰ کے فضل سے موحدین کی کاروائیوں نے شدت اختیار کرلی، اور غاصب صلیبیوں کی گاڑیاں گلی کوچوں میں کباڑ بن کر رہ گئیں، جبکہ ان کے سپاہیوں کے ٹکڑے پُلوں پر لٹک رہے تھے، یہاں تک کہ مولیٰ کریم نے اپنے موحد بندوں کو سرزمینِ عراق کے وسیع حصے پر قبضہ عطا فرما دیا، پس وہ اس میں سردار بن گئے جہاں وہ گھومتے پھرتے اور دھاوے بولنے لگے، اور ان کے دشمن اپنے اڈوں میں قلعہ بند ہوگئے اور ان کیلئے چلنا پھرنا بھی دشوار ہوگیا، اور وہ پناہ گاہوں کے اندر بھی خوف و دہشت سے دبکے ہوئے پڑے رہتے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے موحد بندوں کو شرکِ جمہوریت کے حکم کو پورے طور پر بیان کرنے اور انتخابی مراکز اور ان کے امیدواران کو ہدف بنانے کی توفیق سے بھی نوازا، اور اسی طرح الولاء و البراء کے مسائل بھی روز روشن کی طرح واضح و عیاں ہوگئے الحمدللہ، بالخصوص اسلام سے نسبت رکھنے والوں کا "کافر جماعتوں" کے ساتھ پینگیں بڑھانے، اور مسلمانوں کے خلاف کفار کا ساتھ دینے کے احکام، جیساکہ کفریہ جماعتیں، طواغیت اور ان کے صلیبی آقاؤں کے وفادار سیکورٹی عملے و انٹیلی جنس ادارے اور پولیس اور صحوات وغیرہ، کہ جن کے ایک ایک فرد کی مجاہدین نے تکفیر کی اور مسلمانوں پر ان کے حکم کو بیان کیا، اور ان سے قتال کیا،یہاں تک کہ وہ عظیم الشان اللہ کے ساتھ اپنے کفر سے توبہ کرلیں۔

اور موحدین کے اس عمل کی وجہ سے اہلِ باطل غصے سے کملا گئے اور مجاہدین کو بدنام کرنے کیلیے جتن کرنے لگے، اور ان پر غلو اور خارجیت کے الزام تھوپنے لگ گئے، اور انہوں نے کوشش کی کہ کسی طرح قتال صرف صلیبیوں تک محدود ہوجائے، لہذا جو بھی رافضیوں اور اہلِ سنت سے نسبت رکھنے والے مرتدین کے خلاف قتال کرنے سے رک جاتا تو وہ اس کی لڑائی کو باعثِ شرف قرار دینے لگتے، جبکہ در حقیقت اسے تو کسی شرف سے کوئی سروکار ہی نہیں۔

اس کا مقصد صرف اور صرف موحدین کو نکال باہر کرنا تھا، کیونکہ ان کا مرتدین سے قتال کرنا ان کے (خود ساختہ) شرف کے قابل نہیں تھا، بس ان پر اللہ کی مار ہو ، یہ کہاں بھٹکے جارہے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف صلیبیوں اور ان کے دم چھلے مرتدوں کے پاس کوئی چارہ ِ کار نہیں بچا تھا،تاہم وہ دولتِ اسلامیہ کے سپاہیوں سے زمین چھڑا کر اور اس کی قیادت کو شہید کرکے اس کو کسی طرح ختم کرنے کیلئے کسی فوری حل کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے، لہذا انہوں نے صحواتی منصوبے کو پیسہ لگانے کیلئے اربوں ڈالر جھونک ڈالے، اور زمین کو ہتھیانے کیلئے افغانستان سے اپنے ہزاروں سپاہیوں کو نکال لائے، اور اپنے وفادار طواغیت کی ایجنسیوں سے مدد حاصل کرنے لگے، تاکہ وہ ان تنظیموں کو استعمال کرسکیں جو مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنے کیلئے ان کے دعوت دینے پر کانوں تک خوش ہوتی ہیں۔

پس یہ صحوات مجاہدین کی کثیر تعداد کے قتل و گرفتار ہوجانے کے سبب دولت العراق الاسلامیہ اور اس کے سپاہیوں پر سخت گراں واقع ہوئیں ، اور جو ان میں سے بچ گئے وہ صحراؤں اور دیہاتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے،یہاں تک کہ ان کٹھن حالات میں دونوں بزرگ یعنی امیر المؤمنین شیخ ابو عمر البغدادی اور ان کے وزیرِ حرب شیخ ابو حمزۃ المہاجر تقبلہما اللہ تعالی بھی شہید ہوگئے، اور صلیبیوں اور مرتدوں نے یہ گمان کرکے کہ اب دولتِ اسلامیہ کا خاتمہ کردیا گیا ہے از سرِ نو خوشیاں منائیں۔

ابھی ان خوشیوں کو زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ وہ ایک بار پھر فصیلیں گرا ڈالنے والے اور پلٹ پلٹ کر دھاوے بولنے والے امیریعنی امیر المؤمنين شیخ ابو بکر الحسینی القرشی البغدادی تقبلہ کے نام کے ساتھ تڑپ کر رہ گئے، پس پھر دیکھتے ہی دیکھتے عراق میں مجاہدین کی کاروائیوں نے اپنی کمی پھر سے پوری کرڈالی، اور رافضی و صحواتی مرتدوں اور صلیبیوں کی صفوں میں خساروں کا پیمانہ بلند ہوگیا۔

یہاں تک کہ اس کے بعد صلیبیوں کو علی الاعلان کہنا پڑا کہ مجاہدین کو سرزمینِ عراق سے پسپا کرکے ان کو ختم کرڈانے کے ان کے خواب اور کارنامے سب بیکار ہوگئے، اور وہ اس خطرناک مہم جوئی میں ناکام ہونے کے بعد نامرادی و رسوائی کی ذلت کے سبب منہ دکھانے کے بھی قابل نہ رہے اور اپنے ان گہرے زخموں کو چاٹنے لگے جو ان کے ملک، اس کی فوج اور اس کی معیشت کو آئے تھے۔

پھر اللہ تعالی نے دولتِ اسلامیہ کیلئے "ہدم الاسوار" یعنی فصیلیں گرانے کے مرحلے کا اعلان کرنے کے اسباب میسر فرمادئیے، تاکہ عراق میں قیدی مسلمانوں کو چھڑایا جاسکے، اور شام میں اپنے کمزور بھائیوں کی نصرت کی جاسکے، اور جہاد کے دائرہ کار کو وہاں تک وسیع کردیا جائے، پس دولتِ اسلامیہ فی العراق والشام کا اعلان کردیا گیا،اور پھر مرتدین کے خلاف قتال کا محاذ اور بھی وسیع تر ہوگیا۔

اور پھر پیش قدمی بیت المقدس تک پہنچنے کیلئےایک دوسرا قدم تھا، اور اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر ان کے جہاد کے ایک بڑے ہدف اور ان کی ایک بڑی آرزوکو پورا کرنے کا احسان فرمادیا، جبکہ دوسری طرف صلیبی دولتِ اسلامیہ کی شان و شوکت گھٹانے کیلئے مسلسل جھوٹ بولے جارہے تھے اور اور از سرِ نو زمین پر اس کی واپسی کو ناممکن قرار دے رہے تھے، شام میں صحوات کو لا اتارنے کے بعد وہ اپنے تئیں پھولے نہیں سما رہے تھے، اور پھر انہوں نے شام کے بعض شمالی و مغربی علاقوں سے دولتِ اسلامیہ کے مجاہدین کو نکال کر اپنی وفادار صحوات کےساتھ مل کر خوشیاں منائیں، اللہ انہیں رسوا کرے۔

لیکن انہیں کیا پتا تھا کہ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے یہ تو ان پر اللہ تعالی کی چال ہے، جہاں مجاہدین مشرقی علاقے، حلب اور حمص وغیرہ کو باعثِ ننگ وعار صحوات سے پاک کرڈالنے میں کامیاب ہوگئے، اور وہاں انہوں نے تمکین حاصل کرلی تاکہ وہ وہاں اللہ کے دین کو نافذ کرسکیں اور اس پاک ذات کی شریعت کو قائم کرسکیں، جس سے دولتِ اسلامیہ زمین پر واقع ایک ناقابلِ انکار حقیقت کا روپ دھار گئی، کہ جس کا انکار ممکن نہ تھا۔

پھر کافروں پر اور بھی مصیبت ٹوٹ پڑی کہ جب اللہ تعالی نے اپنے موحد بندوں کے ہاتھوںپرعراق و شام کے کثیر علاقوں کو فتح فرمادیا اور پھر سایکس پیکو کی سرحدوں کو توڑ ڈالا گیا، اور پھر خلافتِ اسلامیہ کے اعلان کرکے مسلمانوں کے خلیفہ کا تقرر کردیا گیا، پس مختلف ممالک سے مسلمانوں نے ان کی بیعت کی اور زمین کے مشرق و مغرب سے مجاہدین اس قافلے کے ہم رکاب ہونے لگے، اور پھر مسلمانوں کی جماعت حقیقت کا روپ دھار گئی، اور دار الاسلام اہلِ اسلام کیلئے سرزمینِ ہجرت بن گیا۔

اور پھر ملتِ ابراہیم علیہ الصلاة و السلام کے پیروکاروں نے دورِ حاضر کے صنمِ اکبر یعنی فتنہِ جمہوریت اور سیکولرازم کو پاش پاش کرنے میں اپنی پوری کوشش صرف کردی، پس انہوں نے اس کے اور اس پراعتقاداً، قولاً اور عملاً ایمان رکھنے والے کے حکم کو بیان کیا، کہ بلا شبہ یہ ایک کفریہ دین ہے، اور جو کوئی بھی اس پر اعتقاداً، قولاًیا فعلاً ایمان رکھے گا وہ عظیم الشان اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہوگا، اور اس کیلئے کوئی تکریم نہیں۔

اور انہوں نے لوگوں کو اس کے انتخابات میں شامل ہوکر، امید وار بن کر یا اس کے کفریہ قانون و دستور کیلئے رائے شماری کرکے اس میں شرکت کرنے سے خبردار کیا، اور پھر انہوں نے شرکیہ انتخابی مراکز کو ہدف بناتے ہوئے اپنےقول کو اپنے عمل سے روشناس کرایا، اور یہ گزشتہ سالوں کے درمیان ایک واضح تدریج تھی جو دعوت و بیان سے شروع ہوکر تیغ و سنان تک پہنچی تھی۔

جبکہ اسلام کے دعوے دار مرتدین مسلسل جمہوریت کے شرک کو حلال قرار دینے میں لگے ہوئے تھے، جبکہ کج رو اور گمراہ لوگ ان کوششوں میں لگے ہوئے تھے کہ وہ کسی طرح اپنے طواغیت اور ان کے مشرک پیروکاروں کو اسلام کا پہناوا پہنادیں، اور کسی طرح موحدین سے جنگ لڑ کر مسلمانوں کی ریاست کو ختم کرڈالیں، لیکن ابلیس کے ان شتونگڑوں کے بس میں تھا ہی کیا؟ سوائے صلیبی اتحاد تلے اپنے لاؤ لشکر جمع کرنے کے اور چالیں چلنے کے۔

اورپھر جب ان کا دولتِ اسلامیہ کے ساتھ جنگ میں کوئی بس نہ چلا تو یہ عراق و شام کے مسلمانوں پر اپنے کینے کا لاوا برسانے لگے، پس انہوں نے ان کے شہروں کو تباہ کر ڈالا اور ان میں سے ہزارہا لوگوں کو قتل و زخمی کرڈالا، یہاں تک کہ رمادی، موصل، سرت اور باغوز کی خونریز جنگیں ہوئیں، جن کے بعد انہوں نے دولتِ اسلامیہ کو ختم کرڈالنے کا اعلان کردیا۔

لیکن(اس بار) اس پر انہوں نے لمبی چوڑی خوشیاں نہیں منائیں کیونکہ وہ اس کو ختم کرڈالنے کے گمان پر مشتمل اپنے دعووں کے جھوٹ کو اچھی طرح سے جانتے تھے، کہ کیسے اس کے سپاہی اللہ کے فضل سے زمین کے مختلف خطوں میں اور ان کے زیرِ تسلط بعض علاقوں میں مسلسل موجود ہیں، اور امیر المؤمنین و خلیفۃ المسلمین شیخ ابو بکر البغدادی تقبلہ اللہ کی شہادت کے بعد بھی کفار و مرتدین میں ان کی خونریزی ایک گھڑی کیلیے بھی تعطل کا شکار نہیں ہوئی۔

اور بہت سے کفار و مرتدین نے یہ گمان بھی کیا کہ یہ دولتِ اسلامیہ کا حتمی خاتمہ ہے، جبکہ صلیبیوں کے طواغیت نے دولتِ اسلامیہ کے ساتھ اپنے طویل تجربے سے حساب لگاتے ہوئے اعلان کیا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے، جبکہ انہیں یہ پورا یقین ہوگیا کہ "باقیۃ" کا کلمہ محض ایک نعرہ نہیں کہ جس سے موحدین اپنے کافر دشمنوں کو مشتعل کرتے ہیں، بلکہ یہ تو خلافت کے سپاہیوں کے ہاں اس پختہ منہج کی تعبیر ہے جو انہیں اپنے سبقت لے جانے والے بھائیوں کے ورثے کی حفاظت پر ابھارتا ہے، اور اس کی تکمیل پر کہ جو انہوں نے شروع کیا تھا اوراس کےدوبارہ حصول پرکہ جو کچھ ان سے چھن گیا اور ہر اس چیز کو یقینی بنانے کی کوشش پر کہ جسے وہ دین کی نصرت، مسلمانوں کے کلمۃ کییگانگت اور بد قماشوں سے ان کی ریاست کی حفاظت کیلئےیقینی بنانا چاہتے تھے۔

پس اے ملتِ کفر! مان جا کہ دولتِ اسلامیہ اللہ تعالی کے حکم سے باقی رہنے والی ہے:

یہ باقی رہنے والی ہے، تمہاری ناک خاک آلود کرکے
یہ باقی رہنے والی ہے، تمہارے چالبازیوں اور لاؤ و لشکر کے باوجود
یہ باقی رہنے والی ہے ،تمہاری آتش و آہن کے باوجود
یہ باقی رہنے والی ہے ،تمہارے سینے میں پیوست شدہ خنجر بن کر
یہ باقی رہنے والی ہے، تاکہ تمہاری دل دہشت زدہ رہیں
یہ باقی رہنے والی ہے، تمہاری گردنوں پر دو دھاری تلوار بن کر
یہ باقی رہنے والی ہے،یہ کلمہ عنقریب اللہ کے حکم سے تمہاری زبانیں بھی پکارنے لگیں گی، جیسا کہ تم سے پہلے رافضی قیدی یہ پکار چکے ہیں۔

اور آج ہم یقینا تمہارے ساتھ اپنی جنگ کا مرحلہ شروع کرچکے ہیں، اور ہر جگہ خلافت کے سپاہیوں کی آنکھیں بیت المقدس پر لگی ہیں، اور ہم آنے والے ان دنوں کی طرف گامزن ہیں جو اللہ کے حکم سے تمہارے لئے بہت برے ثابت ہونگے، اور تمہیں وہ ساری ہولناکیاں بھلا ڈالیں گے جو تم نے سابقہ اماموں یعنی شیخ ابومصعب زرقاوی، شیخ ابو عمر بغدادی اور شیخ ابو بکر بغدادی تقبلہم اللہ کے وقتوں میں دیکھی تھیں، اور اس پاک ذات کے حکم سے ہمارا جہاد پیہم جاری و ساری رہے گا۔

اور تحقیق اب تم پرآگے بڑھنے والے صاحبِ فضیلت شیخ، امیر المؤمنین اور خلیفۃ المسلمین ابو ابراہیم الہاشمی القرشی حفظہ اللہ آچکے ہیں، اللہ تعالی ان کے نشانِ منزل کو حق پر درست رکھے، اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تمہیں ان کے ہاتھوں بدترین عذاب اورسخت ترین انتقام کا مزہ چکھائے۔

پس آپ حفظہ اللہ نے اورتمام ولایات میں موجود آپ کے بھائیوں نے تمام ممالک میں موجود مسلمانوں کے ساتھ اب ایک نئے مرحلے کیلئے کمر کس لی ہے، اور وہ ہے یہودیوں سے قتال، اور ہر اس چیز کا واپسی حصول جو انہوں نے مسلمانوں سے غصب کر رکھی ہے۔

اور یہ حق واپس نہیں لیا جاسکتا سوائے ہدایت دینے والی کتاب اور نصرت کرنے والی تلوار کے ساتھ، اور اللہ کے حکم سے بیت المقدس کو فتح کرکے اور اس پرچم کو امام محمد بن عبد اللہ المہدی (رضوان اللہ علیہ) کے حوالے کرنے کے ساتھ۔

پس اے ہر جگہ موجود خلافت کے سپاہیو! بالخصوص عزیز از جان ولایت سیناء اور برکات کا مرکز ولایت شام میں موجود خلافت کے سپاہیو! یہودیوں کی رہائش گاہوں اور ان کے بازاروں پر چڑھ دوڑو، اورانہیں اپنے کیمیائی ہتھیاروں اور میزائلوں کی تجربہ گاہ بنا ڈالو۔

فلسطین اور دیگر ممالک میں موجود مسلمانوں کے نام(ہمارا یہ پیغام ہے، کہ اے مسلمانو!) یہودیوں سے قتال میں نیزوں کی اَنی بن جاؤ، اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنا ڈالو جیسا کہ ان کا ''صد سالہ سودے بازی'' نامی معاہدہ ہے، اور مرتد و دلال حماس سے اور اس کے پسِ پشت ایرانی کتوں اور ان کے غلاموں کی رسوائے زمانہ تنظیموں سے دور رہو، کہ جن کے پاس سوائے نعرے بازیوں،یقین دہانیوں، مذمتوں، ارتداد و رذالت کی دلدلوں میں غوطے لگانےاور اس مجوسی قیادت پر ترس کھانے کے کچھ بھی نہیں ہے، کہ جنہوں نے اہلِ سنت کو بدترین تعذیب کا نشانہ بنایا، جیسا کہ ہلاک ہونے والا مرتد صفوی قاسم سلیمانی، اللہ اس پر اور ہر اس شخص پر لعنت کرے جو اس کی تائید کرے یا اس سے اپنی ہمدردی جتلائے۔

اور اسی طرح ہم تمہیں خلافت کے سپاہیوں کے ہم رکاب ہوجانے کی بھی دعوت دیتے ہیں، جو ان رکاوٹوں سرحدوں کو ختم کرنے کیلئے کوشاں ہیں، جو ان کے اور یہودیوں کے درمیان معرکہ آرائی کے راستے میں حائل ہیں، اور اللہ تعالی کے حکم سے انہوں نے ان فوجوں کو پار پارہ کرڈالنے اور ان تختوں کو گرا ڈالنے کی ٹھان لی ہے کہ جنہیں صلیبیوں نے بنی اسرائیل کیلئے قلعہ و پناہ گاہ بنارکھا ہے۔

اور وہ ہر جگہ اپنے بھائیوں کو ابھار رہے ہیں کہ وہ فلسطین کے اندرون و بیرون یہودیوں کو بہر صورت نقصان پہنچائیں اور ان میں خونریزی کریں، اور انہیں جہاں پائیں قتل کرڈالیں، اور انہیں ایسی مار ماریں کہ ان کے پچھلے ان سے عبرت پکڑیں،اور ان کے دلوں میں دہشت بیٹھ جائے یہاں تک کہ وہ عظیم الشان اللہ کے ساتھ ان کے کیے جانے والے شرک سے بیت المقدس کو پاک کردیں اور اس کی دھرتی کو از سرِ نو دار الاسلام بنادیں، اور یہ اللہ کیلئے کچھ مشکل نہیں ہے۔

پس اے امریکہ کے طاغوتو! اور اے صلیب کے پجاریو! جاؤاور دولت ِاسلامیہ کو ختم کرنے کی گمان آرائیوں کے علاوہ اپنے دل کو بہلانے کا کوئی اور بہانہ ڈھونڈو، اور ہم روم کے کتے ٹرمپ سے کہتے ہیں کہ جو دو کتے تجھ سے پہلے امریکہ پر حکومت کرچکے ہیں یعنی بش اور اوباما، انہوں نے بھی اس سے پہلے کئی مرتبہ یہی گمان اور اعلان کیا تھا کہ دولتِ اسلامیہ کو ختم کردیا گیا ہے، لیکن تمہیں شرم و حیا سے کیا لینا دینا؟کہ تم تو پچھلے پندرہ سالوں سے موحدین کو ختم کرڈالنے کے گمانات و اعلانات کرتے چلے آرہے ہو۔

ایک وقت تھا کہ جب دولتِ اسلامیہ کے ساتھ تمہاری جنگ صرف عراق تک محدود تھی اور اب وہ زمین کے مشرق و مغرب یعنی عراق، شام، سیناء، لیبیا، صومالیہ، خراسان، پاکستان، ہند، قوقاز، مغربی و وسطی افریقہ، تیونس، اور جزائر تک جا پھیلی ہے، پس تم اپنی چال چل رہے ہو اور اللہ اپنی چال چل رہا ہے اور اللہ تو سب سے بہترین چال چلنے والا ہے۔

کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ کہ ہمارا جہاد اور یہ تسلسل تومحض اللہ بزرگ و برتر کی معیت کی وجہ سے ہے۔ پس اے اللہ !ہمیں پلک جھپکنے کی بقدر بھی ہمارے نفسوں کے حوالے مت کردینا، اور ہمارے لئے ہمارے معاملات کی تدبیر فرما، اور ہم پر فتح کے دروازے کھول دے، پس ہم اپنے زور و قوت سے تیرے حضور برأت کرتے ہیں اور تیرے ہی زور و قوت کے آسرے پر کھڑے ہیں یا رب العالمین۔

اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم نے یہ ایک آدھا معرکہ جیت لیا ہے اور مجاہدین اس میں پسپا ہوگئے ہیں،تو جان لو کہ معاملات سارے کے سارے اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاتھ میں ہیں، اور یہ تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ تمہیں اپنے بندوں پر غالب کردے، ہاں یہ تو صرف اس لئے ہے کہ وہ اپنے بندوں کو پرکھے اور دیکھے کہ ان میں سے کون اپنے جہاد میں سچا ہے اور کون جھوٹا، پس یہ تو اللہ سبحانہ وتعالی کی اپنی مخلوق میں (جاری و ساری) سنت ہے۔

چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ

ترجمہ:اور ہم تمہیں ضرور بالضرور کچھ خوف، بھوک اور مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان ان سے آزمائیں گے، اور صبر سے کام لینے والوں کو خوش خبری سنادو۔

[سورة البقرة، آیت : ۱۵۵]

اور اس پاک ذات کا ارشاد ہے:

أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ

ترجمہ: کیا لوگوں نے گمان کررکھا ہے کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے تو انہیںیونہی چھوڑ دیا جائے گا، اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ تو تحقیق ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا، تاکہ اللہ بہر صورت ان کو جان لے جو سچے ہیں اور ان کو بھی جان لے جو جھوٹے ہیں۔

[سورة العنكبوت، آیت : ۲-۳]

اور اس اللہ بزرگ و برتر کا فرمان ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ

ترجمہ: اور ہم تمہیں ضرور بالضرور آزمائیں گے تاکہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر سے کام لینے والوں کو جان لیں اور ان کے احوال کو جانچ لیں۔

[سورة محمد، آیت : ۳۱]

پس اے روم کے کوڑھ مغز! اے میڈیا میں اپنے کتے کے گیت گانے والے!، تونے اس (کتے) کی تو مدح سرائی کی اور اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیے جبکہ تونے اپنے فوجیوں اور ان کی (جنگوں میں) شرکت کا ذکر تک نہ کیا، جو کہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تمہارے ہاں فوجیوں کی حیثیت کسی کتے سے بھی کم تر ہے تبھی تو تمہیں ان کا کوئی حساب کتاب نہیں۔

پس تم اپنے غصے سے ہی مر جاؤ، اور دولتِ اسلامیہ کو ختم کرنے کی تمہاری آرزوئیں اور خواب ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں، اور وہ تو اللہ کے حکم سے باقی رہے گی اور اس کا پرچمِ عقاب لہلہاتا رہے گا، بے شک اچھا انجام تو پرہیز گاروں کیلئے ہی ہے جبکہ خسارہ و رسوائی کافروں کا مقدر ہے۔

اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے:


أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۖ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ

ترجمہ: کیاوہ زمین میں چلے پھرے نہیں؟ تاکہ دیکھتے کہ ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے، اللہ نے ان پر تباہی پھیر دی، اور کافروں کیلئے بھی اسی طرح کے کئی ہلاکت خیز عذاب ہیں۔ وہ اس لئے کہ ایمان والوں کا کارساز خود اللہ تعالیٰ ہے اور اس لئے کہ کافروں کا کوئی کارساز نہیں۔

[سورة محمد، آیت : ۱۰، ۱۱]

پس اے ہر جگہ موجود خلافت کے سپاہیو اور اس کے علم بردارو! ہم تمہیں امیر المؤمنین و خلیفۃ المسلمین شیخ و مجاہد ابو ابرہیم الہاشمی القرشی حفظہ اللہ سے بیعت کرنے پر مبارک باد دیتے ہیں، پس تم اپنی کوششوں کے سفر اور جنتوں کی طلب میں پوری تندہی سے کوشاں ہوجاؤ، کہ ہم تو محض دو بھلائیوں میں سے ایک کو پانے کیلئے نکلے ہیں،یا تو شہادت کہ جس سے مولیٰ کریم ہم سے راضی ہوجائے یا پھر عظیم الشان فتح کہ جومسلمانوں کو یکجا کردے اور ہر بیمار و کوتاہ کیلئے سامانِ ہدایت بن جائے۔

اور اسی طرح ہم خلافت کے مناصرین کو اور ان کے میڈیائی اداروں کو بھی ان کے بیعت کرنے اور مسلمانوں کے جماعت کے گرد جمع ہوجانے پر مبارک باد دیتے ہیں، اور اس بات پر کہ انہوں نے ایجنسیوں کے زر خرید عمامہ و جبہ پوش مجلس نگاروں کے گمراہ کن حملوں کی روک تھام کی، پس اللہ ان کو رسوائی سے دو چار کرے اور تمہیں ہماری طرف سے بہترین جزائے خیر سے نوازے، تم نے کوئی ایسا شبہ نہیں چھوڑا کہ جس کا تم نے رد نہ کیا ہو، پس تم نے ان گمراہ کرنے والے گمراہوں کے مونہوں کو لگامیں ڈال دیں جو کفار و ملحدین کے ہاتھوں ہمارے شیخین تقبلہما اللہ کی شہادت پر خوش ہورہے تھے۔

اور ہم خلافت کے سپاہیوں کو ان کے اس غزوے پر بھی مبارک باد دیتے ہیں جو انہوں نے دو جلیل القدر بزرگوں یعنی شیخ و مجاہد امیر المؤمنین ابو بکر الحسینی القرشی البغدادی اور شیخ ابو الحسن المہاجر تقبلہما اللہ کے انتقام کیلئے سر انجام دیا، اور ہم تمہیں کام کو کئی گنا بڑھانے اور پے در پے کاری واروں کی وصیت کرتے ہیں، پس اہداف کو تیار کرو اور منصوبوں کو ترتیب دو، راستوں کو بارود سے آراستہ کردو اور محکم طریقے سے بارودی سرنگیں نصب کردو، سنائپر اندازوں کو پھیلادو، اور بے آواز ہتھیاروں سے ان کی سانسیں روک ڈالو اور کافروں کی خوشی کو ماتم میں بدل دو، ان کیلئے ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھو، اور شعلوں پر شعلے بھڑکاتے چلو، اور پوری قوت سے وار کرو، اور ان کی زندگی کو اجیرن کرکے رکھ دو، اور ان کے سویروں کو اندھیروں میں بدل دو، اور ان کے اندھیروں کو تباہی کا سامان کر ڈالو اور ان پر سوتے میں اچانک حملے کرو ، پس اس زندگی میں کوئی بھلائی نہیں جس میں کمینے مرتدین حکم چلاتے ہوں ، پس ان کی ناک کو مٹی میں ملادو، اور ان پر اپنے غزووں اور کاروائیوں کے ہزار دروازے کھول دو، اور ان کے خون اور ٹکڑوں سے مولیٰ کریم کا قرب حاصل کرو، ان کے دلوں کو جلا ڈالو جیسے انہوں نے مسلمانوں کے سروں پر ان کے گھروں کوجلا ڈالا۔

اور ہم تمہیں اور بالخصوص ولایت خراسان میں موجود بھائیوں کو اس راستے میں تکالیف برداشت کرنے اور اس راہ پر صبر و ثابت قدمی کی وصیت کرتے ہیں، تم صبر سے کام لو، حوصلہ بڑھاتے رہو اور رباط کرتے رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاحیاب ہوجاؤ، اور اللہ تمہیں ثابت قدم رکھے، جان لو کہ جن حالات سے تم گزررہے ہو یہ اللہ تعالی کی اس کے مومن بندوں میں جاری سنت ہے، جیسا کہ یہ اس کی سنت نبیوں اور رسولوں میں تھی۔

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے:


أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ

ترجمہ: کیا تم حساب لگائے بیٹھے ہو کہ تم جنت میںیونہی داخل ہوجاؤ گے؟ جبکہ تم پر تو ابھی تک وہ کچھ آیا ہی نہیں جو تم سے پہلے لوگوں پر گزرا، انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ ہلا کر رکھ دئیے گئے یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے ،کہہ اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ آگاہ رہو اللہ کی نصرت قریب ہی ہے۔

[سورة البقرة، آیت : ۲۱۴]

اور بہر حال تم اے رافضیو! روئے زمین کی نجس ترین مخلوق! کیا تم عراق میں موحدین کو اپنے تئیں ختم کردینے کے بعد گمان کررہے ہو کہ ہماری تمہارے ساتھ جنگ ختم ہوگئی ہے؟ تو(سن لوکہ ) اللہ کے حکم سے تمہارے سامنے ایک لمبا پرچہ ہے جو تمہارا منتظر ہے، تحقیق تمہیں ہماری بات کی سچائی کا پورا یقین ہے، جو ہم نے کل کہی تھی کہ جنگ اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، اور اللہ کے حکم سے موحدین کے عزائمرائی بھربھی کمزور نہیں پڑے ہیں۔

بھلے کوئی ایسابھی فاتح اور معرکوں کا بازی گر ہوتا ہے جسے معرکہ جیتنے کے بعد بھی حملوں پر حملے کرنے پڑیں؟ پس تم کس کامیابی کے حصول کی بات کرتے پھرتے ہو؟ اور یقین رکھو کہ جن ہتھیاروں ، توپوں اور طیاروں سے تم نے کل معرکہ جیتا تھا تو اللہ کے حکم سے آج وہی سب کچھ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔

ہمیہ نہیں کہتے کہ ہم تمہارے شہروں کی اطراف میں آچکے ہیں، بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں ہم تمہارے گھروں کے بنیروں پر آئے بیٹھے ہیں، پس اپنی گردنوں کو تیار کرلو، اور سونے سے پہلے اپنے کفن پہن لو، پس اپنے کیے کو اچھے سے سمجھ لو اور منہ کھولنے سے پہلے اپنی وقعت کو اچھے سے جان لو۔

اور یہ رہا امریکہ کہ جس کے طیاروں تلے اور اس کی عسکری امداد کے ساتھ تم کل ہم سے لڑ رہے تھے اور آج وہ تمہیں نشانہ بنارہا ہے اور تمہاری نجس قیادت کا صفایا کررہا ہے، پس اب بولوکہ تمہیں کیا کرنا ہے؟

فرمانِ باری تعالی ہے:

لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَاءِ جُدُرٍ ۚ بَأْسُهُم بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ كَمَثَلِ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَرِيبًا ۖ ذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ: وہ سب اکٹھے ہوکر بھی تم سے نہیں لڑ سکتے، مگر قلعہ بند بستیوں اور دیواروں کی اوٹ میں، ان کے بیچ آپس کی سخت لڑائی ہے، تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو لیکن ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں،یہ اس لئے کہ وہ ایسی قوم ہیں جو عقل نہیں رکھتی، ان کا حال بھی ان لوگوں کی طرح ہے جو ان سے کچھ ہی پیشتر اپنے کاموں کی سزا کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ اور ان کے لئے بھی دردناک عذاب ہے۔

[سورة الحشر، آیت : ۱۴، ۱۵]

پس تم اس کے جواب میں بغداد میں واقع امریکی سفارت خانے کے شیشے توڑنے کے سوا کچھ بھی نہ کرسکے اور وہ بھی اپنی غلام و نیچ ذات مرتد تحریک حماس کے ذریعے سے، اور یہی حال تمہاری حزب اللاؤں کا یہودیوں کے ساتھ ہے، محض کھوکھلی باتیں اور خطابات، اور کیا تم واقعی امریکی صلیبی افواج کو عراق سے نکال باہر کرنے کی قدرت رکھتے ہو، جیسا کہ تم نے اعلان کیا تھا؟کیا تمہاری طرح کا ذلیل و حقیر غلام بھی اپنے صلیبی آقا کو نکال باہر کرسکتا ہے؟

تو (ذرا سنو کہ) یہ تمہارا کام نہیں، اور نہ ہی یہ تمہارے بس کا روگ ہے، بلکہ یہ تو جان جوکھوں میں ڈالنے والے اہلِ ہمت کا کام ہے، جن کے اعمال ان کی باتوں پر سبقت لے جاتے ہیں، اور وہ دولتِ اسلامیہ کے سپاہی ہیں، جنہوں نے اللہ کے فضل سے تقریبا ایک دہائی پہلے امریکہ کو عراق سے بھاگ نکلنے پر مجبور کردیا تھا، اور اللہ کے فضل سے انہوں نے ہی تمہاری فوج کی یہ حالت کردی کہ وہ اہلِ سنت کے علاقوں سے ننگ دھڑنگ ہی بھاگ کھڑے ہوئے اس خوف سے کہ کہیں ان کا ان (مجاہدین) سے ٹاکرا نا ہوجائے، جبکہ ابھی تو ہمارا تمہارے ساتھ بڑا لمبا حساب رہتا ہے۔

اور جو کوئی بھی موصل کے معرکے کے بعد سے کہ جس میں انہوں نےاپنے تئیں موحدین پر قابو پالیا تھا، اب تک ولایت عراق میں خلافت کے سپاہیوں کے نتائج کا ملاحظہ کررہا ہےتو وہ جان لے گا کہ استنزاف کی جنگ سے ہمارا کیا مطلب تھا؟

اور ہمارا پیغام ہے امریکی شکاری کتوں اور ان کے غلام ملحد کردوں میں سے بچے کچھے نروں کے نام، (سنو۔۔!) تم ایک بالشت بھی زمین پر آگے نہیں بڑھ سکے، سوائے اس کے کہ اسے پہلے صلیبی طیاروں نے موحدین کے سروں پر جلا کر راکھ کردیا، لیکن آج وہ طیارے ہماری تمہاری جنگ سے نکل کھڑے ہوئے ہیں، اور تم اب مجاہدین سے دوبدو پالا پڑنے کے خوف کے سبب امریکہ سے نہ نکلنے کی بھیک مانگنے لگے ہو، اور جوکچھ تم نے مسلمانوں کے درو دیار کے ساتھ کیا، اللہ کے حکم سے اب تمہیں اس کا حساب تو چکانا ہی ہوگا، اور تمہیں نہ تو مرتد نصیریوں کی جھولی میں جا بیٹھنا کوئی فائدہ دے گا اور نہ ہی مجرم روس کے ساتھ یاریاں گانٹھنا اور گٹھ جوڑ کرنا تمہارے کچھ کام آئے گا۔

اور اللہ کی قسم! ہم مسلمانوں کے انتقام کو نہ تو کبھی بھولے ہیں اور نہ ہی کبھی بھول سکتے ہیں، اور جو کچھ تم آئے روز اپنے سرغنوں اور عناصر کا صفایا کرنے کی کاروائیاں دیکھ رہے ہو، وہ تو بس ایک ہلکی سی جھلک ہے، جبکہ حساب تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا، پس تمہیں اپنے انجام کی اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ وہ تو اللہ کے حکم سے آنے والے دنوں میں ہوا ہی چاہتا ہے۔

اور ہمارا یہ پیغام ان بعض قبیلوں اور افراد کے نام ہے کہ جن کا موحدین اور ان کے اہلِ خانہ کے بارے میں حکومتی پولیس اور مرتد جماعتوں کو ان کی معلومات فراہم کرکے جنگ میں تعاون ثابت ہوچکا ہے، پس ہم ان سے کہتے ہیں: تمہارا کیا خیال ہے کہ تمہارے اس گھٹیا پن اور اس دلالی کا کوئی حساب نہیں لیا جائے گا؟ کیا تم مدہوش ہوکر اور نشے میں دھت ہوکر پکڑ سے بچ جاؤ گے؟ تمہارے سامنے تو بڑا لمبا پرچہ ہے، اور تم یہ بھی اچھے سے جانتے ہو کہ خلافت کے سپاہی اللہ کے حکم سے اندھیروں میں میٹھی نیند نہیں سوتے، چاہے وقت تھوڑا زیادہ لگے یا کم۔

اور تم تو اپنی زندگی پر دوسروں سے بھی زیادہ حرص کرتے ہو، تو پھر تم ہم سے جنگ کرنے کیلئے کیوں نکل آئے؟، اور ہمارے کارزار میں کیوں آکھڑے ہوئے؟ پس ایک پَل بھی ضائع کیے بغیر اپنے آپ کو بچاؤ، کہ خسارے میں تو وہ ہے جو آزمودہ کو آزمائے، اور کسی کی دنیا کیلئے اپنی آخرت بیچ ڈالے، اور خوش بخت وہ ہے جو اپنے سے نہیں بلکہ اپنے ماسوا سے عبرت پکڑے، پس تم طواغیت اور مرتد گروہوں و تنظیموں کی مدد کرنے سے باز آجاؤ۔

اور تم میں سے کوئی یہ گمان کرکے خود کو دھوکے میں نہ ڈالے کہ ہم اس سے بڑی دور ہیں،یایہ کہ اگر وہ ہمارے مدِ مقابل کھڑا ہوا یا ہمیں ایذاء پہنچانے پر جری ہوگیا تو اس کے کالے کرتوت کا ہمیں پتا نہیں چلے گا، جان رکھو کہ تمہارے علاقوں میں موجود اپنے دین و آخرت پر حرص کرنے والے اہلِ خیر کی طرف سے ہمیں تمہارے ناموں کی فہرستیں موصول ہوتی رہتی ہیں، پس تم نہیں جانتے کہ کس گھڑی تمہیں اچک لیا جائے گا، پس اپنے مدہوشی اور خوابوں کی دنیا سے تھوڑا باہر آؤ، اپنی اولادوں کو ارتداد کے راستوں سے دور رکھو اور اپنے رب کے حضور توبہ کرو۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

فَأَمَّا مَن طَغَىٰ وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَىٰ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ

ترجمہ: پس جس کسی نے سرکشی کی اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے ڈرا ،اور اپنے نفس کو خواہشات سے روک لیا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔

[سورة النازعات، آیت : ۳۷، ۳۸، ۳۹، ۴۰، ۴۱]

پس جو کوئی بھی اللہ سے ڈر گیا،اپنے پوشیدہ امورکی اصلاح کرلی اور اپنے خواہشات سے پلٹ آیا اور پھر ہمارے اوپر اپنی اچھی نیت اور اچھے عمل کو ظاہر کیا تو وہ ہمیں اپنے بھائیوں کی طرح پائے گا، اور وہ ہماری طرف سے بھلائی ہی دیکھے گا اور سنے گا۔

اور جو کوئی اپنی گمراہی اور مسلمانوں کی ایذاء رسانی پر ڈھٹائی کےساتھ تل گیا تو اللہ کی قسم! ہمارے پاس اس کیلئے کاٹ ڈالنے والی دو دھاری تلوار کے سوا کچھ بھی نہیں، اور ہم ( ایسوں کے) گندے خون سے نہریں بہادیں گے، پس تمہیں چاہیے کہ تم اپنے کرتوتوں کو تھوڑا پرکھو اور اپنی شرانگیزی سے باز آجاؤ۔

اور ہمارا پیغام ہے اس شخص کے نام جس نے موحدین کے ہاتھوں پر توبہ کی اور پھر جب وہ (علاقوں سے) نکل گئے تو وہ دوبارہ مرتد ہوگیا، پس ایسے لوگوں کیلئے ہمارے پاس ان کے سر اڑانے اور ان کی سانسیں روک ڈالنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، اور یہ پورا پورا بدلہ ہے، تمہارا کیا خیال ہے کہ توبہ کیلئے کوئی شرط نہیں؟ جب چاہو اس کی مخالفت کرو اور جب چاہو واپس آجاؤ؟ اللہ کی قسم! ہرگز نہیں، تحقیق تم ناکام و نامراد ہوچکے۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ

ترجمہ: بے شک وہ لوگ جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا اور پھر وہ کفرمیں اور زیادہ ہوگئے، تو ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی، اور یہی لوگ گمراہ ہیں۔

[سورة آل عمران، آیت : ۹۰]

اورمزید ارشاد ہے:


إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا

ترجمہ: بے شک جو لوگ ایمان لے کر آئے، پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لے آئے، پھر کافر ہوگئے اور پھر کفر میں اور بھی بڑھ گئے تو اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا، اور نہ ہی انہیں کسی راستے کی ہدایت دے گا، منافقوں کو خوش خبری سنادو کہ ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔

[سورة النساء، آیت : ۱۳۷، ۱۳۸]

اور بہر حال ہمارا قیدی بھائیوں اور بہنوں کے نام پیغام ہے، سو ہم ان سے کہتے ہیں: اللہ تمہیں ثابت قدم رکھے، ہم تمہیں ایک دن بھی نہیں بھولے اور نہ ہی تمہیں ہم بھلا سکتے ہیں، جان رکھو کہ جن حالات سے تم گزر رہے ہو یہ مشقت و آزمائش ہے، بے شک اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے ہلکا کردیتا ہے۔

لہذا اپنی نیتوں کی تجدید کرو اور اپنے معاملات کو درست کرو، اور اس پاک ذات کا سہارا لو، اور یہ بھی جان لو کہ تمہارے بھائی تمہیں رہا کروانے کیلئے کوشاں ہیں، اور وہ اللہ کے حکم سے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، پس تم صبر سے کام لیتے رہو اور نیکی کی امید رکھو، اور کبھی اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس مت ہوجانا، بے شک مؤمن کا معاملہ سارے کا سارا بھلائی ہی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مؤمن بندے پر تعجب ہے کہ اس کا معاملہ سارے کا سارا بھلائی ہی ہے، جبکہ مؤمن کے علاوہ کسی اور کیلئے ایسانہیں ہے، کہ اگر اسے خوشی پہنچے اور یہ اس پر شکر کرے تو یہ بھی اس کے لیے بھلائی ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے اور یہ اس پر صبر کرے تو یہ بھی اس کیلئے بھلائی ہے۔ (رواہ مسلم)

پس تم اجر کی امید رکھو اور اس آزمائش پر صبر کا دامن تھامے رکھو، (کیونکہ) ہر مشقت کے بعد صبر ہے اور پھراللہ کے حکم سے سہولت و آسانی ہے، اور تم اپنے اوقات کو مولیٰ کریم کے ذکر سے پُر رکھو، اور دن رات استغفار کی کثرت کرو۔

اور ہر جگہ موجود مسلمانوں کے نام ہمارا پیغام ہے، پس ہم ان سے کہتے ہیں: تم اپنے دین اور اپنے بھائیوں کی نصرت میں انہیں بے یار و مددگار نہ چھوڑو، دولتِ اسلامیہ کی ولایات کی طرف ہجرت کی کوشش کرو، اور اس کے معسکرات میں شامل ہوجاؤ، اور مورچوں میں (ڈٹ کر) بیٹھے والوں میں سے بنو، نہ کہ پیچھے پڑے رہنے والے بے حس لوگوں میں سے۔

اور اپنے قریب ترین ولایات کے ہم رکاب ہوجاؤ، اور یقین رکھو کہ بالآخر اچھا انجام تو پرہیز گاروں کے لیے ہی ہے، پس تم اپنے دشمن سے جہاد میں شدیدتر ہوجاؤ۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ: تم پر قتال فرض کردیا گیا ہے اگرچہ وہ تمہیں ناگوار گزرتا ہے، اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرتی ہو لیکن وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں بھاتی ہو اور وہ تہمارے حق میں بری ہو، اور اللہ تو جانتا ہے جبکہ تم لوگ نہیں جانتے۔

[سورة البقرة، آیت : ۲۱
٦]

ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ تعالی نے اس شخص کی ضمانت لی ہے جو قرآن کی اتباع کرے کہ وہ نہ تو دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ ہی آخرت میں مشقت اٹھائے گا، پھر اس کے بعد انہوں نے اللہ تعالی کا یہ قول تلاوت کیا:


فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ

ترجمہ: پس جس نے میری ہدایت کی اتباع کی تو وہ نہ تو گمراہ ہوگا اور نہ ہی مشقت اٹھائے گا۔

[سورة طه، آیت : ۱۲۳]

پس ہم اللہ بزرگ و برتر سے آپ کیلئے ہدایت اور توفیق کا سوال کرتے ہیں۔

اور آخر میں ہم اسلام کے شیروں یعنی خلافت کے سپاہیوں کو وصیت کرتے ہیں کہ وہ (اللہ کے حضور) اپنے زور وقوت سے برأت کرتے رہیں اور زیادہ سے زیادہ
لا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم کا ورد کریں، پس تم بہت بچ کر رہو کہ کہیں تم اپنے کسی بھی کئے ہوئے عمل کے بارے میں کہیں خود پسندی و غرور کا شکار ہوجاؤ، چاہے تم نے اس کیلئے کتنے ہی اسباب کیوں نہ صرف کر ڈالے ہوں، پس نصرت اور غلبہ تو اس دیالو اورزبردست پروردگار ہی کی طرف سے ہے۔

اور زیادہ سے زیادہ نوافل اور باعثِ قرب و اطاعت اعمال کی کثرت کرو، اور
استغفراللہ والحمد للہ ولا إله إلا الله و الله أکبر کے کلمات کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تلاوت، اس کی آیات اور معانی میں غور و فکر کو لازم پکڑو۔اور ہم تمہیں بحث و مباحثے اور باہمی جھگڑوں اور اختلافات کو ترک کرنے کی بھی وصیت کرتے ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ:اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو کہ تم ناکام ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر سے کام لیتے رہو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

[سورة الانفال، آیت : ۴
٦]

اور فضول چیزوں سے اجتناب کرو اور ان سے منہ موڑ لو، فرمانِ باری تعالی ہے:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ

ترجمہ: تحقیق مؤمن فلاح پاگئے، وہ لوگ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں، اور وہ جوکہ فضول چیزوں سے منہ موڑ لینے والے ہیں۔

[سورة المؤمنون، آیت : ۱، ۲، ۳]

اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول چوک ہوجائے یا ہم سے کوئی خطا سرزد ہوجائے تو ہماری پکڑ نہ فرمانا، اے ہمارے پروردگار! ہم پرایسا بوجھ مت ڈالنا جیسا کہ تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا، اے ہمارے پروردگار! ہم پر وہ بوجھ بھی نہ ڈالنا کہ جس کی ہم میں طاقت نہیں، اور ہمیں معاف کردے اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، توہی ہمارا مولیٰ ہے پس کافروں کی قوم پر ہماری نصرت فرما (آمین)، اور اللہ تو اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

والحمد للہ رب العالمین۔
 
Top