مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
اللہ واسطے اس موت سے عبرت حاصل کریں
انتساب :محمد حبیب رحمہ اللہ حیدرآباد
تحریر: مقبول احمد سلفی/جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ ، سعودی عرب
موت تو عبرت کی آخری منزل ہے، اس کی ابتداء تو آغاز حیات سے ہی ہوجاتی ہے مگر ہم نادانی میں زندگی کے کسی پہلو میں اور سفر کے کسی پڑاؤ پرعبرت نہیں لیتے آخرکارزندگانی کا سفر طے کرتے کرتے لقمہ اجل بن جاتے ہیں پھر پیچھے رہ جانے والے نہ جانے موت سے بھی عبرت لیتے ہیں یا نہیں جانے والے کو ئی خبر نہیں ہوتی۔
موت وحیات کا یہ سلسلہ ابتدائے آفرینش سے چلا آرہا ہے مگر اس میں نصیحت تلاش کرآخرت سنوارنے والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں ۔رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں قدم قدم پر عبرت و نصیحت حاصل کرنے اور آخرت کی تیاری کرتے رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین
لوگ عموما غیرمعمولی شخصیت کی موت کا ذکر توکرتےہیں مگر عام لوگوں کی موت پہ خاموشی اختیار کرتے ہیں جبکہ موت کسی کی بھی ہو اس میں سب کے لئےیکساں سامان عبرت ہے ۔ اس سے قطع نظر بعض لوگ عوام میں شمار کئے جاتے ہیں مگر وہ اپنی کوشش سے ایک خاص فرد کے مقابل ہوتے ہیں۔بات میرے عزیز محمد حبیب کی ہے جن کو اب نہ چاہتے ہوئے بھی اور رب کی تقدیر پر راضی ہوتے ہوئے رحمہ اللہ لکھ رہا ہوں ۔ آج 25/اکتوبر2022 فجر کے بعد اچانک ہم سے رخصت ہوگئے اور اپنے پیچھے کتنوں کو سوگوار کرگئے۔ کڑیل جوانی، زندگی کا آغاز اور شادی نئی نئی ، ایسے میں ایک نوخیزجوان کا دنیا سے چلا جانا کتنا بڑا غم والم ہے اس کے گھروالے ماں باپ ، بہن بھائی ، بیوی اور رفیق خاص کو معلوم ہوگا ۔ اللہ تعالی میرے اس دینی بھائی کی مغفرت فرمائے اور گھروالوں کو صبرجمیل عطا فرمائے ۔ آمین
حبیب صاحب بہت نرم اخلاق اور خوش گفتار تھے، ایک مومن کی جو نرم خو بیان کی گئی ہے ان میں جھلکتی تھی ، وہ کئی سالوں سے میرے رابطے میں تھے ، جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتافورا میسیج کرتے اور جب اہم معاملہ ہو تو بات کرنے کی اجازت طلب کرتے اور پھر سیرہوکر بات کرتے ۔ گوکہ وہ اسکول کے تعلیم یافتہ تھے مگر دین کی تڑپ اور محبت اس میں حددرجہ تھی یہی وجہ ہے کہ دعوت دین کے لئے انتھک محنت کرتے اور جس قدر ممکن ہوتا علماء سے روابط قائم کرتے بلکہ یہ سمجھیں کہ علماء کی ہی دعوت کو پھیلا نے کا نمایاں کام کرتے تھے ۔یوٹیوب اور فیس بک پر آسک اسلامک اسکالرز(Ask Islamic Scholars)کے نام سے گروپ بناکر مختلف علماء سے سوال کرکے ان کے جوابات فنی طور پرمزین کرکے نشر کرنا ان کا عظیم کارنامہ ہےبلکہ زمینی سطح پر بھی مختلف نوجوان کے ساتھ مل کر دعوتی کام میں تعاون کرتے رہتے تھے۔ دعوتی کام میں میرا بہت تعاون کیا،میرےیوٹیوب چینل پر خدمات انجام دی اور میرے کاموں کو مزید پھیلانے کے لئے میرے نام سے فیس بک پیج بنایا جو آج بھی جاری ہے مگر ان کی خدمت سے میرا پیج ہی نہیں متعدد فورمز محروم ہوگئے۔
چند مہینے پہلےہی شادی ہوئی تھی ، مجھ سے اس بارے میں کئی مشورے کئے اور شادی میں شرکت کے لئے بضد تھے مگر مجبوری کی وجہ سے شرکت نہیں کرسکا، ایک تجارت بھی شروع کئے تھے جس کے مسائل اور اسلامی اصول سے متعلق اکثر پوچھا کرتے ۔ابھی ہندوستان سے جب میری واپسی حیدرآباد ہوتے ہوئے ہورہی تھی تو زہے نصیب حیدرآباد ایرپورٹ پر چارپانچ گھنٹے انتطار کا وقفہ تھا۔ جب یہ بات حبیب صاحب کو معلوم ہوئی تو اپنے قریبی ساتھی شیخ عبدالعزیز حفظہ اللہ کے ساتھ گاڑی لے کر مجھے ایرپورٹ ملنے آگئے بلکہ حیدرآباد گھمانے کا منصوبہ بھی بنالیا ۔ الحمد للہ انتظار کا وقفہ میرے لئے حیدرآباد شہر دیکھنے کا موقع فراہم کیا جس کےاصل سبب میرے عزیز بھائی حبیب صاحب اور ان کے رفیق شیخ عبدالعزیزصاحب تھے بلکہ ایک مسجد میں مغرب کے بعد چند ناصحانہ کلمات بھی کہنے کا موقع ملا۔ جزاھمااللہ خیرالجزاء
حبیب صاحب عصری ادارہ سے تعلیم حاصل کئے تھے مگر دین کی ایسی محبت تھی کہ دین سیکھنے کے لئے بےچین رہا کرتے تھے ، ان کو تجارت بھی راس نہیں آئی ، وہ کہتے ہیں کہ کاروبار میں لگنے کے بعد پھر دین کا کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔میرے پاس وہ آواز محفوظ ہے جس میں کہتے ہیں کہ لوگ پیسے کے پیچھے بھاگتے ہیں جبکہ آج نہ کل تو مرنا ہے ۔ چند پیسوں پر بھی گزاراہوسکتا ہے ۔
پہلے انہوں نے قرآنک اکیڈمی سے قرآن سیکھنے اور سکھانے کا ابتدائی کورس کیا پھر وہ ایک کالج سے جڑ کر بچوں کو قرآن سکھاتے ۔ کالج سے آکر پھر مغرب بعدبچوں کو پڑھاتے اور عشاء کے بعد بھی چند بچے قرآن سیکھتے ۔ نبی ﷺ کی حدیث "خیرکم من تعلم القرآن و علمہ "(تم میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے) کی فضیلت بیان کرکے وہ فضیلت پانے کی کوشش کرتے ۔اللہ نیت کو دیکھتا ہے جو قرآن کی تعلیم کا ادنی سبب بھی بنتا ہے تو اللہ اس کو نیت کے مطابق اجر دیتا ہے۔
صرف اسی پر بس نہیں تھا بلکہ شیخ ابویحی نورپوری حفظہ اللہ کے ورچول اسلامک یونیورسٹی بھی جوائن کرکے چار سالہ عالم کورس کررہے تھے ، جب ان کا پہلا سمسٹر شروع ہواتھا اسی وقت مجھے اس بارے میں اطلاع دئے تھے ، مجھے کہتے آپ میرے لئے دعا کریں مجھے بھی اللہ کے دین کا علم ہوجائے تاکہ میں بھی دین کا کام کرسکوں ۔ اس کورس کے ساتھ اب ان کا اگلا قدم جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں داخلہ لینا تھا ۔ الحمدللہ جامعہ نے آن لائن تعلیمی کورس کا آغاز کیا ہے، اب کوئی بھی دنیا کے کسی کونے سے جامعہ اسلامیہ سے جڑکر اور فیس ادا کرکے تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ داخلہ کے لئے تو دوتزکیہ کی ضرورت ہوتی ہےاس کے لئے کافی پریشان تھے ،اس بارے میں رہنمائی کردی تھی مگرمصروفیت کی وجہ سےاس معاملے کی خبر نہ لے سکا یہاں تک کہ دنیا سے ہی چلے گئے ۔
موت تو اٹل اور فطری امرہے اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے لیکن کبھی کبھی بعض خارجی اسباب کسی کی موت کا سبب بن سکتے ہیں ۔زندگی کے آخری لمحات میں حبیب صاحب نے جن مسائل پہ مجھ سے بے چینی جتائی ان کو سامنے رکھتا ہوں تو دل میں یہ بات کھٹکتی ہے کہ ایک جوان کی موت کے پیچھےکہیں وہی مسائل تو نہیں جن سے وہ بیحد پریشان رہا کرتے تھے ۔ وہ مسائل کیا تھے ،ذرا سنیں اور اپنی اصلاح کریں۔
آج کل ہم دیکھتے ہیں اپنی ہی جماعت کے افراد کو غیرمنہجی اورخارجی کہہ کر طعنہ دیا جاتا اوران کا مذاق اڑایا جاتاہےبلکہ باقاعدہ ویڈیو زکی شکل میں بیان بازی ہوتی ہے کہ فلاں خارجی ہے ، فلاں غیرمنہجی ہے اور فلاں عالم نہیں ہے، اس کی بات نہ سنو۔ بھلے کسی کے اندر کچھ خطا ہو اور خطا سے بری بیان بازی کرنے والا بھی نہیں ہے لیکن اصلاح کا طریقہ درست نہیں ہے۔ ہمارے اس عمل سے عوام میں بطور خاص نوجوانوں میں کافی بے چینی پیدا ہورہی ہےاور جماعت میں انتشار پھیل رہا ہے ۔
یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، اس وقت کہنے سننے کا وسیلہ ہرکسی کے پاس ہے ، آپ اس آدمی کو جو کسی بھی ذریعہ سے علم حاصل کیا ہو، اگر وہ تقریر کرلیتا ہے تو اسےآپ روکنے کی جتنی کوشش کرلیں روک نہیں سکتے بلکہ اس کی مخالفت کرکے اس کا حلقہ مزید وسیع کرسکتے ہیں۔علماء کی توجہ کا اصل مرکز یہ ہو کہ ہم کیسے زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچ سکیں اور ان سے مربوط ہوسکیں تاکہ وسیع پیمانے پر دین کی بات پھیلے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت جو بڑے علم والے ہیں وہ زعم میں مبتلا زیادہ اور عوام سے رابطہ میں کم ہیں اور جو عوام سے رابطہ میں ہیں ان کا حلقہ وسیع ہے مگر وہ عالم کا درجہ نہیں رکھتے۔
ادنی سے ادنی اہل حدیث اگر بیان کرے گا تو اس کا ماخذ قرآن اور حدیث ہی ہوگااور حقیقت بھی یہی ہے۔ اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ جو باضابطہ اساتذہ سے شرعی علوم نہیں سیکھے ہیں بلکہ ان کا علم کتابی ہے اور ایسے افراد تبلیغ کا کام کررہے ہیں تو ان سے عوام کو دور کرنے کی بجائے ان سے ان کے حصے کا کام لیا اور جو کام کبار علماء کا ہے جیسے لوگوں کے سوالات کا جواب دینا اور شرعی مسائل حل کرنا تو اس کام سےغیرعالم کو روکا جائے ۔
بہرکیف! ایک زمانہ سے یہ مسئلہ عوام کی بے چینی کا سبب بناہواہے ، اس بے چینی کو علماء ہی ختم کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے ہی بیان سے اشتعال انگیزی اور بے چینی پھیل رہی ہے ۔ آپ کو یقین نہیں ہوگا ، حبیب صاحب کو مقلد اور حنفی کا طعنہ دیا گیا، میرے پاس اس بات کا ثبوت ہے بلکہ یہاں تک کہاگیا کہ آپ کے خلاف بھی ویڈیوجاری کروادوں گا پھر لوگ آپ کا مذاق اڑاتے رہیں گے مگر حبیب نے جواب دیا کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ۔ موت سے پہلے زندگی کی آخری فیس بک پوسٹ بھی اسی مسئلے پر تھی۔ انہیں وجوہات کی بنیاد پر میں نے آخری سطور لکھا ، شاید جماعت کے لوگوں کو ہوش آجائے ۔
اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ میرے بھائی حبیب صاحب کی بشری لغزشوں کو معاف فرمائے اور دینی کاششوں کو قبول فرماکر آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے۔ آمین